اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

انسانی امتیازات

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ انسان بعض میلانات کے لحاظ سے غیر انسان سے امتیاز رکھتا ہے۔ ان میلانات کو ایک لحاظ سے ”مقدس میلانات“کہا جاسکتا ہے۔ دوسرے لحاظ سے یہ ایسے میلانات ہیں کہ ”خود محوری“ کے مفہوم سے خارج ہیں۔ یہ ”خود محوری“ پر مبنی نہیں ہیں۔ یعنی انسان ایسے میلانات رکھتا ہے کہ جو”خود محوری“ کے مفہوم سے خارج ہیں۔ یہ ”خود محوری“ کیا ہے؟ یعنی ایسے میلانات کہ جو انجامِ کار صرف انفرادی ہوں۔ ایسے میلانات حیوان میں بھی ہیں اور انسان میں بھی ہوتے ہیں، حیوان بھی غذا کی خواہش رکھتا ہے لیکن غذا کی اس خواہش کا رجحان اور تعلق خود اسی سے ہوتا ہے یعنی اس کا میلان خود اپنے لئے حصول غذا کی خاطر ہے۔ انسان میں بھی خود محوری پرمبنی بعض میلانات ہیں چونکہ انسان انسان ہونے کے ساتھ ساتھ حیوان بھی ہے بلکہ پہلے حیوان ہے بعد میں انسان ہے لہٰذا ایسے میلانات انسان میں بھی ہیں۔

بہر حال اب مسئلہ یہ ہے کہ انسان میں کچھ میلانات ایسے ہیں جو اولاً توخود محوری کی اساس پر نہیں ہیں اور ثانیاً اپنے وجدان میں ان میلانات کے لئے انسان ایک طرح کی قدامت اور احترام کا قائل ہے یعنی ان کے لئے ایک طرح کے بلند مرتبے اور برتری کا قائل ہے، اس طرح سے کہ جو انسان جس قدر بھی ان میلانات کا حامل ہو اس انسان کو عالی تر سمجھتا ہے۔

حیوان کے میلانات یا تو محض ” خود محوری“ پر مبنی ہیں مثلاً نیند اور غذا وغیرہ کی طرف میلان وغیرہ یا اگر کچھ خود محوری پر مبنی نہ ہو تو بھی اس کی حدود بقاءنوع تک ہی ہوتی ہے یعنی توالد وتناسل اور تولید و افزائش نسل کی حد تک اور وہ بھی جبلت اور تحریک حیوانی کے دائرے میں۔ پھر ہم جبلت کی تعریف تک آپہنچے ہیں۔ یعنی حدود کے اندر یہ ایک آگاہانہ آزادانہ اور انتخاب شدہ عمل ہے اور یہ بہت محسوس اور مشہور ہے۔ مثلاً ہم گھوڑی کو دیکھیں جب اس کا بچہ پیدا ہونے والا ہوتا ہے اور جوں جوں بچے کی پیدائش کا مرحلہ قریب آتا ہے توں توں بچے کے لئے اس کی خواہش شدید ہوتی جاتی ہے کہ خدا جانتا ہے۔ جب یہ بچہ پیدا ہوجاتا ہے اور آپ اس گھوڑی پر سوار ہوتے ہیں تو وہ حرکت نہیں کرنا چاہتی ہے اسے اپنے بچے کی فکر ہوتی ہے ہمیشہ اپنا رخ موڑ موڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور اگر آپ اسے دو قدم دور کریں تو پھراس کی طرف بھاگتی ہے ۔ جوں جوں یہ بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے اس کی طرف ماں کا میلان کم ہوتا چلاجاتا ہے یہاں تک کہ وہ جوان ہوجاتا ہے تو پھر اس کی طرف اس کا کوئی رجحان نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر کوئی گھوڑی سات سال کی ہو اور اس کا بچہ دو سال کا ہو تو بچے کے جوان ہونے کی وجہ سے جب ماں اسے دیکھے تو اسے ایک طرح کی لذت محسوس کرنی چاہیے جبکہ وہ اس کی طرف کوئی میلان نہیں رکھتی اور اگر وہ اس کے قریب آئے تو وہ اسی دولتی مارتی ہے اور اسے ٹھکرا دیتی ہے ایسا کیوں ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جبلت صرف اس بچے کی حفاظت کے لئے تھی۔ صرف اس لئے تھی کہ یہ نسل جاری رہے اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہ تھی۔ اب جبکہ وہ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہوگیا ہے اور اپنی ماں کی طرح کا ہوگیا ہے تو اب ماں کی نظر میں اس میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں رہا۔

حیوانات کی بھی اجتماعی زندگی ہوتی ہے لیکن ان کا عمل آزادی انتخاب کے ذریعے نہیں ہے بلکہ انتسابی ہے یعنی طبیعت کی طرف سے وہ اس کام کے لئے منتخب ہوئے ہیں اور وہ اپنا کام جبری طور پر انجام دیتے ہیں اس طرح سے اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ مثلاً شہید کی مکھیاں یا بعض چیونٹیاں اجتماعی زندگی رکھنے والے جانوروں میں شمار ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہرن بھی کسی حد تک اجتماعی زندگی (SOCIAL LIFE) بسر کرتا ہے ۔ البتہ ان کا عمل بھی جبلی ہوتاہے یعنی خود بخود اور نیم آگاہی کے ساتھ ہو رہا ہوتا ہے نہ کہ ان کے اپنے انتخاب کے ذریعے ۔ شروع ہی سے ان کی طبیعت میں یہ سب کچھ موجود ہے اور یہ اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ حیوانات کے میلانات کی یہ کیفیت ہے۔

لیکن -  انسان جو میلانات رکھتا ہے اولاً تو وہ ”خود محوری“ کے ساتھ ہی ہم آہنگ نہیں ہیں اور اگر اس حوالے سے ان کی توجیہ کی بھی جائے تو یہ تمام ترجیحات محل بحث اور قابلِ اشکال ہوں گی۔ثانیاً یہ ایک انتخابی شکل اور آگاہانہ صورت ہوگی۔ بہرحال یہ ایسے امور ہیں کہ جو انسانیت (HUMANNESS) کے معیار اور امتیاز کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اگر دنیا کے تمام مکاتبِ فکر انسانیت کا دم بھرتے ہیں تو اس انسانیت سے کیا مراد ہے؟ یہی میلانات اور یہی امور (INCLINATIONS & TENDENCIES) ان کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ آج بھی دنیا کے تمام مکاتب فکر چاہے وہ الٰہی ہوں، مادی ہوں یا شکاک(SCEPTIC) یا کوئی اور،سب انسان کے بارے میں ایسے امور کا ذکر کرتے ہیں کہ جو مافوقِ حیوانی متصور ہوتے ہیں۔ پہلے ہم ان امور کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ اس کے بعد اس امر کا جائزہ لیں گے کہ کیا یہ امور انسان کے فطری ہیں یا نہیں؟ نیز یہ بھی دیکھیں گے کہ اگر یہ فطری نہ ہوں تو نتیجہ کیا ہوگا اور فطری ہوں تو پھر کیا نتیجہ ہوگا۔ بعدازاں ان کے فطری ہونے یا نہ ہونے کے دلائل کے بارے میں گفتگو کریں گے۔


source : http://www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلام سے قبل جزیرہ نما عرب کی تعلیمی و تمدنی حالت
عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم

 
user comment