اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

واقعہ کربلاکے سلسلہ میں امام زین العابدین کاشاندارکردار

۸/ رجب ۶۰ ھ کوآپ حضرت امام حسین کے ہمراہ مدینہ سے روانہ ہوکرمکہ معظمہ پہنچے چارماہ قیام کے بعدوہاں سے روانہ ہوکر ۲/ محرم الحرام کوواردکربلاہوئے، وہاں پہنچتے ہی یاپہنچنے سے پہلے آپ علیل ہوگئے اورآپ کی علالت نے اتنی شدت اختیارکی کہ آپ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت تک اس قابل نہ ہوسکے کہ میدان میں جاکردرجہ شہادت حاصل کرتے، تاہم فراہم موقع پرآپ نے جذبات نصرت کوبروئے کارلانے کی سعی کی جب کوئی آوازاستغاثہ کان کان میں آئی آپ اٹھ بیٹھے اورمیدان کارزارمیں شدت مرض کے باوجودجاپہنچنے کی سعی بلیغ کی، امام کے استغاثہ پرتوآپ خیمہ سے بھی نکل آئے اورایک چوب خیمہ لے کر میدان کاعزم کردیا،ناگاہ امام حسین کی نظرآپ پرپڑگئی اورانہوں نے جنگاہ سے بقولے حضرت زینب کوآوازدی ”بہن سیدسجادکوروکو ورنہ نسل رسول کاخاتمہ ہوجائے گا“ حکم امام سے زینب نے سیدسجادکومیدان میں جانے سے روک لیایہی وجہ ہے کہ سیدوں کاوجودنظر آرہاہے اگرامام زین العابدین علیل ہوکر شہیدہونے سے نہ بچ جاتے تونسل رسول صرف امام محمدباقرمیں محدودرہ جاتی ،امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ مرض اورعلالت کی وجہ سے آب درجہ شہادت پرفائزنہ ہوسکے (نورالابصار ص ۱۲۶) ۔شہادت امام حسین کے بعدجب خیموں میں آگ لگائی گئی توآپ انہیں خیموں میں سے ایک خیمہ میںبدستورپڑے ہوئے تھے ،ہماری ہزارجانیں قربان ہوجائیں،حضرت زینب پرکہ انہوں نے اہم فرائض کی ادائیگی کے سلسلہ میں سب سے پہلافریضہ امام زین العابدین علیہ السلام کے تحفظ کاادافرمایا اورامام کوبچالیاالغرض رات گزاری اورصبح نمودارہوئی، دشمنوں نے امام زین العابدین کواس طرح جھنجوڑا کہ آپ اپنی بیماری بھول گیے آپ سے کہاگیاکہ ناقوں پرسب کوسوارکرواورابن زیادکے دربارمیں چلو،سب کوسوارکرنے کے بعدآل محمد کاساربان پھوپھیوں ،بہنوں اورتمام مخدرات کولئے ہوئے داخل دربار ہوا حالت یہ تھی کہ عورتیں اوربچے رسیوں میں بندھے ہوئے اورامام لوہے میں جکڑے ہوئے دربارمیں پہنچ گئے آپ چونکہ ناقہ کی برہنہ پشت پرسنبھل نہ سکتے تھے اس لیے آپ کے پیروں کوناقہ کی پشت سے باندھ دیاگیاتھا دربارکوفہ میں داخل ہونے کے بعدآپ اورمخدرات عصمت قیدخانہ میں بندکردئیے گئے ،سات روزکے بعدآپ سب کولیے ہوئے شام کی طرف روانہ ہوئے اور ۱۹ منزلیں طے کرکے تقریبا ۳۶/ یوم میں وہاں پہنچے کامل بھائی میں ہے کہ ۱۶/ ربیع الاول ۶۱ ھء کوبدھ کے دن آپ دمشق پہنچے ہیں اللہ رے صبرامام زین العابدین بہنوں اورپھوپھیوں کاساتھ اورلب شکوہ پرسکوت کی مہر ۔

حدودشام کاایک واقعہ یہ ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں ہتھکڑی، پیروں میں بیڑی اورگلے میں خاردارطوق آہنی پڑاہواتھا اس پرمستزادیہ کولوگ آپ برسارہے تھے اسی لیے آپ نے بعدواقعہ کربلاایک سوال کے جواب میں ”الشام الشام الشام“ فرمایاتھا(تحفہ حسینہ علامہ بسطامی)۔

