اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

ا سلامی معاشرہ کی اخلاقی اور سیاسی خصوصیات

(مرتضیٰ شیرودی)

ترجمہ : (منور حسین ناصری)

خلاصہ :

اسلامی در کار معاشرہ کی سیاسی خصوصیات کا استنباط اور استخراج کئي اور قسم ، قسم کے شیوؤں اور طریقوں سے کیا جاسکتا ہے شاید نہج البلاغہ اور مسلمان دانشوروں کی طرف رجوع کرناہی بہترین اور برجستہ ترین شیوہ ہو۔

بیشک اگر نہج البلاغہ اور اسلامی دانشوروں کے نظریات اور آرا ء سے استفادہ کیا جائے تو مسلمان معاشرے کی مشکلات کا حل بہترانداز میں ہو سکتا ہے موجودہ تحریرنے حضرت علی کے بارے میں مختصر وضاحت کرنے کے بعد، نہج البلاغہ کی جامعیت و امتیازات اور ایک اسلامی معاشرہ کی مختلف سیاسی خصوصیات کو مورد توجہ قرار دیاہے اس کے بعد اس قسم کے معاشرہ کی خصوصیت کے بارے میں اسلامی دانشور حضرات کے افکار و نظریات کوپیش کئے ہیں اور آخر میں ایک در کار اسلامی میں لوگوں کی ذمہ داریوں کو مشخص ومعین کئے ہیں۔

الف: نہج البلاغہ اور مسلمان معاشرہ کی اخلاقی اور سیاسی خصوصیات

تمہید :جرج جرداق سے پوچھاگیا کہ تم عیسائی ہوتے ہوئے کو نسی چیز نے تجھے نہج البلاغھ کی طرف رغبت دلائی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا: میں بچپن سے ادبیات کا شوقین تھا اور میں نے نہج البلاغہ کا مشاہدہ کیا تو اس کی فصاحت و بلاغت اور ادبی نکات پر فریفتہ ہوا حالانکہ میری عمر ٩سال سے زیادہ نہیں تھی پھر بھی میں نے پورے نہج البلاغھ کو حفظ کرلیاتھا اور ابھی نصف صدی سے زیادہ گزر چکی ہے پھربھی میرا حافظہ نہج البلاغہ پر فخر کرتا ہے ۔

اس (جرق جرداق) سے سوال کیا گیا کہ! تم نے کتاب ((علی صوت العدالة الانسانیة)) کیوں لکھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا : میری نہج البلاغہ سے آشنائی کی وجہ سے ، میں حضرت علی کو پہچان سکا اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ امام علی تمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں یہاں تک کہ شیعوں کے درمیان بھی مظلوم ہیں حالانکہ میں نے دیکھ لیا کہ حضرت امام علی کی شخصیت و مرتبہ ، شیعہ و سنی ، اسلام عسیائیت ۔

١۔ اسلامی علمی تحقیقاتی مرکز کی علمی ہیئت کا رکن ، یونیورسٹی کے لیکچرار اور محقق سے ہٹ کر بلکہ تمام مکاتب فکر اور ادیان سے بلند و بالاہے اسی لئے میں نے حضرت امام علی کی اسی کتاب کو لکھی ہے تاکہ شاید ، اس ظلم و ستم کو خاتمہ کرنے میں ، میرا بھی حصہ ہو۔

(ماہنامہ پرسمان، (اسفند ١٣٨٢)ص١)۔

حضرت امام علی کے بارے میں:

انگلینڈ کے مشہور محرر (نوسیندہ ) اور فیلسوف ،تو ماس کار لائل اپنی کتاب بعنوان (بہادر، پہلوان ، دلیر، میں حضرت امام علی کے بارے میں کہتے ہیں : (مگر امام علی سے ہمیں دوستی اور عشق کے سوا کچھ نہیں ملاہے وہ کتنا بلند مرتبہ والا بہادر تھے آپ کے سر چشمہ وجدان سے محبت ، دوستی اور نیکی سیلاب کی طرح جاری تھیں اور آپکا مبارک دل قدرت مندی اور بہادری سے بھرا ہوا تھا کہ جن کے شعلے زبان سے نکل آتے تھے آپ کی شجاعت میں لطف و مہربانی گڑھی ہوئی تھی (فضل اللہ کمپانی ، علی کیست؟ ، ص ٣٥٧)

فرانس کے مستشرق (مشرقی زبانوں اور علوم کا ماہر) بارون کا ردائفوکا کہنا ہے کہ : علی کو کائنات کے لئے پیدانہیں کیا گیا ہے بلکہ کائنات کو علی ہی نے وجود میں لایا ہے ۔

ان کا کردار ان کی فکر عاطفہ اور خیال کا مظہر ہے عین دلیری کے ساتھ ، ساتھ آپ ایسا پہلوان ، اور بہادر تھے کہ ہمدرد بھی تھے ، اور عین جنگی ٹربینگ کے دوران ایسا شہسوار تھے کہ جوازہد بھی تھے ، دنیا کے مال و منصب اور جاہ مقام کی طرف آپکی کوئی توجہ نہیں تھی اورحقیقی راہ میں آپ نے اپنی جان قربان کردی اور آپ اسی عمیق روح کے مالک تھے کہ جسکی جڑ پوشیدہ تھی ، اور آپ جہاں بھی ہوتے تھے خوف الہیٰ آپ پر غالب رہتا تھا ۔(محمدر ضا حکیمی ، دستان غدیر ، ص ٢٥٩)

جیران خلیل جیران جولبنان کا محررّ ، شاعر اور مفکرّ بھی ہیں ، حضرت امام علی کے بارے میں کہتے ہیں کہ ( میری نظر میں ابی طالب کے فرزند ارجمند ، پورے عرب والوں میں پہلا وہ شخص تھے جو پوری دنیا کی حقیقت سے آشنا اور آگاہ تھے ، اور آپ دنیا کے ساتھ ہم نشینی اور رات میں افیق اور ہمدم بھی تھے ۔ آپ ایسے شخص تھے ، جن کے لبوں کے نغموں کی آواز نے حقیقت کو لوگوں تک پہنچایا گویا ایسالگ رہاتھا کہ اس سے پہلے کسی نے بھی ایسے نغمے نہیں سنا ہے ۔ علی تو دنیا سے رحلت کر گئے لیکن اپنی عظمت کا آپ خود گوارہ تھے اور آپ کے دل میں ، عشق پروردگارکی وجہ سے، نماز لبریز تھی (محمد رضا حکیمی ، ادبیات و تعھد در اسلام،ص٢٩٦)

پولس سلامہ ، جو لبنان کے عیسائی قانون دان اور ادیب ہیں ، اپنے بیت زیبا اور دل نشین اشعار میں امام علی کے بارے میں مدح سرائی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : زمانہ گزر جاتاہے اور بوڑھا ہوجاتا ہے جی ہاں ! لیکن حضرت امام علی صبح کے نوارنی چہرہ کی طرح ہمیشہ باقی اور پائیدار ہیں اور ہر روز ، وہرروز ہر صدی اور ہر زمانے میں ، جدید درخشاں سورج کی طرح بشریت کے پورے آفاق کو روشنی اور رونق بخشتے ہیں اور ہر اور نئے سرے سے طلوع ہوتے ہیں (جرج جرداق ، الامام صوت العدالة الانسانة ، ج( ١ ،ص ٣٧)

شبلیٰ شمیل ، جو عیسائی محقق اور طبیب ہیں ، تاریخ کے اس بزرگ مردکے بارے میں کہتے ہیں کہ : امام علی بن ابی طالب بزرگوں کابزرگ ہیں (سرداروں کا سردار ہیں )، اور آپ ایسا منفرد نسخہ ہیں کہ جسے زمانہ گذشتہ اور حال میں اہل مشرق و مغرب نے (کہ جسکی صورت اصل کے ساتھ مطابقت رکھتی ہو) نہیں دیکھا ہے۔(سید رضی ، نہج البلاغہ ، مقدمہ )

نہج البلاغہ کے بارے میں :

