اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

ان چار ویران قبروں سے انہیں نقصان کیا ہے؟

خاندان رسالت کی مظلومیت جاننے کے لئے مقتل پِڑھنے اور کوچۂ بنی ہاشم کا تصور ذہن میں لانے کی ضرورت نہیں بلکہ جب آپ عترت النبی (ص) کی زیارت کے لئے مسجدالنبی (ع) کی ٹھنڈی فضاؤں اور پرشکوہ عمارت سے چند ہی قدم دور ہوجاتے ہیں تو آپ کو مٹی کے چھوٹے چھوٹے ڈھیردیکھنے کو ملیں گے جن کے اوپر فرسودہ پتھر رکھے گئے ہیں؛ یہی نشان ہیں رسول خدا (ص) کے جگرگوشوں کے اور یہی مثال ہے اجر رسالت کی ادائیگی کی!. 

قبریں تو بظاہر بڑی غریب و بے کس و بےمددگار لگتی ہیں مگر ان میں مدفون انوار ربانی کی تنویر، درخشندگی اور تابندگی اتنی ہے کہ شب پرست قوتیں اسے دیکھنے کے روادار نہیں ہیں اور وہ ہر آن ویران قبروں کو بھی نظروں سے اوجھل کرنے اور چھپانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں. 

اور ہاں! ان جنت کے ان چار چھوٹے چھوٹے سے ٹکڑوں نے تمہارے ساتھ کیا کیا ہے؟

جنت البقیع کہاں ہے؟

"بقیع الغرقد" یا "قبرستان بقیع" کی تاریخ طلوع اسلام سے قبل کے دور سے تعلق رکھتی ہے. یثرب کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کی ہجرت سے قبل اپنے مردوں کو کبھی قبرستان بنی سالم میں، قبرستان بنی حرام کبھی اپنے گھروں کے احاطوں میں دفنایا کرتے تھے اور کبھی بقیع الغرقد میں؛ مگر مسلمانوں کی ہجرت کے بعد یثرب مدینة الرسول (ص) میں تبدیل ہوا اور قبرستان بقیع - جو مسجد کے قریب واقع تھا - مسلمانوں کا رائج قبرستان بن گیا. 

روایت ہے کہ سب سے پہلے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان پر «جناب عثمان بن مظعون» اس قبرستان میں دفن کردیئے گئے جو آپ (ص) کے نہایت مخلص صحابی اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے عقیدتمندوں میں سے تھے. اس کے بعد احد اور خندق کے بعض شہداء بھی یہیں دفن ہوئے اور بقیع کی شرافت میں اضافہ ہوا. 

مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکار بھی اور دیگر مسلمان بھی بقیع کے لئے عقیدت و احترام کے قائل ہیں کیوں کہ چار ائمہ معصوم - حضرت امام حسن مجتبي، حضرت امام سجاد، حضرت امام محمدباقر، حضرت امام جعفر صادق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرزند ابراہیم، امیرالمؤمنین علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد، آپ (ع) کی زوجۂ مکرمہ اور حضرت عباس علمدار کی والدہ ماجدہ حضرت ام البنين، حضرت امام صادق علیہ السلام کے فرزند اسماعیل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پھوپھی صفیہ، امہات المؤمنین (زوجات رسول اللہ (ص))، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سوتیلی بیٹیاں، - یا حقیقی بیٹیاں -، حرہ کے شہداء، مدینہ منورہ پر یزیدی لشکرکشی کے دوران شہید ہونے والے اور عثمان بن مظعوں اور معاذ بن جبل جیسے جلیل القدر صحابی اسی قبرستان میں مدفون ہیں مگر وہابیوں کے فکری جمود اور تشدد پسندی کی وجہ سے مسلمانوں کو اس قبرستان کی خصوصیات سے آگہی حاصل نہیں ہوتی اور وہ اس کی برکتوں سے مستفیض نہیں ہوسکتے؛ گویا وہابیوں نے دنیا کے مسلمانوں کو ان کے دین کی تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے سے روک رکھا ہے.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے انتقال پرملال کے بعد، آپ (ص) کے چلے جانے کا غم صرف خاندان رسالت تک محدود تھا - دوسرے حکمرانی کے مزے لوٹنے لگے تھے - اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا شب و روز روتی رہتیں اور عزاداری کیا کرتی تھیں چنانچہ مدینہ میں رہنے والے مسلمان - غم میں شریک ہونے کی بجائے - علی علیہ السلام کے پاس آئے اور کہنے لگے: بی بی کی عزاداری کی وجہ سے ہماری نیندیں حرام ہوگئی ہیں؛ بی بی سے کہدیں کہ یا دن کو روئیں یا پھر راتوں کو گریہ و بکاء کریں!!! چنانچہ امام علیہ السلام نے بقیع کے احاطے میں ہے بی بی کے لئے ایک کمرہ تعمیر کیا جس کا نام "بیت الاحزان" پڑگیا اور بی بی دن کے وقت امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ہمراہ بیت الاحزان میں بیٹھ کر قطب عالم امکان کے اٹھ جانے پر عزاداری کیا کرتی تھیں. (شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے انتقال پر عزاداری نہ کرنے والوں کے اس عمل کی توجیہ ہی کی خاطر بعض قلم فروشوں کو عزاداری کی ممانعت کے لئے مختلف قسم کی دلیلیں جعل کرنی پڑی تھیں!) اس کے علاوہ مالکی فرقے کے امام «مالک بن انس» اور خلیفۂ ثالث «عثمان بن عفان» کی قبریں بھی اسی قبرستان میں واقع ہیں. گوکہ خلیفہ عثمان قتل ہونے کے بعد بقیع سے باہر دفن کردیئے گئے تھے مگر معاویہ کی سلطنت کے دوران بقیع کو وسعت دی گئی اور وہ حصہ بھی بقیع کے احاطے میں آگیا جہاں خلیفہ ثالث مدفون تھے.

