اردو
Thursday 18th of April 2024
0
نفر 0

اسلامی بیداری اور دور حاضر میں اس كے لۓ فكری ضرورتیں

 

اگر ہم امت اسلامی كے مستقبل كا ھمہ گیر جائزہ لینا چاھیں تو ہمیں معلوم ہونا چاھیے كے امت كا مستقبل دور حاضر میں اسلامی بیداری اور ترقی و پیشرفت پر منحصر ہوگا بنابریں آیندہ كے لۓ‌ علمی معیارات كے مطابق قدم اٹھانے اور اس سلسلے میں

اگر ہم امت اسلامی كے مستقبل كا ھمہ گیر جائزہ لینا چاھیں تو ہمیں معلوم ہونا چاھیے كے امت كا مستقبل دور حاضر میں اسلامی بیداری اور ترقی و پیشرفت پر منحصر ہوگا بنابریں آیندہ كے لۓ‌ علمی معیارات كے مطابق قدم اٹھانے اور اس سلسلے میں دینی اداروں اور علماو دانشوروں كی عظیم ذمہ داری كو سمجھنے كے لۓ ہمیں پہلے اسلامی بیداری كا مفہوم سمجھنا ہوگا اور اس كے اندرونی و بیرونی عوامل كا بھی جائزہ لینا پڑیگا ۔

اسلامی بیداری ایك اجتماعی تحریك ہے جس كے معنی امت كی بیداری اور اپنی اقدار كی طرف واپسی كے ہیں تاكہ اپنے آپ پر اعتماد كرسكے اور اپنے دین ،عزت ،سیاسی و اقتصادی و فكری و ثقافتی ،خود مختاری پر فخر كرسكے نیز خیر امۃ ہونے كے ناطے اپنا كردار ادا كرسكے ۔

اسلامی بیداری كے تاریخی اسباب و عوامل ہیں جن كا جائزہ لینا ضروری ہے ۔

1- اندرونی عوامل

ان عوامل سے مراد ملت كا تھذیب و تمدن اور ثقافت اور ترقی یافتہ اجتھادی آراء كا جو دین مبین اسلام كے تحت وجود میں آئي ہیں حامل ہونا ہے ایسا دین جو افكار و عقیدے و اقدار اور شریعت و اخلاق نیزدینی و دنیوی لحاظ سے دیگر تمام ادیان سے ممتاز ہے۔

دین اسلام نے انسان كی جسمانی ،دنیوی ،اخروی ،اور ہرطرح كی ضرورت پوری كردی ہے اور جس مسلمان كی زندگی اسلام كی تعلیمات كے مطابق گذررہی ہے وہ پوری طرح سے چین و سكون میں ہے ،اسلام انسان كی مكمل تربیت كركے اسے اخلاقی بماریوں سے محفوظ ركھتا ہے اسے نیك صفات وفضائل كسب كرنے كی تعلیم دیتاہے اور خدا سے اس كا رابطہ قائم كركے اس پر توكل كا سبق سكھاتاہے اور فردی و اجتماعی تعلقات میں ھماھنگی پیداكركے اسے مكمل اخلاق كی تعلیم دیتاہے ۔

اسی طرح اسلام نے انسان روحانی اور معنوی صلاحیتوں سے نواز كر ایك اجتماعی مخلوق بنایاہے تاكہ وہ اپنے معاشرے كی تربیت میں بھی حصہ لے سكے۔

اسلام نے انسان كی تمامتر ضرورتیں پوری كركے انسان كو خلیفہ خدا كا كردار ادا كرنے كی صلاحیت بخشی ہے ،انسان كے لۓ اسلام كی یہی تعلیمات خواہ وہ نظریہ كائنات كے بارے میں ہوں یا تشریع و قانون سازی ،یا نیك اخلاق كے بارے میں ہوں اس كی بیداری كا سبب بنی ہیں ۔

2- بیرونی عوامل

امت اسلامی مادی ثقافت كا شكار ہوكر اور حالیہ صدیوں میں مغربی تھذیب كے زیر اثر اپنی اقدار كھوبیٹھی ہے جس سے اس كا دین ضعیف ہوگیا اور حكمرانوں كے دین سے كٹ جانے اور اسلامی فرائض كے فراموش كۓ جانے اور سب سے بڑھكر امر بالمعروف و نھی عن المنكر كو بھلا بیٹھنے كی وجہ سے اسلامی امت محض نام كی اسلامی رہ گئی ہے اس كے علاوہ ترقی و پیشرفت كے بھانے سامراج كے كھوكھلے نعروں نے بھی اپنا اثر دكھایا ہے یہ تمام امور اسلام كے تعلق سے امت كو جھل و نادانی میں مبتلا كرنے میں موثر واقع ہوے ہیں ۔

یہ ضعف نادانی اور تمدن و ثقافت و سائینس میں خلط ملط كرنے سے اسلامی امت ایك جدید تمدن كے زیر سایہ آگئی یہاں تك كے اس كے دانشور اور روشنفكر افراد بھی اس جدید تمدن كے فریفتہ ہوگۓ اور اسی كے تحت اپنی فكری اور علمی صلاحیتیں صرف كرنے لگے یعنی اسی كے نظریہ پرداز بن گۓ ۔

