اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

مغرب اور اسلامی بیداری

 

آوٴ اس بات پر جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہیں ، ایک ساتھ ہو جائیں اور وه یہ ہے کہ سوائے خدائے واحد کے کسی کی پرستش نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خداوند عالم کے علاوہ اپنی خدائی میں نہ لے اور اگر یہ منظور نہیں تو جان لو ہم مسلمان ہیں ۔

مقدمہ

عالم اسلام اور مغرب میں تعلقات کی ابتداء ، آغاز اسلام سے ہی ہوئی ، سورہٴ روم کی ابتدائی آیتوں کو دیکھتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ مسلمین اس زمانے کے ارتباطی ذرائع کی سست رفتاری کے باوجود پوری توجہ کے ساتھ دنیا کے حوادث پر نظر رکھتے تھے ۔ اس طرف مشرکین بھی ہر چیز پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روم پر ایرانیوں کا غلبہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں تھا کہ صرف ان کی خوشی اور غم کو بیان کر کے گزر جا یا جائے ۔ کسی کی کامیابی کفر یا ایمان کی کامیابی کے مترادف تھی ۔ اس کارزار کی وسعت جغرافیائی حدود سے کہیں زیادہ تھی ، اسی وجہ سے بعض روایتوں میں اس معرکہ کو فیصلہ کن بتا یا گیا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ وحی الٰہی کی سچائی بھی آشکار ہوگئی جس کی پیشین گوئی کے مطابق رومی -- جو اہل کتاب ہونے کی بناء پر گروہ موٴمنین میں شمار ہوتے تھے -- مشرک ایرانیوں سے مغلوب ہونے کے بعد کچھ سالوں میں ان پر غالب آجائیں گے اور پروردگار عالم کی منشاء سے ایسا ہی ہوا لیکن نہ رومیوں کو اور نہ ایرانیوں کو ، کسی کو اطلاع نہ تھی کہ صحرائے عرب کی کوکھ سے کس مولود نے جنم لیا اور پروان چڑھ رہا ہے جو ساری دنیا کو گمراہی اور تباہی سے نجات دلانے آیا ہے ، ہاں ! اس کے بارے میں پہلے سے کچھ سنا تو تھا لیکن کبھی اس پر سنجیدگی سے نہیں سوچا تھا ، یہاں تک کہ صحرا کے اس نو مولود کے بلوغ اور رشد کی خبریں ان کے کانوں سے ٹکرانے لگیں اور پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) کے خطوط ان کو ملنے لگے جو انھیں اسلام لانے اور خداوند عالم کے سامنے تسلیم ہونے کی دعوت دے رہے تھے ۔

شاہ ایران خسرو انو شیروان کے نام آنحضرت (صلی الله علیه و آله وسلم) کے خط میں آیا ہے : ” تجھے خدائے واحد کی طرف دعوت دیتا ہوں میں تمام لوگوں پر اس کی طرف سے بھیجا ہوا رسول ہوں تا کہ لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراوٴں اور کافروں پر اتمام حجت کردوں ۔ اسلام لے آوٴ تا کہ امان پاوٴ ، اگر نافرمانی کی تو آتش پرستوں کی لعنتیں تم پر پڑیں “ ۔اس خط کے اور بھی مضمون موجود ہیں ۔

دوسرے بھی خطوط انوشیروان کے عاملوں کے نام بھیجے گئے ۔

قیصر روم کے نام خط میں آیا ہے : ” تجھے اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں ، اسلام لے آ ، امان پالے ۔ خداوند عالم تجھے دوگنا اجر دے گا ، اور اگر نافرمانی کی تو ” ارسیوں “ کے گناہ تیرے سر آئیں گے ۔ اے اہل کتاب !آوٴ اس بات پر جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہیں ، ایک ساتھ ہو جائیں کہ سوائے خدائے واحد کے کسی کی پرستش نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خداوند عالم کے علاوہ اپنی خدائی میں نہ لے اور اگر یہ منظور نہیں تو جان لو ہم مسلمان ہیں ۔

دنیا کی بڑی طاقت ، اس نئی طاقت کے مقابلہ میں شکست کھا گئی ، ابتداء میں اسلام اتنی تیزی سے اور اتنی وسعت میں پھیلا کہ دونوں بڑی طاقتیں حیرت زدہ رہ گئیں یعنی ایک طرف ایرانی شہنشاہیت کا زوال ہوگیا تو دوسری طرف روم بھی یورپ کے اندرونی حصہ تک پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگیا شام ، مصر اور مرکش کو ہزار سال حکومت کے بعد جو اسکندر مقدونی کے ہاتھوں فتح ہوا تھا ، آخر کار چھوڑنا پڑا ۔ اس پیشرفت نے بہت سے بڑے بڑے مورخوں کو حیرت زدہ کر دیا جن میں ” ثوراستروب “ ، ” گوستاولوبون “ ، ” توین بی “ ، ”تھامس آرنالڈ “ کے اسامی قابل ذکر ہیں ۔

حالانکہ ایرانیوں اور رومیوں نے نہایت بربریت کے ساتھ مقابلہ کیا ۶ لیکن اسلام نے مسلمان عربوں میں ایسا انقلاب پیدا کردیا تھا کہ اب ان کا مقابلہ ناممکن تھا ، ہر میدان میں اسلام کی فتح ہوتی رہی اور اسلام کا اثر مغرب میں گہرا ہوتا گیا ۔ ہر چند یورپیوں نے اس تاثیر کے انکار میں بڑی کوششیں کی ہیں اور روم کی حدود پر اسلام کے غلبہ کو نہیں بلکہ جرمن اقوام کے غلبہ کو یورپ کی تاریخ کا اہم موڑ قرار دیا ہے ۔

استاد انور الجندی کہتے ہیں :

جرمن اقوام کے حملہ اور روم کی حدود پر ان کی فتح کے بعد بھی روم کی حکومت باقی اور رومی تہذیب جاری تھی صرف اتنا ہی فرق پڑا کہ شہر روم کی مرکزیت ختم ہوکے بیزانس میں منتقل ہوگئی اور جنگیں صرف چند مادی مسائل تک محدود تھیں لیکن اسلام کی طوفانی ہواوٴں نے اور سرزمین روم میں مسلمان مجاہدوں کے معرکوں نے وہاں کے ہر آثار اور تمام نشانیوں کو مٹا ڈالا ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خس و خاشاک کو ہوائیں ادھر ادھر بکھیر رہی ہوں ، ایک نئی حکومت قائم ہوئی ، نئی تہذیب نے جنم لیا جس نے یورپ کو ہر طرف سے گھیر لیا تھا ۔ اگر اسلام کا ظہور نہ ہوتا تو روم کی حکومت اسی طرح باقی ہوتی اور یورپ کو نئے انداز میں نکھارنے والے یہ انقلابات پھر سر نہ اٹھاتے ! بعض مغربی مورخین ”پواتیہ “ کی جنگ کو جس میں کمانڈر شارل مارتل نے ۷۳۲ء ( ۱۱۴ ئہجری ) میں مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے قدم کو روک دیا تھا ، بڑے فخر سے یاد کرتے ہیں اور اسے یورپ کی کامیابی قرار دیتے ہیں لیکن بہت سے مورخین جیسے ” کلود فایر “ اسے قرون وسطیٰ کے بد ترین المیہ سے تعبیر کرتے ہیں جس کی وجہ سے یورپ آٹھ صدی پیچھے چلا گیا ۔

اس درمیان صلیبی جنگیں دو صدی تک ( ۱۲۹۵ سے ۱۰۹۹ تک ) جاری رہیں اور اپنے ساتھ ہر خشک و تر جلاتی رہیں حالانکہ یورپ کو ان جنگوں سے بڑے فائدے بھی پہنچے ہیں اور انقلاب رسانس کے آغاز کا سبب بھی یہی ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آج کے مغربی قلم کاروں اور مصنفین میں بھی بہت سے ایسے ہیں جو اسلام کو پندرہویں صدی کے انقلاب رنیسانس کے بیرونی اسباب میں سے قرار دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ مدعی ہیں کہ آج مغرب کو پندرہویں صدی ہجری کے اسلامی بیداری کے بیرونی اسباب میں سے قرار دینا چاہئے ۔  

جس زمانے میں مغرب قرون وسطیٰ کے تاریک دور ( پانچویں صدی سے پندرہویں صدی تک ) سے گزر رہا تھا ، مشرق کی سرزمین اسلام کے نور سے روشن تھی ، مشرق اور یہاں تک کہ یورپ کی بھی اندلس جیسی سرزمینوں میں نور اسلام متجلی تھا۔

۱۰۹۹ء میں کلیسا کے اشاروں پر صلیبی جنگیں شروع ہوگئیں اور ایسے ایسے المیہ واقع ہوئے کہ بشریت کی جبینیں شرم سے جھک گئیں جس سے ان کی اسلام دشمنی اور نفرت و کینہ کی شدت کے ساتھ اصل میں اسلامی تہذیب اور مکتب فکر کے شدید خوف و اضطراب کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ اس بناء پر محترمہ شیرین ہنٹر کا بیان کہ ۱۳۵۹ ء عیسوی میں ترکوں کے ہاتھوں گالیپولی کی شکست کے بعد مغرب میں یہ خوف بیٹھ گیا ، سراسر نا درست ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ خوف و اضطراب صلیبی جنگوں سے پہلے بھی پایا جاتا تھا ۔

۹۵ ۔ ۹۲ء ہجری ( ۷۱۴ ۔ ۷۱۱ عیسوی ) میں سرزمین اندلس میں اسلام کے آنے سے اسلام کا سورج نہ صرف اندلس میں بلکہ سارے یورپ میں چمکنے لگا جو کہ آٹھ صدیوں تک جاری رہا ( یعنی ۱۴۹۲ ءء میں غرناطہ کی شکست اور انقلاب رسانس کی ابتداء تک ) اس دور میں حالانکہ عالم اسلام سے اندلس جدا ہوگیا لیکن اسی دور میں افریقہ کی دو عظیم حکومتیں ” مالی “ اور ” کادا “ عالم اسلام کا حصہ بن گئیں اور اس طرح حکومتیں عالم اسلام اور مغرب کے درمیان رد و بدل ہوتی رہیں ۔ استاد سمیر سلیمان کے بیان کے مطابق مغرب کی دوسری یلغار ۷۹۲ ۱ ء میں اسکندریہ پر نیپولین کے حملے سے شروع ہوئی ۱۰ اور پھر پے در پے بہت سی یلغاریں واقع ہوئیں جس میں اہم یہ ہیں :

