اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

اہلبیت (ع) اور مفہوم لفظ اہلبیت (ع)

 موسیٰ بن عبدر بہ کا بیان ہے کہ میں نے امیر المومنین (ع) کی زندگی میں امام حسین (ع) کو مسجد پیغمبر میں یہ کہتے سنا ہے کہ میں نے رسول اکرم سے سنا ہے کہ میرے اہلبیت (ع) تم لوگوں کے لئے باعث امان ہیں لہذا ان سے میری وجہ سے محبت کرو او ران سے متمسک ہوجاؤ تا کہ گمرا ہ نہ ہوسکو۔

پوچھا گیا یا رسول اللہ آپ کے اہلبیت (ع) کون ہیں ؟ فرمایا کہ علی (ع) اور میرے دونوں نواسے اور نو اولاد حسین (ع) جو ائمہ معصوم اور امانتدار مذہب ہوں گے ، آگاہ ہوجاؤ کہ یہی میرے اہلبیت (ع) اور میری عترت ہیں جن کا گوشت اور خون میرا گوشت اور خون ہے ۔ (کفایہ الاثر ص 171)۔

  امام صادق (ع) نے اپنے آباء کرام کے واسطہ سے رسول اکرم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ ے جاتاہوں ایک کتاب خدا اور ایک میری عترت جو میرے اہلبیت (ع) ہیں، یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہوجائیں اور اس حقیقت کو دو انگلیوں کو آپس میں جوڑ کر واضح کیا ، جس کے بعد جابر بن عبداللہ انصاری نے اٹھ کر دریافت کیا کہ حضور آپ کی عترت کو ن ہے ؟ فرمایا علی (ع) ، حسین (ع) ، حسین (ع) اور قیامت تک اولاد حسین (ع) کے امام ( کمال الدین ص 244 معانی الاخبار 5 / 91)۔

54 ۔ امام صادق (ع) سے ان کے آباء کرام کے واسطہ سے نقل کیا گیاہے کہ امیر المؤمنین (ع) سے رسول اکرم کے اس ارشاد گرامی کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتاہوں ایک کتاب خدا اور ایک عتر ت… تو عترت سے مراد کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں ، حسن (ع) ، حسین (ع) ، نو اولاد حسین (ع) کے امام جن کا نواں مہدی اور قائم ہوگا، یہ سب کتاب خدا سے جدا نہ ہوں گے اور نہ کتاب خدا ان سے جدا ہوگی یہاں تک کہ رسول اکرم کے پاس حوض کوثر پر وارد ہوجائیں۔( کمال الدین 240 / 64 ، معانی الاخبار 90 /4 ، عیون اخبار الرضا 1 ص 57 / 25 ۔

55 ۔ امیر المؤمنین (ع) فرماتے ہیں کہ رسول اکرم آرام فرمارہے تھے اور آپ نے اپنے پہلو میں مجھے اور میری زوجہ فاطمہ (ع) اور میرے فرزند حسن (ع) و حسین (ع) کو بھی جگہ دیدی اور سب پر ایک عبا اوڑھادی تو پروردگار نے آیت تطہیر نازل فرمادی اور جبریل نے گذارش کی کہ میں بھی آپ ہی حضرات سے ہوں جس کے بعد وہ چھٹے ہوگئے۔( خصال صدوق (ر) بروایت مکحول)۔

56 ۔ امیر المؤمنین (ع) کا ارشاد ہے کہ رسول اکرم نے مجھے اور فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) کو ام سلمہ کے گھر میں جمع کیا اور سب کو ایک چادر میں داخل کرلیا اس کے بعد دعا کی کہ خدایا یہ سب میرے اہلبیت (ع) ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں حق طہارت کی منزل پر رکھنا ، جس کے بعد ام سلمہ نے گذارش کی کہ میں بھی شامل ہوجاؤں؟ تو فرمایا کہ تم اپنے گھر والوں سے ہو اور خیر پر ہو اور اس بات کی تین مرتبہ تکرار فرمائی ( شواہد التنزیل 2 / 52 )۔

57 ۔ امیر المؤمنین (ع) ہی کا ارشاد ہے کہ میں رسول اکرم کے پاسس ام سلمہ کے گھر میں وارد ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے فرمایا کہ یا علی (ع) یہ آیت تمھارے، میرے دونوں فرزند اور تمھاری اولاد کے ائمہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(کفایة الاثر ص 156 از عیسی بن موسیٰ الہاشمی …)۔

