اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

امام حسين(ع) کا ہدف اور اُس کي راہ ميں حائل رکاوٹيں

کربلا کا خورشيد ِلازوال اگرچہ محرم اور کربلا اور اُس کے عظيم نتائج کے بارے ميں بہت زيادہ قيمتي گفتگو کي گئي ہے ليکن زمانہ جتنا جتنا آگے بڑھتا رہتا ہے کربلا کا خورشيدِ منور کہ جسے خورشيد شہادت اور غريبانہ و مظلومانہ جہاد کے خورشيد سے تعبيرکيا جاسکتا ہے اور جسے حسين ابن علي اور اُن کے اصحاب باوفا نے روشني بخشي ہے ، پہلے سے زيادہ آشکار ہوتا جاتا ہے اور کربلا کي برکتيں اور فوائد پہلے سے زيادہ جلوہ افروز ہوتے رہتے ہيں۔ جس دن يہ واقعہ رونما ہوا اُس دن سے لے کر آج تک اِس واقعہ کے بنيادي اثرات بتدريج آشکار ہوتے جارہے ہيں۔ اُسي زمانے ميں کچھ لوگوں نے اِس بات کو محسوس کيا کہ اُن کے ذمے کچھ وظائف عائد ہوتے ہيں؛ قيام توّابين اور بني ہاشم و بني الحسن کے طولاني مقابلے کے واقعات سامنے آئے، يہاں تک کہ بنو اميہ کے خلاف چلائي جانے والي بنو عباس کي تحريک دوسري صدي ہجري کے وسط ميں چلائي گئي اور اِس تحريک نے عالم اسلام ميں خصوصاً مشرقي ايران و خراسان وغيرہ کي طرف اپنے مبلّغين بھيجے اور يوں اُنہوں نے بنو اميہ کي نسل پرست اور ظالم و مستکبر حکومت کے قلع قمع کيلئے زمين ہموار کي، بالآخر بنو عباس کي تحريک کاميابي سے ہمکنار ہوئي۔ بنو اميہ کے خلاف بنو عباس کي تحريک امام حسين کے نام اور اُن کي مظلوميت کے نام سے شروع کي گئي، آپ تاريخ کا مطالعہ کريں تو مشاہدہ کريں گے کہ جب بنو اميہ کے مبلغين عالم اسلام کے گوشہ و کنار ميں گئے تو اُنہوں نے حسين ابن علي کے خون ، اُن کي مظلوميت و شہادت، فرزند پيغمبر (ص) کے خون کے انتقام اور جگر گوشہ فاطمہ زہرا٭ کے سفاکانہ قتل کو بطور حربہ استعمال کيا تاکہ عوام ميں اپني تبليغ و پيغام کو موثر بناسکيں۔ يہي وجہ ہے کہ لوگوں نے اُن کي بات قبول کي۔ اِس کام کيلئے بنو عباس نے (نفسياتي جنگ لڑي اور) پانچ سو سال تک اپنے رسمي لباس اور پرچم کا رنگ سياہ قرار ديا، اُنہوں کالے رنگ کے لباس کو امام حسين کي عزاداري کا رسمي لباس قرار ديا؛ بنو عباس اُس وقت يہ نعرہ لگاتے تھے کہ ’’ھَذَا حِدَادُ آلِ مُحَمَّدٍ ‘‘ ،يہ آل محمد (ص)کي عزاداري کا لباس ہے،بنو عباس نے اپني تحريک اِس طرح شروع کي اور ايک بڑي تبديلي کا باعث بنے۔ البتہ يہ لوگ خود منحرف ہوگئے اور بعد ميں خود ہي بنو اميہ کے کاموں کو آگے بڑھانے لگے ،يہ سب کربلا کے اثرات اور نتائج ہيںاور پوري تاريخ ميں ايسا ہي ہوتا رہا ہے۔ جو کچھ ہمارے زمانے ميں وقوع پذير ہوا وہ اِن سب سے زيادہ تھا، ہمارے زمانے ميں ظلم و کفر پورے عالم پر مسلّط ہے اور قانون کي خلاف ورزي، عدل و انصاف کي پائمالي اور ظلم و ستم ايک قانون کي شکل ميں بين الاقوامي سطح پر رائج ہے۔

