اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

کثرتِ ازواج

حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طبیہ میں کثرتِ ازواج کا مسئلہ بہت اھم ھے یھاں تک کہ دشمنان دین اور انگریز رائٹروں نے اس پر بہت سے اعتراضات کئے ھیں اور اپنے گمان کے مطابق اس مسئلہ میں دین اسلام او رپیغمبر اسلام پر لعن وطعن قرار دیا ھے۔

اصل موضوع کو بیان کرنے سے پھلے یہ عرض کردینا ضروری سمجھتے ھیں کہ اگر کوئی عظیم ہستی اپنی بیوی سے محبت کرے یا وہ اس کے ساتھ اپنی مشترکہ زندگی گذارے تو یہ کوئی عیب نھیں ھے بلکہ یہ تو فطری تقاضا ھے اور بقاء انسانیت کا وسیلہ ھے، اور چونکہ نبی بھی بشروانسان ھیں لہٰذا ان میں ایک انسان کے تمام صفات کا پایا جانا ضروری ھے، ارشاد قدرت هوتا ھے :<وَقَالُوْا مَالِ ہَذَا الرَّسُوْلِ یَاکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ>

”اور ان لوگوں نے (یہ بھی)کھا کہ یہ کیسا رسول ھے جو کھانا کھاتا ھے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ھے“

<قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ہَلْ کُنْتُ اِلاّٰ بَشَراً رَسُوْلاً>

”اے رسول تم کہہ دو کہ سبحان اللہ میں ایک آدمی هوں خدا کے رسول کے سوا آخر اور کیا هوں“

چنانچہ یہ عیب نھیں ھے بلکہ عیب یہ ھے کہ انسان اس محبت میں اس قدر آگے بڑھ جائے کہ اپنے واجبات کو ترک کرنے پر مجبور هوجائے اور اپنے حدود سے باھر نکل جائے اور اس کی تمام طاقت وتوانائی اسی میں صرف هوجائے۔

حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طبیہ میں کثرتِ ازواج کا مسئلہ بہت اھم ھے یھاں تک کہ دشمنان دین اور انگریز رائٹروں نے اس پر بہت سے اعتراضات کئے ھیں اور اپنے گمان کے مطابق اس مسئلہ میں دین اسلام او رپیغمبر اسلام پر لعن وطعن قرار دیا ھے۔

اصل موضوع کو بیان کرنے سے پھلے یہ عرض کردینا ضروری سمجھتے ھیں کہ اگر کوئی عظیم ہستی اپنی بیوی سے محبت کرے یا وہ اس کے ساتھ اپنی مشترکہ زندگی گذارے تو یہ کوئی عیب نھیں ھے بلکہ یہ تو فطری تقاضا ھے اور بقاء انسانیت کا وسیلہ ھے، اور چونکہ نبی بھی بشروانسان ھیں لہٰذا ان میں ایک انسان کے تمام صفات کا پایا جانا ضروری ھے، ارشاد قدرت هوتا ھے :

<وَقَالُوْا مَالِ ہَذَا الرَّسُوْلِ یَاکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ>[۱]

”اور ان لوگوں نے (یہ بھی)کھا کہ یہ کیسا رسول ھے جو کھانا کھاتا ھے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ھے“

<قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ہَلْ کُنْتُ اِلاّٰ بَشَراً رَسُوْلاً>[۲]

”اے رسول تم کہہ دو کہ سبحان اللہ میں ایک آدمی هوں خدا کے رسول کے سوا آخر اور کیا هوں“

چنانچہ یہ عیب نھیں ھے بلکہ عیب یہ ھے کہ انسان اس محبت میں اس قدر آگے بڑھ جائے کہ اپنے واجبات کو ترک کرنے پر مجبور هوجائے اور اپنے حدود سے باھر نکل جائے اور اس کی تمام طاقت وتوانائی اسی میں صرف هوجائے۔

