اردو
Friday 29th of March 2024
2
نفر 0

تاریخی مثالیں

اتفاق سے تاریخی واقعات اور اسلامی معاشرہ کے مطالعہ سے بھی یهی بات ظاہر هوتی هے چنانچہ عمر نے کہا کہ: ھم نے جو علی (علیہ السلام) کو خلافت کے لئے منتخب نهیں کیا وہ "حِیۡطَۃً عَلیٰ الاِسلَام " تھا، یعنی ہم نے اسلام کے حق میں احتیاط سے کام لیا کیونکہ لوگ ان کی اطاعت نهیں کرتے اور انهیں (خلیفہ) نهیں مانتے!! یا ایک دوسری جگہ ابن عباس سے گفتگو کے دوران ان سے کہا: قریش کی نگاہ میں یہ عمل صحیح نهیں تھا کہ امامت بھی اسی خاندان میں رهے جس خاندان میں نبوت تھی۔ مطلب یہ تھا کہ نبوت جب خاندان بنی ہاشم میں ظاہر هوئی تو فطری طور پر یہ اس خاندان کے لئے امتیاز بن گئی لہٰذا قریش نے سوچا کہ اگر خلافت بھی اسی خاندان میں هوگی تو سارے امتیازات بنی ہاشم کو حاصل هوجائیں گے۔ یهی وجہ تھی کہ قریش کو یہ مسئلہ (خلافت امیرالمومنین) ناگوار تھا اور وہ اسے درست نهیں سمجھتے تھے۔ ابن عباس نے بھی ان کو بڑے هی محکم جواب دیئے اور اس سلسلہ میں قرآن کی دو آیتیں پیش کیں جوان افکار و خیالات کا مدلّل جواب هیں۔

بہر حال اسلامی معاشرہ میں ایک ایسی وضع و کیفیت پائی جاتی تھی جسے مختلف عبارتوں اور مختلف زبانوں میں بیان کیا گیا هے۔ قرآن اُسے ایک صورت اور ایک انداز سے بیان کرتا هے اور عمر اسی کو دوسری صورت سے بیان کرتے هیں یا مثال کے طور پر لوگ یہ کہتے تھے کہ چونکہ علی علیہ السلام نے اسلامی جنگوں میں عرب کے بہت سے افراد اور سرداروں کو قتل کیا تھا، اور اہل عرب فطرتاً کینہ جو هوتے هیں لہٰذٓ مسلمان هونے کے بعد بھی ان کے دلوں میں علی سے متعلق پدر کشی اور برادر کشی کا کینہ موجود تھا (لہٰذا علی علیہ السلام خلافت کے لئے مناسب نهیں هیں) بعض اہل سنت بھی اسی پہلو کو بطور عذر پیش کرنے کی کوشش کرتے هیں۔ چنانچہ وہ کہتے هیں کہ یہ سچ هے کہ اس منصب کے لئے علی (علیه السلام) کی افضلیت سب پر نمایاں اور ظاہر تھی لیکن ساتھ هی یہ پہلو بھی تھا کہ ان کے دشمن بہت تھے۔

بنابر ایں اس حکم سے سرتابی کے لئے ایک طرح کے تکدر وتردد کی فضا عہد پیغمبر میں هی موجود تھی اور شاید قرآن کا ان آیات کو قرائن و دلائل کے ساتھ ذکر کرنے کا راز یہ هے کہ ہر صاف دل اور بے غرض انسان حقیقی مطلب کو سمجھ جائے لیکن ساتھ هی قرآن یہ بھی نهیں چاہتا کہ اس مطلب کو اس طرح بیان کرے کہ اس سے انکار و رو گردانی کرنے والوں کا انحراف قرآن اور اسلام سے انحراف و انکار کی شکل میں ظاہر هو۔ یعنی قرآن یہ چاہتا هے کہ جو لوگ بہر حال اس مطلب سے سرتابی کرتے هیں ان کا یہ انحراف قرآن سے کھلّم کلھلّا انحراف و انکار کی شکل میں ظاہر نہ هو بلکہ کم از کم ایک ہلکا سا پردہ پڑا رهے۔ یهی وجہ هے جو ہم دیکھتے هیں کہ آیت تطهیر کو ان آیات کے درمیان میں قرار دیا گیا هے لیکن ہر سمجھدار، عقلمند اور مدبّر انسان بخوبی سمجھ جاتا هے کہ یہ ان سے الگ ایک دوسری هی بات هے۔ اسی طرح قرآن نے آیت "الیَومَ اکملت" اور آیت "یَااَیَّھَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ " کو بھی اسی انداز میں دوسری آیتوں کے درمیان ذکر کیا۔ 