نہج البلاغہ ، صبحی صالح کے نسخہ کی بناپر ٢٣٩ خطبے ، و ٧٩خطوط (رسائل) اور ٤٨٠ کلمات قصار پر مشتمل ہے ، جو مسلمانوں کے پہلے امام کے گوہر کلاموں کا مجموعہ ہے یہ مجموعہ قرآن مجید اور حدیث نبوی ۖکے بعد عربی ادبیات کا ایسا بلند ترین نمونہ او رایسا بے نیاز منبع اور مبنیٰ ہے ، جو عربی زبان کی تقویت و ترویج او ربلندی کا سبب بنا ہے البتہ آپ کی گفتگو کا مجموعہ ، ان کلمات سے بالاتر ہے جو نہج البلاغہ میں جمع آوری ہوئے ہیں ۔

مسعودی ، کتاب مروج الذہب میں ، امام علی کے خطبوں کا مجموعہ ، جو اس زمانہ میں موجود تھا تقریبا اسکی تعداد ٤٨٠ تک بتاتے ہیں جب کہ کتاب نہج البلاغہ میں ، اس تعداد کا نصف حصہ ہے ۔ نہج البلاغہ کے بہت سے امتیازات میں سے چند کی طرف اشارہ کیا جاسکتاہے جیسے اس کی جامعیت ،زیبائی فصاحت و بلاغت اور مخاطب میں تاثیر گزا ہونا ۔

سیدرضی کہ جس نے نہج البلاغہ کو تدوین کیاہے ، اس کتاب شریف کے کلام کی زیبائی اور خوبصورتی کے بارے میں کہتے ہیں کہ : (وہی ( نہج البلاغہ ) ہے جس نے کلام کے چہرے سے نقاب ہٹادیاہے اس کلام کے وزن کا اندازہ اس کے بیان کی فصاحت و بلاغت سے کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی قانون مندی نے اس کے بیان میں جڑ پکڑلی ہے ۔

خطباء اور مقررین حضرات نے اسے اپنا نمونہ (آئیڈیل) قرار دیاہے اور خوش بیان وعظ و نصیحت پسند افراد نے اپنے کلاموں میں اسی سے قدرت اور مدد لئے ہیں کیونکہ ان کے کلام میں علم خدا کارنگ او رگفتار پیغمبرۖ کی خشبوموجود ہیں آپ حقیقت میں اس ہنر کا مقابلہ کرنے والوں کے درمیان ایسا پہلوان ہیں جسکی کوئی مثال نہیں ملتی اور ان کی گفتگو ایسے دریا کی طرح ہے کہ جس میں شور وغل نہیں ہوتے ہیں ۔(ابن ابی الحدید ، شرج نہج البلاغہ ، ج ٥،و ٦ ، ص ٤٣٦)

نہج البلاغہ کی نظر سے دیکھا جائے تو ایک اسلامی معاشرہ بہت سارے سیاسی خصوصیات عمل پیرا ہوسکتے ہیں ، ان میں سے چند کا زکر مندرجہ زیل کئے جارہے ہیں : 

١۔ گفتار میں آزادی: اجعل لِذوِی الحاجاتِ مِن قِسما تفرِغ لہم فِیہِ شخص و تجلِس لہم مجلِسا عاما فتواضع فِیہِ لِلہِ الذِی خلق و تقعِد عنہم جندک و

اعوانک مِن حراسکِ و شرطکِ حتی یکلِمک متکلِمہم غیر متعتِع:

اپنے قیمتی اوقات میں سے کچھ وقت ایسے لوگوں (محتاجوں ) کے لئے مختص کرلو ، جنہیں تمہاری ضرورت ہے ، خود انکے کاموں کے لئے فارغ کردو ،اور ان کے عمومی مجلس میں بیٹھا کرو ، اور جس (خدا ) نے تجھے پیدا کیا ہے ، اس کے سامنے ، اس مجلس میں ، سر تسلیم خم ہو کر بیٹھ جاؤاور اپنے ایسے سپاہیوں اور مدد گاروں جو تمہارا محافظ اور پاسبان ہیں ان کو اپنے پاس پیار سے بٹھا دو ، تا کہ ان کے اسپیکر تم سے بیدھڑک گفتگو کرے ) (وہی حوالہ خط ، ٥٣)

٢۔معاشرہ میں تحفظ فراہم کرنا :

انطلِق عل تقو اللہِ وحدہ لا شرِیک لہ و لا تروِعن مسلِما و لا تجتازن علیہِ کارِہا و لا تخذن مِنہ اکثر مِن حقِ اللہِ فِی مالِہ:

جا اس خدا کے خوف کے ساتھ جو یکتا اور بے مثل ہے اور کسی مسلمان کو مت ڈرا اور اگر تجھے وہ پسند نہیں آیا تو نا پسندی کی بنیاد پر اس پر تجاوز مت کرو، اور خدا کے حق سے زیادہ اس کے مال سے مت آٹھا۔(وہی حوالہ خط ، ٢٧)

٣۔ معاشرہ کو حقارت اور نظرانداز سے بچانا :

فاخفِض لہم جناحک وا لِن لہم جانِبک و ابسط لہم وجہک و آسِ بینہم فِی اللحظِ و النظرِ ةحتی لا یطمع العظما فِی حیفِک لہم و لا ییاس الضعفا مِن عدلِک علیہِم:

معاشرہ کے لوگوں کے سامنے خصوع و خشوع سے پیش آ اور ان کے سامنے نرم مزاجی ، خندہ پیشانی اور کشادہ ، اور ناتوان و مستضعف لوگ تمہاری عدالت سے مایوس نہ ہو جائیں۔(وہی حوالہ ہے ، خط ،٢٠)

٤۔مالی تحفط:

و انی اقسم باللہ قسما صادقا لئن بلغنی انک (زیادبن ابیہ ) خنت من فئی المسلمین شیئا صغیرا او کبیرا لاشدن علیک شدة تدعک قلیل الوفر ثقیل الظہرضئیل الامر:میں خدا پرسچی قسم کھا کر کہہ رہاہوں کہ اگر مجھ تک کوئی ایسی خبر پہنچ جائے کہ تم ( زیادبن ابیہ ) نے مسلمانوں کے مال غنمیت میں کہ و زیاد خیانت کی ہے تو میں تم پر اتنی سختی کروں گا کہ وہی تھوڑا سا مال تمہارے لئے مصیبت بن جائے اور تم خوارو پریشان میں پھر جائے( وہی حوالہ پر خط (٢٧)

٥۔ مردوں کی حکومت :

ولتکن احب الامور الیک اوسطہا فی الحق و اعمہا فی العدل و اجمعہا لضی الرعیة ، فا سخط العامة یجحف برضی الخاصة و ان سخط الخاصة یغتفر مع رضی العامة ۔ ولیس حد من الرعیة اثقل علی الوالبی مؤونة فری الرخاء ، و اقل معونة لہ فی البلاء ۔ و اکرة للانصاف ، و اسال بالالحاف ، و اقل شکرا عندا الا عطاء ، و ابطا عذرا عندالمنع ، و اضعف صبرا عند ملما ت الدہر من اہل اخاصة ۔ و انما عماد الدین و جماع المسلمین و العدة للا عداء العاقة من الاقة فلیکن صغوک لہم و میلک معہم: تجھے ایسے امور کو پسندیدہ ترین قرا دینا چاہیئے جو حق میں میانہ ترین عدل و انصاف میں وسیع ترین ہوں ، اور لوگوں کی خوشنودی کو جلب کرنیمیں جامع ترین ہوں، بے شک ، عام لوگوں کی ناراضگی ، خاص لوگوں کی رضایت کے اثر کو ختم کردیتی ہے حالانکہ عام لوگوں کی خوشنودی سے خاص لوگوں کی ناراضگی معاف کی جاسکتی ہے خاص لوگ ، روز مرہ شرائظ کے ساتھ عام لوگوں کو جانچنے میں حکومت کے لئے سنگین بوجھ ہیں اور مصیبت و سختی کے وقت ، ان کی حمایت بھی بہت ہی کم ہوتی ہے اور یہ لوگ پریشان ہیں کیونکہ حکومت کے ساتھ عمل بجالانے سے قاصر ہے اور یہ لوگ مانگتے وقت اصرار سے مانگتے ہیں بخششوں اور عطاوں کے مقابلہ میں کم شکر کزار ہیں شکر نہیں کرتے ہیں )، اور رنج و افسوس و ناراضگی وقت ، معذرت خواہی کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں اور زمانے کے دردناک حادثات کے دوران صبر کے لحاظ سے بہت کمزور ہیں پس صرف لوگوں کا وہ گروہ تمہارے لئے بہتر ہے جودین کو اپنا تکیہ گاہ سمجھتے ہیں اور دشمنوں کے ساتھ جنگ لڑنے میں یہی تمہارا طاقت کا ذخیرہ ہے لہذا ، تمہاری توجہ و دھان اور تمہار شوق انکی رکھو - ((وہی حوالہ ہے ، خط٣٥) 