تو کیا کوئی دشمن حضرت محمد (انگریز هو یا غیر انگریز) یہ بات کہہ سکتا ھے کہ آپ نے کسی زوجہ کی وجہ سے کسی بھی واجب کو ترک کیا ھے، بلکہ اس سلسلہ میں تحقیق کرنے والوں کا نظریہ یہ ھے کہ حضرت محمد کی ذات گرامی ایسی ذات تھی جس نے نبوت کا بھی مکمل حق ادا کیا اور ازواج کو بھی ان کا کامل حق دیا، اور یہ چیز ھمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی عظمت پر بہترین دلیل ھے۔

اگر قلب نبی میں ذرہ برابر بھی شهوت پرستی اور هواپرستی پائی جاتی تو پھر آپ کی ذات سر زمین مکہ پر عفت وحیا سے مشهور نہ هوتی ، اور اگر شهوت پرستی کا ذرا بھی وجود پایا جاتا تو آپ اپنے شباب کے عالم میں اپنی قوم وقبیلہ کی باکرہ اور خوبصورت لڑکیوں سے شادی کرتے، اوران بیوہ اور طلاق شدہ عورتوں سے شادی نہ کرتے، جن میں اکثر بوڑھی یا سن رسیدہ تھیں۔

بلکہ آنخضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی شادیوں کا مقصد بعض حالات میں یہ هوتا تھا کہ سسرالی رشتہ کی تعداد زیادہ هو، تاکہ اسلام کی شان وشوکت میں اضافہ هو جبکہ بعض حالات میں آپ کامقصد یہ هوتا تھا کہ جو عورتیں اسلامی جنگوں میں یا اسلام کی خاطر مصیبت زدہ هوتی تھیں یا ان کے شوھر شھید هوجاتے تھے ان پر لطف ومھربانی کریں، چنانچہ یھی وجہ تھی کہ آپ کی بیویوں کی تعداد میں اضافہ هوتا رھا لیکن اس کو اسلام دشمن عناصر نے دلیل کے طور پر پیش کیا کہ (حضرت) محمد (ص) نے شهوت پرستی کی خاطر اتنی شادیاں کی ھیں۔!

لہٰذا ھم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی بیویوں کے اسماء گرامی او رمختصر حالات بیان کرتے ھیں تاکہ اس سلسلہ میں هوئے اعتراضات کا خاتمہ هوجائے۔

۱۔ خدیجہ بنت خویلد:

چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمان کے ساتھ مل کر تجارت کاکام کیا کرتے تھے اسی اثنا میں آپ سے آشنائی اور واقفیت هوگئی، جناب خدیجہ (ع) کی اس سے پھلے دو مرتبہ شادی هوچکی تھی اور اس وقت ان کی عمر چالیس سال تھی او ر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی عمر ۲۵/ سال تھی، اس وقت آپ نے جناب خدیجہ سے شادی کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس زوجہ کا امتیاز یہ ھے کہ انھوں نے آنحضرت کے ساتھ اس وقت زندگی گذاری جب آپ نے ظاھری طور پر اعلان رسالت نھیں کیا تھا اور آپ ھی کو یہ فخر حاصل ھے کہ آپ سب سے پھلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی رسالت پر ایمان لائیں، اور راہِ اسلام میں اپنا سارا مال ودولت خرچ کردیا۔

اسی طرح دشمنان اسلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکویہ بھی طعنہ دیا کہ جناب خدیجہ کی عمر چونکہ حضرت محمد (ص) سے ۱۵/ سال زیادہ تھی لیکن ان کے پاس چونکہ بہت زیادہ مال ودولت تھی اورآنحضرت کے پاس کچھ نھیں تھا لہٰذا آپ نے مال کے لالچ میں جناب خدیجہ سے شادی کی ۔

لیکن یہ اعتراض خود بخود ختم هوجاتا ھے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمخود جناب خدیجہ کی ذات کو اس قدر چاہتے تھے کہ آپ ان کی زندگی میں بھی ان کو بہت زیادہ اھمیت دیتے تھے او ران کی وفات کے بعد بھی ان کا بہت زیادہ احترام اور محبت کا اظھار کیا کرتے تھے اور اس بات کا مشاہدہ دوسری ازواج نے بھی کیا ھے۔ [۳]

کیا کسی انسان کو اتنی محبت واحترام بیوی کے مال کی وجہ سے هوسکتا ھے۔!