شام پہنچنے کے کئی گھنٹوں یادنوں کے بعدآپ آل محمدکولیے ہئوے سرہائے شہدا سمیت داخل دربارہوئے پھرقیدخانہ میں بندکردئیے گئے تقریباایک سال قید کی مشقتیں جھیلیں۔

قیدخانہ بھی ایساتھاکہ جس میں تمازت آفتابی کی وجہ سے ان لوگوں کے چہروں کی کھالیں متغیرہوگئی تھیں (لہوف) مدت قیدکے بعدآپ سب کولیے ہوئے ۲۰/ صفر ۶۲ ھء کوواردہوئے آپ کے ہمراہ سرحسین بھی کردیاگیاتھا ،آپ نے اسے اپنے پدربزرگوارکے جسم مبارک سے ملحق کیا(ناسخ تواریخ)۔

اس عظیم واقعہ کااثریہ ہواکہ زینب کے بال اس طرح سفیدہوگئے تھے کہ جاننے والے انہیں پہچان نہ سکے (احسن القصص ص ۱۸۲ طبع نجف) رباب نے سایہ میں بیٹھناچھوڑدیا امام زین العابدین تاحیات گریہ فرماتے رہے (جلاء العیون ص ۲۵۶) اہل مدینہ یزیدکی بیعت سے علیحدہ ہوکرباغی ہوگئے بالآخرواقعہ حرہ کی نوبت آگئی۔

۸/ ربیع الاول ۶۲ ھ کوآپ امام حسین کالٹاہواقافلہ ہوئے مدینہ منورہ پہنچے ،وہاں کے لوگوں نے آہ وزاری اورکمال رنج وغم سے آپ کااستقبال کیا۔ ۱۵ شبانہ وروز نوحہ وماتم ہوتارہا (تفصیلی واقعات کے لیے کتب مقاتل وسیرملاحظہ کی جائیں۔ 

واقعہ کربلااورحضرت امام زین العابدین کے خطبات

معرکہ کربلاکی غم آگیں داستاں تاریخ اسلام ہی نہیں تاریخ عالم کاافسوسناک سانحہ ہے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اول سے اخرتک اس ہوش ربا اورروح فرساواقعہ میں اپنے باپ کے ساتھ رہے اورباپ کی شہادت کے بعدخوداس المیہ کے ہیروبنے اورپھرجب تک زندہ رہے اس سانحہ کاماتم کرتے رہے ۔

۱۰/ محرم ۶۱ ھء کاواقعہ یہ اندوہناک حادثہ جس میں ۱۸/ بنی ہاشم اوربہتراصحاب وانصارکام آئے حضرت امام زین العابدین کی مدت العمرگھلاتارہا اورمرتے دم تک اس کی یادفراموش نہ ہوئی اوراس کاصدمہ جانکاہ دورنہ ہوا، آپ یوں تواس واقعہ کے بعدتقریبا چالیس سال زندہ رہے مگر لطف زندگی سے محروم ہرے اورکسی نے آپ کوبشاش اورفرحناک نہ دیکھا،اس جانکاہ واقعہ کربلاکے سلسلہ میں آپ نے جوجابجاخطبات ارشادفرمائے ہیں ان کاترجمہ درج ذیل ہے۔ 

کوفہ میں آپ کاخطبہ

کتاب لہوف ص ۶۸ میں ہے کہ کوفہ پہنچنے کے بعدامام زین العابدین نے لوگوں کوخاموش رہنے کااشارہ کیا،سب خاموش ہوگئے، آپ کھڑے ہوئے خداکی حمدوثناء کی ،حضرت نبی کاذکرکیا، ان پرصلوات بھیجی پھرارشادفرمایاائے لوگو! جومجھے جانتاہے وہ توپہچانتاہی ہے جونہیں جانتا اسے میں بتاتاہوں میں علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہوں ،میں اس کافرزندہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کاسامان لوٹاگیاجس کے اہل وعیال قیدکردئیے گئے میں اس کافرزندہوں جوساحل فرات پرذبح کردیاگیا،اوربغیرکفن ودفن چھوڑدیاگیااور(شہادت حسین)ہمارے فخرکے لیے کافی ہے اے لوگو! تمہارابراہوکہ تم نے اپنے لیے ہلاکت کاسامان مہیاکرلیا، تمہاری رائیں کس قدربری ہیں تم کن آنکھوں سے رسول صلعم کودیکھوگے جب رسول صلعم تم سے بازپرس کریں گے کہ تم لوگوں نے میری عترت کوقتل کیااورمیرے اہل حرم کوذلیل کیا ”اس لیے تم میری امت میں نہیں“۔

