اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

اسلام اور جدید سائنس افتتا حیہ

قر آن حکیم ایسا مکمل ضا بطہ حیا ت ھے کہ جس میں حیا ت انسانی کے تما م قو اعد وضو ا بط کوپنھا ں کر دیا گیا ھے اس کتا ب ھے معجز بیان میں کسی حقیقت و صدا قت کو نظر انداز نھیں کیا گیا ۔ اس کی گھرا ئیو ں میں غو طہ زن ھو نے سے اس کے اس دعویٰ کی تصدیق ھو تی ھے کہ اس کا ئنا ت کا ھر خشک و تراس میں مو جو د ھے ۔سما جی و معا شر تی  مسا ئل ھو ں یا سیا سی واقتصادی الجھنیں ۔ انفرادی مسائل ھو ں یا اجتما عی قرآن حکیم ان سب کا حل اپنے دامن میں سمیٹے ھو ئے ھے اسی طر ح حیا ت و کا ئنا ت کے وہ رمو ز واسرا ر جو صد یو ں سے انسانی نا وک کا ھدف ھیں ان کے لئے مکمل ار شاد ات اسی کتا ب الھیٰ کی آیا ت میں چھلکتے نظر آ تے ھیں ۔ یعنی اس عالم رنگ و بو میں جو تبدیلیا ں  رو نما ھو تی ھیں اور جو بھی علمی و عملی تحقیق و تخلیق ظھو ر پذیر ھو تی ھے ان سب کا ذکر اس کتا ب معجز بیا ن میں مو جو د ھے اور ان حیا ت و کا ئنا ت کے حقا ئق کی مزید و ضا حت  اس کتا ب کے حا مل علو م کا ئنا ت کے عالم پیغمبر اسلام کی احا دیث اور آپ کے علو م کے وارث آ ئمہ اطھا ر کے ار شادا ت میں مو جو د ھے ۔ لیکن اس کتا ب کے نزول کا مقصد و مو ضو ع چو نکہ انسانی ھدا یت یعنی و جود و حیا ت کے مقصد سے آ گا ہ کر کے مقصد حیا ت کی تکمیل کے لئے رھبر ی کر نا ھے اس لئے اس میں دوسرے مو ضو عات پر برا ہ را ست کم گفتگو کی گئی ھے ۔ یھیں سے دوسرے علوم اور قرآن کا نقطہ نظر کا فرق واضح ھو جا تا ھے کہ علو م طبعی میں بنیا د ی طور پر اسرا ر کا ئنا ت کے تجسس و تحقیق اور تسخیر  کا ئنا ت کو مقصد و مر اد قرار دیا گیا ھے اور قر آن حکیم ان میں تحقیق وتجسس کو الھیٰ معر فت و بندگی کا ذریعہ قرار دیتا ھے جیسا کہ سورہ حم سجدہ میں خلاق عالم کا ارشاد ھے کہ ” عنقریب ھم ان کو اپنی نشا نیا ں آ فاق ( کا ئنا ت کی گھرا ئیو ں ) میں اور خود ان کے و جو د میں بھی دکھا ئیں گے یھا ں تک کہ ان پر وا ضح ھو جا ئے کہ یقیناً وھی ( خدا ) بر حق ھے ۔ “ اس آیت قر آنی نے صا ف صاف قر آنی مو قف کو بیا ن کر دیا ھے کہ کا ئنا ت کی نشا نیا ں دکھا نا با لذ ات مقصود نھیں بلکہ اس سے خا لق کا ئنا ت کے و جود و عظمت اور علم و قدرت کا اظھا ر و معر فت مقصود ھے ۔ یعنی جس قدر کا ئنا ت  کے رمو ز واسرار سے واقفیت و معر فت بڑھتی جا ئے گی اسی قدر کا ئنا ت کے خا لق کے علم و حکمت  اور اقتدار کی معر فت بڑھتی جا ئے گی اور پھر اسی کی اطا عت و بندگی کا شوق بڑ ھتا جا ئے اور اسی بنا پر دین میں عبا دات کے اجر و ثواب کی کمی و ز یا دتی کا معیا ر معر فت الھٰی کے درجات کے لحا ظ سے قرار دیا گیا ھے جو معر فت الھٰی میں جس قدر بلند ھو گا اسی قدر اس کی طا عت و بند گی کا ثواب زیا دہ ھو گا اسی بنا پر کا ئنا ت کی اشیا ء میں غور و فکر کر نے کو افضل عبا دت قرار دیا گیا ھے اور قرآن حکیم میں سینکڑو ں مقا ما ت پر آ یا ت کا ئنا ت میں غور وفکر کر نے کی طرف تر غیب دی گئی ھے ۔

آجکی دنیا ئے علم نے علم طبیعا ت میں وزن و مقدار کو ایک خاص اھمیت دی ھے اور بتا یا ھے کہ وزن و مقدار کا خا ص تنا سب ما دہ و ما دیا ت میں کتنا دخل ھے اور کیو ں کر اس کے ذریعے ما ھیتو ں میں تبدیلی پیدا کی جا تی ھے قرآ ن حکیم نے صد یو ں پھلے وزن و مقدار کو کتنی اھمیت دی ھے اس کا اندازہ ذیل کی آ یا ت سے بخو بی ھو تا ھے۔

( ۱)والا رض مدد نا ھا والقینا فیھا روا سی وا نبتنا فیھا من کل شی ء مو زون ۔الحجر(۱۹)

” اور ھم نے زمین کو پھیلا یا اور ھم نے اس میں بھا ری بھا ری پھا ڑ قا ئم کر دیئے اور ھم نے اس ( زمین ) میں سے ھر شے ایک خا ص تو ازن سے اگا ئی ۔

۔” وکل شی ء عند ہ بمقدار ۔“

(0) ” اس کے نز دیک ھر چیز کی ایک معین مقدار ھے “

وان من شیء الا عند نا خز ا ئنہ وما ننر لہ الا نقدر معلوم ۔“

(0)”اور ھر چیز کے خزا نے ھما رے پا س مو جو د ھیں اور ھم اسے صر ف معلو م و معین مقدار میں نا زل کر تے رھتے ۔“ الحجر(۲۱)

(0) ” وا نزلنا من السما ء ما ء بقدر فا سکنا ہ فی الارض ۔“

(1) ” اور ھم نے آ سما ن سے پا نی کو ایک مقدار میں نا زل کیا پھر اسے زمین میں ٹھھر ائے رکھا ْ“ المو منو ن(۸)

” انا کل شنی خلقنا ہ بقدر ۔“

” ھم نے ھر شے کو ایک خا ص انداز سے پیدا کیا ھے ۔ القمر(۴۹)

اسی طرح اگر دیکھا جا ئے تو نوامیسی طبیعت کے متعلق بڑے واضح ارشاد ات پو رے قرآن میں بکثرت مو جود ھیں ۔ مثلاً آج خلائی دور میں یہ آیت صا حبا ن فکر کے لئے کتنی جا ذب نظر ھے ۔

ولقد خلقنا فو قکم سبع طرا ئق وما کنا عن الخلق غا فلین ۔

( اور ھم نے تمھا رے اوپر سات را ھیں خلق کی ھیں اور ھم مخلو ق سے غا فل نھیں ھیں) ۔ المو منون (۱۷)

اور سورہ واقعہ کے تسلسل میں یہ آ یا ت تلا وت کر نے والے کو چو نکا دیتی ھیں

”افرایتم الما ء الذی تشر بو ن اء اء نتم انزلتمو ہ من المزن ام نحن المنز لو ن ولو نشا ء لجعلنا ہ ۔۔الخ ۔

” کیا تم نے اس پا نی کو دیکھا ھے جسے تم پیتے ھو آیا تم نے اسے با دل سے نا زل کیا ھے یا ھم نا زل کر نے والے ھیں ۔ اگر ھم چا ھتے تو اسے کھا راکر دیتے ۔ پھر کیو ں شکر بجا نھیں لا تے “ ۔

افرا یتم النا ر التی تو رو ن اانتم انشا تم شجرتھا ام نحن اکمنشو ء ن ۔---

” کیا تم نے اس آ گ کو دیکھا ھے جسے تم رو شن کر تے ھو آ یا تم نے اسے درخت سے پیدا کیا ھے یا ھم پیدا کر نے والے ھیں ۔“

یہ ایک اجمالی تبصر ہ تھا قرآن مجید کے ارشادات پر جو علو م طبیعی اور کا ئنا ت کے اسرار اور رمو ز سے متعلق ھیں ۔ وہ خا صا ن خدا جو قرآن کے وارث بنا ئے گئے تھے انھو ں نے بھی۹ اپنے ارشادات میں ان علو م کی وضا حت کی ۔ حضرت علی (ع) کے نھج البلا غہ میں تخلیق کا ئنا ت اور اس کے حا لا ت پر بے نظیر خطبا ت مو جود ھیں جن سے خصو صیت سے علم طبقات الا رض پر بڑی روشنی پڑتی ھے ۔ اسی طرح امام جعفرصا دق (ع) کی حدیث اھلیلج نبا تا ت کے خواص اور کیمیا وی موا دات پر لا جواب معلو ما ت کا ذخیر ہ ھے ۔ اس کے علا وہ وہ  حدیث مفضل بھی کہ جس میں تخلیق انسانی پر تبصرہ کر نے کے ساتھ دیگر بکثرت مو ضو عات پر بھی رو شنی ڈالی گئی ھے ۔

امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ھے کہ ” ھزارو ں علو م حا صل کر نے کے با و جود انسان علم سے مستغنی نھیں ھو سکتا اور اس دنیا و جھا ں کے علا وہ دوسرے جھا ن بھی کہ جھاں اس دنیا کے علو م بے وقعت ھیں اگر کو ئی یھا ں کے علوم سیکھنے کے بعد دوسرے جھا نوں میں جا ئے تو وھا ں وہ جا ھل ھو گا و ھا ں کے علو م کو نئے سر ے سے سیکھنا ھو گا “ اور پھر امام نے فر ما یا کہ ” اگر انسان کی عمر ھزار و ں سال تک ھو جا ئے اور وہ مسلسل علم کے حصو ل میں مصرو ف رھے تب بھی تما م علوم پر عبو ر حا صل نھیں کر سکتا ۔ پھر امام نے فر ما یا ھما رے اس جھا ن کے علا وہ دوسری دنیا ئیں بھی ھیں جن میں سے اکثر ھما رے اس جھان سے بھت بڑے ھیں اور ان جھاں میں ایسے علو م ھیں کہ جو اس دنیا کے علوم سے مختلف ھیں “ ۔ پھر امام نے فر ما یا کہ ” دوسری دنیا ؤ ں کی تعداد صرف خدا جا نتا ھے کیو نکہ نئی دنیا ئیں پیدا ھو تی رھتی ھیں ۔“

حضرت اما م جعفر صادق (ع) کے دور میں چو نکہ یو نا نی علو م عربی میں تر جمہ ھو نے لگے تھے اور عرب میں علم سے انسیت پیدا ھو چکی تھی اس لئے آ پ نے حالا ت کے تقا ضو ں کے اعتبا ر سے مختلف مو ضو عا ت پر اپنے ارشاد ات میں واضح ارشاد ات کے ذریعے عقل انسانی کو تحقیق و جستجو کی طرف متو جہ کیا ھے ۔ جا بر بن حیا ن کو فی آ پ ھی کے شا گر د تھے ۔ یہ بھی اسلامی علوم کی تا ریخ کا پیش پیش نظر آ تے ھیں ۔ اور اس کی وجہ بھت واضح ھے ۔ اس لئے کہ دیگر  مکا تیب کا سلسلہ برا ہ راست ان لو گو ں سے نھیں ھے کہ جو اس زمین پر الھٰی علوم کے وا رث ھیں اسی بنا پر جو گ ایسے خدا ساز علما ء سے متمسک رھے انھیں ھر علم میں تقد م حا صل ھے قرآن  حکیم کے تد بر و تفکر کے دیئے گئے درس و تعلیم  پر عمل کر تے ھو ئے صد یو ں تک مسلما ن دنیا کی علمی قیا دت کر تے رھے اور مسلما ن محققین و مو جدین کہ جن کی قلمی میرا ث آ ج بھی دنیا ئے علم و تحقیق کا عظیم سر ما یہ ھے ۔ اس مقا م پر ضروری معلو م ھو تا ھے کہ ان کا مختصر تذکرہ کیا جا ئے ۔

بعض مسلم سا ئنسدان

جا بر بن حیا ن کو فیٌ)ولا دت ۷۲۲ ء اور وفا ت ۸۱۷ ء)

جا بر کی ولا دت طوس ( ایران ) میں ھو ئی اور وفا ت کو فے میں ھو ئی ۔ جنوبی عرب کا قبیلہ از د جو کو فے میں آ با د ھو گیا تھا ۔ جا بر اسی خا ندان کے چشم و چراغ تھے ۔ جا بر کے وا لد حیا ن کی کو فے میں دوا سازی کی دوکا ن تھی ۔ حیا ن عبا سی تحریک کی حما یت کی بنا پر بنی امیہ کے ھا تھو ں قتل ھو ئے ۔ با پ کے قتل کے وقت جا بر کا بچپنہ تھا ۔ جب جا بر کی عمر چھبیس بر س کی تھی تو بنو عبا س سلطنت پر قا بض ھو چکے تھے ۔ اس دور میں جا بر مدینے میں آ گئے اور حضرت امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ھو کر عر صہ در از تک علم و معرفت کا فیض حا صل کیا ۔ اس کے بعد کو فے میں آ کر اپنی تجر بہ گا ہ قا ئم کی اور کیمیا پر عملی  تحقیقا ت کیں ۔ اھل یو رپ کے ھا ں ( GiEBER) کے نا م سے مشھو ر ھیں ۔ محققین کا اتفا ق ھے کہ تجر بہ با قی کیمیا کے با نی جا بر بن حیا ن ھیں ۔ اپنے علوم کا اظھا ر کر تے وقت اس کااسنا د حضرت امام جعفر صادق (ع) کی طرف کر تے ھو ئے کھتے ھیں ۔

