اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

اخلاق کے اصول

علم اخلاق کیا ہے ؟ اس کا موضوع اور ہدف کیا ہے؟ دوسرے علوم سے اس کا کیا رابطہ ہے؟اخلاق کی تعلیم کیوں ضروری ہے ؟ مسلمان علماء کے درمیان موجود اخلاقی نظریات اور اُن کے طریقوں کی قسمیں کون سی ہیں؟

یہ وہ اہم سوالات ہیں جو علم اخلاق کے مسائل شروع ہوتے ہی ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ان کا مناسب اور شائستہ جواب نہ صرف اس علم کے موضوع، حدود اور مقام و منزلت کے واضح ہونے کا سبب بنے گا بلکہ ہماری امیدوںکی اصلاح کے ساتھ بہت سے ایسے شبہات اور ابہامات کو بڑھنے سے روک سکتا ہے جو ممکن ہے بعد کی بحثوں میں سامنے آسکتے ہیں۔ 

الف۔ علم اخلاق سے واقفیت

علم اخلاق کی ابتدائی معلومات حاصل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل نکات اور مفاہیم کا واضحہونا ضروری ہے: 

١۔ لفظ اخلاق کا لغوی مفہوم

اخلاق خُلق کی جمع ہے جس کے معنی انسان کی باطنی قدرت اور عادت کے ہیں، جسے باطنی آنکھوں سے نہیں بلکہ چشم بصیرت سے درک کیا جا سکتا ہے یہ(خُلق) خَلق کے مقابلہ میں ہے جو ظاہراً قابل حس و درک شکل وصورت کے معنی میں ہے اور ظاہری آنکھوں سے دیکھنے کے قابل ہے۔ (١) 

اسی طرح خُلق کو واضح و پائیدار نفسانی صفت بھی کہتے ہیں کہ انسان اپنی صفت کے مطابق بغیر کسی تاخیر کے اعمال کو انجام دیتا ہے۔مثلاً اگر کوئی انسان شجاع ہے تو وہ اپنے دشمن سے مقابلہ کرنے میں شش وپنج میں نہیں پڑتا۔ یہ باطنی وراسخ وثابت حالت، ممکن ہے کسی انسان میں طبیعی، ذاتی و فطری طور پر پائی جاتی ہو جیسے کوئی

١۔ اصفہانی، راغب: معجم مفردات الفاظ قرآن، ص: ١٥٩۔

جلدی غصہ میں آجاتا ہے یا معمولی بات پر خوش ہو جاتا ہے۔خُلق پیدا ہونے کے دوسرے عوامل واسباب وراثت، تمرین و تکرار ہیں۔ مثلاًیہ کہ کوئی پہلے شجاعت والے کاموں کو تردّد اور تذبذب کی حالت میں انجام دیتا ہے پھر تمرین کی وجہ سے تدریجاً اس کے اندر شجاعت کی پائدار صفت اس طرح وجود میں آجاتی ہے کہ اُس کے بعد کسی جھجک کے بغیر شجاعت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ (١) 

یہ باطنی و نفسانی راسخ صفت ممکن ہے '' فضیلت'' یعنی اچھی خصلتوںکا سبب قرار پائے اور ممکن ہے ''رذیلت '' یعنی برائی اور بدکرداری کی ہو جائے۔بہر حال اُسے خُلق کہا جاتا ہے۔

٢۔علم اخلاق کی تعریف

اسلامی علوم میں علم اخلاق کے مستند و معروف اور سب سے اصلی منابع کی طرف رجوع کرنے سے اور قرآن واحادیث میں اس کے استعمال کے مقامات پر دقت کرنے سے علم اخلاق کی تعریف اس طرح بیان کی جاسکتی ہے: علم اخلاق وہ علم ہے جو ا چھی ا و ر بری نفسانی صفات اور ان کے مطابق اختیاری اعمال و رفتار کو بیان کرتا ہے اور ا چھی نفسانی صفات کو حاصل کرنے، پسندیدہ اعمال کو انجام دینے اور بری نفسانی صفات اور نا پسندیدہ اعمال سے پرہیز کرنے کے طریقوں کو بتاتا ہے۔ (٢) 

اس تعریف کی بناء پر علم اخلاق ا چھی ا و ر بری صفات کے بارے میںگفتگو کرنے کے علاوہ ان کے مطابق انجام پانے والے اعمال و رفتار کے بارے میں بھی بحث کرتا ہے۔ اس کے علاوہ نفسانی یا عمل فضائل تک پہنچنے اور برائیوں سے بچنے کے طریقوں کے بارے میں بھی بحث کرتا ہے۔

اس طرح علم اخلاق کے موضوع کو یوں بیان کیا گیا ہے: اچھی اور بری صفات اور اعمال، اس وجہ سے کہ انسان کے لئے ان کا حاصل کرنا اور انجام دینا یا ترک کرنا ممکن ہو۔

١۔ رجوع کیجئے: ابن مسکویہ: تہذیب الاخلاق و طہارة الاعراق، ص: ٥١۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات، ج: ١، ص: ٢٢۔

٢۔ رجوع کیجئے: ابن مسکویہ: تہذیب الاخلاق، ص ٢٧، طوسی۔ خواجہ نصیر الدین: اخلاق ناصری: ص ٤٨۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات، ج ١، ص ٢٦، ٢٧۔ صدر الدین شیرازی: الاسفار الاربعة، ج ٤، ص ١١٦، ١١٧۔

