اردو
Wednesday 24th of April 2024
0
نفر 0

تبلیغ امامت کے خلاف خطرناک سازش

امامت ، الٰہی منصب و عہدہ ہے جس کے لئے پروردگار عالم نے اہل بیت (ع) کا انتخاب فرمایا جن کی اطاعت کا حکم قرآن مجید میں دیاگیا ہے ،سورۂ نسأ کی آیت ۹۵ میں ارشاد ہوتا ہے ’’اے ایماندارو! خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اور جو تم میں سے صاحبان حکومت ہوں ان کی اطاعت کرو ، جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابی ٔ رسول (ص) جابر بن عبد اللہ انصاری نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ہم اللہ اور اس کے رسول(ص) کو توپہچانتے ہیں لیکن اولی الامر کون ہیں جن کی اطاعت کو اللہ نے اپنی اطاعت سے مقرون فرمایا ہے ؟ رسول خدا (ص) نے فرمایا: اے جابر! وہ میرے بعد میرے خلیفہ اور مسلمانوں کے امام ﴿بالترتیب ﴾اس طرح ہیں : علی ابن ابی طالب (ع) ،حسن (ع) ، حسین (ع) ، علی بن الحسین (ع)، محمد بن علی جو تو ریت میں باقر (ع) کے نام سے مشہور ہیں اور اے جابر ! عنقریب تم ان کو دیکھو گے جب ملاقات ہو تو میرا سلام پہنچادینا پھر جعفر بن محمد(ع) ،موسیٰ بن جعفر (ع)، علی بن موسیٰ (ع)، محمد بن علی (ع)، علی بن محمد(ع)، حسن بن علی (ع)، محمد بن حسن (ع)﴿تفسیر برہان ، علامہ ہاشم حسینی بحرانی، متوفی ۷۰۱۱ یا ۹۰۱۱ جلد۱ جز ۵، صفحہ ۱۸۳ ناشر دارالکتب العلمیہ قم، دوسرا ایڈیشن ﴾ دنیاوی قاعدہ بھی ہے جب کوئی حکومت کسی شخص کو کوئی عہدہ یا منصب دیتی ہے تو میڈیا کے ذریعہ اس کی خوب تبلیغ کی جاتی ہے تاکہ اس حکومت کی رعایا اپنے حاکم کو پہچان لے ، خدا وند عالم نے ائمہ معصومین (ع) کو کائنات کا حاکم و امام بنا کر بھیجا تو کیا اس کی تبلیغ کا کوئی انتظام نہ کیاہوگا ؟کیوں نہیں ! سورۂ نسائ کی مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت تک منصب امامت ِ ائمہ معصومین (ع) کی تبلیغ ہوتی رہے گی تاکہ کائنات کے ہر بشر پر اتمام حجت ہوجائے اور لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ان کے برحق حاکم اور امام کون ہیں ؟ اس منصب کی تبلیغ کے لئے اللہ نے صرف اسی آیت پر اکتفا ئ نہیں کیا بلکہ قرآن مجید میں 26آیتیں ایسی ہیں جن میں صراحتاً یا اشارۃً منصب امامت ِ ائمہ کی تبلیغ کی گئی ہے اسی طرح رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) و گیارہ دیگر ائمہ کی امات کو بارہا بیان فرمایا ہے دعوت ذوالعشیرہ، حدیث غدیر، مباہلہ ، حدیث طیر، حدیث ثقلین کے علاوہ سیکڑوں حدیثیں ایسی ہیں جن کے ذریعہ منصب امامت ِ ائمہ کی تبلیغ کی گئی ہے ،کوئی مناسبت رسول اللہ (ص) نے ایسی نہ چھوڑی جس میں تبلیغ امامت نہ کی ہو تاکہ کائنات کے تمام انسانوں تک ائمہ کی امامت کا حکم اور ان کی عظمت پہنچ جائے . 

ایک موقع پر تو آپ (ص) نے انتہائی صراحت کے ساتھ لوگوں کے سامنے ائمہ کی امامت کو اس طرح بیان فرمایا جس کی روایت حافظ ابو نعیم نے عبداللہ ابن عباس سے کی ہے ، رسول اسلام (ص) فرماتے ہیں : وہ شخص جسے میرا جینا اور میری موت مرنا اور باغ عدن میں رہنا پسند ہو وہ علی (ع) کو میرے بعد اپنا حاکم بنائے اور میرے بعد میرے اہل بیت (ع) کی پیروی کرے کیونکہ وہ میری عترت ہیں اور میری طینت سے پیدا ہوئے ہیں اور انہیں میرا فہم ، میرا علم عطا ہوا ہے ،ہلاک ہوجائے وہ شخص جو ان کے فضل و شرف کو جھٹلائے اور ان کو مجھ سے جو قربت ہے اس کا خیال نہ کرے ،خدا ایسے لوگوں کو میری شفاعت نصیب نہ کرے ﴿حلیۃ الاولیائ ،جلد ۱، صفحہ ۶۸، تالیف ابو نعیم احمد بن عبد اللہ اصفہانی ، متوفی ۰۳۴ھ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، لبنان ،پہلا ایڈیشن ۸۸۹۱ئ﴾

