اردو
Tuesday 23rd of April 2024
0
نفر 0

اسلامی اتحاد کو برپا کرنے کے لئے پیغمبر اکرم (ص) کے مہم اور قیمتی طریقہ کار پر ایک نظر

 

مقدمہ

اس طریقہ کار میں وحدت اسلامی کو عقومی جامہ پہنانے میں پیغمبر اکرم (ص) کے کردار کا جائزہ لیا جائے گا۔ آپ کا یہ طریقہ کار مسلم سماج کو متحد کرنے میں ایک بہترین سبب شمار کیا جاسکتا ہے۔

ایک کلی تقسیم کے مطابق امت اسلامی میں اتحاد کی داغ بیل ڈالنے کے سلسلے میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے کردار کو تین بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: اول : اس زمانہ کے عربی معاشرہ کے حالات کی جستجو، اورضروری زمینہ سازی کیلئے ”سیاسی“ اسباب کا استعمال۔ دوم : تمام مسلمانوں کو امت واحدہ کے پیرایہ میں ڈھالنے کے لئے مسلمانوں کی فکری بالیدگی اور فہم کی ارتقائی فضاء کو ایجاد کرنا۔ سوم : پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ان طریقوں کو اپنانا جن کو آپ اسلامی اتحاد کے قائم کرنے میں وسیلے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔

مذہبی اورقومی طریقے

الف : قومی اور ایمانی اتحاد کی فضاہموار کرنا

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) مختلف گروہوں کے ساتھ معاہدے کرنے کے بعد مدینہ میں داخل ہوئے، ان معاہدوں کواس زمانہ کے معاشرہ میں اسلامی اتحاد کو قائم کرنے کیلئے بہترین اسباب میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

مدینہ کا عام عہدنامہ : ان معاہدوں میں سب سے پہلا اور مہم معاہدہ وہ تھا جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ)اور یثرب کے قبیلوں کے درمیان طے پایا، بعض لوگ اس کودنیا کا سب سے ”پہلالکھا ہوا اساسی قانون“ سمجھتے ہیں۔دینی اور قومی اتحاد کو قائم کرنے کیلئے یہ ایک بہترین تدبیر تھی کیونکہ یہ معاہدہ جنگ میں مشغول قبیلوں میں اتحاد ، یہودیوں اور مہاجر مسلمانوں کے سماجی حقوق کا ضامن تھا۔نیزیہ بھی کہ یہ معاہدہ ایک سیاسی اور حکومتی اتحاد کو تشکیل دینے کی فضا ہموار کررہا تھا۔

مثال کے طور پر مسلمانوں کے اس معاہدے میں واضح طور سے لکھا گیاتھا کہ مسلمان ایک امت واحدہ ہیں غیر مسلم ان میں شامل نہیں ہیں: (انھم امة واحدة من دون الناس) ، مسلمانوں اور کافروں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے اور مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے سے جدائی نہیں ہونا چاہئے ۔اگر چہ ان معاہدوں کی روح و روان ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی وہی روش تھی جس کو آپ اسلامی معاشرے میں اتحاد بین المسلمین کے لئے بطور وسیلہ استعمال کرتے تھے ، اسی وجہ سے اس معاہدے کے تمام موارد اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں، ہم یہاں پر ان میں سے کچھ موارد کو بیان کریں گے(۱)۔

مسلمان ظلم ، تجاوز، فتنہ اور فساد کے مقابلہ میں ایک دوسرے کے ساتھ متحد رہیں گے۔

کوئی بھی مومن تمام مومنین کی مرضی کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ میں صلح نہیں کرے گااور صلح سب کے لئے جاری ہوگی۔

تمام گروہ(جو جنگ میں مشغول ہیں) بالترتیب جنگ کیلئے جائیں گے اور ایک گروہ کو جنگ (ایک جنگ کے بعد فورا دوبارہ اس گروہ کو نہیں بھیجا جائے گا) کرنے پر مجبور نہیں کیاجائے گا۔

”ذمةاللہ“ (اللہ کی ذمہ داری) میں سب لوگ برابر کے شریک ہوں گے۔

اگر مسلمانوں میں کوئی اختلاف ہوجائے تو اس کو خدا اور پیغمبر اکرم حل کریں گے۔

جو شخص مقروض ہو یا اس کا قرض زیادہ ہو تو مسلمان اس کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے بلکہ اس کی مدد کریں گے۔

اس تاریخی عہد نامہ کے دوسرے حصہ میں جو کہ مدینہ کے یہودیوں سے خطاب ہے اس میں بہت سے ایسے امور کو پہلے سے بیان کیا گیاہے کہ جس کی طرف توجہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) وحدت قومی کو قائم کرنا چاہتے ہیں:

مسلمان اور یہودی امت واحدہ ہیں، اور ایک ملت کی طرح مدینہ میں زندگی بسر کریں گے اور ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے دین پرقائم ہوگا۔

جن یہودیوں سے عہد و پیمان کیا گیا ہے ان کی مدد کی جائے گی اور جب مسلمان ان کو مصالحت کی دعوت دیںتو یہودیوں کو قبول کرنا ہوگا۔

دونوں گروہ ایک دوسرے کی مدد سے یثرب پر حملہ آوروں سے جنگ کریں گے۔

دونوں گروہ کسی کافر کواجیر(اجرت پر کام کیلئے) نہیں بنائیں گے، مگر جب دونوں گروہ کی مصلحت اسی میں ہو۔

بہر حال ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دینی اور قومی حساسیت کو ایجاد کرنے کیلئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بتائے ہوئے بہترین طریقوںکو اسلامی اتحاد قائم کرنے کیلئے موثرترین طریقوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

ایمانی اتحاد کومحکم کرنا: پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اس کے بعد بھی مسلمانوں میں ایمانی اتحاد کو محکم کرنے کیلئے ہمیشہ اس موضوع کی تاکید فرمائی۔ فتح مکہ کے بعد اور مسجد الحرام میں آپ کی بعض خطبات کو اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

”المسلم اخ المسلم والمسلمون ھم ید واحد علی من سواھم تتکافوا دمائھم یسعی بذنبھم ادناھم“(۲)۔

ایسی مشترک دینی حس کوبیدار کرنا اور مومنین کے درمیان مذہبی ہمبستگی ایجاد کرنا آپ کی طرف منسوب خوبصورت کلام میں اچھی طرح دیکھی جاسکتی ہے : ”المومنون کنفس واحدة“۔

البتہ نور کی ان شعاؤں کا عکس انسانی اور الہی روح رکھنے والے مومنین کے نفوس میں موجود رہے گا جس کو شاعر کہتا ہے:

جان حیوانی ندارد اتحاد تو مجو این اتحاد از روح باد

جان گرگان و سگان از ہم جدا ست متحد جان ھای شیران خداست

ب: اخوت اور بھائی چارگی کا رشتہ

اجتماعی ارتباط کی پیدائش : پیغمبر کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مدینہ میں داخل ہونے کے بعدسب سے پہلے اسلامی اتحاد کو ایجاد کرنے کیلئے جو اہم کا م انجام دیا وہ مسلمانوں(مرد اور عورتوں) کے درمیان عقد مواخات تھا:جس کو شاعر اس طرح بیان کرتا ہے:

دو قبیلہ اوس و خزرج جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسہ تھے

اسلام اور پیغمبر اکرم کی وجہ سے ان کی قدیمی دشمنی ختم ہوگئی

اور وہ آپس میں اس طرح بھائی بھائی ہوگئے جس طرح ایک انگور کے خوشہ کے تمام انگورہوتے ہیں۔