كچھہ ہی مدت میں نقاب ھٹ گۓ اور اس نقلی تمدن كا چہرہ كھل كرسامنے آگیا اور اس كے دعویداروں كا جھوٹ ثابت ہوگیا اور اس تمدن كے زیر اثر امت اسلامی نے جو مصیبتیں اٹھائی تھیں اور بحران جھیلے تھے اس كی بناپر امت كو اپنی عظمت رفتہ كا احساس ہوا كہ وہ سامراج كے ھاتوں مغلوب ہوچكی ہے اور اس پر سامراج كا قبضہ ہوچكا ہے جو اس كے ذخائر و خداداد نعمیتیں لوٹ كر لے جارھا ہے اس طرح امت اسلامی كو احساس ہوا كہ دنیا اس كے مفادات كو نابود كركے اسے ذلت سے دوچار كرنا چاھتی ہے یہی نہیں اسے اس كے دین و عقیدے سے بھی دور كردینا چاھتی ہے ۔

جیساكہ ظاہر ہے آج كی جدید تھذیب و تمدن كی اساس مفادات ہیں سارا جھگڑا اسی كا ہے اس كشمكش میں مسلمانوں كو شكست كے علاوہ كچھہ نہیں ملا ،ان حقائق كو دیكھ كر بہت سی مسلمان قومیں خواب غفلت سے بیدار ہونے لگیں اور انہوں نے نجات دھندہ كی تلاش شروع كردی اس كے نتیجہ میں بعض علماو مفكرین نے اصلاح پسندی كا مظاہرہ كرتے ہوۓ جدید تمدن كے خطروں كا مقابلہ كرنا شروع كردیا ۔

سامراج سے آزادی حاصل كرنے اور مغرب كی مادی تھذیب و تمدن اور اسلامی تمدن میں ٹكرا‌ؤ كے نتیجے میں جو صورتحال پیش آئي تھی اس كے زیر اثر مسلمانوں میں امر بالمعروف و نھی عن المنكر اور جھاد در راہ خدا كا احساس بڑھتا گیا ،دور حاضر میں اسے ہم مسلمانوں كی بیداری كا اھم سبب قرار دے سكتے ہیں

اس طرح مسلمان قومیں سامراج كے ھاتوں اپنی توھین كا انتقام لینے كے لۓ اٹھ كھڑی ہوئیں اور ان میں فكری سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے خود مختار ہونےكا احساس بڑھتا گیا ،مسلمانوں نے دیكھا كہ صحیح معنوں میں اسلام كے دامن میں پناہ لینے سے ہی انہیں سامراج اور دشمنوں سے نجات مل سكتی ہے اور اسلام كی حقیقی پیروی كركے ہی وہ اپنا دفاع كرسكتے ہیں اور اپنا حق حاصل كرسكتے ہیں اسی بناپر ہم دیكھتے ہیں عالم اسلام كے مختلف علاقوں میں آزادی و خود مختاری حاصل كرنے اور اسلام كو غیر تھذیبوں كے اثرات سے بچانے كے لۓ انقلابات رونما ہونے لگے تھے۔

یہ تو تھے اسلامی بیداری كے كچھہ اسباب البتہ یہ ذھن میں ركھا جاے كہ اسلامی بیداری كا عمل ناگھانی نہیں تھا بلكہ یہ صدیوں پر محیط اسلامی امت كے درد و رنج و الم اور مصیبتوں كی داستان ہے یہ المناك داستان اس وقت شروع ہوئی تھی جب سامراج اور تسلط پسند طاقتوں نے اسلامی سرزمینوں پر اپنے منحوس قدم ركھے تھے اور ان سرزمینوں كو اپنے رنگ میں رنگنے كی كوششیں شروع كی تھیں اور اسلامی سرزمینوں پر حاكم پٹھو اور ناتوان حكومتوں نے اپنے بیرونی آقاوں كا حكم ماننے میں كوئی كسر نہیں چھوڑی تھی۔

سامراج كی فوجی اور ثقافتی یلغار كے بعد مسلمانوں نے اپنی تھذیب اور اجنبی تھذیب میں مكمل تضاد پایا جس كی بناپر اجنبی تھذیب اسلامی بیداری كے مقابل صرف سطحی طور پر باقی رہی اور مسلم معاشرہ میں رسوخ نہ كرپائي كیونكہ مسلمانوں نے ہروہ چیز جو اسلامی تعلیمات كے مخالف تھی اس كے خلاف آواز اٹھائی ۔

سماجیات كے ماھرین ،سیاست دانوں مصلحین اور دانشوروں نے اسلامی بیداری كی پیشین گوئی كی تھی ،مثال كے طور پر عظیم اسلامی دانشور سید قطب نے اپنی كتاب "المستقبل لھذا الدین " اور حامد ربیع نے جو پالیٹیكل سائینس كے پرفیسر تھے اس كی پیشین گوئي كی تھی بلكہ دنیا كے تمام مفكرین اور سیاسی لیڈروں نے كئي دھائيوں پہلے اس كی بشارت دی تھی ۔

