اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

ازدواج حضرت علی (ع) و جہاد آنحضرت

رسول نے مدینے میں آکر سب سے پھلاکام یہ کیا کہ اپنی اکلوتی بیٹی فاطمہزھرا علیھا السّلام کاعقد علی علیہ السّلام کے ساتہ کردیا . رسول اپنیبیٹی کو انتھائی عزیز رکھتے تھے اور اتنی عزت کرتے تھے کہ جب فاطمہ زھراعلیہ السّلام آتی تھیں تو رسول تعظیم کے لیے کھڑے ھوجاتے تھے . ھر شخص اسبات کاطلب گار تھا کہ رسول کی اس معزز بیٹی کے ساتہ منسوب ھونے کا شرف اسےحاصل ھو. دو ایک نے ھمت بھی کی کہ وہ رسول کو پیغام دیں مگر حضرت نے سب کیخواھشوں کو رد کردیا اور یہ کہاکہ فاطمہ کی شادی بغیر حکمِ خدا کے نھیںھوسکتی۔ ھجرت کاپھلا سال تھا جب رسول نے علی علیہ السّلام کو اس عزت کےلئے منتخب کیا . یہ شادی نھایت سادگی کے ساتھ انجام پذیرھوئی . شھنشاہ دینودنیا حضرت پیغمبر خدا کی بیٹی اور اس کو پیغمبر کی طرف سے جھیزبھی نھیںدیا گیا . خود فاطمہ کا مھر تھاجو علی علیہ السّلام سے لے کر کچھ سامانخانہ داری فاطمہ کے لیے خرید کر ساتھ کردیا گیا , وہ بھی کیا؟مٹی کے کچھبرتن , خرمے کی چھال کے تکیے . چمڑے کابستر اور چرخہ , چکی اور پانی بھرنےکی مشک . علی علیہ السّلام نے مھر ادا کرنے کے لئے اپنی زرہ فروخت کی اورفاطمہ زھرا علیھا السّلام کا مھر ادا کیا گیا جو ایک سو سترہ تولے چاندیسے زیادہ نہ تھا اس طرح مسلمانوں کے لئے ھمیشہ کے لیے ایک مثال قائم کردیگئی کہ وہ اپنی تقریبات میں فضول خرچی سے کام نہ لیں

شادی

رسول نے مدینے میں آکر سب سے پھلاکام یہ کیا کہ اپنی اکلوتی بیٹی فاطمہزھرا علیھا السّلام کاعقد علی علیہ السّلام کے ساتہ کردیا . رسول اپنیبیٹی کو انتھائی عزیز رکھتے تھے اور اتنی عزت کرتے تھے کہ جب فاطمہ زھراعلیہ السّلام آتی تھیں تو رسول تعظیم کے لیے کھڑے ھوجاتے تھے . ھر شخص اسبات کاطلب گار تھا کہ رسول کی اس معزز بیٹی کے ساتہ منسوب ھونے کا شرف اسےحاصل ھو. دو ایک نے ھمت بھی کی کہ وہ رسول کو پیغام دیں مگر حضرت نے سب کیخواھشوں کو رد کردیا اور یہ کہاکہ فاطمہ کی شادی بغیر حکمِ خدا کے نھیںھوسکتی۔ ھجرت کاپھلا سال تھا جب رسول نے علی علیہ السّلام کو اس عزت کےلئے منتخب کیا . یہ شادی نھایت سادگی کے ساتھ انجام پذیرھوئی . شھنشاہ دینودنیا حضرت پیغمبر خدا کی بیٹی اور اس کو پیغمبر کی طرف سے جھیزبھی نھیںدیا گیا . خود فاطمہ کا مھر تھاجو علی علیہ السّلام سے لے کر کچھ سامانخانہ داری فاطمہ کے لیے خرید کر ساتھ کردیا گیا , وہ بھی کیا؟مٹی کے کچھبرتن , خرمے کی چھال کے تکیے . چمڑے کابستر اور چرخہ , چکی اور پانی بھرنےکی مشک . علی علیہ السّلام نے مھر ادا کرنے کے لئے اپنی زرہ فروخت کی اورفاطمہ زھرا علیھا السّلام کا مھر ادا کیا گیا جو ایک سو سترہ تولے چاندیسے زیادہ نہ تھا اس طرح مسلمانوں کے لئے ھمیشہ کے لیے ایک مثال قائم کردیگئی کہ وہ اپنی تقریبات میں فضول خرچی سے کام نہ لیں .

خانہ داری

فاطمہ علیھا السّلام اور علی علیہ السّلام کی زندگی گھریلو زندگی کا ایکبے مثال نمونہ تھی۔مرد اور عورت آپس میں کس طرح ایک دوسرے کے شریک حیاتثابت ھوسکتے ھیں ،آپس میں کس طرح تقسیم عمل ھونا چاھیے اور کیوں کر دونوںکی زندگی ایک دوسے کے لیے مددگار ھوسکتی ھے , وہ گھر دنیا کی آرائشوں سےدور , راحت طلبی اور تن آسانی سے بالکل علیحدہ تھا , محنت اور مشقت کےساتھ ساتھ دلی اطمینان اور آپس کی محبت واعتماد کے لحاظ سے ایک جنتبناھوا تھا , جھاں سے علی علیہ السّلام صبح کو مشکیزہ لے کر جاتے تھےاوریھودیوں کے باغ میں پانی دیتے تھے اور جو کچھ مزدوری ملتی تھی اسے لےکر گھر پر آتے تھے .بازار سے جو خرید کر فاطمہ علیھا السّلام کو دیتے تھےاور فاطمہ چکی پیستی , کھانا پکاتی او رگھر میں جھاڑودیتی تھیں , فرصت کےاوقات میں چرخہ چلاتی تھیں اور خود اپنے اور اپنے گھر والوں کو لباس کےلیے اور کبھی مزدوری کے طور پر سوت کاتتی تھیں اور اس طرح گھر میں رہ کرزندگی کی مھم میں اپنے شوھر کاھاتہ بٹاتی تھیں