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی ازواج میں صرف یھی پھلی مومنہ کا امتیاز ھے کہ خداوندعالم نے اسی بیوی کے ذریعہ نسلِ نبوت کوباقی رکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی اکلوتی بیٹی [۴] جناب فاطمہ زھرا = کے ذریعہ آپ کی نسل کو بڑھایا۔

۲۔ سودة بنت زمعة:

یہ بی بی جوانی کے آخری حصے میں بیوہ هوگئیںتھیں کیونکہ ان کا مسلمان شوھر ہجرت سے قبل مکہ میں ھی وفات پاگیاتھا اور جب ان کی زندگی بیوہ هونے کی وجہ سے تنھائی میں بسر هونے لگی تو اس وقت رسول اسلام نے ان پر لطف وکرم کرتے هوئے اور ان کی مشکلات کو دیکھتے هوئے ان سے نکاح کیا تاکہ ان کی مشکلات دور هوجائیں، اور ان کے پڑھاپہ کا سھارا بن جائیں، لہٰذا ان کے شوھر محمد رسول اللہ ھیں نہ صرف ”محمد“ (ص)جن کے بارے میں شهوت پرستی کا ڈھول بجایا جار ھا ھے۔

۳۔عائشہ بنت ابی بکر:

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی یہ بیوی سب سے کم عمر تھی اور ازواج نبی میں صرف یھی باکرہ تھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ہجرت کے بعد ان سے شادی کی ھے۔

۴۔ حفصہ بنت عمر بن الخطاب:

ان کے پھلے شوھر جنگ بدر میں زخمی هوئے او رانتقال کرگئے، جس وقت حفصہ بیوہ هوئیں تو حضرت عمر نے جناب عثمان سے ملاقات کی اور رودادِ غم سنائی تب جناب عثمان نے کھا: مجھے عورتوں کے مسئلہ میں کوئی دلچسپی نھیں ھے، اس کے بعد ابوبکر سے ملاقات هوئی اور ان سے بھی کچھ کھا تو وہ بھی چُپ رھے تو یہ دیکھ کر حضرت عمر جناب ابوبکر پر غصہ هوئے (لیکن جب کسی سے کوئی بات نہ بنی تو) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان سے نکاح کرلیا۔ [54] گویا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماسلامی جنگ میں شھیدهونے والے اُن کے شوھر کی جگہ لے لینا چاہتے تھے اور ان کی مشکلات کو دور کرنا چاہتے تھے، جیسا کہ ان کے پدر بزرگوار (جناب عمر) بھی یھی چاہتے تھے۔

۵۔زینب بنت خزیمہ:

انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے قبل دو دفعہ شادی کی تھی ان کا دوسرا شوھر جنگ بدر میں شھید هوگیا تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان کے اور ان کے شوھر کے اکرام میں ان سے نکاح کیا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی یہ بیوی صرف آٹھ ماہ زندہ رھیں اور اس کے بعد اس دنیا سے چل بسیں۔

۶۔ ام سلمہ:

آپ کے پھلے شوھر جنگ احد میں زخمی هوئے اور جب زخم کچھ مندمل هوگئے تو آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے سرائے (مھمان خانہ) میں رکھا گیا لیکن وھاں بھی ان کے زخم ٹھیک نہ هوئے اور جب زخم بڑھتے گئے تو ان کی حالت خراب هوگئی اور اسی عالم میں دار فانی سے رخصت هوگئے، چنانچہ انھوں نے ام سلمہ اور چند اولاد چھوڑیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان کی اور ان کے بچوں کی حالت پر رحم کرتے هوئے ان سے نکاح کرلیا، اور ،چونکہ جناب ام سلمہ کے شوھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے چچا زاد بھائی بھی تھے، چنانچہ جب رسول اللہ نے جناب ام سلمہ سے اپنا پیغام بھجوایا تو انھوں نے اپنے بڑھاپے اور بچوں کی وجہ سے معذرت چاھی لیکن حضرت رسول خدا نے ان کے عذر پر توجہ نہ دی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا مقصد ان پراور ان کی اولاد کی حالت پر رحم کرنا مقصودتھا۔

