اردو
Thursday 18th of April 2024
0
نفر 0

شہادتِ حسينيٴ کا عالمگير اثر

 

واقعہ کربلا دنيا کے وقائع عظيمہ ميں ايک سربرآوردہ سانحہ ہے۔ لہٰذا اس کا مقناطيسي اثر جس قدر زيادہ ہو تھوڑ ا ہے۔ يہي وجہ ہے کہ خود قافلہ سالارِ کربلا کا نام ہي اپني حالت اور حيثيت ميں ايک خاص اثر اور حيرت انگيز کشش رکھتا ہے، اور يہ اثر و کشش اس لئے کہ حسينٴ کا واقعہ جو روحاني اور ربّي امور سے تعلق رکھتا تھا ايسا وسيع اور غير محدود ہے کہ اس کي تاثيريں اقصائے عالم اور ہر ايک نسلِ انساني تک پہنچ گئي ہيں۔ مجال نہيں کہ جس سے يہ واقعہ بيان کيا جائے اور جس کو يہ پردرد کہاني سنائي جائے اس کے قلب پر چوٹ نہ پڑے اور اس کي آنکھيں پر نم نہ ہوں اور دل و دماغ ميں ہمدردي کا ہيجان و رجحان پيدا نہ ہو۔

انسان جن چيزوں يا جن محسوسا ت کو ديکھتا يا سنتا ہے وہ يا توخود اثر قبول کرنے والي ہيں يا دوسروں پر اثر ڈالتي ہيں۔ دنيا ميں کوئي ايسي طاقت يا آواز نہيں جو ان دو صورتوں ميں سے کسي ايک صورت ميں نہ ہو، يا موثر ہوگي يا متاثر۔ البتہ اس قدر فرق و امتياز ضرورہے کہ بعض اشيائ يا بعض طاقتيں محدود الاثر و التاثير ہيں اور بعض غير محدود۔ محدود يا غير محدود ہونا واقعہ کي اصليت يا عظمت کے لحاظ اور اعتبار سے ہوتا ہے۔ بعض واقعات اور بعض اسمائ بھي ايسے ہوتے ہيں جن ميں بہ نسبت دوسرے واقعات اور اسمائ کے کشش و جذب کي قوت زيادہ ہوتي ہے ۔ کشش و جذب اور اس کي تاثير عموماً واقعات و حادثات کي حالت ميں اور حيثيت سے متعلق ہوتي ہيں اگر وہ واقعات جسماني امور سے تعلق رکھتے ہيں تو ان کي تاثيريں بھي جسماني ہوتي ہيں اور اگر روحاني امور سے لگاو رکھتے ہيں تو عموماً ان کا اثر روحوں پر پڑتا ہے اور وہ اثر ايسا قوي اور زبردست ہوتا ہے کہ ہر قسم کي مزاحمتوں اور رکاوٹوں کو توڑ کر بھي موثر ہو جاتا ہے۔ طبيعتيں خودبخود اس کے قبول کرنے کو مائل ہوتي ہيں اور اس سے ايسي مانوس ہوتي ہيں کہ آنکھ، کان، دل اور دماغ سب کے سب اسي طرف متوجہ ہوجاتے ہيں اوراسي توجہ کا کرشمہ ہے کہ قلوب پرايک خاص وجداني کيفيت طاري ہوجاتي ہے۔

واقعہ کربلا دنيا کے وقائع عظيمہ ميں ايک سربرآوردہ سانحہ ہے۔ لہٰذا اس کا مقناطيسي اثر جس قدر زيادہ ہو تھوڑ ا ہے۔ يہي وجہ ہے کہ خود قافلہ سالارِ کربلا کا نام ہي اپني حالت اور حيثيت ميں ايک خاص اثر اور حيرت انگيز کشش رکھتا ہے، اور يہ اثر و کشش اس لئے کہ حسينٴ کا واقعہ جو روحاني اور ربّي امور سے تعلق رکھتا تھا ايسا وسيع اور غير محدود ہے کہ اس کي تاثيريں اقصائے عالم اور ہر ايک نسلِ انساني تک پہنچ گئي ہيں۔ مجال نہيں کہ جس سے ي ہ واقعہ بيان کيا جائے اور جس کو يہ پردرد کہاني سنائي جائے اس کے قلب پر چوٹ نہ پڑے اور اس کي آنکھيں پر نم نہ ہوں اور دل و دماغ ميں ہمدردي کا ہيجان و رجحان پيدا نہ ہو۔