٦۔ لوگوں کی خدمت کرنا :

وعلم ان لارعیة طبقات لایصلح بعضہا الا ببعض ولاغنی ببعضہا عن ۔ بمنہا جنوداللہ، و منہا کتاب العامة و الخاصة ،و منہاقضات العدل ، و منہا عمل الانصاف و الرفق و منہا اہل الجزیة، و ارلخراج من اہل الذمة و مسلمة الناس، و منہا التجار و اہل الصناعات و منہا الطبقة السفلی من ذوالحاجة و المسکنة و کلا قدسمی اللہ سہمہ ، وو صنع علی حدہ فریضة فی کتابہ او سنة نبیة صلی اللہ علیہ وآلہ عہدا منہ عند نا محفوضا : جان لو کہ لوگوں کے کئی طبقات ( طبقے) ہوتے ہیں ، بعض طبقوں میں بہتری نہیں آتی مگر یہ کہ دوسرا طبقہ ہو ، اور نہ ان میں سے بعض گروہ دوسرے گروہ سے بے نیاز ہیں ( بلکہ ایک کو دوسرے کی ضرورت ہے) پس ان میں سے بعض لوگ خداکی سپاہی ہیں ، اور کچھ لوگ عمومی اور خصوصی خطوط کے رالڑ ہیں اور بعض لوگ محکمئہ عدالت کے قاضی ہیں اور بعض لوگ ایسے ہیں جنکا کام انصاف اور مہربانی کرنی ہے مسلمانوں اور اہل ذمہ میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جو اہل جزیہ اور خراج ہیں ، اور بعض لوگ اہل تجارت اور صناعت ہیں ، اور بعض نچلی سطح کے فقرا او رمساکین میں سے ایسے افراد ہیں کہ جن کا حصہ اللہ تعالی نے مشخص اور معین کرلیا ہے - خدا اس واجب مقدار کو اپنی کتاب اور حدیث نبویۖ میں وضع کیا ہے کہ جس کے بارے میں خود نے وعد کیا تھا اور ہمارے پاس (شیعہ) مخفوظ بھی ہے ) وہی حوالہ (

٧۔ حق پرستی یا حق کی حمایت :

انا موفوک حقک ، فو فہم حقوقہم ، و الا تفعل فانک من اکثر الناس خصوما یوم القیامة ، و یؤسا لمن خصمہ عند اللہ الفقراء و المساکین و السائلون والمدفوعون و الغارم وابن السبیل ۔۔۔ و ان اعظم الخیانة الامة وافظع الغش غش الاعة:ہم نے تمہارے سارے حقوق ادا کرلئے ہیں ، لہذا تم بھی دوسروں کا حق ان تک پہنچا یا کرو ، ورنہ قیامت کے دن تم بڑے دشمنوں میں شمار ہوگا - اور خدا کے نزدیک وہ شخص بہ ترین لوگوں میں شمار ہوگا کہ جس نے فقیروں ، مسکینوں ، گداگروں ، دہتکارے ہوئے لوگوں ، قرضہ داروں اور ابن سبیل کے ساتھ خیانت و عداوت کی ہو ، اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کرنا ، بزرگترین خیانت میں سے ہوگا ، اور اپنے اماموں کو فریب دھوکہ دینا بدترینی دھوکہ بازی ہوگا )وہی حوالہ خط٢٦)

٨۔ لوگوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کرنا:

فان شکوا ثقلا او عل او انقطاع مثرب او بال او احال ارضی اغتمرہا غرق او اجحف بہا عطش خففت عنہم بہا ترجو ان یصلح بہ امرہم ، و لا یثقلن علیک شء خففت بہ الموون عنہم ، فانہ ذخر بعودون بہ علیک فی عمار بلادک و تزیین ولایتک مع استجلا بک حسن ثنا ئہم و تبححک باسفامن العدل فیہم ، معتمدا فضل قوتہم بما ذخرت عندہم من اجمامک لہم ، و الثق منہم بما عوذتہم من عدلک علیہم و رفقک بہم فربما حدث من الامور ما اذاعولت فیہ علیہم من بعد احتملوہ طیبة انفسہم بہ فان العمران محتمل ما حملتہ : جب لوگ ٹکس کی سنگینی اور کوئی دوسری وجہ سے مثلا )زمیں و آسمان سے پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے( یا زمیں پانی میں ڈوبنے اور خشک ہونے کی وجہ سے شکایت کریں ، تو ان کے امور کو انجام دینے کی امید دلاکر انہیں تخفیف کردو ، اور اتنی تخفیف مت کرو ، کہ کل کو تمہارے لئے بوجھ بنے ، اور وہ تمہارے لئے ایسا ذخیر ہے ، جسے وہ اپنے ملک کی تعمیر اور حکمرانی کی تزیین کے لئے تجھے لوٹا دیں گے ، اور اس کا فائدہ، یہ ہوگا کہ وہ سب تجھ پر قربان ہوں گے- اور وہ ایسی گران بہا شے ہے کہ جب تم عدالت کے سامنے ہوں گے تو تم احساس کروگے کہ وہ لوگ زیادہ تر ان قوتوں اور طاقتوں پر اعتماد کرتے ہیں ، جنہیں تو نے پیار و محبت سے خزانے کے طور پر ان کے پاس امانت رکھی ہوئی تھی اور وہ اعتماد ، ایسا اعتماد ہے کہ جسے تونے ان کے او پر عدل و انصاف اور مہربانی کرکے لوٹا دیاہے )یعنی ان کے اندر اعتماد پیداد کردیاہے (اور بعض اوقات ایسے واقعات پیش آتے ہیں ، جیسے کہ تمہارا ان کے ساتھ اچھے سلوک کے بعد جب تم ان سے کسی قسم کی مدد طلب کروگے تو وہ کبھی بھی انکار نہیں کریں گے بلکہ دل و جان سے قبول کرکے تمہاری مرضی کے مطابق زمین کی آبادی میں وسعت بھی پیدا کریں گے)ایضا ، خط ٥٣( 

١٠۔تشویق و تنبیہ (شوق او رتوجہ دلانا :اغرف لکل امری منہم ما ابلی ، ولاتضمن بلا امری الی غیرہ ولا تقصرن بہ دون غای بلائہ ولایدعونک شرف امری الی ان تعظم من بلائہ ماکان صغیرا ولاصنع امری الی ان تستصفر من بلائہ ماکان عظیما : ہر ایک کے رنج و مصیبت کی مقدار کو پہچان لو چاہے جتنی بھی ہو اور کسی کے رنج کو کسی دوسرے پر مت ڈالو ، رنج و مصیبت کا اندازہ جسے اس نے دیکھا ہے اور وہ تکلیف ، جسے اس نے اٹھائی ہے اس کے بدلہ اور عوض دینے میں کوتاہی مت کرو او رخبردار کسی کی بزرگی و شرافت سے غلط فائدہ اٹھاکر اس کے تھوڑے سے رنج کو بڑے رنج میں تبدیل مت کرو ،اور کسی کی پستی کی وجہ سے اس کی عظیم کوششوں کو خوار و مصیبت میں مت ڈالو )ایضا( 

ب- اسلامی دانشوروں اور معاشرہ کی سیاسی خصوصیات :

اسلام بشریت کی دنیوی و اخروی اور اس کی سیاسی اور معاشرتی زندگی کے نئے دور کے لئے ایک جدید پیغام پیش کررہاہے ، جو بشریت کے افکار اور تمام ادیان الہی کے پیغام اور آرا کے ساتھ شباہت اور درعین حال عمدہ اختلاف بھی رکھتاہے ان اختلافات میں سے ایک قرآن و حدیث اور نہج البلاغہ سے مسلمانوں کیسیاسی اور معاشرتی افکار کو سرچشمہ قرار دیناہے بے شک نہج البلاغہ میں ، سیرت حضرت امام علی اور ان کے خطبات کو مسلمان دانشوروں نے اپنے رہنمااصول قرار دئیے ہیں اور اتمام دانشورحضرات نے ان دونوں )سیرت اور خطبات امام علی( کی بنیاد پر اسلامی معاشرہ کی سیاسی اور اخلاقی خصوصیات پیش کئے ہیں ، لہذا ، تمام دانشور حضرات ان راہوں کے درپے تھے ، جن کے ذریعہ معاشر، اسلامی معاشرہ میں تبدیل ہوجائے )تقی اذادارمکی ، اندشیہ ہای اجتماعی متفکران مسلمان ،از فارابی ابن خلدون ، ص٧٧،٣٧ (