ئی کیونکہ تمام ائمہ نے اپنے شیعوں کی اسی طرف راہنمائی فرمائی ہے ،غور و فکر کا مقام ہے کہ ہمارے تمام ائمہ مرتبے میں مساوی اورسب کی زیارت گاہیں رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہونے کے باوجود تمام ائمہ نے زیارت قبر مطہر امام حسین (ع) کی طرف متوجہ کیاہے اور تاکید فرمائی ہے،اگر زیارت کامقصد صرف ائمہ معصومین (ع) سے ولایت ، محبت اور عقیدت کا اظہار کرنا ہوتاتو پھر جس شخص سے جس امام (ع) کا روضہ نزدیک ہوتا اسی کی زیارت کرکے ولایت و محبت کا اظہار کرلیا کرتا لیکن اس کے برعکس ائمہ اطہارنے اپنے چاہنے والوں کو اکثر صرف روضۂ امام حسین (ع) کو مرکز اور محل اجتماع و زیارت گاہ قرار دینے کی تلقین فرمائی ہے چاہے وہ شیعہ روضہ ٔ امام حسین (ع) سے کتنے ہی فاصلے پر رہتا ہو ،اس کے علاوہ ایسی مناسبتیں جو دوسرے ائمہ یا امور سے مخصوص ہیں ان میں بھی زیارت امام حسین (ع) کی تاکید فرمائی ہے ، ۵۱ شعبان امام زمانہ (ع) سے منسوب ہے ،شب قدر نزول قرآن و شہادت امام علی (ع) کی وجہ سے حضرت رسول خدا اور امام علی (ع) سے منسوب ہے شب عید و روز عید بھی رسول اکرم (ص) یا امام وقت سے مربوط ہیں غرض کوئی بھی موقع ہو لیکن تاکید زیارت امام حسین (ع) کی ہے ،اس کے علاوہ ائمہ اطہار نے قبر مطہر امام حسین (ع) کی زیارت اور ان کے ذکر مصائب اور عزاداری کو احیائے امر ائمہ سے تعبیر کیا ہے یہ تمام باتیں اس نکتہ کی طرف متوجہ کرتی ہیں کہ ائمہ معصومین (ع) امام حسین (ع) کو مرکز توجہ بناکر ظلم و استبداد کے خلاف قیام کرنے کی دعوت دینا چاہتے تھے ورنہ ائمہ اطہار میں سے ہر ایک کو دوسرے سے زیادہ مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور ہر امام پر مصائب و آلام کا ایک پہاڑ ٹوٹا لیکن اس کے باوجود ائمہ اطہار جیسی معصوم ہستیوں کا صرف امام حسین (ع) ہی کو مرکز توجہ بنانا حکمت و فلسفے سے خالی نہیں ہے ، در اصل ائمہ اطہار (ع) لوگوں کی توجہ امام حسین (ع) کی طرف مبذول کراکے ذکر حسین کو استعمار و استکبار کے خلاف بطور حربہ استعمال فرما تھے ﴿ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو’’ آمریت کے خلاف ائمہ معصومین (ع) کی جدو جہد‘‘ تالیف سید شرف الدین موسوی علی آبادی ﴾ یہاں اس نکتہ کی طرف اشارہ کردینا ضروری ہے کہ ائمہ معصومین (ع) نے روضۂ امام حسین (ع) کو مرجع خلائق اور محل اجتماع قرار دیاہے اور ۰۲ صفر اربعین شہدائے کربلا کی مناسبت سے روضۂ امام حسین (ع) پر پوری دنیا کے شیعہ لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی نظر آتے ہیںجو اسی روز شام میں سیدہ زینب (ع) کی طرف جانے کو ترجیح دیتے ہیں حتی کہ اس کی تشہیر بھی کرتے ہیں اور مفت یا نصف خرچ پریہ لوگ شیعوں کو بجائے کربلا کے شام لے جا تے ہیںاور ہر سال اس تعداد میں اضافہ ہو رہاہے ،ہمیں شام جانے پر اعتراض نہیں ہے ضرور جانا چاہئے اور سیدہ زینب (ع) کی اُس عظیم قربانی و فداکاری کو یاد کرنا چاہئے لیکن اُس وقت نہیں جب کربلا میں اجتماع ہورہاہو،شام میں روضہ ٔ سیدہ زینب (ع) پر اجتماع کی تاریخ ۰۲صفر کے علاوہ بھی معین کی جا سکتی ہے، تاکیدات ائمہ معصومین (ع) کے مطابق کربلا کے اجتماع کوہر حال میں اہمیت دینی چاہئے اور اسے کامیاب بھی کرنا چاہئے،بہر حال دنیا میں انقلابی تحریکیں جتنا زیادہ پھلتی پھولتی ہیں اتنا ہی ان کے دشمن اور مخالف زیادہ ہوجاتے ہیں اور ہر صورت میں ایسی تحریکوں کو مٹانا چاہتے ہیں ،بنی امیہ اور بنی عباس ایسی مثالیں ہیں جو کسی بھی صورت میں تحریک امامت کو پنپتا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے لہٰذا انہوں نے تحریک امامت میں شامل ہونے والوں کے ہاتھ پیر کاٹ ڈالے ،زبانیں گدی سے کھنچوالیں ،مکانات مسمار کئے ،بیت المال سے حصہ بند کردیا، امام حسن (ع) سے صلح کرنے کے بعد امیر شام نے اپنے گورنروں کو حکمنامے جاری کئے جس میں لکھا : اگر ثابت ہوجائے کہ کوئی شخص علی (ع) اور ان کے اہل بیت (ع) کا دوست ہے تو اس کا نام رجسٹر سے کاٹ دو اور اس کا وظیفہ اور روزی روٹی بند کردو اور اسے تمام شہری سہولتوں سے محروم کردو. ان کو مثلہ کردو ﴿ ہاتھ پیر اور ناک کان کاٹ دو﴾اور ان کے گھروں کو منہدم کرڈالو﴿شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، جلد ۱۱، صفحہ ۵۴، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم ، ناشر دار احیائ التراث العربی ، بیروت، لبنان﴾چنانچہ ایسا ہی کیا گیا،پانچویں امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں : ہمارے شیعہ ہر شہر میں قتل کئے گئے ،شیعہ ہونے کے شبہ میں بنی امیہ لوگوں کے ہاتھ پیر کاٹ ڈالتے تھے کوئی بھی شخص اگر محبت اہل بیت (ع) میں مشہور ہوجاتا تو اس کو قید میں ڈال دیا جاتا یا اس کے گھر کو ویران کردیا جاتا تھا ﴿ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۱۱، صفحہ ۳۴﴾ رسالت کے بعدجب امامت کا سلسلہ شروع ہواتو ساتھ ہی مخالفین نے بھی سر ابھارا اور اللہ و رسول (ص) کے ذریعہ کی گئیں تاکیدات و تبلیغات کو نظر انداز کردیا اورطرح طرح کے پروپیگنڈوں میں مصروف ہوگئے تاکہ اسلامی حکومت پر قبضہ کرکے لوگوں تک امرِ امامت و ولایت نہ پہنچنے دیں ،اس موقع پر حضرت علی (ع) اور آپ کے ساتھیوں نے امامت کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈوں کو بے اثر کرنے کی بھر پور کوشش کی اور آپ لوگوں ﴿ اہل بیت (ع) ﴾ نے باقاعدہ تبلیغ امامت کو تحریک کی شکل دے دی اور حق امامت و ولایت کا دفاع کیا تاکہ لوگ امرِ امامت سے غافل نہ ہوجائیں ، حضرت علی (ع) کے خطبے ، ارشادات اور احتجاجات اس بات پر گواہ ہیں کہ آپ نے تبلیغ امامت کوبہت وسعت عطا فرمائی اور لوگوں کے درمیان کوئی موقع ایسا نہ جانے دیا جس میں امرِ امامت پر روشنی نہ ڈالی ہو اور وضاحت کے ساتھ اپنے کو بعنوان حاکم و امام پیش نہ کیا ہو ، ایک بار حضرت علی (ع) بنی ہاشم کے بہت سے افراد کے ساتھ مسجد میں تشریف فرما تھے بعض وہ لوگ جو حضرت ابوبکر کی بیعت کر چکے تھے آپ کے اور افراد بنی ہاشم کے گرد جمع ہوگئے اور کہنے لگے کہ گروہ انصار نیز دیگر افراد نے ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے آپ بھی بیعت کر لیجئے ورنہ تلوار آپ کا فیصلہ کرے گی ﴿الاختصاص ، ص ۵۸، حدیث سقیفہ بنی ساعدہ، تالیف شیخ مفید، ناشر کنگرہ جہانی ہزارہ ٔ شیخ مفید، قم ، پہلا ایڈیشن ﴾اس پر آپ نے فرمایا: میں ان سے زیادہ بیعت کے لئے اہل اور قابل ہوں تم میرے ہاتھ پر بیعت کرو، تم نے رسول خدا (ص) سے قربت کے باعث خلافت کو انصار سے لے لیا اور انصار نے بھی یہ حق تسلیم کرلیا، خلافت کے لئے میرے پاس بھی دلائل موجود ہیں ،میں پیغمبر اکرم (ص) کی حیات ہی میں نہیں بلکہ رحلت کے وقت بھی سب سے زیادہ قریب و نزدیک تھا ،اگر تم اہل ایمان ہو تو انصاف سے کام لو.﴿الامامۃ والسیاسۃ، جلد۱، صحہ ۲۱، تالیف ابن قتیبہ دینوری،مطبوعہ مصر ۸۰۹۱ئ﴾اس کے بعد رمضان ۰۴ ہجری میں حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد امام حسن (ع) حاکم و امام مقرر ہوئے آپ نے بھی امر امامت کی تبلیغ کو بہت اہمیت دی اپنے فضائل و مناقب بیان کرنے کے بعد امام حسن (ع) نے فرمایا : تم ہماری اطاعت کرو کہ خدا کی طرف سے تم پر واجب کی گئی ہے ،ہماری اطاعت کو خدا نے اپنی اور رسول (ص) کی اطاعت سے مقرون کیا ہے ﴿جلا العیون ، صفحہ ۶۴۱، تالیف علامہ مجلسی ،مطبوعہ تہران ۴۱۳۱ھ﴾ امام حسن (ع) کی شہادت کے بعد امام حسین (ع) منصب امامت پر جلوہ افروز ہوئے ،آپ نے بھی بڑے اہتمام کے ساتھ اس تحریک کو پروان چڑھایا جس وقت 56ھ میں امیر شام مدینہ پہنچے تاکہ اہل مدینہ خصوصاً امام حسین (ع)سے یزید کی بیعت لیں ،مدینہ پہنچ کر معاویہ نے امام حسین (ع) اور عبد اللہ ابن عباس سے ملاقات کی اور اپنی گفتگو کے دوران یزید کی ولی عہدی کے مسئلہ کو بیان کیا تاکہ ان حضرات کی موافقت بھی حاصل ہوجائے امام حسین (ع) نے سختی سے مخالفت کرتے ہوئے فرمایا : ﴿اے معاویہ ! ﴾ . جو کچھ تم نے یزید کے کمالات اور امت محمدی کا نظم و نسق چلانے کی اس کی لیاقت بیان کی ہے میں سمجھ گیا ! تم نے یزید کی تعریف اس طرح کی ہے . گویا اس کی زندگی لوگوں پر پوشیدہ ہے . نہ ! یزید نے جس طرح اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے اور اپنے باطن کو آشکار کیا ہے .اس کے بارے میں وہی کہو ، یزید ایک ایسا جوان ہے جو کتوں اور کبوتروں سے کھیلتا ہے ، بوالہوس ہے کہ اپنی عمر کو گانے بجانے اور عیش پرستی میں بسر کررہاہے .﴿الامامۃ والسیاسۃ ،تالیف ابن قتیبہ دینوری ،مطبوعہ مصر ۸۲۳۱ھ﴾ اور جب امیر شام کے انتقال کے بعد یزید نے حکومت اسلامی پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے بعد حاکم مدینہ اپنے چچا زاد بھائی ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کو لکھا کہ اہل مدینہ بالخصوص امام حسین (ع) سے میرے لئے بیعت لے لے اور اگر انکار کریں تو سر قلم کرکے بھیج دے . جب ولید نے یہ خبر امام حسین (ع) کو پہنچائی تو آپ نے اپنے فضائل و کمالات بیان کرنے کے بعد فرمایا: میں نے اپنے نانا رسول اللہ سے سنا ہے ،آپ نے فرمایا : ابو سفیان کی اولاد پر خلافت