معرفت کربلا، تعليمات اسلامي کي اوج و بلندي اسلامي تعليمات اور اقدار کا بہترين خزانہ يہاں ہے اور اِن اقدار و تعليمات کي اُوج و بلندي ، معرفت کربلا ہے لہٰذا اِس کي قدر کرني چاہيے اور ہماري خواہش ہے کہ ہم اِن تعليمات کو دنيا کے سامنے پيش کريں۔ ميرے دوستو! اور اے حسين ابن علي پر ايمان رکھنے والو! يہ امام حسين ہي ہيں جو دنيا کو نجات دے سکتے ہيں، صرف شرط يہ ہے کہ ہم کربلا کے چہرے اور اُس کي تعليمات کو تحريف سے مسخ نہ کريں۔ آپ اِس بات کي ہرگز اجازت نہ ديں کہ تحريفي مفاہيم، خرافات اور بے منطق کام، لوگوں کے چشم و قلب کو سيد الشہدا کے چہرہ پُرنور سے دور کردیں؛ ہميں اِن تحريفات اور خرافات کا مقابلہ کرنا چا ہيے۔

ميري مراد صرف دو جملے ہيں؛ ايک يہ کہ خود واقعہ کربلا اور سيد الشہدا کي تحريک؛ منبر پر فضائل و مصائب بيان ہونے کي شکل ميں اُسي قديم وروايتي طور پر باقي رہے يعني شب عاشورااور صبح و روز عاشورا کے واقعات کو بيان کيا جائے۔ عام نوعيت کے حادثات و واقعات حتيٰ بڑے بڑے واقعات، زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ اپني تاثير کھو بيٹھے ہيں ليکن واقعہ کربلا اپني تمام تر جزئيات کے ساتھ اِسي منبر کي برکت سے آج تک باقي ہے، البتہ کربلا کے واقعات کو مستند طور پر بيان کرنا چاہيے۔ جيسا کہ مقاتل کي کتابوں مثلاً ابن طاوس کے مقتل ’’لہوف‘‘ اور شيخ مفيد کي کتاب’’ ارشاد‘‘ ميں بيان کيا گيا ہے، نہ کہ اپني طرف سے جعلي، من گھڑت اور عقل و منطق سے دور (اور اہل بيت کي شان و منزلت کو کم کرنے والي) باتوں کے ذريعہ سے۔ مجلس اور حديث و خطابت کو حقيقي معنيٰ ميں حديث ١ و خطابت ہونا چاہيے۔ خطابت، نوحہ خواني، سلام و مرثيہ خواني، ذکر مصائب اور ماتم زني کے وقت کربلا کے واقعات اور سيد الشہدا کے ہدف کو بيان کرنا چاہيے۔

امام حسين کے اہداف کا بيان وہ مطالب جو خود امام حسين کے کلمات ميں موجود ہيں کہ ’’ما خَرَجتُ اَشِرًا وَلَا بَطَراً وَلَا ظَالِماً وَلَا مُفسِدًا بَل اِنَّمَا خَرَجتُ لِطَلَبِ الاِصلَاحِ فِي اُمَّۃِ جَدِّي ‘‘، يا يہ جو آپ ٴنے فرمايا کہ ’’اَيُّھا النَّاسُ اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ (صَلَّي اللّٰہ عَلَيہ وآلِہ) قَالَ: مَن رَآَيٰ سُلطَاناً جَآئِرًا مُستَحِلًّا لِحَرامِ اللّٰہِ نَاکِثًا لِعَھدِ اللّٰہِ ، مُخَالِفًا لِسُنَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ يَعمَلُ فِي عِبَادِ اللّٰہِ بِالاِثمَ وَالعُدوَانِ ثُمَّ لَم يُغيِّر بِقَولٍ وَلَافِعلٍ کَانَ حَقًّا عَلٰے اللّٰہِ اَن يَدخُلَہُ مَدخَلَہُ‘‘۔ آپ کا يہ حديث نقل فرمانا خود ايک درس ہے يا يہ کہ آپٴنے يہ فر ما يا کہ ’’فمن کان با ذلاً فينا مھجتہ و موطناًعليٰ لقا ئِ اللہ نفسہ فلير حل معنا‘‘،يہاں امام ٴ ملاقات خدا سے ملاقات کي گفتگو کررہے ہيں اور آپ کا ہدف،وہي خلقت ِ بشر کا ہدف ہے يعني ملاقات ِ