آیت اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ

اس سلسلہ میں بعض ایسی آیتیں بھی هیں جو انسان کو سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کردیتی هیں کہ یہاں ضرور کوئی خاص بات ذکر کی گئی هے اور بعد میں متواتر احادیث و روایت سے بات ثابت هوجاتی هے۔ مثال کے طور پر آیت "اِنَّمَا وَلِیُّکمُ اللہُ وَرَسُولُہ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلوٰ ۃَ وَیُؤتُونَ الذَّکوٰۃَ وَھُمۡ رَاکِعُوۡنَ" (مائدہ/ ۵۵) عجیب تعبیر هے۔ ملاحظہ فرمائیں۔ " تمہارا ولی خدا هے اور ان کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان هیں جو نماز قائم کرتے هیں اور حالتِ رکوع میں زکوٰۃ ادا کرتے هیں۔ حالت رکوع میں زکوٰۃ دینا کوئی معمولی عمل نهیں هے جسے ایک اصل کلی کے طور پر ذکر کیا جائے بلکہ یہ مطلب و مفهوم کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ کررہا هے۔ یہاں اس کی تصریح و وضاحت بھی نهیں کی گئی هے کہ اس سے سرتابی دوست و دشمن کے نزدیک براہِ راست قرآن سے روگردانی شمار کی جائے۔ لیکن ساتھ هی کمالِ فصاحت کے ساتھ اسے اس انداز سے بیان بھی کردیا گیا هے کہ ہر صاف دل اور منصف مزاج انسان سمجھ جائے کہ یہاں کوئی خاص چیز بیان کی گئی هے اور کسی اہم قضیہ کی طرف اشارہ کیا جارہا هے۔ 

الَّذِیۡنَ یُؤتُوۡنَ الزَّکوٰ ۃَ وَھُمۡ رَاکِعُونَ۔ وہ لوگ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دیتے هیں "یہ کوئی عام سی بات نهیں هے بلکہ ایک غیر معمولی واقعہ هے جو وجود میں آگیا۔ آخر یہ کون سا واقعہ تھا ؟ ہم دیکھتے هیں کہ بلا استثناء تمام شیعہ و سنی روایات کہتی هیں کہ یہ آیت حضرت علی بن ابی طالب (علیه السلام) کے بارے میں نازل هوئی هے۔

عرفاء کی باتیں

دوسری آیتیں بھی هیں جن پر گہرائی کے ساتھ غور وفکر سے مطلب واضح اور حقیقت روشن هوتی هے۔ یهی وجہ هے کہ عرفاء ایک زمانہ سے اس سلسلہ میں اظہارِ خیال کرتے رهے هیں۔ در اصل یہ شیعی نقطۂ نظر هے۔ لیکن عرفاء نے اسے بڑے حسین انداز میں بیان کیا هے وہ کہتے هیں کہ امامت و ولایت کا مسئلہ باطن شریعت سے تعلق رکھتا هے۔ یعنی وهی اس تک رسائی حاصل کرسکتا هے جو کسی حد تک شریعت اور اسلام کی گہرائیوں سے آشنا هو یعنی اس نے پوست اور چھلکے سے گزر کر اس کے مغز و جوہر تک رسائی حاصل کرلی هو اور بنیادی طور پر اسلام میں امامت و ولایت کا مسئلہ لُبّی اور اصل مسئلہ رہا هے یعنی بہت مدیرانہ فکر عمیق رکھنے والے افراد هی اسے درک اور سمجھ سکے هیں۔ دوسروں کو بھی اس گہرائی کے ساتھ غور وفکر کی دعوت دی گئی هے۔ یہ اور بات هے کہ کچھ لوگ اس مفهوم تک پہنچتے هیں اور کچھ نهیں پہنچ پاتے۔

اب ہم اس سے متعلق بعض دیگر آیات پر توجہ دیتے هیں ہمارا مقصود یہ هے کہ شیعہ جو دلائل پیش کرتے هیں ہم ان سے آگاہ هوں اور ان کی منطق کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

