اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

اسلامی تہذیب وتمدن

پیغمبراکرم ص نے اسلامی حکومت کے مرکز کی حیثیت سے مسجد کی بنیاد رکھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسے مرکز کی بنیاد رکھے جانے کی ضرورت تھی جوایک طرف مسلمانوں کی عبادتگاہ شمار ہوتا اور دوسری جانب اس میں مسلمانوں کے سیاسی ، عدالتی ، تعلیمی حتی عسکری امور بھی حل کۓ جاتے ۔ شروع شروع میں مسجد نماز کی ادائيگی ، حصول علم ، فیصلے کۓ جانے کا مقام اور دارالحکومت شمار ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ مسجد میں بیت المال ، جنگی غنیمت اور جنگي قیدیوں کو بھی رکھا جاتا تھا ۔ حقیقت میں مسجد تمام سیاسی اور سماجی محکموں کا مجموعہ تھی ۔ اس لۓ مدینے میں تشکیل پانے والی جدید اسلامی حکومت کے استحکام میں اس کو بہت اہم کردار حاصل تھا۔ 

مسجد اور اس کے کردار کے بارے میں بجا طور پریہ کہا جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں علم اور ایمان کے درمیان گہرا تعلق مسجد میں ہی برقرار ہوا تھا ۔ اسلام کے تمام احکام و معارف مسجد میں بیان کۓ جاتے تھے ۔ اور لوگ دینی تعلیمات مسجد میں سیکھتے تھے حتی مسجد میں ہی پڑھنا اور لکھنا سکھایا جاتا تھا۔ بعد میں تدریجا حکومتی اور عدالتی محکمے مسجد سے جدا ہوتے گۓ لیکن تعلیمی مراکز مسجد کے آس پاس ہی بنتے رہے یہی وجہ ہے کہ حالیہ صدیوں تک مدارس ، اسکول ، کالجز اور یونیورسٹیاں وغیرہ مساجد کے پاس ہی بنائي جاتی رہی ہیں ۔ 

پیغمبراکرم ص کا اصل مقصد دینی عقائد کی ترویج اور ان کا تحفظ تھا جس کے لۓ سیاسی ، دفتری اور فوجی نظامات کی ضرورت تھی ۔ پیغمبراکرم ص نے حکومت کے استحکام اور دفتری اور عدالتی نظام کی تشکیل کے لۓ اہل افراد کا انتخاب کیا ۔ اور ان امور کی ذمے داریاں ان کو سونپیں۔ ان میں سے بعض افراد زکواۃ اور دوسرے صدقات جمع کرنے پر مامور ہوۓ ۔ اور بعض افراد نے سماجی امور کی ذمے داری سنبھالی ۔ مدینے کا دفتری نظام سادہ لیکن بہت جامع اور ہمہ گير تھا ۔ بعض افراد کو معاہدوں اور سمجھوتوں کی تحریر ، ٹیکس جمع کرنے اور ان کا حساب رکھنے ، جنگی غنیمتوں کے اندراج حتی قرآن کریم کی آیات تحریر کرنے جیسے مختلف امور پر مامور کیا گيا تھا ۔ پیغمبراکرم ص نے بعض افراد کے ذمے یہ کام لگایا تھا کہ وہ ان زمینوں اور چشموں کی فہرستیں اور ان کی ملکیت کی دستاویزات لکھیں جو مختلف افراد اور قبائل کو سونپی گئي تھیں ۔ یہ عربوں کے لۓ ایک نئي بات تھی کیونکہ عربوں کے دیرینہ اختلافات کی ایک وجہ مختلف زمینوں ، چشموں اور کنووں کی ملکیت ہی تھی۔