مونٹریال یونیورسٹی كے پرفیسر اسمتھ نے اپنی كتاب "آج كے اسلام "میں اسلامی بیداری كے بارے میں اپنے ملك كے حكام كو انتباہ دیا تھا یہ كتاب انیس سو پچاس میں چھپی تھی ۔

اسی طرح برطانوی ماھر مشرقیات مونتوكوملی وات نے انیس سو پینسٹھ میں ایك كتاب لكھی تھی جس میں انہوں نے قرون وسطی میں اسلام پر تحقیقات كی تھیں وہ اپنی اس كتاب میں اسلامی بیداری كو متوقع قراردیا تھا وہ كہتے ہیں كہ اسلامی بیداری چوتھی آیڈیالوجی ہوگي جو بیسویں صدی كے اختتام پر دنیا پر حاكم ہوجاے گی ۔

البتہ اس سلسلے میں اھم ترین كتاب روسی دانشور "ژوگانوفسكی "كی ہے جو انقلاب روس كے بعد لكھی گئی تھی انہوں نے اپنی اس كتاب میں فرانس اور روس كے انقلابوں كا جائزہ لیا ہے اور خاص لحاظ سے ان كی ناكامی پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے وہ كہتے ہیں كہ دنیا كو تیسرے انقلاب كی ضرورت ہے جو انسان كی ماضی كی غلطیوں كا تدارك كرسكے وہ یہ سوال كرنے كے بعد كہ تیسرا انقلاب كب اور كہاں آے گا خود ہی جواب دیتے ہیں بلكہ پیشین گوئی كرتے ہیں كہ یہ انقلاب عالم اسلام میں آے گا یاد رہے انہوں نے یہ پیشین گوئی انیس سو انیس میں كی تھی ۔

اسلامی بیداری كے اسباب و عوامل كے مختصر بیان كے بعد یہ بیان كرنا بھی ضروری ہے كہ اس تحریك كی حفاظت اسے پروان چڑھانا اوراس كی صحیح رھنمائی بے حد ضروری ہے تاكہ یہ تحریك پرامن طریقے سے اپنا كردار ادا كرتے ہوۓ اسلامی تھذیب وتمدن كو پھیلانے میں كامیاب ہوسكے اور عالم اسلام اور محروم قوموں كے لۓ آزادی خود مختاری اور انسانی حقوق كے حصول كا باعث بن سكے بنابرین اسلامی بیداری اور اسلامی تھذیب وتمدن كی راہ میں موجود تمام ركاوٹوں كو اچھی طرح پہچان كر ان كا ازالہ كرنا ہوگا تاكہ كوئي ایسی چیز باقی نہ رہ جاے جو اس تحریك كے راستے میں ركاوٹ بنے اور اسلامی امت كی پیشرفت رك جاے ۔

اسلامی بیداری كی ركاوٹوں كو بھی داخلی اور خارجی عوامل پر تقسیم كیا جاسكتاہے ۔

داخلی فكری عوامل حسب ذیل ہیں 

1- اسلام كا صحیح و متوازن درك نہ ہونا

2- وہ حالات جن كا ذكر پہلے كیا جاچكا ہے

3- علماء ربانی كی جانب سے دین كی صحیح تطبیق نہ ہونا ان كا دور حاضر كے حالات و تبدیلیوں كو درك نہ كرنا نیز وہ عوامل جو علماء كے استثنائی موقف كا سبب بنے ہیں جن كی بناپر اسلام پر تطبیقی ،سیاسی اور اجتماعی لحاظ سے ابھام كے پردے پڑگۓ ہیں

اس موضوع كا جائزہ لینے كے لۓ كافی وقت اور غور وفكر كی ضرورت ہے ایك عرصہ دراز سے یہ صورتحال اسلامی دنیا میں اسلام كو صحیح اور حقیقی طرح سے سمجھنے میں ركاوٹ بنی ہوئي ہے اسی وجہ سے بہت سے علما كے ذھنوں میں اسلام كا سیاسی اجتماعی اور تطبیقی نظریہ مبھم ہے اور یہ ابھام ان كی اجتھادی آرا میں بخوبی دیكھا جاسكتاہے یہ ابھام ان كی جانب سے عبادی و فردی امور پر بھر پور توجہ اور امت كے اھم مسائل كو نظر انداز كۓ جانے كی بنا پر وجود میں آیا ہے،اس كے علاوہ اسلام كا چھرہ مسخ كركے پیش كرنے كی اسلام دشمنوں كی سازشوں ،اور بعض سادہ لوح مسلمانوں كے انحرافی افكار و نظریات میں آجانے سے بہت سی مصیبتیں جیسے انتھا پسندی غلو اور معاشرہ سے كنارہ كشی وجود میں آچكی ہیں ۔