۱۸۰۰ ء میں انڈونیشیا پر ہالنڈیوں کا قبضہ ۔

۱۸۲۰ء میں الجزائر پر فرانسیسیوں کا قبضہ ۔

انیسویں صدی کی آخر میں قفقاز اور ترکستان پر روس کا قبضہ ۔

۱۸۷۵ ء میں ہندوستان پر برطانیہ کا قبضہ ۔

۱۸۶۹ ء میںسوئز کینل کا افتتاح ۔

۱۸۸۲ء میں مصر پر برطانیہ کا قبضہ ۔

۱۸۹۲ء میں سوڈان پر برطانیہ کا قبضہ ۔

۱۹۱۷ء میں بیت المقدس میں متحدہ افواج کا پڑاوٴ اور عثمانی حکومت کے زوال کا آغاز ۔

۱۹۲۴ء میں عثمانی حکومت کا خاتمہ ۔

۱۹۴۸ ء میں اسرائیلی حکومت کی بنیاد ۔

ہر طرف سے اور وسیع پیمانے پر ان چڑھائیوں نے عالم اسلام کو شکست اور مایوسی کا شکار بنا دیا لیکن کچھ عرصہ بعد قوت کے ساتھ رد عمل کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں سے خاص خاص یہ ہیں:

۱۹۳۰ء میں الجزائر میں انقلاب کا آغاز ہوا ۔

۱۸۳۹ء ۔ ۱۸۹۷ء میں سید جمال الدین ، محمد عبدہ اور الکواکبی کی سر براہی میں اصلاحی تحریکیں شروع ہوئیں ۔

۱۸۳۱ء میں لیبیا میں سنوسیوں کی تحریک کا آغاز ہوا ۔

۱۸۵۷ ء میں ہندوستان میں مسلمانوں کی تحریک آزادی کا آغاز ہوا ۔

۱۸۸۲ ء میں مصر میں انقلاب غرابی کا آغاز ہوا ۔

۱۸۹۵ء میں ایران میں آئینی انقلاب ۔

۱۸۸۹ ء میں سوڈان میں انقلاب ۔

۱۹۱۹ء میں مصر میں انقلاب ۔

۱۹۲۰ء میں عراق میں انقلاب ۔ ” العشرین “

۱۹۲۴ ء میں شام اور سوڈان میں مختلف انقلاب نیز خطابیہ اور بستیوں کے انقلابات ۔

۱۹۳۰ء میں لیبیا میں عمر مختار کا انقلاب ۔

مشرقی ہندوستان میں اسلامی انقلاب ، ترکستان اور قفقاز میں شیخ شامل کا انقلاب ، نیز عمانیوں اور سواحیلیوں کا انقلاب․․․ ۔

بیسویں صدی کے آغاز سے ایران میں حملہ آوروں اور ان کے اہل کاروں کے خلاف مختلف تحریکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جیسے جنوب میں تحریک تنگستانی اور شمال میں تحریک جنگل ۔

۱۹۳۵ء میں فلسطین میں بھی انقلاب کا آغاز ہوگیا ۔

ان تحریکوں کی باوجود جو اہداف و مقاصد اور طریقہٴ کار کے لحاظ سے بہت مختلف تھیں ۱۹۲۴ ء میں کچھ حوادث کے بناء پر جسے عظیم المیہ کہنا چاہیے ، عثمانی حکومت کا خاتمہ کرکے ، مغرب کو موقع مل گیا کہ دنیا سے اسلام کے سیاسی وجود کو مٹادے ۔

اسی کے ساتھ ساتھ مغرب کی ثقافتی یلغار بھی تیز ہوگئی اور اسلام پر صلیبیوں کی طرف سے نئے حملے ہونے لگے اور آج بھی یہ معاندانہ سلسلہ جاری ہے اور ممکن ہے بہت سی سازشیں ابھی پوشیدہ ہوں ۔

۱۹۰۸ء میں لارڈ کرومر کی کتاب نے بہت سی سازشوں کا پردہ فاش کردیا ۔ اس میں صاف لکھا ہے : اسلام مرچکا ہے یا موت کے دہانے پر ہے جسے اصلاحی تحریکوں کے ذریعہ زندہ نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ موت اس کی ذات اور جوہر میں یعنی عورت کی پسماندگی اور اسلامی شریعت کی فرسودگی میں پوشیدہ ہے لہٰذا عالم اسلام کو ترقی یافتہ معاشروں کے ساتھ ساتھ چلنے کے لئے مدرنیزم اسلام کو قبول کرنا ہوگا ۔ محترمہ شیرین ہانتر کے بقول یہ نظریہ جدید ماہرین مشرقیات کا نظریہ ہے ان کا دعوی ہے کہ خود دین اسلام ایسا ہے کہ ماڈرنزم قبول نہیں کرسکتا نتیجہ میں مغرب کا ساتھ نہیں دے سکتا وہ مسلمانوں کو ثقافتی بنیاد پرست قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں : مسلمان لوگ ایک خاص طریقے سے سوچتے اور عمل کرتے ہیں ، اس بناء پر مغرب ، اسلام کا مقابلہ صرف ایک ہی طریقہ سے کرسکتا ہے اور وہ اسلام کو اندر سے کھوکھلا کرکے نیست و نابود کردینا ہے ۔ اسی لئے وہ مغربی حکومتوں کو صلاح و مشورہ دیتے ہیں کہ ان طاقتوں کی حمایت کریں جو اسلام اور مسلمین سے نبرد آزما ہیں تا کہ اسلام کا شیرازہ بکھر جائے یا مسلمان بالکل تسلیم ہوجائیں ۔

عالم اسلام میں فکری ہزیمت کا آغازمحمد عبدہ کے ان صلح پسندانہ اظہار خیالات سے ہوا جو انھوں نے لارڈ کروم کے جواب میں دیئے ۔ ان کے بیانات کو ان کے سکیولریزم ( لا مذہبی ) حلقہ منجملہ لطفی السید ، سعد زغلو ، طہ حسین اور اسماعیل مظہر نے بہت سراہا اور نتیجہ میں دھیرے دھیرے کروم کے نظریہ سے نزدیک ہوگئے ۔

عالم اسلام کے دیگر گوشو ں میں بھی اس نظریہ کے حامی افراد پائے جاتے تھے جنھوں نے اس نظریہ کو پیش کیا ،اس کے بعد بیسویں صدی کے درمیانی حصہ میں نیشنلیزم اور مارکسیزم بھی عالم اسلام میں سرگرم ہو گیا اور ان نظریات کو مزید بڑھنے کا موقع مل گیا ۔

اسلامی بیداری کے سلسلہ میں مغربیوں کے یہ معاندانہ اور توزانہ نظریوں کے علاوہ مغرب میں کچھ دوسرے بھی نظریات پائے جاتے ہیں جسے محترمہ شیرین ہانتر (جدید تیسری دنیا )کے نام سے یاد کرتی ہیں ،اس نظریہ کے مطابق جس کی محترمہ ہنٹر بھی تائید کرتی ہیں ،وہ چیز جو عالم اسلام پر حاکم ہے اسلامی اقدار اور مصالح و منافع دونوںہیں ، نتیجہ میں عالم اسلام اور مغربی دنیا کے بہت سے مشترک مصالح و منافع کو ملحوظ رکھا جا سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی اقدار ، غربی ثقافت کے غیر انسانی پہلوؤں جیسے جنسی بے راہ روی دوسری قوموں کا استحصال ، اخلاق سے دوری ، دوسری ثقافتوں کو مٹانے کی کوشش ، استعمار کے نئے نئے طریقے ، متضاد باتوں ، زبان پر کچھ عمل میں کچھ ․․․ اور اس قسم کے دیگر امور کے مخالف ہے ، ورنہ ان پہلوؤں کو چھوڑ کر بہت سے مشترک پہلو بھی ہیں جن کے بارے میں آپس میں گفتگو کی جا سکتی ہے اس کے علاوہ منافع و مصالح کے سلسلہ میں اسلامی اقدار نہ صرف مخالف نہیں ہے بلکہ انسانی عظیم منافع کے تحقق اور اسے صحیح مفہوم بخشنے میں معاون بھی ہے ۔

بہر حال مغرب ہمیشہ مختلف حربوں سے ، فوجی حملے ، ثقافتی یلغار ، اپنے اہل کاروں یا مغربی چمک دھمک کے فریفتہ لوگوں کے ذریعہ عالم اسلام میں اپنے رسوخ کو جما کر اس کوشش میں رہا ہے کہ امت اسلامیہ کو مرعوب اور مقہور بنا دے مغربی استعمار ، حکومت عثمانیہ پر کاری ضرب لگانے کے بعد اسی کوشش میں لگ گیا کہ قدرت اسلام کا مقابلہ کرکے خود اسلام پر ضرب لگائے جب مغربی استعمار عالم اسلام کے تمام خطوں پر براہ راست حاکمیت حاصل کرنے سے عاجز ہوگیا تو اسلامی ممالک کو ظاہری آزادی دے کر مغرب نواز حکومتوں کو وہاں مسلط کرکے مہار اپنے ہاتھوں میں لے لی ، اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے عالم اسلام میں نیشنلیزم اور قومی ، لسانی افکار کی ترویج سے اسے ٹکڑوں میں بانٹ کے چھوٹی چھوٹی حکومتیں بنا ئی گئیں حالانکہ یہ حکومتیں استعماری مقاصد کی تکمیل کے لئے بنائی گئیں لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ثابت ہو گیا کہ اس سے بھی مغرب کے مقاصد پورے نہیں ہوتے کیوں کہ دوسری جنگ عظیم کے کچھ ہی عرصہ بعد اسلامی عالمی فکر اور اسلامی عالمی تنظیمیں تیزی سے پھیلنے لگیں، خاص کر مسجد اقصی کے جلائے جانے سے عالم اسلام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی جس نے مغرب کی کٹھپتلی حکومت کا تختہ پلٹ دیا اور افغان مجاہدین کی روس جیسی بڑی طاقت پر کامیابی اور آخر کار دنیا کی سب سے بڑی الحادی طاقت( سویت یونین) کا خاتمہ اور اس کے ہاتھوں اسیر اسلامی قوموں کی رہائی کے بعد بہت شدت سے عالمی سطح پر اسلام کی آفاقی فکر سامنے آئی اور مغرب کو مجبور کر دیا کہ اپنی سیاستوں میں نظر ثانی کرے۔