١حديث سے مراد نئي با ت؛يعني مراد يہ ہے کہ حديث اور خطابت ميں تعليمات وقرآن واہل بيت کے نئے علمي مطالب، گوشوں ،زاويوں اور نئے پہلووں کو سامعين کے سامنے بيان کرنا چاہيے،جو اُن کي ديني معلومات ميں اضا فے کے ساتھ ساتھ اُ ن کے ايمان ويقين کي پختگي کا سبب بنے۔(مترجم)

خدا۔’’ يٰاَيُّھَا الاِنسَانُ اِنَّکَ کَادِح? اِلٰي رَبِّکَ کَدحًا فَمُلَا قِيہِ‘‘،’’اے انسان!تجھے اپنے پرودگار کي

طرف سختيوں کے ساتھ سفر کرنا ہے اُس کے بعد تو اُس سے ملاقات کرے گا‘‘، اِن تمام زحمتوں اور سختيوں کا ہدف خدا سے ملاقات (فَمُلَاقِيہِ)ہے۔ جو بھي ملاقات خدا کيلئے تيار ہے اور اُس نے لقائ اللہ کيلئے اپنے نفس کو آمادہ کرليا ہے،’’فَليَرحَل مَعَنَا ‘‘ ، ’’تو اُسے چاہيے کہ وہ ہمارے ساتھ چلے ‘‘؛اُسے حسين ابن علي کے ساتھ قدم بقدم ہوناچاہيے اور ايسا شخص گھر ميں نہيں بيٹھ سکتا۔ اِن حالات ميں دنيا اور اُس کي لذتوں سے لطف اندوز نہيں ہوا جاسکتا اور نہ ہي راہ حسين ابن علي سے غافل ہوا جاسکتا ہے لہٰذاہميں ہر صورت ميںامام حسين کے ساتھ ہمراہ ہونا پڑے گا۔ امام عالي مقام ٴ کے ساتھ ساتھ يہ قدم اٹھانااور اُن کے ہمراہ ہونا دراصل ہمارے اپنے اندرکي دنيايعني نفس اور تہذيب نفس سے شروع ہوتا ہے اور اِس کا دائرہ معاشرے اور دنيا تک پھيل جاتا ہے لہٰذا اِن تمام باتوں کو بيان کرنا چاہيے۔ يہ سب سيد الشہدا کے اہداف اور حسيني تحريک کا خلاصہ ہے۔

فداکاري اور بصيرت ، دفاع دين کے لازمي اصول

کربلا اپنے دامن ميں بہت سے پيغاموں اور درسوں کو سميٹے ہوئے ہے۔ کربلا کا درس يہ ہے کہ دين کي حفاظت کيلئے فداکاري سے کام لينا چاہيے اور راہ قرآن ميں کسي چيز کي قرباني سے دريغ نہيں کرنا چاہيے۔ کربلا ہميں درس ديتي ہے کہ حق و باطل کے ميدانِ نبرد ميں سب کے سب، چھوٹے بڑے ، مردو زن، پير وجوان، باشرف و حقير، امام اور رعايا سب ايک ہي صف ميں ميں کھڑے ہوجائيں اور يہ جان ليں کہ دشمن اپني تمام ترظاہري طاقت و اسلحے کے باوجود اندر سے بہت کمزور ہے۔ جيسا کہ بنو اميہ کے محاذ نے اسيرانِ کربلا کے قافلے کے ہاتھوں کوفہ، شام اور مدينے ميں نقصان اٹھايا اور سفياني محاذ کي مانند شکست و نابودي اُس کا مقدر بني۔

کربلا ہميں درس ديتي ہے کہ دفاعِ دين کے ميدان ميں انسان کيلئے سب سے زيادہ اہم اور ضروري چيز ’’لازمي بصيرت‘‘ ہے۔ بے بصيرت افراد دھوکہ و فريب کا شکار ہوکرباطل طاقتوں کا حصہ بن جاتے ہيں اور اُنہيں خودبھي اِس بات کا شعور نہيں ہوتا؛ جيسا کہ ابن زياد کے ساتھ بہت سے ايسے افراد تھے کہ جو فاسق و فاجر نہيں تھے ليکن وہ بصيرت سے خالي تھے۔يہ سب کربلا کے درس ہيں؛ البتہ يہي تمام درس کافي ہيں کہ ايک قوم کو ذلت کي پستيوں سے نکال کر عزت کي بلنديوںتک پہنچاديں۔ اِن درسوں ميں اتني قدرت ہے کہ يہ کفر و استکبار کو شکست سے دوچار کرسکتے ہيںکيونکہ يہ سب تعمير زندگي کے درس ہيں ۔

