اردو
Friday 29th of March 2024
1
نفر 0

عزا داری کا اسلامی جواز

ہمارے معاشرے میں مذھبی تقسیم کا ایک اعتراض عزاداری اور اسکے طریقوں پر یہ کہ کر اٹھا یا جاتا ہے کہ کی اسلام میں عزاداری روا ہے بھی کہ نہیں؟ اس پہلے کہ ہم قرآن سے عزاداری کے لئے ثبوت فراہم کر سکیں، یہاں قرین عقل یہ ہے کہ پہلے عزاداری کی تعریف کو جانا جائے کہ عزاداری ہے کیا اور پھر قرآن سے استدلال کے طریقہ کار کو وضح کیا جائے کہ ہم کن باتوں کی بنیاد پر قرآن سے کسی اصول کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ مضمون تین حصوں میں منقسم ہے جو کہ یہ ہیں

1۔ عزاداری کی تعریف

2۔ قرآن و حدیث سے اثبات و نفی کے اصول

3۔ قرآن سے ثبوت ہائے عزا داری۔

عزا داری۔

عزا داری عربی کے لفظ عزا سے فارسی کا مشتق لفظ ہے۔ عزا عربی میں پُرسہ دینے کو کہتے ہیں۔ عزا کاہم معنی اور اردو میں زیادہ آسان فہم لفظ تعزیت ہے۔ عرف عام میں ، آل محمد (ع) کی مصیبتوں پر تعزیت کو گروہ بنا کر، خاندان کی شکل میں یا ساتھیوں کے ساتھ مل کر منظم طریقے سے ادا کرنے کو عزاداری کہا جاتا ہے۔

 تعزیت یا پُرسہ اس فطری عمل کا نام ہے جہاں عموما جانی نقصان ہونے پر دوست احباب اور رشتہ دار مرحومین کے لواحقین کو انکے سوگ میں شامل ہو کر، انکے رنج و الم میں برابر کی حصہ داری ڈالتے ہیں۔ کبھی آہ و بُکا کر کے ساتھ دیا جاتا ہے تو کبھی تسلیت کے الفاظ اور کبھی مادی معاونت کے ساتھ ان کا دکھ بانٹا جاتا ہے۔ لیکن یہ دکھ درد کی سانجھ صرف موت پر ہی نہیں بلکہ اور مواقع پر بھی ادا کی جاتی ہے۔

عزا، ایک لحاظ سے انسانی فطرت کا ایسا عمل ہے جس سے شاید ہی کوئی پوری طرح خالی ہو۔ کسی انجانے شخص کے درد و الم جان کر بھی انسانی دل بھر آتا ہے اور یہی جذبہ ہمارے ما بین ایک دوسرے کی مدد اور دکھ بانٹنے کا سبب بنتا ہے۔ ایتھوپیا اور سوڈان کے سیاہ فام لوگوں کی غربت اور کسمپرسی جان کر یورپ اور امریکا کے سفید فام انسان کا دل بھر آتا ہے اور وہ انکی مدد کے لئے قائم تنظیموں کو چندے اور عطئیے فراہم کرنے لگتا ہے۔ 

آج فلسطین پر ہونے والے ظلم کو سن کر ہم یورپ اور آسٹریلیا میں بھی احتجاجی ریلیاں برآمد کرتے ہیں۔ حلانکہ فلسطین و کشمیر میں ہم میں سے اکثر کے قربت دار، عزیز، دوست یا براہ راست جان پہچان والے نہ ہونے کے برابر ہونگے، لیکن ایک انسانی جذبہ ہے جو ہمیں انکے خلاف ظلم پر خاموش نہیں رہنے دیتا۔ بلکہ بطور مسلمان، ہم پر تو دوسرے مسلمان کی نصرت لازمی ہے، لیکن یہاں تو غیر مسلم ان مظالم پر ہم سے بڑھ کر مدد اور استغاثے بلند کرتے ہیں۔

ہمسائے کے گھر میں سانپ دیکھ کر ہمارے ہاتھ بے ساختہ کسی لاٹھی کی تلاش میں نکل جاتے ہیں کہ کہیں ہمسائیوں کے یہاں نقصان نہ ہو جائے۔ محلے میں موت واقع ہو جائے تو ہم اپنے گھر کی روشنی بھی مدھم کر دیتے ہیں کہ کہیں ہماری روشنی سے ان کے دل نہ دکھ جائیں! جتنا کسی سے قرب ہو، اتنا ہی اسکے دکھ کو اپنا جانا جاتا ہے۔ کوئی صرف گھر میں چلنے واالے آلا تِ موسیقی کی آواز کو کم کر کے شامل ہو جاتا ہے تو کوئی رنج و محن کی گھڑیاں ساتھ کاٹتا ہے۔