عالمی سطح پر اسلامی بیداری نے مغرب کو حیرت میں ڈال دیا ، اس بناء پر مغرب نے اپنے طریقہٴ کار اور اپنے زاویہ نظر سے اس کا تجزیہ و تحلیل کیا تاکہ اس کے مثبت اور منفی نقاط کو پہچان کر اس کا مقابلہ کر سکے ۔”اس بناء پر دیکھنا یہ ہوگا کہ اس اسلامی بیداری کے بنیادی محرکات کیا ہیں اور مغرب دشمنی کے عناصر اس میں کیا ہیں تاکہ درست آشنا ئی کے ساتھ اس سے مقابلہ کے لئے مناسب سیاست کا انتخاب کیا جا سکے “ اس مقالہ میں ہماری کوشش یہی ہے کہ اسلامی بیداری کے سلسلہ میں مغربی سیاست کے کچھ گوشے اجاگر کر سکیں ۔

کتاب ”اسلام اور مغرب کا مستقبل “ایک تجزیہ

خ مصنف : شیرین ہانتر

اس کتاب سے آشنائی کے لئے اس کے مضامین اور موضوعات پر ایک سرسری نگاہ کرتے ہیں :

۱)۔ مصنف اپنی کتاب کو ایک انگریز افسر کے ناول سے شروع کرتی ہیں جس میں اس نے ۱۹۱۶ءء میں نظریہ پیش کیا تھا کہ اگر اسلامی انقلاب کا شعلہ بھڑک گیا تو پہلی عالمی جنگ کا رخ بدل جائے گا ، ناول نگار واضح طور پر کہتا ہے کہ مشرق ایک الٰہی اشارے کے انتظار میں ہے ۔

اس کے بعد محترمہ شیرین ہانتر بیان کرتی ہیں کہ مذکورہ افسر کراوثمر ۔ پچہتر سال بعد امریکہ اور اسلامی بنیاد پرستی کے درمیان جنگ کو ایک خطرہ قرار دیتا ہے ۔

۲)۔ شیرین ہانتر کے کہنے کے مطابق یورپ کو ۱۳۵۹ء میں عثمانی ترکوں کے ہاتھوں ” گالیپولی “ کی شکست کے بعد اسلام سے خطرہ محسوس ہوا اور یہ خطرہ امام خمینی ۺکے ظہور سے اور بڑھ گیا ہے ۔

۳)۔ مصنفہ مغرب میں موجود دین اور سکیولریزم کے تنازعہ کے بارے میں رقم طراز ہیں : تہذیب و ثقافت اور عقائد و افکار میں جدائی ، بے مطلب کی جدائی ہے ۔

۴)۔ ان کا کہنا ہے : عالم اسلام ،خود اسلام کی خصوصیتوں کے باعث مغرب کا ہمیشہ دشمن رہا ہے۔

۵)۔ مصنفہ اس تنازعہ کو مزید بڑھاوا دینے میں تیل کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہندوستان جیسی بنیاد پرستی جس میں تیل کا کردار شامل نہیں ہے ، مغرب کے لئے اتنا پریشان کن نہیں بن سکتی۔

۶)۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ممکن نہیں کہ اسلام نازیسم اور سوشلیزم کی طرح شکست سے دوچارہو سکے۔

۷)۔ وہ فردی اسلام میں جو اچھا ہے اور اجتماعی اسلام میں جو برا ہے ،فرق کے قائل ہیں اور مدعی ہیں کہ تمام خطرہ جہادی اسلام سے ہے ۔

۸)۔ وہ اظہار خیال کرتی ہیں : تمام تر کوششیں اسلامی معاشرہ میں سکولرزیم کی ترویج کرنے (دین کو سیاست سے جدا کرنے ) کے لئے صرف کردینی چاہئیں تاکہ ترقی کی راہ ہموار ہو سکے۔

۹)۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ایک درمیانی حل یہی ہے کہ مغرب ، زندگی میں دین کے کردار کو اور عالم اسلام ، سکولرزم ( دین اور سیاست میں جدائی) کو تسلیم کر لے۔

۱۰)۔ پھر کہتی ہیں : اس تنازعہ کی بنیادی وجہ طاقت کا توازن ہے ، مسلمان اپنے آپ کو مغرب کے قبضہ قدرت میں نہیں دیکھ سکتا اور مغرب دوسروں کو اپنے سے بر تر نہیں مان سکتا۔

۱۱)۔ شیرین ہنٹر معاشرہ میں عقائد و افکار کے کردار کو جو ایک طاقت کے طور پر حکومت کے کام آسکتے ہیں،بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: ہمیشہ بڑی قربانیاں ایک بنیادی عقائد و افکار کے تحت ہوتی ہیں ، اس بناء پر اگر مغربی اقدار اپنے منافع کے حصول میں استعمال نہ ہوں تو کوئی خاص اہمیت کے حامل نہ ہوںگے۔

۱۲)۔ مصنفہ کے مطابق : اسلام کا سیاسی نظام ، قرآن اورسنت میں کوئی خاص واضح نہیں ہے ، وہ دین اور سیاست میں وحدت اور مسیحیت و یہودیت میں امت کے مفہوم کو نشانہ بناتے ہوئے کوشش کرتی ہیں کہ عالم اسلام کی طرف سے سکولرزم ( دین و سیاست میں جدائی ) کو تسلیم کئے جانے کی صورت میں یک گونہ قربت ان میں ایجاد کر سکیں حالانکہ یہ بھی مانتی ہیں کہ الٰہی نظام سکولاریزم کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا اور یہی وجہ ہے کہ اسلام اور مغرب میں جنگ نا گزیر ہے ۔

۱۳)۔ وہ کہتی ہیں کہ اسلام میں بین الاقوامی سطح پر تعلقات و روابط کے لئے کوئی جامع اور عالمی نظریہ نہیں پایا جاتا پھر بھی انھیں شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا نقطہٴ نظر سطحی ہے ! وہ وضاحت کرتی ہیں کہ اسلام چوں کہ ساری دنیا پر حکومت کرنا چاہتا ہے ، اس بناء پر توسیع پسند طلب اور دوسروں کا رقیب ہے ، اس بناء پر سیمئل ہنٹگٹن کے نظریہ پر شدید نکتہ چینی کرتی ہیں جو کہتا ہے : مسلمان برا بری اور مفاہمت کی منطق سے نا آشنا ہیں ۔

۱۴)۔ مصنفہ اسی طرح جہاد کے حکم کو نشانہ بناتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ حکم ” لا اکراہ فی الدین “ کے منافی ہے ، اس کے باوجود وہ مانتی ہیں کہ یہ حکم ایک دفاعی اصول میں سے ہے اور پھر مسلمانوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ اسلام کے عالمی ہدف ( پوری دنیا پر حکمرانی ) کو فی الحال بھول جائیں ۔

۱۵)۔ وہ اسلام کے سلسلہ میں مغربی نظریہ اور ان کے نظریات پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب تک مسلمان ایک عام معاشرہ کے انداز میں رہیں تو مغرب کو بھی چاہئے کہ ان کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ رکھے۔

۱۶)۔ وہ پیغمبر اسلام کے دشمنوں سے مقابلہ کی مہارتوں کا ذکر کرنے کے بعدصدر اسلام کے مسلمانوں پر الزام لگاتی ہیں کہ ان کے مقاصد۔ جیسا کہ صلیبی جنگوں میں ہم نے دیکھا خالص دینی نہیں تھے۔

۱۷)۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ آج مسلمانوں میں تفرقہ اور انتشار کی وجہ سے دار السلام کا مفہوم ،سیاسی ہونے کے بجائے صرف دینی مفہوم میں بدل گیا ہے اسی لئے آج وحدت اسلام کی کسی بھی دعوت کو کوئی سننے والا نہیں ہے۔

۱۸)۔ وہ کہتی ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف ِ انسانیت کے اعمال کااسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

۱۹)۔ شیرین ہنٹر، احیائے اسلام کی تحریکوں کو تہذیبوں کے تصادم کی اصل وجہ بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ تحریکیں بھی خود اسلام کی خصوصیتوں کا نتیجہ ہیں ۔

۲۰)۔ وہ دین اور سیاست میں وحدت اور امت اسلامی کی متحدہ حکومت کے تصور کو دو افسانے قرار دیتے ہوئی دعویٰ کرتی ہیںکہ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) کی وفات کے بعد سے امت اسلامی کا وجود ہی نہیں رہا، اس کے باوجود اس بات پر زور دیتی ہیںکہ اس دو تصور نے اسلامی بیداری میں ان دو تصورون یعنی فکری عنصر اور مصلحتی عناصر جیسے اقوام کی تقسیم،اسلامی عناصر کی ہزیمت اور بنیاد پرستوں کی قدرت حاصل کرنے کی مسلسل کوششوں نے دیگر اسباب کی طرح اہم کردار ادا کیاہے۔

۲۱)۔ مصنفہ اپنے فرضیہ کے مطابق نظریہ دیتی ہیں کہ اسلام اور مغرب میں جنگ لازمی نہیں ہے، کیونکہ ان کے کہنے کے مطابق (جدید ماہرین مشرقیات کے دعویٰ کے بر خلاف )یہ تنازعہ صرف مکتب فکر اور اقدار کے عنصر پر منحصر نہیں ہے وہ لوگ اس مدعی کے تحت عالم اسلام کا صفایا چاہتے چنانچہ کرامر جیسے لوگ صدر جمی کارٹر پر شدید نکتہ چینی کرتے ہیں کہ کیوں انھوں نے ایران میں علماء کو پنپنے کا موقع دیا،برلمونز بھی انھیںنکتہ چینوں میں ہے لیکن اس نظریہ کے مقابلہ میں دوسرے گروہ بھی ہیں جنھیں مصنفہ ”جدید تیسری دنیا“ سے تعبیر کرتی ہیں جس میں بورگات جیسے لوگ شامل ہیں ،ان کے کہنے کے مطابق بین الاقوامی روابط کو برقرار رکھنے میںقدریں اور مصلحت دونوں عنصر موٴثر ہیں، نتیجہ میں ایک گونہ مصلحت پسندی سے کام لینے کی دعوت دیتے ہیں،محترمہ شیرین ہنٹر بھی اسی نظریہ کی تائید کرتی ہیں ۔

۲۲)۔ شیرین ہنٹر کے نزدیک اسلامی بیداری کے اسباب یہ ہیں:

اٹھارہویں صدی میں امت کے اتحاد میں دراڑ اور تعادل ومساوات پر استوار روابط کے بجائے فوقیت پسند تعلقات کا حاکم ہوجانا جس کے نتیجہ میں مخالفتوں کا بازار گرم ہوگیا(اسلام طلب تحریکوں کا آغاز چاہے خشک اور شدت پسندانہ صورت میں جیسے سلفیوں کی تحریک کی شکل میں اور چاہے اعتدال پسندانہ صورت میں جیسے اقبال ،سر سید احمد خان اور مرجانی جیسوں کے مکاتب فکر)