سید ی جعفر بن محمد ” میرے مو لا و آ قا جعفربن محمد “

آ لا ت کیمیا میں قر ع انبیق جا بر کی اھم ایجا د ھے جس سے کشید کر نے ، عرق نکا لنے کا کام لیا جا تا تھا ۔ شور ے کا تیز اب جا بر کی دریا فت ھے جا بر کیمیا کے تما م تجر باتی علوم مثلاً فلٹر کر نا ، حل کر نا ، کشید کر نا ، عمل تصعید سے اشیا ء کا جو ھر اڑا نا اور قلما ؤ کے ذریعے اشیا ء کی قلمیں بنا نا ۔ ان تمام سے واقف ھو نے کے ساتھ ان سے اکثر کا م لیتے تھے ۔ جا بر نے بتا یا کہ تمام دھا تو ںکے بنیا دی اجزاوھی ھیں جن کی مناسبت سے دو نا بنتا ھے آ ج یہ با ت واضح ھے کہ تما م عنا صر کے بنیاد ی اجزا ایٹم ھو تے ھیں اور ایٹم کے اندر الیکٹرو ں وپر و ٹو ں وغیرہ اجزا ء کے جدا جدا اتنا سب سے تمام اشیا ء کے بنیا دی اجزا ایٹم بنتے ھیں

جا بر نے اپنی کیمیا کی کتا بو ں میں فو لا د بنا نے ۔ دھا تو ں کو مصفے کر نے ، مو م جا مہ بنا نے ، چمرے کو رنگنے ، لو ھے کو زنگ سے بچا نے کے لئے اس پر وار نش کر نے با لو ں کو سیا ہ کر نے کے لئے خضا ب تیا ر کر نے ، اسی طر ح کی بیسیو ں مفید اشیا ء بنا نے کے طریقے بیا ن کئے ھیں ۔

ان کے علا وہ جا بر نے اپنی کتا بو ں میں سفیدہ (Lead carbonate )سنکھیا (Arsenic)اور کحل (Antimon) کو ان کے سلفا ئیڈ سے حا صل کر نے کے طریقے بھی و ضا حت سے بیا ن کئے ھیں ۔

جا بر ست لیمو اور سر کہ (Aceticacid) جیسے نبا تی تیزا بو ں سے بخو بی واقف تھے ۔ اس کے علا وہ جا بر کو علم ھئیت میں بھی کا فی عبور تھا ۔ جا بر کی کیمسٹری پر ایک سو تصا نیف ھیں ۔ اور کل تصا نیف کی تعداد پا نچ سو ھے ۔ بعض کتب کے نا م یہ ھیں ۔

اسرا رالکیمیا ، اصول الکیمیا ، کتا ب الھیئت ، کتا ب السما ء ، کتا ب الشمس ، کتا ب الارض ، کتا ب الزحل ، کتا ب المریخ ، کتا ب الزھرہ ، کتا ب العطا رد ، کتا ب القمر الا کبر ، کتا ب الزیچ اللطیف ، کتا ب شرح اقلیدس ، کتا ب شرح المجسطی ، دس تصا نیف پتھر پر اور دس کتا بیں علم نبا تات کے مو ضو ع پر تھیں ۔

بو علی سینا : ( بو علی سینا کی ولا دت ۹۸۰ء ۔ ۳۷۰ھ) میں ھو ئی ۔ اور وفا ت ۱۰۳۸۔۴۲۸ھ) میں ان کے والد کا نا م عبداللہ اور وا لدہ کا نام ستا رہ ھے ۔ ما ں اور با پ دو نو ں کی طر ف سے ایرانی النسل ھیں ۔ اھل یو رپ انھیں اولے سینا (Avesinna) کے نا م سے یا د کر تے ھیں ۔ محمد وآ ل محمد کی محبت سے سر شار ھے ان کے با پ اسمعیل تھے لیکن یہآ ئمہ اثنا وعشری اما مت کے قا ئل تھے ۔ بو علی تما م عمر ایسے حکمرا نو ں کی سر پرستی حا صل کر نے کی کو شش میں رھے جو ایرانی تھے ۔ انھو ں نے بخا را میں تعلیم پا ئی ۔ اسلام کا یہ عظیم فرزند اپنے زما نے میں عظیم حکیم اور عظیم فلسفی اور ما ھر طبیعا ت تھا ۔ ان کی تصا نیف ایک سو کے قریب ھیں ۔ جن میں مشھو ر قا نو ن اور شفا جس میں فلسفہ طبیعا ت ۔ ریا ضی ، حیا تیا ت پر مضا مین ھیں ۔ الا شا رات اسرار لحکمتہ المشرقیہ ۔

محمد بن حسین بن عبد الصمد المعر وف شیخ بھا ئی : شیخ بھا ئی آپ کا لقب ھے اسی آپ مشھو ر ھیں آپ کی ولا دت بعلبک میں ۱۷ذی الحجہ ۹۸۳ہ ئمیں ھو ئی اور وفا ت ۱۲ شوال ۱۰۳۵ ہ اصفھا ن میں ھو ئی ۔ شیخ بھا ئی کو تفسیر و حدیث و تا ریخ کے ساتھ علم ھیئت میں بھی کما ل حا صل تھا ۔ آپ نے اس طرلا ب پر ایک رسالہ لکھا تھا ۔ قبلہ کی طر ف وسمت کے تعین پر ایک رسالہ ۔ اور ایک رسالہ سورج سے متعلق لکھا جس میں اس با ت کی و ضا حت کی تھی کہ ستا رے سورج سے نور اخذ کر تے ھیں اور ایک رسالہ عطا رو اور قمر کی ھیئت پر لکھا تھا ۔

ابو ریحا ن محمدابن احمد البیرو نی : ولا دت ۹۷۳ء میں ایران میں خوا رزم کے قریئے البیرون میں ھو ئی ۔ اور وفا ت ۱۰۴۸ ء غز نی میں ھو ئی ۔

البیرونی مختلف علوم کا ما ھر اور صف اول نما یا ں مسلم سا ئنسداں ھے ۔ علم طبیعا ت ، ھیئت  و جغرا فیہ اور فلسفہ و حکمت اور ھندسہ و کیمیا اور آ ثا ر وقیمہ و تا ریخ و تمدن اور مسا حت وار ضیا ت غر ض کیئی علوم میں صا حب کما ل تھا ۔ یہ پھلا سا ئنسدان ھے کہ جس نے کھا کہ وادی سندہ کسی قدیم سمندر کے خشک ھو نے کا نتیجہ ھے کہ جو آ ھستہ آ ھستہمٹی سے بھر گیا ۔ سنسکر ت ، نشر یا تی اور عبرا نی ز با نو ں کا بھی عالم تھا ۔ اور قو مو ں کے عرو ج و زوال اور تبا ھی و بر با دی کی دا ستا نیں اس کی تصانیف میں بکھر ی ھو ئی ھیں ۔ اور ۱۸۰ سے زاھد اس کی تصا نیف ھیں اور ۲۳ سال کی عمر میں علم و تحقیق کے کما ل کو پھنچ گیا تھا ۔ اس نے ۱۰۰۰ میں اپنی عظیم کتا ب آ ثا ر البا قیہ لکھی جسے اپنی سر پر ستی کر نے والے ھندستا ن  کے با د شاہ قا بو س کے نا م سے معنون کی ۔

جر جا ن کے حکمر ان شمس المعا نی قا بو س ابن و شمگیر کے ھا ں قیا م کے دوران بھی تعمیر کی جھا ں ھمہ وقت تحقیق و تجر با ت میں مصر وف  رھتا ۔ پھرجب محمودغزنوی نے خوارزم و جر جا ن اور اس کے گر د نواح پر حملہ کر کے تسلط قائم کر لیا تو البیرو نی کو ساتھ لے کر واپس غزنی آ گیا ۔ البیرو نی سے محمودغز نوی کے دربا ر کی رو نق بڑہ گئی ۔ قا نو ن مسعود ی سے معلوم ھو تا ھے کہ البیرونی نے ۴۱۵ہ تک کا عر صہ غز نی میں گزار ا اور وھا ں بھی ایک عظیم رصدگا ہ تعمیر کی جس میں ھیئت و بخو م کے آ لا ت دھوپ گھڑی ۔ اضطرلاب ، مقیا س الا ر تفا ع اور دور بین و غیرہ مو جود تھے ۔ البیرو نی نے علم ھیئت پر پندرہ کتب اور علم المنا ظر پر چا ر اور اوقا ت واز منہ پر پا نچ کتب اورد مدار ستا رے پر چا ر کتب اور احکا م النجوم بر سات کتب اور ھز ل و مزاح پر چودہ کتب اور عقا ئد وروا یا ت پر چہ کتب اور متفر فا ت پر با ئیس کتب تحریر کیں یہ وہ پھلا مسلم سا ئنسدان ھے کہ جس نے سب سے پھلے زمین کی گو لا ئی معلوم کی چنا نچہ جب محمود غزنوی ھندو ستا ن کی طرف بڑھا تو البیرو نی کو  ساتھ لے پنجا ب میں ضلع جھلم کے علا قے میں نند نہ کے مقا م پر پھنچا تو البیرو نی کو یھا ں چھو ڑ کر ھندو ستا ن کی طرف بڑہ گیا ۔ تو ایک روز البیرو نی نے سیر وتفریح کے لئے جا تے ھو ئے دو مخرو طی پھا ڑیو ں کو دیکھا تو ایک پھاڑ ی پر چڑہ گیا اور اوپر جا کر بیٹہ کر کچہ حساب لکھنے لگا اوروھیں بیٹھے حساب کرتے ھوئے البیرونی نے زمین کی گولائی معلو م کرلی کہ جس کے مقابق تقر یباً پچیس ھزار میل ھے ۔ چنا نچہ ھزار سال قبل البیرو نی نے زمین کی جو گو لا ئی معلوم کی تھی اور مو جود وہ دور میں را کٹو ں کے ذر یعے زمین کاطوا ف کر کے جو گو لا ئی معلو م کی گئی ھے اس کے اور البیرو نی کی معلوم کی گئی گو لا ئی میں چند میل کا فرق ھے ۔

ابن رشد:

ولا دت ۵۱۴ہ اور وفا ت ۱۱۱۲ء قر طبہ میں ھو ئی اور چہ سال کی عمر میں قرآ ن حفظ کر لیا ۔ابن رشد کے کما ل میں اس کی بیو ی ھا جرہ نے بھی اھم کر دار اداکیا ۔ ابن رشد نے طب میں کتا ب الکلیا ت لکھی اور تیزاب ایجا د کیا جو آ گ کی طرح اشیا ء کو جلادیتا ۔ اور اس سے لو ھا صا ف کیا جا سکتا تھا ۔ ابن رشد دار السطنت اشبیلہ میں مقیم ھو گیا تھا اور اسے خلیفہ ابن یو سف المو حد نے قا ضی القضا ة بنا د یا ۔ اس کے طلبا میں یو رپ کے عیسا ئی اور یھو د ی  بھی تھے ۔ اس کی مشھو ر کتب کتا ب الر وح حیا ت بعد المو ت ، ما دہ عقل ، انسان ، کتا ب الکلیا ت ، منا قتبہ الفلا سفہ ، کتا ب الفصل ، المقا ل ، کتا ب کشف ، السنا بیج ، مذھب و فلسفہ میں ۔

اس نے فلسفہ پر ۲۸ کتب اور طب پر ۲۵ کتب اور فقہ واصو ل پر ۸ کتب اور علم کلا م پر ۶ کتب اور علم ھیئت پر ۴ کتب اور علم تجوید پر ۲ کتا بیں لکھیں ۔

اس نے ایک تجر بہ گا ہ بھی تعمیر کی تھی جھا ں وہ جا ندار و ں کے ڈھا نچو ں پر تحقیق کر تا تھا ۔ یو رپ کے علمی ترقی میں ابن رشد کی تصا نیف کا کا فی عمل دخل ھے ۔ یو رپ کے تما م فلسفی و سائنس دا نو ں نے اس کی کتا بوںکے مطا لعے سے عرو ج حا صل کیا اور ۶۸ سے زائد کتب آج بھی یو رپ میں مو جود ھیں ۔

ابو سعید بن احمد بن محمد بن جلیل ستجستا ئی :

ابو سعید احمد بن محمد بن عبد الجلیل ستجستانی ۔ ان کی ولا دت ۹۵۱ ء میں ھو ئی اور وفا ت ۱۰۲۲ ہ میں۷۳ برس کی عمر میں ھو ئی ۔

ریا ضی داں ھو نے  کے ساتھ ھیئت داں بھی تھے ۔ اھل مغرب کے قول کے مطا بق سولھو یں صد ی میں کو پر نیکس پھلا سا ئنسداں ھے کہ جس نے زمین کی گردش کا نظر یہ پیش کیا ۔ لیکن کو پر نیکس سے نو صدی قبل قرآن حکیم نے زمین کی گر سش کا نظر یہ پیش کیا ۔ اس کے بعد آل محمد نے اسی نظر یئے کی و ضا حت کی ۔ مسلما ن محققین میں سے ابو سعید احمد بن محمدستجستانی پھلا مسلم سا ئنسداں ھے کہ جس نے کو پر نیکس سے چہ سو سال قبل زمین کی گر دش کا نظر یہ پیش کیا ۔

ابو نصرفا را بی :