پیغمبراکرم ص نے یہودی اور مسیحی قبائل سیمت مختلف قبیلوں کے ساتھ معاہدے کۓ ۔ زمان و مکان کے حالات اور مسلمانوں کی طاقت و کمزوری کے پیش نظر ان معاہدوں کی شرائط مختلف ہوتی تھیں ۔ حتی کہ بعض اوقات حالات سے آگاہی نہ رکھنے والے افراد کے لۓ ان معاہدوں کا متن حیرت کا باعث ہوتا مثلا صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اکرم ص نے مکے کے مشرکین کے ساتھ جو معاہدہ کیا اور جن شرائط کو قبول کیا اس کی وجہ سے آپ کے بعض اصحاب کو نہ صرف تعجب ہوا بلکہ بعض اصحاب نے تو اس معاہدے کی مخالفت بھی کردی۔ لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پیغمبراکرم ص نے مدینے میں نو تشکیل حکومت کی کامیابی اور اپنے مقاصد کے حصول کے لۓ زندگی بھر بہت کامیاب پالیسیاں اور سفارت کاری اختیار کی۔

ان حکومتی امور کے ساتھ ساتھ رسول خدا ص نے ایران کے بادشاہ ، قیصر روم ، مصر کے فرمانروا ، حاکم یمن اور حبشہ کے بادشاہ سمیت ہمسایہ حکومتوں کو خطوط ارسال کۓ ۔ ان خطوط میں تمام حکمرانوں کو دین اسلام اور خداۓ وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کی دعوت دی گئي۔ بہت سے مورخین اور مصنفین کا کہنا ہے کہ ان خطوط میں بیان کۓ جانے والے اصول پیغمبراکرم ص کی خارجہ پالیسی سے عبارت تھے۔ رسول خدا ص جنگ اور لڑائي پر دعوت اور سفارتکاری کو ترجیح دیتے تھے۔ اگر آپ کے اصحاب اغیار کو اسلام کی دعوت دیۓ بغیر گرفتار کر لیتے تو آپ ان کو آزاد کردیتے ۔ 

رسول خدا ص نے غزاوات ، سرایا اور ہمسایہ قبائل کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے مسلمانوں کی سرزمینوں میں امن قائم کیا اور اسلام کی ترویج کی ۔ 

امریکی مورخ ویل ڈیورنٹ نے اسلامی نظام کی تشکیل میں پیغمبر اکرم ص کے دانشمندانہ کردار کا اعتراف کرتے ہوۓلکھا ہے کہ اس زمانے میں پیغمبراکرم ص نے نہ صرف مسلمانوں کی قیادت کی بلکہ مدینے کی سیاسی قیادت بھی آپ ہی کے پاس تھی اور آپ کو مدینے میں قاضی کی حیثیت حاصل تھی۔ 

ایران کے محقق اور مصنف عبدالحسین زرین کوب نے لکھا ہے کہ

" مدینے میں اسلام کے زیادہ تر احکام مقرر ہوۓ ۔ تبدیلی قبلہ کے کچھ ہی عرصے کے بعد ماہ مبارک رمضان کا حکم نازل ہوا اور نماز و زکواۃ فطر کو بھی قانونی حیثیت حاصل ہوئي۔ "

زرین کوب کے مطابق قصاص ، دیت ، جہاد ، غنائم کی تقسیم ، میراث ، شراب کی حرمت ، حج وغیرہ کے احکام نے عربوں کی زندگی بالکل بدل ڈالی اور ان کے اندر اتحاد پیدا کردیا ۔

مدینے میں دس سالہ حکمرانی کے عرصے میں پیغمبراکرم ص نے اسی [80]سے زیادہ چھوٹی بڑی جنگوں کی قیادت کی ۔ پیغمبراکرم ص ان میں سے بعض جنگوں میں بہ نفس نفیس شریک ہوۓ اور سپہ سالار کے فرائض انجام دیۓ ۔ اور بعض جنگوں میں آپ خود شریک نہیں ہوۓ بلکہ شہر میں رہے اور اپنے کسی صحابی کو سپہ سالار بنا کر میدان جنگ میں بھیجا ۔ پیمغبراکرم ص نے جس دانشمندانہ انداز میں جنگوں کی قیادت کی اور عسکری امور میں اپنے اصحاب سے مشاورت کے سلسلے میں جو طریقہ اختیار کیا اس نے تمام مورخین کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرلی ہے ۔ اگرچہ جنگ یا صلح کا حتمی فیصلہ رسول اکرم ص خود ہی کرتے تھےلیکن آپ جنگ اور دفاع کے طریقوں کے بارےمیں اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے ۔ عام طور پر آپ اہم جنگوں سے قبل فوجی کونسل تشکیل دیتے ۔ اور اصحاب کو اپنی اپنی راے بیان کرنے کا موقع فراہم کرتے مثلا جنگ احد میں آپ نے اکثریت کی راۓ کو تسلیم کیا حالانکہ آّپ کی اپنی راۓ اکثریت کی راۓ سے مختلف تھی۔