حرام ہے ﴿بحار الانوار ،جلد ۴۴، صفحہ ۲۱۳، ناشر موسسۃ الوفائ بیروت ،لبنان ، دوسرا ایڈیشن ۳۸۹۱ئ﴾ امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد ائمہ و اہل بیت (ع) بالخصوص سیدہ زینب (ع) نے تبلیغ امامت کی تحریک میں نیا رنگ بھر دیا اور زندان شام سے رہائی کے بعد مجلس امام حسین (ع) کی بنیاد ڈال کر باقاعدہ طور پر اس کے لئے پلیٹ فارم بھی فراہم کردیا ،یہ پلیٹ فارم جتنا کامیاب ثابت ہوا کوئی دوسرا نہ ہوسکا ،اس کی افادیت کی دنیا کی تمام قومیں اور دانشور قائل ہیں ،اس پلیٹ فارم نے اس تحریک کو ایک نئی قوت اور جہت عطا کردی ،اس پلیٹ فارم سے ہر ملک میں شہر شہر ،قریہ قریہ ،گھر گھر امر ولایت و امامت اہل بیت (ع) کے تذکرے ہونے لگے جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے ،البتہ شہادت امام حسین (ع) کے بعد اس مقدس تحریک کا محور امام حسین (ع) اور آپ کی زیارت گاہ کربلائے معلی ہی قرار پا

بہ کے بارے میں احادیث نقل کرنا شروع کردیں خصوصا ً اگر کوئی بھی حدیث علی (ع) کے فضائل میں نظر آئے تو اس کے مشابہ ابو بکر و عمر کی شان میں احادیث جعل اور نقل کرو تمہارا یہ کام میری آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہونے کے ساتھ ابوتراب﴿علی (ع) ﴾ کی شخصیت کو مجروح کرنے کے لئے بہترین طریقہ ہے .﴿صحیحین کا ایک مطالعہ مولف محمد صادق نجمی ،مترجم محمد منیر خان لکھیم پوری ،ناشر انتشارات مرکز جہانی علوم اسلامی قم، پہلا ایڈیشن ۶۰۰۲ئ﴾ تاریخ کی کتابوں میں جعل حدیث کی اسناد اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر انہیں جمع کرلیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہوجائیں گی اور ان سب کا مقصد امر امامت ائمہ معصومین (ع) اور عظمت ِ اہل بیت (ع) کو کم رنگ کرنا تھا ،اسی طرح عصر حاضر میں امریکہ و برطانیہ اس تحریک کو خاموش کرنے کے لئے کبھی سعودی وہابیوں سے محافل و مجالس کے خلاف فتوے دلواتے ہیں تاکہ عام مسلمان محافل و مجالس سے دوری اختیار کرلیں اور ان میں شریک نہ ہوں اور کبھی مجالس و محافل میں رخنہ اندازی کرنے اور لوگوں کو ان سے دور رکھنے کے لئے بم دھماکے کراتے ہیں جیسا کہ پاکستان اور عراق میں ہوتا رہتا ہے ،مذکورہ تمام مثالیں ظاہری دشمنی کی تھیں اور ان دشمنوں کی اسی وجہ سے شناخت بھی ہوجاتی ہے ،مگر اس تحریک اور اس کے پلیٹ فارم ﴿محافل و مجالس﴾ کے باطنی دشمن بھی سرگرم عمل ہیں جو امریکہ و برطانیہ نے ہی تیار کئے ہیں ،گزشتہ زمانے میں استعمار کی روش یہ تھی کہ مختلف حیلوں بہانوں ،مکر و فریب اورظلم و تشدد کے ذریعہ قوموں پر مسلط ہوجاتے تھے اور جب قومیں بیدار ہوکر ان کا مقابلہ کرتی تھیں تو ان کا جانی نقصان زیادہ ہوتا تھا لہٰذا استعمار نے اپنی روش تبدیل کردی اوراب قوموں ہی سے ضمیر فروش افراد کو تلاش کرکے انہی پر مسلط کردیتے ہیں اسے استعمار جدید کہتے ہیں اور اس کی شناخت بھی دشوار ہے مگر ہر حال میں انہیں پہچاننا بھی ضروری ہے ،بہر حال اہل بیت (ع) اور ان کے مشن کے باطنی دشمنوں میں ایسے شعرأ اور خطیب بھی شامل ہیں جو شہرت اور پیسے کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں یہ لوگ منبروں سے عوام کے سامنے بے سر پیر کے ایسے مطالب بیان کرتے ہیں جن سے نہ صرف غیر شیعہ بلکہ شیعہ بھی سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیںیہ خطیب اور شعرأ مراجع تقلید تک کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں اور دانستہ یا نا دانستہ امریکی CIAکے مقصد کو آگے بڑھاتے ہیں ،قارئین کو مائیکل برانٹ کے مذکورہ پروگرام سے بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا ،اس پروگرام کا دوسرا حصہ یہ ہے ،مائیکل برانٹ لکھتا ہے کہ : شیعہ مراجع تقلید کے خلاف ایک بھر پور محاذ کھولا جائے جو خود بخود شیعوں میں گردش کرتا رہے اور شیعیت کا چہرہ مسخ کیاجائے تاکہ یہ مراجع تقلید عوام میں غیر مقبول ہوں اور خود بخود عوام کی نفرت کا شکار ہوجائیں دوسرے یہ کہ شیعوں میں جو عزاداری کی رسوم ہوتی ہیں جن میں یہ لوگ کربلا کے واقعہ کی یاد میں جمع ہوتے ہیں اور ایک آدمی تقریر کرتا ہے اور کربلاکے واقع کو بیان کرتا ہے مجمع اسے سنتا ہے اور بعد میں نوجوان طبقہ سینہ زنی و ماتم