اردو
Wednesday 24th of April 2024
0
نفر 0

امامت آیہ ابتلاء کی روشنی میں

وإذاابتلیٰ ابرھیم ربّہ بکلمات فاٴتمّھنّ قال إنّی جاعلک للنّاس إماماً قال ومن ذرّیّتی قال لا ینال عھدی الظالمین (بقرہ/۱۲۴)

”اوراس وقت کویادکروجب خدا نے چندکلمات کے ذریعہ ابراھیم علیہ السلام کاامتحان لیااورانھوںنے پوراکردیاتواس)خدا)نے کہا:ہم تم کولوگوں کا قائداورامام بنارہے ہیں۔)ابراھیم علیہ السلام)نے کہا گیا یہ عہدہ میری ذریت کو بھی ملے گا؟ارشادہواکہ یہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں پہونچے گا۔“

اس آیہء کریمہ سے دو بنیادی مطلب کی طرف اشارہ ہو تاہے:

۱۔منصب امامت،نبوت ورسالت سے بلندترہے۔

۲۔منصب امامت،ظالموں اورستم گاروں کونہیں ملے گا۔

یہ مطلب تین باتوں پرمشتمل ہے:

پہلی بات:منصب امامت کابلندمرتبہ ہو نا۔

دوسری بات:منصب امامت ظالموں اورستم گاروں کونہیں ملے گا۔

تیسری بات:منصب امامت کازبان امامت سے تعارف۔

پہلی بات

منصب امامت کابلند مرتبہ ہو نا

ہم اس آیہء شریفہ میں دیکھتے ہیں کہ خدائے متعال نے حضرت ابراھیم علیہ السلام سے بڑھاپے کے دوران نبوت رسالت کو سالہا سال گزرنے کے بعدان کی عمرکے آخری مرحلہ میں امتحان لیااور انھوں نے اس امتحان الہٰی کوقبول کیا اورکامیابی کے ساتھ مکمل کردکھا یا امامت کاعہدہ وہ ارتقائی درجہ تھا جواس عظیم ا متحان اورصبروثبات کے بعدانھیںعطاکیاگیا۔

آیہء کریمہ سے اس مطلب کو بہتر طریقہ سے واضح کرنے کے لئے،درج ذیل چند بنیادی نکات کی وضاحت ضروری ہے:

۱۔حضرت ابراھیم علیہ السلام کے امتحان اوران کی امامت کے درمیان رابطہ کیسا ہے؟

۲۔اس آیہء کریمہ میں بیان کیاگیاامتحان،کس قسم کا امتحان تھا؟

۳۔کیایہ کہا جاسکتاہے کہ،حضرت ابراھیم علیہ السلام کو عطا کئے گئے عہدہ امامت سے مرادان کا وہی منصب نبوت ورسالت ہی ہے؟

۴۔حضرت ابراھیم علیہ السلام کوعطا کی گئی امامت،کس چیزپردلالت کرتی ہے؟

امتحان اورمنصب امامت کارابطہ

آیہء کریمہ:<واذابتلیٰ ابراھیم ربّہ بکلمات فاٴتمّھنّ قال انّی جا علک للناس إماماً…>میںلفظ”إذ“ظرف زمان ہے اوراس کے لئے ایک متعلق کی ضرورت ہے۔”إذ“کامتعلق کیاہے؟

پہلااحتمال یہ ہے کہ”إذ“کامتعلق”اذکر“)یادکرو)ہے،جومخذوف اورپوشیدہ ہے،یعنی:اے پیغمبر (ص)!یاداس وقت کو کیجئے جب پروردگارنے ابراھیم علیہ السلام کا چندکلمات کے ذریعہ سے امتحان لیا۔

اس احتمال کی بنیادپرچنداعتراضات واردہیں:

۱۔مستلزم حذف وتقدیر)متعلق کو مخذوف اور مقدر ماننا)خلاف اصل ہے۔

۲۔”إنی جاعلک للناس إماماً“کا اس کے پہلے والے جملہ سے منقطع ہو نا حرف عطف کے بغیرہونا لازم آتاہے۔

وضاحت:جملہء”قال انّی جاعلک…“کابظاہرسیاق یہ ہے کہ وہ اپنے پہلے والے جملہ سے علٰحیدہ اورمنقطع نہیں ہے اورمعنی ومضمون کے لحاظ سے قبل والے جملہ سے وابستہ ہے،اورچونکہ اس کے لئے حرف عطف ذکرنہیں ہواہے،اس لئے بظاہر اس جملہ کے آنے سے پہلاجملہ مکمل ہوتا ہے،اوران دونوں فقروں کے درمیان ارتباط کلمہ”إذ“کے”قال“سے متعلق ہونے کی بناپرہے۔اسی صورت میں ایہء شریفہ کامعنی یوں ہوتا ہے:”جب ابراھیم علیہ السلام سے ان کے پروردگار نے امتحان لیا،توان سے کہا:میں تم کولوگوں کے لئے امام قرار دیتاہوں۔“اس بناپریہ امتحان حضرت ابراھیم علیہ السلام کو منصب امامت عطا کرنے کے لئے ایک وسیلہ اور ذریعہ تھا۔

آیہء کریمہ کے اس مطلب پر قطعی گواہ کے لئے ایک دوسری آیت ہے کہ اس میں پیغمبروں کے ایک گروہ کے لئے صبروامامت کے درمیان رابطہ بخوبی بیان ہوا ہے:

<وجعلنا منھم ائمتہ یھدون بامرنا لماّصبروا وکانوا بآیاتنایوقنون> (سجدہ/۲۴)

”اورہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کوامام اورپیشواقراردیاہے جوہمارے امرسے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں،اس لئے کہ انہوں نے صبرکیاہے اورہماری آیتوں پریقین رکھتے تھے۔“

اس آیہء شریفہ میں ان پیغمبروں کوامامت ملنے کاسبب صبرویقین بیان کیاگیاہے اور یہ رابطہ حضرت ابرھیم علیہ السلام کے امتحان اورامامت کے درمیان رابطہ کوزیربحث آیت میںواضح اورروشن کرتاہے۔

حضرت ابراھیم علیہ السلام کاامتحان

حضرت ابراھیم علیہ السلام کے امتحانات اور ان کی یہ آزمائشیں کن مسائل اور امور سے متلق تھیں کہ جس کا نتیجہ امامت کا عظیم عطیہ قرار پایاتھا۔