58۔ امام حسن (ع) کا بیان ہے کہ آیت تطہیر کے نزول کے وقت رسول اکرم نے ہم سب کو جناب ام سلمہ کی خیبری چادر کے نیچے جمع فرمایا اور دعا کی کہ خدایا یہ سب میری عترت اور میری اہلبیت (ع) ہیں لہذا ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ۔( مناقب ابن مغازلی ص 372 ، امالی طوسی (ر) 559 / 1173 ، مجمع البیان 8/ 560 بروایت زاذان)۔

59 ۔ امام صادق (ع) نے اپنے پدر بزرگوار اور جد امجد کے واسطہ سے امام حسن (ع) سے آیت تطہیر کی شان نزول اس طرح نقل کی ہے کہ رسول اکرم نے مجھے، میرے بھائی ، والدہ اور والد کو جمع کیا اور جناب ام سلمہ کی خیبری چادر کے اندر لے لیا اور یہ دعا کی کہ خدایا یہ سب میرے اہلبیت (ع) ہیں، یہ میری عترت اور میرے اہل ہیں، ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں حق طہارت کی منزل پر رکھنا ، جس کے بعد جناب ام سلمہ نے گزارش کی کہ کیا میں بھی داخل ہوسکتی ہوں تو آپ نے فرمایا خدا تم پر رحمت نازل کرے، تم خیر پر ہو اور تمہارا انجام بخیر ہے لیکن یہ شرف صرف میرے ا ور ان افراد کے لئے ہے۔

یہ واقعہ ام سلمہ کے گھرمیں پیش آیا جس دن حضور ان کے گھر میں تھے۔ ( امالی طوسی (ر) 564 / 2274 بروایت عبدالرحمان بن کثیر ، ینابیع المودہ 3 / 368)۔

60 ۔ امام حسن (ع) نے اپنے اکی خطبہ میں ارشاد فرمایا ، عراق و الو ! ہمارے بارے میں خدا سے ڈرو۔ ہم تمھارے اسیر اور مہمان ہیں ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جن کے بارے میں آیہٴ تطہیر نازل ہوئی ہے… اور اس کے بعد اسقدر تفصیل سے خطبہ ارشاد فرمایا کہ ساری مسجد میں ہر شخص گریہ و زاری میں مشغول ہوگیا ۔ معجم کبیر 3 ص 96 / 2761 ، مناقب ابن مغازلی 382 / 431 ، تاریخ دمشق حالات اما م حسن (ع) 180 / 304 بروایت ابی جمیلہ)۔

61 ۔ امام حسین (ع) نے مروان بن الحکم سے گفتگو کے دوران فرمایا کہ دو ر ہوجا۔ تو رجس ہے اور ہم اہلبیت (ع) مرکز طہارت ہیں، اللہ نے ہمارے بارے میں آیت تطہیر نازل کی ہے ۔( مقتل الحسین (ع) خوارزمی 1 ص 185 ، الفتوح 5 ص 17)۔

62 ۔ ابوالدیلم کا بیان ہے کہ اما م زین العابدین (ع)نے ایک مرد شامی سے گفتگو کے دوران فرمایا کہ کیا تو نے سورہٴ احزاب میں آیہٴ تطہیر نہیں پڑھی ہے تو اس نے کہا کہ کیا آپ وہی ہیں ؟ فرمایا بیشک ( تفسیر طبری 22 / 8)۔

63 ۔ ابونعیم نے ایک جماعت کے حوالہ سے نقل کیا ہے جو کربلا کے اسیروں کے ساتھ تھی کہ جب ہم دمشق پہنچے اور عورتوں اور قیدیوں کو بے نقاب داخل کیا گیا تو اہل شام نے کہنا شروع کیا کہ ہم نے اتنے حسین قیدی نہیں دیکھے ہیں، تم لوگ کہاں کے رہنے والے ہو تو سکینہ (ع) بنت الحسین (ع) نے فرمایا ہم آل محمد کے قیدی ہیں، جس کے بعد سب کو مسجد کے زینہ پر کھڑا کردیا گیا اور انھیں کے درمیان حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) بھی تھے، آپ کے پاس ایک بوڑھا آدمی آیا اور کہنے لگا ، خدا کا شکر ہے کہ اس نے تمھیں اور تمھارے گھر والوں کو قتل کردیا اور فتنہ کی سینگ کاٹ دی ، اور پھر یونہی بُرا بھلا کہتا رہا ، یہاں تک کہ جب خاموش ہوا تو آپ نے فرمایا تو نے کتاب خدا پڑھی ہے؟ اس نے کہا بے شک پڑھی ہے ! فرمایا کیا آیت مودت پڑھی ہے ؟ اس نے کہا بیشک ! فرمایا ہم وہی قرابتدار ان پیغمبر ہیں ۔

