اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

شاہ چراغ(۲)

شاه چراغ کا جسد جاوداں

 

یہ اطلاع پا کر پیر عفیف الدین تشریف لائے ۔ غسل فرما کر صاف و معطر لباس زیب تن کیا اور تہہ خانہ میں داخل ہو گئے ۔ چند قدم ہی چلے کہ ایسا نور ظاہر ہوا جس سے اس علاقہ سے اندھیرا غائب ہو گیا اور سب جگہ روشنی ہو گئی ۔ پیر صاحب نہایت ہیبت زدہ حالت میں وسیع تہہ خانہ کے درمیان پہنچے ۔ تہہ خانہ کے عین وسط میں ایک تخت پر سیدنا میر احمدجسدِ اقدس پہ مخمل کی سفید چادر اوڑھے، خون میں لت پت، محو آرام تھے ۔ امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک ہوا اک موئے تن میلا نہ اک تار کفن بگڑا پیر صاحب تخت کے قریب پہنچے تو حضرت سیدنا میر احمد نے کپڑے کے نیچے سے اپنا دایاں ہاتھ باہر نکالا ۔ ہاتھ میں انگشتری تھی ۔ پیر عفیف الدین کو نزدیک آنے کا اشارہ فرمایا۔ پیر عفیف الدین ان کے قریب جا کر تسلیمات بجا لائے اور آنحضرت کے دست و پا چومے ۔ انگشتری ان کی انگلی سے اتار کر واپس ہوئے ۔ باہر تشریف لائے تو درباریوں نے امیر عضدالدولہ کو اطلاع دی ۔ امیر نے پیر صاحب کا استقبال کیا اور بہت ہی عزت کی ۔ امیر نے حالات دریافت کئے ۔ پیر صاحب نے جو کچھ دیکھا تھا اسی طرح بیان فرما دیا ۔ نقش انگشتری کو پڑھا گیا تو اس پر احمد بن امام موسیٰ کاظم نقش تھا ۔

امیر نے حکم دیا کہ شہر میں نقارہ بجا کر اعلان عام کردیا جائے کہ تمام فقرا ء و مساکین کو بطور شکرانہ کھانا کھلایا جائے گا ۔ قیدیوں کو عام معافی دے دی گئی ۔ امیر نے انگشتری پہننا چاہی تو پیر صاحب نے منع کر تے فرمایا،’’یہ فعل ادب و احترام کے خلاف ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ انگشتری کو خزانے میں رکھا جائے تاکہ خزانے میں برکت ہو اور مخصوص بڑے ایام میں بطور تبرک اس کی زیارت کروائی جائے ۔ امیر عضدالدولہ نے حکم کی تعمیل کرتے انگشتری ایک مرصع صندوق میں رکھ کر خزانچی کے سپرد کر دی ۔ یہ انگشتری طویل عرصہ اس خزانے میں محفوظ رہی اور خاص خاص دنوں میں بطور تبرک اس کی زیارت کروائی جاتی تھی۔ ایام جنگ میں اس انگشتری کی برکت سے فتح نصیب ہوتی ۔

عنایات شاہچراغ

ایک مرتبہ کسی خاص موقع پر انگشتری کی ضرورت محسوس ہوئی ۔خزانچی نے بہت تلاش کی مگر نہ ملی ۔امیر عضدالدولہ بہت پریشان ہوا اور غضبناک ہو کر خزانچی کے قتل کا حکم جاری کر دیا ۔ خزانچی کو اپنی موت سامنے دکھائی دینے لگی تو بھاگ کر حضرت سید میر احمد کے روضہ میں پناہ لی ۔لوگوں نے امیر عضدالدولہ کو بتایا کہ خزانچی حضرت سیدمیر احمد کے روضہ میں پناہ گزین ہے اور حضرت کی بارگاہ میں عر ض پرداز ہے۔امیر عضدالدولہ صورت حال سے پریشان ہو کر تنہائی میں جا بیٹھا ۔انگشتری غائب ہونے سے اس کا آرام وسکون غائب ہو چکا تھا ۔دل میں سوچا کہ یقینا انگشتری سپرد کرتے وقت میں نے یہ خیال کیا تھا کہ یہ میرا مال ہے ۔اسی وجہ سے انگشتری غائب ہوئی ہے۔

وہ اسی پریشانی میں تھا کہ اسے نیند آگئی اور خواب میں وہ حضرت سیدنا میر احمد کی بارگاہ میں شرفیاب ہوا ۔حضرت نے ارشاد فرمایا ،’’اے امیر عضد !انگشتری ہمارے پاس ہے تو گمشدگی کا خیال چھوڑ دے ۔تمہاری حکومت بہت عرصہ تک رہے گی ۔جو انگشتری تمہارے پاس تھی وہ ہم نے واپس منگوا لی ہے ۔اس کی جگہ ہم تمہیں ایک تاج عطا کریں گے جو تمہاری حکومت کے طویل عرصہ رہنے کی دلیل ہو گا ۔پیر عفیف الدین کو میرے پاس روانہ کرو تا کہ تمہارے لئے تاج ارسال کروں ۔امیر عضدالدولہ خواب سے بیدار ہوا تو بہت خوش تھا ۔پیر عفیف الدین کے پاس جا کر انگشتری اور خواب کی ساری کیفیت بیان کی ۔ انہوں نے فرمایا ،’’گزشتہ رات میں نے بھی خواب میں حضرت سید میر احمد کی زیارت کی ۔آپ نے حکم دیا،’’عفیف الدین !دوبارہ ہمارے پاس آؤ تا کہ امیر عضد الدولہ کے لئے تاج ارسال کروں ‘‘،لہٰذا حضرت کے ارشاد گرامی کی تعمیل ضروری ہے ‘‘۔