آپ کا نا م محمد بن محمد بن طر خا ن فا را بی ھے ۔ ان کی ولا دت تر کستا ن کے شھر فا راب میں ھو ئی ۔ ان کی وفا ت ۳۳۹ہ دمشق میں ھو ئی ۔ یو نا نی افکا ر کا تر جمہ وا بلا غ کی وجہ سے فلسفہ میں شھرت حا صل کی ۔ سا ئنسی علوم میں بھی دخل تھا ۔ اور ان کے بعض سائنسی کا ر نا مے یا د گا ر رھے ھیں ۔ انھو ںنے ایسا آ لہ ایجا د کیا تھا کہ جس کو انھو  ں نے سیف الدو لہ با د شا ہ کے در با ر میں جب بجا یا تو تما م اھل در بار ھنستے ھنستے بے خود ھو گئے ۔ اس کے بعد دوسری تر تیب سے اس کو بجا یا تو اھل در با ر رو تے رو تے بے خود ھو گئے ۔ پھر تیسر ی تر کیب سے بجا یا تو اھل در با ر سوگئے  تو فا را بی در با ر سے اٹہ کر چلا گیا ۔

فلسفہ کے رسائل کے علا وہ ان کی تصنیفا ت میں احیا ء العلوم اور المو سیقی کا ذکر اھم ھے ۔ پھلی  کتا ب کا تر جمہ لا طینی زبا ن میں کیا جا چکا ھے ۔ اس کا لا طینی نا م( Descientus )ھے کتا ب القیا س ۔ اور مرا تب العلوم وغیر ہ ھیں ۔

عمر خیام :

ریا ضی وھیئت میں کمال حا صل تھا ۔ اور ر با عیا ت کا بھتر ین شا عر تھا ملک شاہ سلجو قی کی رصد گا ہ سے شاھی  ھیئت داں کی حیثیت سے منسلک تھے ۔ انھو ں نے شمسی کلنڈر کی تدوین بھی کی تھی جو آ ج بھی گر یگورین کلنڈر کے مقا بلے میں علما ء و محققین کے نز دیک ز یا دہ  مستند و معتبر ھے ان کی ریا ضی پر تصنیف مکعبا ت ھے اس کے علا وہ جبر و مقا بلہ و غیرہ ۔ عمر خیا م نے واضح کیا کہ سال کی مدت ۳۶۵ دن پا نچ گھنٹے اور پچا س منٹ ھے جبکہ  مو جود ہ تحقیق میں ۳۶۵ دن ۵ گھنٹے ۴۸ منٹ ، ۴۸سکینڈ ھے ۔ ان کی وفا ت ۱۱۲۴ ء میں نیشا پور میں ھو ئی اور وھیں وفن ھو ئے ۔

ابو سھل اسمعیل بن علی بن اسحق بن ابی سھل بن نوبخت :

ان کا تعلق ایران سے ھے ۔ نو بخت کی اولا د آل محمد سے محبت کی وجہ سے مشھو ر ھے ۔ اسی نو بخت کی اولا د سے ابو القا سم حسین بن رو ح ھیں جو امام مھدی کے نا ئب خاص ھیں ۔ سائنس کی ایک اھم شا خ علم مسا حت (surveying) ھے ۔ ابو سھل اس کے ما ھر تھے ۔ ابوسھل نے بغداد کا نقشہ بھی تیا ر کیا تھا ۔ علم ھیئت میں بھی ابوسھل کو کما ل حا صل تھا ۔ اس نے فلکیا ت  پر اپنے مشا ھدات اپنی کتا ب ” کتا ب الا حکام “ میں تحریر کئے ھیں ۔ یہ کتا ب علم ھیئت میں اپنے زما نے کی معیا ر ی کتا ب سمجھی جا تی رھی ۔

ان کی تصا نیف میں سے کتاب الانوا ر فی التوا ریخ الائمتہ الاطھا ر ۔ کتا ب معر فت ، کتا ب حدیث العا لم ، کتا ب المعر فت کتا ب الکلا م فی الا نسان ھیں ۔ ان کی وفا ت ۷۷۸ ء میں ھو ئی ۔اسی نو بخت  کی اولا د سے دوسرے عظیم فلسفی و ھیئت داں ابو محمد حسن بن مو سی ٰ نو بختی ایرانی ھیں ۔

محقق نصیر  الدین طو سی

انھیں بھی ریا ضی اور علم ھیئت میں کما ل حا صل تھا ، انھو ں نے اپنی تدبیر و فراست اور عا لما نہ مضا مین سے ھلاکو خان کو علوم کی سر پر ستی پر آ ما دہ کر لیا تھا ۔ بغداد کے قریب میں ایک رصد گا ہ قا ئم کر ائی تھی ۔ اس کے بعد ایک کتب خا نہ قا ئم کیا تھا ۔ جس میں چا ر لا کہ کتابیں  جمع ھو ئیں ۔ اشکال ھندی و ر یا ضی پر ان کی ایک مفصل اور ضخیم کتا ب پا ئی جا تی ھے اور علم منطق میں ان کی کتاب اساس الا قتبا س لا جواب کتا ب ھے ۔ اس کے علا وہ التذکر ة النصیر یہ ( فی علم الھیئتہ المحسطی ، تحریر اصول الھندستہ ( الاقلیدس ) ھیں ۔ ان کی وفا ت ۱۲۷۵ میں ھو ئی ۔

حکیم علی گیلا نی :

عھد اکبری کا سا ئنسداں ھے جس نے اپنے مکا ن کے صحن میں ایک حو ض بنا یا تھا جس کے اندر ایک کمرہ اس طرح بنا یا گیا تھا کہ ھر طرف سے پا نی میں غرق تھا اور پا نی سے ھو کر اس میں راستہ جا تا تھا ۔ لیکن پا نی کمرے کے اندر داخل نھیں ھو سکتا تھا ۔ اس کمرے کو جھا نگیر نے دیکھا تھا اور اس نے اپنی تز ک میں اس کا تذ کرہ کیا ھے ۔

فرا نس کے با د شاہ شارل مین کے پا س عبا سی خلیفہ ھا رو ن رشید نے تحفتہ  ایک گھڑی بھیجی  تھی جس میں جب ایک بجتا تو ایک سوار نمو دار ھو تا اور دو بجتے تو دو سوار نمودار ھو تے ۔اس طرح جتنے بجتے تھے اتنے ھی سوار نمو دار ھو تے ۔

ابو الفدا نا می مسلم سا ئنسداں نے جر ثقیل اور قطب نما ایجا د کیا ۔

محمد بن مو سی پھلا مسلم سائنس دان ھے کہ جس نے زمین کی پیما ئش کا طریقہ اور اس کے متعلق آ لا ت ایجا د کئے جس پر پو ری ار ضیا تی سائنس کا دار ومدار ھے ھو ا میں سب سے پھلے اڑ نے  کا تجر بہ مسلم سائنسدان ابن قر نا س نے کیا اور دور بین مسلم سائنسدان ابولحسن نے ایجاد کی ۔

ابو القا سم اندلسی یہ عبا سی دور کا مسلم سائنسدان ھے کہ اس نے ھو ائی جھاز ایجاد کیا تھا ۔ جس میں اس نے مختصر سفر بھی کیا تھا ۔ مگر اسے آ گے تر قی نھیں دی جا سکی

قرآنحکیم کی شان اعجاز ی

قرآن حکیم آ خر ی صحیفہ آ سما نی اور پیغمبر خاتم کی تصدیق بنوة کا ابدی معجزہ ھے کہ جو الفا ظ و عبا رات ، معا نی و مطا لب اور علوم واسرار اور حقا ئق کا ئنا ت کی جا مع کتا ب ھے ۔ اس میں علم ما ضی و حا ل بھی ھے اور علم مستقبل بھی ھے اس میں تھذیب نفس ، تدبیر منزل اور سیاست مدن کے تما م اصول وقواعد کو سمو دیا گیا ھے ۔سما جی و سیا سی مسائل ھو ں ٰٰٓٓ یا اقتصادی پر یشانیا ں ھو ں  سب کا حل اس کے دامن میں پنھا ں ھے۔

جس طرح یہ کتا ب ایک جا مع ودائمی ضا بطہ حیا ت ھے اسی طر ح رھتی دنیا تک دنیا ئے عقل ودانش کے کئے چیلنج ھے کہ اگر تم کو اس کی جا معیت وشان اعجا ز ی اور کتا ب الھٰی ھو نے میں شک و شبہ ھے تو اس جیسی کو ئی کتا ب بنا لا ؤ یہ کتاب جھا ں ایک طرف سیرت و کر دار کے ھر پھلو میں حیا ت انسانی کی تعمیر و تکمیل کی جا من ھے ۔ تو دوسر ی طرف علوم و حقا ئق کا ئنا ت کی جا مع ھونے کے لحا ظ سے عقل انسانی کو علم و عر فا ن کی معرا ج تک پھنچا نے کی بھی ضامن ھے ۔ اس عالم رنگ و بو میں جو تبدیلیا ں رو نما ھو تی ھیں اور جو بھی علمی و عملی تخلیقا ت ظھور میں آ تی ھیں  ان سب کا ذکر اس صحیفہ آ سمانی کے دامن میں مو جو د ھے ۔ خود خدا ئے کائنا ت کا ارشاد ھے کہ ”تبیاناً کل شیء “ یعنی اس کے دامن میں کا ئنا ت کی ھر شے کا بیا ن مو جود ھے ۔

اس کتا ب کا مو ضو ع انسانی فکر و عمل کی اصلا ح یعنی تعمیر و تکمیل انسا نیت ھے ۔ اس نے اسرار کا ئنا ت کے تجسس و تحقیق اور تسخیر کو خدا ئے کا ئنا ت کی معر فت و بندگی کا ذریعہ قرار دیا ھے ۔ جیسا کہ سورئہ حم السجدہ میں خلاق عالم کا ارشاد ھے کہ ” عنقریب ھم ان کو اپنی نشانیاں آفا ق میں اور خود ان کے و جود میں دکھا ئیں گے ۔ یھا ں تک کہ ان پر یہ واضح ھو جا ئے کہ  یقیناً وھی ( خدا ) حق ھے ۔ “ جس طرح علوم و حقا ئق کا ئنا ت کی جا معیت کے لحاظ سے یہ کتا ب معجزہ ھے اسی طر ح الفا ظ و عبا رات کی تر کیب  وتعین کے لحا ظ سے  بھی معجزہ ھے ۔ جس طرح خلاّ ق عالم نے اس وسیع کا ئنا ت میںانسان کے غور فکر کر نے کے لئے اپنی بے شما ر نشانیا ں بکھیر دی ھیں اسی طر ح اس نے خود و جو د انسانی کو بھی معر فت کے لئے ایک عظیم آ یت قرار دیا ھے۔ آج کا انسان جسم انسانی کے تر کیبی اجزا ء اور اس کی مقدر کو جا نتا ھے لیکن وھی اجزا ء اسی مقدار میں جمع کر کے پتہ یا پھل تیا ر نھیںکر سکتا ۔ اسی طر ح خلا ق عالم نے چاھا کہ وہ حرو ف والفا ظ اور کلما ت کہ جو روز مرہ انسان استعما ل کر تا ھے انھی حروف والفا ظ و کلما ت کو بھی ایک خا ص تر کیب و تر تیب دے کر ایسی جا مع کتا ب انسان کے جس کی تر کیب و جا معیت  کی شان اعجا زی کو دیکہ کر دنیا ئے عقل اپنے عجز کا اعترا ف کر تے ھو ئے پکا راٹھے کہ یہ بشر کا کلا م نھیں ھے بلکہ خا لق بشر کا کلا م ھے ۔

قرآن حکیم ایسی معجزا نہ کتا ب ھے کہ جس زاویے اور جس پھلو سے عقل انسانی اس میں  غور و فکر کر ے گی  ۔اس کی شان اعجا ز ی واضح و ظا ھر ھو گی ۔ جیسا کہ ایک مصر ی عالم ڈا کٹر ارشاد خلیفہ نے الیکٹر و نی آ لا ت کے ذریعہ  بر سو ں کی محنت کے  بعد قرآن حکیم کے ھر سورہ کے  ابجدی اعداد وشمار کے ذر یعے  ایک نئی حقیقت کا انکشاف کیاھے جیسا کہ ”بسم اللہ“۔ ۔ الخ کے متعلق انھوں نے تحر یر کیا ھے کہ اس آیت میں چار الفاظ اور انیس حروف ھیں اسم ، اللہ الرحمن ، الرحیم ا ن چار الفاظ میں سے ھرایک لفظ قرآن حکیم میں جتنی بار آیا ھے وہ تعداد ۱۹ پر برابر تقسیم ھوجاتی ھے لفظ اسم قرآن میں ۱۹ بار آیا ھے جو ۱۹ پر برابر تقسیم ھوجاتا ھے اور لفظ ” اللہ قرآن ،میں ۲۶۹۸ با ر آیا ھے انیس با ر برا بر  ۱۹ پر تقسیم ھو جا تا ھے اور لفظ ” الر حیم “ قرآن حکیم میں ۱۱۴ با ر آیا ھے جو چہ با ر برا بر انیس پر تقسیم ھو جا تا ھے ۔

اس کے علا وہ قرآن حکیم میں یہ آیت ” بسم اللہ الر حمن الر حیم “ ایک سو چو دہ با ر آ ئی ھے ۔ اگر سورہ تو بہ سے پھلے بسم اللہ نھیں ھے لیکن سورة النمل میں یہ آ یت دو با ر آ ئی ھے ۔ اس طرح ایک سو چو دہ کی تعداد پو ری ھو گئی  جو چہ با ر انیس پر برابر تقسیم ھو جا تی ھے ۔

اسی طرح سب سے پھلے نا زل ھو نے والا سورہ العلق جس میں پا نچ آیا ت  اور انیس الفا ظ اور ( ۷۶) حروف ھیں جو کہ انیس پر برا بر تقسیم ھو جا تے ھیں اسی طر ح قرآن حکیم میں جو مختلف تعداد بیا ن کی گئی ھیں جیسے سات آ سما ن جنا ب مو سیٰ (ع) کا کو ہ طور پر چا لیس راتیں ٹھھر نا اور با رہ مھینے وغیرہ ان تما م کا مجمو عہ ( ۲۸۵ ) ھے کہ جو پندرہ با ر انیس پر برا بر تقسیم ھو جا تا ھے ۔