کرتا ہے ،یہ مجلس پڑھنے والا آدمی ﴿ذاکر﴾ اور یہ مجلس سننے والا مجمع ہمارے لئے بہت اہم ہے کیوں کہ اسی مجلس اور عزاداری سے شیعوں میں جو ش و خروش اور باطل سے لڑنے کی عظیم تمنا پیدا ہوتی ہے لہٰذا ہم نے کروڑوں ڈالر اپنے بجٹ میں تقریر کرنے والے ذاکروں اور مجمع کو ہائی جیک کرنے کے لئے مختص کئے ہیں ﴿روزنامہ جام جم ﴾جی ہاں ! کروڑوں ڈالر صرف اس بات پر خرچ کئے جا رہے ہیں کہ خطیب اور شعرأ منبروں سے محافل و مجالس میں ایسی بے تکی باتیں بیان کریں جن سے عام مسلمان محافل و مجالس میں آنا چھوڑ دیں اور یہ تحریک اور مشن خود بخود دم توڑ دے ،اب اس باطنی دشمن کی شناخت بھی ممکن ہوگئی ہے ،اب آپ اگر کسی شاعر یا ذاکر کو ایسے مطالب بیان کرتے ہوئے دیکھیں جن سے عام مسلمان مجلس یا محفل سے اٹھ کر چلے جائیں یا آنا چھوڑ دیں تو سمجھ لیجئے کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ یہ ذاکر یا شاعر امریکی CIAکے مفاد میں کام کررہاہے ،اگر کسی ذاکر یا شاعر کو آپ امریکی سفارت خانے میں افطاری کے نام پر گل چھرے اڑاتے ہوئے دیکھیں تو سمجھ لیجئے کہ CIAکے شیعہ سیکشن کی سازشوں میں یہ بھی شریک ہے ،بہر حال غور و فکر کا مقام ہے اگر کوئی شیعہ اس بات کا سبب بن جائے کہ لوگ اس کی وجہ سے محافل و مجالس سے دور بھاگنے لگیںاور امر امامت و عظمت اہل بیت (ع) سے بے بہرہ رہ جائیں ،توکیا اس کا شمار بنی امیہ ،بنی عباس ، امریکہ اور برطانیہ جیسے دشمنوں میں نہ ہوگا؟ ہندوستان میں بعض محافل و مجالس ایسی بھی ہوتی ہیں جس سے عام مسلمانوں کو دور بھگایا جاتا ہے ،مغربی اترپردیش کے ضلع جے پی نگر کے قصبے میں ایک محفل یکم اگست 2009کو ’’جشن عباس (ع)‘‘ کے عنوان سے حضرت عباس (ع) کی ولادت کی مناسبت سے منعقد کی گئی جس میں شیعہ سامعین کے علاوہ تقریبا ً 1750سامعین اہل سنت بھی شریک ہوئے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ایک متشاعر نے ایسا ماحول بنایا اور ایسے شعر پڑھنے شروع کردیئے جو موضوع محفل سے علیحدہ ہونے کے ساتھ اہل سنت کے مجمع کو محفل سے منتشر کرنے کا سبب بن گئے اور اہل سنت کا اتنا بڑا مجمع محفل سے اٹھ کر چلا گیا،کیا اہل سنت کو عظمت اہل بیت (ع) اورامر امامت سمجھانے کا اس سے اچھا موقع مل سکتا تھا ؟ افسوس ! 1لاکھ روپیہ تو اس محفل کی ڈیکو ریشن پر خرچ ہوئے تھے جو رائیگاں چلے گئے کیوں کہ مقصد ِ محفل حاصل نہ ہوسکا ،اسی طرح ہم نے بعض خطیب بھی ایسے دیکھے ہیں جو کیسٹوں کے بَل پر تال ٹھوک کر مجلس پڑھتے ہیں اوربجائے اقوال معصومین (ع) کے شاعروں کے شعر کوڈ کرتے ہیں شاعر کا شعر کتنا ہی بہترین کیوں نہ ہو قول معصوم (ع) کی جگہ نہیں پاسکتا،شعرائے اہل بیت (ع) کا مرتبہ اپنی جگہ مسلم ہے اس سے کوئی بھی شیعہ انکار نہیں کرسکتا مگر اقوال معصومین (ع) ہدایت کی ضمانت ہیں اس کے علاوہ اگر شعرا کے شعر کوڈ کرنے کا مجالس میں یہی سلسلہ چلتا رہا تو نئی نسل اقوال معصومین (ع) کو بھول جائے گی اور بس شعرا کے شعر ہی یاد رہ جائیں گے جب کہ معصومین (ع) نے اپنے اقوال حفظ کرنے کی تاکید فرمائی ہے اس کے علاوہ مجالس میںبغیر عمل کے جنت کی مفت تقسیم بھی شیعہ معاشرے کے لئے تباہی کا پیغام لائی ہے ،اور یہ فکر غیر ذمہ دار ذاکرین نے صوفیوں سے لی ہے،صوفیوں کا عقیدہ ہے کہ اگر مرتے دم تک قطب کے ہاتھ پر کی گئی بیعت کو نہ توڑا جائے تو پھر اسے کوئی بھی گناہ نقصان نہیں پہنچاسکتا ،مشہور صوفی ملا سلطان گنا آبادی لکھتے ہیں : اگر ولایت کے پیوند کو ﴿جو بیعت کے ذریعہ قطب سے جوڑا گیا ہے ﴾مرتے دم تک برقرار رکھے اور اس کے گناہ جن و انس کے گناہ کے برابر ہوں گے تو سب جھڑ جائیں گے اور اس پیوند و اتصال کی اصل حب علی (ع) ہے ،جس کے سبب کوئی گناہ بھی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اگر یہ رشتہ ٹوٹ گیا یعنی صوفیوں کی بیعت توڑ دی گئی تو سترسال کی با مشقت عبادت سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوگا،اپنی تمام عمر نماز، روزہ بجالانے اور حج پرجانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا ،غیر ذمہ دار ذاکروں کی زبانی صوفیوں کایہ عقیدہ سن کر اب ہر شیعہ بے فکر ہے کہ جنت تو اس کی پکی ہے عمل کرکے کیا کرے گا ،جنت تو مولا دلا ہی دیں گے ،ایسے