اردو
Friday 29th of March 2024
1
نفر 0

حفظ قرآن کے فوائد

تلاوت کی طرح حفظ قرآن کے بھی بہت سے فوائد اور اثرات ھیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ھیں :

 پاداش اخروی :

جیسا کہ حفظ قرآن کی اھم بحث میں یہ بات گزرچکی ھے کہ حافظان قرآن کو جنت میں بلند مقام عطا کیا جائے گا اور ان کا ثواب دو گنا ھو گا ۔

ھدایت انسان :

 تلاوت قرآن اور قرآن سے مانوس ھونے  کے لئے معصومین علیھم السلام نے بیحد سفارش اور نصیحت کی ھے۔ حفظ قرآن انسان کو طبیعی طور پر آیات الٰھی سے مانوس کرتا ھے لھذا حافظان قرآن کو چاھئے کہ حفظ قرآن کو باقی رکھنے کے لئے دن میں کئی بار قرآن کی تلاوت کیا کریں ۔

معصومین علیھم السلام نے حفّاظ کو ” آیات الٰھی کی تکرارکرنے والوں “کے نام سے یاد کیا ھے۔ جس طرح اگر کسی اونٹ کو کسی جگہ پر باندھ  دیا جائے اور اس کا مالک اس کی دیکہ بھال کے لئے نہ آئے یعنی اس کی طرف متوجہ نہ ھو تو وہ اونٹ وہاں سے بھاگ سکتا ھے۔ اسی طرح حافظ قرآن اگر مسلسل اپنے محفوظات کی تکرار نہ کرے تووہ ان کو فراموش کر سکتا ھے ۔

اس لئے حافظ قرآن، قرآن سے مانوس ھو جاتا ھے اور اپنے لئے ھدایت و سعادت کا زمینہ فراھم کر لیتا ھے ۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں :صرف وھی شخص قرآن سے آشناھوتا ھے جس میں کوئی کمی یا زیادتی واقع ھو، ھدایت میں اضافہ یا گمراھی میں کمی ۔

روح میں قرآن کا نفوذ اور لوگوں کے اندر تبدیلی بھی تلاوت قرآن اور حفظ قرآن کے اثرات میں سے ھے ۔

بھت سے لوگ تلاوت یا قرآن کی دلنشیں و جاذب آواز کو سنکر اپنی زندگی کے دھارے کو بدل کر کمال و کامیابی کی طرف گامزن ھو جاتے ھیں ۔

 اطمینان قلب :

 یاد خدا انسان کے اندر ایک اچھا اثر ڈالتی ھے جو دلوں کے لئے آرام بخش ھوتی ھے ۔

خدا فرماتا ھے :” الا بذکر اللہ تطمئن القلوب “ آگاہ ھو جاؤ ! یاد خدا دلوں کو آرام بخشتی ھے ۔

قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ” ذکر “ ھے ۔

تلاوت اور حفظ قرآن ایک طرح کا ذکر الٰھی ھے کہ انسان اس کی روشنی میں بھت سے روحانی اور داخلی اضطراب و پرشانیوں سے محفوظ ھو جاتا ھے ۔ یہ بات میدان عمل میں بھی ثابت ھو چکی ھے ۔

قرّاء اور حفاظ قرآن خصوصاً وہ حافظ اور قاری جو سحر کے وقت قرآن سے انسیت رکھتے ھیں، سب اس بات کا اعتراف کرتے ھیں کہ قرآن سے انسیت اور ارتباط بھت سی مشکلات اور روحانی فشار سے محفوظ رھنے کے لئے بھترین اور موثر عامل ھے ۔یہ اثر قرآن کے آرام بخش ھونے کی روشنی میں ظاھر ھوتا ھے ۔

پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ھیں کہ قرآن کی مثال مشک سے بھرے ھوئے بند تھیلے کی مانند ھے کہ اگر اس کو کھولو گے توفضا کو معطر کردے گا اور اگر اس کو اسکے حال پر چھوڑ دیا تو کسی کام کا نھیں ۔قرآن کی بھی اگر تلاوت کرو گے تو فضا کو معطر کر دے گا اور روح کو سکون بخشے گا اور اگر تلاوت نہ کرو گے تو تمھارے سینوں میں چھپا رھے گا ۔