۲۳)۔ مصنفہ ،سید جمال الدین اسد آبادی اور محمد عبدہ کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے کہ یہ لوگ مصلح تھے یا منافق ،جمال الدین اسد آبادی کے سخت جواب کو نشانہ بناکر جو انھوں نے ”رینان“کے اسلام کے خلاف، حملوں کے جواب میں دیاتھا ،دونوں پر سابقہ تہذیب کو خراب کرنے کا الزام لگایا ہے اور زیادہ تر ان کے منفی پہلووٴں کو اجاگر کرتی ہیں، البتہ خود کہتی ہیں کہ اسد آبادی نے اس سلسلہ میں ”تقیہ“ سے کام لیا ہے۔

۲۴)۔ شیرین ہنٹر رقم طراز ہیں:انیسویں صدی کے نصف کے بعد سے سیاسی نقطہ نظر سے رہنماوٴں نے جدیدیت اور ماڈرنزم کی طرف رخ کیا جیسے ایران میں امیر کبیر ،ترکی میں عثمانی ،مصر میں محمد علی پاشا،نیز ۱۹۰۵ء میں ایران کے شرطہ انقلاب اور پھر ترکی میں جدیدیت کے انقلاب ۔وہ کہتی ہیں کہ اس زمانہ میں مسلم اصلاح پسند ایک طرف لا مذہب لوگوں سے تو دوسری طرف بنیاد پرستوں سے مقابلہ کررہے تھے۔

۲۵)۔ ۱۹۲۰ئسے ۱۹۷۰ ئتک لامذہب لوگ مکمل طور پر حاوی رہے اور لامذہبیت مسلمانوں پر تھوپ دی گئی جس کے نتیجہ میں ثقافتی امور میں انتشار اور متحدہ محاذ میں خلفشار پیدا ہوگیا۔وہ کہتی ہیں کہ کبھی قومی محاذ اسلام پسندوں کے ساتھ بائیں محاذ کے خلاف متحد ہوگئے۔ تو کبھی اسلام پسند بائیں محاذ کے ساتھ بنیاد پرستوں کے خلاف متحد ہو گئے اور کبھی مغربی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ اور عربی مدارس کے طالب علموں میں تنازعہ شدت اختیار کرگیا۔ اس خلفشار اور گہماگہمی میں ماڈرنزم بھی اپنی کوششوں میں ناکام رہا اور ہمیشہ دین اسلام پر پابندی سے عمل ہی راہ حل کے طور پر معتبر مانا گیا۔

۲۶)۔ وہ کہتی ہیں کہ ایران کے اسلامی انقلاب نے عوام میں تحرک پیدا کرنے کے لئے دینی امور کو استعمال کیا لیکن عوام کی خواہشوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا،اور یہیں سے وہ ایک اہم حقیقت یعنی دین اور سیاست میں جدائی سے روبرو ہوگیا۔

مصنفہ ڈاکٹر سروش کے نظریہ نسبیت کو بیان کرتے ہوئے اسے سر سید احمد کے نظریہ کے مشابہ بتاتے ہوئے کہتی ہیںکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں اصلاح ہوسکتی ہے۔

۲۷)۔ وہ اسلامی بیداری کے بیرونی اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے حکومت اسرائیل کی بنیاد ، ۱۹۶۷ء میں اسرائیل کے ہاتھوں عربوں کی شکست ،تیل کے ذخیرے ،افغانستان میں روس کی شکست اور ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کو بیان کرتی ہیں اور آخری سبب یعنی ایران میں اسلامی انقلاب کے بارے میں کہتی ہیں کہ ۱۹۸۸ ئمیں جنگ بندی سے ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔

۲۸)۔ اس کے بعد وہ کہتی ہیں کہ مذکورہ باتوں کی بنا پر مغرب کو اسلامی بیداری سے دشمنی ہے کیونکہ خود مغرب کی سیاست ایسی ہے کہ اسلامی بیداری کو مغرب سے دشمنی ہو ورنہ یہ تنازعہ اسلام کی مغرب مخالف خصوصیتوں کی وجہ نہیں ہے۔

اس بنا پر وہ ”برنارڈلویس“ اور ”دانیال بایبس“ جیسے جدید ماہر مشرقیات پر بھی نکتہ چینی کرتی ہیں جو اسلامی بیداری کی مغرب دشمنی کو خوف اور حسد کا نتیجہ سمجھتے ہیں ، وہ کہتی ہیں : حالانکہ اس بات میں کچھ سچائی ہے لیکن بالکل اس طرح ہے جیسے مغرب کو چین اور جاپان سے حسد ہے، حالانکہ دوسروں کا نظریہ ہے کہ مغرب کے ساتھ اسلامی تنازعہ ،خود مغرب کی سیاستوں کا نتیجہ ہے اور اس بات پر لامذہب لوگ بھی مسلمانوں کے ساتھ متفق ہیں ۔

۲۹)۔مصنفہ کتاب کے صفحہ ۱۴۹پر رقم طراز ہیں کہ ان مباحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ اسلامی بیداری مختلف زمان و مکان کی وسعتوں پر پھیلی ہوئی عملی اسلام کے تکامل کا وہ حتمی مرحلہ ہے جو معاشرتی ، معاشی ، سیاسی ، ثقافتی پیشرفت کے ساتھ ساتھ قہری طور پر غیر اسلامی دنیا کے مقابلہ میں ان کی طاقتوں اور مکاتب فکر سے استفادہ کرتے ہوئے نمودار ہوا ہے ۔

دوسرا مرحلہ اسلامی معاشرہ میں زیادہ سے زیادہ (سیکولرزم) کی ترویج اور اسلامی تعلیمات کو مغربی افکار سے ہماہنگ کرنا ہے۔

۳۰)۔ انھوں نے آخر میں اسلامی ممالک کی خارجہ سیاست کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ملکوں کے نظم و نسق میں صرف اسلام ہی دخیل نہیں ہے بلکہ مندرجہ ذیل امور ہیں ۔

الف۔ اسلامی ممالک کی سیاستوں میں اسلام کا اثر پہلے کی طرح کم ہی رہے گا اور مسلمانوں کی ایک متحدہ صورت عملی طور سے بعید ہے ۔

ب۔ ان ممالک کے مغرب کے ساتھ تعلقات کبھی کشیدہ تو کبھی دوستانہ رہیں گے ۔

ج۔ جب تک اسلامی ممالک اور غرب کے اختلاف میں دوسرے اسباب جیسے غرب کے مقابلہ میں طاقت کے توازن کا منفی رویہ ، کار فرما رہے گا عالم اسلام میں سکولاریسم کا نفاذ بھی تمام مشکلوں کو حل نہیں کر سکے گا البتہ بہت حد تک موٴثر ضرور ہوگا۔

د۔ غرب کی جانب سے اسلامی مسائل کے سلسلے میں سمجھوتہ کے ساتھ ساتھ عالم اسلام اور غرب کے تعلقات میں مثبت تعادل پیدا ہوگا ۔ گویا ہر ملک کے مادی منافع اور مصالح بھی ان تعلقات پر اپنا اثر چھوڑ یں گے۔

ھ ۔ عالم اسلام میں اپنے رسوخ کو پھیلانے میں غربی ممالک کی آپسی رقابت پہلے کی طرح جاری رہے گی۔

و ۔ غرب کے مقابلہ میں ایک نئی طاقت بن کر ابھرنے کا احتمال مسلمانوں کے مسائل کو مزید الجھا دے گا جب کہ اس احتمال کے نہ ہونے کی صورت میں شاید ان کے ساتھ نرم ، آسان اور مزید ڈھیل کے ساتھ موقف اختیار کئے جائیں ۔

تنقیدی نظر

کتاب کے مضمون پر ایک سر سری نظر ڈالنے کے بعد مندرجہ ذیل نکات کا ذکر مناسب ہوگا:

پہلا نکتہ

ہم ہر چیز سے پہلے ضروری سمجھتے ہیں کہ بعض تلخ حقائق کے اقرار میں مصنفہ کی ہمت اور شجاعت کی داددی جائے ، من جملہ:

الف۔ اس بات کا اقرار کہ فوجی برتری یا اس طرح کے ہتکنڈوں سے جیسے کہ نازیسم اور سوشلیزم شکست کھاگئے ، اسلام کو شکست دینا ممکن نہیں !

ب۔ یہ کہ عقائد و نظریات کو معاشرتی زندگی سے جدا نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ معاشرتی مسائل کو (چاہے غیر محسوس طریقہ سے )ایک خاص مکتب فکر کی بنیاد پر ہونا چاہئے ورنہ وہ بے مقصد اور بے بنیاد رہ جائے گا۔

ج ۔ غرب ان اقدار پر جن کا وہ مدعی ہے جیسے ڈیموکریسی اور انسانی حقوق ․․․ اگر اس کے منافع کے حصول میں کام نہ آئے تو کوئی خاص توجہ نہیں دیتا۔

د۔ لا مذہبیت چاہے وہ مسیحیت اور یہودیت کے طرز پرہی کیوں نہ ہو کبھی دینی نظام کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی ۔

ھ۔ وہ لوگ جو اسلام کے نقطہ نظر کو سطحی سمجھتے ہیں ، خود سطحیت کا شکار ہیں ۔

و۔ ہنٹنگٹن کے نظریہ کی دھجیاں اڑانا جو وہ کہتا ہے کہ اسلام برابری اور مفاہمت کی منطق سے نا آشنا ہے ۔

ز۔ حقوق بشر کے سلسلہ میں مسلمانوں کے غلط رویہ کا تعلق اسلام کی تعلیمات سے نہیں ہے ۔

ح۔ اس بات کا اقرارکہ لا مذہبیت ( لایئزم ) عالم اسلام پر تھوپی گئی ہے ۔

ط۔ یہ کہ مغرب اپنی سیاست میں حسادت اور کینہ پروری جیسے پست اخلاقی جذبوں سے کام لیتا ہے۔

دوسرا نکتہ

مصنفہ خیال کرتی ہیں کہ اگر یہ مسائل اسلامی اقدار کے موقفوں کی بنیاد پر ہیں تو مفاہمت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی لیکن اگر مصلحتی موقفوں کی بنیاد پر ہیں تو درمیانی حل تلاش کیا جا سکتا ہے لیکن اس سلسلہ میں بتا دینا ضروری ہوگا کہ حقیقت یہ ہے:

۱)۔ اسلام اپنے اغراض و مقاصد سے مربوط مصلحتوں کو بھی اپنا اقدار قرار دیتا ہے اور کبھی کبھی ان اقدار کو بہت سے احکام پر فوقیت بھی حاصل ہے۔

۲)۔ اسلام اپنے اندر بہت سے ایسے لچکدار عناصر رکھتا ہے جس سے امت اپنے کو زمان و مکان کے ساتھ منطبق اورخود کو دشواریوں سے نکال سکتی ہے من جملہ احکام اولیہ ، احکام ثانویہ ( اضطراری) اور احکام حکومتی کے مختلف مراتب جو اپنی اپنی خصوصیتوں اور معینہ شرائط میں لچک کی بنا پر حاکم اسلامی کو حالات کے مطابق فیصلہ لینے کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ تو ممکن نہیں کہ مغرب کے وحشیانہ رویہ کو ( جسے فوکویاما تاریخ کے تکامل کی انتہا سمجھتے ہیں ) اصل مسلم مان لیں اور پھر مسالمت کے نام پر اسلام سے کہیں کہ اس سے اپنے آپ کو ملاتے رہو! مثال کے طور پر فلسطینیوں سے کہا جائے کہ اپنی سر زمین ، اپنی شرافت یہاں تک کہ قابض صہیونیوں کے مقابلہ میںصلح و مسالمت بر قرار کرنے کی خاطر اپنی مقاومت کوبھی چھوڑ دیں !