اسی طرح حروف مقطعا ت میں سے چودہ ( الف ، ج ،ر، س، ص، ع، ط، ق، ک، ل، م، ن، ی، ) ۲۹ سورتو ں میں ابتدا میں مختلف ترا کیب سے آ ئے ھیں ۔ ان چو دہ حروف میں سے ھر حرف ان ۲۹ سورتو ں میں جتنی با ر آ یا ھے وہ تعداد انیس پر برا بر تقسیم ھو جا تی ھے ۔

اسی طر ح مذ کو رہ زاو ئے سے مزید جب غور فکر کیا جا ئے  گا تو بھت سے حقا ئق سامنے آ ئیں گے جن سے اس کتا ب کی شا ن اعجا ز ی واضح ھو گی ۔

اس کے علا وہ اگر دنیا کی کسی بھی بھتر ین کتا ب کی تر تیب بد ل دی جا ئے اس کی عبا رات و کلما ت کو آ گے پیچھے  کر دیا جا ئے تو اس کتاب کا کما ل و حسن اور افا دیت و معنویت ختم ھو جا ئے گی ۔ اور وہ ردی میں پھینکنے کے قا بل ھو جا ئے گی لیکن قرآ ن حکیم کی یہ شا ن اعجا زی ھے کہ پیغمبر اکر م کے بعد دو ر با ہ جمع کر نے والو ن نے اپنے مخصو ص مقا صد کے لئے اس کی آ یا ت و تر تیب  کو بدل ڈالا ۔ ایک سو رہ کی آ یا ت دوسرے سورہ میں شامل کر دیں ۔ مکی آیا ت مدنی سورتو ں میں اور مدنی آیا ت مکی سو رتو ں میں شامل کر دیں  ۔ لیکن اس کے با و جو د قرآن حکیم کی فصا حت و بلا غت اور افا دیت و معنو یت اور شان اعجا زی  میں  فرق نھیں آ یا  ۔ جو اس کے کتا ب الھٰی اور معجزہ ھو نے کی بھی واضح دلیل ھے ۔اس کے علا وہ انسانی کلا م کی خصو صیت ھے کہ را کٹ و میزا ئل و کمپیو ٹر  اور مو جو دہ ایجا د ات  کا ذ کر نھیں ھو گا  ۔ اسی طر ح آ ج سے سو دو سال بعد جو تر قی وانقلا ب آ ئے گا اس کا آ ج کا انسان تصور نھیں کر سکتا  ۔ لیکن اگر آ ج سے چو دہ سو سال پھلے کا کو ئی ایسا کلا م ھو کہ جو آج تک ھر دور کی علمی تر قیو ں کا ساتھ دے رھا ھو اور جس میں آج کی ترقیو ں وانکشا فا ت کا بھی بیا ن ھو ا ور آئندہ  انکشافات کی طرف رھبر ی بھی کر ے اور تما م علوم پر احا طہ بھی رکھتا ھو تو یقیناً وہ خلا ق عالم کا کلا م ھے ، بشر کا کلام نھیں اور ایسی کتا ب کاپیش کر نے والا یقینا ً الٰھی نما ئندہ یعنی نبی ورسول ھے ۔ یہ صحیفہ آسما نی کا ئنا ت کے علوم غیب پر محیط ھے اس کی ھر ھر آیت کئی کئی علوم و معا رف کو اپنے دامن میں سمیٹے ھو ئے ھے ۔

اس کتا ب میں علم الاخلا ق و علم المعا شرہ بھی ھے ۔ اور علم سیا ست و علم تجا رت بھی ھے ۔

اس میںجما دو نبا ت کا علم بھی ھے اور انسان و حیو ان سے متعلق علوم بھی ھیں ۔

اس میں تخلیق انسانی کی حقیقت و فلسفہ بھی ھے اور حقوق انسانی کی و ضا حت بھی ۔

اس میں علم منطق و فلسفہ بھی ھے اور علم النفس اور علم تعبیر رویا بھی ۔

اس میں زرا عت و مسا حت بھی ھے اور علم خیا طت احد ادیت بھی ۔

اس میں علم معا نی و بیا ن بھی ھے اور علم بد یع وعرو ض بھی ۔

اس میں علم تجوید وعلم الا عداد بھی ھے اور علم تا ریخ و فقہ بھی ۔

اس میںعلم با طن وعلم تقدیر بھی ھے اور علم حساب و علم نجو م بھی ۔

اس میں علم جر ثقیل وعلم الا مثا ل بھی ھے اور علم ریمیا و لیمیا بھی ۔

اس میں علم دیمیا و کیمیا بھی ھے اور علم قیا فہ و علم معمہ بھی ۔

اس میں علم رجا ل و درا یت بھی ھے اور علم جغرا فیہ اور علم آ ثا ر قدیمہ  بھی ۔

اس میں علم طبیعا ت و علم سحر بھی ھے اور علم ھند سہ وعلم مو سیقی بھی ۔

اس میں علم کلا م وعلم منا ظرہ بھی ھے اور علم خطا بت  و کتابت بھی ۔

اس میں علم کلا م و علم منا طرہ بھی ھے اور علم خطا بت و تلفظ بھی ۔

اس میں علم جفر بھی ھے اور علم رمل بھی ۔

حضرت با قر (ع) ایک مو قع ھر فرما یا ” علوم پا نچ سو ھیں“

غرض کا ئنا ت کا ھر علم اس کے دامن میں سمویا ھو ا ھے ۔ کیو نکہ یہ کتا ب اس ذات کا کلا م ھے کہ جو اس تما م کا ئنا ت کی خا لق و ما لک ھے ۔اس نے اس کتاب کو معجزا نہ صفا ت سے آ را ستہ کر کے بھیجتے  ھو ئے خود اعلا ن کیا کہ ” کوئی خشک و تر ایسا نھیں کہ جس کا ( ذکر ) اس کتا ب میں نہ ھو ۔

اور خدا نے علوم کا ئنا ت کو اپنی اس کتا ب میں سمو دیا ھے اور اس کتا ب کے تما م علوم واسرار اور حقا ئق معا رف کا مکمل علم خدا نے اپنے حبیب پیغمبر اکرم کو عطا  کی ھے  اور پیغمبر اکرم کی صرف الفا ظ و کلما ت پھونچانے کی ذمہ داری ھی نھیں تھی بلکہ اصلا ً اس کے تما م علوم واسرار اور حقا ئق واحکا م پھونچانے کی اھم ذمہ داری بھی تھی لھذا جب پیغمبر اس کتاب کے الفا ظ و کلما ت کو چھو ڑ گئے تو اسی طرح اس کے تمام علوم و اسرار بھی مکمل چھو ڑ گئے ھیں یعنی قرآن حکیم کے تما م علوم واسرار اور احکام و حقا ئق ایسے ذھن کی طرف منتقل کر کے گئے کہ جو ذھن رسالت کے ذھن سے مطا بقت رکھتا ھے اسی لئے پیغمبر نے فرما یا ” میں علم کا شھر ھو ں اور علی (ع) اس کا دروا زہ ھیں جو علم چاھتا ھے اسے چا ھیئے کہ دروا زے کے پا س آ ئے “ پھر اس لیئے حضرت علی (ع) نے بھر ے مجمع میں کئی با ر اعلا ن کیا کہ جو چا ھو مجھ سے پو چھو کہ میں زمین کی با تو ں کےساتھ آ سما ن کی با تیں زیا دہ جا نتا ھو ں“ اسی طرح پھر حضرت علی (ع) نے ان تما م علوم واسرار کو اسی ذھن کی طرف منتقل کیا کہ جو ذھن رسالت کے ذھن سے مطا بقت رکھتا ھے یعنی امام حسن (ع) کی طرف قرآن کے علم واسرار کو منتقل کیا اور امام حسن (ع) نے امام حسین (ع) کی طرف انھو ں نے امام زین العا بدین (ع) کی طرف اور انھو ںنے امام محمد با قر (ع) کی طرف انھو ں نے امام جعفر صا دق (ع) کی طرف اور انھو ں نے امام مو سیٰ کا ظم (ع) کی طرف اور انھو ں نے امام علی رضا (ع) کی طرف اور انھو ںنے امام  محمد تقی (ع) کی طرف اور انھو ںنے امام علی نقی (ع) کی طرف اور انھو ں نے امام حسن عسکری (ع) کی طرف اور انھو ں نے تما م علوم واسرار اورغیو با ت امام مھدی (ع) کی طرف منتقل کئے اور ھم نے قرآن اور پیغمبر ساتھ انھی ذوات مقد سہ کے علم سے استفا دہ کیا ھے ۔

چنانچہ تخلیق کا ئنا ت یعنی کا ئنا ت کے آ غا ز کو قرآن حکیم ان الفاظ میں واضح کر تا ھے ۔

ثم استوی الی السما ء وھی دخان ۔۔ الخ ۔ حم سجدہ ۔

” پھر وہ آ سما ن کی طرف متو جہ ھو اور وہ ( آ سما ن ) دھواں ساتھا ۔۔ الخ“

سا یہ رو شنی : الم تر الی ربک کیف مدا لظل ولو شا ء لجعلہ سا کنا ً ثم جعلنا الشمس علیہ دلیلاً ثم قبضنا ہ الینا قبضا ً یسیراً (۴۵۔ فر قا ن)

” کی ا تم نے اپنے رب کی قدرت کی طرف نھیں دیکھا کہ اس نے کیو ں کر سائے کو پھیلا یا ۔ اگر وہ چا ھتا تو اسے ( ایک جگہ ) ٹھھر ا ھو ا کر دیتا ۔ پھر ھم نے سورج کو ( اس کی پھنچا ن کے لئے ) اس کا ر ھنما بنا دیا ۔ پھر ھم نے اسے تھو ڑا کر کے اپنی طرف کھینچ لیا ۔

طبیعا ت ( pHYSICS)

پا نی

:وجعلنا من الما ء کل شیء حی افلا یو منو ن ( ابنیا ء ۳۰۹ )

(۱) ۔” اور ھم نے ھر جا ندار کو پا نی سے پیدا کیا تو وہ ایما ن نھیں لا تے “

(۲) ۔” اور خدا ھی نے زمین پر چلنے والے تمام جا ندار و ں کو پا نی سے پیدا کیا ان میں بعض تو اپنے پیٹ کے بل چلتے ھیں اور بعض چا ر پا ؤ ں پر چلتے ھیں خدا جو چا ھتا ھے پیدا کر تا ھے ۔ یقیناً خدا ھر شئے پر قا در ھے “ ( نور۔۶۵)

ٌ” اور ھم نے آ سما ن سے ایک انداز ے کے ساتھ پا نی بر سا یا ۔ پھر اس کو زمین میں ٹھھرا ئے رکھا ۔اور ھم یقیناًاس کے غا ئب کر دینے پر قدرت رکھتے ھیں “ ( ۱۸المو منو ن )

وھو الذی مر ج البحرین  ھذا عذب فر ات وھذا ملح اجا ج ۔۔الخ (  فر قان۔۵۳ )

” اور وھی وہ (خد ا) ھے کہ جس نے دو در یا ؤ ں کو آ پسمیں ملا دیا لیکن یہ خا لص لذیذ میٹھا  ھے اور یہ با کل کھا را کڑوا ھے ۔“

افرا یتم الما ء الذین  تشر بو ن اا نتم انزلتمو ہ من المزن ام نحن المنز لون (۶۹)

لو نشا ٓء جعلنا ہ اجا جاً فلو لا تشکرو ن (الو اقعھ۔۷۰)

” کیا تم نے پا نی کو بھی نگا ہ غور سے دیکھا ھے کہ جو تم پیتے ھو ۔ کیا تم نے اسے با دل سے بر سا یا ھے یا ھم بر سا تے ھیں ۔ اگر ھم چا ھیں تو اسے کھا را بنا دیں تو تم لو گ شکر کیو ں نھیں کر تے ۔“

ھوا

: ارض وفضا ئی کثا فتو ں کو صاف کرنے اور با رش کی خو شخبری سنا نے والے ھو ا کے لئے قرآن حکیم کا ارشاد ھے ۔

(۱) ۔ ومن آیا تہ ان یر سل الر یا ح ۔۔الخ ۔

” اور اس کی قدرت کی نشا نیو ں میںسے ایک یہ بھی ھے کہ وہ ھوا ؤ ں کو ( با رش کی ) خوشخبری کے لئے ( پھلے ) بھیج دیا کر تا ھے اور( ۔۔؟۔۔۔) کہ تمھیں اپنی (۔۔؟۔۔۔) لذت چکھا ئے ۔ الخ( روم۔۴۶ )

(۲) ۔ وارسلنا الر یا ح لو اقع ۔۔الخ

” ھم نے با ر آ ور کرنے والی ھو ا ئیں چلا ئیں اور ھم نے آ سما ن سے پا نی بر سایا۔(۱۲الحجر)

(۳) ۔ وفی عا د اذار سنا علیھم الر یح العقیم ۔۔الخ

” اور قوم عادمیں بھی نشا نی ھے جب ھم نے ان پر بے بر کت ، با نجہ کر دینے والی ھوا چلا ئی ۔ جس جس پر وہ چلتی اسے بو سیدہ ھڈی کی طرح ریزہ ریزہ کئے بغیر نھیں چھوڑ تی “ ۔۔ الخ ( زاریا ت ۔۴۲)

(۴) ۔ والمر سلا ت عر فا ً (۱)  فا لعصفت عصفاً (۲) ۔۔ الخ ( الرمرسلا ت)