اسی طرح سے دشمنان اسلام كے بارے میں صحیح درك نہ ہونے اور ان سب كوكفار حربی قرار دینے اور ان كے ساتھ صرف تلوار سے پیش آنے كی بناپر ہم نے پوری تاریخ میں نہ صرف انہیں نزدیك لانے اور اسلام كی صف میں شامل كرنے كے مواقع كھو دۓ ہیں بلكہ رواداری اور مروت پر مبنی اسلام كے قوانین كو استعمال كرنے كا موقع بھی ہمارے ہاتھ سے نكل گیا ہے ۔

بنابرین جامع منصوبے پر عمل درآمد كے لۓ اسلام كا موضوعی مطالعہ كرنا ہوگا تاكہ اس كی مدد سے ہم رواداری كے اصولوں پر مبنی اسلامی تمدن كی بنیاد ركھ سكیں جو دور حاضر كی ضرورتوں اور حقائق سے ھماھنگ ہوسطحی فكر و تنگ نظری سے عاری ہو اس كے ساتھ ساتھ اس تمدن كو حقیقی شرعی قوانین اور اصل دین پر قائم ہونا ہوگا تاكہ مندرجہ ذیل اقدامات كے ذریعے مفید راہ حل تك پہنچ سكیں ۔

1- احكام شرعی كے اھداف و مقاصد كے پیش نظر شریعت كے دائرہ اختیار كو معین كرنے میں عقل كے كردار و اثرات كو مد نظر قراردینا ،عقل و اجتھاد كے ذریعے عالم واقع میں موجود متغیر عناصر كو مد نظر ركھتے ہوے ،روزمرہ كے حالات كا شریعت كے كلی قوانین كے ساتھ انطباق كا جائزہ لیا جاسكتا ہے ،اس طرح ہم بدلتے ہوۓ معیارات سے استفادہ كرتے ہوۓ اپنی روشوں كو بھی بدل سكتے ہیں اور عالم واقع كے ساتھ ھماھنگ ہوسكتے ہیں اسی سلسلے میں ارشاد ہورہا ہے كہ ان اللہ لا یغیرما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم (الرعد 11) بے شك ہم اس قوم كی حالت كو نہیں بدلتے جب تك وہ اپنے اندر خود تبدیلیاں نہیں لاتی۔

2- علماء اسلام كو معتبر اور صحیح نصوص سے اور ان كے زمانے اور حالات كانیز موجودہ تقاضوں كا موضوعی جائزہ لے كراستنباط كرنا چاھیے ۔

3 - تعصب و تقلید سے پرھیز كرتے ہوۓ گذشتہ افكار ونظریات كا جائزہ لینا چاھیے جیسے كہ ضعیف روایات اور ایسی دلیلوں سے استفادہ كرنا جن سے دیگر دلیلوں كو استحكام نہ پہنچتا ہو ،یا ایسی دلیل سے چشم پوشی كرنا جسے سب سے پہلے لانا ضروری تھا یہ سارے كام اسلام پر اپنا نظریہ مسلط كرنے كے لۓ كۓ جاتے ہیں اور فقہ میں اس كے بہت سے نمونے مل جائيں گے لھذا اجتھاد موضوعی ہونا چاھیے كیونكہ اجتھاد مطلق آج كے دور میں محال نظر آتاہے ۔

4 روایتی فردی فقہی اندازكوجیسے كہ عبادات و طہارت كی بحث ہے ترك كردینا چاھیے كیونكہ یہ بحثیں مكمل ہوچكی ہیں ان كے بجاے آج كے زمانے كے اھم موضوعات جیسے سماجی سیاسی اور اقتصادی فقہ پر توجہ كرنی چاھیے تاكہ ان میدانوں میں بھی ترقی ہو ۔

5 فقہی موضوعات كا تقابلی جائزہ لینے كی كوشش كی جاے اور اندھی تقلید و تعصب سے پرھیز كیا جاے جو جدت و نوآوری كی آفت ہے اور انسان كو وسیع النظری سے روكتی ہے ،اگر صرف ایك معین مذھب پر تحقیقات كی جائیں اور دیگر مذاھب كو نظرانداز كردیا جاے تو ہم عقلی نتائج و مجتھدین كے جدید نظریات تك نہیں پہنچ سكیں گے اور زندگی كے مختلف میدانوں میں علمی نظریات سے محروم رہ جائيں گے ۔

6 موجودہ حالات كا موضوعی جائزہ لیا جاے ، علمی اور ان روشوں كو جو اسلام كی مصلحت میں استعمال ہوسكتی ہیں اور اسلام مخالف تھذیب میں پائی جاتی ہیں ان كو جدا كرنے كی كوشش كی جاے ۔