حسيني ثبات قدم ا ور استقامت

سيد الشہدا کے ثبات قدم اور اُن کي استقامت کے بارے ميں يہ کہا جاسکتا ہے کہ اُنہوں نے اِس بات کا قطعي فيصلہ کرليا تھا کہ وہ يزيد اور اُس کي ظالم و جابر حکومت کے سامنے ہرگز تسليم نہيں ہوں گے۔ امام حسين کا مقابلہ يہيںسے شروع ہوتا ہے کہ ايک فاسق و فاجر نظام حکومت کے مقابل اپنے سر کو ہرگز خم نہ کيا جائے کہ

جس نے دين کو بالکل تبديل کرديا تھا۔ امام ٴنے مدينے سے اِسي نيت و قصد کے ساتھ حرکت کي تھي؛ مکہ پہنچنے کے بعد جب آپ نے اِس بات کا احساس کيا کہ کچھ يار و مددگار آپ کے ساتھ شامل ہوگئے ہيں تو آپ ٴنے اپنے اِس قصد و نيت کے ساتھ ساتھ قيام کو بھي ہمراہ کرليا۔ اگر آپ ٴ کويہ يارو اصحاب نہ بھي ملتے تب بھي آپ ٴکي تحريک کا اصل مقصد ايک ايسي حکومت کے خلاف اعتراض کرنا اور اُس سے مقابلہ تھا کہ جو امام ٴکے نزديک

اسلامي اصولوں کے مطابق ناقابل تحمل اور ناقابل قبول تھي۔ سيد الشہدا کا سب سے پہلا اقدام يہ تھا کہ آپ اِس حکومت کے سامنے کھڑے ہوگئے؛ اِس قيام کے بعد امام حسين ايک کے بعد دوسري مشکلات کا سامنا

کرنے لگے،چناچہ آپ ٴ کو ناگزير طور پر مکہ سے نکلنا پڑا اور اِس کے بعد کربلا ميں آپ کا محاصرہ کرليا گيا۔ اِس کے بعد کربلا کا وہ دلخراش واقعہ پيس آيا کہ جس ميں امام حسين کو مصائب نے سب سے زيادہ نشانہ بنايا۔

شرعي عذر، انسان کي راہ کي رکاوٹ

اُن من جملہ چيزوں ميں سے جو انسان کو عظيم اہداف تک رسائي سے روک ديتے ہيں، ايک شرعي عذر ہے۔ انسان کو چاہيے کہ شرعي واجبات اور ذمہ داريوں کو انجام دے، ليکن جب ايک کام ميں ايک بہت بڑا احتمال يا اعتراض واردہوجائے مثلاً اِس کام کي انجام دہي ميں بہت سے افراد قتل کرديئے جائيں گے تو اِن حالات ميں انسان يہ سوچتا ہے کہ اُس پر کوئي چيز واجب نہيں ہے اِس ليے کہ درميان ميں سينکڑوں بے گناہ افراد کي جانوں کا معاملہ ہے۔ آپ ملاحظہ کيجئے کہ سيد الشہدا کے سامنے بھي ايسے بہت سے شرعي عُذر ايک ايک کرکے ظاہر ہوتے رہے کہ جو ايک سطحي نگاہ رکھنے والے انسان کو اُس کے راستے سے ہٹانے کيلئے کافي تھے۔

سب سے پہلا شرعي عذر ، کوفہ کے لوگوں کا پلٹ جانا اور حضرت مسلم کا قتل تھا۔ يہاں امام حسين کو يہ کہنا چاہيے تھا کہ اب شرعي عذر آگيا ہے اور جن لوگوں نے خود دعوت دي تھي اُنہوں نے خود ہي اپنا رُخ موڑ ليا لہٰذا اب کوئي کام واجب نہيں اور ذمہ داري ساقط ہو گئي ہے۔ ہم يہ چاہتے تھے کہ يزيدکي بيعت نہ کريں ليکن اب حالات کا رُخ کچھ اور ہے اور اِن اوضاع و احوال ميں يہ کام انجام نہيں ديا جاسکتا اور لوگ بھي اِ س چيز کو برداشت نہيں کرسکتے، چنانچہ اب ہماري ذمہ داري ساقط ہے اور ہمارے پاس اب يزيد کي بيعت کرنے کے علاوہ کوئي اور چارہ کار نہيں۔