یہ طرز فکر ہم نے مغربی قلم کار اور ان کے پیروکاروں میں بہت دیکھا ہے کہ وہ مغرب کو ترقی اور مدرنیزم کا ملاک اور معیار سمجھتے ہیں اور مدعی ہیں کہ عالم اسلام بھی اگر ترقی چاہتا ہے تو اسے اپنے کو مغرب جیسا بنانا ہوگا۔

جب کہ صحیح اور درست راہ یہ ہے کہ پہلے مستقبل بشریت کے خیر خواہ بیٹھیں اور ترقی یافتہ اصولوں کا تجزیہ کرکے معین کریں پھر دوسروں کو جن پر تسلط نہیں رکھتے سمجھائیں کہ حق کو مان لیں ، یہی وہ انسانی طریقہ ہے جسے منطق بھی اور اصلاح کے سلسلہ میں قرآن بھی تائید کرتا ہے۔

تیسرا نکتہ

اگر ہم مغرب کے سر براہوں کے بیانات ، تجزیے اور ان کے اظہار خیال پر جو انھوں نے ایک زمانہ سے مختلف سطح پر دیئے ہیں نظر ڈالیں تو یہی ملے گا کہ ان کے تمام ذکر و فکر اور ہم و غم اور تمام تر کوششیں اسلام کو ایسے تمدن کی صورت میں پیش کرنے پر مرکوز رہی ہیں جو اپنے خاص اقدار کی بنا پر مغربی قدروں کے مکمل خلاف ہے جس میں عنصر بقاء بھی نیز مسلسل پھیلنے کی صلاحیت اور دوسرے کے استحصال کو روکنے کی طاقت بھی ہے کہ جس کے نتیجہ میں ہر مغربی کے سر مشق پر پانی پھر جائے گا اور یورپ کے مسیحی گوروں کے تمدن کی برتری خاک میں مل جائے گی۔

یہ اندیشہ اور خلش برابر مغرب کے سیاستمداروں جیسے چرچیل ، دوگل برلسکونی ( اطالوی وزیر اعظم ) جارج بوش اور ان جیسوں کے خیالات ، تاریخدانوں جیسے توین بی ، فلسفیوں جیسے ویلیم جیمز اور قلمکاروں جیسے ہنٹنگٹں ، فوکویاما اور بریان کی زبانی کثرت سے بیان ہوا ہے ہم ان کثیر موارد میں سے صرف کچھ کا ذکر کرتے ہیں:

اٴ امریکہ کے سابق صدر ”ریچارڈ نکس “کا ایران کی توصیف میں ” ثابت قدم جزیرہ “ کہنا۔

اٴ اطالوی وزیر اعظم ” برسکونی “ کا عیسائی تمدن کو اسلامی تمدن پر فوقیت دینا۔

اٴ جارج ڈبلیو بوش کے زمانے میں امریکی سپریم کورٹ کے جج کا نہایت جسارت کے ساتھ ، مسیحیت اور اسلام کے خدا میں موازنہ کرتے ہوئے بیان دینا کہ مسیحیت کا خدا اپنے کو بشریت کے لئے قربان کر دیتا ہے جب کہ اسلام کا خدا اپنی بارگاہ میں بشریت سے ان کے بچوں کی قربانی مانگتاہے۔

اٴ بعض یورپی ممالک جیسے فرانس کا حجاب سے اسلامی بیداری کی علامت کے طور پر خوفزدہ ہونا ۔

اٴ امریکی صدرجارج بوش کا وہ بیان جس میں اس نے دہشت گردی کے خلاف حالیہ جنگ کو صلیبی جنگ کا نام دیا تھا جب کہ خود بھی اس کی رسوائیت سے گھبرا کے پھر کبھی دوبارہ اسے زبان پر نہیں لایا۔

اٴ اس بارے میں مسلسل اظہار خیال کہ اسلام مشرق وسطیٰ میں سویا ہوا ایک اژدھا ہے جسے بیدار نہیں ہونے دینا چاہئے ( من جملہ یہ بات جنرل دوگل کے وصیت نامہ یا یورپ کے مختلف اخبار جیسے لندن ٹایمز کے مورخہ ۱۹۸۷ءء ۔۴۔۲۹ کے شمارے میں درج کالموں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

ریچارڈ پرل پنٹیاگون کے مشیر جسے ” ڈیلی ٹلگراف “ اخبارنے دینی دانشور کا خطاب دیا ہے اور جارج بوش کی تقریروں کے محرک ڈیوڈ زام اپنی مشترکہ کتاب ” دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے اسباب “ میں رقم طراز ہیں کہ اسلامی بنیاد پرستی دہشت گردی کا سب سے بڑا سہارا ہے اور ہمیں اسے نشانہ بنانا چاہئے۔

غربی مطالعات اور تجربے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک گروہ ، مغرب کے حامیوں کو شخصیت بنا کر با قاعدہ ان کی پشت پناہی کر رہا ہے من جملہ امریکہ میں ” راند “ نامی ایک تحقیقاتی ادارہ ہے جو مغربی اقدار کے خلاف بنیاد پرستوں کو مٹانے میں مصروف ہے ( الامارات کا اخبار الخلیج شمارہ۹۷۱)

اسی اندیشہ کے باعث گزشتہ صدی کے اسّی اور نوّے کی دہائیوں میں شدت کے ساتھ ۱۹۹۷ءء میں امریکہ کی نئی پالیسی پیش کی گئی یہاں تک کہ کہا جا سکتا ہے کہ غرب میں گزشتہ صدی کی (اگر نہ کہا جائے کہ عرصہ دراز کی ) اکثر پالیسیاں اور بڑے اقدام اسی اندیشہ اور خدشہ کے تحت کئے گئے ہیں ۔ نیز گلوبلایزشین Globlazationکا یہ نعرہ بھی ، جو عالمی سطح پر کثرت سے وحدت کی طرف بڑھتے ہوئے فطری رجحان کو مغربی رنگ دینا اور دنیا کے جملہ تمام سیاسی ، ثقافتی ، معاشی اور معاشرتی امور کو امریکی بنانے کی کوشش بھی اسی اندیشے اور خدشے کی بنا پر ہے۔

اسی خدشہ اور اندیشہ کے تحت جسے مذکورہ مصنفہ شیرین ہنٹر حسد کے نام سے یاد کرتی ہیں ۔ مغرب نے طرح طرح کی پسماندگی ، تفرقہ ، انتشار اور لا مذہبیت کو عالم اسلام پر تھوپ دیا۔

پسماندگی ، عالم اسلام کے لئے غرب کا تحفہ ہے چاہے وہ علمی میدان میں ہو یا معاشی یا فوجی یا ثقافتی یا معاشرتی میدان میں ہوواضح سی بات ہے کہ مغرب ، بشریت کوتہذیب سکھانے کا اپنا دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے دوسروں کو محدود ترقی کا موقع دیتا ہے۔

البتہ ہم اس سلسلہ میں مسلمانوں کی کوتاہیوں پر پردہ پوشی نہیں کرنا چاہتے لیکن جو بات مسلم ہے وہ یہ ہے کہ مغرب نے عالم اسلام کو پسماندہ رکھنے اور ترقی کے فاصلوں کو بڑھانے میں ہر طرح کے حربے اپنائے ہیں تفرقہ اور انتشار کے سلسلہ میں بھی ، مغرب نے کبھی براہ راست تو کبھی غربی افکار سے متاثر اہلکاروں کے ذریعہ اہم کردار ادا کیا ہے ۔مذکورہ مصنفہ کی تحریروں میں عالم اسلام میں اتحاد سے خدشہ کی خلش کا صاف اندازہ لگایا جا سکتا ہے چنانچہ وہ اپنی کتاب کے آخر میں رقم طراز ہیں کہ اسلامی اتحاد اور امت اسلامیہ کا متحدہ وجود ، مستقبل میں بہت بعید نظر آتا ہے اور عالمی اسلام کا وجود ایک احساس ہے۔

لیکن گزشتہ صدی کے دوسرے حصہ میں عالم اسلام کے بین الاقوامی اداروں کی جانب سے اتحاد مسلمین کی دعوتوں نے مغرب کی تمام پیشنگوئیوں کو کھوکھلا ثابت کر دیا پھر پینترے بدل بدل کے بہت سی سازشیں رچی گئیں من جملہ اتحاد کے اصلی مفہوم کو کھوکھلا کرکے توڑنا مروڑنا اور اتحاد کے سلسلہ میں مسلمانوں کے شدید جذبات کی تسکین کے لئے اتحاد کو صرف ظاہری اور جذباتی حد تک محدود رکھنا ، غربیوں کا وتیرہ بن گیا ہے۔

یہ تفرقہ اندازی مختلف حربوں سے کی جا رہی ہیں کبھی قومی ، کبھی جغرافیائی ،کبھی لسانی ، تو کبھی مختلف طرز فکر کی بنیادوں پر امت اسلامیہ کو بانٹا جا رہا ہے ۔ شیرین ہنٹر ، حکومت عثمانیہ کے انہدام ، قومیت پرستی کے تنگ نظرانہ افکار کی ترویج اور اپنی ہی بنائی حکومتوں کے آپسی اختلاف کو ہوا دینے میں مغرب کے کردار کو نظر انداز کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ عالم اسلام کی معاشرتی ساخت کا بکھر نا اسلامی بیداری اور اسلام کی طرف پلٹنے کی تحریک کے اہم سباب میں سے ہے۔