7- عقلی اور تجربی روش نیزاپنے پروگراموں اور طریقہ كار پر تنقید كے خیر مقدم پر زور دیا جاے اور اسی طرح غیبی امور كی توجیھہ اور ایسی غلط روشوں كو اپنانے سے پرھیز كیا جاے جن كا غیب سے كوئي تعلق نہیں ہے ،ہم اس بات پر تاكید كرنا چاھتے ہیں كہ عوام كے نزدیك غیبی امور كا تقدس ہے جو عوام میں امید پیدا كركے انسان كی زندگی كو آگے بڑھاتا ہے اور قیامت و آخرت سے انسانی زندگي كا تعلق جوڑ كر انسان كو قضاو قدر الھی سے راضی رھنے كی تلقین كرتاہے اس طرح انسان كے بہت سے نفسیاتی مسائل كو حل كردیتا ہے جس كا معاشرہ پر مثبت اثر پڑتاہے لھذا غیب دنیا كی پرپیچ و خم راہوں پر صحیح زندگي گزارنے كے لۓ انسان كی طاقت كا سرچشمہ ہے ۔

ہم جو بات كہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے كہ انسان كو ان كاموں سے دور ركھا جاے جن كا حكم خدا نے نہیں دیا ہے اور جو خدا كے حكم كی مخالف ہیں ۔

بنابریں سنن و قوانین الھی كو پھچاننے سے ہم اپنی زندگي میں غلط راستہ اختیار كرنے سے بچ جائيں گے اور سنت الھی پر عمل كرنے سے اھداف و مقاصد تك پہنچنا ہمارے لۓ آسان ہو جاے گا ۔

8- تاریخ كا مثبت انداز اور ھوشیاری سے جائزہ لیا جاے تاكہ اس سے بہتر طور پر زندگي گزارنے كی روشیں حاصل كی جائیں اور انہیں اسلامی منصوبوں اور كامیابی اور ناكامی كی میزان و معیار قرار دیا جاے اور منفی عوامل جو شكست و ناكامی كا باعث تھے ان سے پرھیزكیا جاے ۔

اسلامی بیداری كے مسائل ۔

اسلامی بیداری كی ركاوٹوں سے جن سے اسلامی معاشرے كی ترقی پر منفی اثرات پڑتے ہیں اورجن سے اسلامی ممالك كے سربرھوں اور ذمہ داروں كو پرھیز كرنا چاھیے ،یہ ركاوٹیں حسب ذیل ہیں ۔

1- اختلاف

اختلاف روز اول خلقت سے موجود ہے اور رہے گا اس كی بنیادی وجہ عدم درك صحیح ،خود غرضی ،ھواے نفس كی پیروی سطحی سوچ اور نظر ،نیز اھم و مھم میں فرق نہ كرنا وغیرہ ہے ۔

دور حاضر میں اختلاف اپنے عروج كو پہنچ چكا ہے یہانتك كے فكری اختلافات خونریز جھڑپوں اور جنگوں میں تبدیل ہورہے ہیں جس سے امت اسلامی بری طرح تشتت كا شكار اور ایك دوسرے كی تكفیر پر آمادہ نظر آتی ہے ،یہ سارے اختلافات جزئی سطحی اور فرعی مسائل سے جنم لیتے ہیں جبكہ بنیادی امور كو حاشیہ پر ركھ دیا گیاہے دوسرے الفاظ میں اسلامی امت مختلف مكاتب و مذاھب اور دھڑے بندیوں كی وجہ سے فكری علمی سائینسی اقتصادی سیاسی نیز تمام امور میں مجموعی حیثیت سے پس ماندگي كا شكار ہوكر رہ گئي ہے جبكہ ان متعدد مكاتب و مذاھب كو مشتركہ طور پر ھمہ گیر ترقی كا باعث ہونا چاھیے تھا ہمیں قرآن سے اس ضمن میں درس لینا چاھیے ارشاد ہوتاہے قل یا اھل الكتاب تعالوا الی كلمۃ سواء بیننا و بینكم ان لا نعبد الاللہ ۔آل عمران 64 ۔

رسول كھہ دو اے اھل كتاب تم ایسے ٹھكانے كی بات پر تو آو جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترك ہے كہ خدا كے سوا كسی كی عبادت نہیں كريں گے ۔

قرآن كے اس صریحی اعلان كے باوجود مختلف مكاتب فكر اور مذاھب امت میں اختلاف اور تفرقہ انگیزی كا باعث بنے ہوے ہیں اور یہ اختلاف زندگی كے ہر شعبہ میں نظر آتا ہے ان ہی اختلافات كی بنا پر اسلامی امت مصلحین كی ان تھك كوششوں كے باوجود متحد ہونے میں ناكام رہی ہے ۔

جیسا كہ ہم نے بتایا اسلامی امت میں یہ سارے اختلافات جھل و نادانی ،ہواے نفس كی پیروی عدم اخلاص اور آپسی اختلافات كو حل كرنے كا سلیقہ نہ ہونے بالخصوص دشمنوں كی فتنہ انگیزیوں كو ناكام بنانے كی حكمت عملی كے فقدان كی بناپر وجود میں آۓ ہیں ،یاد رہے ہم سرے سے اختلاف كا دروازہ بند نہیں كرنا چاھتے كیونكہ اختلاف انسانی فطرت كا ایك لازمی جزء ہے لیكن وہ اختلاف نہایت مضر ہے جو امت كے مفادات كے منافی اور اس كی پسماندگی كا سبب ہو ۔