 کوئی چیختا ہے تو کوئی درد سے کلیجہ تھام لیتا ہے۔ کوئی سینے پر پتھر رکھ لیتا ہے تو کوئی سینہ پیٹ لیتا ہے۔ کوئی سر جھکا کر چلتا ہے تو کوئی اپنا بند قبا چاک کر لیتا ہے۔ یہ سب انسانی فطرت اور نفسیات کے عمل ہیں جو ہر شخص کی طبیعت اور مزاج کے حساب سے مختلف ہیں۔

 عزاداری ایک خالصتا اندرونی جذبہ ہے جو کہ بے ریا ء احساسات کے ساتھ مختلف مقامات پر مختلف اطوار سے اظہار کرتا ہے۔

ہم نے پاکستان میں دیکھا ہے کہ مزدور اور کلرک حضرات اپنے آجر کی طرف سے حقوق کی پامالی پر بازؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر، سینے پیٹتے ہوئے اپنے دکھ سے عوام کو آگاہ بھی کرتے ہیں اور ان سے توقع کرتے ہیں کہ لوگ ا ن کے اوپر کئے جانے والے اس ظلم پر آواز اٹھائیں اور انکے ساتھ اس درد کو سانجھا بنا لیں۔ گویا عزا دارای نہ صرف درد و الم میں ساتھ دینے کا نام ہے، بلکہ اپنے درد سے عوام کو آگاہ کرنے کے عمل اور ایک با ضابطہ احتجاج کا نام بھی ہے۔ 

عزاداری میں گو کہ بالعموم تو دکھ درد کا احساس ایک بنیادی جوہر ہے، لیکن خاص مقامات پر عزاداری میں ظلم کا بیان اور ظالم کا پردہ چاک کرنے کی سعی بھی شامل ہوتی ہے۔ ظلم اور ظالم کا پردہ چاک کرنے کا مدعا، عامتہ الناس کو ظالم کے شر سے آگاہ کرنا، اپنے لئے ہمدرد تلاش کرنا، اپنی کمزوری کو جمیعت و قوت میں بدلنا، اور ہمنوا تلاش کر کے انتقام کی سعی کرنا ہیں۔

 بڑی بڑی سیاسی تحاریک جیسے کہ انقلاب فرانس اور انقلاب ایران کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، انکی کامیابی کی بنیاد لوگوں پر ہونے والے ظلم کا بیان اور احتجاج کے ذریعے عوامی قوت کا اجتماع ہی تھے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ عزاداری کے سبب سے ایسے انقلابات برپا کئے جاتے ہیں جن سے عوام دوست اور معتدل معاشرے جنم لے سکیں۔ اب عزاداری صرف ایک پُرسہ داری نہیں، بلکہ ایک سیاسی تحریک بھی ہے اور ظلم کے خلاف کلمہ حق بھی۔ 

عزاداری محبت کا اظہار بھی ہے، درد کی سانجھ ہے اور سچ کا سا تھ ہے۔ عزاداری کو ہم ظلم کے خلاف جہاد بھی کہہ سکتے ہیں اور یہ باطل کی راہ کی دیوار ہے۔

قرآن و حدیث سے اثبات کے اصول

قرآن کریم سے کوئی عمل ثابت کرنے کے لئے سب سے پہلا اور بنیادی اصول امر ہے، یعنی کہ قرآن میں واضح طور پر کسی چیز کا امر آ جائے۔ جیسا کہ نماز یا روزے کا واضح حکم آ گیا۔ اسی طرح دوسرا واضح اور آ سان ترین اصول نہی ہے کہ کچھ کرنے سے واضح ممانعت آ جائے، مثلا کہ لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی (سورہ حجرات آیت2(، یعنی کہ رسول اللہ (ص) کی آواز سے اپنی آواز بلند مت کرو۔ 

اب جہاں ہم میں سے کوئی رسول اللہ (ص) سے آواز بلند کرے گا، وہاں اس قرآنی نہی کی خلاف ورزی ہو جائے گی۔ یہی دو اصول حدیث کے معاملے میں بھی مسلمہ ہیں، لیکن حدیث کی قبولیت کے لیئے سند راویان ایک انتہائی اہم ضرورت ہے۔ اسی طرح اگر کوئی حدیث کسی قرآنی امر و نہی یا اصول سے متصادم ہو تو اس حدیث کے رد کئے جانے میں کسی تردد کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ قرآن کے نزدیک رسول اللہ (ص) کی ہر بات وحی کی ترجمان ہے ( وما ینطق عن الھویٰ۔۔۔کہ رسول اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے، (سورہ النجم، آیت نمبر 3) ۔ اب اگر کہیں کوئی ایسی حدیث آ جائے کہ دنیا کے معاملات میں میری بات مت ماننا، تو گویا یہ حدیث قرآن کی سند کے خلاف ہے، لہذا اسے رد کر دیا جانا چاہئے۔