بے خبر لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ جنت بغیر عمل کے نہیں ملے گی یہ بات تمام ائمہ (ع) نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمادی ہے کہ ہمارے شیعوں کو یہ بات پہنچادو کہ ہم اطاعت ہی کے ذریعہ خدا تک پہنچاسکتے ہیں اور ہمارے شیعوں تک یہ بات بھی پہنچادو کہ خدا کی طرف سے کوئی بھی چیز عمل ہی کے ذریعہ مل سکتی ہے، امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں : اے جابر! خدا کی قسم طاعت کے بغیر خدائے متعال کا تقرب حاصل نہیں کیا جاسکتا اور صرف ہماری معیت سے آتش ﴿جہنم﴾ سے نجات نہیں مل سکتی ﴿از کوئے صوفیان تا حضور عارفان ،صفحہ ۲۲۲،تالیف سید تقی واحدی صالح علی شاہ،ترجمہ نثار احمد زین پوری،مطبوعہ ایران﴾،غور و فکر کا مقام ہے ایک طرف صوفیوں کی فکر دوسری طرف ائمہ کے قیمتی اقوال آپ کس پر عمل کریں گے؟ صوفیوں کی فکر پر جب کہ صوفی ازم اہل بیت (ع) بالخصوص ائمہ معصومین (ع) کے مقابلے میں بنی امیہ نے قائم کرایا تھا یا ائمہ معصومین (ع) کے اقوال پر کہ جن کا ایک ایک قول ہدایت کی ضمانت ہے ،غیر ذمہ دار ذاکروں کی ایسی ہی بے تکی باتوں سے مقصد مجلس کو نقصان پہنچتا ہے ،سیدہ زینب (ع)﴿ہماری جانیں آپ پر فدا ہوجائیں﴾ نے مجلس کی بنیاد ڈال کر بنی امیہ کی اُس کوشش کو ہمیشہ کے لئے ناکام بنایا تھا جس سے بنی امیہ نے شام و دیگر علاقوں میں امر امامت و تذکرۂ اہل بیت (ع) پر پابندی لگادی تھی، آپ کو فاتح شام کہے جانے میں یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ جس ذکر کو بنی امیہ نے روکنے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لئے برسوں تک خزانوں کے منھ کھلے رکھے ،آپ (ع) نے ایک اقدام یعنی شام میں رہائی کے بعد امام حسین (ع)کی یاد میں مجلس برپا کرکے بنی امیہ کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا جس سے قیامت تک مجالس عزا کی شکل میں تذکرۂ اہل بیت (ع) باقی رہے گا مگر یہ اس صورت میں ہے کہ عوام کا شعور اتنا بیدار ہوجائے کہ وہ نفع نقصان اور اچھے برے کو سمجھنے لگیں ،ذاکر کو سن کر انہیں یہ احساس ہوجائے کہ یہ بیان مقصد ِ مجلس کے خلاف تو نہیں ہے اسی طرح عوام کی دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ محفلوں یا مجلسوں میں اس طرح کے نعرے نہ لگائیں جس سے عام مسلمان مجلسوں یا محفلوں سے دوری اختیار کرنے لگیں اگر ایسا ہوا یعنی چند نعروں کی وجہ سے مقصد ِ مجلس فوت ہوگیا تو بنی امیہ ،بنی عباس ، امریکہ ، برطانیہ اور ایسے نعرے لگانے والوں میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا ،ہمارے لئے نعرے لگانے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم اپنی مجالس و محافل میں زیادہ سے زیادہ مجمع غیر شیعوں کا اکٹھا کرلیں تاکہ ان تک امر امامت ائمہ معصومین (ع) و عظمت اہل بیت (ع) پہنچ جائے ،عوام کی کمزوری یہ ہے کہ وہ علم دین حاصل نہیں کرتے جس کی وجہ سے انہیں ذاکر کی لیاقت کا علم بھی نہیں ہوپاتا وہ تو صرف لباس سے مرعوب ہوکر رہ جاتے ہیں ،عوام یہ بھی غور و فکر نہیں کرتے کہ امریکہ و برطانیہ یا دیگر دشمنوں کے ایجنٹ کوٹ پینٹ یا ٹائی پہن ہاتھ میں صلیب لے کر تو شیعوں کے درمیان آئیں گے نہیں بلکہ شیعہ علمائ کے لباس میں ہی بہکانے آئیں گے اس کی مثال اُس آیت اللہ جیسی ہے جس کا تذکرہ مولانا جان علی شاہ کاظمی نے اپنی کسی مجلس میں کیا ہے کہ پاکستان میں لندن سے ایک غیر معروف آیت اللہ آئے جن کے آنے کا ڈھنڈورا بھی خوب پیٹا گیا انہیں کوئی جانتا بھی نہیں تھاان کے استقبال کے لئے خوب بھیڑ اکٹھا ہوگئی انہوں نے آنے کے بعد انگریزی میں تقریر کی اور نماز جماعت سے پڑھادی جس کے تشہد میں شہادت ثالثہ ﴿اشہد ان علیاً ولی اللہ﴾بھی پڑھا دی اور شاید اُن کاپاکستان آنے کا مقصد بھی یہی تھا بس یہیں سے پاکستانی شیعہ دو گروپوں میں تقسیم ہوگئے ایک گروہ وہ جو شہادت ثالثہ کا قائل ہوگیا اور دوسرا گروہ وہ جو اس کا انکار کرنے لگا جو گروہ قائل ہوا تھا اس کی دلیل یہ تھی کہ آیت اللہ نے پڑھایا ہے غلط نہیں ہوسکتا ،جو گروہ انکار کرتا تھا اس کی دلیل یہ تھی کہ آیت اللہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو وہ خلاف شریعت کوئی بات رائج نہیں کراسکتا،پہلے گروہ نے صرف لباس کا احترام کیا اور اس نے لباس کے اندر جھانکنے کی زحمت نہ کی تاکہ اسے پتہ چل جاتا کہ یہ کس کا ایجنٹ ہے جو روحانیت کا لباس زیب تن کئے ہوئے ہے؟