معاشرہ کی رہبری خصوصیات :

فارابی (پیدائش ٢٥١)نے رہبریت کو درکار اسلامی معاشرہ کی اخلاقی اور سیاسی خصوصیات میں سے ایک قرار دیا ہے ، کہ جس سے وہ معاشرہ اسلامی خصوصیات سے بہر مند ہو سکتاہے - اس سے بھی عمیق تربیان میں واضح کردون کہ ہر معاشرہ ایک کا محتاج ضرور ہے ، خصوصا ہر صحیح و سالم معاشرہ ایک عاقل ، دانا ، اور سمھجدا رہبر کا محتاج ہے جس طرح انسان کا جسم عقل کا محتاج ہے اسی طرح معاشرہ رہبر کا محتاج ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اانسان کا بدن ، صحیح و ساالم عقل کے بغیر کوئی بھی کام کو اچھی طرح انجام دینے اور بدن کے اعضا و جوارح کو آپس میں ہم آہنگ رکھنے کی توانائی وطاقت نہیں رکھتا ہے- نیز معاشرہ رہبر اور رہنما کے بغیر ہرج ومرج اور نیست و نابود کا شکار ہوتاہے - کے ساتھ ساتھ عقل کامل انسان کے جسم پر بھی اچھی طرح حکمرانی کرتی ہے ، لہذا رہبر اور لیڈر بھی معاشرہ کا کامل ترین فرد شمار ہونا چاہئے تاکہ وہ ایسا صحیح و سالم معاشرہ وجود میں لائے جو معنوی اور مادی تکامل کے لئے وسیلہ اور ذریعہ بن جائے)اندیشہ ہای اہل مدینہ فاضلہ ، ابو نصر محمد فارابی ، ترجمہ ، جعفر سجادی ، ص 261،260)ایک صحیح و سالم معاشرہ کی رہبریت اور لیڈری کے لئے مناسب اور کامل ترین فرد وہ ہے جس میں مندرجہ ذیل دیئے گئے 12 صفات پائی جائیں : 

1 ۔تندرستی 

2۔ہوشیاری و عقلمندی

3 ۔صاف گوئی و سچائی 

4 ۔اچھے اور بزرگ مصنونگار

5۔فریادرسی 

6 ۔جرات و بہادری 

7 ۔ قوہ عاقلہ رکھتا ہو 

8 ۔حافظہ تیز ہو 

9 ۔بیان میں فصاحت ہو 

10 ۔علم کا شوقین ہو 

11 ۔گناہ سے اجتناب کرتاہو 

12 ۔مال و متاع کا پروا نہ ہو 

لیکن اگر جب بھی کسی معاشرہ میں ایسی صفات والافر نہ پایا جائے ، تو دو فرد یا افراد کا ایک گروہ ان صفات کو رکھتے ہوں وہی لوگ معاشرہ کے لیڈر اور رہبر ہوں گے )تاریخ فلسفہ در اسلام ، میان محمد شریف ، ترجمہ فارسی ، ج 2 ، ص 74 )فارابی صاحب کی نظر میں ، معاشرہ کی رہبری اور لیڈری کے قائم مقام اور کئی جانشینوں کے اندر صفات رہبری کے علاوہ مندرجہ ذیل صفات کا ہونا ضروری ہے :

1 ۔عقلمندی و دانشمندی -

2 ۔جدیر قوانین کو وضع کرنا -

3 ۔قوانین کا اجرا اور استعمال -

4 ۔گذشتہ لیڈروں کے آداب -

5 ۔جنگ کے دوران اسلحوں کے استعمال میں صحیح مہارت رکھنا -

6 ۔معاشرہ ، جن حالات سے دوچار ہے ان کے بارے میں بصیرت و دوراندیشی سے کام لینا -

7 ۔تجربہ کار ہو -

8 ۔جدید قوانین کے اجرا اور لوگوں کو اپنی فرمانبرداری کے لئے ابھارنے میں اس کا بیان روشن اور واضح ہو)اندیشہ ھای اہل مدینہ فاضلہ 7، ابو نصر فارابی ، ترجمہ جعفر سجادی ، ص 267)

عنصر تندرستی کی تحلیل و تجزیہ کیا جائے تو کہا جاسکتاہے کہ : رہبر اور لیڈر اگر تندرست جیسی نعمت سے محروم ہو ، تو وہ اپنی تماتر توانائی و طاقت استعمال کرے تب بھی وہ معاشرہ کو اچھی طرح چلا نہیں سکتاہے البتہ تندرستی سے مراد یہ نہیں ہے کہ اس کے جسم میں بالکل بھی کوئی مشکل نہ ہو ، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ رہبر کے جسم میں کوئی ایسی مشکل نہ پائی جائے جو معاشرہ کو صحیح طور سے چلانے یا ادارہ کرنے کے لئے رکاوٹ بنے رہبر کی تندرستی اور سلامتی کا کچھ حصہ ان کی نفسیاتی سلامتی اور تندرستی کی طرف پلٹتا ہے - رہبر ایسا ہو کہ جب معاشرہ پر کوئی بحران آجائے تو وہ اپنے اوپر کنٹرول رکھے تاکہ مدیریت (mamaement)کرسکے اسی طرح رہبر ، نفسیاتی امراض و بیماریوں جیسے احساس کمتری یا خود نمائی ، سے خالی و منزہ ہو -

افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے اسلامی لیڈروں اور رہبروں میں روحانی اور نفسیاتی سلامتی اور تندرستی نہیں پائی جاتی ہے - 

خاندان کا سیاسی اور معاشرتی کردار -

ابن سینا)پیدائش : 358( معاشرتی اور سیاسی خاندان کو اسلامی معاشرہ کی کوئی دوسری خصوصیت تصور کرتے ہیں - اس کی یوں وضاحت کروں کہ : ازدواج مرد اور عورت کے پیوند اور ایک خاندا کی تشکیل میں ایک اہم عامل کی حیثیت رکھتاہے - خاندان کی تعداد بڑھنے سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے لہذا ، ازدواج کی تین دلیل ہیں : 

-1 خاندان کی پیدائش میں ، ایک اہم ترین عامل بشریت کا کس دوسرے کا محتاج ہوناہے ، کیونکہ انسان ، دوسرے لوگوں کی مدد کے بغیر اکیلا اپنی حیات و زندگی کو جاری کھنے یا آگے زندگی گزارنے اور روحانی و جسمانی ضرورتوں کو پوری کرنے یا فراہم کرنے پر قادر نہیں ہے - 

-2 ازدواج ، بنی نوع انسان کو دوام پیدا کرنے اور نسل بڑھانے کے لئے مناسب اور درکار وسیلہ ہے 

3 ۔ازدواج کی پیداوار ایسے بچے ہیں کہ جو بالغ ہونے کے بعد ، ناتوان بوڑھے اور عاجز والدین کے لئے ایک تکیہ گاہ بنتے ہیں - 

ایسی وجہ سے ، ازدواج ، فردی ضروریات کی فراہمی سے بڑھ کر ، معاشرتی ضروریات کو بھی فراہم کرتاہے نتیجہ میں ، یہ کہا جاسکتاہے کہ معاشرتی پہلو ، فردی پہلو سے زیادہ پسندیدہ او ربہتر ہے خاندان کے سیاسی ڈھانچہ میں قدرت و اختیار مرد کے پاس ہوتے ہیں اور وہی )مرد ( ہے کہ جو خاندان کی مدیریت اور حفاظت کی ذمہ داریوں کو اپنے اوپر لے کر دوسروں پر حکم چلاتاہے اور دوسرے اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں -

چھوٹے معاشرہ کے لئے چاہیئے کہ تین اصولوں پر توجہ دیں اور خاندان کی سیاست اور ادارہ کرنا انہیں اصولوں پر استوار ہے :