لا مذہبیت بھی کہا جا سکتا ہے کہ بہت بری بلا ہے جس میں ہمارا عالم اسلام گرفتار ہے اور ایک مدت سے عالم اسلام کے ایک بہت بڑے خطہ پر حاوی ہے ، غرب مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعہ دین اور سیاست میں جدائی کی ترغیب اور ترویج کر رہا ہے چنانچہ خود مصنفہ بھی تسلیم کرتی ہیں ۹۱۲۰ءء ۔ ۱۹۷۰ءء میں یہ افکار عالم اسلام پر تھوپے گئے حالانکہ اپنے مقاصد کو پورا نہ کر سکے ، البتہ یہ شکست قہری تھی کیوں کہ عالم اسلام ، اسلامی تعلیمات سے دور ہونے کے باوجود بھی اپنے وجود کی گہرائی میں اسلامی جذبات اور احساسات سے مالامال ہے ،اس حقیقت کے ساتھ ایک اور حقیقت کا اضافہ کرنا چاہئے وہ یہ کہ اسلام دین حیات ہے ، اسے ثقافتی ، معاشرتی اور سیاسی میدانوں سے جدا نہیں کیاجاسکتا۔

یہ وہ حقیقت ہے جس کا مغربی مصنفین اور سیاستداں ہمیشہ انکار کرنا چاہتے ہیں اور امریکہ کے وزیر خارجہ کالن پاول کے مورخہ ۱۴/نومبر ۲۰۰۳ءء کے بیان میں صاف آیا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ عالم اسلام میں بھی دین اور سیاست میں جدائی کے حامی اس کی ترویج کر رہے ہیں یہاں تک کہ اسے علمی اور فلسفی رنگ دینے میں بھی مصروف ہیں ۔

مذکورہ کتاب کی مصنفہ شیرین ہنٹر بھی مغرب اور عالم اسلام کے تنازعہ کے سلسلہ میں معجزاتی راہ حل کے طور پر ان ہی افکار کو پیش کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ تمام تر کوششیں عالم اسلام میں سیکو لرزم کی ترویج کے لئے صرف کر دینی چاہئیں ، ان کے خیال میں کتاب اور سنت میں اسلام کا سیاسی نظام ، واضح نہیں ہے لہٰذا اسلامی معاشرہ ( لامذہبیت ، دین اور سیاست میں جدائی ) کو تسلیم کر ہی لے گا ، اس طرح سے مغرب کے ساتھ جنگ حتمی صورت اختیار نہ کرے گی اور یہ کہ اسلام میں بین الاقوامی روابط کے سلسلہ میں کوئی جامع اور عالمی نظریہ نہیں پایا جاتا اور حکم جہاد بھی دین میں زور زبردستی نہ ہونے کے مسلم قانون کے خلاف ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ عالمی سطح پر اسلام کو نافذ کرنے کی فکر کو چھوڑ دیں اور اسلامی بیداری کی تحریک کو جو لائیسم ( لامذہبیت ، دین اور سیاست میں جدائی ) کے خلاف ہے خود مسلمان ٹھکرا دیں کیوں کہ اس طرح تہذیبوں میں تصادم کا سبب بنے گا لہٰذا عالم اسلام کو چاہئے کہ اپنے اقدار کو اپنے مصالح اور مفادات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے اور دوسری بات یہ کہ دین اور سیاست میں جدائی ایسی حقیقت ہے جس سے ایران کا اسلامی انقلاب بھی رو برو ہوا اور اسے تسلیم کرنا پڑا۔

دوسری طرف جدیدیت نوازوں کے اصلاح پسندانہ نظریہ ” نسبیت “ کے تحت اسلام میں اصلاح خاص کر ( لامذہبیت ، دین و سیاست میں جدائی ) ممکن ہے ، وہ لوگ اسلام اور مغرب میں میل جول کو اسلام کے سب سے بڑے معاشرہ میں ( لا مذہبیت ، دین اور سیاست میں جدائی ) کے تحقق میں دیکھ رہے ہیں چنانچہ مذکورہ دو حقیقتوں کے پیش نظر یعنی ایک طرف عالم اسلام کی گہرائیوں میں شدید اسلامی رحجانات تو دوسری طرف اسلام کا زندگی کے مختلف پہلوؤں سے جدا نہ ہونا ایسی حقیقتیں ہیں جس کی وجہ سے عالم اسلام میں دین و سیاست کو جدا کرنے کے سلسلہ میں تمام کوششیں باطل اور نا کام رہ جائیں گی۔

اے کاش ! اس قسم کے جدید مفکرین اس بات کو کہ دینی نظام کسی بھی حالت میں (لا مذہبیت،دین و سیاست میں جدائی ) کے ساتھ متفق نہیں ہو سکتا، سنجیدگی سے غور کرتے اور پھر اظہار خیال کرتے تو ہمارے نقطہٴ نظر کو بہتر سمجھ پاتے مگر یہ کہ اسلام کے خصوصیات اور اس کے نظام کو سلب کر لیا جائے اور اسے صرف اخلاقی سطحی تعلیمات سمجھا جائے جو کہ نا ممکن ہے ۔

اسلام انسان کے ہر کردار اور اعمال کے سلسلہ میں ایک خاص حکم رکھتا ہے جو لوگ اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہیں جانتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے قول کے مطابق ہر چھوٹے سے چھوٹے واقعہ کے لئے بھی کتاب اور سنت میں حکم خدا وندی موجود ہے ۔ ۱۶ اور جب تک انسان اسلامی احکام کا پابند نہ ہو اسے مسلمان نہیں کہا جا سکتاآیت ( نساء / ۶۵) ”لیکن نہیں !تمھارے پرور دگار کی قسم وہ لوگ ایمان نہیں لا سکتے جب تک کہ تمھیں اپنے اختلافی امور میں حَکَم نہ بنائیں پھر ان کے دل میں تمھارے حکم کے سلسلہ میں تزلزل نہ پایا جائے اور اسے کامل طور سے تسلیم کر لیں“۔

چوتھا نکتہ

اسلامی بیداری بنیادی طور سے تین عنصر یعنی ، پسماندگی ، تفرقہ اور لا ئیزم ( لا مذہبیت ، دین اور سیاست میں جدائی ) کے رد عمل میں اور اسلام کی طرف اس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ پلٹنے کی خاطر ظہور میں آئی ہے ، اسلام ترقی کا دین ہے اور ہر طرح کے علم حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے نیز امت اسلامیہ سے چاہتا ہے کہ اقتدار کے ہر عنصر کو اپنے اندرپیدا کریں اور بہترین امت ہونے کے لئے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لائیں اور دنیا کی قوموں میں سب سے آگے رہیں ، پسماندگی ، قطعی ایک غیر فطری حالت ہے ۔

اسلام ، دین اتحاد ہے اتحاد کا اسلامی موقف بھی بالکل واضح ہے ، قانون ایک ہے ، رہبر ایک ہے ، احساسات ، جذبات و شعار اور عبادات بھی ایک ہیں ، امت کا سر مایہ بھی تمام امت کی ملکیت ہے مسلمانوں کے حقوق بھی مساوی ہیں بلکہ بعض تو مالکیت میں بھی مشترک ہیں معیشتی لحاظ سے بھی مساوات اور معاشرتی حقوق تمام مسلمانوں کو شامل ہے تمام مسلمان امت واحدہ نیز اس کے حدود کی پاسبانی میں یکساں ذمہ دار ہیں ۔

لیکن موجودہ حالات او راس کے اسباب سب کے سب غیر فطری ہیں اور اسے ختم کرنے اور اسلام کی واقعیت کی طرف پلٹنے کے لئے ہر ایک پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، کوئی عالم یا اسلام کی حقیقتوں سے واقف ، کوئی عام آدمی بھی ایسا نہیں ہے جو اس روشن حقیقت کا انکار کرے ۔

اسلام ( جیسا کہ گزر چکا ) دین حیات ہے اور ممکن نہیں کہ لائیزم کے ساتھ چاہے کسی بھی تعریف یا کوئی سے بھی مثبت یا منفی اوصاف کے ساتھ جمع ہو جائے لیکن موجودہ حالات کی بناء پر اگر کوئی مدعی ہوتا ہے تو وہ ظاہری فریب کے سوا کچھ نہیں کیوں کہ یہ نظریے اسلام پر تھوپے گئے ہیں اور اسلامی حقائق کے منافی ہیں ۔

ہو سکتا ہے محترمہ شیرین ہنٹر کے بعض جملات اور بیانات سے ہم متفق ہوں اور توفق پسندی کے عنصر کو خاص طور سے اس تنازعہ اور جنگ کا سبب قرار دیا جائے لیکن اس کے باوجود یہ جان لینا چاہئے کہ برتری طلبی ایک فطری جذبہ ہے جو اگر اصلاحی رقابت کی صورت میں ہو تو یہی بشری زندگی کے ہر میدان میں تکامل اور ارتقاء کا سبب ہے البتہ اگر منفی صورت اختیار کر لے اور قہر ، زبردستی اور دوسروں کو نابود کرنے پر تل جائے تو یہی ویرانی اور ستمگری کا سبب ہے ۔

وہی جو گلوبلائیزیشن کے نام پر اسلام اور مغرب کے تنازعہ کی صورت میں دکھ رہا ہے ۔ اس بنا پر اسلامی بیداری ، اسلامی تہذیب کی برتری چاہتی ہے اور اس بات سے دوسروں کو خلش نہیں ہونی چاہئے خاص طور سے وہ لوگ جو اپنے کو رقابت پسند سمجھتے ہیں ظاہر ہے اس جذبہ کی توسیع دوسروں میں بھی ہونی چاہئے ۔

اس بیداری کے اسباب کے سلسلہ میں بھی ہمیں توقع نہیں ہے کہ مصنفہ اس کے حقیقی اسباب کو بیان کریں ، وہ چوں کہ ایسا نہیںکر سکتیں تو کچھ جزئی اور غیر اہم اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے نہایت سطحی انداز میں نظریہٴ حسد اور روابط میں تبدیلی اور اس قسم کے اسباب کو ذکر کرتی ہیں جب کہ اس کے حقیقی اسباب ( حقیقتوں کے تجزیہ کی روشنی میں ) یہ ہیں :

ژ ۱)۔ اسلام کی اندرونی طاقت اور لا فانی عظیم قدرت ، مسلمانوں میں انقلاب کے جذبوں کو ابھارتی ہے اور اپنی تہذیب کی حفاظت کی دعوت دیتی ہے اور اس سے اہم یہ کہ ہمیشہ اس کی برتری کو برقرار رکھنے یا اس برتری کو دوبارہ حاصل کرنے کی ہدایت دیتی ہے ۔ اس سے پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ نیست و نابود کرنے کی تمام روشیں ، وقتی نتائج کی حامل ہیں کیونکہ اسلام ذاتی طور پر اتحاد کی دعوت دیتا ہے اور لائیزم ( لا مذہبیت ، دین اور سیاست میں جدائی ) کو مسترد کرتا ہے ، مصنفہ (شیرین ہنٹر) اس اہم سبب کو بیان کرنے میں مردد ہیں کبھی اعتراف کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں تو کبھی اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرنے لگتی ہیں ۔