” ھو ا ؤ ں کی قسم جو دھیمی چلتی ھیں پھر ( ان کو ) پھا ڑ کر جدا کر دیتی ھیں “۔

آ گ

: افرایتم النا ر التی تو رون ( ۷۱ ) اایتم انشا تم ۔۔ الخ ( الر عد۷۲)

” تو کیا تم نے آگ کو بھی نگا ہ غور سے دیکھا کہ جسے تم لو گ لکڑ ی سے نکا لتے ھو ۔“

وفی الارض قطع متجا ورات و جنا ت من اعنا ب ۔۔۔ الخ ( رعد۱۴ )

ٌ(ٌاور دیکھو کہ ) خود زمین میں بھت سے حصے با ھم ملے ھو ئے ھیں اور انگور کے با غ  اور کھیتی  اور کھجور کے درخت بعض ایک جڑا ور شا خو ں کے اور بعض اکیلا ( ایک ھی شاخ کا ) کھیتی اور کھجو ر کے درخت حا لا نکہ سب کے سب ایک ھی پا نی سے سیراب ھو تے ھیں اور پھلو ں میں بعض کو بعض پر ھم تر جیح دیتے ھیں یقیناً عقل رکھنے والو ں کے لئے اس میں ( خدا کی قدرت کی ) بھت سی نشا نیاں ھیں ۔“

کا ئنا ت کی ھر شے ایک انداز ے سے خلق کی گئی ھے ۔

(۱) ۔ انا کل شیء خلقنا  ہ نقدر وما امر نا الا وا حد ة کلمح البصر ۔۔الخ

” ھم نے ھر شے کو ایک انداز ے سے پیدا کیا ھے ۔ ھما را حکم ایک پلک جھپکتے ھو تا ھے ۔“ ( القمر:۴۹،۵۰ )

(۳) ۔ ا  ن من شیء الا عند نا خذ ا ئنہ وما نزلہ الا بقدر معلوم

ھما رے پا س ھر شے کے خزا نے ھیں اور ھم انھیں ایک مقدار معلوم کے ساتھ نا زل کر تے ھیں ۔“ (  الحجر:۲۱)

(۳) ۔کل شیء عند ہ الا مقدار عالم الغیب والشھا دہ الکبیر المتعا ل (۹)

” ھر شے اس کے ھا ں ایک انداز ے سے ھے ۔ (وھ) عالم الغیب والشھا دت ھے اور بھت بلند و با لا ھے ۔

علم النبا تBotany

سبحان الذی خلق الا زواج کلھا مما تنبت الا رض ومن انفسھم ومما لا یعلمون ۔(یٰسین:۳۶)

” پا ک ھے وہ ذات کہ جس نے زمین سے تما م اگنے والی چیزو ں کو اورخود ان لو گو ں کو اور ان چیزوں کو جس کو یہ نھیں جا نتے سب کو جو ڑا پیدا کیا ھے ۔“

(۲) ۔ وھو الذی انشاً جنا ت معر و شات و غیر معرو شات ۔۔الخ

” اور وھی وہ ( خدا ) ھے کہ جس نے بھت سے با غ پیدا کئے ۔ جن میں مختلف اقسام کے درخت ھیں ۔ کچہ تو انگور کی طرح ( ٹٹیو ں پر چڑ ھا ئے ھو ئے اور کچہ بے چڑھا ئے ھو ئے ۔اورکھجور  کے درخت اور کھیتی جس کے پھل ( مز ے میں ) مختلف قسم کے ھیں اور زیتون وانار ( بعض صورت ورنگ و مزے میں ) ملتے ھیں اور بعض بے میل ۔الخ

(۳) الم تر ان اللہ انزل من السماء ما ء فا خر جنا بیہ ثمر ات مختلفا الو انھا ومن الجبا ل جدذ بیض وحمرمختلف الو انھا و غر ابیب سود ( ۲۷ ) ومن الناس والدواب والا نعام مختلف الو انہ

” کیا تم نے بغور نھیںدیکھا کہ اللہ نے آ سمان سے پا نی نا زل کیا اور اس سے مختلف رنگ کے پھل پیدا کئے اور پھاڑ کا لے ، سرخ اور سفید رنگ کے ٹیلوں والے اور انسان و حیوان اورچوپائے مختلف رنگوں والے ۔ ھاں اس طرح اللہ سے صاحبان علم ڈرتے ھیں ۔ بے شک اللہ غالب اور بخشنے والا ھے “ ۔

حیات:وجعلنا من الماء کل شی ء حیی ۔ (  انبیاء:۳۰ )

” اور ھم نے ھر جان دار شے کو پانی سے پیداکیا تو اس پر بھی یہ لوگ ایمان نھیں لائیں گے “ ۔

تخلیق انسان(anthropology ) تخلیق انسانی کی وضاحت کرتے ھوئے قرآن حکیم کا ارشاد ھے:

۱۔ ولقد خلقنا الا نسان من سلالة من طین o ثم جعلناہ نطفة فی قرار مکین o ثم خلقنا النطفة علقة - - الخ (۱۲ - ۱۳ - ۱۴- المومنون)

”اور ھم نے انسان کو مٹی کے جوھر سے پیدا کیا پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ھوئی بوند میں تبدیل کیا ۔ پھر اس قطرے کو جمے ھوئے خون کو گوشت کا لو تھڑا بنایا ۔ پھر گوشت کی ھڈیاں بنائیں پھر ھڈیوں پر گوشت چڑھایا۔ پھر اسے ایک دوسری ھی مخلوق بنا کر کھڑا کیا بس بڑا ھی بر کت والا ھے اللہ کہ جو تما م کاریگروں سے بھترین کارگر ھے ۔ (۱۴ ۔ مومنوں )

اور سورہ آل عمران  میں خلا ق عالم کا ارشاد ھے کہ :

ھو الذی یصور کم فی الار حا م کیف یشا ء

” وھی وہ ( خدا ) ھے کہ جو ار حا م میں تمھا ری صورت جیسی چا ھتا ھے بنا تا ھے “

اور سورہ زمرمیں ھے کہ :

خلقکم من نفس وا حد ة ثم جعل منھا ز وجھا ۔۔۔الخ

” اسی نے تم سب کو ایک ھی شخص سے پیدا کیا ۔ پھر اس ( کی با قی مٹی ) سے اس کی بیو ی ( حوا ) کو پیدا کیا ۔ اور اسی نے تمھا رے لئے آٹہ قسم کے چو پا ئے پیدا کئے ۔ وھی تم کو تمھا ری ما ؤ ں کے پیٹ میں ایک قسم کی پیدا ئش کے بعد دوسر ی قسم کی پیدا ئش  سے تھری تھری تا ریکیو ں میں پیدا کر تا ھے ۔ “ ۔۔الخ

انسانی لغا ت

ومن آ یا تہ خلق السموات والا رض وا ختلا ف الستنکم وا لو نکم ۔۔الخ

” اور اس کی قدرت کی نشا نیو ں میں اے آ سما نو ں اور زمین کا پیدا کر نا “ ( ۲۲۔ الروم ) اور تمھا ری زبا نو ں اورر نگتو ں کا اختلا ف بھی ھے ۔ یقیناً اس میں صاحبا ن علم کے لئے بھت سی نشا نیا ں ھیں ۔“

علم الحیوان

واللہ خلق کل دابة من ما ٓء فمنھم من یمشی ۔۔الخ (۲۵۔نور )

” اور خدا ھی نے زمین پر چلنے والے تما م جا ندار وں کو پا نی سے پیدا کیا ۔ ان میں بعض تو اپنے پیٹ کے بل چلتے ھیں اور بعض چار پا ؤ ں پر چلتے ھیں ۔ خدا جو چا ھتا ھے پیدا کر تا رھتا ھے ۔۔الخ(۲۵ ۔ نور ٌ )

”اور خداھی نے زمین پر چلنے والے تمام جانداروں کو پانی سے پیدا کیا ۔ ان میں بعض تو اپنے پیٹ کے بل چلتے ھیں اور چار پاؤں پر چلتے ھیں ۔ خدا جو چاھے پیدا کرتا رھتا ھے ۔۔ الخ

وان لکم فی الا نعام لعبر ةً نسقیکم مما فی بطو نہ ۔۔۔ الخ (نخل:۶۶ ٌ )

” یقیناً چو پا ؤ ں میں بھی تمھا رے لئے عبرت ھے کہ ان کے پیٹ میں سے گو بر اور خون کے در میا ن سے ھم تم کو خا لص دود ہ پلا تے ھیں جو پینے وا لو ں کے لئے خو شگوار ھے ۔

وا لانعا م خلقھا لکم فیھا دف ء ومنا فع ومنھا تا کلو ن ۔۔( نحل:۱۵ٌ )

” اور اسی نے چو پا ئے پیدا کئے کہ تمھا رے لئے ان (کی کھا ل وادن ) سے جا ڑو ں (کی  ساما ن ) ھے اور بھی منا فع ھیں ۔ اور ان میں سے بعض کو تم کھا تے ھو ۔“

وما من دا بة فی الا رض ولا طا ئر یطیر بجنا حیہ الا امم امثا لم ۔الخ ، زمین پر چلنے پھر نے والے جو جا ندار ھیں یا جو اپنے دو نو ں پر وں سے اڑنے والا پر ندہ ھے ان کی بھی تمھا ری طرح جما عتیں ھیں ۔ ھم نے کتا ب میں کو ئی با ت فر د گزاشت نھیں کی ھے ۔۔“ الخ ( ۲۸۔انعام ٌ )

پر ندے

الم تر ان اللہ یسبح لہ من فی ۔۔الخ (  نو ر:۴۱ ٌ )

” کیا تم نے نھیں دیکھا کہ جتنی مخلو ق آ سما نو ں اور زمین میں ھے اور پر ندے پر وں کو پھیلا ئے اسی کی تسبیح کیا کر تے ھیں ۔سب کے سب اپنی نما ز اور تسبیح کا طریقہ خوب جا نتے ھیں ۔۔الخ ۔

پر ندے سے پیغا م رسانی

فقال احطت بما لم تحطہ ۔۔الخ (۲۲۔نمل ٌ )

” ھد ھد نے سلیما ن نبی سے کھا ) مجھے وہ با ت معلوم ھے کہ جو آپ کو بھی معلوم نھیں آپ کے پا س شھر سبا سے ایک تحقیقی خبر لے کر آیا ھو ں میں نے ایک خاتون کو دیکھا ھے کہ جو وھا ں کے لو گو ں پر حکو مت کر تی ھے ۔“

چیو نٹی کی گفتگو

قالت نملة یا یھا النمل اد خلو امسا کنکم ۔۔الخ

” تو ایک چیو نٹی نے کھا اے چیو نٹی اپنے اپنے بلو ں میں داخل ھو جا ؤ ۔ ایسا نہ ھو کہ سلیما ن اور ان کالشکر تمھیں روند ڈالے اور ان کو اس کی خبر بھی نہ ھو ، تو سلیمان اس کی ااس بات پر ھنس پڑ ے “ ۔۔الخ

با دل اور با رش اور بر ق

ورعد الم تر ان اللہ یز جی سحا با ثم یو لف بینہ ۔۔الخ (نو ر:۴۳ ٌ )

” کیا تو نے نھیں دیکھا کہ یقینا ً خدا ھی با دل کو چلا تا ھے ۔ پھر وھی با دل کو با ھم ملا تا ھے ۔ پھر وھی اسے تھہ بہ تھہ رکھتا ھے ۔ تب اس کے در میا ن سے با رش کو نکلتا ھوا تم دیکھتے ھو اور آ سما ن میں جو ( جمے ھو ئے با دلو ں کے ) پھا ڑ ھیں ان میں سے وھی اسے بر ساتا ھے پھر انھیں جس پر چا ھتا ھے پھنچا دیتا ھے ۔ اور جس سے چا ھتا ھے ٹا ل دیتا ھے “۔۔الخ ۔

بر ق ورعد  ھوالذی یر یکم البرق خو فا ً وطمعا وینشئی السحا ب الثقا ل (۱۲) ویسبح الرعد ۔۔الخ

” وھی ھے کہ جو تمھیں ڈرانے اور امید دینے کے لئے ( بجلی کی چمک دکھا تا ھے ) اور ( پا نی سے بھر ے ) بو جھل با دلو ں کو پیدا کر تا ھے ۔ گرج اور فر شتے اس کے خوف سے اس کی حمد وثنا کے ساتھ تسبیح کر تے ھیں ۔ اور وھی ( آسما ن سے ) بجلیا ںبھیجتا ھے پھر اسے جس پر چا ھتا ھے گرابھی دیتا ھے ۔ اور یہ لوگ خدا کے با رے میں ( خوا ہ مخواہ ) جھگڑا کر تے ھیں ۔ حا لا نکہ وہ بڑا سخت قوت والا ھے ۔“ (  الرعد:۱۲ٌ )

سما وات

(۱) ۔ ” اس نے آ سما نو ں کو ایسے ستو نو ن کے بغیر پیدا کیا کہ جن کو تم دیکہ سکو اور اسی نے (زمین) کسی طرف جھک نہ جا ئے ۔اور اسی نے ھر طرح کے چلنے پھر نے والے جا نو ر زمین پر پھیلا دیئے ۔“ ال ۔

(۲) ۔” کیا تم نھیں دیکھتے ھو کہ اللہ نے کس طرح آ سما ن تھہ بہ تھہ  بنا ئے اور ان میں چا ند کو نور اور سوج کو چرا غ بنا یا ۔“

(۳) ۔ ” اور ھم نے تمھا رے اوپر سات مضبوط آ سما ن بنا ئے ( ۱۳) اور ایک نھا یت رو شن و گر م چرا غ پیدا کیا ۔“ نبا ء

(۴) ۔” اور ھم نے آ سما نو ں کو اپنی قدرت کے ھا تھو ں سے پیدا کیا اوریقیناً ھم (انمیں ) وسعت کر نے والے ھیں ۔“ )(ذاریات:۷ٌ )