۷۔ زینب بنت جحش:

یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے چچا کی لڑکی تھی چنانچہ انھوں نے پھلی مرتبہ زید بن حارثہ سے شادی کی اور یہ زید جناب خدیجہ بنت خویلد کے غلام تھے لیکن جناب خدیجہ نے ان کو رسول اللہ کو ھبہ کردیا تھا، رسول اللہ نے ان کو آزاد کردیا او راپنا بیٹا بنالیا او ران کو ”زید بن محمد “ کے نام سے مشهور کردیا گیا، اور یہ اس شھرت پر باقی رھے یھاں تک کہ خداوندعالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

<اُدْعُوْہُمْ لِآبَائِہِمْ >[۵]

”گود لئے بچوں کو ان کے (اصلی) باپوں کے نام سے پکارا کرو“

چنانچہ اس کے بعد ان کو اپنے حقیقی باپ حارثہ کی طرف نسبت دینے لگے اور ان کو زید بن حارثہ کھا جانے لگا۔

جناب زید نے رسول اللہ کی محبت اور رغبت میں زینب سے شادی کی تھی، اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اس شادی میں حصہ لیا ، گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمعملی طور پر ذات پات اور آقا وغلام کے فرق کو ختم کرنا چاہتے تھے تاکہ اسلام میں مساوات کو فروغ ملے، آپ نے زینب کو اس شادی کے لئے راضی کیا اور وہ راضی بھی هوگئیں ، اس وقت قرآن مجید کی یہ آیت نازل هوئی:

<وَمَاکَانَ لِمُوٴْمِنٍ وَلاٰ مُوْمِنَةٍ اَذَا قُضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اٴَمْراً اٴَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اٴَمْرِہِمْ>[۶]

”اور نہ کسی ایماندار مرد کو یہ مناسب ھے اور نہ کسی ایماندار عورت کو کہ جب خدا اور اس کے رسول کسی کام کا حکم دیں تو ان کو اپنے اس کام (کے کرنے یا نہ کرنے) کا اختیار هو۔)

چنانچہ جناب زینب نے اس شادی کو قبول تو کرلیا لیکن مکمل طورپر دل سے راضی نہ تھیں، اور یہ شادی هوگئی لیکن چونکہ جناب زینب مکمل طریقہ سے راضی نہ تھیںلہٰذا یہ شادی زیادہ دن پابرجا نہ رہ سکی، کیونکہ جناب زینب اس شادی سے خوش نہ تھی اور زید بھی جناب زینب کی عظمت اور بزرگی کی گفتگو کیا کرتے تھے، چنانچہ ان تمام باتوں کے پیش نظر جناب زید اس مشترکہ زندگی کو چلانہ سکے اور طلاق کا ارادہ کرلیا تاکہ ان مشکلات سے نجات مل جائے لیکن جناب زید آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے مشورے کے بغیر طلاق بھی نھیں دے سکتے تھے، چنانچہ انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے مشورہ کیا تو رسول اسلام نے ان کو اس کام سے منع کیا اور فرمایا جیسا کہ قرآن مجید بھی اس چیز کی حکایت کررھا ھے:

<اٴَمْسِکْ عَلَیْکَ زُوْجَکَ وَاتَّقِ اللّٰہَ> [۷]

”(جناب زید کو حکم هوتا ھے کہ)تم اپنی زوجہ (زینب) کو اپنی زوجیت میں رہنے دو اور خدا سے ڈرو“