-1 یہ جاننا ضروری ہے کہ ) بہترین عورت وہ ہے جو عاقل ، دیندار ، سمھجدار ، چالاک ، دوست دارشوہر ، زبان کم چلاتی ہو ، فرمانبردار ، ایک دل ، امانت دار ، خدمت گزرا شوہر ہو ، اور شوہر کے تھوڑے سے سرمایہ کو اقتصادی طریقوں اور راہوں سے بڑھادے ، اور اپنے اچھے اور نیک اخلاق کے ذریعہ ، شوہر کے غم و اندہ کو تسلی اور تسکین دے - 

-2 مردکی ذمہ داری ، عورت کا احترام ، اس کے حال و احوال کی رعایت ، اس کی ضروریات زندگی کی فراہمی او رتربیت کرنا ہے تاکہ عورت اپنے وظائف اور ذمہ داریوں کو بخوشی انجام دے - 

-3 مرد کو چاہیئے کہ وہ عورت کو کسی کام میں مشغول و مصروف کرے ، کیونکہ با صلاحیت بیکار عورت ، اپنی ہمت وقت کو بیہودہ کاموں میں صرف کرتی ہے ) گزار دیتی ہے (

ابو علی سینا ، مذکورہ نصیحتوں کی روسے خاندان کو ہی معاشرہ کی اساس و بنیاد قرار دیتاہے اور خاندان کی سلامتی کو معاشرہ کی سلامتی سمجھتا ہے ، اور وہ مسائل و مشکلات جوان دونوں )خاندان اور معاشرہ ( میں پائے جاتے ہیں ، ان کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے اور انہیں حل کرنے کو ضروری سمجھتاہے )تاریخ اندیشہ ھای اجتماعی در اسلام ، ہدایت اللہ ستودہ ، ص 73- 71 (

ابن سینا ، باوجود اس کے کہ معاشرتی زندگی میں عورتوں کی مشارکت و شرکت کے خواہاں اور درپے ہیں ، انسان کی تربیت میں عورتوں کی بنیادی کردار ہونے سے غافل بھی نہیں ہیں - ظاہر سی بات ہے کہ اگر عورتیں گھر سے زیادہ ، گھر سے باہر معاشرتی امور میں زیادہ مصروف ہوں تو اپنے اہم ترین فرائض یعنی ، اولاد کی تربیت سے قاصر رہتی ہیں اور اگر ان کے اولاد کی صحیح تربیت نہ ہو جائے تو سالم معاشرہ وجود میں ہی نہیں اسکتاہے یہاں تک کہ خود عورتیں بھی اس قسم کے معاشرہ میں معاشرتی تحفظ سے بے بہرہ ہو کر سیاسی اور معاشرتی امور میں شرکت کرنے کی قدرت و طاقت بھی نہیں رکھ سکتی ہیں -

ابن سینا ، کے کلام سے یہ قابل فہم درس ہے کہ وہ نہ عورت کو گھر میں قید وبند کرتے ہیں اور نہ اسے گھر سے باہر نکالتے ہیں - حالانکہ بہت سے اسلامی معاشرے میں عورت کو گھر کے اندر محبوس و بند کرکے رکھتے ہیں لیکن مغربی معاشرے میں تو عورت گھرسے باہر ہی ہے - 

ماوردی : خلیفہ اور عوام کے وظایف برابر :

ماوردی ،پیدائش : ( 353)ایسے معاشرہ کو اسلامی معاشرہ تصور کرتے ہیں کہ جس میں وہ اخلاقی اور سیاسی خصوصیت پائی جاتی ہو کہ جو عوام او رحکومت کے لئے برابر وظائف اور ذمہ داریوں کی پہچان کرائے لہذا ،ماوردی کا کہنا ہے کہ خلیفہ کے لئے مندرجہ ذیل 10 وظائف اور ذمہ داریوں کا ہونا ضروری ہے :

-1 خزانہ کی خفاظت اور حکومتی امور میں سچے اور دیندار اشخاص کو انتخاب اور معین کرنا - 

-2 حکومتی خزانہ کی ضروریات کے لئے قانون کا تعین کرنا -

- 3 تمام دعووں کو حل اور عدالت کو اجرا کرکے شریعت کی اساس پر فیصلہ کرنا - 

-4 مسلمانوں کے وہ امور جو حکومت کے ماتحت ہیں ، انہیں انجام دے کر ڈائریکٹ نظارت کرنا -

-5 ملک بھر میں نظام اور قانون کو برقرار رکھنا اور قوم کی آذادی کو تحفظ دینا - 

-6 بیرونی یلغار کے مقابلہ میں بارڈروں پر دفاع اور پاسداری کرنا - 

-7 قرآن کے قانوں کا اجرا یعنی ) حدود شرعی کا اجرا ( - 

-8 دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے جنگی ساز وسامان کا مھیا کرنا - 

-9 خراج اور شرعی زکات کا اکھٹا کرنا - 

-10 دینی مسلم اصولوں کا دفاع اور تحفظ دینا ، اسی طرح ، خلیفہ کو عدالت سے لگا ہونا چاہئیے اور ٹیکس لینے اور عوض دینے میں انصاف کی رعایت کرنا ضروری ہے - 

جب خلیفہ نے اپنے 10 وظائف پر عمل کرلیا اور انہیں اجرا کے مرحلہ تک پہنچا دیا تو اس صورت میں لوگوں پر واجب ہے کہ اس کے حکم کی تعمیل اطاعت کریں اور کسی بھی کام کو اسی کے فرمان اور رضامند کے بغیر انجام نہ دیں ، نیز ساتھ ، ساتھ لوگوں کے لئے چاہیئے کہ ان کو اپنے وظائف کو انجام دینے میں ان کی مدد کریں - لیکن اگر خلیفہ نے اپنے وظائف پر عمل نہیں کیا تو لوگوں کو اختیار ہے کہ اسے اپنی خلافت و منصب سے ہٹاکر کسی دوسرے شخص کو ان کی جگہ پر معین کرں لیکن اگر کوئی طاقت کے زور سے مقام خلافت پر پہونچا ہے اور عدالت کو اپنا وظیفہ قرار نہ دے ، معاشرتی نظم و نسق کے تحفظ کے لئے جدوجہد نہ کرے تو اس صورت میں مسلمانوں کے لئے چاہئیے کہ معاشرہ کو ہرج و مرج ، آشوب، نا امنی اور شورش سے بچانے کی خاطر اس کی اطاعت کریں - مگر چونکہ خلیفہ اسلام سے منحرف ہوگیا ہے ، اس کی اطاعت واجب نہیں ہے ) تاریخ فلسفہ د راسلام ، میان محمد شریف ، ترجمہ فارسی ، ج2، ص( 193

ماوردی کی سیاسی نظریات و آرا میں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں : حکومت اور قوم کو معاشرتی انتظام سنبھالنے یا معاشرہ کو بحران سے بچانے کے لئے برابر اور مشترک کو ٹہ ہونا چاہئیے حقیقت میں دیکھا جائے تو جو مشکل اسلامی معاشروں میں پیش آتی ہے وہ یہ ہے کہ حومت ، عوام کو لاوارث اور بحران ایجاد کرنے والا عامل سمجھتی ہے او ردوسری طرف ، لوگ حکومت کو نالائیق اور ناکارہ سمجھتے ہیں، اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں ) حکومت وقوم( میں سے کوئی بھی معاشرہ کی پیشرفت اور وسعت کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھا تا ہے بے شک آج کل کے اسلامی معاشرے جو سچھے رہ رہے ہی اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتاہے - اس قسم کی بڑی مشکلوں کا حل یہ ہے کہ حکومت اور قوم یہ قبول کریں کہ نہ صرف معاشرے کی کامیابیوں میں بلکہ ناکاموں میں بھی ان کا کردار ضرور ہے - 

الہی سیاست میں ہدف کا ہونا ( الہی سیاست کا با ہدف ہونا )

امام محمد غزالی)پیدائش :437)کی نظر میں سیاست کا مطلب لوگوں کی اصلاح اور ان کی حقیقی سعادت یا اس بہشت تک پہونچانا ہے کہ جس میں فنا تاریکی ، جہالت غربت ، غم اور دوسرے کسی کا محتاج نامی کوئی چیز موجود نہیں ہے -

اگرچہ یہ سعادت آخرت کی ہمیشہ رہنے والی دنیا سے مربوط ہے لیکن جب تک اس مادی دنیا میں اچھے اعمال بجانہ لائے تب تک اس تک راسائی اور حصول ممکن نہیں ہے ، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتاہے کہ اس قسم کے ہدف اور مقصد تک پہنچنے کے لئے اخروی اہداف اور دنیوی اعمال کیدرمیان ہم آہنگی نیز فردی اور معاشرتی اسباب کو فراہم کرنے ،جسے کہ حکومت کی حمایت جلب کرنے کی ضرورت ہے - 

اس سلسلہ میں حکومت کو چاہئیے کہ خداکی پہچان اور قوم کی ظاہری و باطنی اصلاح کے لئے ضروری شرائظ کو، جو حقیقی سعادت تک پہونچائی ہیں ، انہیں فراہم کرے حقیقی سعادت نصیب ہونے کے لئے اہم ترین شرط ، خدا کی پہچان ، اور مصیح اعتقادات سے بہرہ مند ہونا ہے .