فرمایا ۔ کیا آیت ” آت ذا القربیٰ حقہ “ پڑھی ہے؟ کہا بیشک ! ۔ فرمایا ہم وہی اقربا ہیں۔

فرمایا کیا آیت تطہیر پڑھی ہے؟ اس نے کہا بیشک ! فرمایا ہم وہی اہلبیت (ع) ہیں۔

یہ سن کر شامی نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھایا اور کہا خدایا میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتاہوں اور دشمنان آل محمد سے بیزاری کا اظہار کرتاہوں اور ان کے قاتلوں سے برائت کرتاہوں، میں نے قرآن ضرور پڑھا تھا لیکن سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ حضرات وہی ہیں ۔(امالی صدوق (ر) 141 ، الاحتجاج 2 / 120 ، ملہوف 176 ، مقتل خوارزمی 2 ص 61)۔

64 ۔ امام محمد باقر (ع) نے آیت تطہیر کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ آیت علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کا نزول ام سلمہ کے گھر میں ہوا ہے جب حضور نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو جمع کرکے ایک خیبری رداکے اندر لے لیا اور خود بھی اس میں داخل ہوکر دعا کی کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں جن کے بارے میں تو نے وعدہ کیا ہے لہذا اب ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں حق طہارت کی منزل پر فائز رکھنا ، جس کے بعد ام سلمہ نے درخواست کی کہ مجھے بھی شامل فرمالیں؟ تو آپ نے فرمایا تمھارے لئے یہ بشارت ہے کہ تمھارا انجام خیر ہے۔

اور ابوالجارود نے جناب زین بن علی (ع) بن الحسین (ع) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ بعض جہلاء کا خیال ہے کہ یہ آیت ازواج کے بارے میں ہوئی ہے حالانکہ یہ جھوٹ اور افترا ہے، اگر مقصود پروردگار ازواج ہوتیں تو آیت کے الفاظ ” عنکن“ ، ” یطہرکن“ ہوتے اور کلام مونث کے انداز میں ہوتا جس طرح کہ دیگر الفاظ ایسے ہیں ” واذکرون “ ، ” بیوتکن“ ، ”تبرجن“ ، ” لستن“ …! (تفسیر قمی 2 ص 193 )۔

65 ۔ اما م جعفر صادق (ع) نے ایک طویل حدیث میں آیہ تطہیر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع)تھے جنھیں رسول اکرم نے ام سلمہ کے گھر میں ایک چادر میں جمع کیا اور فرمایا کہ خدا یا ہر نبی کے اہل اور ثقل ہوتے ہیں اور میرے اہلبیت (ع) اور میرا سرمایہ یہی افراد ہیں، جس کے بعد ام سلمہ نے سوال کیا کہ کیا میں آ پ کے اہل میں نہیں ہوں؟تو آپ نے فرمایا کہ بس یہی میرے اہل اور میرا سرمایہ ہیں۔( کافی 1 / 287 از ابوبصیر)

66 ۔ابوبصیر کا بیان ہے کہ میں نے امام صادق (ع) سے دریافت کیا کہ آل محمد کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ ذریت رسول !

میں نے پوچھا کہ پھر اہلبیت (ع) کون ہیں ؟ فرمایا ائمہ اوصیاء۔ پھر میں نے دریافت کیا کہ عترت کون ہیں ؟ فرمایا اصحاب کساء پھر عرض کی کہ امت کون ہے ؟ فرمایا وہ مومن جنھوں نے آپ کی رسالت کی تصدیق کی ہے اور ثقلین سے تمسک کیا ہے یعنی کتاب خدا اور عترت و اہلبیت (ع) سے وابستہ رہے ہیں جن سے پروردگار نے رجس کو دور رکھا ہے اور انھیں پاک و پاکیزہ بنایاہے، یہی دونوں پیغمبر کے بعد امت میں آپ کے خلیفہ اور جانشین ہیں۔( امالی صدوق (ر) 200 / 10 ، روضہ الواعظین ص 294)۔