لیکن رسول اسلام جانتے تھے کہ یہ شادی آخر تک قائم نھیں رہ پائے گی اگرچہ آپ نے طلاق کو وقتی طور پر رکوادیا ،اس کے بعد آپ نے ارادہ کرلیا کہ اگر زید ان کو طلاق دے بھی دیں تو میں ان سے نکاح کرلوں گا، کیونکہ زید اس شادی کو اچھا نھیں سمجھتے تھے ادھر رسول اسلام بھی لوگوں کی قیل وقال سے خائف تھے کیونکہ عرب کے دستور کے مطابق اگر کسی شخص نے کسی کو اپنا لڑکا بنا رکھا هو تو اس کی بیوی سے(طلاق کی صورت میں) نکاح کرنا بُرا سمجھا جاتا ھے۔

ادھر ایک مدت کے بعد جناب زید نے جناب زینب کو طلاق دیدی، اور جب طلاق هوگئی تو خداوندعالم نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ جناب زینب سے نکاح کرلیں، تاکہ عرب میں مشهور غلط رواج کو ختم کردیا جائے کہ منھ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کرنا حرام یا بُرا ھے۔

چنانچہ خداوندعالم نے اس بات کی حکایت کی ھے:

<فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِنْہَا وَطْراً زَوَّجْنَاکَہٰا لِکَیْ لٰایَکُوْنَ عَلَی الْمُوٴْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ اَزْوَاجِ اَدْعِیَائِہِمْ>[۸]

”غرض جب زید اپنی حاجت پوری کرچکا (اورزینب کوطلاق دیدی) تو ھم نے (حکم دے کر) اس عورت (زینب) کا نکاح تم سے کردیا تاکہ عام مومنین کو اپنے منھ بولے لڑکوں کی بیویوں (سے نکاح کرنے) میں کسی طرح کی تنگی نہ رھے“

اس آیت مبارکہ سے یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ یہ نکاح خداوندعالم کے حکم سے تھا تاکہ حکمِ شریعت واضح هوجائے اور عملی طور پر مساوات کا بہترین ثبوت پیش کیا جاسکے۔

بعض دشمنان دین (خصوصا انگریزوں) نے اس سلسلہ میں بہت سے قصے اور افسانہ گڑھ ڈالے او ریہ کھا کہ جب حضرت محمد زید کے گھر جاتے تھے تو ان کی بیوی کو تعجب سے دیکھتے تھے چنانچہ انھوں نے زید کو طلاق کے لئے ابھارا تاکہ خود زینب سے شادی کرلیں۔

لیکن ان کا یہ گمانِ ناقص، صاحبان غور وفکر کے نزدیک بالکل باطل ومردود ھے کیونکہ جناب زینب آپ کے چچا کی لڑکی تھیں اور آپ نے شادی سے پھلے بھی ان کو دیکھا تھا او ران کوپہچانتے تھے او راگر آپ کے دل میں ان سے شادی کرنے کی ذرا بھی رغبت هوتی تو پھلے ھی ان سے شادی کرسکتے تھے اور زید کو ان سے شادی کرنے کے لئے نہ کہتے۔

۸۔ جویریة بنت الحارث:

یہ قبیلہ بنی مصطلق سے تعلق رکھتیں تھیں اور اپنے قبیلہ والے سے ھی شادی کی، لیکن جب وہ اسیر کرکے مدینہ لائی گئیں اور وہ مسلمانوں کے حصے میںآ گئیں ، چنانچہ انھوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اپنے کو ایک مبلغ معین میں خرید لیں اور نبی اکرم کے پاس آئیں او راپنا حسب ونسب اور حالِ حاضر کی حالت بتائی اور درخواست کی کہ آپ اس مبلغ کی ادائیگی میں مدد کریں، چنانچہ رسول اسلام نے ان پر لطف وکرم اور مھربانی واکرام کرنے کا ارادہ کیا گویا ان کی قوم والوں کو اس کام سے اسلام کی طرف رغبت دلائی اور آپ نے ان کو وہ مبلغ دیدیا تاکہ وہ مبلغ دیدیں او رآنحضرت سے نکاح کرلیں، چنانچہ اس واقعہ سے سب لوگوں کو خوشی هوئی۔