يوں تو لاکھوں انسانوں پر دنيا ميں مصيبت آئي اور بے شمار بندگانِ خدا مظلوميت کي حالت ميں مارے گئے ليکن مظلومينِ کربلا کي حالت و کيفيت ہي جداہے۔ تمام دنيا کے پردرد واقعات اور پرسوز حالات کو اکٹھا کر کے سانحہ کربلا سے مقابلہ کرو اور پھر ديکھو کہ روح اور قلب پر کس واقعہ اور حادثہ کا بجلي کي طرح اثر ہوتا ہے۔ حسين کا نام آتے ہي آنکھيں رونے کي طرف اور دل پيچ و تاب کي جانب خودبخود مائل ہوجاتا ہے۔ سوال يہ ہے کہ:

٭ چودہ سوسال گزرنے کے بعد بھي آج تک يہ نام دلوں اور آنکھوں کو کيوں اپني طرف متوجہ کرليتا ہے۔

٭ کيوں ان واقعات کو سنتے ہي ايسا لگتا ہے کہ آج کي ہي بات ہو اور انسان کے رگ و ريشہ ميں اضطراب کي بجلي گھر کرليتي ہے؟

٭ انسان کيوں سب مخالفتوں اور مغائرتوں کے خيالات کو خير آباد کہہ کر ہمدردي کا دم بھرنے لگتا ہے؟

٭ کيوں آج تک باطل قوتيں اس نام کو، اس واقعہ کو مٹانے ميں کامياب نہ ہوسکيں؟

٭ کيوں اتني رکاوٹوں کے باوجود يہ نام اور و اقعہ روزِ اول کي طرح روشن و تابندہ ہے؟

٭ کيوں ا س نام کو زندہ رکھنے اور اس واقعہ کربلا کو ہر سال منانے والوں کے جذبے ، ہزاروں قربانيوں کے باوجود آج بھي پرعزم ہيں اور قيامت تک رہيں گے؟

اس کي وجہ يہ ہے کہ حسين کے واقعات ميں خدا پرستي، صداقت، استقامت، رحم و کرم، بے مثل بہادري اور بے نظير مظلوميت و بے کسي شامل ہے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ ’’آفتاب آمد دليل آفتاب‘‘ اسي طرح حسين کا نام بھي اپني ازلي صداقت کي پرزور کشش سے قلوب کو اپني طرف متوجہ کرليتا ہے اور اس ميں ايک خاص کشش و جذبہ ہے جس کے سامنے دنيا کے بڑے بڑے بہادر، بے رحم اور سنگدل موم ہوجاتے ہيں اور ادب سے سر جھکا ليتے ہيں۔ بے شک حسين کا يہ معجزہ ہے کہ تمام دنيا کے منصف مزاج آپ کے ساتھ ہمدردي اور آپٴ کے بے مثل استقلال اور بے نظير بہادري کي داد ديتے ہيں۔ کون ايسا مصيبتوں پر ثابت قدم رہنے والا ہے جس کے ذکر سے تمام دنيا نے اپني تاريخوں، صفحوں کو زيب و زينت دي ہو؟ دنيا کي تمام تاريخوں کو ديکھو تو سوائے ’’حسينٴ‘‘ کے اور کوئي ’’حسين‘‘ جيسا نظر نہ آئے گا ۔ يورپي مورخ جيمس کار کرن کا يہ کہنا ہرگز مبالغہ آرائي نہيںکہ۔

’’دنيا کي رزم گاہ ميں اول درجہ کا بہادر صرف ايک حسينٴ ہے۔‘‘

جس طرح زندہ انسانوں ميں آپٴ کي مصيبتوں پر آنسو بہائے جاتے ہيں اسي طرح روحي جماعتوں ميں بھي اس جگر سوزِ واقعہ کا الم ناک اثر ہے۔ امام الصوفيہ اہلسنت امام غزالي ۲ فرماتے ہيں کہ:’’ اس واقعہ جانکاہ کے بعد ايک صحابي نے حضور ۰ کو خواب ميں ديکھا کہ آپ۰ کے سرِ مبارک کے بال پراگندہ اور گرد آلود ہيں اور آپ۰ کے ہاتھ ميں شيشي ہے جس ميں خون بھرا ہوا ہے۔ صحابي نے عرض کيا: يا رسول اللہ ۰ ميرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ کي يہ حالت کيوں ہے اور يہ شيشي کيسي ہے؟ حضرت۰ نے فرمايا کہ اس شيشي ميں حسينٴ اور اس کے عزيزوں اور مددگاروں کا خون ہے جو حسينٴ کے ساتھ شہيد ہوئے ہيں۔ ميں۰ اس وقت مقتل ميں موجود تھا اس لئے ميں نے اس شيشي ميں وہ خون بھر ليا ہے۔‘‘