مندرجہ زیل 4 رکن کے ذریعہ صحیح اعتقاد کے ساتہ ، خدا کی پہچان ہو سکتی ہے :

-1 خداوند ، ازلی ، نظر نہیں آنے والا ، اور منزہ ہے ؛ )علم بالذات ( 

-2 خداوند عالم ، قادر ،عالم، سننے والا ، اور بینا ) دیکھنے والا ( ہے ؛ علم بالصفات .

-3 ہر وہ چیز جو موجود ہے ، وہ سب کے سب خدا کی مخلوق ہیں اور ہر وہ کام جیسے وہ چاہے تو انجام دے دیتا ہے ؛ )علم بالافعال(.

-4 خداوند عالم ، نے پیغمبروں کو انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے ، مگر خاتم انبیا محمد مصطفیۖ کے بعد ، لوگ ان کے جانشین )خلیفہ ( کو ایسے معیاروں کی اساس پر انتخاب کرتے ہیں جس میں بندگی ، ورع ، علم ، شایستگی )مہذب( ، مرد اور قریش ہوں .

سیاست اس چیز کے درپے ہیکہ انسان کی ظاہری اصلاح کے بعد ، باطنی بھی اصلاح ہوجائے ، لہذا ، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ افراد کی ظاہری اصلاح کے علاوہ ، ان کے قلبی اعتقادات کی رعایت کرے اور ایسی صفات کے پابند ہوجائے جو تقوی ، زہد ، صبر ، شکر، خوف ، رجا، رضا، صداقت اور اخلاص کا زمینہ ایجاد کرے اور انہیں صفات رذائل مانند تکبر، ریا ، ختم ، حسد سے باز رکھے۔

خداوند عالم کی معرفت اور ایمان ، انسان کی ظاہری اصلاح کا سبب بنتے ہیں ۔ انسان اپنی ظاہری اصلاح کو دو چیزوں میں ظاہر کرتاہے :

-1 عبادت کے شوق و رغبت میں طاہر کرتاہے۔ یہ خداوند عالم کے سامنے خصوع و خشوع کی ایسی نوع ہے جو انسانی معاشرتی زندگی کی چال چلن کو بھی تحت تاثیر قرار دیتی ہے۔

-22 آداب و رسومات میں ظاہر کرتا ہے جیسے نکاح، کسب و کمائی اور سفر یہ سب احکام شریعت کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔ انسان اپنی ظاہری اصلاح کرنے کے بعد ، وہ اپنی باطنی اصلاح کے مرحلہ میں داخل ہونے کی تیاری کرتاہے )اعبرافات امام محمد غزالی ، ترجمہ زین الدین کیائی نژاد ، ص115-177(

غزالی کے نظریات اور آرا میں سے بہترین اور جالب ترین نکتہ یہ ہے کہ وہ سیاست کو فتنہ و فساد برپا ہونے کا منبع قرار نہیں ہے ۔

)فساد کا گڑھ قرار نہیں دیتاہے (حالانکہ دوسرے حضراتت معمولا )عام طور پر ( سیاست کو فکر و فریب ، حیلہ ، دھوکہ ، تہمت و ... تصور کرتے ہیں اسی لئے بعض متدین افراد سیاست کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں ۔

اسلامی رہبریت کا دائرہ کار :

خواجہ نظام الملک طوسی ) پیدائش : (397 اسلامیدرکار معاشرہ کے لئے کوئی اور اخلاقی و سیاسی خصوصیت بتاتے ہیں ۔ وہ بادشاہ یا اسلامی رہبر و لیڈر کے لئے کئی وظائف گنتے ہیں ، منجملہ یہ ہیں : 

-1 بادشاہ کو چاہئیے کہ وہ دو کاموں کو ایک ہی نفر کا سپرد نہ کرے ، کیونکہ اس صورت میں ، وہ کام عیب و کمی کے بغیر انجام کو نہیں پہونچے گا۔ اسی طرح ، بادشاہ کو چاہیئے کہ وہ ایک کام کو دو نفر کا حوالہ نہ کرے ، کیونکہ اسی صورت میں ، وہ کام اچھی طرح اختتام پذیر نہیں ہوگا ، یا اس کا م کی انجام دہی میں کوئی نہ کوئی عیب ساتھ ہوگا ، کیونکہ پہلا تو یہ ہے کہ : پہلا نفر اس کام کو دوسرے نفر ، اور دوسرا نفر اسے پہلے نفر کا سپرد کریگا۔

دوسرا یہ ہے کہ : پہلے نفر کو اس چیز کا خوف ہے کہ اس کام کا نتیجہ ، دوسرے نفر کے حق میں شمار ہوگا اور دوسرے کو اس چیزکاڈر ہے کہ پہلا والا ، اس کی زحمات و تکالیف سے فائدہ اٹھائے گا۔

-2 اسلامی بادشاہ اور رہبر ولیڈر کی ذمہ داری ہے کہ وہ سپاہیوں کے حالات سے آگاہ ہوں اور ان کی ضرور بات کو پوری کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہیں تاکہ فساد وظلم و ستم میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ اس کے علاوہ، بادشاہ کو چاہیئے کہ وہ ان تین امور کو انجام دے کر اپنے لشکروں کو ظلم و بربریت اور انحرافات سے بچائے :

الف :لشکروں کی تنخواہوں کو مقررہ وقت پر اپنے ہاتھ سے ادارکرے ،تاکہ شاہ کی الفت و محبت ، لشکروں کے دل میں بھر جائیں ۔ نیز سخت جنگی حالات میں ان کی خدمت کرنیمیں کوشاں رہے او رشدت سے پائیداری کے ساتھ ڈٹے رہے۔

ب: تمام لشکر، ملک کے ہر منطقہ اور ہر نسل سے ہوں ، نیز انہیں ایک اچھے معیار و ملاک سے انتخاب کرے ۔

ج: ان کے سچے جاسوس لگائے رہو تاکہ اپنے فرائض کو ٹھیک ، ٹھیک انجام دیں۔ البتہ جاسوس اجنبی شخص ہوں ۔ خواجہ بادشاہ نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے کاموں میں مشورہ کرے کیونکہ مشورہ اس کی رائے اور تدبیر کی تقویت کا موجب بنتا ہے ، اسی طرح مشورہ ، بادشاہ کو خود غرضی اور کام کی انجام دہی میں جلد بازی سے بچاتاہے ۔ وہ مشورہ کے لئے ایسے افراد مثل ) علمائے دین ( کا تعارف کراتے ہیں ۔ اور شاہ کو تذکر دیتا ہے کہ ہر ہفتہ میں ایک ، دوبار علما کے پاس جایا کرے ۔ الہی حرام و حلال کردہ چیزوں میں ان کے وعظ و نصحت کو کان لگا کر سنے ، ان سے قرآن و حدیث کی تفسیر سنا کرے اور ان کے ساتھ مناظرہ کیا کرے ۔

خواجہ کے عقیدہ کے مطابق ،جب دانا ، عاقل اور وحی سے آگاہ پیغمبر)پیغمبر اکرمۖ( اپنے امور میں مشورہ سے کام لیتے ہیں ، تو بادشاہ خود کو شورہ اور مشورہ کے فوائد سے بے نیاز سمھجنا اس کی بیوقوفی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی ، خواجہ صاحب ، بادشاہ کے لئے بطور نصحت کئی نکتے بیان کرتے ہیں :