چنانچہ اس شادی کا سب سے پھلا اثر یہ هوا کہ اس قبیلہ کے جو اسیر مسلمانوں کے پاس تھے وہ سب نے آزاد کردئے کیونکہ یہ سب رسول اسلام کے سسرالی رشتہ دار هوگئے تھے۔

۹۔ صفیہ بنت حي:

یہ قوم یهود سے تعلق رکھتی تھیں اور انھوں نے اپنے ھی قبیلہ والوں سے دو مرتبہ شادی کی تھی، لیکن جب جنگ خیبر هوئی تو ان کو اسیر کرلیا گیا تب رسول اسلام نے ان سے نکاح کرلیا تاکہ اسیروں کے حال پر رحم وکرم کامکمل ثبوت دیا جاسکے۔

۱۰۔ ام حبیبة بنت ابی سفیان:

ان کی بھی پھلے شادی هوچکی تھی اور انھوں نے اپنے شوھر اور مسلمان مھاجرین کے ساتھ حبشہ ہجرت کی، لیکن وھاں جاکر ان کا شوھر مرتد هوگیا لیکن یہ اپنے اسلام پر باقی رھیں،عالمِ غربت میں اپنے دین وایمان کی حفاظت کرتی رھیںاور ایک مدت تک حبشہ میں مشکلات کی زندگی گذارتی رھیں کیونکہ ان کی دیکھ بھال کرنے والا شوھر بھی نھیں تھا او رنہ ھی مکہ واپس پلٹ سکتی تھیں چونکہ ان کے باپ اور ان کے بھائی او ردیگر قبیلہ والے دشمنان اسلام کی اسیری میں تھے۔

چنانچہ جب رسول اسلام نے اس واقعہ کی تفصیل سنی تو ایک شخص کو حبشہ بھیجا تاکہ ان سے جاکر نکاح کی بات کرے، چنانچہ انھوں نے بھی موافقت کی، اور جعفر بن ابی طالب کے ساتھ مدینہ واپس آگئیں اور رسول اسلام نے ان سے نکاح کرلیا اور یہ ام المومنین کے دائرے میں شامل هوگئیں، گویا رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان کی حبشہ کی مشکلوں پر صبر وتحمل کرنے اور راہ اسلام میں استقامت کرنے کی وجہ سے ان سے نکاح کیا۔

۱۱۔ میمونہ بنت الحارث:

یہ بھی بیوہ تھیں اور ان کی عمر ۴۹ سال تھی انھوں نے اپنے نفس کو رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو ھبہ کردیا تاکہ آپ بھی ازواج نبی میں شامل هوجائیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد هوتا ھے:

<وَاْمْرَاٴةً مَوْمِنَةً اِنْ وَّہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِيْ>[۹]

” ایماندار عورت اگر وہ اپنے کو (پیغمبر )بنی کو دیدے اور نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہتے هوں۔“

چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان پر لطف وکرم کیا او ران کو بھی امھات المومنین میں شامل کرلیا۔

قارئین کرام ! کیا کوئی شخص ازواج نبی کی مذکورہ تفصیل پڑھنے کے بعد بھی یہ کہہ سکتا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمایک شهوت پرست تھے؟! کیا ایسے شخص کو جس نے بیواوٴں اور بوڑھی عورتوں سے نکاح کیا هو اس کے بارے میں یہ کھا جاسکتا ھے کہ غرائز جنسی اور شهوت پرستی کے جال میں پھنسے هوئے تھے، نھیں ھرگز نھیں۔

بلکہ حقیقت تو یہ ھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمایک معمولی انسان نہ تھے بلکہ خدا کی طرف سے بھیجے هوئے رسول تھے او رایسے انسان تھے جو ھر قسم کی شهوت پرستی سے پاک وپاکیزہ تھے اور شعور کے اس بلند درجہ پر فائز تھے کہ جھاں پر انسانیت سے بے پناہ محبت والفت اور ذمہ داری کا احساس پایا جاتا ھے۔