مسجددمشق (شام) میں آپ کاخطبہ

مقتل ابی مخنف ص ۱۳۵ ،بحارالانوارجلد ۱۰ ص ۲۳۳ ،ریاض القدس جلد ۲ ص ۳۲۸ ، اورروضة الاحباب وغیرہ میں ہے کہ جب حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اہل حرم سمیت درباریزیدمیں داخل کئے گئے اور ان کومنبرپرجانے کاموقع ملاتوآپ منبرپرتشریف لے گئے اورانبیاء کی طرح شیریں زبان میں نہایت فصاحت وبلاغت کے ساتھ خطبہ ارشادفرمایا :

ائے لوگو! تم سے جومجھے پہچانتاہے وہ توپہچانتاہی ہے، اورجونہیں پہچانتامیں اسے بتاتاہوں کہ میں کون ہوں؟ سنو، میں علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہوں، میں اس کافرزندہوں جس نے حج کئے ہیں اس کافر زندہوں جس نے طواف کعبہ کیاہے اورسعی کی ہے ، میں پسرزمزم وصفاہوں، میں فرزندفاطمہ زہراہوں، میں اسکافرزند جس پس گردن سے ذبح کیاگیا،میں اس پیاسے کافرزند ہوں جوپیاساہی دنیاسے اٹھا،میں اس کافرزندہوں جس پرلوگوں نے پانی بندکردیا، حالانکہ تمام مخلوقات پرپانی کوجائزقراردیا،میں محمدمصطفی صلعم کافرزندہوں، میں اس کافرزندہوں جوکربلامیںشہیدکیاگیا،میں اس کافرزندہوں جس کے انصارزمین میں آرام کی نیندسوگئے میں اسکا پسرہوں جس کے اہل حرم قیدکردئے گئے میں اس کافرزندہوں جس کے بچے بغیرجرم وخطاذبح کرڈالے گئے ، میں اس کابیٹاہوں جس کے خیموں میں آگ لگادی گئی، میں اس کافرزندہوں جس کاسرنوک نیزہ پربلندکیاگیا، میں اس کافرزندہوں جس کے اہل حرم کی کربلامیںبے حرمتی کی گئی، میں اس کافرزندہوں جس کاجسم کربلاکی زمین پرچھوڑدیاگیااورسردوسرے مقامات پرنوک نیزہ پربلندکرکے پھرایاگیا میں اس کافرزندہوں جس کے اردگردسوائے دشمن کے کوئی اورنہ تھا،میں اس کافرزندہوں جس کے اہل حرم کوقیدکرکے شام تک پھرایاگیا، میں اس کافرزندہوں جوبے یارومددگارتھا۔

پھرامام علیہ السلام نے فرمایا لوگو! خدانے ہم کوپانچ فضیلت بخشی ہیں :

جب لوگوں نے امام زین العابدین کاکلام سناتوچینخ مارکررونے اورپیٹنے لگے اوران کی آوازیں بے ساختہ بلندہونے لگیں یہ حال دیکھ کر یزیدگھبرااٹھاکہ کہیں کوئی فتنہ نہ کھڑاہوجائے اس نے اس کے ردعمل میں فورا موذن کوحکم دیا(کہ اذان شروع کرکے) امام کے خطبہ کومنقطع کردے، موذن (گلدستہ اذان پرگیا) _

اورکہا”اللہ اکبر“ (خداکی ذات سب سے بزرگ وبرترہے) امام نے فرمایاتونے ایک بڑی ذات کی بڑائی بیان کی اورایک عظیم الشان ذات کی عظمت کااظہارکیااورجوکچھ کہا”حق“ ہے ۔پھرموذن نے کہا”اشہد ان لاالہ الااللہ (میں گواہی دیتاہوں کہ خداکے سوا کوئی معبودنہیں) امام نے فرمایامیں بھی اس مقصدکی ہرگواہ کے ساتھ گواہی دیتاہوں اورہرانکارکرنے والے کے خلاف اقرارکرتاہوں۔