آیہء شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ امتحان چند کلمات کے ذریعہ لیا گیا اورحضرت ابراھیم علیہ السلام نے انھیں مکمل کر دکھایا۔بظاہریہ کلمات ایک خاص قسم کے فرائض اوراحکام تھے کہ جن کے ذریعہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا امتحان لیاگیا۔

قرآن مجیدمیں،حضرت ابراھیم علیہ السلام کی تاریخ کے سلسلہ میںجوچیز”واضح وروشن امتحان“کے عنوان سے بیان ہوئی ہے،وہ ان کا اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کااقدام ہے:<إن ھذا لھوالبلائ المبین>۱)بیشک یہ بڑا واضح و روشن متحان ہے)یہ)بیٹے کوذبح کرنے کااقدام)حقیقت میں وہی کھلاامتحان ہے۔یہ امتحان حضرت ابراھیم علیہ السلام کے اپنے پروردگار کے حضورمیں ایثاروقربانی اورمکمل تسلیم ہونے کامظہرتھا۔

اس مطلب کی طرف اشارہ کر نا ضروری ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کایہ امتحان ان کی پیری اور بڑھاپے میں انجام پایاہے اور وہ بھی اس وقت جب ان کا بیٹاجوانی کے مرحلہ میں داخل ہوچکاتھا۔حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنی جوانی کا مرحلہ طے کرنے تک صاحب اولادنہیں تھے۔جب بڑھاپے کے مرحلہ میں پہنچے اور اولادسے ناامیدہوئے، توخدائے متعال۱۔ صا فات/۱۰۶

نے انھیں اسماعیل واسحاق نام کے دو بیٹے عطاکئے اور یہ اس حالت میں تھاکہ جب ان کی نبوت اور رسالت کو سالہاسال گزرچکے تھے۔

کیااس آیت میں امامت سے مرادان کی وہی نبوت ورسالت نہیں ہے؟

خدائے متعال نے جوامامت حضرت ابراھیم علیہ السلام کوعطاکی،کیاوہ،وہی ان کی نبوت ورسالت تھی،جیساکہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے،یایہ امامت کوئی دوسراعہدہ ہے؟

اس سے پہلے بیان کئے گئے مطلب سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ امامت،درج ذیل دودلائل کے پیش نظرحضرت ابراھیم علیہ السلام کے پاس پہلے سے موجودنبوت ورسالت کے علاوہ تھی:

پہلے یہ کہ:یہ آیہء شریفہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ یہ امامت، حضرت ابراھیم علیہ السلام کوبہت سے امتحانات کے بعد عطاکی گئی ہے،کہ ان امتحانات کا ایک واضح وروشن نمونہ ان کااپنے بیٹے کو ذبح کرنے کااقدام تھاجبکہ نبوت ورسالت انھیں پہلے دی جاچکی تھی۔

دوسرے یہ کہ:آیہء کریمہ میں”جاعلک“اسم فاعل ہے اور ادبی لحاظ سے اسم فاعل صرف اسی صورت میں اپنے مابعد پر عمل کر سکتا ہے اور کسی اسم کومفعول کے عنوان سے نصب دے سکتا ہے،جب ماضی کے معنی میں نہ ہو،۱بلکہ اسے حال یامستقبل کے معنی میں ہوناچاہئے۔اس بنا پرآیہء شریفہ:<إنیّ جاعلک للنّاس إماماً> میںفاعل”جاعل“ کے دومفعول ہیں)ایک ضمیر”کاف“اوردوسرا”اماماً“)اس لئے ماضی کوملحوظ نظر نہیں قرار دیا جا سکتا۔

یہ امامت کس چیزپردلالت کرتی ہے؟

ہمیں آیہء شریفہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امامت کا مفہوم پیشوائی اور قیادت ہے اوراس کامعنی نبوت ورسالت سے متفاوت ہے۔امام،وہ ہے جودوسروں کا پیشواہواورانسانوں کے آگے آگے چلے، جسے خدائے متعال نے متعلق طور پر لوگوں کے لئے امام قراردیاہے اورتمام انسانی پہلوؤں سے لوگوں کے لئے اسوہ اور نمونہ بنایاہے لوگوں کو چا ہئے کہ تمام ابعاد حیات میں اس سے ہدایت حاصل کریں اوراس کی اقتداء و پیروی کر یں۔

حضرت ابراھیم علیہ السلام کو یہ مقام)امامت)رسالت ملنے کے سالہا سال بعد تمام بڑے امتحانات الہٰی میں کامیابی حاصل کرنے کے بعدعطاکیاگیا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ امامت کا مرتبہ اور درجہ نبوت ورسالت کے مساوی نہیں ہے بلکہ ان سے بالا تر ہے۔

اس بحث کا نتیجہ یہ ہوگاکہ:جب یہ ثابت ہواکہ امامت کا درجہ و مرتبہ نبوت سے بالاتر ہے اورنبوت کے لئے قطعی دلائل کی بنیادپرعصمت کی شرط لازمی ہے،پس جوچیز نبوت سے برتر وبلندترہو،بدرجہ اولٰی اس کے لئے بھی عصمت کاشرط ہوناضروری ہوگا۔

دوسری بات:

منصب امامت ظالموں کونہیں ملے گا

یہ آیہء شریفہ عصمت امامت پر دلا لت کرتی ہے کیونکہ آیت کے جملہ<لاینال عھدی الظالمین>یعنی:”میراوعدہ)امامت)ظالموں تک نہیں پہونچے گا“سے استفادہ ہوتاہے کہ ظالم مقام امامت تک نہیں پہو نچ سکتا۔

جب خدائے متعال نے فرمایا:<إنیّ جاعلک للناس إماماً> ”میں تجھے لوگوں کے لئے امام قرار دیتاہوں“ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے عرض کیا:<ومن ذرّیّتی؟>”کیامیری ذریت اور اولادمیں سے بھی کوئی اس مقام تک پہنچے گا؟“پروردگارعالم نے فرمایا:<لاینال عھدی الظالمین>میرا وعدہ ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔

اس جملہ سے درج ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں:

۱۔امامت وعدئہ الہٰی ہے۔

۲۔یہ وعدہ ظالموں تک نہیں پہونچ سکتا،چونکہ ہر گناہ ظلم شمارہوتاہے،2 لہذاجومعصوم نہیں ہے،وہ گناہوں میںگرفتارہوگا۔