دوسرا سامنے آنے والا شرعي عذرخود واقعہ کربلا ہے؛ اِس مقام پر بھي سيد الشہدا ايک مسئلے کے روبرو ہونے کي بنا پر جذباتي انداز سے اس مسئلے کو حل کرسکتے تھے اور يہ کہتے کہ اِن خواتين اور بچوں ميں اِس تپتے ہوئے صحرا کي گرمي اور سورج کي تمازت برداشت کرنے کي ہمت نہيں ہے ، لہٰذا اب اِن حالات ميں ہم پرکوئي ذمہ داري عائد نہيں ہوتي ہے اور اُنہوں نے جس چيز کو ابھي تک قبول نہيں کيا تھا اِن حالات اور عذر شرعي کي بنا پر قبول کرليتے۔

تيسر عذرشرعي اُس وقت سامنے آيا کہ جب خود واقعہ کربلا ميں روز عاشورا کا سورج طلوع ہوا اور دشمن نے حملہ کرنا شروع کيا تو اِس جنگ ميں امام حسين کے بہت سے اصحاب شہيد ہوگئے۔ اِس مقام پر بھي بہت سي مشکلات نے امام حسين کو آگھيرا تو آپ يہ بھي کہہ سکتے تھے کہ اب حالات نے رُخ موڑ ليا ہے اور اب اِس مقابلے کو جاري نہيں رکھا جاسکتا لہٰذا اب عقب نشيني کرني چاہيے۔

چوتھا عذرشرعي اُس وقت پيش آيا کہ اُس وقت کہ جب آپ کو يقين ہوگيا کہ آپ ٴشہيد کر ديئے جائيں گے اورآپٴ کي شہادت کے بعد آل رسول (ص)اور آل علي کو نامحرموں کے درميان قيدي بناکر صحرائے کربلا ميں تنہا رہنا پڑے گا۔ يہاں عزت و ناموس کا مسئلہ پيش تھا لہٰذا سيد الشہدا يہاں بھي ايک غيرت مند انسان کي طرح يہ کہہ سکتے تھے کہ اب عزت و ناموس کا مسئلہ درپيش ہے لہٰذا اب تو ذمہ داري بالکل ہي ساقط ہے اگر ہم اب بھي اِسي مقابلے کي راہ پر قدم اٹھائيں اور قتل ہوجائيں تو نتيجے ميں خاندان نبوت اور آل علي کي خواتين اور بيٹياں اور عالم اسلام کي پاکيزہ ترين ہستياں ايسے دشمنوں کے ہاتھوں قيدي بن جائيں گي کہ جو عزت و شرف اورناموس کي الف ب سے بھي واقف نہيں ہيں لہٰذا حالات ميں ذمہ داري ساقط ہے۔

محترم بھائيو اور بہنو! توجہ کيجئے، يہ بہت ہي اہم مطلب ہے لہٰذا اِس نظر وزاويے سے واقعہ کربلا ميں بہت سنجيدگي سے غوروفکر کرنا چاہيے کہ اگر امام حسين شہادت ِحضرت علي اصغر ، بچوں کي تشنگي، جوانان بني ہاشم کے قتل ، خاندان رسول (ص) کي خواتينِ عصمت و طہارت کي اسيري جيسے ديگر تلخ اور دشوار حالات و مصائب کے مقابلے ميں ايک معمولي ديندار انسان کي حيثيت سے بھي نگاہ کرتے تو اپنے عظيم ہدف اور پيغام کو فراموش کرديتے؛ وہ کوفہ ميں حضرت مسلم ٴکي شہادت اور اُس کے بعد رُونما ہونے حالات سے لے کر روزِ عاشورا کے مختلف حوادث تک قدم قدم پر عقب نشيني کرسکتے تھے اور وہ يہ کہنے ميں حق بجانب تھے کہ اب ہماري کوئي شرعي ذمہ داري نہيں ہے، بس اب ہمارے پاس يزيد کي بيعت کرنے کے علاوہ کوئي اور چارہ نہيں ہے۔ ’’اَلضَّرُورَاتُ تُبِيحُ المَعذُورَاتِ‘‘، وقت اور ضرورت ہر چيز کو اپنے ليے مباح اور جائز بناليتے ہيں ليکن امام حسين نے ايسا ہرگز نہيں کيا ۔ يہ ہے امام حسين کا راہ خدا ميں ثباتِ قدم او راستقامت !

شرعي عذر سے مقابلے ميں استقامت کي ضرورت!