پھرموذن نے کہ” اشہدان محمدارسول اللہ“ (میں گواہی دیتاہوں کہ محمدمصطفی اللہ کے رسول ہیں) فبکی علی، یہ سن کرحضرت علی ابن الحسین روپڑے اورفرمایاائے یزیدمیںتجھ سے خداکاواسطہ دے کرپوچھتاہوں بتا حضرت محمدمصطفی میرے ناناتھے یاتیرے ، یزیدنے کہاآپ کے، آپ نے فرمایا،پھرکیوں تونے ان کے اہلبیت کوشہیدکیا، یزیدنے کوئی جواب نہ دیااوراپنے محل میں یہ کہتاہواچلاگیا۔”لاحاجة لی بالصلواة“ مجھے نمازسے کوئی واسطہ نہیں،اس کے بعد منہال بن عمرکھڑے ہوگئے اورکہافرزندرسول آپ کاکیاحال ہے، فرمایااے منہال ایسے شخص کاکیاحال پوچھتے ہوجس کاباپ(نہایت بے دردی سے) شہیدکردیاگیاہو، جس کے مددگارختم کردئیے گئے ہوں جواپنے چاروں طرف اپنے اہل حرم کوقیدی دیکھ رہاہو،جن کانہ پردہ رہ گیانہ چادریں رہ گئیں، جن کانہ کوئی مددگارہے نہ حامی، تم تودیکھ رہے ہوکہ میں مقیدہوں، ذلیل ورسواکیاگیاہوں، نہ کوئی میراناصرہے،نہ مددگار، میں اورمیرے اہل بیت لباس کہنہ مین ملبوس ہیں ہم پرنئے لباس حرام کردئیے گئے ہیں اب جوتم میراحال پوچھتے ہوتومیںتمہارے سامنے موجودہوں تم دیکھ ہی رہے ہو،ہمارے دشمن ہمیں برابھلاکہتے ہیں اورہم صبح وشام موت کاانتظارکرتے ہیں۔

پھرفرمایاعرب وعجم اس پرفخرکرتے ہیں کہ حضرت محمدمصطفی ان میں سے تھے، اورقریش عرب پراس لیے فخرکرتے ہیں کہ آنحضرت صلعم قریش میں سے تھے اورہم ان کے اہلبیت ہیں لیکن ہم کوقتل کیاگیا، ہم پرظلم کیاگیا،ہم پرمصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے اورہم کوقیدکرکے دربدرپھرایاگیا،گویاہماراحسب بہت گراہواہے اورہمارانسب بہت ذلیل ہے، گویاہم عزت کی بلندیوں پرنہیں چڑھے اوربزرگوں کے فرش پرجلوہ افروزنہیں ہوئے آج گویا تمام ملک یزیداوراس کے لشکرکاہوگیااورآل مصطفی صلعم یزید کی ادنی غلام ہوگئی ہے، یہ سنناتھا کہ ہرطرف سے رونے پیٹنے کی صدائیں بلندہوئیں_

یزیدبہت خائف ہوا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑاہوجائے اس نے اس شخص سے کہاجس نے امام کومنبرپرتشریف لے جانے کے لیے کہاتھا ”ویحک اردت بصعودہ زوال ملکی“ تیرابراہوتوان کومنبربربٹھاکرمیری سلطنت ختم کرناچاہتاہے اس نے جواب دیا، بخدا میں یہ نہ جانتاتھا کہ یہ لڑکا اتنی بلندگفتگوکرے گا یزیدنے کہاکیاتونہیں جانتاکہ یہ اہلبیت نبوت اورمعدن رسالت کی ایک فردہے، یہ سن کرموذن سے نہ رہاگیا اوراس نے کہاایے یزید”اذاکان کذالک فلماقتلت اباہ“ جب تویہ جانتاتھا توتونے ان کے پدربزرگوارکوکیوں شہیدکیا،موذن کی گفتگوسن کریزیدبرہم ہوگیا،”فامربضرب عنقہ“ اورموذن کی گردن ماردینے کاحکم دیدیا۔

 


source : http://hafezy12.mihanblog.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت علی المرتضیٰ۔۔۔۔ شمعِ رسالت کا بے مثل پروانہ
پیغمبر كی شرافت و بلند ھمتی اور اخلاق حسنہ
یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ ...
فاطمہ (س) اور شفاعت
نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام

 
user comment