67۔ عبدالرحمان بن کثیر کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (ع) سے دریافت کیا کہ آیت تطہیر سے مراد کون حضرات ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ آیت رسول اکرم حضرت علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حضرت حسن (ع) و حسین (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، رسول اکرم کے بعد حضرت علی (ع) ، ان کے بعد امام حسن (ع) اس کے بعد امام حسین (ع) ۔ اس کے بعد تاویلی اعتبارسے تمام ائمہ جن میں سے امام زین العابدین (ع) بھی امام تھے اور پھر ان کی اولاد میں اوصیاء کا سلسلہ رہا جن کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور ان کی معصیت خدا کی نافرمانی ہے۔( علل الشرائع 2 ص 205 ، الاماصة و التبصرة 177 / 29)۔

68 ۔ ریان بن الصلت کہتے ہیں کہ امام رضا (ع) مرو میں مامون کے دربار میں تشریف لائے تو وہاں خراسان اور عراق والوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

یہاں تک کہ مامون نے دریافت کیا کہ عترت طاہرہ سے مراد کون افراد ہیں؟

امام رضا (ع) نے فرمایا کہ جن کی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے، اور رسول اکرم نے فرمایا کہ میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک کتاب خدا اور ایک میری عترت اور میرے اہلبیت (ع) اور یہ دونوں اس وقت تک جدا نہ ہوں گے جب تک حوض کوثر پر نہ وارد ہوجائیں ۔ دیکھو خبردار اس کا خیال رکھنا کہ میرے اہل کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہو اور انھیں پڑھانے کی کوشش نہ کرنا کہ یہ تم سے زیادہ عالم اور فاضل ہیں۔ درباری علماء نے سوال اٹھادیا کہ ذرا یہ فرمائیں کہ یہ عترت آل رسول ہے یا غیر آل رسول ہے؟ فرمایا یہ آل رسول ہی ہے لوگوں نے کہا کہ رسول اکرم سے تو یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ میری امت ہی میری آل ہے اور صحابہ کرام بھی یہی فرماتے رہے ہیں کہ آل محمد امت پیغمبر کا نام ہے جس کا انکار ممکن نہیں ہے۔

آپ نے فرمایا ذرا یہ بتاؤ آل رسول پر صدقہ حرام ہے یا نہیں ؟ سب نے کہا بیشک !

فرمایا پھر کیا امت پر بھی صدقہ حرام ہے ؟ عرض کی نہیں۔

فرمایا یہی دلیل ہے کہ امت اور ہے اور آل رسول اور ہے۔

(امالی صدوق (ر) 1 ص 422 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 229)۔

اہلبیت (ع) پر پیغمبر اکرم کا سلام اور ان کے لئے مخصوص حکم نماز

69 ۔ ابوالحمراء خادم پیغمبر اسلام کا بیان ہے کہ حضور طلوع فجر کے وقت خانہٴ علی (ع) و فاطمہ (ع) کے پاس سے گذرتے تھے اور فرماتے تھے۔

”السلام علیکم اہل البیت“الصلوة الصلوة اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے ہیں۔( اسد الغابہ 6/74/27 58)

اسی کتاب کے صفحہ 66 پر اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ میں نے مدینہ میں قیام کے دوران چھ ماہ تک یہ منظر دیکھاہے۔

70۔ ابوالحمراء خادم پیغمبر اکرم کا بیان ہے کہ حضور ہر نماز صبح کے وقت دروازہ زہر ا پر آکر فرماتے تھے” السلام علیکم یا اہل البیت (ع) و رحمة اللہ و برکاتہ“ اور وہ حضرات اندر سے جوواب دیتے تھے” وعلیکم السلام و رحمة اللہ و برکاتہ“ اس کے بعد آپ فرماتے تھے الصلوة رحمکم اللہ اور یہ کہہ کر آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے۔

راوی کہتاہے کہ میں نے ابوالحمراء سے پوچھا کہ اس گھر میں کون کون تھا تو بتایا کہ علی (ع) ۔ فاطمہ (ع) ۔ حسن (ع) ۔ حسین (ع)۔(شواہد التنزیل 2/74 / 694)۔

71 ۔ امام علی (ع) کا بیان ہے کہ رسول اکرم ہر صبح ہمارے دروازہ پر آکر فرماتے تھے ” نماز ۔ خدا رحمت نازل کرے۔ نماز اور اس کے بعد آیہ تطہیر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔( امالی مفید (ر) 4/318 ، امالی طوسی (ر) 89 / 138 بشارة المصطفیٰ ص 264 بروایت حارث )۔