(۵) ۔” اور ھم نے تمھا رے اوپر سات راستے بنا ئے اور ھم مخلوق سے بے خبر نھیں ھیں ۔“ ( ۱۷۔ مو منو ن ٌ )

(۶) ۔” پھر وہ آ سما ن کی طرف متو جہ ھو ا اور وہ ( آ سما ن اس وقت ) دھو اں تھا ۔ تو اس نے اس سے اور زمین سے کھا تم دو نو ں آ ؤ ۔ ( اطا عت کرو ) خو شی سے یا کرا ھت سے دونو ں نے کھا ھم بخوشی حا ضر ھیں ( حکم کے تا بع ھیں ) پھر اس نے دودن میں اس (دھوئیں ) کے سات آ سما ن بنا ئے ۔“ ۔الخ ۔

(۷) ۔” وہ (خدا کہ ) جس نے تما م آ سما نو ں اور زمین اور کچہ ان دو نو ں میں ھے ۔ چہ دن میں پیدا کیا ۔ پھر عر ش ( اقتدار ) پر غا لب ھو ا ۔“ ۔۔الخ (فرقانٌ )

(۸) ۔” اور آ سما ن کی قسم جس میں را ستے ھیں ۔“ (ذاریا ت :۷ٌ )

(۹)۔” بابر کت ھے وہ خدا کہ جس نے آ سما ن میں برج بنا ئے ( ۱۳ ) اور ان بر جو ں میں ( آ فتا ب کا ) چرا غ اور جگمگا تا چا ند قرار دیا ۔“ ( ۹۴ ۔ بروج ٌ )

شمس و قمر

(۱)۔” وھی وہ (خدا ) ھے کہ جس نے آ فتا ب کو چمکدار اور ما ھتا ب کو رو شن بنا یا اور اس کی منازل مقرر کیں ۔“

” تا کہ تم لو گ سالو ں کی گنتی اور حساب معلو م کر سکو ۔“ ( یو نس:۵ ٌ )

(۲) ۔” اور وھی ( قا در مطلق ) ھے کہ جس نے رات ودن اور آ فتا ب و ما ھتا ب کو پیدا کیا کہ جو سب کے سب ایک ایک مدار میں تیر رھے ھیں ۔“

(۳) ۔” اور ( خدا کی ایک نشا نی ) آ فتا ب ھے کہ جو اپنے ٹھکا نے پر چل رھا ھے یہ ( سب سے ) غا لب واقف کا ر کا ( مقرر ) اندا زہ ھے ۔ اور ھم نے چا ند کے لئے منا زل مقرر کیں ۔ یھا ں تک کہ ھر پھر کر ( آ خر ما ہ میں ) کھجور کی پرا نی شا خ کی طرح ( پتلا ، ٹیڑ ھا )  ھو جا تا ھے ۔ نہ تو آ فتا ب ھی سے بن پڑ تا ھے کہ وہ ما ھتا ب کو جا لے ۔ اور نہ ھی رات دن سے آ گے بڑہ سکتی ھے ۔ (چا ند ، سورج ، ستا رے ) ھر ایک اپنے اپنے آ سما ن ( مدار ) میں تیر رھا ھے ۔“

ستا رے و سیا رے

(۱) ۔” ان ستا روں کی قسم جو چلتے چلتے پیچھے ھٹ جا تے ھیں ۔ اور غا ئب ھو جا تے ھیں ۔“ ۱۵۔۱۶۔ تکویرٌ )

(۲) ۔” اور وھی وہ خدا ھے کہ جس نے تمھا رے ( نفع کے ) لئے ستا رے پیدا کئے تا کہ تم جنگلو ں اور در یا ؤ ں کی تا ریکیو ں میں ان سے را ستے معلو م کرو ۔ جو لو گ واقف کا ر ھیں ان کے لئے ھم نے تفصیل سے نشا نیا ں بیا ن کر دی ھیں “ ( ۹۷۔انعام ٌ )

(۳) ۔” اور ھم نے آ سما ن دنیا کو ( ستا رو ں کے ( چرا غوں سے زینت دی اور ان کی شیا طین کے ما ر نے کا آ لہ بنا یا ۔ اور ھم ان کے لئے دھکھتی ھو ئی آ گ کا عذاب تیا ر کر رکھا ھے ۔ ( ۵۔الملک ٌ )

شھاب

(۱)۔ ” ھم نے آ سما ن کو ٹٹو لا تو اس کو بھت قوی نگھبا نو ں میں اور شعلو ں سے بھرا ھو ا پا یا ۔“ (الجن:۸ٌ )

زمین:

(۱) ۔ ” وہ (خدا) کہ جس نے تمھا رے لئے زمین کو گھوارہ بنا یا اور اس میں تمھا رے نفع کے لئے را ستے بنا ئے تا کہ تم راہ معلو م کر سکو ۔“ ( ز خرف :۱۰ٌ )

(۲) ۔” وھی وہ ذات ھے کہ جس  نے زمین کو بچھا یا اور اس میں ( بڑے بڑ ے ) پھا ڑ اور در یا بنا ئے اور اس نے ھر طرح کے پھلو ں کی دو ، دو قسمیں ( جو ڑا) پیدا کیں ۔ وھی رات دن کو ڈھا نک دیتا ۔ یقیناً جو لو گ غور وفکر کر تے ھیں ان کے لئے اس میں ( خدا کی قدرت کی ) بھت سی نشا نیا ں ھیں ۔“ (الرعد :۴ٌ )

(۳) ۔” اور ھم نے زمین کو پھیلا ۔ اور اس میں پھا ڑ و ں کے لنگر ڈال دیئے اور ھم نے اس میں ھر قسم کی منا سب و مو زوں چیز ا گا ئی ۔“ ( ۱۹۔ الحجر ٌ )

(۴) ۔” اور زمین میں یقین کر نے کے لئے بھت سی نشا نیا ں ھیں اور تمھا رے نفو س میں بھی ۔ کی بغور نھیں دیکھتے ھو اور آ سما ن میں تمھا را رزق ھے کہ جس کا تم وعدہ کئے گئے ھو ۔“

(۵) ۔” وہ وھی ( خدا ) تو ھے جس نے زمین کو تمھا رے لئے نر م و ھموار کر دیا ، تم اس کے اطراف و جو انب میں چلو پھر و اور اس کی دی ھو ئی روزی کھا ؤ اور پھر اسی کی طرف لو ٹ کر جا نا ھے ۔“ ( ۱۵۔ الملک ٌ )

(۶) ۔” اور ھم نے ھی زمین پر بو جھل پیا ڑ بنا ئے تا کہ زمین ان لو گو ں کو لے کر کھیں جھک نہ جا ئے اور ھم نے اس میں چوڑ ے چو ڑے راستے راستے بنا ئے تا کہ یہ لو گ راہ پا سکیں ۔( ۳۱۔ ابنیا ءٌ )

(۷) ۔” اور تم پھا ڑ و ں کو دیکہ کر انھیں مضبو ط ٹھھر ے ھو ئے سمجھتے ھو حالا نکہ با دل کی طرح چلتے ھیں ۔۔ الخ ( ۸۸۔ النحل ٌ )

علم قیا فہ  اس علم میں انسانی بنا وٹ وسا خت پر بحث ھو تی ھے جس سے اس کے با طنی اخلا ق و صفا ت اور حا لا ت معلوم کئے جا تے ھیں ۔ کیو نکہ رنگ ووضع اور اندازو مقدار کے اختلا ف کے لئے ضروری  ھے کہ کو ئی خا ص وجہ و غرض ھو جس طرح بدن کی بنا وٹ سے انسان کے با طنی حالا ت معلو م کئے جا تے ھیں اسی طرح اس کے ھا تہ پا ؤ ں اور سر کی حر کت اور انداز گفتگو سے اس کے با طنی اخلا ق معلوم کئے جا سکتے ھیں ۔ جیسا کہ گفتگو کے وقت نا ک کا پھولنا نخوت کی دلیل ھے اور ھر وقت نظر یں جھکا ئے رکھنا بزدلی کی نشا نی ھے ۔ گفتگو کے وقت نظر یں لڑا ئے رکھنا بے حیا ئی کی دلیل ھے ۔ اور جلد جلد گفتگو کر نا حما قت کی دلیل ھے ۔ اور آ ھستہ آ ھستہ گفتگو کر نا عقل مندی کی دلیل ھے ۔ بلند آ واز ی پھیپھڑوں کی وقت کی دلیل ھے ۔ آ نکھو ں کی معمو لی سے زیا دہ گردش عیا ری کی نشا نی ھے اور قد کا کمبا ، ھو نا حما قت کی علا مت ھے اس علم قیا فہ کی مختلف آ یا ت میں و ضا حت کی گئی ھے ، چنا نچہ سو رئہ احزاب میں منا فقین کی حا لت کو بیا ن کر تے ھو ئے  خدا ئے کا ئنا ت کا ارشاد ھے کہ ۔

” فا ذا جا ء الخو ف را ئیتھم ینظر ون الیک تدو ر اعینھم کالّذی یغشی علیہ من المو ت فا ذا ھب الخو ف سلقو کم بالسنة حداد “ ۔۔الخ (۱۹ٌ )

” تو جب ( ان پر ) کو ئی خوف ( کا مو قع ٌ ) آ پڑا تو تم ان کو دیکھتے ھو کہ ( یا س سے ) تمھا ری طرف دیکھتے ھیں اور ان کی آ نکھیں اس طرح گھو متی ھیں کہ جیسے کسی پر موت کی بے ھو شی طا ری ھو جا ئے اور پھر جب خوف جا تا رھا ( ایمان داروں کی فتح ھو گئی ) توما ل ( غنیمت ) پر گر تے پڑ تے تم پر اپنی تیز زبا نو ں سے طعن کر نے لگے ۔ یہ لو گ ایما ن ھی نھیں لا ئے ۔ الخ

اس آ یت میں گر دش چشم اور تیز گفتگو سے ان کے ایما ندار نہ ھو نے پر استدلا ل کیا گیا ھے کہ وہ محض دکھا وے کے مو من ھیں ۔ ان کے با طن میں کفر ھے ۔ اور دوسری جگہ خلا ق عالم کا ارشاد ھے ۔

ویقول الذین آمنو  الو لا نز لت سورة (ج) فا ذا انزلت سورة محکمة وذکر فیھا القتا ل رایت الذین فی قلو بھم مر ض ینظرو ں الیک نظر المغشی علیہ من الموت ۔۔ الخ ( محمد:۲۰ ٌ )

” اور مو من کھتے ھیں کہ ( جھا د کے  لئے ) کوئی  سورہ کیو ں نازل نھیں ھوتا لیکن جب کوئی صاف واضح معنی کا سورہ اور اس میں جھا دکا بیان ھوا تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا )ھے تو تم ان کو دیکھو گے کہ تمھاری طرف اس طرح دیکھتے ھیں جیسے کسی پر موت کی بے ھوشی طاری ھے ۔

اس آیت میں ان کے نفاق کے اظھاران کی حرکت چشم سے واضح کیا گیا ھے اور اسی سورہ محمد میں ھے

ام حسب الذین فی قلوبھم مرض ان لن یخرج الله اضغانھم ۔۔۔الخ

”کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں (نفاق کا مرض ھے) ۔ یہ خیال کرتا ھے کہ خدا ان کے دل کے کینوں کو کبھی ظاھر نھیں کرے گا ۔اور اگر ھم چاھتے تو  ان لوگوں کو دکھا دیتے تم ان کی پیشانی ھی سے ان کو پھچان لیتے ۔اور تم ان کو ان کے انداز گفتگو ھی سے ضرور پھچان لو گے ۔اور خدا تمھارے اعمال سے واقف ھے “

علم معمہ

کسی نے حضرت علی (ع)سے دریافت کیا کہ قرآن حکیم میں معمہ کھاں ھے ۔ تو آپ نے فرمایا سورہ ھود میں ھے ۔ ما من دابة الا ھو اخذ بنا صیتھا ۔ الخ ”(ھود:۵۶)یعنی زمین پر جتنے چلنے والے جاندار ھیں سب کی پیشانی اسی کے دست قدرت میں ھے

مگر آیت لفظوں میں یہ خصوصیت ھے کہ ”دابھ“یعنی کوئی ایسا دابہ نھیں ھے کہ جس کی پیشانی کو ”ھو“نہ پکڑے ھو لفظ” ھو “

لفظ (دابھ)کی پیشانی یعنی (د)کو پکڑے ھوئے ھے اور ”ھو“کے ساتھ دال ملا دیں تو ”ھود“نبی کے نام کا معمہ حل ھوتا ھے ۔

پس اس آیت میں صاف ، واضح معمہ موجود ھے ۔

علم ھندسہ

اس علم کا تعلق خطوط و دوائر سے ھے خطوط سے اشکال پیدا ھوتے ھیں ۔مثلا مثلث ، مربع مخمس ،وغیرہ اشکال یا اثباتی ھیں یا عملی ھیں ۔ اس کا فائدہ عمارت کی تعمیر ، ثروف کی ساخت اور صناعات وزرگری ، آھنگری وغیرہ میں ظاھر ھوتا ھے سورہ مرسالات میں خلاق عالم ارشاد ھے ”انطلقوا الی ظل ذی ثلث شعب“(۳۰)”(دھوئیں کے)سائے کی طرف چلو جس کے تین حصے وکونے ھوتے ھیں ”اور سورہ بقرہ میں ھے کہ واذیر فع ابراھیم القواعد من البیت “

” اور جب اسماعیل و ابرا ھیم  خا نہ کعبہ کی بنیا دیں بلند کر رھے تھے  “ ۔۔ الخ ( بقرہ:۱۲۷ ٌ )