امیر عضد الدولہ اور پیر عفیف الدین حضرت سید میر احمد کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اس جگہ کو کھودنے کا حکم دیا ۔جب تہہ خانہ تک پہنچے تو خود کو خوشبوؤں سے معطر کیا اور وہاں موجود تمام لوگوں کو بھی خوشبو لگائی ۔پیر عفیف الدین نے غسل کیا ،خوشبودار لباس پہنا اور تہہ خانہ میں داخل ہو گئے ۔

فردوس بریں :

دیکھا کہ باغات بہشت میں سے ایک باغ ہے جس میں ہر طرف نہریں جاری ہیں اور پھلدار درخت سرسبز وشاداب دکھائی دے رہے ہیں ۔ہوا میں جنتی خوشبو پھیلی ہے ۔ہر جگہ لوگ خوشی ومسرت سے سیر کرتے پھر رہے ہیں ۔پیر عفیف الدین چلتے چلتے اس باغ کے وسط میں پہنچے ۔ایک چبوترہ دیکھا جس کے چاروں طرف نہریں بہہ رہی تھیں اور اس چبوترے پر ایک تخت تھا ۔اس تخت پر ایک شخص جس نے اس دنیا کا لباس فاخرہ پہنا ہوا تھا پیروں کے بل ،سر گھٹنوں پہ رکھے بیٹھا تھا۔اس کے سر پہ گونا گوںموتیوں سے مرصع ایک نہایت ہی خوبصورت تاج تھا اور اون کا بنا ہوا دوسرا تاج سامنے رکھا تھا۔ پیر صاحب اس حصہ کے قریب پہنچے تو سید نامیر احمد کے غیب سے اشعار سنائی دیئے کہ پشم سے بنا تاج اٹھا لو ۔پیر عفیف الدین انتہائی خشوع وخضوع اور ادب احترام سے تخت پہ چڑھے اوراُن حضرت کے دست وپا چومنے کی سعادت حاصل کی ۔اون کا بنا تاج اٹھایا اور باہر آگئے ۔

امیر عضدالدولہ کی نظر اس تاج پر پڑی تو تعظیم وتکریم کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔تاج لے کر بوسے دیئے ۔سر پہ رکھنا چاہا مگر پیر عفیف الدین نے منع کرتے ہدایت فرمائی کہ اسی طرح کے دو تاج اون سے تیار کروا کے تھوڑی سی اون اس تاج کی ان میں لگا دو ۔ایک خود پہنو اور دوسرا میں سر پہ رکھوں ۔اس تاج کی نگہداشت کرو تاکہ تمہارے خاندان اور اولاد میں حکومت باقی رہے ۔امیر عضد الدولہ نے اس ہدایت پہ عمل کرتے ہوئے اون سے دو تاج بنوائے ۔ایک خود رکھا اور دوسرا پیر صاحب کو دے دیا ۔

روضہ ء اقدس :

اس کے بعد امیر عضد الدولہ نے سیدنا احمد بن امام موسیٰ کاظم  کا روضۂ اقدس تعمیر کروایا اور آپ کے حالات زندگی اور دیگر تفاصیل ایک پتھر پہ نقش کر کے آپ کے روضہ ء مطہر کے دروازے پہ نصب کر دیا۔ پتھر کی وہ تختی مدتوں قائم رہی ۔ طویل عرصہ گزرنے پر اس تختی کے نقوش میں تغیر واقع ہوا اوراس تختی کے کچھ نقوش مٹے ہوئے پائے گئے ۔روضہ کے متولیوں میں سے ایک نے علماء شیراز کو جمع کیا اور تختی کے مٹے ہوئے نقوش کو روشن کیا ۔تمام علماء نے اس کی تصدیق پہ دستخط کئے اور مہریں ثبت کیں ۔تختی کی تحریر کو کتاب کی شکل دے کر اس کا نا م ’’نقش حجر ‘‘رکھا ۔ آپ کا روضہ مبارک شیراز کی گنجان آبادی کے عین وسط میں مرجع خلائق ہے ۔موجودہ عمارت اتابک سعد زنگی کی بنائی ہوئی عمارتوں میں سے ایک ہے جس میں مختلف ادوار میں ترمیم وتوسیع ہوتی رہی ہے ۔

 


source : http://www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

توبہ کرنے والوں کے واقعات
خیر و فضیلت کی طرف میلان
قرآن دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
کلمہ ٴ ”مو لیٰ“ کے معنی کے متعلق بحث
نھج البلاغہ خطبہ ۱(خلقت انسان)
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
۹ ربیع الاول امام زمانہ(ع) کی امامت کا یوم آغاز
امام جعفر صادق علیہ السلام کی فرمائشات
ماہ رمضان کی فضیلت

 
user comment