ژ ۲)۔ عالم اسلام پر مغربی یلغار میں اضافہ ، اس طرح سے کہ مغرب نے عالم اسلام کے ذخائر کو نشانہ بنایا اور اسلامی ممالک کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کیا ، مسلمانوں کی ثقافتی پہچان کو مٹانے کی کوشش کی ، یہاں تک کہ اسلام کے اخلاقی اور عقیدتی بنیادوں پر بھی حملہ آور ہوئے اور اخلاقی بدعنوانیوں کو پھیلانے اور مسلمانوں کی معاشرتی ساخت کو توڑنے میں اپنے حقیقی یا ثقافتی نوکروں کے ذریعہ بھر پور کوششیں کیں ( عالم اسلام کے قلب میں غاصب صہیونیوں کی حکومت کو قائم کردیا ) بے شک اس قسم کے حملوں کے رد عمل میں ( نیست و نابود کرنے کی ساری ممکنہ کوششوں کے با وجود ) وہ امت ضرور جواب دے گی جس میں اسلام زندہ اور پائندہ ہے ۔

اس سبب کے مختلف پہلو اتنے واضح اور آشکار ہیں اور کسی سرزمین کے قبضہ کے رد عمل میں مقاومت کا ہونا اتنی واضح سی بات ہے کہ ہم مزید اس سلسلہ میں گفتگو کر کے بات کو پھیلانا نہیں چاہتے خود غرب بھی اس حقیقت سے آگاہ ہونے کی بناء پر کچھ اسلامی ملکوں کو ظاہری آزادی دے کر اور کچھ سہولتیں فراہم کرکے اپنے اس کام پر پردہ پوشی کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس کی بناء پر اسلامی بیداری کو مزید پھیلنے کا اور موقع مل گیا لہٰذا ۶۰ کی دہائی میں اسلام کی عالمی فکر سامنے آئی اور ۷۰ ، ۸۰ کی دہائیوں میں مغرب کے لئے ایک خطرہ بن کر نہایت وسیع پیمانہ پر پھیل گئی ۔

ژ ۳)۔ مقاومت اور جہاد کی فکر کو بدلنے کے لئے تمام منصوبوں کی نا کامی ، کیونکہ ہر منصوبہ میں اس کی شکست کی وجہ اسی میں پوشیدہ تھی ۔

تنگ نظرانہ قوم پرستی کا منصوبہ ، اپنے طمطراق نیز تیزی سے پھیلنے اور غرب کے بہت سے اغراض کو پورا کرنے اور ترکی جیسے کئی ممالک میں بہت سے اسلامی اقدار کو پامال کرنے کے باوجود ، آخر کار ناکام رہا کیونکہ اسلامی فطرت جو قومیت اور عصبیت کی خود ساختہ حدود سے کہیں وسیع ہے ، قوم پرستی سے مطابقت نہیں رکھتی ۔

شوشلیزم بھی نا کام ہو گیا حالانکہ اس کے بعض نعرے جیسے معاشرہ میں عدالت ، محروموں کی حمایت ، استعمار سے بغاوت ، اسلامی تعلیمات سے منطبق تھے لیکن چوں کہ الحادی بنیادوں پر استوار تھے لہٰذا ناکام رہے ، اس کی مرکب شکل یعنی قومی شوشلیزم کو بھی نا کامی کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ یہ جوڑ بھی غیر واقعی ہونے کے ساتھ ، اسلامی نقطہٴ نظر سے بھی بے ربط تھا اور کسی خاص مکتب کی عکاسی نہیں کرتا تھا ۔

میں اس مقام پر یہ چاہتا ہوں کہ اپنے استاد محترم شہید محمد باقر الصدر ۺکے اس سلسلہ میں بہترین تجزیہ کو پیش کروں وہ فرماتے ہیں امت اسلامیہ کے پاس پسماندگی اور اپنے انتشار پر قابو پانے کے کارزار میں اور بہتر و بر تر مقام مستحکم وجود ، غنی اور خوشحال معاشی نظام حاصل کرنے کے لئے ، سیاسی اور معاشرتی تحریکوں میں مختلف راہوں کو آزماتے اور شکست کھاتے ہوئے ، سوائے راہ اسلام کے اور اسلام کی ترقی یافتہ تعلیمات کو اپنانے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے ۔

جب سے عالم اسلام نے مغربی طرز زندگی کو اپنا نصب العین بنا لیا اور اپنی عظیم رسالت اور بشریت کی زندگی پر اپنی امامت پر ایمان رکھنے کے بجائے غرب کی فکری رہبری اور تہذیب کے کاروان میں ان کی امامت کو قبول کر لیا تو اپنی زندگی کو اسی سانچہ میں ڈھال لیا جس میں مغرب نے دنیا کو معاشی اعتبار سے روایتی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا تھا یعنی معاشی ترقی یافتہ اور فقیر و پسماندہ اور تمام عالم اسلام کو دوسرے حصہ میں یعنی فقیر و پسماندہ قرار دیا ۔آپ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ عالم اسلام کے گمان میں راہ نجات اور اس معیوب حلقہ سے نکلنے کا راستہ غرب کی پیروی میں ہے ، اسی لئے اسلامی ممالک نے سیاسی اور معاشی اعتبار سے دو نظام یعنی شوشلیزم یا سرمایہ داری کی اپنے خاص دلائل اور وجوہات کی بناء پر پیروی اختیار کر لی ۔ اس کے بعد آپ ان لوگوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے جو کسی بھی لائحہ عمل کے اجراء میں امت کے نفسیاتی پہلو کو نظر انداز کردیتے ہیں ، فرماتے ہیں:

”استعمار کی خود ساختہ نفسیات کے پیش نظر امت اسلامیہ کے پاس اس سے اور استعمار کی ہر چیز سے دوری اختیار کرنے کے لئے اپنی جدید نہضت کو استعمار کی تہذیب سے مستقل ہوکے اپنے معاشرتی نظام کے مطابق ڈھالنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے “۔ راہ حل کے طور پر نیشنلیزم کو ایک مکتب فکر اور تہذیب کی بنیاد کا درجہ دے کر پیش کیا گیا جب کہ نیشنلیزم ، نہ کوئی مکتب فکر ، نہ کوئی بنیادی عقائد کا مجموعہ ہے بلکہ صرف ایک تاریخی اور لسانی جوڑ ہے ، اسی بناء پر عالم اسلام کے بعض ممالک ” عربی شوشلیزم “ کا نعرہ لگانے لگے تاکہ ایک بیگانہ واقعیت یعنی تاریخی اور فکری شوشلیزم سے گریز کر سکیں لیکن کبھی کامیاب نہ ہو سکے اور اس سلسلہ میں بڑھتی ہوئی امت کی حساسیت کونہ روک سکے کیوں کہ یہ بنایا ہوا سانچہ اس سے کہیں کمزور تھا کہ ایک بیگانہ مفہوم کو چھپا سکتا ․․․ عربی شوشلیزم کے مدعی ، عربی ایرانی اور ترکی شوشلیزیم میں جوہری فرق کو بھی نہیں تمیز دے سکتے ، آپ مزید کہتے ہیں ”عربی شوشلیزم کے مدعی اپنے شوشلیزم کو عربی سانچہ میں ڈھالنے کے باوجود اس کے مضمون کو ایک نئی شکل دینے میں ناکام رہے “ ۔ شہید نے اس موقف کو اختیار کرکے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا جسے ہم بیان کر چکے ہیں ، اور وہ یہ کہ دور استعمار کی نفسیات کے پیش نظر امت اسلامیہ ناچار ہے کہ اپنی جدید تحریک کو ایسی مضبوط بنیادوں پر رکھے جس کا تعلق استعماری ممالک سے نہ ہو“ ۔ آپ ان اغراض کی تکمیل میں اسلام کی طاقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” عالم اسلام میں استعماری کوششوں سے پھیلتے ہوئے انتشار ، ضعف اور کمزوری کے با وجود یہ طاقت ابھی بھی صحیح نقطہٴ نظر کی تعین ، ایک موقف ، ایک راہ اختیار کرنے ، جذبات کو ابھارنے اور کوششوں کو بار آور کرنے کی حیرت انگیز تاثیر رکھتی ہے “۔ ۱۷

ہم پھر مصنفہ ( شیرین ہنٹر)کی طرف پلٹتے ہیں:وہ کبھی اس سبب کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں کہ لائیزم ان پچاس برسوں میں زبردست کامیابی کے باوجود اپنے تمام اغراض و مقاصد کو پورا نہ کرسکا اور ابھی بھی مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات کی پابندی واحد راہ حل کے طور پر مانی جارہی ہے ۔

ژ ۴)۔ عظیم روشنگر شخصیتوں کا آنا جنھوں نے اس بیداری کے پیدا کرنے یا اس کے مقدمات کو فراہم کرنے اور اسے صحیح رخ دینے اور اسے حماسی وفکری قدرت بخشنے اور لوگوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے اور ایک روشن مستقبل کی امید کی کرن دکھانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے ۔البتہ اس کے ساتھ ساتھ مومنین اور مستضعفین کی تمام دنیا پر کامیابی اوردنیا پر عدل و انصاف کے نفاذ کا الٰہی وعدہ اور مصلح موعود کے ظہور پر ایمان بھی شامل ہے ۔

ان شخصیتوں میں بہت سی بزرگ ہستیوں کا نام لیا جا سکتا ہے ، من جملہ : سید جمال الدین اسد آبادی ( افغانی) جن کے کردار پر مصنفہ نے کافی انگلیاں اٹھائی ہیں نیز مرحوم محمد عبدہ ۔ ان کے بارے میں بھی مصنفہ نے بہت کچھ کہا ہے اور انھیں ان کے شاگردوں میں سکولرزیم کے رجحان کا سبب قرار دیا ہے اور مرحوم مرزا نائینی ، مرحوم کاشف الغطاء ، امام خمینی ۺ مرحوم سید قطب ، شہید محمد باقر الصدر ۺ، استاد شہید مطہری ، مرحوم غزالی ، شہید ڈاکٹر بہشتی اور بہت سی دیگر ہستیاں ․․․

ژ ۵)۔اہم بڑے حوادث اور واقعات کا بھی اسلامی بیداری کے شعلوں کو مزید بھڑکانے میں بہت بڑا کردار ہے ، من جملہ :