قرآن اور حدیث میں ایک مسلمہ اصول یہ بھی ہے کہ حضور (ص)کے سامنے کوئی کام کیا گیا اور آپ نے اس سے بیزاری نہ فرمائی، یا منع نہ کیا، تو اس کو بھی روا جانا جاتا ہے۔ صحاح ستہ میں اس اصول کو حدیث تقریری کہا جاتا ہے۔ یہی اصول قرآن کے لئے بھی ہے کہ اگر قرآن کسی کے کسی عمل کا ذکر کرے، اور اس کے لئے ممانعت یا نا پسندیدیگی کا اظہار نہ کرے تو اسے جائز عمل مانا جاتا ہے۔ اور اگر قرآن میں نا پسندیدگی کا اظہار آ جائے تو ایسا عمل ممنوع قرار پاتا ہے۔ جیسا کہ جناب نوح (ع) کو فرزند کے لئے نجات کی کوشش سے منع کردیا گیا تو اس اصول سے کسی بھی بے دین قرابت دار کے لئے دعائے نجات منع قرار پائی۔

قرآن کریم میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں کسی فعل کی نفی یا تائید کی گئی۔ اسی طرح ایک اصول تنسیخ و ناسخ کا بھی ہے کہ اگر کوئی آیت منسوخ کی گئی تو اس کی ناسخ آیت بھی موجود ہے جو متبادل حکم بتاتی ہے۔ مثال کے طور پر سورہ نساء کی آیت نمبر 15، سور نور کی آیت نمبر دو سے منسوخ کی گئی۔ سورہ نساء کی آیت نمبر 15 کے آخری الفاظ ( اور جب تک کہ اللہ کوئی اور راستہ نہ نکال دے) ہی اس بات کے غماز ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس حکم کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔

قرآن کا دو تہائی متشابہات ( غیر آسان اوامر و نہی) پر مشتمل ہے، جس سے مراد ہے کہ قرآن کا دو تہائی ایسا ہے جسے عام انسان نہیں سمجھ سکتا، اور اس کے لئے کسی ایسے کی ضرورت ہے جو اس کی تاویل و تفسیر جانتا ہو۔ ( ۔۔۔وما یعلم تاویله الا الله والراسخون فی العلم ۔۔۔الخ کی متشابہات کی تاویل یا تو اللہ خود جانتا ہے یا وہ جو علم میں راسخ ہیں۔ (سورہ آلِ عمران آیت نمبر 7)۔ اس آیت کا براہ راست مخاطب مجمع اصحاب الرسول (ص) تھے، جن کو قرآن بات کو راسخون فی العلم سے سیکھنے کا حکم دیتا ہے۔

گویا کہ اصحاب اگر راسخون فی العلم نہیں تھے تو ہماری کیا مجال کہ اپنی مرضی سے معانی اخذ کرتے پھریں۔ ایسی متشابہات آیات کی تاویل خود کرنا انسان کو غلطی و گمراہی کی طرف لے جاتا ہے، اس لئے قرآن کو بجائے خود کافی سمجھ کر اس کی تفسیر اور معانی نکالنا ممنوع ہے۔ 

قرآن اکیلا اس لحاظ سے امت کی ہدایت کے لئے نا کافی ٹھہرتا ہے اور اسکو کافی جاننا خود قرآنی حکم کی مخالفت ہے۔ اولاً تو ہم قرآن کی تمام آیات کے سیاق و سباق کو نہیں پہنچاتے، دوم ہمیں اللہ کی اس حکمت کا علم نہیں جس کو اس نے اپنے رسول حکیم کو دے کر بھیجا تھا۔ اس لئے ہم قرآن کی متشابہات سے براہ راست مطالب نہیں نکال سکتے۔

 جیسا کہ نماز پڑھنے کا حکم تو واضح ہے، مگر کیسے پڑھیں، اسکا کہیں یکجا ذکر نہیں۔ کہیں، قیام کی بات ہے تو کہیں، رکوع و سجود کی بات۔ لہٰذا قرآن متشابہات کے حوالے سے کہیں بھی از خود واضح نہیں۔ محکمات (واضح ) آیات کی ایک اور مثال یہی ہے کہ و ما ا تٰیکم الرسول فخذوہ‘، وما نهیکم عنه‘ فانتھوا ( سور حشر آیت نمبر 7)، کہ جو رسول دیں وہ لے لو، اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔ اس سے قرآن کا مزاج کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ ہمیں براہ راست قرآن سے لینے کی بجائے رسول سے ہی دین لینا ہوگا۔