2- غرور و خود غرضی

غرور ونخوت و خود پسندی شیطان كے وہ ہتھكنڈے ہیں جن كے ذریعے وہ انسان كے كاموں كو اچھا اور دوسروں كے كاموں كو برا بناكر پیش كرتاہے اس كے نتیجے میں انسان خود غرض اور خود پسندی كا شكار ہوجاتاہے یہاں تك كے كسی كی تعمیری تنقید اور نصیحت سننے كے لۓ بھی تیار نہیں ہوتا بلكہ اپنے غلط كاموں كا جواز پیش كرتا ہے اور اپنے نفس كی حفاظت كرنا بھول جاتاہے ۔

غرور ایك ایسی بیماری ہے جس میں فرد گروہ اور معاشرہ گرفتار ہوكر دوسروں كو نظر انداز كردیتاہے اس كے نتیجے میں بھی انسان كسی كی اچھی بات نصیحت یا تنقید قبول كرنے كو تیار نہیں ہوتاكیونكہ وہ یہ سوچتا ہے یہ لوگ اس كے افكار اقدار اور اصولوں كا انكار كر رہے ہیں ۔

ان بیماریوں كے پیش نظر یہ ضروری ہے كہ اصلاح امت كے خواھان مسلمان فرد گروہ اور جماعتیں جو راہ اسلام میں ترقی پیشرفت اور علمی كمال كی آرزو ركھتے ہیں اور مسلمانوں كی خدمت كرنا چاھتے ہیں وہ اپنی زندگي میں احتیاط سے كام لیتے ہوے دوسروں كے تجربوں سے عبرت حاصل كریں اور خود سیدھے راستے پر چلتے ہوے دوسروں كے لۓ نمونہ عمل بن جائیں ،اصلاحی گروھوں كو عوام كے ساتھ واضح الفاظ میں گفتگو كرنی چاھیے اور انہيں ان كی كامیابیوں اور ناكامیوں سے آگاہ كرنا چاھیے اس كے ساتھ ساتھ انہیں ناكامیوں كی وجوھات بتاكر ان سے مقابلہ كرنے كی راہوں كی وضاحت بھی كرنی چاھیے اور اس اھم كام كو انجام دینے كی شرطیں حسب ذیل ہیں ۔

1 -اصلاحی گروہ كو صراحت سے كام لینے كی وجہ سے مایوس نہیں ہونا چاھیے ۔

2 -اصلاحی گروہ جس چیز كی تبلیغ كررھا ہے اس پر وہ خود بھی عمل پیرا ہو ایسا نہ ہو كہ لوگوں كے عیوب بتا كر خود ان عیوب میں مبتلا ہوں كیونكہ یہ امر مفید ہونے كے بجاے نقصان دہ ہوگا اور اس سے لوگوں كو اپنی طرف بلانے میں ناكامی ہوگی اپنے كہے پر پہلے عمل كرنا ہی اسلامی معیار ہے جو ہمیں غرور و نخوت اور تكبر سے دور رھنے كی تلقین كرتاہے ۔

یادرھے جو لوگ خود عمل كۓ بغیر امت كو عمل كی نصیحت كرتے ہیں وہ امت سے الگ تھلگ ہوجاتے ہیں اس كے نتیجے میں امت مایوسی كا شكار ہوكر پسماندگی كے اندھیروں میں بھٹكنے لگتی ہے اور دشمن اس پر غالب آجاتاہے ۔

بعض لوگوں نے غلط سوچ كی بناپر اس ناكامی كو قضاو قدر كا نام دیكر انبیاء الھی كی محنتوں پر سوالیہ نشان لگادیا ہے اس غلط اور تباہ كن سوچ كے حامل افراد كو جان لینا چاھیے كہ قضاو قدر حالات كے سامنے گھٹنے ٹیك دینے اور ذمہ داری سے پیچھا چھڑانے كا نام نہیں ہے ،اسی طرح سخت حالات بھی ظلم و ستم كے خلاف امت كی جدو جھد اور موجودہ حالات كے خلاف اٹھ كھڑے ہونے كے نتیجے میں سامنے آتے ہیں ،قضاو قدر اس كو بھی نہیں كہتے كہ دوسروں كے تجربوں سے سبق حاصل نہ كیا جاۓ اور اپنے حالات كو سمجھانہ جاے یا اسباب طبیعی اور سنن حیات كو بھلا دیا جاے ۔

3- سطحی سوچ

مسلمانوں كے درمیان اسلام كی سطحی فھم اور اندھی تقلید اور بہت سی اسلامی قوموں جیسے فلسطین و عراق و چچنیاو افغانستان كے حالات پر مسلمانون كا جذباتی اور غیر منظم رد عمل اسلا می بیداری كی دیگر آفتوں میں سے ایك ہے گرچہ دشمن كے مقابل مزاحمت حفظ آبرو و اسلامی بیداری كی بقا اور جھادی فكر كو مھمیز دینے نیز اسلام كی طرف باز گشت كی آواز لگانا ہے لیكن منظم منصوبہ بندی اورحالات كے تقاضوں كو پورا كۓ بغیر اسی طرح تبدیلیاں لانے كے سلسلے میں دنیا كی ضرورتوں اور تقاضوں كو مد نظر ركھے بنا ھمہ گیر فكری اور اجتماعی جمود سے رھائي ناممكن ہے ۔