۱۔ مواصلاتی وسائل میں ترقی اور ملٹی میڈیا کا انقلاب۔

۲۔ اسلامی تعلیمات کی سطح میں اضافہ۔

۳۔ تبلیغ اسلام کے اسلوب میں ترقی۔

۴۔ عالم اسلام میں بعض آزادی کا فراہم ہونا۔

۵۔استعمار مخالف تحریکوں میں اضافہ۔

۶۔ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والی عالمی تنظیموں کا قیام اور بین الاقوامی روابط کو انسانی اصولوں پر استوار کرنے کی دعوت۔

۷۔بعض دردناک حوادث کا وقوع جیسے -: مسجد اقصیٰ میں آگ لگانا یا ۱۹۶۷ءء میں اسرائیل سے عربوں کی شکست۔

۸۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی عظیم کامیابی اور افغانستان میں افغانی مجاہدوں کی روس پر فتح۔

۹۔ روس کا زوال اور وسطی ایشیاء کے اسلامی ممالک کی رہائی اسی طرح دوسرے حوادث اور واقعات نے اس اسلامی بیداری کی توسیع اور ا س کے مفاہیم مطالبات جیسے پسماندگی ، انتشار اور سکولرزیم کے خلاف دعوت عمل اور اس اسلام کی طرف پلٹنے کی دعوت جو واحد راہ حل ہے۔

نیز اس جیسے تمام مطالبات کی ترویج میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے ۔

یہاں پر اس بات کی یاد دہانی کرانا ضروری ہوگا :

غرب اس اسلامی بیداری کو ناکام کرنے، اس سے مقابلہ کرنے ،اسے مشغول کرنے اور اس پر پسماندگی ، بنیاد پرستی قدامت پرستی، شدت پرستی، بربریت، دہشت گردی ، آزادی ، ڈموکریسی اور حقوق بشر کے خلاف ہونے کی تہمتیں لگانے کی کسی بھی کوشش سے باز نہ آیا ۔

البتہ مسلمانوں میں بھی ایسے افرادتھے جو اس سلسلہ قدامت پرستی کی فکر کے حامل تھے اور مغرب کو بولنے کا موقع فراہم کیا کرتے تھے ، یا شدت پسندی کا شکار ہو کر کبھی کبھی ٹرورسٹی اقدامات بھی انجام دیئے یا آزادی اور ڈیموکریسی اور حقوق بشر کے خلاف سر گرمیوں میں مصروف ہو گئے لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس قسم کے لوگ نہ صرف یہ کہ لائیکی اسلام ( سیاست سے جدا اسلام ) کے نمائندہ نہیں ہیں بلکہ ان کے اعمال و کردار ، روح اسلام اور اس کی تعلیمات سے منافی ہیں اور اسلامی بیداری کی صحیح تحریک کے بھی نمائندہ نہیں ہیں اور خود مصنفہ بھی اس بات کی طرف کاملاً متوجہ ہیں ۔

پانچواں نکتہ

اسلامی بیداری کا مستقبل

اس بیداری کے مستقبل کی وہ تصویر جو مصنفہ پیش کرتی ہیں مغرب کے اغراض سے تقریباً ملتے جلتے رجحانات کے ساتھ ایک مبہم اور تاریک تصویر ہے ، وہ تصویر جو زندگی میں اسلام کے اہم کردار کو کم کرنے اور اسلامی ممالک کے موقفوں میں تنگ نظری ، منافع کے ٹکراؤ اور سکولرزیم کی توسیع کے سبب، انتشار پیدا کرنے کے لئے پیش کی گئی ہے ۔یہ جانتے ہوئے کہ یہ سب عالم اسلام کے کسی درد کی دوانہیں ہے اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ عالم اسلام ، مغرب کے ساتھ قدرت کے توازن میں شدیداً منفی رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔

اس صورت میں مصنفہ کے خیال میں بہتر یہی ہوگا کہ عالم اسلام اس طاقت کے آگے تسلیم ہو جائے اور اپنی حیثیت ” پسماندہ تیسری دنیا “ میں ہی اکتفاء کرے ، گویا اسی کے ساتھ ساتھ مغرب کو بھی گوش زد کر رہی ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عالم اسلام کو ترقی اور پیشرفت کا موقع دے کر برابری اور رقابت کی اجازت دے دی جائے کیوں کہ اس طرح عالم اسلام اور مغرب میں مسائل اور ان کے توقعات اور امیدیں اور بڑھ جائیں گی جب کہ اگر وہ اسی طرح پچھڑے رہیں تو ان کے تسلیم ہونے کا امکان زیادہ ہوگا۔

یہ وہی نتیجہ ہے جسے مصنفہ نے اپنی کتاب کے آخر میں دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ مغرب کے کسی حد تک معتدل مصنفین کا نظریہ یہی یا اس سے ملتا جلتا ہے اور ان کے شدت پسندوں جیسے ویلیم جیمز اور ہنٹنگٹن کا نظریہ وہی ہے جو جنگل کے قانون کے مطابق عالم اسلام سے تصادم اور ان پر قہر آمیز کاری ضرب لگانے اور ان سے کسی طرح کے تعاون نہ رکھنے کی رٹ لگائے ہوئے ہیں بہر حال ہمیں مصنفہ کے نظریہ سے بھی سراسر اختلاف ہے ۔

ہماری نظر میں اسلامی بیداری کے مستقبل کی تصویر کچھ یوں ہے :

۱۔ اسلامی بیداری کی تحریک میں توسیع اور اس کا گہرا استحکام اس طرح سے کہ اب اسے ختم کرنا یا اسے توڑنا یا اس میں تبدیلی پیدا کرنا ممکن نہیں ہے۔

اس بات کی دلیل میں ، اپنے دینی عقیدے سے قطع نظر حالانکہ ہمیں پورا ایمان ہے، بیداری کی اس لہر کو جو تمام عالم اسلام میں پھیل گئی ہے اور عوام کی امیدیں اس سے دن بہ دن پڑھتی چلی جا رہی ہیں اور اسلامی سنت و آداب کی پابندی جو شدت سے پھیل رہی ہے اس قسم کے امور کو پیش کیا جا سکتا ہے من جملہ :

حجاب، اسلامی تعاون ، زندگی کے تمام امور میں اسلامی احکام کے نفاذ کے لئے عوام کا شدید مطالبہ اور سیاسی معاشرتی میدانوں میں اس کا پرزور اقدام نیز سیکولر نظریہ کا دن بہ دن زوال اور فلسطین میں فلسطینیوں کے درمیان ، اسی طرح دیگر محاذوں میں اسلام کے سوا ہر چیز سے مکمل مایوسی ، نیز مسلم دانشوروں اور عوام میں اتحاد و برادری اور مذہبوں کی آپسی قربت کی طرف بڑھتا ہوا رجحان ، اسی طرح پسماندگی سے نجات کے لئے ہر سطح پر باہمی بھر پور کوشش اور ․․․۔

۲۔ اسلامی ممالک میں باقاعدہ آپسی تعاون کے لئے بڑھتا ہوا رجحان اور عالمی اداروںکی باہمی سر گرمیوں کو تقویت دینے کے لئے جدید لائحہ عمل تیار کرنے کی کوشش اور ہر ایک کو مشترک خطرہ کا احساس ۔

یہ بات کہتا چلوںکہ ہم کسی خوش فہمی کے شکار نہیں ہیں لیکن ہاں !مسلمانوںکی اکثریت میں اس رجحان کے سلسلہ میںپورا علم رکھتے ہیں اور امید ہے کہ ایک دن یہ ضرور محقق ہو گا خاص کر یہ کہ اب ہر چیزحکومتوں اور صاحبان اقتدار کے ہاتھ میں نہیں ہے اور اس سلسلہ میں عوام بھی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔

۳۔ ہر میدان میں عالم اسلام کی اہمیت میں اضافہ اگر چہ کبھی کبھی اس اہمیت کو کما حقہ محسوس نہیں کیا جاتا لیکن ا س کے با وجود یہ ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیںکیا جا سکتا یہ امت ،ایک عظیم افرادی قوت ، دنیا کے سب سے اہم امکانات ،نہایت اہم جغرافیائی موقعیت نہایت اعلیٰ سطح کی علمی صلاحیتوںاور سب سے اہم اسلامی تہذیب کی لازوال ابدی عظیم طاقتوںسے پوری طرح بہرہ مندہے اور آخری بات یہ کہ :

میرے خیال سے عالم اسلام کو بے حساب امکانات اورمستقبل کوسنوارنے کی عظیم طاقت کے باوجود ایک ایسے لائحہ عمل کی ضرورت ہے جو گزشتہ سے عبرت حاصل کرتے ہوئے روشن مستقبل کے لئے اپنے موجودہ امکانات کو علمی طریقہ سے بروئے کار لا سکے ، اس لائحہ عمل میں دو چیزوں کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے :

الف۔ امت کو قرآنی مفاہیم سے جوڑنا اور معاشرہ کو اس پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دلانا، نتیجہ میں ہماری اس عظیم کتاب ہدایت سے مطلوبہ مطابقت اسی عظیم درجہ کے شایان شان ہے جسے پروردگار عالم نے اس امت کو بشریت کی رہبری اورپیشوائی کے لئے قرار دیا ہے بشری تہذیب کے کاروان میں امت کی ہمراہی اور اسلام کے اتحاد میں اس کی تعلیمات ایک طرف تو ترقی یافتہ علمی اساسوں کے مطابق ہو اوردوسری طرف اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے ہر طرح تیار ہو۔

ب۔ تعلیم و تربیت کے نظام کا ثقافتی اور تبلیغی سر گرمیوں کے عین مطابق ہوناکہ ان تین میدانوں میں ترقی دوسرے میدانوں میں ترقی کے بغیر ممکن نہیں ہے اوران میدانوں میں بھی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ دینی بنیادوں اوراصولوں پر بدلتے ہوئے عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے زمانے کے مطابق ،ایک روشن اور دینی ثقافت جو لوگوں کی زندگی کو پروردگار عالم سے جوڑ دے اور ایک جامع اور کامل تبلیغی نظام کے ساتھ صحیح تربیت عمل میں آئے ،الٰہی توفیقات اور پرور دگار عالم کی ہدایات کے ساتھ۔

 


source : http://www.taghrib.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

انبیاء کی خصوصیات
انمول انفاق کی د س لازمی شرطیں
حضرت عباس کربلا میں شجاعت کا نمونہ
اپنے آقا امام حسین علیہ السلام کو سلام
قرآن و ماہ رمضان
از نہج البلاغہ
امامت آیہ ابتلاء کی روشنی میں
قیام حسین اور درس شجاعت
ایران کا نیوکلیر معاہدہ ۔۔۔۔ مجرم کے سر منصف کا ...
نفس كى تكميل اور تربيت

 
user comment