اب تک کی بحث کے نتیجے میں ہم کہ سکتے ہیں کہ:

1۔ واضح امر و نہی کے مقامات کے ساتھ ساتھ قرآن جن مقامات پر نہی و تردید نہیں کرتا، ان کو ہم حدیث تقریری کے اصول کے تحت اپنا سکتے ہیں۔

2۔ جو آیات واضح نہیں ہیں، انکی تفسیر کے لئے ہمیں رسول اللہ (ص) یا انکے اہل جانشینوں سے رجوع کرنا ہوگا۔ قرآن تنہا سمجھ میں نہیں آ سکتا۔

3۔ احادیث کو بلا سند راویان نہیں مانا جاسکتا۔ یعنی کچھ راویان حدیث ایسے بھی ہیںجن کی بات پر اعتبار ممکن نہیں۔

4۔ جو احادیث قرآنی اصولوں سے متصادم ہوں، وہ قابل قبول نہیں۔

اثبات عزاداری از قرآن

جبکہ ہم جان چکے ہیں کہ عزاداری کیا ہے اور قرآن سے ہم کن اصولوں کے تحت اثبات و انکار کو اخذ کر سکتے ہیں، اب یہ ہمارے لئے آسان ہے کہ قرآن سے واضح (محکمات) آیت پیش کر کے ان اصولوں کی روشنی میں ہم عزاداری کا جواز تلاش کر سکیں۔ عزاداری کے اثبات میں متشابہات سے بھی کئی دلائل بمع تفسیر مہیا ہو سکتے ہیں، لیکن مضمون کے اختصار کی خاطر ہم آسان راستوں پر ہی گامزن رہیں گے۔

1۔ سورہ یوسف کی آیت نمبر سات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے شک یوسف (ع) اور اس کے بھائیوں کی کہانی میں سوال کرنے والوں کے لئے نشانیاں موجود ہیں۔ اسی لئے ہمارے سوالِ عزا کا جواب بھی یوسف (ع) کے تذکرے سے مل جائے گا۔ 

اب آئیے اور دیکھئے سور ہ یوسف، جہاں قرآن اس کو احسن القصص کہ کر جناب یعقوب علیہ السلام کے رونے کا ذکر کرتا ہے۔ ملاحظہ آیت نمبر 84، قرآن کہتا ہے کہ و قال یا اسفی علیٰ یُوسُفُ وابیضت عیناہ‘ من الحُزن، فھو کظیم۰ کہ یعقوب (ع) نے کہا کہ ہائے ہائے یوسف، اور (رو رو کر) انکی آنکھیں سفید ہو گئیں، حالانکہ وہ وہ صبر کرنے والے تھے۔ پھر اسی سورہ کی آیت نمبر 99 ذکر موجود ہے کہ جب یوسف (ع) کی قمیض یعقوب (ع) کی آنکھوں سے لگائی گئی تو انکی آنکھیں پھر سے دیکھنے لگیں۔ سبحان اللہ کہ یوسف (ع)کی جدائی کے الم میں اللہ کے نبی کی آنکھیں رو رو کر سفید ہو جاتی ہیں، اور یوسف کی قمیض سے نبی اللہ کی آنکھیں بینا ہو جاتی ہیں۔ 

گویا کہ معصوم سے منسلک چیز میں اتنی قوت ہے کہ معصوم کو شفاء دے دے، اس لئے کیا ہی مشکل ہے کہ ہم ایسے خاک نشیینوں کے لئے اللہ کی نعمات اور برکات کا سبب ٹھہریں۔ اسی آیت نمبر 99 میں جناب یعقوب (ع) اپنے بیٹوں سے کہتے ہیں کہ میں نہ کہتا تھا کہ اللہ کی طرف سے میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو۔ آیت نمبر 13 میں جناب یعقوب (ع) اپنے بیٹوں سے کہتے ہیں کہ مجھے ڈر ہے کہ یوسف  کو بھیڑیا نہ کھا جائے، جبکہ آیت نمبر 17، میں انکے بیٹوں نے یہی بہانہ کیا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔ 