جزیرۂ نماۓ عرب کے آس پاس کی سرزمینوں اور دوسرے ممالک کی فتح کے بعد اسلامی قلمرو کا دائرہ پھیل گیا ۔جس کی وجہ سے مسلمانوں کا واسطہ مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والی اقوام سے پڑا۔ ان اقوام کے ساتھ میل جول کی بنا پر ان لوگوں کے وہ آداب و رسوم اور افکار و نظریات مسلمانوں کی سادہ زندگی میں داخل ہوتے چلے گۓ جو دینی تعلیمات سے متصادم نہیں تھے۔ یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ خلیفہ دوم کے عہد حکومت کے آخری ایام میں مدینے کے سماجی ماحول میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوگئيں۔

دوسری جانب مفتوحہ سرزمینوں کے تحفظ اور ان کے امور چلانے کے لۓ خاص آگہی ، تجربے اور علم کی ضرورت تھی لیکن مسلمان شروع میں ان سے آگاہ نہ تھے۔ لیکن فتوحات کا سلسلہ جاری رہنے اور سیاسی تدبر ، ملک چلانے کے امور و طریقوں سے واقفیت کی ضرورت کو محسوس کرنے کے بعد مسلمانوں نے ان امور کو سیکھنے کی جانب قدم بڑھایا۔اسی دور میں معاشرے کے سیاسی نظام کو چلانے کے لۓ مختلف محکمے تشکیل دیۓ گۓ ۔ شاید یہ کہنا درست ہو کہ ان محکموں کا آغاز مدینے میں بیت المال کی تشکیل سے ہوا ۔ اور امویوں اور عباسیوں کے عہد میں متعدد محکمے وجود میں آگۓ ۔ 

فتوحات کے سلسلے میں اس اہم نکتے کی جانب توجہ رہنی چاہۓ کہ جنگی غنائم کی وجہ سے اسلامی معاشرہ آسائش اور مفاد پرستی کا شکار ہوگیا اور لوگ دنیا کی چمک دمک پر زیادہ توجہ دینے لگے۔ بعد کے ادوار میں ان چیزوں کے اسلام کے حکومتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہوۓ اور بعض انحرافات پیدا ہوگۓ ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ عربوں نے دنیوی مفادات زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی خاطر اہل بیت ع کے حقوق تک پامال کر ڈالے ۔ التبہ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ فتوحات کے نتیجے میں ایرانی مسلمانوں کے ہاتھوں علم و دانش کی منتقلی جیسے امور نے بعد کے ادوار میں اسلامی تہذیب کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ اسلام کی ابتدائي فتوحات کے بعد مبلغین کا ایک گروہ وجود میں آیا جس نے دور افتادہ مقامات میں اسلام کی اشاعت کا کام بھی انجام دیا اور اسلامی تمدن کی حامل سرزمینوں تک مختلف علوم کی منتقلی میں بھی حصہ لیا۔ ان مبلغین کے اس کردار نے اسلامی تمدن کی تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کیا۔


source : http://urdu.irib.ir/index.php/2010-07-03-10-41-09/2010-08-24-10-26-29/16519--5-.html
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلام نے زمانے کو عزت بخشي
عصر جدید میں وحی کی احتیاج
اہمیت زیارت اربعین
شيعہ کافر ، تو سب کافر ( حصّہ ہشتم
اچھا گھرانہ اور اچھا معاشرہ
حضرت امام علی علیہ السلام کی وصیت اپنے فرزند حضرت ...
پیارے نبی ص کے اخلاق ( حصّہ ششم)
پیغمبر اسلام، ایک ہمہ گیر اور جامع الصفات شخصیت
کربلا ۔۔۔وقت کے ساتھ ساتھ
مختصر حالات زندگی حضرت امام حسن علیہ السلام

 
user comment