جهاد

مدینہ میں آکر پیغمبر کو مخالف گروہ نے آرام سے بیٹھنے نہ دیا . آپ کےوہ پیرو جو مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جانے لگیں۔ بعض کوقتل کیا ، بعض کو قید کیا اور بعض کو زد وکوب کیااور تکلیفیں پھنچائیں . یھی نھیں بلکہ اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑاھائی کردی , اس موقع پر رسول کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروںکی حفاظت کرتے جنھوں نے آپ کوانتھائی ناگوار حالات میں پنا ہ دی تھی اورآپ کی نصرت وامداد کاوعدہ کیا تھا , آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا کہ آپشھر کے اندر رہ کر مقابلہ کریں اور دشمن کو یہ موقع دیں کہ وہ مدینہ کی پرامن آبادی اور عورتوں اور بچوں کو بھی پریشان کرسکے. گو آپ کے ساتھتعدادبھت کم تھی یعنی صرف تین سو تیرہ آدمی, ھتھیار بھی نہ تھے مگر آپنے یہ طے کرلیا کہ آپ باھر نکل کر دشمن سے مقابلہ کریں گے چنانچہ اسلامکی پھلی لڑائی ھوئی. جو جنگِ بدر کے نام سے مشھور ھے . اس لڑائی میں رسولنےزیادہ تر اپنے عزیزوں کو خطرے میں ڈالا چنانچہ آپ کے چچا زاد بھائیعبیدہ ابن حارث ابن عبدالمطلب(ع) اس جنگ میں شھید ھوئے . علی کو جنگ کا یہپھلا تجربہ تھا ۔25برس کی عمر تھی مگر جنگ کی فتح کا سھرا علی علیہالسّلام کے سر رھا .جتنے مشرکین قتل ھوئے تھے ان میں سے آدھے مجاھدین کےھاتھوں قتل ھوئے تھے۔ اس کے بعد ,اُحد, خندق,خیبر,اور آخر میں حنین،یہ وہبڑی لڑائیاں ھیں جن میں علی علیہ السّلام نے رسول کے ساتھ رہ کر اپنی بےنظیر بھادری کے جوھر دکھلائے . تقریباًان تمام لڑائیوں میں علی علیہالسّلام کو علمداری کا عھدہ بھی حاصل رھا . اس کے علاوہ بھت سی لڑائیاںایسی تھیں جن میں رسول نے علی علیہ السّلام کو تنھا بھیجا اورانھوں نےاکیلے ان تمام لڑائیوں میں بڑی بھادری اور ثابت قدمی دکھائی اور انتھائیاستقلال , تحمّل اور شرافت نفس سے کام لیا،جس کااقرار خود ان کے دشمن بھیکرتے تھے ۔ خندق کی لڑائی میں دشمن کے سب سے بڑے سورماعمر وبن عبدود کو جبآپ نے مغلوب کر لیااور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر بیٹھے تو اسنے آپ کے چھرے پر لعاب دھن پھینک دیا . آپ کو غصہ آگیااور آپ اس کےسینے پر سے اتر آئے۔ صرف اس خیال سے کہ اگر غصّے میں اس کو قتل کیا تو یہعمل محض خدا کی راہ میں نہ ھوگا بلکہ خواھش نفس کے مطابق ھوگاکچھ دیر کےبعد آپ نے اس کو قتل کیا , اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کیلاش برھنہ کردیتے تھے مگر حضرت علی علیہ السّلام نے اس کی زرہ نھیں اُتاریاگرچہ وہ بھت قیمتی تھی . چناچہ اس کی بہن جب اپنے بھائی کی لاش پر آئیتو اس نے کھا کہ کسی اور نے میرے بھائی کوقتل کیا ھوتا تو میں عمر بھرروتی مگر مجھے یہ دیکھ کر صبر آگیا کہ اس کاقاتل علی سا شریف انسان ھے جسنے اپنے دشمن کی لاش کی توھین گوارا نھیں کی , آپ نے کبھی دشمن کی عورتوںیابچّوں پر ھاتہ نھیں اٹھا یا اور کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ نھیں کیا.

خدمات

نہ فقط جھاد بلکہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے کسی کام کے کرنے میں آپکو انکار نہ تھا .یہ کام مختلف طرح کے تھے رسول کی طرف سے عھد ناموں کالکھنااور خطوط تحریر کرنا آپ کے ذمہ تھا اور لکھے ھوئے اجزائے قرآن کےامانتدار بھی آپ تھے- اس کے علاوہ یمن کی جانب تبلیغ اسلام کے لئے پیغمبرنے آپ کو روانہ کیا جس میں آپ کی کامیاب تبلیغ کا اثر یہ تھا کہ سارا یمنمسلمان ھو گیا۔ 

جب سورہ براَت نازل ھوئی تو اس کی تبلیغ کے لئے بحکم خدا آپ ھی مقرر ھوئےاور آپ نے جا کر مشرکین کو سورۂ براَت کی آیتیں سنائیں- اس کے علاوہ بھیآپ رسالت مآب کی ھر خدمت انجام دینے پر تیار رھتے تھے- یھاں تک کہ یہ بھیدیکھا گیا کہ رسول کی جوتیاں اپنے ھاتھ سے سی رھے ھیں، علی علیہ السّلاماسے اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتے تھے-


source : http://www.shiastudies.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں

 
user comment