اور وہ ”المومنون اخوة“ کے نعرہ سے ایک جان کی طرح ہوگئے۔

رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ)ایک عام مجلس میںارشاد فرماتے ہیں: ”تآخو فی اللہ اخوین اخوین“(۳)۔

یہ عقد اخوت صرف قومی اورخاندانی تعصبات کی نفی کی بنیاد پر تھا بلکہ حق و حقیقت کے محور اورایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے کی وجہ سے تھا: ”انما المومنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم واتقوا اللہ لعلکم ترحمون“ (سورہ حجرات آیت ۱۰)۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ایک مہاجر اور ایک مدینہ کے رہنے والے شخص کے درمیان عقد اخوت قائم کیا اور ایک تاریخی حوالے سے آپ نے حضرت علی (علیہ السلام) کو دنیا و آخرت میں اپنا بھائی بنایا: ” انہ منی و انا منہ“۔

بہرحال آپ کا یہ مدبرانہ ارادہ اس زمانہ کے معاشرہ میں محبت و الفت قائم کرنے کیلئے کارآمد ترین وسیلہ ثابت ہوا جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی اجتماعی تعلقات کو ایجاد کرنے کی کوششوں کو ایمان اور خدا محوری کی بنیاد پر آشکار کرتا ہے۔

امیدوں سے بھرے معاشرہ کو تشکیل دینے میںالہی محبت: پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے مطلوب معاشرہ سے مراد ایسا نظام ہے کہ جس کے تمام اعضاء توحیدپرست اور ایک دوسرے کے بھائی ہوں۔ اور یہ تمام موظف ہیں کہ اس مواخاة کو باقی رکھیں تاکہ عزیز و حکیم خدا بھی اپنی قدرت کے ذریعہ الفت، محبت اور وحدت کی راہ کو ہموار کردے اور اس طرح سماجی سمجھوتے کی بنیادیں محکم ہوجائیں۔

دیانت کے محور و ملاک اور ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارگی سے دوچار ہیں اور مکلف ہیں کہ اس کو ہمیشہ قائم رکھیں تاکہ خداوند عالم بھی ان کے دلوں میں الفت ومحبت اور وحدت کو(اپنی قدرت سے) مستحکم کردے اور اس طرح اسلامی معاشرہ کی اجتماعی سوچ و فکر محکم ہوجائے:

و ان یریدوا ان یخدعوک فان حسبک اللہ ھو الذی ایدک بنصرہ و بالمومنین۔ و الف بین قلوبھم لو انفقت ما فی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم ولکن اللہ الف بینھم انہ عزیز حکیم (سورہ انفال، آیت ۶۲ اور ۶۳)۔

آیات الہی کے پیش نظر ، اجتماعی الفت کے قائم ہوئے بغیرمعاشرہ کی بات نہیں کی جاسکتی، دوسرے یہ کہ اس امر کو محقق کرنا صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔ تیسرے یہ کہ مومنین بھی اس بات پر قادر ہیں کہ اجتماعی وحدت کے مقدمات کو فراہم کریں(۴)۔

قبائل کے درمیان بھائی چارگی پیدا کرنے کے لئے خدائے پاک کا سچا کلام کتنا واضح ہے : ”واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا واذکروا نعمة اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا․․․“۔ (سورہ آل عمران، آیت ۱۰۳)۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی آرزوؤں والا معاشرہ جس میں اخوت و برادری کی لہرموجیںمار رہی ہے ، یہ ایسا معاشرہ تھا جو کفر پر شدت اور ایمان پر رحمت کے معیا قائم تھا یعنی ”محمد رسو اللہ و الذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم“ (سورہ فتح، آیت ۲۹)۔

ایسا معاشرہ جو ایک پ یکر کی طرح ہے اور اس کے تمام افراد ایک وحدت بخش ارتباط کے ذریعہ ایک دوسرے کے ساتھ پایدار ہیں اور ان کے عشق و ایمان کی مذہبی روح ان کی روح و روان میں بس گئی ہے: ” مثل المومنین فی توادھم و تراحمھم و تعاطفھم کمثل جسد واحد اذا اشتکی منہ عضو تداعی لہ سائر الاعضاء بالسھر والحمی“ (۵)۔

اجتماعی ظرفیت سے فائدہ اٹھانا: پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے انصار و مہاجرین کے درمیان عقید اخوت باندھ کر عربی معاشرہ کے ایک خاص قانون سے امت واحدہ کے اہداف کو محقق کرنے کیلئے بہترین فائدہ اٹھایا ، اور پیغمبر کی اس ظاہری کامیابی نے نہ صرف ابوسفیان جیسے افراد کو تعجب میں ڈال دیا بلکہ اس اسلامی مساوات و برابری کے آثار و نتائج نے ایک دوسرے کے اموال کو بھی آپس میں بانٹ دیا۔ مورخین نقل کرتے ہیں کہ مہاجر و انصار کی بھائی چارگی کے عہد وپیمان، ان کی میراث تک کو شامل ہوگیا اور یہی چیز ”بنی النضیر“ کے غنائم جنگی تقسیم کرتے وقت پیش آیا۔

بہر حال تاریخ اسلام کے تمام واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مسلمانوں کی صفوں میں افتراق سے بچنے کیلئے وحدت اسلامی کے وسائل سے فائدہ اٹھایا اور یہ قرآن کریم کا کھلا ہوا حکم تھا : ولاتکونواکالذین تفرقوا و اختلفوا․․․(سورہ آل عمران، آیت ۱۰۵)۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ)وحدت کو ایجاد کرنے میں پوری کوشش کرتے ہیں اور چونکہ وحدت کی آرزو کو الہی رسالت کی ایک ذمہ داری سمجھتے ہیں اور مومنین میں تفرقہ سے آپ کو بہت رنج وغم ہوتا ہے ، لہذا اس راستہ میں آپ اپنی پوری کوشش کرتے ہیں: ”لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رؤف رحیم“(سورہ توبہ، آیت ۱۲۸)۔ اور شاید اسی وجہ سے آپ نے فرمایا: ”مااوذی نبی مثل ما اوذیت“(۶)۔

محبت اور ہمدلی کے راہیں: ”اصلاح ذات البین“ کا موضوع اور اس سلسلے میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی نصیحتیں بھی آپس میں بھائی چارگی ایجاد کرنے کے اسباب شمار ہوتے ہیں :”و فی الخبرعن ابی ایوب قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ: یا با ایوب الا ادلک علی صدقہ یحبھا اللہ و رسولہ قال: بلی۔ فقال رسول اللہ: تصلح بین الناس اذا تفاسدوا․․․ و فی راویة تسعی فی صلاح ذات البین اذا تفاسدوا و تقرب بینھم اذا تباغضوا“(۷)۔

اور نقل ہوا ہے کہ آیہ اخوت کے متعلق پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ)سے سوال ہوا، آپ نے فرمایا: لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کرانے والے کی مزدوری راہ خدا میں جہاد کرنے والے کی مزدوری کے برابرہے(۸)۔