1925 میں جنت البقیع کو وہابیوں کے ہاتھوں انہدام سے قبل اس مقام مقدس کے دو دروازے تھے جن میں سے ایک دروازہ صبح سے شام تک زائرین کے لئے کھلا رہتا تھا. اس مقام پر کئی حرم اور مزارات تھے.

ایرانی مورخ «میرزا محمدحسین فراہانی» اپنے سفرنامے میں رقمطراز ہیں: «...  یہاں ائمہ اثنی‌عشر میں سے چار ائمہ صلوات‌اللہ‌ علیہم کی قبور شریف ہیں جو ایک آٹھ ضلعی اور عظیم بقعے کے اندر واقع ہیں اور اس بقعۂ شریف کا اندرونی حصہ سفید رنگ کا ہے اور گنبد کا اندرونی رنگ بھی سفید ہے». گویا ائمہ بقیع کے حرم میں بھی دیگر ائمہ (ع) کے حرم ہائے شریف کی مانند ضریح و گنبد و بارگاہ و چلچراغ، شمعدان اور فرش و خدام ہوا کرتے تھے. 

مشہور مورخ ابن‌جبیر لکھتے ہیں: «ائمہ اہل بیت (ع) کا مقبرہ بڑا اور زمین کی سطح سے اونچا ہے اور اس کے اوپر لکڑی سے بنی ہوئی ضریح ہے جو فن و ہنر کے لحاظ نہایت بدیع اور بہت زیادہ خوبصورت نمونہ ہے؛ اس کے اوپر تانبے کے ابھرے ہوئے نقوش کندہ کئے گئے ہیں جس کے اوپر میخ کوبی کا کام ہوا ہے جو دیکھنے والوں کے لئے دلچسپی کا باعث بنتا ہے اور یوں اس ضریح نہایت دلکش اور خوبصورت ہوگئی ہے».

مصری مؤلف «محمد لبیب المصری» جو سنہ 1327 ہجری کو مدینہ منورہ گئے ہیں، نے بھی لکھا ہے: «مدینہ میں ایک مشہور گنبد ہے جس کا نام «قبة البین» ہے جس میں ایک حجرہ بنا ہوا ہے اور اس کے بیچ ایک گودال ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دندان مبارک گرنے کی جگہ ہے؛ اور امام حسن مجتبی علیہ السلام کا قبہ اسی حجرے کے اندر ہی واقع ہے جو دہات کا بنا ہوا ہے اور اس کے اوپر فارسی کے خطوط کندہ کئے گئے ہیں. میرے خیال میں یہ عجمی اہل تشیع کا فن پارہ ہے».

وہابیوں نے حجاز پر حکمرانی کرنے والے شرفاء کو شکست دینے اور مدینہ منورہ پر مسلط ہونے کے بعد  ۸ شوال سنہ ۱۳۴۳ ہجری (مئی 1925 عیسوی) کو ائمہ بقیع کے مزارات منہدم کردیئے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حرم شریف بھی منہدم کرنا چاہا مگر اپنے اس ارادے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے.

حجاز مقدس پر آل سعود کے تسلط کے بعد اس مبارک مقبرے کی زیارت کے سلسلے میں بہت زیادہ سختگیریاں روا رکھی گئیں؛ اس وقت خواتین اس قبرستان کی زیارت سے محروم ہیں اور مرد زائرین بھی نمازصبح کے بعد ایک گھنٹے تک اور نماز عصر کے بعد بھی ایک گھنٹے تک اس مقام مقدس میں حاضری دے سکتے ہیں اور ان دو گھنٹوں میں بھی سعودی عرب کے وہابی شُرطے ہربہانے سے زائرین کے آزار و اذیت کے اسباب فراہم کرتے رہتے ہیں.