اب پاکستان میں حالت یہ ہے کہ اکثر شہروں میں اسی مسئلہ کی وجہ سے دو دو جمعے ہو رہے ہیں. بنی امیہ و بنی عباس تحریک امامت کے کھلے دشمن تھے لہٰذا ان کی شناخت آسانی سے ہوگئی لیکن ایسی تحریکوں کے کچھ دشمن ایسے بھی ہوتے ہیں جو بھیس بدل کر وارد میدان ہوتے ہیں ایسے دشمن کی شناخت اور اس سے مقابلہ نہایت سخت ہوتا ہے ،ایسے ہی دشمن تحریک امامت اور اس کے پلیٹ فارم ﴿محافل و مجالس﴾ کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، ہر زمانہ کی سپر طاقتیں محافل و مجالس سے بے حد گھبراتی ہیں ،ہر باطل تحریک محافل و مجالس سے خوف زدہ ہے چاہے وہ سعودیت ہو یا وہابیت ،بہائیت ہو یا قادیانیت، طالبان ہو یا سپاہ صحابہ اور جس طرح بنی امیہ و بنی عباس نے اس پلیٹ فارم سے خطرہ محسوس کیا اسی طرح امریکہ و برطانیہ بھی مسلمانوں کے خلاف رچی جانے والی سازشوں کے لئے محافل و مجالس کو سب سے بڑا خطرہ محسوس کرتے ہیں مگر یہ محافل و مجالس شور و غل اور ہنگامہ آرائیوں کے بجائے غور و فکر اور شعور کے ساتھ منعقد ہو تی ہوں امریکہ و برطانیہ نے غور و فکر اور شعورکے ساتھ منعقد ہونے والی محافل و مجالس کے خلاف بڑے بڑے ہتھکنڈے اپنائے جن میں سے ایک امریکی CIAمیں شیعہ سیکشن کا قیام ہے ،جس کی طرف سیکشن کے اہم رکن ڈاکٹر مائیکل برانٹ نے اس طرح اشارہ کیا ہے ، وہ کہتا ہے کہ ۹۷۹۱ئ میں ایران کے اسلامی انقلاب ﴿جو کہ غور و فکر اور شعور کے ساتھ منعقد ہونے والی مجالس اور عزاداری کے باعث رونما ہوا﴾نے ہماری طویل حکمت عملی کو بڑا دھچکا لگایا ،ابتدأ میں ہمارے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ شاہ ایران کی ناقص پالیسیوں ،تشدد اور بے انتہا جبر و گھٹن کی وجہ سے عوامی رد عمل ہے جس سے مذہبی عناصر بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں ،شاہ ایران کے ہٹنے کے بعد ہم اپنے منظور نظر لوگوں کو لے آئیں گے جو ہماری پالیسیوں کو جاری رکھیں گے ، ابتدائی دو تین سالوں میں امریکہ کو اٹھائی جانے والی ہزیمتوں کے بعد اور دنیائے اسلام میں بڑھتی ہوئی اسلامی بیداری ، مغرب کے خلاف نفرت اور خصوصا ً مختلف ممالک جیسے لبنان ، کویت ، بحرین یا پاکستان میں شیعوں کے بڑھتے ہوئے انقلابی اثرات اور جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے بالآخر CIAکی ہائی اتھارٹی کا 1983میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں لندن سے مشہور زمانہ سکریٹ سروس IM6کا نمائندہ بھی شامل ہوا ﴿کیونکہ برطانیہ کو مشرق وسطیٰ میں تخریب کاری کرنے کا وسیع تجربہ حاصل ہے ﴾اس اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ ایران کا انقلاب محض شاہ ایران کی پالیسیوں کا جذباتی رد عمل نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے اور بھی حقائق اور عوامل کار فرما ہیں جس میں سب سے مضبوط عامل ﴿فیکٹر﴾شیعہ مسلمانوں میں مذہبی سپریم اتھارٹی کے لئے سیاسی قیادت ﴿غیبت امام (ع) میں ولایت فقیہ ﴾ کا حصول اور 1400سال قبل پیغمبر اسلام (ص)کے نواسے ﴿امام﴾ حسین (ع) کی شہادت ہے جس کی عزاداری شیعہ صدیوں سے بڑے گہرے رنج و غم کے ساتھ مناتے ہیں یہی دو عامل ایسے ہیں جن کی وجہ سے شیعہ دیگر مسلمانوں کی نسبت زیادہ متحرک اور فعال نظر آتے ہیں ﴿روزنامہ جام جم تہران، صفحہ ۱۱، سال دوم، شمارہ ۲۷۳، ۸۲ اگست ۱۰۰۲ئ﴾امریکی CIAنے شیعوں سے متعلق جن دو امتیاز کا ذکر کیا ہے ان میں ایک مذہبی سپریم اتھارٹی ﴿مرجع تقلید﴾ کے لئے سیاسی قیادت ،جو غیبت امام میںتبلیغِ امامت کی علامت ہے اور دوسرے عزاداری یعنی اس تبلیغ کا پلیٹ فارم ،عصر حاضر میں امریکہ جیسی سپر طاقت اس تحریک کو اپنے لئے کتنا بڑا خطرہ تصور کرتی ہے اس کا اندازہ قارئین نے لگا لیا ہوگا ، تاریخ داں اچھی طرح جانتے ہیں کہ بنی امیہ اور بنی عباس جیسی سپر طاقتیں بھی اس تحریک کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتی تھیں حجر بن عدی ، عمرو بن حمق ، حضرمی ، میثم تمار وغیرہ جیسے بزرگ صحابیوں کا قتل اور ابوذر غفاری جیسے پاکباز صحابی کا