ان طریقوں میں سے ایک طریقہ جس کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ)”اصلاح ذات البین“ کے عنوان سے بدر کے غنائم جنگی کو تقسیم کرتے وقت استعمال کرتے ہیں ، مشاہدہ کرتے ہیں ۔ غنائم کو تقسیم کرنے میں کسی خاص قانون کا نہ ہونا اور اس وقت کے مسلمانوں کے درمیان کامل طور سے اخلاقی اور تربیتی آمادگی کا فقدان ایسے اسباب تھے جو اسلامی معاشرہ کی وحدت میں خلل ایجاد کر سکتے تھے اسی وجہ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) ، امور کی اصلاح اور ملت کی وحدت کو محفوظ کرنے پر مامور ہوئے اور مومنین کی بھی ذمہ داری تھی کہ وہ ہمدلی و بھائی چارگی کی رعایت کرتے ہوئے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی پیروی کریں: ”فاتقوا اللہ و اصلحوا ذات بینکم و اطیعوا اللہ و رسولہ ان کنتم مومنین“۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اختلاف کو اس طرح ختم کیا کہ مسلمانوں کی دینی وحدت میں کوئی شگاف پیدا نہ ہوا، جیسا کہ مورخین نے نقل کیا ہے کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مال غنیمت میں سے اس گروہ کو بھی محروم نہیں کیا جو جنگ میں شریک نہیں تھا۔(۹)۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ)جنگ بدر کے شروع ہونے سے پہلے بہت سے مہاجرین کی حمایت کے ہوتے ہوئے انصار کی علان حمایت کے منتظر تھے ، کیونکہ انصار نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ)سے اپنی قرار داد میں شہر مدینہ کے اندر دفاع کرنے کا وعدہ کیا تھا نہ کہ بیرون مدینہ جنگوں میںشرکت کرنے اور جنگ کرنے کا۔ لہذا آپ مدینہ سے روانہ ہونے سے پہلے انصار کی رائے کے منتظر تھے اور ان کی مدد سے مطئین ہو کر آپ جنگ کے لئے روانہ ہوئے۔

اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ)سماجی روایتوں کی رعایت کرتے تھے اور زمانہ کے سیاسی حالات کا خیال رکھتے تھے(۱۰)۔

تفرقہ کی جگہ فوقیت : جنگ احد میں ہی دوسرا واقعہ جو اسلامی اتحاد پر شاہد ہے اور جس کا حکم قرآن کریم نے صاد رفرمایا تھا اور وہ یہ تھا جو مسلمان جنگ سے بھاگے ہوں گے یاانہوں نے جنگ میں شرکت نہیں کی تھی ان کو ملامت نہ کریں اور معاف کردیں، اور ان کو اسلامی معاشرہ میں مدد کرنے کی ترغیب دلائیں کہ یہ لوگ اسلامی سماج کا حصہ بن جائیں اور ان کی روحی تربیت اور اصلاح کریں”فاعف عنھم و استغفرلھم و شاورھم فی الامر․․․“(آل عمران،آیت ۱۵۹)۔

ایسے پسندیدہ ارادہ کا اصلی محرک ، امت اسلامی کا سیاسی اتحاد اور آپس میں بھائی چارگی قائم کرنا تھاتاکہ اس کے ذریعہ میدان جنگ سے بھاگے ہوئے مسلمانوں کو ملامت کرنے کی وجہ سے وجود میں آنے والے اختلاف کا سد باب کیا جاسکے۔

اسی جنگ کا ایک اور واقعہ جس کو مورخین نے اس طرح نقل کیا ہے کہ ایک ایرانی مسلمان نے دشمن کی فوج پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا : ”خذھا و انا الغلام الفارسی“ (میرے وارسنبھالو، میں ایک ایرانی جوان ہوں)لیکن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اس کو غصہ کی نظروں سے دیکھا اورفرمایا کہ یہ کیوں نہیں کہتے ہو کہ میں ایک انصاری جوان ہوں؟ اس سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر نے اس کے ذریعہ قومی تعصبات کو بھی ختم کردیا اور اسلام کی صفوں کو قومی تعصب سے محفوظ رکھا اور قوم و قبیلہ کے افتخار کے معیار کو دین و مکتب اور توحید کے معیار کی طرف پلٹا دیا۔

اس طرح آنحضرت اجتماعی فوقیت کو برقرار رکھنے کیلئے اور تفرقہ سے دوری اختیار کرنے کیلئے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے یہاں تک کہ مسجد ضرار کو خراب کرنے کے واقعہ میں اجتماعی فوقیت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔

قومی اتفاق کی حفاظت : مسجد ضرار کو ویران کرنے میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی سیاست یہی تھی کہ اسلامی معاشرہ میں سیاسی شگاف ظاہر نہ ہو اور قومی اتفاق کو کوئی ضرر نہ پہنچے۔

اسی وجہ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنی آخری وصیتوں میں بھی امت اسلامی سے اس طرح کہا ہے: ”ایھا الناس اسمعوا قولی واعقلوہ، اعلموا ان کل مسلم اخ للمسلم و ان ھذا․․․اور پھر خطبہ کے آخر میں بھی یہی فرمایا: ․․․ ایھا الناس اسمعوا قولی و اعقلوہ، اعلموا ان کل مسلم اخ للمسلم و ان المسلمین اخوة“(۱۱)۔

۲۔ قومی اور وطنی راہ حل

الف : نژاد پرستی اور ملی گرائی کی نفی

امت اسلامی کی بنیاد رکھتے ہوئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے دوسرے جن راستوں سے استفادہ کیا ان میں سے ایک قوم پرستی کی نفی اوربے جااور ناپسندتفریق تھی۔

جاہلیت کے اقدار کو ختم کرنا: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کا لوگوں کو غلامی کی زنجیر سے اس وقت آزاد کرانا جب آپ کی سیاسی اور اجتماعی قدرت روز بروز زیادہ ہوتی جارہی تھی، اتحاد کیلئے بہترین شاہد ہے ۔اس زمانے کے آشکار ظلم کے سامنے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی عدالت خواہی کی یہ ایک بے نظیر مثال ہے۔ کیونکہ پیغمبر اکرم ایک دینی ترقی پسند اور کامیاب سماج کی بنیاد رکھ رہے تھے: ”الا ان حزب اللہ ھم المفلحون“ (سورہ مجادلہ، آیت ۲۲)۔اور آپ نے یہ بھی قرآن سے حاصل کیا کہ کامیابی اور سعادت ، ظلم و شقاوت کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی: ” انہ لا یفلح الظالمون“۔(سورہ انعام، آیت ۳۵)۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) جب مکہ میں زندگی بسر کرہے تھے اس وقت آپ کی کوشش یہ تھی کہ زمانہ جاہلیت کے جو قوانین اس وقت کے معاشرہ پر حاکم ہیں ان کو ختم کیا جائے ۔ اس زمانہ میں غلام اور کنیزیں اپنے مالکوں کی اجازت کے بغیرکسی بھی اجتماعی کاموں میں شرکت نہیں کرسکتے تھے ۔ غلاموں کو اپنے دینی عقاید قبول کرنے یا قبول نہ کرنے میں کوئی اختیار نہیں تھا۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توحید اور دینی تعلقات کی فضیلت کی طرف دعوت اور توحیدی سماج کی محبت سبب بنی کہ ظالموں کی اس تبعیض کے ختم ہوجانے کا زمینہ فراہم ہوجائے، جاہلیت کے نسبی تعلقات کا معیار ختم ہوجائے اور لوگ بغیر کسی قومی تعصب کے نئے دین کو قبول کرلیں: ”لاعصبیة فی الاسلام“۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی محنتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے خاندان مسلمان ہوگئے اور بہت سے قبیلوں نے مشرکین اور ان کے اس ظالم نظام کو قبول کرنے سے سرپیچی کی اور اس کے بعد مومنین کی صفوں میں کھڑے ہوگئے ، اس طور طریقہ نے ”اہمیت اور اجتماعی“ تاثیر گذاری کے علاوہ ان کے دلوں میں امید کی کرن پیدا کردی اور مشرکین کے دلوں میں وحشت و اضطراب اور ان کے موجودہ اصول و قوانین کو نیست و نابود کردیا اس طرح سے پہلا نظام ختم ہوا اور دوسرا نیا نظام وجود میں آیا۔