استقامت کا معنيٰ يہ نہيں ہے کہ انسان ہر جگہ مشکلات و سختيوں کو برداشت کرے اور صبر سے کام لے۔ عظيم اور بڑے انسانوں کيلئے مشکلات کو تحمل کرنا اُن چيزوں کي نسبت آسان ہے جو شرعي، عرفي اور عقلي اصول ، قوانين کي روشني ميں ممکن ہے کہ مصلحت کے خلاف نظر آئيں لہٰذا ايسے امور کو تحمل اور برداشت کرنا عام نوعيت کي مشکلات اور سختيوں پر تحمل سے زيادہ دشوار اور مشکل ہے۔

ايک وقت ايک انسان سے کہا جاتا ہے کہ اِس راہ پر قدم نہ اٹھاو ورنہ تم کو شکنجہ کيا جائے اور تم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؛ وہ مضبوط ارادے کا مالک انسان يہ کہتا ہے کہ مجھے مختلف قسم کے شکنجوں کا سامنا کرنے پڑے گا تو اِس ميں کيا بات ہے؟! اپنے سفر کو جاري رکھوں گا يا ايک آدمي سے کہا جاتا ہے کہ يہ کام نہ کرو ، ممکن ہے کہ اس کام کي انجام دہي کے نتيجے ميں تم قتل کرديے جاو۔ مضبوط عزم و ارادے والايہ انسان کہتا ہے کہ قتل کرديا جاوں تو کرديا جاوں، اِس ميں کيا خاص بات ہے؟ ميں اپنے ہدف کي خاطر موت کو بھي خوشي خوشي گلے لگالوں گا لہٰذا ميں اپنے سفر کو جاري رکھوں گا۔ ايک وقت انسان سے قتل ہونے ، شکنجہ ہونے اور مصائب و مشکلات کا سامنا کرنے کي بات نہيں کي جاتي بلکہ اُ س سے کہا جاتا ہے کہ يہ کام انجام نہ دو کيونکہ ممکن ہے کہ تمہارے اِس فعل کي وجہ سے دسيوں لوگوں کا خون بہايا جائے، يہاں تمہاري اپني ذات کا مسئلہ نہيں بلکہ دوسروں کي جانوں کا معاملہ درپيش ہے چنانچہ تم نہ جاو، ممکن ہے کہ تمہارے اِس فعل کے نتيجے ميں بہت سي خواتين ، مرد اور بچے سختي اور پريشانيوں کا شکار ہوجائيں ۔ يہي وہ جگہ ہے کہ جہاں اُن افراد کے پاوں لڑکھڑانے لگتے ہيں کہ جن کيلئے اپنے مقصد کے حصول کي راہ ميں قتل ہونا کوئي اہم بات نہيں ہے۔ لہٰذا اِس مقام پر کسي کے پاوں نہيں لڑکھڑاتے تو اُسے سب سے پہلے مرحلے ميں انتہائي اعليٰ درجے کي بصيرت کا مالک ہونا چاہيے اور وہ يہ سمجھے کہ وہ کيا بڑا کام انجام دے رہا ہے ۔ دوسرے مرحلے ميں اُسے انتہائي قدرت نفس کا مالک ہونا چاہيے تاکہ اُس کا اندروني خوف و ضُعف اُس کے پاوں کي زنجير نہ بن جائے ۔ يہ وہ دو خصوصيات ہيں کہ جنہيں امام حسين نے کربلا ميں عملي طور پر دنيا کے سامنے پيش کيا۔ يہي وجہ ہے کہ واقعہ کربلا ايک تابناک اور روشن خورشيد کي مانند پوري تاريخ پر جگمگا رہا ہے، يہ خورشيد آج بھي اپني کرنيں بکھيررہا ہے اور تاقيامت اسي طرح نور افشاني کرتا رہے گا۔


source : http://www.ahl-ul-bayt.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیوں تشہد میں علی ولی اللہ پڑھنے کی اجازت نہیں؟
عفو اہلبيت (ع)
عہد امیرالمومنین میں امام حسن کی اسلامی خدمات
حضرت امام رضا (ع) کا کلام
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام(حصہ دوم)
حضرت امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام کی والدہ ...
کربلا کے روضوں کے منتظمین کے لیے مشہد میں ہوٹل کی ...
ارشادات نبوی
قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ...
امام محمد تقی علیہ السلام کی سیاسی سیرت

 
user comment