72۔ امام صادق (ع) نے اپنے والد اور جد بزرگوار کے واسطہ سے امام حسن (ع) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے معاویہ سے صلح کے موقع پر حالات سے بحث کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ رسول اکرم آیہٴ تطہیر کے نزول کے بعد تمام زندگی نماز صبح کے وقت ہمارے دروازہ پر آکر فرمایا کرتے تھے ” نماز ۔ خدا تم پر رحمت نازل کرے ۔ انما یرید اللہ … ( امالی طوسی (ر)565 / 1174 از عبدالرحمٰن بن کثیر ۔ ینابیع المودة 3 ص 386)۔

ینابیع المودة میں یہ تذکرہ بھی ہے کہ یہ کام آیت ” و امرا ھلک بالصلوة“ کے نزول کے بعد ہوا کرتا تھا۔

73 ۔ امام صادق (ع)نے اپنے آباء و اجداد کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم ہر صبح کے وقت درواز ہ علی (ع) و فاطمہ (ع) پر کھڑے ہوکر فرماتے تھے کہ ” تمام تعریفیں احسان کرنے والے ۔ کرم کرنے والے ۔ نعمتیں نازل کرنے والے اور فضل و افضال کرنے والے پروردگار کے لئے ہیں جس کی نعمتوں ہی سے نیکیاں درجہٴ کمال تک پہنچتی ہیں۔ وہ ہر ایک کی آواز سننے والا ہے اور سارا کام اس کی نعمتوں سے انجام پاتاہے، اس کے احسانات ہمارے پاس بہت ہیں، ہم جہنم سے اس کی پناہ چاہتے ہیں اور صبح و شام یہی پناہ چاہتے ہیں، نماز اے اہلبیت (ع) خدا تم سے ہر رجس کو دور رکھنا چاہتاہے اور تمھیں کمال طہارت کی منزل پر رکھنا چاہتاہے ۔ (امالی صدوق 124 / 14 از اسماعیل بن ابی زیاد السکونی)۔

74۔ تفسیر علی بن ابراہیم میں آیت کریمہ ” و امر اھلک بالصلوة“ کے بار ے میں نقل کیا گیا ہے کہ پروردگار نے خصوصیت کے ساتھ اپنے اہل کو نماز کا حکم دینے کے لئے فرمایاہے تا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ آل محمد کی ایک مخصوص حیثیت ہے جو دوسرے افراد کو حاصل نہیں ہے۔

اس کے بعد جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور ہر نماز صبح کے وقت دروازہ علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) پر آکر فرماتے تھے” السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ“ اور اندر سے جواب آتا تھا ” و علیک السلام یا رسول اللہ و رحمة اللہ و برکاتہ۔

اس کے بعد آپ دروازہ کا باز و تھام کر فرمایا کرتے تھے” الصلوة الصلوة یرحمکم اللہ “ اور یہ کہہ کر آیت تطہیر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے اور یہ کام مدینہ کی زندگی میں تاحیات انجام دیتے رہے۔ اور ابوالحمراء خادم پیغمبر کا بیان ہے کہ میں اس عمل کا مستقل شاہد ہوں ۔( تفسیر طبری 22/ص7، درمنثور 6 ص 403 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ص 60 ، مختصر تاریخ دمشق 7/ 119 ، کنز العمال 13 ص 645 ، شواہد التنزیل 2 ص 18 ، ینابیع المودة 1 ص 229 ، مناقب خوارزمی 60 فصل پنجم، تفسیر فرات کوفی ص 331 ، کشف الغمہ 1 ص 40 فصل تفسیر آل و اہل ، احقاق الحق 2 ص 501 ، 562 ، 3 ص 513 ، 531 ص 1 / 69، 14 ص 40 ، 105 ، 18 ص 359 ، 382 ، بحار الانوار 35 ص 206)۔


source : http://www.shiastudies.com/urdu/modules.php?name=News&file=article&sid=289
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام حسين(ع) کا وصيت نامه
قرآن کی نظر میں جوان
حضرت محمد بن الحسن (عج)
امام حسین علیہ السلام کے مصائب
شہادت امیرالمومنین حضرت علی مرتضی علیہ السلام
روزہ کی اہمیت کے متعلق نبی اکرم (ص) کی چند احادیث
حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے بارے میں ابن ابی الحدید ...
آیت تطہیر کا نزول بیت ام سلمہ (ع) میں
ادب و سنت
زیارت حضرت فاطمہ معصومہ قم (ع)

 
user comment