مسلمانوں كی بنیادی مشكل یہ ہے كہ انہیں اس بات كا احساس نہیں ہے كہ انہیں ان امور كاماڈرن طریقوں سے مكمل جائزہ لینے اور مطالعہ كرنے كی ضرورت ہے ہم لوگ صرف ان ہی اصول و ضوابط پر كاربند ہیں جو ہمارے پاس ہیں تاہم ان اصول و ضوابط كو آج كے اسلامی معاشرے كی صورتحال كے مطابق عملی جامہ نہیں پہنا سكتے ۔

قرآن وسنت اور اسلامی قانوں سازی كے دیگر منابع نے ہمارےسامنے كلی قوانین و راستے معین كردۓ ہیں جن كی مدد سے ہم ایسے منصوبے بناسكتے ہیں جن سے جدید حالات كے تقاضوں كے مطابق اسلامی معاشرہ وجود میں لاسكتے ہیں تاھم اس كا لازمہ ہے كہ حالات كے تقاضوں كو صحیح طرح سے سمجھا جاے اور كھلی فكر و عقل كے ساتھ ان كا جائزہ لیا جاے ہمیں آج اس چیز كی اشد ضرورت ہے ہمیں آج ایك جامع اخلاقی منصوبے كی ضرورت ہے جس میں سادہ و سلیس زبان میں فرد و معاشرہ كی ذمہ داریاں سمجھائی گئي ہوں ،ہمیں اپنی بات كو آج كے مسلمانوں كی ذھنیت كے تناسب سے پیش كرنا چاھیے اور تمامتر كوشش كرنی چاھیے كہ اسلامی كتابوں بالخصوص اعتقادی كتابوں كو غلو و گمراہ كن مطالب سے پاك كریں ،ہمارے فقہاءو محققین كو یہ درك كرنا ہوگا كہ دینی مسائل نئی منصوبہ بندی كے تحت آج كے انسان كی ذھنیت اور اس كو درپیش چیلنجوں كے مطابق بیان كۓ جائیں ۔

نئي منصوبہ بندی اسلامی قوانین كی حدود میں كرنی ہوگي اور اس میں ہمیں ان تمام موضوعات كو شامل كرنا ہوگا جن كا سامنا جواں نسل كو زندگي كے مختلف شعبوں میں كرنا پڑتاہے اسی كے ساتھ ان موضوعات كے بارے میں اسلامی احكام بھی بیان كرنے ہونگے جن كے ذریعے معاشرہ كا انتظام چلایا جاسكتاہو اور وہ معاشرے كی تمام قانونی ضرورتیں پوری كرسكتے ہوں تاكہ ہمارے بچوں كو ان كے بارے میں اسلام كا نظریہ بھی معلوم ہوجاے اور انہیں یہ یقین ہوجاے كہ اسلامی قوانین كے تحت معاشرے كا نظام چلایا جاسكتاہے ۔

سطح سوچ كی ایك علامت یہ ہے معاشرے كی اصلاح كے لۓ فكری اور اجتماعی ضرورتوں كو ترجیحی بنیادوں پر واضح نہ كیا جاے اور غیر مھم و غیرضروری امور كوجو اسلامی اھداف تك پہنچنے میں ایك طرح سے ركاوٹ ہیں اور ان میں كافی وقت لگتاہےاور مواقع ہاتھ سے نكل جاتے ہیں اھمیت دی جاے ۔

4- بے سوچے سمجھے اور بغیر منصوبہ بندی كے اقدام كرنا

اس سے مراد بغیر منصوبہ بندی كے مسائل مواقف اور حوادث كا جائزہ لۓ بغیر فوری اور جذباتی ردعمل دكھانا ہے ،چونكہ فوری اور جذباتی اقدامات حد اعتدال سے خارج اور دوسروں كی محنتوں اور سرماے نیز مواقع كے ضایع ہونے كا سبب بنتے ہیں اس لۓ ان سے امت كو فائدہ ہونے كے بجاے نقصان ہی ہوتاہے یہ ساری آفتیں خود سرانہ طور پر اور ناسمجھی سے اقدام كرنے كا نتیجہ ہوتی ہیں ،فوری جذباتی اقدامات كی بنیادی وجوہ جھل و نادانی پسماندگی اور حكمت عملی مثبت سوچ اور دوراندیشی كا نہ ہونا ہیں ۔

دشمن وسیع تحقیقات اور علمی وسائل و ذرایع استعمال كركے اور باریك بینی سے منصوبہ بندی كركے اسلام و مسلمین كے خلاف صف آرا ہوچكا ہے لھذا ہمیں بھی چاھیے كہ تحقیقات علمی روشوں اور منصوبہ بندی كركے اس كی سازشوں كا مقابلہ كريں ۔