وہ لوگ جن کے دل کمزور اور دماغ بودے ہيں اور جو محض نام کے مسلمان ہيں ايسي باتوں پر يقين نہ کريں گے ليکن اگر روح کوئي طاقت رکھتي ہے اور اس کو اس قالب خاک کے چھوڑنے کے بعد بھي بقا ہے۔ فنا نہيں، تو ضرور اس بات کو ماننا پڑے گا کہ روحيں صاحبِ درک ہيں۔ لہذا ضرور ان کو بھي اس جانکاہ حادثہ کا ادراک ہوا ہوگا، لہٰذا جو لوگ اپني کم علمي کے باعث روحاني تصرفات سے انکار کرتے ہيں ان کو ہم قواعد اسپريچولزم (روحانيت) کي طرف جو زمانہ حال ميں علمائے يورپ نے روحوں کي تحقيقات کرکے وضع کئے ہيں توجہ دلاتے ہيں کہ انکو ديکھيں ، غور کريں اور سمجھنے کي کوشش کريں۔ ہم نے اسلامي مسلمات کا حوالہ اس لئے نہيں ديا کہ نئي روشني والوں کے ذہن ميں وہ پرانے اور بوسيدہ خيالات ہيں۔ ان کو چاہيے کہ جديد خيالات سے اپني تسلي کرليں اور استفادہ کريں۔

بہرحال اس ميں شک و شبہ نہيں کہ جيسا دردناک اثر اس شہادت کا عموماً تمام دنيا اور خصوصاً اسلامي دنيا پر پڑا اور کسي غم انگيز سے غم انگيز واقعہ سے نہيں ہوا۔ باوجود يکہ اس سانحہ کو چودہ سو سال ہوچکے مگر آج تک ويسا ہي تازہ اثر چلا آرہا ہے۔ تمام دنيا کي قوموں ميں صرف مسلمانوں ہي ميں شہادت امام حسينٴ پر صديوں سے ماتم ہو رہا ہے اور مسلمانوں کا ہر گروہ (جو عقل و شعور رکھتا ہے اور محبِ اہلبيت ہے) اس مظلومانہ شہادت پر ہر سال ماتم کرتا ہے۔ ہر قوم ميں نہ صرف معمولي مشاہير بلکہ پيغمبر، رہنما، مجددين ور مصلحين نے ان پرپتھر برسائے، قيد کي تکليفيں ديں، تمام ممکن الوقوع مصائب توڑے گئے مگر ان ميں سے آج تک کسي کا ماتم کسي نے نہيں کيا۔ تمام قوموں کي مستند تاريخيں ان درد انگيز حالات سے بھري ہوئي ہيں مگر وہ اثر اور خوني اثر جو حضرت امام حسينٴ سيد الشہدائ کي دردناک شہادت کا اسلامي دنيا پر پڑا آج تک کسي قوم پر اس کے رہنما کا نہيں ہوا، کيونکہ!

٭ يہ ايک ايسا راز ہے جس کي تہہ تک پہنچنا محال ہے۔

٭ يہ ايک ايسا بھيدہے جو اب تک نہيں کھلا۔

اس واقعہ کے متعلق بے شمار کتابيں لکھي جاچکي ہيں اور شايد ہمارا يہ کہنا مبالغہ نہ ہو کہ دنيا کي بے شمار تاليفات ميں جس قدر اس واقعہ نے جگہ لي ہے وہ اور کسي واقعہ نے نہيں لي۔ ہزار ہا کتابيں اس شہادت کے بيان پر ہيں، شيعہ اور سني متفق طور پر اس مظلومانہ شہادت پر آنسو بہاتے ہيں۔ علمائے فريقين کي بے شمار تصانيف اس واقعہ کے خوني بيانوں سے بھري ہوئي ہيں۔ مختصر يہ کہ دنيا ميں آج تک اسلام کا کوئي ايسا فرقہ نہيں جس نے اس شہادت پر ماتم نہ کيا ہو اور يقين ہے کہ يہ ماتم يوں ہي قيامت تک يا کم از کم ايک نامعلوم زمانہ تک جاري رہے گا کيونکہ!

٭ يہ حق کے بقا کي آواز ہے۔

٭ يہ ظلم کے خلاف صدائے احتجاج ہے۔

٭ يہ اسلام کا علمبردار ہے۔

٭ يہ دشمن اسلام ، دشمن خدا ، دشمن اہلبيت کے خلاف جہدِ مسلسل ہے۔

٭ يہ باطل کي حسرتوں و آرزوں اور تمناوں ، منصوبوں کا خون ہے۔

جس کا ہر ذکر خواہ فضائل پر مبني ہو يا مصائب پر، گريہ پر ہو يا ماتم پر ، يہ پيغام صدائے غور و فکر ديتا ہے کہ!

قتلِ حسينٴ اصل ميں مرگِ يزيد ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

 

 


source : http://shiastudies.net/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں
انبیاءکرام اور غم حسین علیہ السلام
حضرت فاطمہ زہراء
فدک حضرت زہرا کی ملکیت
حضرت زھرا علمائے اھل سنت کی نطر میں

 
user comment