اس بات کو اگر جناب یعقوب (ع)کے دعوائے علمی کی روشنی میں دیکھیں تو یقینا وہ اشاروں سے بیٹوں کو بتاتے رہے کہ میں علم الغیب بھی رکھتا ہوں اور جانتا ہوں کہ تم کیا کرنے جا رہے ہو۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ جناب یعقوب (ع) کو معلوم تھا کی یوسف (ع) زندہ ہیں، لیکن صرف ان کے فراق نے انکی یہ حالت کر دی کہ آپ کی آنکھیں بصارت سے محروم ہو گئیں۔ مزید برآں آیت نمبر 81 میں یوسف (ع) نے بھائیوں سے کہا کہ جا کر اپنے باپ سے کہو کہ تمہارے بیٹے نے چوری کر لی ہے، ہم نے دیکھا تو نہیں، پر بتایا یہی گیا ہے، اور ہمیں غیب کا علم تو ہے نہیں۔ 

یہاں بھی یوسف (ع) کنائے سے بتا رہے ہیں کہ غائب کا علم تمہیں نہیں ہے، لیکن کوئی ہے جو اسے جانتا ہے۔ جناب یعقوب (ع) نے ان کی بات سن کر کہا کہ یہ تو تمہارے نفسوں نے ایسا کر دکھایا ہے، اور اللہ سے صبر جمیل ہے کہ وہ دونوں بیٹے مجھ سے ملا دے۔ یعنی یعقوب (ع) نے یہ نہیں فرمایا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، بلکہ کہا کہ تمہارے نفوس نے ایسا کر ڈالا۔ ساتھ میں یعقوب (ع) یوسف (ع) کی زندگی سے مایوس بھی نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جناب یعقوب (ع) اس جدائی کا سبب ان بڑے بیٹوں کو ہی ٹھہرا رہے تھے۔ یہ پھر دلیل ہے انکے علم الغیب پر۔ پھر اس کے بعد وہ یوسف (ع) کو یاد کرکے رونے لگے۔

پس اس بحث سے ثابت ہوا کہ مظلوم اور شہید کے لئے رونا جائزہے، چاہے وہ زندہ ہے، ۔ اور شہید کے معاملے میں سچ یہی ہے کہ گو کہ ہر شہید زندہ ہے، لیکن اس کے قربت داروں اور عزیزوں کے لئے اس کی جدائی اور مفارقت تو بہر حال حائل ہوتی ہی ہے۔ پھر جناب یعقوب (ع) کو معلوم تھا کہ یوسف (ع) زندہ ہیں اور ان کی مصیبت کٹ کر بادشاہی میں بدل چکی ہے، اس کے باوجود ان کا گریہ و بکا جاری رہا، اسی طرح گو کہ شہید جنت میں براہ راست چلا جاتا ہے، اسکے با وجود اسکے اوپر روا کئے گئے ظلم کی یاد میں رونا اسی طرح جائز ہے، جس طرح یعقوب  یوسف (ع) کو روئے۔ 

یاد رہے کہ جناب یعقوب (ع) یوسف (ع) کو روتے بھی رہے اور اسے صبر جمیل بھی کہتے رہے۔ لہذا شہید کو رونا، عدم صبر کی دلیل نہیں، کیونکہ قرآن نے جو سب سے اچھی کہانی سنائی ہے، اس میں رونا عین صبر بتایا گیا ہے۔

2۔ گو کہ قرآن کا صرف ایک حوالہ ہی اہل بصیرت کے لئے کافی ہے، لیکن عبارت کو مختصر کرتے ہوئے ہم چند مزید حوالے بھی منتقل قرطاس کئے دیتے ہیں۔ 

مثال کے طور پر سورہ الذاریات کی آیت نمبر 29 ملاحظہ ہو، جس میں جب فرشتے جناب ابراہیم (ع) کو فرزند کی خبر دیتے ہیں، تو ان کی زوجہ ماتھا پیٹ کر کہتی ہیں کہ ہائے ایک بانجھ بڑھیا اب کیا بیٹا جنے گی؟ یہاں اس ماتھا پیٹنے کو قرآن نے کہیں مذموم قرار نہیں دیا، اور یوں کربلا والوں کی مصیبت کے مقابلے میں ایک معمولی پریشانی پر ماتھا پیٹنا بھی جائز قرار دیا گیا ہے۔

 اسی طرح سورہ یٰسین کی آیت نمبر 26 میں قرآن ایک معرفت یافتہ شخص کا ذکر کر کے فرماتا ہے کہ اس نے کہا کہ اے کاش میری قوم کو بھی معلوم ہو جاتا کہ مجھے کیا درجات ملے اور کس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے معاف کردیا۔ گویا معرفت پا کر بھی اپنی قوم کی نسبت کلمہ حسرت ایک ملول کا اظہار ہے، جو کہ روا ہے۔ 