امامت شیعوں کے یہاں نبوّت سے ملتا جلتا مفهوم

قرآن میں ایک آیت ھے جو ان ھی مزکورہ آیات کے سلسلہ کا ایک حصہ بھی هے اور بظاہر عجیب آیت هے۔ البتہ یہ خود امیرالمومنین(علیہ السلام) کی ذات سے متعلق نهیں هے بلکہ مسئلۂ امامت سے متعلق هے، ان هی معنٰی میں هے جسے ہم ذکر کرچکے هیں اور یہاں اشارتاً اسے دوبارہ ذکر کرتے هیں۔

ہم کہہ چکے هیں کہ عہد قدیم سے هی اسلامی متکلمین کے درمیان ایک بہت بڑا اشتباہ موجود رہاهے اور وہ یہ کہ انهوں نے اس مسئلہ کو اس انداز میں اٹھایا هے کہ : امامت کے شرائط کیا هیں ؟ انهوں نے مسئلہ کو یوں فرض کیا کہ امامت کو ہم بھی قبول کرتے هیں اور اہل سنت بھی لیکن اس کے شرائط کے سلسلہ میں ہم دونوں میں اختلاف پایا جاتا هے؛ ہم کہتے هیں شرائط امام یہ هیں کہ وہ معصوم هو اور منصوص هو یعنی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے معیّن و مقرر کیا گیا هو۔ اور وہ کہتے هیں ایسا نهیں هیں جب کہ شیعہ جس امامت کا عقیدہ رکھتے هیں، اہل سنت سرے سے اس کے معتقد نهیں هیں اہل سنت امامت کے عنوان سے جس چیز کا عقیدہ رکھتے هیں وہ امامت کی دنیوی حیثیت هے جو مجموعی طور سے امامت کا ایک پہلو هے جیسے نبوت کے سلسلہ میں هے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک شان یہ بھی تھی کہ وہ مسلمانوں کے حاکم تھے لیکن نبوّت خود حکومت کے مساوی اور ہم پلّہ نهیں هے۔ نبوت خود ایک ایسی حقیقت اور ایسا منصب هے جس کے ہزاروں پہلو اور ہزاروں معانی و مطالب هیں۔ پیغمبر کی شان یہ هے کہ اس کی موجودگی میں کوئی اور مسلمانوں کا حاکم نهیں هوسکتا۔ وہ نبی هونے کے ساتھ مسلمانوں کا حاکم بھی هے، اہل سنت کہتے هیں کہ امامت کا مطلب حکومت هے اور امام وهی هے جو مسلمانوں کے درمیان حاکم هو، یعنی مسلمانوں میں کی ایک فرد جسے حکومت کے لئے انتخاب کیا جائے گویا یہ لوگ امامت کے سلسلہ میں حکومت کے مفهوم سے آگے نهیں بڑھے۔ لیکن یهی امامت شیعوں کے یہاں ایک ایسا مسئلہ هے جو بالکل نبوت کے هی قائم مقام قدم بقدم هے بلکہ نبوت کے بعض درجات سے بھی بالاتر هے یعنی انبیاء اولوالعزم وهی هیں جو امام بھی هیں۔ بہت سے انبیاء امام تھے هی نهیں۔ انبیاء اولوالعزم اپنے آخری مدارج میں منصب امامت پر سرفراز هوئے هیں۔ 

غرض یہ کہ جب ہم نے اس حقیقت کو مان لیا کہ جب تک پیغمبر موجود هے کسی اور کے حاکم بننے کا سوا هی نهیں اٹھتا۔ کیونکہ وہ بشریت سے مافوق ایک پہلو کا حامل هے، یوں هی جب تک امام موجود هے حکومت کے لئے کسی اور کی بات هی پیدا نهیں هوتی۔ جب وہ نہ هو (چاهے یہ کهیں کہ بالکل سے موجود هی نهیں هے یا ہمارے زمانہ کی طرح نگاهوں سے غائب هے) اس وقت حکومت کا سوال اٹھتا هے کہ حاکم کون هے؟ ہمیں مسئلہ امامت کو مسئلۂ حکومت میں مخلوط نهیں کرنا چاہئیے کہ بعد میں یہ کہنے کی نوبت آئے کہ اہل سنت کیا کہتے هیں اور ہم کیا کہتے هیں۔ یہ مسئلہ هی دوسرا هے۔ شیعہ کے یہاں امامت بالکل نبوت سے ملتا جلتا ایک مفهوم هے اور وہ بھی نبوت کے عالی ترین درجات سے۔ چنانچہ ہم شیعہ امامت کے قائل هیں اور وہ سرے سے اس کے قائل نهیں هیں۔ یہ بات نهیں هے کہ قائل تو هیں مگر امام کے لئے کچھ دوسرے شرائط تسلیم کرتے هیں۔ 