بے آب و گیاہ جنگل میں شہر بدر کیا جانا اسی کی طرف اشارہ کرتاہے ، غرض سلاطین بنی امیہ و بنی عباس نے جتنے بھی قتل اور مظالم کئے ہیں وہ اسی تحریک کو دبانے کی خاطر کئے ہیں ،اس کے علاوہ بنی امیہ اور بنی عباس نے جعلی حدیثیں گھڑنے کی ٹکسال بھی اسی مقصد سے قائم کی تھی جس میں اہل بیت (ع) کی عظمت اور ان کی حاکمیت کو کم رنگ کرنے کے لئے ہزاروں حدیثیں وضع کرائیں اور امیر شام نے تو اپنے دور اقتدار میں باقاعدہ سرکاری حکمنامے جاری کرکے مملکت اسلامی کے تمام گورنروں کو ہدایات جاری کیں ،ایک حکمنامے میں لکھا کہ : جو لوگ ابو تراب ﴿علی (ع) ﴾ اور آپ کے خاندان کی فضیلت کے بارے میں حدیثیں لکھتے ہیں ان سے میں اپنی حمایت اٹھاتا ہوں اور میں ان سے بری الذمہ ہوں ان کی جان و مال کی حفاظت میری مملکت پر عائد نہیں ہوتی .دوسرے حکمنامے میں معاویہ نے لکھا کہ شیعیان علی (ع) کی گواہی قبول نہ کی جائے اور جو لوگ عثمان کے خاندان کی فضیلت بیان کریں ان کا احترام کیاجائے اور انہیں انعامات سے نوازا جائے .اس کے بعد پھر حکمنامہ جاری کیا اور لکھا کہ : عثمان کے بارے میں اب احادیث بہت ہوگئی ہیں اور اسلامی ممالک میں نشر بھی ہو چکی ہیں لہٰذا آئندہ آپ حضرات ابوبکر و عمر و دیگر صحا

دنیا بھر میں جتنی بھی قومیں ہیں وہ اپنی تبلیغ کا محور دوسروں کو قرار دیتی ہیں تاکہ دوسرے لوگ ان کے ہم خیال ہوجائیں ،غیر شیعہ مبلغین میں ہم صوفیوں کی مثال پیش کرتے ہیں کیونکہ صوفیوں سے شیعہ بھی متاثر نظر آتے ہیں ،صوفی ازم بنی امیہ نے اہل بیت (ع) کے مقابلے میں قائم کرایا تھا تاکہ جو لوگ دل سے ائمہ معصومین (ع) اور اہل بیت (ع) کی طرف جھکتے تھے وہ صوفیوں کا ظاہری تقویٰ دیکھ کر ادھر بھی آنے لگیں اور اہل بیت (ع) کی طرف توجہ نہ کریں ،صوفیوں نے اپنے اصل پروگرام کو چھپاتے ہوئے تبلیغ کرنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان سمیت تمام دنیا میں لوگ ان کی تعریف کرنے لگے اور تعریف اس بات کی ہے کہ یہ کسی کی دل آزاری اپنے اجتماعات میں اعلانیہ نہیں کرتے ،جس کے نتیجے میں باطل ہوتے ہوئے بھی صوفیوں سے سب عوام متاثر ہوجاتے ہیں ،لیکن ہم حق پر بھی ہوتے ہوئے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنانے میں ناکام رہتے ہیں اور لوگ ہمارے اجتماعات سے دور بھاگ رہے ہیں، کیا یہ ہمارے لئے لمحۂ فکریہ نہیں ہے؟جب دوسرے لوگ ہمارے اجتماعات ہی میں نہیں آئیں گے تو ہم اپنے مذہب کی خوبیاں انہیں کس طرح بتائیں گے اور جو ہمارے خلاف الزامات برسوں لگتے چلے آرہے ہیں انہیں کس طرح بے اثر کرسکتے ہیں ،اگر دوسرے لوگ ہماری محفلوں اور مجلسوں میں شریک ہوں تو آسانی سے سنجیدگی کے ساتھ تمام الزامات کا دفاع ہوسکتا ہے ، ابھی وقت ہے ہمیں اپنی محافل و مجالس کے دروازے تمام قوموں پر کھول دینے چاہئیںتبھی حق محفل و مجلس ادا ہوگا ،رسول اسلام (ص) نے ایسے ذکر اہل بیت (ع) کو عبادت کا درجہ دیا ہے جس سے امر امامت اورعظمت اہل بیت (ع) عام لوگوں تک پہنچتا ہو بالخصوص ان لوگوں تک جن کو کبھی بنی امیہ و بنی عباس کے زرو جواہر نے اور کبھی قتل و غارت گری کے خوف نے امر امامت و ولایت اور عظمت اہل بیت (ع) سے آشنا نہ ہونے دیا اور وہ گمراہیوں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں اب اگر ہم بھی ایسے لوگوں کو اپنی مجلسوں اور محفلوں میں نہ آنے دیں تو یہ مقصد ِ محفل و مجلس کے خلاف اور بنی امیہ و بنی عباس کے مقصد کی حمایت ہوگی ، اور اس طرح ہم بھی تبلیغ امامت کے خلاف ہونے والی خطرناک سازش میں شریک ہوجائیں گے جس سے دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوجائیں گی


source : http://www.fazael.com/bleef/leadering/206-tablegh-e-emamat.html
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امیر المومنین علی علیہ السّلام کی حیات طیبہ
روزہ‏ داروں کو خوشخبری، مستحب روزہ کی فضیلت پر ...
جنت کے وعدے کی وجہ سے سابقون اوّلون کی نجات پر ...
محسوس فطریات
قرآن کریم پیغمبر اسلام کا سب سے بڑا معجزہ ہے
راہ خدا میں انفاق کے سبق آموز قصے(حصہ دوم)
وحی کی حقیقت اور اہمیت
رمضان المبارک کے سولہویں دن کی دعا
حرام مہینوں میں جنگ اورخدا کی راہ سے روکنا
اخلاق کی قسمیں

 
user comment