اس بناء پر آیہء شریفہ کی یہ دلالت کہ ہرامام کواپنے عہدہ امامت میںگناہوں سے پاک ہونا چاہئے،واضح اور ناقابل انکار ہے۔

کیا اس جملہ سے یہ استفادہ کیاجاسکتاہے کہ:جن لوگوں نے امامت کے عہدہ پر فائز ہونے سے پہلے اگرکوئی ظلم کیاہووہ امامت کے عہدہ پر فائزہوسکتے ہیں یانہیں؟

دوسرے الفاظ میں:مشتق کا عنوان)جسے ظالم)زمانہ حال میںظہور رکھتاہے اوریہ اس شخص پرلاگونہیں ہوتاہے جوپہلے اس صفت سے متصف تھالیکن زمانہ حال میں اس میں وہ صفت نہیں ہے۔اس بناء پر اس آیہء شریفہ کے مطابق،جوخلافت کے عہدہ پرفائزہونے کے دوران ظالم ہو،وہ امامت کے عہدہ پرفائز نہیں ہو سکتالیکن جو پہلے کبھی ظالم تھا،لیکن اس عہدہ پر فائزہونے کے وقت ظالم نہیں ہے،وہ امامت کے عہدہ پرفائزہوسکتاہے۔

اعتراض کے جواب میں دوباتیں

پہلی بات جواس اعتراض کے جواب میں پیش کی گئی ہے وہ ایک عظیم محقق مرحوم حاج شیخ محمدحسین اصفہانی کی ہے کہ جسے مرحوم علامہ سید محمدحسین طباطبائی نے تفسیرالمیزان میںذکرکیاہے:3

حضرت ابراھیم علیہ السلام کی ذریت چارگروہوں میں تقسیم ہوتی ہے:

۱۔وہ گروہ جو امامت پر فائز ہونے سے پہلے ظالم تھے اوراس مقام پر فائزہونے کے بعدبھی ظالم رہے۔

۲۔وہ گروہ جوامامت کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے عادل تھے اورامامت کے عہدہ پر فائزہونے کے بعد ظالم بن گئے۔

۳۔وہ گروہ،جوامامت کے عہدہ پرفائزہونے سے پہلے ظالم تھے اورامامت کا عہدہ سنبھالنے کے بعدعادل ہوگئے۔

۴۔وہ گروہ جوامامت کے عہدہ پرفائزہونے سے پہلے اوراس کے بعددونوںزمانوں میںعادل تھے۔حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنی اس عظمت کے پیش نظرپہلے دوگرہوں کے لئے کہ،جوا پنے عہدہ امامت کے دوران ظالم ہوں،ہرگزامامت کی درخواست

نہیں کریں گے۔ اس بناپر<ومن ذرّیّتی>”میری اولادسے؟“کاجملہ صرف تیسرے اورچوتھے گروہ پرصادق آتا ہے،اورخدائے متعال بھی جواب میںفرماتاہے<لاینال عھدی الظالمین>”میراوعدہ ظالموں تک نہیں پہو نچ سکتا۔“اس جملہ کے پیش نظر تیسراگروہ جوپہلے ظالم تھالیکن امامت کا عہدہ سنبھالنے کے دوران عادل ہوگیا،وہ بھی خارج ہوجاتا ہے اوراپنی اولاد کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میںصرف چوتھے گروہ کو امامت دی جاتی ہے۔

دوسری بات مرحوم طبرسی کی ہے جوتفسیرمجمع البیان میں ذکر ہوئی ،وہ کہتے ہیں:ہم اس بات کوقبول کرتے ہیں کہ جوفی الحال ظالم نہیں ہے اس پر ظالم کاعنوان حقیقت میں اطلاق نہیں ہوتاہے،لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس نے پہلے ظلم کیا ہے،ظلم کرنے کے دوران اس پر ظالم کاعنوان حقیقت میں صادق تھا،مذکورہ آیت ایسے افراد کوبھی مشتمل ہے۔یعنی ایساشخص اب امامت کے لئے شائستہ نہیں ہے اورامامت پرفائزنہیں ہوسکتاہے اور”لا ینال“کا جملہ چونکہ مضارع منفی ہے،اس لحاظ سے اس پردلالت کرتاہے۔

اس بناپر،جس نے زندگی میں ایک لمحہ کے لئے بھی گناہ کیاہے،وہ امامت کے عہدے پرفائزنہیں ہوسکتاہے،چونکہ اس وقت ظالم اور ستم گارہے اورآیہء شریفہ کہتی ہے:<لاینال عھدی الظالمین>”میرا عہدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔“

اس طرح یہ واضح ہوگیا کہ آیہء شریفہ دوجہتوں سے اماموں کی عصمت پرحتی عہدہ امامت پر فائز ہونے سے پہلے بھی دلالت کرتی ہے۔اورامامت کے منصب پرفائز ہونے والاشخص اپنی پوری عمرملکہء عصمت سے وابستہ ہوتاہے۔اوراس طرح یہ بھی واضح ہوگیاکہ امامت ایک الہٰی منصب ہے جو خدائے متعال کی طرف سے عطا کیاجاتاہے،یعنی یہ خدائے متعال کی ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کو وہ جوشائستہ و سزا وار جانتا ہے اسی کو عطا کر تا ہے۔

تیسری بات

منصب امامت کازبان امامت سے تعارف

آیہء شریفہ کوبیان کرنے کے بعدمناسب ہے کہ امامت کی حقیقت کے سلسلہ میں ہمارے آٹھویں امام حضرت امام موسی الرضا علیہ السلام کی بیان کی گئی ایک حدیث پیش کیجائے:

اٴبو محمدالقاسم بن العلاء-رحمہ-رفعہ عن عبدالعزیزبن مسلم قال:کنّامع الرضا-علیہ السلام-بمرو،فاجتمعنافی الجامع یوم الجمعة فی بدء مقدمنا،فاٴدارواامرالامامتہ وذکرواکثرةاختلاف الناس فیہا۔فدخلت علی سیدی-علیہ السلام-فاٴعلمتہ خوض الناس فیہ،فتبسم-علیہ السلام-ثم قال:یاعبدالعزیزجھل القوم وخذعواعن آرائھم۔إن اللّٰہ عزّوجلّ لم یقبض نبیّہ (ص)حتی اٴکمل لہ الدین وانزل علیہ القرآن فیہ تبیان کلّ شیء،ٍ بیّن فیہ الحلال والحرام والحدود والاحکام وجمیع مایحتاج الیہ النّاس کملاً فقال عزّوجلّ<مافرّطنافی الکتاب من شیءٍ>4 واٴنزل فی حجة الوداع،وھی آخرعمرہ(ص):< اٴلیوم اٴکملت لکم دین واٴتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً>5 وامرالامامةمن تمام الدین۔ولم یمض(ص)حتیّ بیّن لامتہ معالم دینھم واٴوضع لھم سبیلھم، وترکھم علی قصد سبیلالحق،و اقام لھم علیّا علما ًوإماماً و ماترک لھم شیئاً یحتاج إلیہ الامتہ إلاّبیّنہ فمن زعم ان اللّٰہ عزّوجلّ لم یکمل دینہ فقد ردّ کتاب اللّٰہ و من ردّ کتاب اللّٰہ فھو کافر بہ۔ ھل یعرفون قدر الإمامة و محلّہا من الامّة فیجوز فیھا اختیارھم؟ إنّ الامامة اٴجلّ قدراً و اٴعظم شاٴنا و اعلی مکاناً و اٴمنع جانباً و ابعد غوراً من اٴن یبلغھا النّاس بعقولھم اٴوینالو بآرائھم اٴویقیموا إماماً باختیارھم۔

إنّ الإمامة خص اللّٰہ عزّوجلّ بھا إبراھیم الخلیل - علیہ السلام - بعد النبوة و الخلّة مرتبة ثالثة و فضیلة شرّفہ بھا و اٴشاد بھا ذکرہ فقال:<إنّی جاعلک للنّاس اماماً> فقال الخلیل- علیہ السلام سروراًبھا: <ومن ذرّیّتی> قال اللّٰہ تعالی:<ولاینال عھدی الظالمین >5 فابطلت ہذہ الآیة إمامة کلّ ظالم إلی یوم القیامة و صارت فی الصفوہ۔ ثمّ اٴکرم اللّٰہ تعالی باٴن جعلھا فی ذرّیّتہ اہل الصفوة و الطہارة فقال:<و وہبنا لہ إسحاق و یعقوب نافلة وکلّا جعلنا صالحین۔ وجعلناہم اٴئمّہ یہدون باٴمرنا واٴوحینا إلیہم فعل الخیرات وإقام الصلوةوإیتائ الزکوة وکانوا لنا عابدین>6

فلم تزل فی ذرّیّتہ یرثہا بعض عن بعض قرناً فقرناً حتی ورّثہا اللّٰہ تعالی النبیّی (ص) فقال جلّ وتعالی:<إنّ اٴولی الناس بإبراہیم للّذین اتّبعوہ وہذا النبیّی والّذین آمنوا واللّٰہ ولیّ المؤمنین>8

فکانت لہ خاصّةفقلّدہا (ص)علیاً-علیہ السلام-باٴمراللّٰہ تعالی علی رسم مافرض اللّٰہ فصارت فی ذرّیّتہ الاٴصفیاء الذین آتاہم اللّٰہ العلم والإیمان بقولہ تعالی:<وقال الّذین اٴو تو االعلم والإیمان لقد لبثتم فی کتاب اللّٰہ إلی یوم البعث>۲فہی فی ولد علیّ - علیہ السلام - خاصّة إلی یوم القیامة،إذ لا نبیّی بعد محمد (ص) فمن اٴین یختار ہؤلائ الجّہال۔

إنّ الإمامة ہی منزلة الاٴنبیاء وإرث الاٴوصیاء۔إنّ الإمامة خلافة اللّٰہ وخلافة الرسول (ص) ومقام اٴمیرالمؤمنین -علیہ السلام - ومیراث الحسن والحسین -علیہا السلام - انّ الإمامة زمام الدّین ونظام المسل مین وصلاح الدنیا وعزّالمؤمنین إنّالإمامةاُس الإسلام النامی و فرعہ السّامی۔ بالإمام تمام الصلاة و الزکاة والصیام والحج والجہاد وتوفیرالفیء والصدقات وإمضاء الحدود والاٴحکام ومنع الثغور والاٴطراف۔الإمام یحلّ حلا ل اللّٰہ ویحرّم حرام اللّٰہ و یقیم حدود اللّٰہ و یذّب عن دین اللّٰہ ویدعو إلی سبیل ربّہ بالحکمة الموعظة الحسنة و الحجّة البالغة۔ الإمام کالشمس الطالعة المجللّة بنورہا للعالم وہی فی الاٴفق بحیث لاتنالہا الاٴیدی والاٴبصار۔

الإمام البدرالمنیر والسراج الزاہر والنور الساطع والنجم الہادی فی غیاہب الدجی واجواز البلدان والقفار ولجج البحار۔الإمام الماء العذب علی الظماء والدالّ علی الہدی والمنجی من الرّدی الإمام النار علی الیفاع الحارّ لمن اصطلی بہ والد لیل فی المہالک۔من فارقہ فہالک۔

الإمام السحاب الماطروالغیث الہاطل والشمس المضیئةوالسماء الظلیلة والاٴرض البسیطة والعین الغزیرةوالغدیروالروضة۔

الإمام الاٴنیس الرفیق والوالد الشفیق واالاٴخ الشقیق والاٴم البرّة بالولد الصغیر ومفزع العباد فی الداہیة النآد۔

الإمام اٴمین اللّٰہ فی خلقہ وحجّتہ علی عبادہ وخلیفتہ فی بلادہ والداعی إلی اللّٰہ والذابّ عن حرام اللّٰہ۔

الإمام المطھّرمن الذنوب والمبرّاٴ عن العیوب المخصوص بالعلم الموسوم بالحلم نظام الدّین و عزّالمسلمین وغیظ المنافقین و بوار الکافرین۔

الإمام واحد دہرہ، لا یدانیہ اٴحد ولا یعادلہ عالم ولایوجد منہ بدل ولا لہ مثل و لا نظیر مخصوص بالفضل کلّہ من غیر طلب منہ لہ و لا اکتساب بل اختصاص من المُفضل الوہّاب۔ فمن ذا الذی یبلغ معرفة الإمام اٴو یمکنہ اختیارہ؟!! ہیہات ہیہات! ضلّت العقول وتاہت الحلوم وحارت الاٴلباب و خسئت العیون و تصاغرت العظماء و تحیّرت الحکماء و تقاصرت الحلماء و حصرت الخطباء و جہلت الاٴلبّاء و کلّت الشعراء وعجزت الاٴدبائ وعییت البلغاء عن وصف شاٴن من شاٴنہ اٴوفضیلة من فضائلہ واٴقرّت بالعجز و التقصیر و کیف یوصف بکلّہ اٴو ینعت بکنہہ اٴو یفہم شیئ من اٴمرہ اٴویوجدمن یقوم مقامہ یغنی غناہ؟!