(منتخب از اصول دین تالیف شیخ آل یاسین)

حوالہ جات

[۱] سورہ فرقان آیت ۷۔

[۲] سورہ اسراء آیت ۹۳۔

[۳] ام المومنین جناب عائشہ راوی ھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب خدیجہ سے جس قدر محبت کیا کرتے تھے کسی بھی بیوی سے اس قدر محبت نھیں کرتے تھے اگرچہ میں نے ان کو نھیں دیکھا، لیکن اس بات کا اندازہ میں نے اس بات سے کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمجناب خدیجہ کا کثرت سے ذکرکیا کرتے تھے، اور جب کبھی آپ گوسفند ذبح کرتے تھے توجناب خدیجہ کی چاہنے والیوں کو بھیج دیتے تھے۔

اسی طرح جناب عائشہ کا بیان ھے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمگھر سے باھر نکلتے تھے تو جناب خدیجہ کا تذکرہ اور ان کی مدح وثنا کیا کرتے تھے ، جب ایک روز آپ نے اسی طرح جناب خدیجہ کا ذکر کیا تو میں نے آنحضرت سے عرض کیا:

”آپ کیوں اس قدر خدیجہ کا ذکر کرتے ھیں درحالیکہ وہ تو ایک بوڑھی عورت تھی، جبکہ خداوندعالم نے آپ کو ان سے اچھی بیوی عطا کردی ھے“ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمبہت غضبناک هوئے، غضب کی وجہ سے آپ کے رونگٹے کھڑے هوگئے ،اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا: ”خدا کی قسم اللہ نے مجھے ان سے اچھی زوجہ نھیں دی !!کیونکہ وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیںجب لوگوں نے میرا انکار کیا اور انھوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا، انھوں نے اپنے مال میں مجھ سے اس وقت مساوات کی جب لوگوں نے میری ناکہ بندی کررکھی تھی، خداوندعالم نے ان سے مجھے اولاد عطا کی جب مجھے ”لاولد“کہہ کر طعنہ دیا جاتا تھا“

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ باتیں سن کر میں نے اپنے دل میں یہ فیصلہ کرلیا کہ اب کبھی جناب خدیجہ کو اس طرح برا نہ کهوں گی۔ (مزید تفصیلات کے لئے رجوع فرمائیں: نھایة الارب ج۱۸ ص۱۷۲)

[۴] مورخین کے درمیان مشهور یہ ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی چار بیٹی تھیں: ۱۔زینب۔ ۲۔ رقیہ۔ ۳۔ام کلثوم۔ ۴۔ فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا)

لیکن اگر کوئی تاریخ کے اوراق کو الٹ کر دیکھے تو اپنے کو اس شھر ت کا مخالف پائے گا، اور اس بات کا یقین کرے گا کہ جناب فاطمہ زھرا = کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی کوئی بیٹی نہ تھی، چنانچہ ھم یھاں پر مختصر طور پر ایک اشارہ کرتے ھیں:

الف: جناب زینب:

بعض مورخین کا بیان ھے کہ جب جناب زینب کی ولادت هوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی عمر ۳۰/ سال تھی (استیعاب ج۴ص ۲۹۲، اسد الغابہ ج۵ص۴۶۷، نھایة الارب ج۸ص ۲۱۱)

زینب کی شادی ابو العاص بن ربیع بن عبد العزی بن عبد شمس سے هوئی، اور یہ اس کی خالہ کا لڑکا تھا چنانچہ زینب کے دو بچے تھے ایک علی جو بچپن میں مرگیا دوسرے امامة۔