توحیدی مساوات کی اہمیت : اس کے بعد پیغمبر کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے حکم دیتے ہوئے یا نصیحت و ارشاد کرتے ہوئے مسلمانوں کی رہنمائی کی کہ وہ غلاموں کو آزاد کردیںاور خود بھی ایسا ہی کرتے تھے اور یہ خدا کا حکم تھا کہ اپنے اوپر، آخرت اور پیغمبروں کے اوپر ایمان کو مال کے ذریعہ انسانوں کو آزاد کرانے کے برابر قرار دیا : ” ولکن البر من آمن باللہ والیوم الاخر و الملائکة والکتاب والنبیین واتی المال علی حبہ ذوی القربی و․․․ و فی الرقاب و․․․“( سورہ بقرة، آیت ۱۷۷)۔

آنحضرت نے ”زید بن حارثہ“ جیسے افراد کو اسلام کی فوج کا کمانڈراور ”بلال حبشی“ کو اپنا مخصوص موذن بنایا اور ایرانی ”سلمان فارسی“ کی تجلیل و تکریم کی اور ان کو بہت بلند و بالا مقام عنایت فرمایا تاکہ اس طرح سے موجودہ تبعیض کے خلاف جنگ کریں: ”من اعتق موٴمنا اعتقہ اللہ العزیز الجبار․․․“ اور آہستہ آہستہ سماجی فضیلتوں اور منصبوں کا معیار تقوی قرار دیا: ”ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم“ (سورہ حجرات، آیت ۱۳)۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کھلے الفاظ میں اعلان کرتے تھے کہ وہ حبشی غلام اور یہ قریشی سید دونوںمیرے نزدیک برابر ہیں، اور اس طرح آپ کو توحیدی مساوات کا منادی سمجھاجاتا ہے: ”کلکم لآدم و آدم من تراب لیس لعربی علی عجمی فضل الا بالتقوی“ (۱۲)۔

بہر حال پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا عدالت و مساوات کی رعایت کرنا سبب بنا کہ اس وقت کا ظلم و جور کا خاتمہ اور تفریق کی جڑیں ختم ہوگئی اور اس کے ذریعہ سے اسلامی اتحاد ایجاد ہوگیا۔

تاریخی اور روائی کتابوں میں ملتا ہے کہ آنحضرت غلام اور آزاد میں کوئی فرق نہیں سمجھتے تھے اور خود بھی احکام کو جاری کرتے ہوئے مساوات وعدالت کے حق کا مزا دوسروں کو چکھا تے تھے یہاں تک کہ جب آپ مسلمانوں کے درمیان بیٹھتے تھے تو آپ کی جگہ شخص نہیں ہوتی تھی اور جب بھی مجلس میں بیٹھتے تھے تو جو لوگ پہلی مرتبہ آپ سے ملاقات کیلئے آتے تھے وہ مسلمانوں کے درمیان آپ کو پہچان نہیں پاتے تھے ، مساوات کی یہ چمک ، رسول رحمت کی آنکھوں سے بھی نمایاں ہوتی تھی : ”کان رسول اللہ یقسم لحظاتہ بین اصحابہ، ینظر الی ذا و ینظر الی ذا بالسویة“ (۱۳)۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے الہی آداب لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے موثر ثابت ہوتے ہیں، آنحضرت ایک واضح مثال میں فرماتے ہیں: ”ان الناس من عہد آدم الی یومنا ھذا مثل انسان المشط لا فضل للعربی علی العجمی ولا للاحمر علی الاسود الا بالتقوی“ (۱۴)۔

یہ سیرت ایک خاص درایت اور حسن تدبیر کے ساتھ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حکومت کے دوران بھی جاری و ساری تھی تاکہ ہمیشہ اپنے کردار کو اسلامی اتحاد کا ایک وسیلہ قرار دیں۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی کوشش تھی کہ جاہلیت کی تمام غیر مساوات بنیادوں کو منہدم کردیا جائے اور جاہلیت کے زمانہ کی طرف پلٹنے اورغیر الہی احکام کو پسند کرنے کو ناممکن بنادیا جائے: ”افحکم الجاھلیة یبغون․․․“ (سورہ مائدہ، آیت ۵۰)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ خود اس عظیم سماجی اخلاق کے آغاز کرنے والے ہیںاورآپ روح مساوات کو مضبوط کرنے اورعدالت انسانی کو برپا کرنے کے لئے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: ”ان اللہ یکرہ من عبدہ ان یراہ ممیزا بین اصحابہ“ (۱۵۹)۔

ان تمام باتوں سے نتیجہ نکلتا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ملی گرائی اورزمانہٴ جاہلیت کے تعصب کو ناپسند کرتے تھے۔اور جو لوگ اپنے حسب و نسب کو افتخار کا معیار قرار دیتے تھے آپ ان کو منع فرماتے تھے تاریخ اسلام میںایسے واقعات موجود ہیں:

ایک مرتبہ سلمان فارسی ، مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ و آلہ) میں بیٹھے ہوئے تھے، وہاںپر دوسرے اور صحابی بھی موجود تھے اس وقت وہاں پر اصل و نسب کی باتیں شروع ہوگئیں ہر کوئی اپنے حسب و نسب کے بارے میں بتا رہا تھا یہاں تک کہ سلمان فارسی سے سوال کیا، آپ نے کہا: انا سلمان بن عبداللہ، کنت ضالا فھدانی اللہ عز وجل بمحمد، کنت عائلا فاغنانی اللہ بمحمد و کنت مملوکا فاعتقنی اللہ بمحمد، اسی وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) مسجد میںداخل ہوئے اور سلمان نے پوری بات آپ کو بتائی ، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے قریش کے ان تمام لوگوں سے فرمایا: یا معشر قریش ان حسب الرجل دینہ و مروئتہ خلقہ و اصلہ عقلہ“ (۱۶)۔

اسی طرح دوسری روایت میںقومی تعصبات پر افتخار اور فخر فروشی کو جہنم کی آگ سے تعبیر کیا ہے : ” لیدعن رجال فخرھم باقوام انما ھم فحم من فحم جھنم“ (۱۷)۔

اسی طرح پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بہت سادہ زندگی کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم اجازت نہیںدیتے تھے کہ معمولی نقش و نگار والے پردے بھی گھر پر لٹکائے جائیں ، آپ کا یہ کام اس زمانے کے محروم انسانوں کے لئے بہترین مثال تھااور وحدت دینی کے لئے بہترین نمونہ تھا ، صحابہ سے نقل ہوا ہے : ”کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ خفیف الموٴونة“۔

پیغمبر کے کردار سے متعلق بہترین تعبیر وہی ہے جس کو امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے: ”مع قناعة تملا القلوب والعیون غنی و خصاصة تملا الابصار و الاسماع اذی“ (۱۸)۔

محرومین کی حمایت کرنا: قومی تعصبات کی نفی کرتے ہوئے محرومین اور بیچاروں کی حمایت کرتے تھے۔ یہ غلاموں او رکنیزوں کا وہ گروہ تھاجس کو اس وقت کے قوانین کے مطابق کسی قوم و قبیلہ کی حمایت حاصل نہیں تھی اور یہ لوگ تمام اجتماعی اور سیاسی حقوق سے محروم تھے ، زمانہ کی سیاسی مشکلات اور طرح طرح کی کمزوریوں کی وجہ سے ان لوگوں کو مستقل طور پر معاشرہ کو تشکیل دینے کا حق نہیں تھا۔