وہابیوں کے عجیب اقدامات

اتنی زیادہ سختگیریوں سے بھی وہابیوں کو سکون نہیں آیا اور انہوں نے قبور شریف کو زائرین کی نظروں سے اوجھل کرنے کی کوشش بھی کی اور قبور شریف کے اردگرد لال رنگ کی رکاوٹیں کھڑی کردیں؛ انہوں نے 24 گھنٹوں تک رکاوٹیں برقرار رکھیں اور یہ بھی اعلان کیا کہ یہ رکاوٹیں ہمیشہ کے لئے باقی رہیں گی!

ماجرا کا آغاز تب ہوا جب 22 اپریل 2009 بروز بدھ، جب زائرین نماز فجر کے بعد جنت البقیع میں حاضر ہوئے تو انہیں سرخ رنگ کی اونچی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا جو قبور شریف کے ارد گرد رکھی گئی تھیں!

یہ رکاوٹیں اس طرح سے رکھی گئی تھیں کہ قبور شریف کا مشاہدہ زائرین کے لئے ممکن نہیں تھا. گو کہ یہ رکاوٹیں پلاسٹک کی بنی ہوئی تھیں مگر بقیع میں تعینات وہابی شُرطوں کا کہنا تھا کہ یہ رکاوٹیں ہمیشہ کے لئے باقی رہیں گی مگر مسلمانان عالم کی طرف سے شدید احتجاج اور سعودیوں کے بعض اقدامات اور شواہد سے معلوم ہوا کہ یہ اقدام رائے عامہ کی آزمائش کے لئے تھا. 

جو مقام سعودیوں نے زائرین کی نظروں سے چھپایا تھا اس میں امام حسن مجتبي، امام سجاد، امام محمدباقر، امام جعفر صادق اور عباس بن عبدالمطلب (عليہم السلام) کی قبور شریف واقع ہیں. 

منگل کے روز رات کے وقت کیل کانٹے سے لیس سعودی فوجیوں نے جنت البقیع کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور قبور شریف کے گرد رکاوٹیں اسی وقت کھڑی کی گئی تھیں. 

اس صورت حال کے بعد مختلف ممالک کے زائرین نے سعودی اقدامات کے خلاف شدید احتجاج کیا مگر سعودی حکمرانوں نے کسی بھی سرکاری موقف کا اعلان نہیں کیا. 

شب پرستوں کا خیمہ اکھڑ گیا

اسلامی جمہوریہ ایران کی مختلف شخصیات اور عالمی سطح پر مسلم اقوام کی طرف سے شدید رد عمل کا نتیجہ مثبت نکلا اور 23 اپریل کو صبح دس بجے سعودی اہلکاروں نے رکاوٹیں ہٹا دیں اور یوں زائرین کی آنکھیں ایک بار پهر انوار آل محمد (ص) سے روشن ہوئیں اور زائرین کے لئے متعینہ مقام سے یہ مزارات شریفہ نظر آنے لگے.

یہ درست ہے کہ: 

پهونکوں سے یہ چراغ بجهایا نہ جائے گا 

مگر یہ 24 گهنٹے بہت ہی دشوار گذرے ہم پر؛ مگر سوال یہ ہے کہ یہ 84 برس مہدیِ فاطمہ (ع) کے قلب نازنین پر کیا گذرے ہونگے.

اللهم إنا نشكو إليك فقد نبينا صلواتك عليه وآله ، وغيبة ولينا ، وكثرة عدونا ، وقلة عددنا ، وشدة الفتن بنا ، وتظاهر الزمان علينا ، فصل على محمد وآل محمد ...

بارخدایا! ہم اپنے نبی (ص) کے فقدان سے، اپنے مولا (ع) کی غیبت سے، زمانے کی سختگیری سے، فتنوں کی شدت سے، ہمارے دشمنوں کی ہم دستی سے، ہمارے دشمنوں کی کثرت اور ہمارے دوستوں کی قلت سے، تیری بارگاہ میں شکایت کرتے ہیں؛ پس درود بھیج محمد و آل محمد (ص) پر 


source : http://www.abna.ir/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

بنی اسرائیل اور اسرائیل کی تاریخ
اعتدال اور میانہ روی
حدیث ثقلین پر ایک نظر
امام کي شخصيت اور جذبہ
25 شوال المکرم؛ رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ ...
حضرت علی علیہ السلام کا جمع کردہ قرآن
مسئلہ تحریف قرآن
اسلام نے زمانے کو عزت بخشي
علم آیات و احادیث کی روشنی میں
ماں باپ کے حقوق

 
user comment