زینب نے اپنی ماں کے ساتھ اسلام قبول کیا لیکن چونکہ ان کے شوھر نے اسلام قبول نہ کیا لہٰذا ان دونوں میں جدائی هوگئی، (کیونکہ میاں بیوی میں سے اگر کوئی ایک کافر هو تو اسلام ان دونوں میں جدائی کا حکم صادر کردیتا ھے) لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمدونوں کی جدائی کو عملی نھیں بناسکے، لہٰذا وہ رسول اسلام کے گھر میں اسلام پر باقی رھی اور ان کا شوھر اپنے شرک پر باقی رھا (ملاحظہ فرمائیں گذشتہ حوالے نیز تاریخ طبری ج ۲ ص۶۶۷، طبقات ابن سعد ج۸ص ۲۴، اسد الغابہ ج ۵ ص ۴۶۷، نھایة الارب ج۱۸ص ۲۱۱)

ھمارا نظریہ یہ ھے جیسا کہ روایات بھی اس بات کی طرف اشارہ کررھی ھے کہ جناب زینب کی عمر بعثت پیغمبر کے وقت دس سال تھی تو کیا یہ ممکن ھے کہ دس سال کی عمر میں شادی بھی هوجائے اور دوبچوں کی ولادت بھی؟! اور اگر یہ مان لیں کہ شادی سات یا آٹھ سال کی عمر میں هوئی تو پھر زینب جناب خدیجہ کے پھلے شوھر ابوھالہ کی لڑکی تھی (نہ کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی) (رجوع کریں نھایة الارب ج۱۸ ص۱۷۱)

ب: رقیہ: ج: ام کلثوم:

جیسا کہ بعض مورخین نے نقل کیا ھے کہ رقیہ کی جب ولادت هوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی عمر شریف ۳۳سال تھی اور ام کلثوم اس سے چھوٹی تھی۔ (الاستیعاب ج۴ ص ۲۹۲، نھایة الارب ج۱۸ص ۲۱۲) اور اس بات پر مورخین کا اتفاق ھے کہ ان دونوں کی شادی بعثت سے قبل عتبہ اور عتیبہ (فرزندان ابی لھب بن عبد المطلب) سے هوئی، اور یہ دونوں اپنے ماں کے ساتھ اول بعثت میں اسلام لائیں(طبقات ابن سعد ج۸ ص ۲۴،۲۵)

اور جب رسول اسلام نے اعلان رسالت کیا تو ابولھب نے اپنے دونوں لڑکوں کو طلاق کا حکم دیدیا، چنانچہ انھوں نے دونوں کو طلاق دیدی، اس کے بعد جناب رقیہ سے جناب عثمان نے شادی کی اور جب کفار ومشرکین نے مسلمانو ںکو پریشان کرنا شروع کیا تو جناب رقیہ نے دیگر مھاجرین کے ساتھ ہجرت کی۔

(تاریخ طبری ج۲ ص ۳۳۰، ۳۳۱، وص ۳۴۰، نھایة الارب ج۱۸ ص ۲۱۲، الاصابہ ج۴ص۲۹۷)

ھم کہتے ھیں کہ جناب رقیہ کے لئے کیسے ممکن ھے کہ سات سال هونے سے پھلے ھی شادی کرلیں اور طلاق بھی هوجائے اور ان کی بہن ام کلثوم بھی جو اُن سے ایک سال چھوٹی تھی شادی بھی کرلیں اور طلاق بھی هوجائے۔

[۵] طبقات ابن سعد ج۸ ص ۵۶تا ۵۷۔ 

[۶] سورہ احزاب آیت ۵۶۔

[۷] سورہ احزاب آیت ۳۶۔

[۸] سورہ احزاب آیت ۳۷۔

[۹] سورہ احزاب آیت۳۷۔ 

[۱۰] سورہ احزاب آیت ۵۰۔


source : http://www.shiastudies.com/urdu/modules.php?name=News&file=article&sid=951
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اعتدال اور میانہ روی
حدیث ثقلین پر ایک نظر
امام کي شخصيت اور جذبہ
25 شوال المکرم؛ رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ ...
حضرت علی علیہ السلام کا جمع کردہ قرآن
مسئلہ تحریف قرآن
اسلام نے زمانے کو عزت بخشي
علم آیات و احادیث کی روشنی میں
ماں باپ کے حقوق
ثوبان کی شخصیت کیسی تھی؟ ان کی شخصیت اور روایتوں ...

 
user comment