بحران كا حل 

1- سب سے پہلے ہمیں یہ یقین كرنا ہوگا كہ امت اسلامی كی حالت زار سے نجات كا راستہ یہ ہے كہ ہمیں آج كے زمانے كے مطابق اصلاح امت كے لۓاپنے علمی و تحقیقاتی كاموں میں عقل سلیم سے سے كام لینا ہوگا اور اسی طرح ہم كو دوسروں كی اندھی تقلید سے پرھیز اور ان كے نظریات كو بغیر تحقیق و تنقید كے قبول كرنے سےبھی پرھیزكرناہوگا بنابرين علمی سرگرمیاں شروع كرنے كے لۓ نۓ اور ماڈرن تحقیقاتی مراكز قائم كرنے ہونگے اس تحریك میں مالی استطاعت ركھنے والے لوگ شركت كركے دعوت اسلامی كی حمایت كرسكتے ہیں جس سے یہ میراث آیندہ نسلوں كے لۓ محفوظ ہوجاۓ گی اور علما و دانشور جوان طلبا كی تربیت كركے انہیں امت اسلامی كا مستقبل سونپ سكیں گے ۔

2- علماء و دانشوروں كا فریضہ ہے كہ مفید موضوعات پر كام كریں اور جدید دلچسپ اور آسان روشوں كے سہارے آج كے مسلمان كے مسائل كا جائزہ لیں ان روشوں میں صرف تحذیر كا پہلو نہیں ہونا چاھیے بلكہ انہیں مسلمان معاشرے كے بدلتے ہوۓ حالات كے مطابق ہونا چاھیے ۔

3- مسلمان گروھوں كی سب سے بڑی ذمہ داری ہے كہ وہ ہرحالت میں متحد رہیں اور موجودہ حالات كے مطابق مفاھمت آمیز طریقے سے مسائل پرآپس میں موضوعی گفتگو جاری ركھیں اور اپنی روشوں كو ماڈرن بناتے رھیں اس طرح اسلام كا گہرا مطالعہ كركے جواں نسل كی تربیت كرتے رہیں جس سے امت تفرقہ جھل اور برائیوں كے دلدل سے نكل آے گی ۔

اسلامی فرقوں كو اپنے فرعی اختلافات بھلاكر امت كے عظیم تر اھداف و مقاصد كو نظر میں ركھنا چاھیے انہیں سنجیدگی سے ایك دوسرےسے مفاھمت ،گفتگو ،اور ھماھنگی پیدا كرنے كے لۓ تفرقہ و جدائی پیدا كرنے والے امور سے پرھیز كرنا ہوگا اس طرح ایك جامع حكمت عملی تیار كی جاسكتی ہے اپنے اپنے فرائض و ذمہ داریوں كو بانٹ كر امت كے اتحاد كی زمین فراھم كی جاسكتی ہے ۔

دشمن اپنی تمامتر صلاحیتوں كو بروے كار لاكر امت اسلامی كو نابود كرنے كے درپے ہے وہ ہمارے آپسی اختلافات سےبھرپور فائدہ اٹھاتاہے اور تاریخ اس بات كی گواہ ہے كہ اسلام دشمن طاقتوں اور سامراج نے مسلمانوں كے مذھبی و سیاسی اختلافات سے ھمیشہ فائدہ اٹھاكر ان میں مزید تفرقہ پھیلانے اور انہیں ایك دوسرے كی دشمنی پر آمادہ كرنے كی كوشش كی ہے تاكہ وہ كبھی امت واحدہ كی شكل اختیار نہ كرسكیں اور وہ انہیں آسانی كے ساتھ نابود كرسكے ۔

مسلمانوں كا اھم ترین فریضہ یہ ہے كہ فكری سطح پر اتحاد اور حكام كے ساتھ ھماھنگی پیدا كركے نیز مناسب روشوں كے سہارے اپنے اھداف پر قائم رہ كر امت اسلامی كے اتحاد كے تحفظ كی كوشش كریں اگر ہم نے اس ذمہ داری كو اچھی طرح نبھایا تو ہم امت كے مستقبل كی پاسداری كرنے میں كامیاب ہوسكتے ہیں ورنہ بصورت دیگر ہمیں خیر وكامیابی كی امید نہیں ركھنی چاھیے كیونكہ اتحاد و ھماھنگي كے بغیر ہمارے نصیب میں نابودی اور دشمن كی كامیابی كے علاوہ اور كچھہ نہیں آسكتا۔

 


source : http://sadeqin.com/View/Articles/ArticleView.aspx?ArticleID=566&LanguageID=6
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

سکیولریزم قرآن کی نظر میں
اسلام کے عقا ئد قرآن کریم کی رو شنی میں
صحیفہ سجادیہ یا زبور آل محمد (ص)
امام حسين (ع) کا دورانِ جواني
دین از نظر تشیع
علم کی فضیلت ۔قرآن وحدیث کی روشنی میں
حضرت علی علیہ السلام کا علم
قرن وسنت کی روشنی میں رمضان المبارک کی خصوصیات و ...
کفرانِ نعمت کے معنی
اما م رضا علیہ السلام اور ذبح عظیم کی تفسیر

 
user comment