-1 اپنے اہل کاروں پر کڑی نظر رکھنا ۔

-2 کاشتکاروں کے آر زوں اور حالتوں کا خیال رکھنا ۔

-3 عالم و زاہد قاضیوں کو پسند یدہ قرار دینا ۔

-4 علمائے دین اور ان جیسوں کا احترام کرنا ۔

خواجہ صاحب ، ان نکات پر عمل کرنے کو ، اہل کاروں کا عوام کے ساتھ اچھے رویئے اپنانے ، کا شتکاروں کی رضا مندی اور خوشی ، عدل و انصاف کی پائیداری اور دین کے استحکام کی بنیادی شرط سمجھتے ہیں۔

خواجہ کا اعتقاد یہ ہے کہ جو بادشاہ او رحکومت اسی طرح عمل پیرا ہوں ، تو دینا میں ان کی نیک نامی اور شہرت باقی رہیں گی اور ساتھ ، ساتھ قیامت میں وہ پائیدار اور آخرت میں بھی وہ آزاد اور سراافراز ہوں گے)در آمدی فلسفی بر تاریخ اندیشہ سیاسی ، سید جواد طباطبائی ، ص (206

خواجہ صاحب ، مشورہ کے عنصر پر جو تاکید کررہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس سیاسی نظام کو پیادہ کرنا چاہ رہے ہیں جسے اسلام چاہتاہے۔ اس عقیدہ کے مطابق ، حکومت اور حاکم میں سے کوئی بھی,, مشورہ،، سے نقصان نہیں اٹھا سکتاہے ۔ بلکہ ,, عدم مشورہ ،، سے ایسے نقصانات پہنچ سکتے ہیں جس کی کوئی تلافی ہی نہیں ہوسکتی ۔ ,, مشورہ ،، کے لئے پہلے تو بزرگ شخصیتوں کے پاس جانا چاہئیے ، ان میں سے بھی خاص کر علما سے ,, مشورہ ،، لینا بہتر رہے گا ، کیوں ؟ اس لئے کہ ان کی نگاہ دنیا کی طرف بھی ہے اور آخرت کی طرف بھی ، نیز ان کے تقوی سے بہرہ مند ہونے کی وجہ سے کسی کے فریب میں بھی نہیں آسکتے ہیں ۔

عصر حاضر کے سیاسی نظاموں کی اکثریت اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ ,, مشورہ،، کے بغیر کوئی سیاسی نظام عوام کی شرکت کو جلب کرنے اور ان سے مناسب فائدہ لنے میں کامیاب نہیں ہوسکتاہے ۔

عوام کے سیاسی وظائف اور ذمہ داریاں :

خواجہ نصیر الدین طوسی )پیدائش : )580 معتقد تھے کہ بادشاہ و سلطنت کے مقابلہ میں عوام کے اوپر سیاسی وظیفے اور ذمہ داریاں ہیں وہ یہاں مثال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں :عوام کا فریضہ ہے کہ وہ بادشاہوں اور ان کے وزیروں کی خیر خواہی اور انہیں نصیحت کرنے میں کوشاں رہیں ۔ اور ان کے اچھے کرداروں کے انتشار اور ان کے عیبوں کو چھپانے کے لئے جدوجہد کریں ۔ اور سب کے سب ہر وہ کام جو ان کی سلطنتوں کے ذریعہ انجام پاتاہے اس کی تعریف کرنے میں کوتاہی مت کریں ، لیکن بادشاہ کی فکر میں عوام کی تباہی ہو یعنی ) اگر بادشاہ فسادی اور تباہی ذہنیت رکھتا ہو ( تو اپنے لطف و مہربانی و حکمت اور امر بہ معروف و نہی از منکر کے ذریعہ اسے برے انجام سے آگاہ کریں اور آہستہ آہستہ اسے حکایتوں اور ضرب المثل و غیرہ بیان کرے اس کی رائے اور نظریہ کو اسی کے سامنے اس طرح پیش کریں کہ بادشاہ کی نظر میں وہ نظر یہ نا پسند یدہ ہوجائے یعنی ) بادشاہ اس کے اپنے برے نظرے سے نفرت کرنے لگے( اور ہر وقت اس کے اسرار کی حفاظت کے لئے کوشش کرتے رہیں ۔

اور کسی گناہ یا غلطی کو بادشاہ کی طرشف نسبت نہ دیں ۔ اور اسی طرح عوام کی ذمہ داری ہے کہ دوران ، اپنی جان و مال کو دین و قوم کے تحفظ کی خاطر بادشاہ کا حوالہ کریں اور معمولی اشارے سے اپنے اپ کو بادشاہ کی نظروں میں اس طرح لائیں کہ بادشاہ یہ باور کریں کہ عوام اپنے مال و متاع کو ان کے اختیار میں دیے دیتے ہیں یا سلطنت کے لئے مال و جان قربان کرد یتے ہیں۔ اگر ایسا کریں تو عوام کے مال و متاع بادشاہ کی لالچ و طمع سے محفوظ رہیں گے ۔ لہذا خواجہ صاحب ، نصیحت کرتے ہیں کہ عوام کا باشاہوں کے اوپر جو حقوق ہیں ان کی ادائیگی میں کوئی کسر نہ چھوڑ یں بلکہ کھلے دل سے انہیں اددا کریں ۔

خواجہ صاحب ، کتاب آداب ابن المقفع پر استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں : اگر بادشاہ نے تجھے اپنا بھائی بنالیا تو ، تم اسے اپنی نعمتوں کا ولی )سرپرست ( جان لو، )بنالو(اگر بادشاہ تجھ سے نزدیک ہونا چاہے تو ، تم بھی ان کی تعظیم کرنے میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرو۔ اگر تم بادشاہ کا عزیز بنو تو پرانے خادموں اور قریبوں سے سبقت لینے کی کوشش مت کرو ، اور جان لو کہ بادشاہ کی اگر خدمت کرنی ہے تو ان کے بادشاہانہ نظریے اور رائے کی مخالفت مت کرو ، اور اپنی طاقت و توانائی کو مد نظر رکھ کر ان کے حکم کی تعمیل کرو، اور اس حقیقت سے آگاہ رہو کہ وہ بادشاہ ہیں ۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ تم ان کے تابع بن جا یا میطبع بن جا ۔ اگر لوگ ظالم حاکم سے ٹکر اگئے تو سمجھ لیں کہ وہ لوگ دو خطروں میں پھنس گئے ہیں : ظالم حاکم سے متفق ہوں گے )سازگارہوگے( اور لوگوں پر حملہ کریں گے۔ اور یا لوگوں کے ہمراہ ہوں گے اور ظالم حاکم کے خلاف ہنگامہ کریں گے پہلی صورت میں ، دین و مروت سے ہاتھ دہوبیھٹیں گے ۔ اور دوسری صورت میں ، دنیا اور اپنے نفس کو ہلاک کریں گے ۔ ان دو خطروں سے رہائی پانے کے لئے ظالم حکمران سے دوری اختیار کریں ۔ لیکن اگر حاکم ، ظالم تو نہیں ہے مگر لوگوں کو ان کا سلوک پسند نہیں ہے ، تو لوگوں کو ان سے و فادرای کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے مگر یہ ہے کہ خداوند عالم انہیں راہ نجات فراہم کرے)اخلاق ناصری ، خواجہ نصیر الدین طوسی ، ص )318-314 

خواجہ صاحب کے کلام سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے کہ جب معاشرہ پر تنقید ہوجائے تو معاشرہ کی اصلاح کی خاطر پاک و صاف نیت کے ساتھ گفتگو کرنا چاہیئے لہذا سماجی تنقیدی پہلو پر گفتگو کرنے میں ، لڑائی ، جھگڑے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ ، اگر چہ سب کو تنقید کرنے کا حق حاصل ہے ، لیکن دینی تعلمات کی روسے دیکھا جائے تو اس شخص کو تنقید کرنے کا حق حاصل ہے کہ جس میں وہ عیب نہ پایا جائے جسص کی بنا پر معاشرہ پر تنقید کی جارہی ہے کیونکہ عیب دار انسان )معیوب انسان ( دوسروں کے عیوب نقائص کو دور نہیں کرسکتاہے ۔ اسی طرح ، تنقید کرنے والے کو تنقید سے پہلے اپنی برادری اور صداقت کو ثابت کرنا ہوگا اس صورت میں ، اس کے اعتراضات بھی قابل قبول ہوں گے ۔ کیونکہ عام طور پر انسان اس شخص کے اعتراضات کو قبول کرتے ہیں ، جس نے اپنی دوستی اور سچائی کو باور کرایاہو ۔ اگر یاور نہیں کرایا ہو تو ، اگرچہ تنقید کرنے والا اصلاح اور خیر کی نیت رکھتا ہو ، لیکن وہ اس کی بات کو قبول نہیں کرتاہے بلکہ گفتگو کرنے میں جسارت کی وجہ سے اس سے دوری اختیار کرتا ہے ۔ یہ بات مخفی نہ رہے کہ سیاسی نظاموں کو چاہیئے کہ ہر تنقیدی پہلو کی طرف توجہ دیں کیونکہ ممکن ہے کہ اسی تنقید کی بنا پر وہ مشکل اور عیب جو سیاسی نظام میں موجود ہیں ، جس سے اہل کار حضرات آگاہ بھی نہیں ہیں ، دور ہو جائیں اور ان کے عیوب کی دوری سے سیاسی نظام کو تحفظ حاصل ہوگا۔