لا، کیف واٴنّی؟ و ہو بحیث النجم من ید المتناولین و وصف الواصفین! فاٴین الاختیار من ہذا؟ و اٴین العقول عن ھذا؟ و اٴین یوجد مثل ہذا؟! اٴتظنّون ان ّذلک یوجد فی غیرآل الرسول محمد (ص)کذبتہم - واللّٰہ - اٴنفسہم و منّتہم الاٴباطبل فارتقوا مرتقاً صعباً دحضاً تزلّ عنہ إلی الحضیض اٴقدامہم۔ راموا إقامة الإمام بعقول حائرة ناقصة و آرا مضلّة فلم یزدادوا منہ إلاّ بُعداً <قاتلہم اللّٰہ اٴنّی یؤفکون>؟ ولقد راموا صعبا و قالوا إفکاً و ضلّواضلا لاً بعیداً و وقعوا فیالحیرة۔ إذ ترکوا الإمام عن بصیرہ <زیّن لہم الشیطان اٴعمالہم عن السبیل و کانوا مستبصرین>9

رغبوا عن اختیار اللّٰہ و اختیار رسول اللّٰہ (ص) واٴہل بیتہ إلی اختیارہم و القرآن ینادیہمو ربّک یخلق مایشاء و یختار ما کان لہم الخیرة سبحان اللّٰہ و تعالی عماّ یشرکون>10 وقال عزّوجلّ: < و ما کان لمؤمن و لا مؤمنة إذا قضی اللّٰہ و رسولہ اٴمراً اٴن یکون لہم الخیرة من اٴمرہم>۳ الآیة و قال:<مالکم کیف تحکمون

اٴم لکم کتاب فیہ تدرسون إن ّلکم فیہ لمّا تخیّروناٴم لکم اٴیمان علینا بالغة إلی یوم القیامة إنّ لکم لما تحکمون سلہم اٴیّہم بذلک زعیم اٴم لہم شرکاء فلیاٴتوا بہ شرکائہم إن کانوا صادقین>11 وقال عزّوجل:<اٴفلایتدبّرون القرآن اٴم علی قلوب اٴقفالہا اٴم طبع اللّٰہ علی قلوبہم فہم لا یفقہون> اٴم < قالوا سمعنا و ہم لا یسمعون إنّ شرّ الدوابّ عند اللّٰہ الصمّ البکم الذین لا یعقلون و لو علم اللّٰہ فیہم خیراً لاٴسمعہم و لو اٴسمعہم لتولّوا و ہم معرضون> ۷ اٴم < قالوا سمعنا و عصینا>۸ بل ہو فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء و اللّٰہ ذوالفضل العظیم

فکیف لہم باختیار الإمام؟! و الإمام عالم لا یجہل وراع لاینکل معدن القدس والطہارة و النسک و الزہادة و العلم والعبادة مخصوص بدعوة الرسول (ص) ونسل المطہرةالبتول لامغمز فیہ فی نسب و لا یدانیہ ذو حسب فی البیت من قریش، و الزروة من ہاشم و العترة من الرسول (ص) و الرضا من اللّٰہ عزّوجلّ شرف الاٴشرف و الفرع من عبد مناف نامی العلم کامل الحلم مضطلع بالإمامة عالم بالسیاسة مفروض الطاعة قائم باٴمر اللّٰہ عزّوجلّ ناصح لعباداللّٰہ حافظ لدین اللّٰہ۔

إنّا لاٴنبیاء والاٴئمة - صلوات اللّٰہ علیہم - یوفّہم اللّٰہ و یؤتیہم من مخزون علمہ و حکمہ ما لایؤتیہ غیرہم فیکون علمہم فوق علم

اٴہل الزمان فی قولہ تعالی:< اٴفمن یہدی إلی الحقّ اٴحقّ اٴن یُتّبع اٴمّن لایہّدی إلاّ اٴن یُہدی فمالکم کیف تحکمون>و قولہ تبارک و تعالی<ومن یؤت الحکمة فقد اٴُوتی خیراً کثیراً>۲ و قولہ فی طالوت < إنّ اللّٰہ اصطفاہ علیکم و زادہ بسطة فی العلم و الجسم و اللّٰہ یؤتی ملکہ من یشاء و اللّٰہ واسع علیم > و قال لنبیہ (ص) < اٴنزل علیک الکتاب و الحکمة و علّمک مالم تکن تعلم و کان فضل اللّٰہ علیک عظیماً >۴ و قال فی الاٴئمّة من اٴہل بیت نبیّہ و عترتہ و ذریّتہ صلوات اللّٰہ علیہم -:<اٴم یحسدون الناس علی ما آتاہم اللّٰہ من فضلہ فقد آتینا آل ابراہیم الکتاب و الحکمة و اتےناھم ملکاً عظیماً فمنہم من آمن بہ ومنہم من صدّ عنہ و کفی بجہنم سعیراً و إنّ العبد إذا اختارہ اللّٰہ عزّ و جلّ لاٴُمور عبادہ شرح صدرہ لذلک و اٴودع قلبہ ینابیع الحکمة و اٴلہمہ العلم إلہاماً فلم یعی بعدہ بجواب و لا یحیر فیہ عن صواب فہو معصوم مؤیّد فوفّق مسدّد قد اٴُمن من الخطایا و الزلل والعثار یخصّہ اللّٰہ بذلک لیکون حجّتہ علی عبادہ و شاہد علی خلقہ و ذلک فضل اللّہ یؤتیہ من یشائ و اللّٰہ ذوالفضل العظیم۔

فہل یقدرون علی مثل ہذا فیختارونہ؟ اٴو یکون مختارہم بہذہ الصفة فیقدّمونہ؟ تعدّوا - و بیت اللّٰہ - الحقّ و نبذوا کتاب اللّٰہ