ایسے حالات میں پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کاتفریق اور قوم پرستی کی مخالفت کرنااور دوسری طرف محرومین کی حمایت کرنا اس بات کا سبب بنی کہ یہ گروہ، اسلام اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی طرف مائل ہوگیا، اس طرح لوگ کثیر تعداد میںرسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے سماجی اور سیاسی اتحاد کے پرچم تلے جمع ہوتے چلے گئے ۔ حقیقت میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اس اعلان کہ انسانی کرامت اور تقوی ہی فضیلتوں کا معیار ہے اور خود آپ کے اخلاق نے اسلامی اتحاد کو ایجاد کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔

حمایت اور جانبداری کے اس اعلان سے اس کو وسعت حاصل ہوتی رہی اور اس طرح آپ نے تھکے ہوئے اور ستمدیدہ افراد کی ایک مرکز کی طرف راہنمائی فرمائی، اس طرح دینی واتحاد کے ستونوں کو مستحکم کیا۔

ب : بیت اللہ کا کردار

تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے اسلامی اتحاد کے کچھ راہ حل نظر آتے ہیں جن سے اس زمانے کے حالات کے مطابق استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلہ میں خانہ کعبہ کی تاثیر اور اس سے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا وسیلے کے طور پر فائدہ اٹھانے کی کیفیت قابل ذکر ہے: ” ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة مبارکا و ھدی للعالمین“ (سورہ آل عمران، آیت ۹۶)۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مکہ کی موقعیت اور ایام حج کے زمانے سے جس وقت پورا جزیرة العرب وہاں آتا تھا فائدہ اٹھایا ، تاکہ اپنی توحیدی دعوت کو قبیلوں کے سرداروںاور خاندانون کے بزرگ افراد تک پہنچائیں۔ تاریخ کی کتابوں میں ”بنی حنیفہ“، ”کندہ“، ”بنی صعصہ“ اور ”کلب“ خاندانوں کے نام ملتے ہیں جن کو پیغمبرا کرم نے دعوت دی ، یہاں تک کہ یثرب کے لوگ اسی طریقہ اور موسم حج میں خانہ خدا کی زیارت کے وقت ، اسلام لائے : ”جعل اللہ الکعبة البیت الحرام قیاما للناس“ (سورہ مائدہ، آیت ۹۷)۔

اس کا نتیجہ اتنا کارگر ہوا ہے کہ اس نے کفار و مشرکین کوسوچنے پر مجبور کردیا۔یہی وجہ تھی کہ کفار قریش اور مشرکین مکہ مراسم حج سے پہلے میٹنگ کرتے تھے کہ کس طرح پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی دعوت کو عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے سے روک سکیں۔

ان کا سیاسی اور نفسیاتی نعرہ یہ تھا : ” و قالوا یا ایھا الذی نزل علیہ الذکر انک لمجنون“ (سورہ حج، آیت ۶)(۳۶)۔

مہم تو یہ ہے کہ ان کے اس پروپیکنڈہ میں قومی اور ملی تعصبات کی بو آتی تھی: ”و یقولون ائنا لتارکوا آلھتنا لشاعر مجنون“ اور کہتے تھے کہ کیا ہم ایک مجنون شاعر کی خاطر اپنے خداؤں کو چھوڑ دیں گے۔(سورہ صافات، آیت ۳۶)۔

۳۔ اجتماعی اور فردی راستے

الف : عربی تعصب اور مشترک حس

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنے اخلاق اور جاہلیت کے روحی خصوصیات سے استفادہ کرتے ہوئے توحیدی اہداف خصوصا اسلامی اتحاد کو کامیاب بنانے کیلئے اس راستہ سے بھی استفادہ کیا

اس زمانہ کے معاشرہ کی روحی حالت ، پورے سماج میں موجود تھی اور گذشتہ تاریخ سے ان کا رشتہ اتنا محکم تھاکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ ان قابلیتوں کا رخ مطلوب اور پسندیدہ مقصد کی طرف موڑ دیں اور ان میں نئے اخلاق کی آمیزش کردیں۔لہذا پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ وآلہ) نے دینی اتحاد کو ایجاد کرنے اور عربوں کی مشترک حس کو محکم کرنے کیلئے ان اخلاقی اور روحی امکانات سے فائدہ اٹھایا

تعصب اور عربی حمیت ، وعدوں کو وفا کرنا، شجاعت و دلاوری اور مہمان نوازی جیسی صفات جاہل عربوں کی نمایاں صفات سمجھی جاتی تھی : ” اذ جعل الذین کفروا فی قلوبھم الحمیة حمیة الجاھلیة․․․“ (سورہ فتح، آیت ۲۶)۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ)عرب سماج پر حاکم اقداری نظام کو اسلامی اقداری نظام کے سانچے میں ڈھالتے ہیں اور اسی طریقہ کار کو اسلامی اتحاد کا ایک راز جانتے ہیں۔ لہذا قوم و قبیلہ کا تعصب، روساء اور بزرگان قبائل کے مقام کی رعایت اور کسی گروہ کی حمایت کا رد عمل(کبھی تو یہ معاہدہ صریح ہوتا تھا اور کبھی کسی چیز کے ضمن میں)سبب ہوا کہ مختلف موقعوں پر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ) کی مدد کی جائے، بلکہ اگر اس کو اسلامی اتحاد کا علنی اور سیاسی زمینہ سمجھا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس سلسلہ میں آپ خود فرماتے ہیں(صلی اللہ علیہ و آلہ)فرماتے ہیں: ”مانالت منی قریش شیئا اکرھہ حتی مات ابوطالب“ (۲۹)۔

بہر حال ایسی بیعتیں نہ صرف داخلی حدود تک میں محدود تھیں بلکہ اکثر و بیشترقبایل عرب کے درمیان بھی انجام پاتی تھیں اور جاہلیت کے رسم و رواج کے مطابق اس وقت تک باقی رہتی تھیں جب تک ان کے ٹوٹنے کا اعلان نہیں ہوتا تھا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اسی روش کے مطابق دوسروں کو دعوت اسلامی دی اور اپنی زندگی میں متعدد گروہوں اور افراد کے ساتھ مختلف سمجھوتے انجام دئیے کہ جن کا مقصد صرف اتحاد اسلامی کے دامن میں وسعت پیدا کرنا تھا۔ ان میں سے عقبہ اولی، عقبہ ثانیہ کا معاہدہ، غزوہ بدر کی بیعت اور بیعت رضوان قابل ذکر ہیں۔