اسی طرح اسی سورہ میں اللہ تعالیٰ خود بنی نوع انسان کی طرف سے رسولوں کے جھٹلائے جانے یا حسرةً علی العباد کہ کر ہائے بنی نوع انسان کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ خالق و رازق بھی ہے اور اپنی مخلوق سے بے پناہ محبت بھی کرتا ہے۔ اس لئے خالق کو پسند نہیں کہ مخلوق اپنی ہی نا اہلی کے سبب جہنم کا ایندھن بنتی رہے۔ اسی لئے ان کے انجام کو دیکھ کر کلمہ ہائے افسوس کہا گیا ہے۔

 اسی طرح قرآن میں کئی مقامات پر انبیاء ما سبق پر امت کے مظالم اور ان کے تذکرے قرآن کے نوحے ہی تو ہیں۔ قرآن ظالم سے نفرت اور مظلوم کی داد رسی کا جذبہ پیدا کرنے کی غرض سے انبیاء ما سبق پر ہونے والے مظالم کا تذکرہ کرتا ہے اور امت مسلمہ سے توقع کرتا ہے کہ ہم مظلوم کی داد رسی کرکے ظلم کا ہاتھ روک دیں گے۔

 اگر ہم ظالم کو ہزار سال بعد بھی ظالم نہ کہیں تو قرآن کے اصول کے مطابق ہم ظالم کے طرف دار ہی ٹھہرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو قل فلم تقتلون انبیاء اللہ من قبل انکنتم مؤمنین ( سور بقرہ آیت 91) یعنی اے رسول بنی اسرائیل سے پوچھئے کہ اگر وہ مؤمن تھے تو انبیاء کو قتل کیوں کرتے تھے؟ یہ سوال بنی اسرائیل کی اس نسل سے پوچھا جا رہا ہے جو براہ راست قتل انبیاء میں ملوث نہیں ہے، لیکن ان کی ہمدردی اور محبت اپنے ان ہی قاتل آباء کے ساتھ تھی، اس لئے قرآن ان کو قتل انبیاء کا حصہ دار ٹھہرا رہا ہے۔

در اصل قرآن بھی مظلوم کے لئے حمایت کی تلاش میں مصروف ہے اور ہم سے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہ ہائے یوسف، ہائے میری امت، ہائے افسوس بنی آدم، سب ہائے حسین ہی کے تو ہم وزن کلمات ہیں۔ جب عام انسان کے اس کی اپنی غلطیوں کے ہاتھوں انجام پر ہائے انسان کہا جا سکتا ہے تو پھر امت کے ہاتھوں بے جرم و خطا معصوم نبی زادے کے دکھ میں ہائے حسین (ع) کہنا کیوں مشکل ہے؟!

دیکھیں قرآن کہتا ہے کہ لن تجد لسنة اللہ تبدیلا ( کہ اللہ کے طریقہ کار کو تبدیل ہوا ہوا کبھی نہ پاؤ گے، سورہ احزاب آیت نمبر 62، سورہ فتح آیت نمبر (23۔ قرآن ہمیں اللہ کی سنت بتا کیا رہا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں تکلیفیں اٹھانے والوں کا ذکر امت مسلمہ کو سنا رہا ہے، ان کے چلے ہوئے راستوں پر ہمارے لئے حج کا حکم نافذ کر رہا ہے، اسمٰعیل (ع) کے قربانی کے لئے خود کو پیش کر دینے کے عمل پر ہم سے ہر سال قربانیاں دلا رہا ہے کہ کہیں اللہ کی راہ میں اٹھائی گئی تکلیفیں ہمارے دلوں سے محو نہ ہو جائیں۔ تو کیا اللہ یہ نہیں چاہے گا کہ ہم رسول اللہ کے خاندان کی طرف سے اسکی راہ میں اٹھائی گئی تکلیفوں کی یاد مناتے رہیں؟ ان مصائب کو فراموش کر دینا اللہ کی سنت سے انحراف ہی تو ہے!

حاصل بحث:

اب تک کی تمام بحث سے یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ :

1۔ عزاداری، مظلوم کی حمایت اور محبت میں اسکے ساتھ اظہار یکجہتی کا نام ہے۔

2۔ عزاداری ظلم کے خلاف احتجاج اور مظلوم کی حمایت کی تحریک کا نام ہے۔

3۔ عزاداری مظلوم کے دکھوں پر رونے اور رلانے کا نام ہے۔

4۔ عزاداری اپنے پیاروں کی یاد میں غمگین ہونے کا نام ہے۔

5۔ عزاداری معاشرے سے ظلم کے تدارک اور عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کی اسا س ہے۔

6۔ قرآن زندہ یا مردہ کے لئے رونے سے منع نہیں کرتا۔

7۔ قرآن کی نظر میں رونا عین صبر ہے۔

8۔ قرآن میں رونے کی کوئی حد مقرر نہیں، چاہے بینائی جاتی رہے۔

9۔ عالم حسرت و اضطراب میں ماتھا پیٹنا قرآن میں جائز ہے۔

10۔ چونکہ قرآن میں کہیں بھی سینہ پیٹنے کی ممانعت نہیں ہے، اس لئے حدیث تقریری کے اصول کے تحت یہ بھی امر روا ہے۔

