اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

ملک و ملت کی بقا کا راز کربلا میں ہے

تحریر: اختر رضوی

اگر آئندہ پاکستان میں جھانک کر دیکھیں تو ملک کی تصویر بڑی خوفناک اور دھندلی سی نظر آئے گی۔ کہیں صوبائی عصبیت کی بے رحم موج کہیں لسانی تعصب کی خلیج‘ کہیں نسلی نفرت کی دیواریں‘ کہیں فرقہ واریت کا خوفناک بھوت‘ کہیں دہشت گردی کی بے رحم لہر‘ کہیں فحاشی اور عریانی کی یلغار کہیں دولت کی ہوس اور کہیں مادیت پرستی کی شورش نے پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ اس طرح انسان ان برائیوں کے پیچ و خم میں الجھ کے رہ گیا۔ اس کی فکری صلاحیتیں ماندپڑگئیں۔ اور انسان اپنی اخلاقی قدریں کھو کر حیوانیت کی سطح پر پہنچ گیا۔ پھر یہاں سے ترقی یافتہ انسان کی تنزلی کا سفر شروع ہوگیا۔ وحشت اور بربریت نے انسان میں انگڑائی لی اور پھر گوشت پوست کا جسم رکھنے والا انسان آدمی بن گیا۔ اس طرح فکر کی تبدیلی سے انسان کے کردار و عمل میں جو تبدیلی آئی اس تغیر کو جب انسان نے اپنے ہی ضمیر کے آئینے میں دیکھا تو انسان کے ضمیر کو چلتی پھرتی لاشیں نظر آئیں۔ ان چلتی پھرتیں لاشوں کو گدھیں نوچ نوچ کر ان کے مردہ ہونے کا ثبوت دے رہی تھیں۔ 

آخر انسان کی تباہی و بربادی کا آغاز کیوں ہوا اور انسان ذلت و رسوائی کے آتش فشان کے کنارے کیوں پہنچ گیا۔ 

اس سوال کا جواب اقبال کے اس شعر میں پوشیدہ ہے۔

”ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر“

جب انسان اپنی اصل اساس کو بھلا دیتا ہے اور نعمات الہیہ کا شکر ادا نہیں کرتا تو انسان ذلت و رسوائی کی دلدل میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ اوریہی وجہ ہے کہ جب سے انسان نے نعمات الہیہ یعنی قرآن اور وارثان قرآن کو بھلا دیا تب سے انسان نے دردر کی ٹھوکریں کھانا شروع کردیں۔ کیونکہ یہ وہ سنہری اصول تھے جن کا آغاز محسن (ع) انسانیت نے طائف کے بازاروں میں پتھر کھا کر کیا اور جس کی انتہا شہید اعظم (ع)نے اپنے مقدس اور پاکیزہ خون سے کی شہید اعظم (ع) نے ان اصولوں کی میدان کربلا میں اپنے بہتر ساتھیوں کے مقدس اور پاکیزہ خون سے اس طرح آبیاری کی کہ پھر جس جس شخص نے بھی ان سنہری اصولوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا وہی شخص دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہوا۔ حتی کہ غیر مسلمانوں کو بھی اپنی دنیاوی زندگی میں کامیابی کیلئے باب کربلا پر دستک دینی پڑی۔ اور پھر گاندھی جیسے ہندو لیڈر کو بھی یہ کہنا پڑا۔ 

”اگر ہند کی نجات چاہتے ہو تو حسینی (ع) اصولوں پر عمل کرنا ہوگا“ 

کربلاتاریخ انسانی میں ایسی چھوٹی سے چھوٹی جنگ ہے جس میں صدیوں کی تاریخ کو صرف چند گھنٹوں میں سمو کے رکھ دیا۔ اس جنگ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی بعثت کا خلاصہ پیش کردیا۔ کربلا نے شریعت الہیہ کو دوام بخشا اور دین مصطفیٰ کو استحکام بخشا کربلا ایک عالمگیر مذہب ہے جہاں سے رشدوہدایت کے ایسے سرچشمے پھوٹتے ہیں جس میں امن محبت وفا‘ چاہت‘ عبادت‘ شہادت‘ سخاوت‘ عدالت‘ مساوات‘ صبرو رضا‘ تحمل بردباری بلکہ وہ سب کچھ ہے جو مذہب انسانیت سیکھاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مذہب الہیہ ‘ مذہب حسینیت (ع) بن گیا۔ مذہب کربلا کی عظمت اسی بات سے واضح ہو جاتی ہے کہ امام عالی (ع) مقام نے صرف تین گز قبر کے ٹکڑے کیلئے ساٹھ ہزار درہم میں خطہ کربلا کو خرید کر خاندان بنی اسد کے نام پر کرکے اپنے دفنائے جانے کی مزدوری ادا کرکے اپنے جد امجد سید المصطفیٰ کے اس فرمان کو زندہ جاوید کردیا۔ 