عربوں کی شجاعت اور دلیری ،عربوں کی فطری شیٴ تھی نیز طبیعی اور جغرافیای حالات بھی اسی چیز کے متقاضی تھے۔ لہذا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بطور مطلق اس کو مطرود اور مذموم نہیں سمجھا بلکہ اس خاص صفت کو بھی اصلاح کے راستہ اور صحیح و پسندیدہ امور میںاستعمال کیا اور بغیر کسی تردید کے عربوں کی مذکورہ صفت نے دس سال کے اندر ۸۰ سے زیادہ جنگوں میں بہادری اور شجاعت کامظاہرہ کرکے اسلامی حکومت کے پھیلانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بہت سی جنگوں میں اسلام کے سپاہیوں کی تمجید و تکریم کرتے ہوئے ان کی شجاعت و فضیلت کو عبادت اور تقوائے الہی سے مورد مقائسہ قرار دیتے تھے تاکہ عربوں کی اس صفت کو حد اعتدال میں رکھا جاسکے جیسے : ” ضربة علی یوم الخندق افضل من عبادة الثقلین“۔ دوسری طرف یہ بھی کہہ کر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ)عربوں کی مہمان نوازی کی تعریف کرتے ہیںجس کی وجہ سے بہت سے گروہ مسلمانوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) ، مسلمانوں کو سخاوت، بخشش اموال اور اپنے مال کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیتے ہیں: ”لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون“ (آل عمران، آیت۹۲)۔ اور خود فرماتے ہیں: ” فاحسنوا صحبة السلام بالسخاء․․․“ اسلامی معاشرہ کے پہلے دور میں آپ انصار سے کہتے تھے کہ مہاجرین کی حمایت کرواور مدنی مسلمان بھی اسی خاص اجتماعی فکر کی وجہ سے (جس نے اب دینی رنگ اختیار کرلیاہے)ایسا ہی کرتے تھے۔یہاں تک کہ انہوں نے مہاجرین کو اپنے گھروں میں پناہ دینے کیلئے قرعہ کشی وغیرہ شروع کردی: ”والذین تبوؤ والدار والایمان من قبلھم یحبون من ھاجر الیھم و لا یجدن فی صدورھم حاجة مما اوتوا و یوٴثرون علی انفسھم و لو کان بھم خصاصة و من یوق شح نفسہ فاولئک ھم المفلحون“ (سورہ حشر، ایت ۹)۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ان تمام چیزوں سے استفادہ کرنا سبب بنا کہ وحدت اسلامی روز بروز وسیع ہوتی گئی ، البتہ اسلام کے نزدیک ملتوں و قوموں کی تعداد کی نفی نہیں کی گئی ہے لیکن اسلامی معاشرہ کے عمومی اتفاق اور سیاسی وحدت میں جنگ واختلاف کو قبول نہیں کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ : ” انا خلقناکم من ذکر و انثی و جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا․․․“ (سورہ حجرات، آیت ۱۳)۔

چنانچہ باطل پرپابندی ، انسانی اور دینی اقدار سے پہلو تہی اور صرف قوم پرستی اور ملی گرائی پر تکیہ کرنے کو دین اسلام اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) قبول نہیں کرتے: ”لیس منا من دعی الی عصبیة“۔

ب : آداب اخلاقی

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ)اپنی رسالت کا بہترین اور عالی ہدف ، نیک اخلاق کو پورا کرنا اور انسان کے اخلاقی اور الہی فضائل کوپایہ تکمیل تک پہنچنا بتا تے ہیں: ”انی بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“ (۲۱)۔لہذا اسلامی اتحاد کا زمینہ فراہم کرنے کے لئے آپ کے با ارزش طریقہ کاروں میں سے ایک طریقہ کار آپ کا اخلاق کے عالی ترین مرتبہ پر فائز ہونا بھی شمار کیا جاسکتا ہے آپ کے شخصی اخلاق اور مخصوص آداب سے تاریخ کی کتابوں نے اپنے آپ کو مزین کیا ہے جیسا کہ قرآن مجید بھی اعلان کررہا ہے: ”و انک لعلی خلق عظیم“ (سورہ قلم، آیت۴)۔

پرکشش ملاقاتیں: پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا نرم اور جذاب اخلاق ہمیشہ معاشرہ میں دینی اتحاد ایجاد کرتا ، اختلاف اور جھگڑوں کو ختم کرتا اور پاک فطرت افراد کو اپنی طرف جذب کرتا تھا : فبما رحمة من اللہ لنت لھم و لو کنت فضا غلیظ القلب لانفضوا من حولک․․․(سورہ آل عمران، آیت ۱۵۹)۔

تاریخ اسلام کے ہلا دینے والے واقعات اس قدر آشکار اورگویا ہیں کہ جن کی ترجمانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے : ”الم نشرح لک صدرک“ (سورہ شرح، آیت ۱)ایک شخص بنام ”غورث بن الحارث“ ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے سامنے تلوار کھینچ کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا”من ینجیک منی“ (اب تمہیں کون بچائے گا)پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے کہا : ”اللہ“ وہ لرزہ براندام ہوگیا اور اس کے ہاتھ سے تلوار گرگئی ، اس کے بعد آنحضرت نے اس کو آزاد کردیا ، یہ شخص جہاں بھی جاتا تھا کہتا تھا: ”جئتکم من عند خیر الناس“ (۲۲)۔

حقیقت میں”اطھر المطھرین شیمة واجود المستمطرین دیمة․․․“(۲۳) کا عنوان صر ف آپ کو ہی زیب دیتا ہے ،آپ کا نیک اخلاق اوریہ اچھا برتاؤالہی تھا کہ جو آپ کو لوگوں کے لئے نمونہ عمل اور انسان کامل بنا دیتا ہے یہاں تک کہ آپ کی کرشمہ ساز محبت کی وجہ سے آپ کا سخت مخالف بھی مومنوں کی صفوں میں آکر کھڑا ہوجاتا ہے (۲۴)لہذا آپ کایہ الہی آداب ،اجتماع کا مرکز اوردلوںکے اتحاد کا محور قرار پایا ۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی فطری آواز ، حق کے پیاسوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی اور سماج میں اتحاد کی روح پھونکنے کے لئے یہ بہترین وسیلہ تھا:

دردل ہرامتی کز حق مزہ است روی و آواز پیمبر معجزہ ست

چون پیمبر از برون بانکی زند جان امت در درون سجدہ کند

خاندانوں میں رشتہ داری قائم کرنا : پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے مخصوص آداب کی فہرست میں سے خاندانوں میں رشتہ داری قائم کرنے کے فلسفہ کی طرف بھی اشارہ کیا جاسکتا ہے ۔

اس زمانہ کے معاشرہ میں خاندانی نظام اور اس کی عظمت کو دیکھتے ہوئے اجتماعی آثار کا تقضایہ تھا کہ آپ قبیلوں کے درمیان تعلقات، الفت اور اجتماعی وحدت کو ایجاد کریں ، قانونی حلف برداری کی وجہ سے خاندانوں کے درمیان ایجاد ہوئی رشتہ داریوں کو رسمی اور قانونی صورت دیدی جاتی ہے، جس کا وجود اسلام سے پہلے بھی ملتا ہے دو خاندانوں کے درمیان شادی ایسا ذریعہ تھا جو دشمنی کو دوستی میں تبدیل کردیتی تھی ، مثال کے طور پر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے خاندان بنی مصطلق کی ایک لڑکی ”جویریة بنت حارث“ سے شادی کی جس کی وجہ سے مسلمانوں نے اس کے قبیلہ کے باقی افراد کو آزاد کردیا اور آخر کار اس کا تمام خاندان مسلمان ہوگیا، یا آنحضرت کا حی بن اخطب یہودی بنی قریظہ کے سردار کی دختر صفیہ سے شادی کرناجس نے قیدی بننے کے بعد آزاد ہونے کے بجائے پیغمبر خدا کی شریک حیات بننے کو زیادہ پسند کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس خاتون کے ساتھ قبیلے کے دوسرے افراد بھی ایمان لئے آئے۔

۴۔ امت اسلامی اور دینی اتحاد

ہم اس بحث کورحمت نبوی کے زیر سایہ امت اسلامی کے وظائف کو ذکر کرتے ہوئے اسلامی اتحاد کے محقق ہونے تک جاری رکھیں گے:

پائیداری اور جہان ہستی کی حیات کا جوہر ”اتحاد“ ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام، انسانی دنیا میں خدا کی رحمت مطلقہ کو احیاء کرنے اور اس کی سرپرستی کے اوپر مامور ہوئے ہیں:

برگ و ساز کائنات از وحدت است

اندرین عالم حیات از وحدت است

(اقبال لاہوری)

محمد خاتم (صلی اللہ علیہ و آلہ)اتحاد کے پیغمبر اور رسول رحمت ہیں: ” وجعلنی رسول الرحمة و رسول الملاحم“ (۲۵)۔

خدا کی رحمت کی واسعہ آپ کے ساتھ ساتھ تھی : ”و اطیعوا اللہ و الرسول لعلکم ترحمون“ (سورہ آل عمران، آیت ۱۳۲)اور بشری امت آپ کی خاتمیت کا طواف کرتی ہے: ” ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسو ل اللہ و خاتم النبین“ (سورہ احزاب، آیت ۴۰)۔ اور ان سب کے علاوہ آپ کے وجود پر نور میں خدا کی رحمت کا چشمہ جوش مار رہا ہے : ” فبما رحمة من اللہ لنت لھم․․․“ (سورہ آل عمران، آیت ۱۵۹)۔

آپ کی ندائے وحدت اور وحدت طلبی کی آوازتمام انبیاء کی آواز ہے :

نام احمد نام جملہ انبیاء است

چون کہ صد آمد نود ہم پیش ما است

آپ وحدت اور رحمت الہی کے آخری پیغمبر ہیں ”آپ غایت کے اعتبار سے مقدم اور نوبت کے اعتبار سے موخر ہیں یعنی : ”لولاک لما خلقت الافلاک“۔

پس سری کہ مغز آن افلاک بود

اندر آخر خواجہ لولاک بود

با محمد بود عشق پاک جفت

بہر عشق او خدا لولاک گفت

اور اس طرح آپ کا وجود مبارک انبیاء علیہم السلام کے اس شجرہ طیبہ کے شاخ و برگ کو رنگ، بو، میوہ اور حیات ابدی عطا کرتا ہے اور آپ ہی کی خاتمیت کی وجہ سے نبوت الہی کا درخت با معنی ہوتا ہے: ” ما من بنی آدم و من سواہ الا تحت لوائی“ (۲۶) یعنی :

ہر چہ دارند اولیان و آخریان ہمہ از عکس اودارند و سایہ اویند!

آدم و نوح و خلیل و موسی و عیسی آمدہ مجموع در ظلال محمد

(سعدی)

اس کے بعد امت محمدی، ”امت مرحومہ“اور ”امت آخرون السابقون“ ہوگئی۔نیز آپ کے ہی وجود پر فیض سے خدا کی آخری منتخب قوم قرار پائی۔

اور بیشک امت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ)آپ کی رسالت کی دعوت کو پوری دنیا میں ایک امت الہی کے عنوان سے وسعت دینے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے کیونکہ : ”کنتم خیر امة اخرجت للناس․․․“ (سورہ آل عمران، آیت۱۱۰)اور ایسے لوگ خدا کے منتخب بندے ہیں اور ان کے علاوہ خسارت میں ہیں: ”ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ و ھو فی الاخرة من الخاسرین“ (سورہ آل عمران، آیت ۸۵)۔

امید ہے کہ ایک روز اسلامی وحدت ، اسلامی معاشرہ کے ارتباط کو ایک الہی امت قرار دے گی اور ”امت “ کی آواز ”خدا“ کی آواز ہوگی: ” واللہ یدعوا الی دارالسلام و یہدی من یشاء الی صراط مستقیم“ (سورہ یونس، آیت۲۵)۔وہ روشن اور چمکتا ہوا افق جس کو پیغمبر وحدت نے اسلام کی امت کے سجانے اور سنوارنے کیلئے آمادہ کیا تھا اور وہ اس بات کا سزاوار ہے کہ کہا جائے : ”فطوبی لک یا محمد ولامتک“ (۲۷)۔

آپ امت کے اتحاد کے اس راستے کو امت واحدہ کے وجود کا مقدمہ سمجھتے تھے کیونکہ امت واحدہ کا وجود اقامہ دین (تقوی اور عبودیت الہی) کے ہم پلہ شمار ہوتاہے : ”ان ھذہ امتکم امة واحدة و انا ربکم فاعبدون“ (سورہ انبیاء، آیت ۹۲)۔اس کے علاوہ آپ سلسلہ انبیاء میں دین حق کے قائم کرنے کو بھی اتحاد سے ہی جوڑتے ہیں۔: ” شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک ما وصینا بہ ابراہیم و موسی و عیسی ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ․․․“ (سورہ شوری، آیت ۱۳)۔

بیشک ”پیغمبر وحدت“ کی دینی اتحاد کی آواز پر لبیک کہنا آپ کی امت کی انسانی اور الہی حیات کو زندگی عطا کرے کے مترادف ہے : ” یا ایھا الذین آمنوا استجیبوا للہ و للرسول اذا دعاکم لما یحییکم“(سورہ انفال، آیت ۲۴) اور خداکایہ قطعی قانون ہے: ”یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و لا تبطلوا اعمالکم“ (سورہ محمد ، آیت ۳۳) ، ایسا قانون جس کی خلاف ورزی کرنے سے تباہی اور بربادی حتمی ہے: ” و من یعص اللہ و رسولہ فقد ضل ضلالا مبینا“ (سورہ احزاب، آیت ۳۶)۔

خلاف پیامبر کسی رہ گزید کہ ہرگز بہ منزل نخواہد رسید۔

پیغمبر اکرم کے خلاف جو بھی کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے گا وہ کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکے گا ۔

مپندار سعدی کہ راہ صفا

توان رفت جز بر پی مصطفی

(سعدی)

اور اس طرح امت واحدہ کو تمام راستوں پر فوقیت حاصل ہے : ”ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ و کفی باللہ شھیدا“ (سورہ فتح، آیت ۲۶)۔پھر چھپی ہوئی اس الہی حقیقت کو سوئے ہوئے ضمیروں میں جاری و ساری کیا” محمد رسول اللہ“ (سورہ فتح، آیت۲۹)۔

اورامت واحدہ حال سے لے کر آئندہ تک ایک اجتماعی ارادہ کا نتیجہ، ایک معمولی تمایل اور صبر و استقامات کا ایک نمونہ ہے” یا ایھا الذین آمنوا استعینوا بالصبر والصلواة ان اللہ مع الصابرین“ (سورہ بقرة ، آیت ۱۵۳۔

اور یہ ایسا سفر ہے کہ جس میں مقصد و ہدف سے زیادہ راستہ اور اندرونی سرمایہ، ارادہ کی ہماہنگی اور مسلمانوں کی اتحاد طلبی کی زیادہ ضرورت ہے۔

امر حق را حجت و دعوی یکی است

خیمہ ھای ما جدا دلھا یکی است

از حجاز و چین و ایراینم ما

شبنم یک صبح خندانیم ما

(اقبال لاہوری)

اور ان مجاہدمومنین کا مستقبل روشن ہے جو اتحاد کے نور کو دکھاتے ہیں اور اس میں چار چاند لگاتے ہیں : ”یریدون ان یطفئوا نور اللہ بافواھھم و یابی اللہ الا ان یتم نورہ ولو کرلہ الکافرون“ (سورہ توبہ، آیت ۳۲)۔اور پھر اللہ کے شکریہ سے خوش ہوتے ہیں: ” و رضوان من اللہ اکبر ذلک ھو الفوز العظیم“ (سورہ توبہ آیت ۷۲)۔