اب مندرجہ بالا نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا غور کیجیئے کہ یہ اسلام ہے کیا؟

یہ ہم تک پہنچا کیسے؟

اس کو چودہ سو برس کے سفر میں کیا کیا مشکلات پیش آئیں؟

اسلام دین الٰہی ہے جس کو مکمل شکل میں ہم تک رسول دوسرا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پہنچایا۔ اسلام کے مخالفین نے نبی پاک اور انکے خانوادہ کو طرح طرح کے مصائب سے دو چار کیا۔

 ان مظالم میں تاریخ انسانی کا بد ترین ظلم کربلا اور اسکے بعد کربلا تا کوفہ و شام رونما ہوا۔ یہ ظلم نواسۂ رسول پر اس لئے روا رکھا گیا کہ امام حسین علیہ السلام اسلام کی بگڑتی ہوئی صورت کو ہر حال میں بچانا چاہتے تھے۔ 

امام عالی مقام نے ہر طرح کی قربانی دے کر اسلام کی اصلی شکل بچا لی اور یوں نبی کریم (ص) کے بعد اسلام کو ہم تک پہنچانے کا سہرا امام حسین (ع) اور ان کی بہن سیدہ زینب بنت علی (س) کے سر ہے۔ امام (ع) کی قربانی کے بعد بے کجاوہ اونٹوں پر بیٹھ کر رسول اللہ (ص) کی نواسی اور ناموس کوفہ و شام کے بازاروں میں خطبے دیتی رہی اور لوگوں کو ظالم اور مظلوم کا فرق بتاتی رہی۔

 سیدہ زینب (س) نے اہل اسلام پر احسان کر کے اسلام اور کفر کا فرق ابد الآباد دنیا تک کے لئے قائم کر دیا۔ سیدہ (س) کے خطبات اٹھا کر دیکھیں تو ان کے کلام میں زور اللہ کی توحید ، حمد و ثناء اور رسالت کے تعارف پر ہے۔ اگر سیدہ (س) یہ نہ کرتیں تو یزید پلید تو ماؤں اور پھوپھیوں سے شادیاں رچانے کا قائل تھا۔

 اگر ایسا شخس خلیفۃ المسلمین مان لیا جاتا، تو کیا آج اسلام اس شکل میں موجود ہاتا جو ہمارے پاس ہے؟ یہ کربلا کہانی کا ایک رخ ہے۔

اب آئیے اسکا دوسرا رخ دیکھتے ہیں:

قرآن کہتا ہے کہ النبی اولیٰ بالمؤمنین من انفسھم۔۔۔سورہ احزاب آیت نمبر 6، کہ نبی مؤمنین کے نفوس ( جانوں) پر ان سے زیادہ حق رکھتا ہے۔ جبکہ صحاح ستہ گواہ ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ حسین (ع) مجھ سے اور میں حسین (ع) سے ہوں۔ لہذا حسین (ع) کا غم رسول اللہ (ص) کا غم ہے۔ 

اب اگر ہمیں رسول اللہ سے واقعی محبت ہے اور قرآن کی رو سے ہمیں رسول (ص) کا غم اپنے غم پر معتبر رکھنا چاہئے، تو ایسی صورت میں کیا ہمارا فریضہ نہیں بنتا کہ جب رسول اللہ (ص) غمگین ہوں تو ہم بھی صف عزا پر کم از اتنا پرسہ تو دے دیں جو اہل محلہ ایک دوسرے کو دیا کرتے ہیں۔ 

قرآن تو رسول اللہ (ص) کی رسالت کی محنت کا اجر ان کے قرابت داروں سے مودت کا تقاضہ کر کے کرتا ہے (سورہ شوریٰ آیت نمبر 23) ، اور ہم ہیں کہ رسول اللہ (ص) کی مصیبت پر شادیانے بجانے کو اسلام سمجھ رہے ہیں! امام حسین (ع) کی عزاداری ہم پر اس لئے بھی واجب ہے کہ یہ رسول اللہ (ص) سے محبت کا پیمانہ ہے، اور اس لئے بھی کہ حق کا ساتھ اور ظلم کی مخالفت ہم پر واجب ہے۔ بطور مسلمان ایک عام مسلمان کی نصرت ہم پر واجب ہے، تو رسول پاک (ص) کے خانوادے کا حق تو سب سے بڑھ کر ہونا ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔

پھر جس انداز سے قرآن اور اسلام ہم سے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہیں، اس کا حق اس وقت تک ادا نہیں ہو سکتا جب تک ہم کربلا والوں پر ظلم کرنے والوں کے خلاف صدائے احتجاج و بریت بلند نہ کر دیں۔ کچھ لوگ اس نظرئیے کے بھی قائل ہیں کہ چودہ سو سال بعد اس قضئیے کو کیوں بیان کیجئیے؟ پہلی بات تو یہ کہ ھل جزا ء الاحسان الا الاحسان کے حکم قرآنی کے مصداق رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے خانوادے کے احسان کے سبب ان کا ہم پر حق ہے کہ ہم ان کی یاد مناتے رہیں۔ اس سے نہ صرف حسین (ع) کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، بلکہ یزیدی نظریات کا بھی ابطال ہو جاتا ہے، اور یوں ہر بار عزاداری حسین (ع) سے اسلام کی روح کو ایک نیا ولولہ مل جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ قرآن عدل کی خاطر ہم سے گواہی کا طلبگار ہے۔

دیکھئے حوالہ کے لئے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 7 اور سورہ نساء کی آیت نمبر 135۔ اللہ تعالیٰ ہم سے جب گواہی طلب کر رہا ہے اور دنیا آج بھی حسینیت اور یزیدیت کی وکالت کی بحث میں مبتلا ہے۔ ایسے میں ہم جس کو سچ مانتے ہیں اگر اس کی گواہی کھلے بندوں نہ دیں تو ہم گواہی چھپانے کے جرم کے مرتکب ہونگے۔ 

یاد رہے کہ قرآن کوئی بات یک بار کہے یا دس بار، اس کی قوت و افادیت برابر رہتی ہے اور اس کا وجوب کسی طور کم نہیں ہوتا۔ اس لئے سچ کی گواہی ہم پر اسی طرح واجب ہے جیسے نماز، روزہ، حج اور زکات و خمس وغیرہ ہیں۔

گویا کہ اس حوالے سے حسین ابن علی علیھما السلام کی عزاداری نہ صرف ایک جائز عمل ہے، بلکہ عمل واجب ہے اور اس کو نہ بجا لانا جھوٹ اور باطل کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ 

اگر ہم زندگی بھر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتے بھی رہیں، لیکن قرآن کے پیغامات کو نظر انداز کرتے رہیں اور محبت رسول (ص) کا حق ادا نہ کریں حتی ڈر ہے کہ تمام اعمال اکارت ہو جائیں گے۔ 

جیسا کہ قرآن مجید ہی میں ہے کہ یا ایھا الذین آمنو اطیعو اللہ و اطیعو الرسول ولا تبطلوا اعمالکم (سور محمد آیت نمبر 33) کہ اے ایمان لے آنے والو، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور اپنے اعمال باطل مت کرو۔ احترام رسالت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم رسول اللہ (ص) کو اپنی جانوں پر اہمیت دیں، آپ (ص) کے غم کو اپنا غم جانیں، اور آپ (ص) کی عزا میں مشغول ہو جائیں،ورنہ اطاعت، اتباع اور بندگی کے تقاضے نا تمام رہ جاتے ہیں، اور ایسے میں قرآن ہمیں خبر دار کر رہا ہے کہ ہمارے اعمال ضائع ہو جائیں گے۔

 ایسے میں کلمہ فائدہ دے گا اور نہ نماز روزے۔ اب ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ چونکہ باقی اعمال میں ریا کاری ممکن ہے، لیکن چونکہ عزاداری خالصتا ً بے ریا جذبوں کی پیداوار ہے، اس لئے دلوں کے حال جاننے والے خالق و مالک کے نزدیک یہ ہمارے ایمان کی ایک کسوٹی بھی ہے۔ 

عزاداری حق کا ساتھ دینے کا نام ہے، عزاداری بو لہبی سے نفرت کا نام ہے، عزاداری الٰہیت کی تصدیق کا نام ہے اور عزاداری ابلیسیت کے خلاف ڈھال کا نام ہے۔ عزاداری اللہ کے دشمنوں سے بدلہ لینے کی تحریک کا نام ہے اور باطل کے ہاتھ کاٹنے والے انقلاب کا نام ہے۔


source : http://abna.ir/data.asp?lang=6&Id=135485
1
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment

سید محمد مصباح حسین
مجھے تعجب ہے کہ اس مضمون کو کس اخلاقی جراٗت سے مصنف کے نام کے بغیر لکھ چھاپ دیا گیا۔ کی یہ سرقہ نہیں ہے؟
پاسخ
0     0
9 ارديبهشت 1390 ساعت 7:28 بعد از ظهر