کہ مزدور کی مزدوری کاصلہ اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو“ متلاشیان حق کیلئے میرا یہ سوال لمحہ فکر یہ ہے کہ وہ امام (ع) جو چند گز زمین کی اپنی شہادت سے پہلے کئی گنا زیادہ قیمت ادا کرتا ہے اور پھر اپنے دفنانے والوں کو اپنی شہادت سے پہلے کئی گنا زیادہ مزدوری ادا کرتا ہے۔ کیا ایسا امام حصول اقتدار کیلئے جنگ کر سکتا ہے نہیں ہرگز نہیں۔ 

شہید اعظم نے چھ ماہ کے صغیر سے لیکر 18سال کے کٹریل جوان تک اور پھر 90سالہ ضعیف کی شہادت تک انسانیت کی بقا کا ایک ایسا اصول واضح کر دیا۔ کہ اصولوں کی خاطر مرمٹنے والے ہی اس دنیا میں امر ہوتے ہیں۔ اور بے اصول لوگوں کے نام و نشان دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مٹ جاتے ہیں۔ 

پھر شہید اعظم میدان کربلا میں اپنے کردار و عمل کی بلندی اور اعلیٰ ظرف ہونے کا ایک بہترین نمونہ اس وقت پیش کرتے ہیں۔ جب لشکر یزید میدان کربلا میں وارد ہوتا ہے تو امام عالی مقام اپنے خون کے پیاسے دشمنوں کو سیر ہو کر پانی پلاتے ہیں۔ نہ صرف انسانوں کو بلکہ لشکر یزید کے حیوانوں کو بھی پانی پلاتے ہیں۔ ایسی اعلیٰ ظرفی کی مثال اس روئے زمین میں تخلیق آدم (ع) سے لیکر قیامت تک بھی نہیں مل سکتی جو تقویت پردے کو کربلا میں ملی اس کی مثال بھی روئے زمین میں نہیں مل سکتی۔ چار سالہ معصومہ (ع) کا اپنے ننھے منے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو ڈھانپنا پھر ثانی زہرا (ع) کا جلتے ہوئے خیموں میں کربلا کی مٹی سے اپنے بالوں اور ہاتھوں کو خضاب کرکے اپنے بالوں سے اپنے نورانی چہرے کو ڈھانپ کر پردے کی اہمیت اور عظمت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ کردینا۔ کربلا میں ہر کردار ایک لافانی اور مکمل کتاب ہے۔ بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ 

کربلا میں عبادت کا جو پہلو ہے وہ بھی ایسا عظیم پہلو ہے کہ اس کی مثال بھی کرہ ارض میں نہیں مل سکتی۔ سید الشہداء نے پتھروں کی بارش میں تلواروں کے سائے میں نیزوں کی جھنکار میں گھوڑوں کی ہنہناہٹ میں زخموں سے چور چور امام حسین (ع) تین دن کی پیاس سے خشک ہونٹوں سے تپتی ہوئی دھوپ میں اللہ اکبر کی صدا بلند کرکے کائنات عالم کو توحید کی عظمت و بزرگی بتائی اور مذاہب عالم کو اخروی نجات کا بہترین رستہ بتادیا۔ 

یہی کربلا کے وہ بہترین اصول ہیں جن میں نہ صرف ملک و ملت کی بقا بلکہ اقوام عالم کی بقا سلامتی استحکام اور نجات کا راز پوشیدہ ہے میری پروردگار عالم کے دربار میں یہ دعا ہے کہ صدقہ محمد و آل محمد کا ہم سب کو ان حسینی (ع) اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرما تاکہ ہم دنیا میں کامیاب اور آخر ت میں سرخرو ہوسکیں ۔ 


source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_articles.php?articles_id=859&link_articles=holy_prophet_and_ahlulbayit_library/imam_hussein/mulk_o_millat_baqaa_raaz
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
نجف اشرف
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
اذان ومؤذن کی فضیلت
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
نیکی اور بدی کی تعریف

 
user comment