نتیجہ

ہمیشہ توحیدی پیغمبروں کی تمنارہی ہے کہ وہ ایک امت واحدہ کی تشکیل دیں اور اسی لئے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توحیدی دعوت کے محوروں میں سے ایک محور امت واحدہ کو تشکیل دینا رہا ہے۔

تاریخ اسلام کی تحلیل اس بات کی گواہ ہے کہ آنحضرت (ص)اس ہدف کو محقق کرنے کیلئے ”سیاسی اور ثقافتی کوششوں میںمشغول رہتے اور اس کی راہ میں با ارزش اور پر اہمیت طریقے استعمال کرتے تھے یہاں تک کہ سماجی حالات اچھی طرح سمجھ کر ان کے لئے مناسب طریقہ ٴ کار سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ تاکہ تمام لوگوں میں قبولیت اور متمایل ہونے کا زمینہ فراہم کرکے ان کو اتحاد کی طرف مائل کیا جاسکے۔

عمومی وحدت کو ایجاد کرنے اور دینی ہمبستگی کی فکر کو لوگوں کے دلوں میں ڈالنے کیلئے مدینہ کا معاہدہ بہترین راستہ تھا اسی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کے لئے برادری اور بھائی چارگی کا معاہدہ انجام دیتے تھے۔ صرف قومی اور مذہبی راہوںسے ہی استفادہ کرکے معاشرہ کے اجتماعی حالات کو محکم کیا جاسکتا تھا ، لیکن اس کام کیلئے قومی تعصب اور نژاد پرستی سے مقابلہ یا حالات اور عمومی اجتماعات کی جگہوں سے معقول استفادہ کرنابھی قوم وملت کے ذریعہ اتحاد طلبی کی راہوں میں سے ایک راہ ہے ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اجتماعی اور فردی اخلاق سے فائدہ اٹھایااور سب کو اتحاد کی دعوت دی۔

اتحاد کے مذکورہ تین وسیلوں(یعنی قومی اور مذہبی وسیلے، قومی اور وطنی وسیلے، اجتماعی اور فردی وسیلے) کی بنیاد پر سماج کی پر ارزش اقدار اور ارادوں کی ہماہنگی اسلام کی عظیم امت میں دینی اتحاد کی بنیاد ڈالنے کا لازمی وسیلہ ہے۔

حوالے اور مآخذ

۱۔ حمید اللہ، محمد: ”اولین قانون اساسی مکتوب در جہان“ ، ترجمہ غلام رضا سعیدی، تہران، انتشارات بعثت ، ۱۳۶۵، ص ۵۵۔ ۶۴۔

۲۔ علامہ ہندی، علاء الدین، کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال، بیروت، موسسہ الرسالة، ۱۹۸۵ء، ج ۱ ص ۱۴۹۔

۳۔ آیتی، محمد ابراہیم، تاریخ پیامبر اسلام، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، ۱۳۶۶، ص ۲۳۵۔

۴۔ اس کی تفصیل کو اس کی جگہ پر تلاش کریں، دیکھیں، حسینی، سید حسین: ”علوم انسانی اسلامی، مبنای تحقق وحدت فرہنگی“،نامہ فرہنگ، بہار۱۳۷۷، شمارہ ۲۹ و نیز: جزوہ درسی”عرفان دینی“۔

۵۔ روایت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ)در کنز العمال، ج۱، ص ۱۴۹۔

۶۔ علامہ مجلسی، محمد تقی، بحار الانوار، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۳ھ جلد ۳۹، ص ۵۶۔

۷۔ المیبدی، ابوالفضل رشید الدین، کشف الاسرارو عدة الابرار، بہ اہتمام علی اصغر حکمت، تہران، امیر کبیر۱۳۶۱، جلد ۹، ص ۲۷۱۔ ۲۶۷۔

۸۔ حاج سید جوادی و دیگران، دایرة المعارف تشیع، تہران، سازمان دایرة المعارف تشیع، ۱۳۶۶، ج ۱ ص ۲۴۳۔

۹۔ تاریخ پیامبر اسلام، ص ۲۷۲۔

۱۰۔ بہشتی، سید محمد، محیط پیدایش اسلام، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۶۷، ص ۱۴۷۔

۱۱۔ ابن ہشام، ابو محمد عبدالملک، السیرة النبویة، قم ، انتشارات ایران، ۱۳۶۳، ج ۴، ص ۲۵۰۔

۱۲۔ یعقوبی، احمد بن یعقوب: تاریخ یعقوبی، لیدن، ۱۸۸۳ء، ج ۲، ص ۱۱۰۔

۱۳۔ کلینی رازی، ابو جعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق: الاصول من الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیة، ۱۳۶۳ء، ج ۸، ص ۲۶۸۔

۱۴۔ بحار الانوار، ج ۲۲، ص ۳۴۸۔

۱۵۔ مطہری، مرتضی، سیرة نبوی، تہران، انتشارات صدرا، ۱۳۶۷، ”ہدیة الاحباب“ سے اس داستان کو نقل کیا ہے۔

۱۶۔ مطہری، مرتضی، خدمات متقابل اسلام و ایران، تہران، انتشارات صدرا، ۱۳۶۲، ص ۷۵و ۷۶۔

۱۷۔ سننابی داوود، ج ۲، ص ۶۲۴ پہلے والے مآخذ سے منقول، ص ۷۴۔

۱۸۔ نہج البلاغہ، ترجمہ دکتر سید جعفر شہیدی، تہران ، انتشارات سہامی عامل، ۱۳۷۱، خطبہ ۱۹۲، ص ۲۱۵۔

۱۹۔ تاریخ پیغمبر اسلام، ص ۱۶۸۔

۲۰۔ بحار الانوار، ج ۷۳، ص ۲۸۳۔

۲۲۔ البخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، چہار جلدی، بیروت دار المعرفة للطباعة والنشر، بی تا، جلد ۲، ص ۵۳۹۔

۲۳۔ نہج ا لبلاغہ، خطبہ ۱۰۵۔

۲۴۔ بہت سے مورخین نے ایک دشمن کافر کی داستان کو نقل کیا ہے جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے گھر مہمان کے طور پر گیا تھا اور آخر کار مومن وہاں سے واپس آیا تھا۔ یہ پیغمبر اکرم کے الہی اوراخلاقی تاثیر کا ایک نمونہ ہے۔ مراجعہ کریں: زرین کوب، عبدالحسین، بحر در کوزہ، تہران، علمی، ۱۳۶۷، ص ۱۰۴ و ۱۰۵۔

۲۵۔ شیخ صدوق ، ابوجعفر ، معانی الاخبار، تصحیح علی اکبر غفاری، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۳۹۹ ق ، ص۵۱۔

۲۶۔ بحر در کوزہ، ص ۱۱۵۔

۲۷۔ معانی الاخبار، ص ۵۱۔

مآخذ: فصلنامہ مشکوة شمارہ ۶۰۔

 


source : http://www.taghrib.ir/urdu/index.php?option=com_content&view=article&id=134:2010-02-08-11-38-35&catid=45:1388-06-09-06-53-38&Itemid=72
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پیغمبر اسلام
حضرت امام علی علیہ السلام
حسین علیہ السلام وارث حق
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے خطوط بادشاہوں ...
حسین علیہ السلام وارث حق
امام زین العابدین علیہ السلام کے مصائب
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی چالیس حدیثیں
جعفر صادق باني مکتب عرفان
کعبہ میں امام علی علیہ السلام کی ولادت
امام محمد تقی علیہ السلام

 
user comment