قا عد ہ : اصول ھند سہ میںقا عدہ اس خط کو کھتے ھیں کہ جس پر مثلث یا مر یع کی بنا ھوتی  ھے ۔ اوپر کے دو خط مثلث کی سا قین کھلا تے ھیں۔ اور نیچے کا خط قاعدہ کھلا تا ھے ۔ کیو نکہ اسی پر مثلث کی شکل کی بنیا د ھے ۔ اسی طرح مکا ن کا قیام دیواروں وستونو ں  پر ھے لھذا ان کی قا عدہ قواعد کھتے ھیں۔

علم جغرفیہ ” ولقد بو ا نا بنی اسرائیل ۔۔الخ ( یو نس :۹۳)

اور ھم نے بنی اسرائیل کو ( ملک شام ) میں بھت اچھی جگہ بسا یا اور ان کو اچھی اچھی چ

یز یں کھا نے کو دیں ۔“

(۱) ۔ یھاں مقا م محمود سے مرا د شام وبیت المقدس ھے جھا ں کو ھستا نی نھر یں اور اونچے پھا ڑ ، پھل پھو ل وسبز ے ھیں ۔

علم سیا حت قل سیرو افی الارض ثم انظر و ا۔۔الخ ( انعام:۱۳ )

” ( اے رسول ) کھہ دوکہ ذرا روئے زمین میں چل پھر کر دیکھو تو کہ ( پیغا م الھٰی کو ) جھٹلا نے والو ں کا کیا ( بر ا )انجام ھو ا ۔“

جھا ز رانی

” وا صنع الفلک با عیننا ووحینا ۔۔الخ (ھود:۳۶ ) ( اے نو ح )

” اور ھما ری نگا ہ قدرت  کے سامنے ھما ری وحی و حکم سے کشتی بنا ؤ ۔“

(۲) ۔ بسم اللہ مجر یھا و مر سا ھا ۔۔۔۔الخ (  ھو د:۴۱ ٌ )

” اور نو ح نے ( اپنے ساتھیو ں سے ) کھا کہ خدا  کے نا م سے اس کا بھا ؤ ٹھھر اؤ ھے تو تم کشتی میں سوار ھو جا ؤ ۔ یقیناً میرا پر ور دگا ر  بڑا بخشنے والا ھے ۔

علم الحساب ( ۱)

جمع کی مثا ل ” وار سلنا ہ الی ما ئة الف اویزیدون ۔۔الخ (  کھف:۲۵ ٌ )

” اور ھم نے اسے ( یو نس کو ) ایک لا کہ بلکہ زیا دہ کی طرف نبی بنا کر بھیجا “ ۔ الخ (۱۲۷۔ صا قاتٌ )

حدیث میں ھے کہ یھا ں ” او“ کے اویزیدون سے مراد ھزار ھے ۔ یعنی ایک لا کہ میں تیس جمع کردو ۔

(۲) ۔” ولبثو افی کھفھم ثلث ما ة “ ۔۔الخ (  کھف:۲۵ ) ” اور وہ غا ر میں تین سو سال رھے اور اس میں نو جمع کردو ۔“

تقسیم کی مثال یو صیکم اللہ فی او لا دکم للذ کر مثل حظ الا نثبین ۔ الخ ( النساء:۱۱ ٌ )

خدا تمھاری اولاد کے حق میں تمھاری وصیت کرتا ھے کہ لڑکے کا حصہ لڑکیوں کے برابر ھے ۔۔الخ

اس کے علاوہ میراث میں والدین و زوجین اور اولاد و دیگر اقر با کے حقوق کی تقسیم کو قرآن حکیم نے وضاحت سے بیان کیا ھے ۔

ضرب کی مثال  کمثل حبة انبتت سبع سنابل ۔۔الخ

” راہ  خدا میں خرچ کی مثال اس دانہ کی سی مثال ھے کہ جس کی  سات بالیاں نکلیں ، ھر با لی میں سو دانے ھو ں اور وہ جس کے لئے چا ھتا ھے کئی گنا ہ اضا فہ کر دیتا ھے ۔اور خدا بڑی وسعت والا واقف کار ھے ۔“

مجموعی حساب کی مثا ل  ” ھو الذی جعل الشمس ضیا ٓء والقمر نو راً وقدرہ منا زل لتعلمو اعدد السنین  والحساب ۔۔۔الخ( ۵ ۔ یو نس ٌ )

” وھی وہ (خدائے قادر ) ھے کہ جس نے سورج کو چمکدار اورچاندکو روشن بنا یا ۔اور اس کی منز لیں مقرر کیں ۔ تا کہ تم لو گ سا لو ں کی گنتی اور حساب معلوم کرو ۔“ ۔الخ ۔

تعبیر رویا  سورئہ یو سف میں شاہ مصر کو تعبیر بتا نے کے متعلق جنا ب یو سف کے قول کو بھی بیا ن کیا گیا ھے کہ ،

” رب قد اتیتنی من الملک وعلمتنی من تا ویل الحا دیث “ ۔۔الخ ( یوسف )

” پا لنے والے تو نے مجھے ملک بھی عطا کیا اور مجھے خواب کی با توں کی تعبیر بھی تعلیم کی ھے ۔“

علم کیمیا اس علم علوی قوائے فا علہ کو سفلی وقائے منفعلہ سے تر کیب دے کر خواص پیدا کئے جا تے ھیں جیسے حروف والسما ء سے جو افعال و اخواص ظا ھر ھو تے ھیں اسے علم کیمیا کھتے ھیں ۔ اس میں سحر ودفع سحر دو نو ں شامل ھیں ۔ کیو نکہ سحر میں بھی کچہ الفا ظ و حروف مثلاً شمسی و قمر ی ، نورانی ظلما تی ، آ تشی یا خا کی اوربرّی یابحری کو تر تیب دے کر آ ثا ر مر تب کئے جا تے ھیں ۔

قرآن حکیم میں سحر ودفع سحر دو نو ں کا تذ کرہ ھے  جیسا کہ جنا ب مو سیٰ (ع) کے واقعا ت میں اس کی وضاحت ھے ۔ چنا نچہ سورئہ اعراف میں ھے کھ، فلما القو اسحرو اعین الناس ۔۔الخ (اعراف:۱۱۵ ) ” پھر جیسے ھی ان لو گو ں نے ( اپنی رسیا ں ) ڈالیں تو لو گو ں کی نظر بندی کر دی ۔“ ۔الخ ۔

دفع سحر کے لئے سورئہ الفلق و سورة الناس کا خصو صیت  سے نزو ل ھو ا ھے ۔

ریمیا  اس علم میں ان قواعد سے بحث ھو تی ھے کہ جن کے معلوم کر نے کے بعد یہ ملکہ حا صل ھو جا تا ھے کہ ار ضی اجزاء کو با ھم تر کیب دے کر عجیب عجیب افعال ظا ھر کئے جا تے ھیں ۔اسے شعبدہ بھی کھتے ھیں ۔ مثلا ً پسا ھو ا نیل نئے کپڑے میں رکہ کر نتی بنا کر انجیر کی زاخ کے تیل میں چراغ  جلا ئیں تو اس مکا ن میں تما م آدمی سبز پو شی دکھا ئی دیں گے ۔ جیسا کہ سورة طہ میں ھے ” تو بس مو سیٰ (ع) کو ان جا دو ( کے زور ) سے ایسا معلوم ھوا کہ ان کی رسیا ں اور ان کی چھڑیا ں دوڑرھی ھیں ۔“

علم جفر   اس میں علم حروف کے خواص وافعا ل سے بحث ھو تی ھے ۔ خوا ص دو قسم کے ھیں (۱) اظھا ر امور مخفیہ جیسے آ ئندہ ، گز شتہ ، مو جود کو معلوم کر نا ۔ (۲) تر تیب آ ثا رجیسے مر یض کو صحت مند کر نا ۔ فقیر کو غنی کر نا ۔ سر کش کو مغلو ب کر نا دشمن کو مغلوب کر نا اسما ء اللیل کے خواص اسی علم سے متعلق ھیں ۔جیسے ۔

العزیز چا لیس روز تک روزانہ نما ز صبح کے بعد اکتا لیس با ر پڑھنے سے معزز ھو گا ۔الم ،الم ،کھیعص ، طہ ، طسم ، یس ، ص، حم ، حمعسق ، ق ، ن، کو چا ندی کی انگو ٹھی  پر ما ہ رجب کی پھلی جمعرات  کو کندہ  کر اکے اپنے پا س رکھے تو جا بر و ظا لم کا خوف ھو گا تو وہ خوف ختم ھو جائےگا۔حاکم کے پا س جا ئے گا تو عز ت پا ئے گا ۔ منہ میں رکھے تو پیاس کی تکلیف کم ھو گی ۔ اور ایک شب وروز با رش کے پا نی میں رکہ کر اس پانی کو پینے سے حا فظہ تیز ھو گا ۔ بے کا ر ھا تہ میں رکھے تو روز گا ر پا ئے گا ۔ لڑ کی پھنے رھے تو شادی ھوجا ئے گی ۔ مصرو ع پھنے تو افا قہ ھو گا ۔“

ضرب المثلین  انّ انکر الا صوات لصوت الحمیر ۔ الخ (  لقمان:۱۹ )

” اور ( دوسروں سے بو لنے میں ٌ ) اپنی آ واز دھیمی رکھو کیو نکہ آ وازو ں میں سب سے بری آ واز گدھے کی ھے ۔“

اور سورة نور میں ارشاد ربانی ھے کہ ( گندی عورتیں گندے مردوں کے لئے ( منا سب ) ھیں اور گندے مرد گندی عور تو ں کے لئے ۔اور پا ک عور تیں پا ک مردوں کے لئے منا سب ھیںاور پا ک مرد پا ک عور تو ں کے لئے ھیںٌ )

علم العرو ض

اس علم میں نظم کے اوزان سے بحث ھو تی ھے بحر رمل ثم اقرر تم وانتم تشھدرن ۔ ثم انتم ھوء لا ء تقتلون۔اس کی تقطیع ۔ثم اقرر تم  ، ثم وانتم ،تشھدون ،ثم انتم ،فا علا تن،فا علا تن ،فا علا تن ،فاعلا تن ،ھولا ء ، تقتلون فاعلا تن  ،فاعلا تن ،

بحر متقا رب  لا تلبسو الحق با لبا طل فعو لن فعو لن فعل۔

ابجدی حساب اھدنا الصراط المستقیم ۔

ا۔ا۔د۔ ن۔ا۔ ل۔ ص۔م،ر،ا،م، س،ت۔ق۔ی۔م۔ا۱۱۰۴۰۰۶۰۴۰۳۰۱۹۱۲۰۰۹۰۳۰۱۱۵۰۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۴۰

کل مجمو عہ : الم ذلک الکتا ب لا ریب فیہ ھدیً للمتقین کے عدد ۴۵۳ اور علی ولی اللہ ھو امام الحق کے بھی ۴۵۴عددھیں ۔

مو سیقی

قرآن حکیم میں اس کا ذکر بطور مذ مت آ یا ھے یا بطور نھی اور اس کے تر ک کی تعریف ھے اور گا نے کو لغو سے تعبیر کیا گیا ھے ۔

” والذین ھم عن اللغو معر ضون ۔۔۔(مو منون:۳ )

” اور وہ جو بے ھو دہ با تو ں سے منہ پھیر ے رھتے ھیں “

” والذین لا یشھدون الزور واذا مرو ابا للغو مرو اکر اما ً ۔۔۔(فر قان:۷۲ )

” اور وہ لوگ جھوٹ اور فریب کے پاس حاضر بھی نھیں ھوتے اور جب لغو کاموں کے قریب سے گزرتے ھیں تو بزرگانہ انداز سے گزر جاتے ھیں“

علم التا ریخ انبیا ئے کرام اور امم سابقہ کے تذ کر ے بیا ن کئے گئے ھیں ۔

علم آ ثا ر قدیم

پس ذرا رو ئے زمین پر چل پھر کر دیکھو تو کہ ( انبیا ء کو ) جھٹلا نے والو ں کا انجام کیا ھو ا ۔ “ ( العمر ان:۱۳۷ )

” ( اے رسول ) تم کھہ دو کہ ذرا رو ئے زمین پر چل پھر کر دیکھو کہ جو گ اس سے قبل گزر چکے ھیں۔ ان کا انجام کیا ھوا ۔۔ الخ (یو نس:۹۶ ٌ )

” تو آج ھم تیر ے بدن کو بچا لیںگے تا کہ تم اپنے بعد والو ں کے لئے عبرت نبو تو یقیناً بھت سے لو گ  ھما ری نشانیوں سے غا فل ھیں ۔“ (روم:۴۲ )

” کیا ان لو گو ں نے رو ئے زمین پر چل پھر کر نھیںدیکھا کہ جو لو گ ان سے پھلے تھے ان کا نجام کیا ھو ا ۔ ( حالا نکہ وہ لو گ قوت و شان میںاور اپنی نشا نیاں ( عما رتیں ) چھو ڑ نے میں بھی ان سے کھیں بڑہ چڑہ کر تے ۔۔الخ ( مو من:۲۱ )

” اور ھم نے اس ( قوم ) پر کھرنجے دار پتھر بر سا ئے جن پر تمھا رے رب کی طرف سے نشا ن بنا ئے ھو ئے تھے ۔(ھو د:۸۳)

علم درایہ

اس علم میں خبر کے احوال سے بحث ھو تی ھے کہ اس کا راوی کیسا ھے کئی راوی  ھیں کہ ایک راوی ھے پھر سلسلہ قائم ھے یا منقطع ھے ۔ چنا نچہ خدا وند عالم کا ارشاد ھے ” ان جا ء کم فا سق ۔۔الخ (  حجرات:۶ ) ” اے ایما ندار و اگر کو ئی بد کر دار تمھا رے پا س کو ئی خبر لے کر آ ئے تو خوب تحقیق کر لو ۔(ایسا نہ ھو کہ ) تم کسی قوم کو نا دانی سے نقصان پھنچا ؤ “ ۔۔ الخ اور ھد ھد پر ند ے کی خبر سننے پر جنا ب سلیما ن (ع) نے کھا تھا کہ قال ستنظر اصدقت ام کنت من الکا ذ بین ۔” سلیما ن (ع) نے کھا ھم ابھی دیکھتے ھیں کہ تو نے سچ کھا یا تو جھو ٹا ھے “