وراء ظہورہم کاٴنہم لا یعلمون و فی کتاب اللّٰہ الہدی والشفائفنبذوہ و اتّبعوا اٴہواء ہم فذمّہم اللّٰہ و مقّتہم و اٴتعسہم فقال جلّ و تعالی:< و من اٴضّل ممّن اتّبع ہواہ بغیر ہدی من اللّٰہ إنّ اللّٰہ لایہدی القوم الظالمین>۱ وقال:<فتعساٴلہم واٴضلّ اٴعمالہم> و قال: < کبُر مقتاً عند اللّٰہ وعند الّذین آمنوا کذلک یطبع اللّٰہ علی کلّ قلب متکبّر جبّار > وصلی اللّٰہ علی النبیّ محمد وآلہ وسلّم تسلیماً کثیراً“

․․․عبدالعزیزبن مسلم سے روایت ہے کہ:ہم مسجدمرومیں حضرت امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں تھے۔وہاں پہنچنے کے ابتدائی دنوں میں جمعہ کے دن جامع مسجدمیںجمع ہوئے تھے۔حضارنے مسئلہء امامت کے بارے میںگفتگوکی اوراس موضوع کے بارے میں موجود بہت سے اختلافات کو بیان کیاگیا۔

میںنے اپنے مولا)امام رضا علیہ السلام)کی خدمت میںلوگوں کی اس گفتگو کے بارے میںوضاحت کی۔حضرت علیہ السلام نے ایک مسکراہٹ کے بعدیوںفرمایا:اے عبدالعزیز!ان لوگوںنے نادانی کا راستہ اختیارکیاہے اور اپنے نظریات کی جانب دھوکہ میں ہیں۔

خدائے عزّوجل نے اپنے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کواس دنیاسے اس وقت تک نہیں اٹھایاجب تک ان کے لئے دین کومکمل نہیں کر لیااورقرآن مجیدکہ،جوہرچیزکوواضح کرنے والی کتاب ہے اورجس میں حلال وحرام،حدوداحکام اورانسان کی تمام ضرورتیں مکمل طورپربیان ہوئی ہیںنازل نہیں کر لی اورفرمایا<مافرّطنا فی الکتاب من شیء>”ہم نے کتاب میں کوئی چیزنہیں چھوڑی ہے“)پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے حجہ الوداع میںجوآپکی عمرکے آخری ایام میں انجام پایاآیہء<اٴلیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً>نازل فرمائی۔اس طرح دین کوکامل فرمایااورامامت دین کا تکملہ ہے۔)خدا نے)پیغمبراسلام (ص) کوتب تک اس دنیاسے نہیں اٹھالیاجب آپنے امت کے لئے دینی امور واضح کر دیئے حق کاوہ راستہ دکھلادیاجس پران کوچلناتھااورحضرت علی علیہ السلام کواپنے بعد امت کے لئے رہبرکے طورپر پہنچوا دیا،حتی کہ امت کی ضرورت کی کسی چیزکوبیان کئے بغیرنہیں چھوڑا۔پس،ان اوصاف کے پیش نظرجو یہ تصورکرے کہ خدائے متعال نے اپنے دین کومکمل نہیں کیاہے،اس نے خدا کی کتاب سے انکارکیاہے،اورایساآدمی کافرہے۔کیایہ لوگ امت کے در میان امامت کی عظمت وبلندی نیز اس کی کلیدی حیثیت کوجاننے کاشعوررکھتے ہیں تاکہ اس سلسلہ میں کوئی رائے قائم کرسکیں؟بیشک امامت اس سے کہیںزیادہ گراں بہا،عظیم الشاں،بلندمرتبہ اورعمیق ترہے کہ لوگ اسے اپنی عقلوں سے درک کریںنیزاپنی رائے اوراپنے اختیارسے امام منتخب کریں۔

امامت ایک ایساخاص عہدہ ہے جوخدائے متعال کی طرف سے خُلّ نیزنبوت ورسالت کے منصب کے بعدحضرت ابراھیم علیہ السلام کو عطاکیاگیا،اوراس سے مذکورہ دو نوںعہدوں سے بلنداورافضل قراردیتے ہوئے خدا وند عالم نے فرمایا:<إنیّ جاعلک للناّس إماماً>یعنی:”میں تجھے لوگوں کے لئے امام قراردیتاہوں“۔حضرت ابراھیم علیہ السلام نے خوش ہوکرکہا:<ومن ذرّیّتی>”کیامیری ذریت کوبھی یہ عہدہ ملے گا؟“خدائے متعال نے فرمایا:<لاینال عھدالظالمین>”میرا وعدہ )امامت)ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔“ اس آیہء شریفہ نے ہرظالم کے لئے عہدہ امامت کوقیامت تک کے لئے مستردکردیا اوراس)امامت)کوممتازاورمنتخب افراد میں متعین قراردیا--․․․یہاں تک کہ پیغمبراسلام (ص)نے اسے وراثت میں حاصل کیا․․․ آپنے بھی اسے خداکے حکم سے علی علیہ السلام اور ان کی معصوم نسلوں میںقراردیا کہ جو اہل علم و ایمان تھے اوریہ مقام ان کے معصوم فرزندوں میںقیامت تک رہے گا۔پس یہ نا دان کیسے امام کوانتخاب کرسکتے ہیں۔؟!!امامت انبیاء کی عظمت و منزلت اور اولیائے الہٰی کی وراثت ہے۔امامت،خدائے متعال اورپیغمبراسلام (ص) کی جانشین اورامیرالمؤمنین علیہ السلام کی عظمت نیزحسن وحسین علیہماالسلام کی وارثت ہے۔امامت،دین کی زمامداری،مسلمانوں کی حکمت عملی ،دنیا کی بہتری اورمؤمنین کی عزت ہے۔صرف امامت کے ذریعہ نماز،روزہ،حج،زکواةاورجہادکومکمل طورپرانجام دیاجاسکتاہے اورامام کے ذریعہ حدوداوراحکام الہٰی کا نفاذ ممکن ہے اورسرحدوں کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔

یہ امام ہی ہے جوخدا کے حلال کوحلال اوراس کے حرام کوحرام بتاتاہے،خداکے حدود کوجاری کرتاہے،دین خداکادفاع کرتاہے اورلوگوں کوخداکے راستہ کی طرف اپنی حکمت عملی،اچھی نصیحت اورمحکم ومتقن دلا ئل سے دعوت دیتاہے۔

امام ایک آفتاب کے مانند ہے جوطلوع ہوکرپوری دنیا کوروشنی میں غرق کر دیتاہے چو نکہ وہ ایک بلندی پرمستقرہوتاہے لہذااس تک لو گوں کی نظریں اور آلودہ ہاتھ نہیں پہنچ سکتے ہیں۔