1۔ تنھائی سے نجات :

کتاب تنھائی میں بھترین ھمنشین ھے ۔ قرآن خوبصورت ،خوب سیرت اور موثر ترین کتاب شمار کی جاتی ھے ۔ امام سجاد علیہ السلام فرماتے ھیں : اگر دنیا سے تمام لوگ چلے جائیں تو جب تک قرآن میرے ساتھ ھے مجھے کسی چیز کا خوف نھیں ھے ۔

2۔ قرآن کو صحیح طور پر سمجھنا :

حفظ قرآن کا اھم اور بھترین اثر قرآن کو صحیح طور پرسمجھنا ھے ۔حافظ قرآن تمام آیات پر تسلط کی وجہ سے ان کے ارتباط کو درک کرتا ھے اور اس کی روشنی میں بھتر سے بھتر مطالب قرآن سے اخذ کرتا ھے ۔

قرآن کی ھر آیہ ٴمبارکہ میں ظاھری معنی کے ساتھ ساتھ بھت سے باطنی معنی بھی پائے جاتے ھیں کہ ان آیات کے دوسری آیات سے روابط کی بیشتر آشنائی ایک کل کے جزئی صورت میں آشکار ھوتا ھے ۔

انسان جتنا زیادہ قرآن کی مختلف آیات سے مانوس ھو گا تفسیر قرآن میں بھتر اور دقیق طور پر آگے بڑھے گا ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص دعا کے بارے میں قرآن میں جستجو و تحقیق کرنا چاھتا ھے تو سب سے پھلے مرحلہ میں آیات کو تلاش کرنے کے لئے معجم قرآن سے مدد لیتا ھے ۔

یہ کتاب لفظ  دعا  کے امور اوراس کے ھمجنس و مترادفات کے بارے میں محقق کو اطلاعات دیتی ھے لیکن ان آیات کے سلسلے جن میں دعا اور اس کے ھمجنس و مترادف کلمات نھیں پائے جاتے گفتگو نھیں کرتی اگرچہ ان میں دعا کے معانی پائے جاتے ھیں ۔

ایسی صورت میں قرآن کو ذھن میں رکھنا بھت ضروری ھے لیکن ایک حافظ قرآن ان تمام آیات کو جو لفظی اور معنوی طور پر اس کے مورد نظر اور اس کے پیش نظر موضوع سے مربوط ھوتی ھیں فراھم کر سکتا ھے اور آیات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکتا ھے ۔

لھذا جو چیز حفظ قرآن میں اھم ھے وہ سوروں اور آیتوں کے ارتباط کو سمجھنا ھے کیونکہ ان سب کو ذھن میں رکھ کر ایک حافظ قرآن جتنا زیادہ آیات کے ارتباط اور ان کے تدارکات پر مسلط رھے گا بھتر سے بھتر ایک موضوع کے بارے میں قرآن کا نظریہ حاصل کر سکتا ھے ۔ لھذا مفسرین حافظ قرآن بھتر اوردقیق طور پر قرآن کی تفسیر کر سکتے ھیں اوران کی تفسیر مفسرین غیر حافظ کی بہ نسبت دقیق تر اور جامع ھو گی ۔

3۔ تقویت حافظہ :

قرآن مجید کا ایک امتیاز یہ بھی ھے کہ اس کی تلاوت اور اس کو یاد کرنے سے حافظہ قوی ھوتا ھے ۔روایات میں ملتا ھے کہ قرآن پڑھنے سے حافظہ بڑھتا ھے ۔

جیسا کہ اس آسمانی کتاب کا حفظ کرنا مسلسل تکرار پر منحصر ھے لھذایہ بات کھی جا سکتی ھے کہ حفظ حافظہ میں اضافہ کرتا ھے _

حفظ قرآن کا فلسفہ :