عوام اور معاشرتی تبدیلی :

ابن )پیدائش (784 کی کوشش یہ تھی کہ معاشرہ میں تبدیل لائے ، تاکہ معاشرہ اسلامی خصوصیات سے بہرمندہوں ۔ لہذا ان کا عقیدہ تھا کہ انسانی معاشرہ مندرجہ ذیل عوامل کے ذریعہ تبدیل ہوسکتاہے :

-1جب معاشرہ اور ماحول ، ثقافتی اور تمدنی رشد وپیدائش کے لئے ضروری مواقع فراہم کریں گے ، تو اس ماحول کی تبدیلی کی وجہ سے معاشرہ میں بھی تبدیل آئیگی ۔

-2جب لوگوں کے اخلاق و نفس اور ان کی خواہشات و احتیاجات، ان کی انفرادی اور معاشرتی زندگی میں بدل جائیں تو معاشرہ بھی بدل جائے گا۔

-3 کبھی کبھار ، صحرانشین لوگ ، شہریوں پر فتح حاصل کرکے نئی حکومت تشکیل دیتے ہیں ، نئی حکومت،نئیاقدار او رتبدیلیوں کا ایسا مظہر ہے کہ معاشرہ کے اندرونی ڈھانچہ کو تبدیل کرلیتاہے۔ جو تبدیلیان نئی حکومت کی تشکیل سے آتی ہیں وہ بہت ہیں ۔ ان میں سے بعض یہاں زکر کئے مجارہے ہیں:

الف : شہریوں کا کچھ گروہ ، صحرا نشینوں کے ساتھ جنگ لڑنے کی وجہ سے مارے جاتے ہیں۔

ب: شہریوں میں سے کچھ تعداد اپنے ہمسایہ ملکوں میں پناہ گزیں ہوتی ہیں۔

ج: شہریوں میں سے ایک بڑی تعداد ، نئے حکمرانوں کے قانوں کو قبول کرتی ہیں او ریہاں تک کہ بعض لوگ حکومت کی خدمت کرنے کے لئے تیار بھی ہوتے ہیں ان تین تبدیلیوں کی وجہ سے کچھ دوسری تبدیلیاں وجود میں آتی ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شہریوں میں سے کچھ قتل ہونے کے بعد، جو تعداد بچ جاتی ہے وہ ان گروہ کی مخالفت کے خواہان ہے جو جدید نظام کے آنے کی وجہ سے فرار ہو کر اپنے ہمسایہ ممالک میں پناہ گزیں ہیں ۔ اس کے ساتھ ،ساتھ شہرنشینوں کے ارزوں اور ادار کو تسلیم کرکے معاشرہ اور جدید حکومت کے ڈھانچے کو اثر اندداز کرتی ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں ، اگر چہ صحرانشینوں کی کامیابی سب بنتی ہے کہ جدید حکومت اور جدید معاشرہ وجود میں آئیں لیکن اس تاثیر سے مراد یہ نہیں ہے کہ صحرانشین لوگ ، شہریوں کی زندگی سے متاثر نہ ہوں ، بلکہ شہریوں اور صحرانشین لوگوں کے درمیان متقابل رابطہ وجود میں آتاہے ۔ اس طریقہ سے کہ صحرا نشین لوگ ، جدید ثقافتی پیداوار ، جدید تمدن کے ایجاد ، جدید معاشرہ کی تشکیل ، پیداوار کی مقدار اور کیفیت کے سطح کی ارتقا کے لئے فنون ، ایجادات ، اقتصادی سامان ، مالی قدرت اور علم کے میدان میں ، گذشتہ تمدن والوں )شہریوں ( کے محتاج ہیں ۔

اسی طرح ، شہری لوگ بھی ، سجاوٹی سامان و اجناس جیسے قسم قسم کی خوارک ، کھانوں کے انواع و اقسام اور متعدد چمڑوں کے مواد کو جمع اور تیار کرنے کے لئے ، صحرا نشینوں محتاج ہیں۔

ممکن ہے جدید تمدن اور حکومت ، قدیم تمدن او رحکومت ) کل کے صحرا نشین اور آج کے شہرنشین( کی طرح نابود و برباد ہوجائیں ۔ 

ابن خلدون کاکہنا ہے کہ وہ شے جو گذشتہ تمدنن کی موت ) تباہی و بربادی ( او رجدید تمدن پیدا ہونے کا سبب بنی ہے ، اسے ان شہریوں کی زندگی تلاش کریں ، جو جدید حکومت کا مین مرکز اور قرار گاہ بنی ہے لہذا ، جب شہریوں کی زندگی میں ، پھلنے اور سرایت کرجانے والی بیماریاں عام ہو جائیں تو سمجھ لو کہ حکوت کا ڈھانچہ درہم برہم اور برباد ہونے والا ہے ۔ اور آبادی میں یا اضافہ ہوگا یا کمی آئیگی ہو اور ہو ہیں اور خواہشات کی وجہ سے فساد و تباہی ، کاہلی و سستی اور بیکاری میں روزبہ روز اضافہ ہوگا۔ اور آرائش و زیبائش اوج پکڑلے گی پس حکومت کو چاہئیے کہ ٹیکس کے وصول سے اجتناب کریں ۔ اسی طرح ، انحرافات جنسی کی وجہ سے پست خصلتوں ، حقارتوں اور اجناس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا جدید حکومت ، گذشتہ حکومت کی جگہ پر آجائیگی ، یعنی گذشتہ حکومت ، مذکورہ عوامل کے وجود میں آنے کی وجہ سے ختم ہو کر جدید حکومت اس جگہ کو لے لیتی ہے) شناخت انواع اجتماعات از دیدگاہ فارابی و ابن خلدون ، غلام علی خوش رو ، ص 134)

البتہ ابن خلدوں کی نگاہ میں ، ان حکومتوں کا آگے سچھے اور ادھر ، ادھر ہونا ظاہری اور ایک نقشہ کشی ہے ، اسی سے معاشرہ میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے ، حقیقت میں دیکھا جائے تو ابن خلدون یہ سمجھانا چاہتاہے کہ حکومتوں اور سلطنتوں میں تبدیل آنا ایک ظاہری اور نقشہ کشی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

اس سے نہ اساسی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی ، بلکہ پتانسلز (( صنائع وبیکارہونے کا سبب بنتاہے اور اس کا نتیجہ عقب ماندگی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ہے ۔ جہان اسلام، سب کے سب ، تما صدیوں میں اس وسیع عریض دنیا کے گوشہ و کنار میں حکومتوں کے اندر پے در پے تبدیلی آنے میں گواہ ہیں لیکن اسی واقعہ کی گہرائی اور اساس پر کم توجہ دینے کی وجہ سے بالا سیاسی اور اخلاقی پتانسل )( سے اچھے سلوک کرنے کے باوجود عمل کے میدان میں بدن انسان کا اندازہ نہیں لگایا جاسکا ۔


source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_articles.php?articles_id=1227&link_articles=ethics_and_supplication/ethics_articles/islami_muashiray_li_akhlaqi_siasi
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عید فطر احادیث کی روشنی میں
امام حسین علیہ السلام اور تقیہ
بنی اسرائیل اور اسرائیل کی تاریخ
اعتدال اور میانہ روی
حدیث ثقلین پر ایک نظر
امام کي شخصيت اور جذبہ
25 شوال المکرم؛ رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ ...
حضرت علی علیہ السلام کا جمع کردہ قرآن
مسئلہ تحریف قرآن
اسلام نے زمانے کو عزت بخشي

 
user comment