امام، ماہ تابان ،شمع فروزان، چمکتانوراوردرخشاں ستارہ ہے جو شدیدتاریکیوں شہہ راہوں اورگزرگاہوں،شہروں اورگلی کوچوں ، صحراؤں اور سمندروں کے گردابوں میں )جہالت و آزمائش نیز دربدری کے زمانہ میں) لوگوں کی ہدایت کرنے والا ہوتاہے۔

امام،پیاسوں کے لئے ٹھنڈاپانی اورگمراہوں کی ہدایت کے لئے راہنماو ایک دلیل ہے۔

امام،ایک ابر باران ،موسلا دھاربارش،چمکتا ہواسورج،سایہ دارچھت،وسیع وعریض زمین،ابلتاہواچشمہ،نیزجھیل اورگلستان کے مانند ہوتاہے۔

امام،خداکے بندوں کے لئے انتہائی سختیوں میں،ہمدم و مونس، مہربان باپ،برابرکابھائی،غمخوارماں اور خدا کی پناہ گاہ ہوتاہے۔

امام،خداکے بندوں میںخداکاامانتدار،اس کے بندوں پرحجت الہٰی اوراس کے ملک میں اس کاجانشین ہوتاہے۔

امام،خداکی طرف دعوت دینے والااورحریم الہٰی)حدود،مقدرات اوراحکام)کادفاع کرنے والاہوتاہے۔

امام،گناہوں سے پاک ،عیوب اوربرائیوں سے منّزہ ہوتا ہے۔

امام علم میں یگانہ،حلم وبردبادی میںیکتا،نظام، دین نیزمسلمانوں کی عزت،منافقون کے واسطے غضب اورکافروں کے لئے ہلاکت ہے۔

امام،)فضائل اورانسانی اقدارکے حوالے سے)بے مثال ہوتاہے۔کوئی بھی عظمت و بزرگی کے اعتبار سے اس)امام)کے برابرنہیں ہوسکتاہے اورکوئی عالم اس کے مساوی نہیں ہوسکتا ہے اورکسی کو اس کاجانشین اور متبادل قرارنہیں دیاجاسکتاہے۔اورامام وہ ہے کہ،جس کوتلاش وکوشش کے بغیرتمام فضیلتیںخداکی طرف سے عطاہوتی ہیں۔

پس،کون ہے جو امام کوپہچان سکتاہے۔ اور اس کو چننے اور منتخب کرنے کی قدرت رکھتا ہے افسوس!افسوس!)اس سلسلہ میں)

عقلیں گم ہیں،نظریںناتواں ہیں،بڑے چھوٹے ہوگئے ہیں،حکماء اورفلاسفہ حیراں و سرگرداں ہیں،اورخطباء،عقلاء،شعراء،ادباء اورمبلغین،خستہ وعاجزہیں،کہ اس)امامت) کی کوئی شان یااس کی فضیلتوں میں سے کسی فضیلت کی توصیف کریں۔یہ مقام کیسے توصیف کے حدودمیں اسکتاہے جبکہ امام ستارہ کے مانند ہے اورانسان کی توصیف کے دائرہ امکان سے دورہے۔

کیاتم لوگ تصور کرتے ہو کہ یہ خصوصیتیں پیغمبر اسلام (ص) کے خاندان کے علاوہ کسی اورمیں موجودہوسکتی ہیں؟!

خداکی قسم! ان کی نفسانی خواہشات نے انھیں جھوٹ بولنے پر مجبورکیاہے اورباطل تصورات نے انھیں منحرف کیا ہے۔

انہوںنے بلندیوں پر قدم رکھااورآخرکاران کے قدم ڈگمگائے اوروہ پستیوں میںجاگرے ہیں۔انہوںنے اپنی گمراہ کن اورپریشان عقلوں سے امام منتخب کرناچاہالیکن دوری،گمراہی اورانحراف کے علاوہ انھیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔

انہوںنے خدائے متعال،رسول خدا (ص) نیزآپ کے اہل بیت )علیہم السلام) کے انتخاب کے علاوہ خودانتخاب کرنا چاہا،جبکہ قرآن مجید،ان کے لئے یوں فرماتا ہے:<وربّک یخلق مایشاء ویختارماکان لھم الخیرة>”تیرا پروردگارجسے چاہتاہے خلق کرتاہے اورمنتخب کرتاہے،ان کے لئے انتخاب کا حق نہیں ہے،وہ اس بات سے منزّہ وپاک ہے کہ جس کالوگ اسے شریک قراردیتے ہیں“)خدائے متعال مزیدفرماتاہے:)<وما کالمؤمن ولا مؤمنة إذ قضی اللّٰہ و رسولہ اٴمراً اٴن یکون لھم الخیر من اٴمرھم۔۔۔>”اورکسی مؤمن مردیا عورت کواختیار نہیں ہے کہ جب خداورسولخداکسی امر کے بارے میںفیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امورکے بارے میں صاحب اختیار ہو جائے“

پس وہ کیسے امام کو انتخاب کرسکتے ہیںجبکہ امام ایک ایسادانشور ہے جس کے حدود میں نادانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔وہ ایک ایساسرپرست ہے،جس میں خوف اورپلٹنے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔وہ تقدس،پاکیزگی،زہدواطاعت،علم و عبادت کامرکزہے،پیغمبر اسلام (ص) کی دعائیں حضرت فاطمہئ بتول کی پاکیزہ اولادسے مخصوص ہے۔ وہ یہ کہ اس مقدس سلسلہ میں عیب جوئی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اورکوئی بھی خاندانی شرف اس کے برابرنہیں ہے۔وہ خاندان قریش وہاشم اور پیغمبراسلام (ص) کی عترت سے ہیں جو خدا کے پسندیدہ ہیں۔وہ اشراف الاشراف عبد مناف کی اولادسے ہیں۔وہ علم وآگہی کے وارث اور مکمل بردباری کے مالک ہیں۔رہبری میں قدرتمنداورسیاست سے آگاہ ہیں۔خداکے حکم کے مطابق ان کی اطاعت کرنا واجب ہے۔وہ امرخداپرسختی سے قائم،نیزخدائے متعال کے بندوں کے حق میںخیرخواہ اوردین کے محافظ ہیں۔