امامَت ابراهیم علیہ السلام کی ذرّیت میں

یہاں ہم جس آیت کی تلاوت کرنا چاہتے هیں وہ امامت کے اُسی مفهوم کو ظاہر کرتی هے جسے شیعہ پیش کرتے هیں۔ شیعہ کہتے هیں، اس آیت سے یہ ظاہر هوتا هے کہ امامت ایک الگ هی حقیقت هے، جو نہ صرف پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بلکہ انبیاء ماسلف کے زمانے میں بھی موجود رهی هے اور یہ منصب حضرت ابراهیم کی ذرّیت میں تا صبح قیامت باقی هے وہ آیت یہ هے: "وَاِذِابۡتَلیٰ اِبۡرَاھِیۡمَ ربُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَاَتَمَّھُنَّ قَالَ اِنَّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماً قَالَ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ قَالَ لَا یَنَالُ عَھۡدِی الظَّالِمِیۡنَ" جب خداوند عالم نے چند امور و احکام کے ذریعہ ابراهیم کو آزمایا اور وہ ان آزمائشوں میں پورے اُترے تو (خدا نے) فرمایا:میں بلا شبہ تمهیں لوگوں کا امام بناتا هوں (ابراهیم علیہ السلام نے) کہا: اور میری ذرّیت سے: فرمایا؛ میرا عھد ظالموں تک نهیں پهونچے گا۔ 

ابراهیم معرض آزمائش میں حجاز کی جانب ہجرت کا حکم

خود قرآن حکیم نے جناب ابراهیم علیہ السلام کی آزمائشوں سے متعلق بہت سے مطالب ذکر کئے هیں۔ نمرود اور نمرودیوں کے مقابلہ میں ان کی استقامت و پائداری کہ نارِ نمرودی میں جانے سے نہ ہچکچائے اور ان لوگوں نے انهیں آگ میں ڈال بھی دیا اور اس کے بعد پیش آنے والے دوسرے واقعات۔ ان هی آزمائشوں میں خداوند عالم کا ایک عجیب و غریب حکم یہ بھی تھا جسے بجالانا سوائے اس شخص کے جو خدا کے حکم کے سامنے مطلق تعبّد و بندگی کا جذبہ رکھتا هو اور بے چون و چرا سرِ تسلیم خم کردے کسی اور کے بس کی بات نهیں هے۔ ایک بوڑھا جس کے کوئی اولاد نہ هو اور ستّر اسّی سال کے سن میں پہلی مرتبہ اس کی زوجہ ہاجرہ صاحب اولاد هوتی هے اور ایسے میں اسے حکم ملتا هے کہ شام سے ہجرت کرجاؤ اور حجاز کے علاقہ میں اس مقام پر جہاں اس وقت خانۂ کعبہ هے، اپنی اس بیوی اور بچہ کو چھوڑدو اور خود وہاں سے واپس چلے آؤ۔ یہ حکم سوائے مطلق طور پر تسلیم و رضا کی منطق کے کہ چونکہ یہ حکم خدا هے لہٰذا میں اس کی اطاعت کررہا هوں (جسے حضرت ابراهیم نے محسوس کیا تھا کیونکہ آپ پر وحی هوتی تھی) کسی اور منطق سے میل نهیں کھاتا۔

"رَبَّنَا اِنِّیۡ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرَ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ المُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیۡمُوۡاالصَّلاۃ" پروردگارا : میں نے اپنی ذرّیت کو اس بے آب گیاہ وادی میں تیرے محترم گھر کے نزدیک ٹھرا دیا تاکہ یہ لوگ نماز ادا کریں البتہ آپ خود وحی الٰهی کے ذریعہ یہ جانتے تھے کہ انجام کار کیا هے ؟ لیکن منزل امتحان سے بخوبی گزر گئے۔

------

سورۂ بقرہ آیت ۱۲۴

سورۂ ابراہیم آیت ۳۷


source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_articles.php?articles_id=1047&link_articles=history_library/general_articles/tarikhi_misalein
2
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment

Rita
That's not just the best anwesr. It's the bestest answer!
پاسخ
0     0
22 شهريور 1390 ساعت 09:25 صبح
Capatin
In awe of that anwesr! Really cool!
پاسخ
0     0
21 شهريور 1390 ساعت 6:18 بعد از ظهر