چونکہ انسان کے ا چھے اور برے صفات اور اس کے طرز عمل کی بازگشت اس کی جان و روح سے وابستہ ہے اس لئے بعض اخلاقی دانشوروں نے انسانی نفس کو علم اخلاق کا موضوع قرار دیا ہے۔ (١) 

علم اخلاق کا آخری ہدف یہ ہے کہ انسان کو اس کے حقیقی کمال و سعادت تک پہنچائے کہ یہی کائنات اور انسان کی خلقت کا اصلی مقصد ہے. اس کمال و سعادت کی واقعی تفسیر اور اس کا محقق ہونا، اس بات میں ہے کہ انسان اپنی استعداد اور ظرفیت کے مطابق، نفسانی صفات اور کردارمیں الٰہی اسماء اور صفات کا مظہر بن جائے تاکہ جہاں پوری طبیعی دنیا کسی ارادہ کے بغیر، خدا کے جمال وجلال کی تسبیح میں مشغول ہے، وہیںانسان اپنے اختیار اور اپنی آزادی کے ساتھ سب سے زیادہ گویا، مقرب اور مکمل الٰہی مظہر بن کر سامنے آجائے۔

٣۔ اخلاق کا فلسلفہ

اخلاقی گفتگو میں قبل اس کے کہ ا چھی ا و ر بری صفات و اعمال کے مصادیق کو معین کیا جائے اور ان کو حاصل کرنے یا ان سے پرہیز کرنے کے طریقوں کو بیان کیا جائے، بعض ایسے بنیادی سوالات سامنے آتے ہیں جو دوسرے اخلاقی مباحث پر مقدم ہیں اور مخصوصاً عقلی ماہیت رکھتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ سوالات مندر جہ ذیل ہیں: 

''اچھے'' اور' 'برے '' جیسے الفاظ اور عناوین کا مفہوم کیا ہے ؟

اخلاقی مفاہیم کی ماہیت و حقیقت کیا ہے ؟

اخلاقی قضیوں کی زبان، انشائی ہے یااخباری ؟

صحیح یا غلط اخلاقی قضیوں کا مبدأ اور معیار کیا ہے ؟

کسی اچھی یا بری صفت یا رفتار کا معیار کیا ہے ؟

آیااخلاقی قضیے مطلق (عالمی اور دائمی) ہیں یا نسبی(زمانی و مکانی ہیں) ؟

اخلاقی ذمہ داری کی حدیں اور شرطیں کیا ہیں ؟

اخلاقی مباحث وتحقیقات کا وہ حصہ جو اِن بنیادی سوالوں کا جوابدہ ہے اسے فلسفۂ اخلاق کہتے ہیں۔ اگر چہ اس کے مباحث کی ماہیت حتمی اور ہمیشہ عقلی نہیں ہوتی ہے، خاص طور سے فلسفۂ اخلاق کے جدید مکاتب فکر میں زبان و ادب کے لحاظ سے بھی (پہلے سوال کے مانند) گفتگو ہوتی ہے۔

.......................................

١۔ رجوع کیجئے: نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٦۔

٤۔ اخلاقی تربیت

لغت میں تربیت کے معنی کسی شئے کی صلاحیتوں کو پرورش دینا ہے۔یہ صلاحیتیں ممکن ہے جسمی و مادّی، علمی و عقلی ہوں اور ممکن ہے وہ قابلیتیں اخلاقی ہوں۔

اخلاقی تربیت سے مراد، پسندیدہ اخلاقی صفات و کردار کے حصول میں باطنی صلاحیتوں کو پرورش دینا، بلند اخلاقی فضائل کو حاصل کرنا اور برائیوں سے پرہیز اور ان کو نابود کرنا ہے۔اس بناء پر تربیت اخلاقی کا اہم کام، اخلاقی صلاحیتوں کو پیدا کرنا اور اخلاقی کمالات تک پہونچنا ہے۔ جبکہ علمی تربیت میں اصل مقصد علمی قابلیتوں کی پرورش کرنا اور اس کے اعلیٰ مراتب کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔اس بناء پر انسان کو ایک آلہ اور وسیلہ کی حیثیت دیکھاجاتا ہے۔

اخلاقی تربیت کا ربط علم اخلاق کے ایک اہم حصے سے ہے اور چونکہ اس کی اکثر باتیںعمل سے متعلق ہیں لہٰذا اس حصہ کو کبھی اخلاق عملی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس کے مقابلہ میں اخلاقی مباحث کا وہ حصہ جو اخلاقی لحاظ سے اچھائیوں اوربرائیوں کی تعریف کرتا ہے اُسے کبھی اخلاق نظری کے نام سے یاد کرتے ہیں۔


source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_book.php?book_id=3830&link_book=ethics_and_supplication/ethics_books/akhlaq_kay_usool
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خود شناسی(پہلی قسط)
قرآن کی حفاظت
جھاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
سیاست علوی
قرآن مجید و ازدواج
عید سعید فطر
شب قدر ایک تقدیر ساز رات
آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی
حضرت امام علی علیہ السلام کے حالات کا مختصر جائزہ

 
user comment