خدائے متعال نے انبیاء اورائمہ کوتوفیق عطا کی ہے اوراپنے علم وحکمت کے خزانہ سے جوچیزدوسروں کونہیں دی ہے، وہ انھیںعطاکی ہے۔اس لحاظ سے ان کی عقل اپنے زمانہ کے لوگوں کی عقلوں سے افضل ہے کہ خدائے متعال نے فرمایاہے:<افمن یھدی إلی الحقّ…>کیا جو حق کی طرف ہدایت کرتاہے و ہ اطاعت کے لئے زیادہ شائستہ و سزاوار ہے یاوہ جوخود راہنمائی کے بغیرراستہ پر گامزن نہیں ہے؟تم لوگوں کوکیا ہواہے؟کیسے حکم کرتے ہو؟خدائے متعال فرماتاہے<ومن یؤت الحکمة۔۔۔>” جسے حکمت دے دی گئی ہے اس نے بہت سی نیکیاں پالی ہیں۔“طالوت کے بارے میںخدائے عزّوجل کافرمان ہے:<إنّ للّٰہ اصطفائ علیکم۔۔۔>انہیں اللہ نے تمھارے لئے منتخب کیاہے اورعلم وجسم میںوسعت عطافرمائی ہے اوراللہ جسے چاہتا ہے اپناملک عطاکرتا ہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہے اورصاحب علم بھی۔

)خدائے متعال نے)اپنے پیغمبر (ص) سے فرمایا:<واٴنزل اللّٰہ علیک الکتاب والحکمة۔۔۔>”اوراللہ نے آپ پر کتاب اورحکمت نازل کی ہے اورآپ کوان تمام باتوں کاعلم دے دیا ہے کہ جن کاآپ کوعلم نہ تھا،اورآپ پرخداکابہت بڑافضل ہے“۔اوراہل بیت اطہاراورعترت پیغمبر (ص) کے ائمہ کے بار ے میںفرمایا:<اٴم یحسدون النّاس علی ماآتاہم اللّٰہ من فضلہ۔۔۔>”یاوہ ان لوگوں سے حسدکرتے ہیںجنھیں خدانے اپنے فضل وکرم سے بہت کچھ عطا کیاہے توپھر ہم نے آل ابراھیم(علیہ السلام)کوکتاب وحکمت اورملک عظیم عطا کیاہے۔پھران میں سے بعض ان پر ایمان لے آئے اوربعض نے انکارکردیااوران کے لئے جہنم کی دھکتی ہوئی آگ ہے۔“

حقیقت میںجب خداوند متعال اپنے کسی بندہ کواپنے بندوں کے امورکی اصلاح کے لئے منتخب کرتاہے،تواس کے سینہ میںوسعت عطا کرتاہے،اس کے دل میں حکمت کے چشمے قراردیتاہے اوراسے ایک ایسے علم سے نواز تاہے کہ اس کے بعدکسی سوال کا جواب دینے میںعاجز نہیں ہوتااورراہ حق سے منحرف نہیں ہوتا ہے۔پس اس )امام)معصوم کو خدائے متعال کی طرف سے توفیق اور تائیدحاصل ہوتی ہے۔ہرقسم کی خطا،لغز ش اورفروگذاشت سے محفوظ ہوتاہے۔خدائے متعال نے اسے ان صفات کا امتیازبخشاہے تاکہ وہ اس کے بندوں پر حجت اور اس کی مخلوقات پرگواہ رہے اوریہ بخشش وکرم خدا کی طرف سے ہے وہ جسے چاہتاعطا کرتا ہے اورخداوند متعال بڑا کریم ہے۔

کیالوگوں میںیہ طاقت ہے کہ اس قسم کے کسی شخص کا انتخاب کریں یاان کا منتخب کردہ نمائندہ اس قسم کا ہو؟بیت اللہ کی قسم! ان لوگوں نے حق سے تجاوزکیا ہے اور نادانی کی صورت میں کتاب خدا سے منہ موڑلیاہے،جبکہ ہدایت اورشفاکتاب خدا میں ہے۔انہوں نے کتاب الہٰی کوچھوڑکراپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کی ہے۔ خدائے متعالی نے بھی ان کی مذمت کی اورانھیں دشمن قراردیتے ہوئے قعر مذلت میں ڈال دیااورفرمایا:<ومن اٴضلّ ممن ہواہ بغیر ہدی من اللّٰہ۔۔۔>”اوراس سے زیادہ گمراہ کون ہے جوہدایت الہی کے علاوہ اپنی خواہشات کااتباع کرلے جبکہ اللہ ظالم قوم کی ہدایت کرنے والا نہیں ہے۔“اورفرمایا:<فتعساً لہم واٴضلّ اعمالہم۔۔۔>”وہ نا بود اور ھلاک ہو جائیں اوران کے اعمال برباد ہو جائیں۔“اورفرمایا:<کبر مقتاً عنداللّٰہ۔۔۔>

”وہ اللہ اورصاحبان ایمان کے نزدیک سخت نفرت کے حقدار ہیں اوراللہ اس طرح ہرمغروراورسرکش انسان کے دل پرمہر لگاتا ہے۔“خدا کی بے شماررحمتیں اور درودوسلام حضرت محمد اوران کے خاندان پر۔

 

_______________

۱-البھجتہ المرضیتہ،مکتبتہ المفید،ج۲،ص۵-۶

2۔چونکہ ہرگناکبیرہ یاصغیرہ کیفرالہٰی کامستحق ہے،اس لئے گناہ گار گناہ کے ذریعہ اپنے اوپرظلم کرتاہے۔

3۔تفسیر المیزان ،ج۱،ص۲۷۷،دارالکتب الاسلامیہ۔

4۔انعام/۳۸

5۔مائدہ/۳

6۔بقرہ/۱۲۴

7۔انبیاء/۷۳۔۷۲

8- آل عمران/۶۸

9۔نمل/۲۴

10۔قصص/۶۸

11۔احزاب/۳۶

 


source : http://www.makarem.ir/persian/library/book.php?bcc=30915&itg=56&bi=366&s=ct
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تقدیرات الہی ، سچّے اعتقاد اور صحیح خود باوری کا ...
امام کی شناخت کا فلسفہ(پھلا حصہ)
حضرت عباس علیہ السلام کا شہادت نامہ
ولادة أمير المؤمنين علي ( عليه السلام )
ناصرہ ولایت حضرت زھراء سلام اللہ علیہا
حدیث غدیر
ماہ رمضان ، عظیم ترین مہینہ
دھشتگردی سے مجالس حسینی کو بچانے کے لیے اہل بیت(ع) ...
تیرہ رجب
نبوت و امامت باہم ہیں

 
user comment