آغاز بعثت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں قرآن کو تحریف اور مٹنے سے بچانے کے لئے آیات الٰھی کو حفظ کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا لیکن اب جبکہ قرآن کی نشر و اشاعت بھت زیادہ ھو گئی ھے ،حفظ قرآن کا فلسفہ کیا ھے ؟ اس کے جواب میں یھی کھا جاسکتا ھے کہ کلام الٰھی کو صرف تحریف اور مٹنے سے بچانے کے لئے حفظ نھیں کیا گیاتھا کہ جیسے ھی نشر و اشاعت زیادہ ھوجائے حفظ قرآن کی اھمیت بھی نہ رہ جا ئے اور حفظ کرنا لا حاصل ھو جائے۔ بلکہ اس کے بھت سے اسباب ھیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ھیں :

۱۔ تحریف سے حفاظت :

ابتدائے اسلام میں قرآن کی آیات پراکندہ صورت میں جانوروں کی کھال ، ھڈیوں ، اور ان کے دانتوں ، کھجور کے درخت کی لکڑیوں ، سفید پتھروں ، کاغذ اور کپڑوں پر لکھی جاتی تھیں کیونکہ ھمیشہ کلام الٰھی کے مٹنے یا اس میں تحریف ھونے کا احتمال پایا جاتا تھا ۔ ایسی صورت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو قرآن حفظ کرنے کی سفارش کی یھاں تک کہ آپ نے ایک گھر کو اسی کام کے لئے معین کر دیا تھا۔

۲۔ قرآن پر عمل :

قرآن مجید کو حفظ کرنے کے اھداف میں سے ایک ھدف اس کے مضمون پر عمل کرنا ھے ۔ جس وقت انسان کلام وحی کو حفظ کرتا ھے تو لاشعوری طور پر اس کی روح اس کے اثر کو قبول کرتی ھے اور وہ خدا کے احکام پر عمل کرنے میں اس کا سھارا لیتا ھے ۔

بھت سے حافظین قرآن کی جزا جو بعض روایات میں بیان کی گئی ھے اس طرح سے ھے ۔

وہ ھمیشہ آیات الٰھی کی تکرار کرتے رھتے ھیں اور اپنے گوشت و پوست کو اس سے مخلوط کر لیتے ھیں ایسی صورت میں بعید ھے کہ خدا ان کو سعادت و کمال کی طرف ھدایت نہ کرے ۔

آیات الٰھی پر عمل کرنا زمانہ قدیم سے حافظوں اور قاریوں کے مورد توجہ رھا ھے ۔

جیسا کہ عثمان اور عبد اللہ بن مسعود جیسے صحابیوں سے روایت ھے کہ وہ اگر دس آیتیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سیکھتے تھے تو اس وقت تک دوسری آیات نھیں سیکھتے تھے جب تک کہ ان آیتوں کو حفظ نھیں کر لیتے تھے اور ان پر عمل نھیں کر لیتے تھے ۔

۳۔ عبادت سے فیض یابی :

اسلام کے آئین میں آیات قرآن کو حفظ کرنا ایک اھم عبادت شمار کی جاتی ھے اور اس کا ثواب بھی ھے ۔ اکثر روایات جو حفظ قرآن کی ارزش و اھمیت کے بارے میں ذکر ھوئی ھیں آیتوں پر صرف ظاھری نگاہ نھیں رکھتی ھیں اور حفظ کو صرف تحریف سے بچنے والی عبادت شمار نھیں کرتی ھیں ۔ معصومین علیھم السلام کی نگاہ میں آیات الٰھی کا حفظ کرنا عبادت اور باعث ثواب ھے ۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں :  اللھم فحبب الینا حسن تلاوتہ و حفظ آیاتہ  ۔

پروردگار ا! تلاوت قرآن اورحفظ آیات کو ھمارے لئے محبوب فرما !  اس دعا سے معلوم ھوتا ھے کہ خود تلاوت قرآن اور حفظ قرآن حضرت کی نظر میں محبوب و پسندیدہ فعل ھے ۔

مرحوم طبرسی نے مکارم اخلاق میں "صلاة حفظ القرآن " کے عنوان سے ایک باب تحریر فرمایا ھے جس سے معلوم ھوتا ھے کہ حفظ قرآن ذاتی طور پر مفید اور عبادتوں میں شمار کیا جاتا ھے ۔


source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=125405
1
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment

Lucy
Holy Toledo, so glad I clicekd on this site first!
پاسخ
0     0
14 مرداد 1390 ساعت 02:14 صبح