علم الا مثا ل : ” ضرب اللہ مثلا ً للذین کفروا امر اة نو ح وا مرا ة لو ط ۔۔الخ ( تحریم:۱۰ )

” خدا نے کا فرو ں کی عبرت کے لئے ) نو ح (ع) کی بیو ی اور لو ط (ع) کی بیو ی کی مثا ل بیان کی ھے ۔ یہ دو نو ں ھما رے نیک بندو ں کے تصرف میں تھیں تو دو نو ں نے اپنے شو ھر وں سے دغا کیا ۔ تو ان کے شو ھر خدا کے مقا بلے میں ان کے کچہ بھی کا م میں نہ آ ئے ۔۔۔الخ ۔

مثلھم کمثل الذی استو قدنا راً ۔ان کی مثا ل اسکی مثا ل ھے کہ جس نے آ گ کو رو شن کیا ۔

علم الا خلا ق

(۱) ۔ اور لو گو ں سے خو ش اسلو بی سے با ت کیا کرو ۔

(۲) ۔ اور خدا ئے رحمن کے بند ے تو وہ ھیں کہ جو زمین پر فر و تنی سے چلتے ھیں اور جب جا ھل ان سے ( جھا لت کی ) با ت کر تے ھیں تو وہ ( انھیں کھتے ھیں ( تم سلا مت رھو ۔

(۳) ۔  اور تم ( دوسرو ں پر )احسان کرو کہ جس طرح خدا نے تم پر احسان کیا ھے ۔

(۴) ۔ اور اللہ تکبر اور شیخی با ز کو دوست نھیں رکھتا ۔

(۵)۔ بد گما نی سے زیا دہ بچو کیو نکہ بعض بد گما نی گنا ہ ھے اورکیا تم میں سے کو ئی پسند کر تا ھے کہ اپنے مردہ بھا ئی کا گو شت کھا ئے ۔

(۶) اور معا ف کیا کر و اور نیکی کا حکم دواور جا ھلو ں سے رخ مو ڑ لیا کرو ۔

یقیناً مو منین ایک دوسرے کے بھا ئی ھیں ۔ دو بھا ئیو ں کے در میا ن ( اختلا ف کی صورت میں ) صلح کرا دو ۔

فقہ

فلو لا نفر من کل فر قة طا ئفة لیتفقھو افی الدین ۔۔الخ

” ان میں سے ھر گرو ہ سے کچہ لوگ کیو ں نھیں اپنے گھر و ں سے نکل آ ئے تا کہ علم دین حا صل کریں اور جب اپنی قوم کی طر ف پلٹ کر آئیں تو ان کو ( عذاب آ خرت سے ) ڈرائیں تا کہیہ لوگ ( ڈر کر نا فر ما نی سے ) پر ھیز کر یں ۔“

قصا ص وحدود : ولکم فی القصا ص حیو ة ۔۔الخ ( بقرہ )

” اور اے صا حبا ن عقل قصا ص میں تمھا ری زند گی ھے ۔“

(۲) ۔ جا ن کے بد لے جا ن اور آ نکہ کے بد لے آ نکہ اور نا ک کے بد لے ناک اور کا ن اور دانت کے بد لے اور زخم کے بد لے زخم ھے ۔ پھر جو معا ف کر دے تو یہ اس کے گنا ھو ں کا کفا رہ ھو جا ئے گا ۔۔الخ

میرا ث  یو صیکم اللہ ۔۔الخ ( ۱۱۔ النسا ء  )

خدا تمھا ری اولا د کے حق میںتمھیں وصیت کر تا ھے کہ لڑ کے کا حصہ دو لڑ کیو ں کے برا بر  ھے اور اگر مر نے والے کی اولا د میں صر ف لڑ کیا ں ھو ں کہ جو دو یا دو سے زیا دہ ھو ں تو ان کا مقرر حصہ کل تر کے سے دو تھا ئی ھے اور اگر ایک لڑ کی ھو تو اس کا آ دھا حصہ ھے اور میت کے با پ ما ںھر ایک  کا اگر میت کی کوئی اولاد نہ ھو تو ما ل مترو کہ سے متعین( خا ص اشیاء میں  ) وارث ھو ں تو ان کا ایک معین  ( خاص اشیا ء سے ) تھا ئی  حصہ ھے اور با قی ( با پ کا ھے ) ۔۔الخ

خیاطة

وطفقا یخصفا علھما من ورق الجنة ۔۔ الخ (۱۳۱ ۔ طہ )

اور وہ دونو ں جنت کے (درخت کے ) پتے اپنے آگے پیچھے چپکا نے لگے ۔“

حدادیت

والنالہ الحدید ۔۔ الخ

”اورھم نے ان کے لئے لوھے کو نرم کردیا “۔

فلاحت

افر اء یتم ما تحر ثون (الخ۔ واقعہ)

”بھلا دیکھو کہ جو کچہ تم لوگ زراعت کرتے ھو ۔ کیا تم اسے اگا تے ھو یا ھم اگاتے ھیں ۔“

ارشاد ربانی

وکاین من آیاة فی السمات و الارض یمرون علیھا وھم عنھا معر ضون (یو سف۱۰۵ )

” اور آ سمان و زمین میں( خدا کی ) کتنی نشا نیا ں ھیں کہ جن سے وہ منہ پھیر کر گزر جا تے ھیں۔“

ارشاد نبو ی

حضرت عا ئشہ نے پیغمبر اکرم سے در یا فت کیا کہ لو گ دنیا میں کس بنا پر صا حب فضلیت ٹھھر تے ھیں ۔پیغمبر نے فر ما یا  عقل سے ۔ عر ض کیا گیا اور آ خر ت میں کس بنا ء پر صا حب فضلیت ھو ں گے ۔ فر ما یا عقل سے ۔عر ض کیا گیا  کہ کیا وہ اپنے اعما ل کے مطا بق جزا ء نھیں دیئے جا ئیں گے ۔ فر ما یا ھر چیز کے لئے ایک آ لہ و میزان ھے اور مو من کا آ لہ میزان عقل ھے اور ھر چیز کے لئے سواری ھے اور مو من کی سوا ری عقل ھے ۔ اور ھر شے کے لئے ایک ستو ن ھے اور دین کا ستو ن عقل ھے ۔ اور ھر قوم کا ایک داعی ھے اور عا بدو ں کا داعی عقل ھے اور ھر تا جر کی ایک متا ع ھے اور مجتھد ین کی متا ع عقل ھے ۔ اور ھر خرابے کے لئے ایک تعمیر ھے اور آ خرت کی تعمیر عقل ھے ۔اور ھر آ دمی اپنے پیچھے کو ئی یا د گا ر چھو ڑ تا ھے جس سے اسے یا د کیا جا تا ھے اور صد یقین کی یا د گا ر کہ جس سے ان کو یا د کیا جا تا ھے عقل ھے ۔اور ھر سفر کے لئے ایک زادھے اور مو منین کا زاد عقل ھے ( احیا ء العلو م ۔ غزائی  (

ایک گھنٹہ حقا ئق کا ئنا ت میں غور وفکر کر نا ستر سال کی عبا دت سے افضل ھے ۔( حدیث (

ارشاد نبو ی

لا تقوم السا عة حتی تر وا امو را ً عظا ما لم تکو نو اترو نھا ولا تحدثون بھا انفسکم ۔( کتاب الفتن(

” قیا مت قائم نھیں ھو گی جب تک تم ایسے امو ر عظیم کو نہ دیکہ لو کہ جن کو تم نے کبھی نھیں دیکھا ۔اور نہ ھی ان کے با رے میں سو چا ھو گا ۔ ( پیغمبر اکرم (

پیغمبر اکرم نے دجا ل کا ذکر کر تے ھو ئے فر ما یا ۔

حتی ترو ن امور اً ینفا قم وتسا ء لو ن بینکم وھل کا ن بینکم وذکر لکم منھا ذکر او حتی تزو ل الجبا ل عن مرا تبھا ( مسند احمد ابن حنبل ج ۵(

” تما م ایسے امور دیکھو گے کہ جن کی قدر تمھا رے نز دیک بھت ھو گی اور تم آ پس میں یہ سوال کرو گے کہ کیا پیغمبر اکرم نے بھی ان کے بارے میں کچہ فر ما یا ھے ۔ اور جبکہ پھا ڑ اپنی جگہ سے ختم ھو جا ئیں گے ۔

ارشاد امام (ع(

)علم کیمیا(

حضرت علی (ع) سے کسی نے سونا بنا نے کا طریقہ پو چھا تو آ پ نے یہ شعر پڑہ دیا ۔

خذ الفرار  والطلقا

و  شیاًء یشبہ  البر قا

اذا  امز جتہ  طراً

ملکت  الغر با  والشرقا

)حضرت علی(ع(

” پا رہ اور ابرق لو اور ایک وہ شے کو جو برق سے مشا بھت رکھتی ھے ۔ پس جب تم ان کو ملا کر اور ر گڑ کر ھم مزاج بنا لو گے تو شر ق و غر ب کے با د شاہ بن جا ؤ گے ۔“

انسان ھر وقل وعمل صحفہ نفس اور صحفہ کا ئنا ت میں محفوظ ھو ررھا ھے ۔

ارشاد ربا نی

ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید ( ۱۸۔ق (

” کوئی با ت اس کی زبا ن پر نھیں آ تی مگر ایک نگھبا ن اس کے پا س ( اسے محفو ظ کر نے کے لئے ) تیا ر رھتا ھے ۔“

وکلّ انسان الز منا طا ئر ہ فی عنقہ ونخرج لہ یو م القیمة کتا با ً یلقا ہ منشورا ۔۔ الخ (  بنی اسرا ئیل :۱۳(

” ھم نے ھرانسا ن کے نا مہ اعما ل کواس کے گلے کا ھا ر بنا دیا ھے ْ اور قیا مت کے روز ھم اسے نکا ل کر اس کے سامنے رکہ دیں گے کہ اسے ایک کھلی ھو ئی کتا ب اپنے سامنے پا ئے گا ۔“

ارشاد ربا نی

یو م تجد کا ندس ما عملت من خیر محضر اً وما عملت  من سوء ۔۔ آل عمران

” اس روز کہ جس دن ھر شخص نے کہ جو کچہ ( دنیا میں ) نیکی کی ھے اور جو کچہ برا ئی کی ھے ۔ اسے مو جود پا ئے گا اور آ رزو کر ے گا  کہ کا ش اس کی بدی اور اس کے در میا ن طویل زما نہ حا ئل ھو جا تا ۔۔ ( ۳۰(

نظا رoٴ کا ئنا ت

ارشاد ربانی

ولو فتحنا علیھم با با ً من السما ء فظلو ا فیہ یعر جون ۔ لقا لو اانما سکر ت ابصار نا بل نحن وقوم مسحورون ( الحجر ۱۵(

” اور اگر ھم ان پر آ سما ن کا کو ئی دروازہ کھو ل دیتے اور وہ دن دھا ڑ ے اس میں چڑہ جا تے تو یھی کھتے کہ ھماری آ نکھیں نشہ آ ور ھیں یا ھم پر جا دو کر دیا گیا ھے ۔“

ارشاد بنوی

” لا تقوم السا عة  حتی لا تنطح ذات قرن جما ء و حتی یبعث الغلا م الشیخ برید اً بین الا فقین و حتی یبلغ التا جر بین الافقین فلا یجد ربحا ً ۔ “ ( طبرانی کبیر (

” قیا مت قائم نھیں ھو گی یھا ں تک کہ بے سینگووالی سینگ والی کو نہ ما ر ے اور یھا ں تک کہ نو جوان بو ڑھے کو قا صد بنا کر آ سما ن کے دو نو ں کنا روں کے در میا ن بھیجے  ۔ اور یھا ں تک کہ جب تا جر آ سما ن کے کنا رو ں کے در میا ن پھنچے گا ۔تب بھی منا فعنھیںپا ئے گا ۔“

کا ئنا ت وسیع ھو رھی ھے

ارشاد ر با نی

” وا لسما ء بنینھا با ید وانا لمو سعو ن “۔۔(۵۱(

اور ھم نے ھی آ سما ن کو ( اپنے ) دست قدرت سے بنا یا اور ھم اسے وسیع کر رھے ھیں۔ (  ذا ریا ت:۴۷ (

” اولیس الذی خلق السموات والا رض بقا در علی ان یخلق مثلھم بلی وھو الخلا ق العلیم “ (یٰس:۸۱(

” کیا وہ کہ جس نے آ سما نو ں اور زمین کو پیدا کیا ھے ۔ اس پر قا در نھیں ھے کہ ان ( آ سما نو ں و زمین ) جیسے اور پیدا کر دے ۔ ھا ں ( وہ قا در ھے ) اور وہ بڑا پیدا  کر نے والا اور علم رکھنے والا ھے ۔“

ارشاد نبو ی

انھا اما رات من اما رات بین یدی السا عة او شک الر جل ان یخرج فلا یر جع حتی یحدث نعلا ہ سو طہ ما احدث اھلہ بعدہ ۔

قیا مت کے علا ئم میں سے ھے اور قریب ھے کہ آدمی گھر سے نکلے اور جب واپس آ ئے تو جو کچہ اس کے گھر والو ں نے اس کے بعد کیا ھو گا ۔ اس آدمی کے جو تے اور چا بکاسے بتا دیں گے ۔


source : http://www.fazael.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
نجف اشرف
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
اذان ومؤذن کی فضیلت
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
نیکی اور بدی کی تعریف

 
user comment