اردو
Thursday 18th of April 2024
0
نفر 0

مصیبت سے مقابلہ كی مہارتیں

 

از قلم عبدالھادی مسعودی مترجم: ھادی حسن فیضی 

قرآن وحدیث وہ گراں قدر سرمایہ ہیں جنہیں عملی تعلیمات میں تبدیل كرنا چاہیے اور عصر حاضر كی زبان میں بیان كرنا چاہیے، اس خصوصیت كی اس مقالہ میں بخوبی رعایت كی گئی ھے اور اسی وجہ سے نفسیات كے ماھر دانشوروں اور ڈاكٹروں كی طرف سے اس كا بہت اچھا استقبال كیا گیا ھے۔۔

مصیبت زمین میں خدا كی قطعی سنت ھے۔ہم خاكی لوگ سختی میں پیدا كئے گئےہیں 1 اور ہماری روح كے جوہر كی جلاء كے لئےرنج ومصیبت كا صیقل برداشت كرنا ضروری ھے۔خداوند متعال نے اپنی كتاب میں جگہ جگہ اس مسٔلہ كی طرف اشارہ كیا ھے اور گزشتہ امتوں اور بزرگ رسولوں كی مصیبتوں كو ہمارھےسامنے بیان كیاھے۔سورۂ بقرہ كی ۱۵۵ویں آیۂ شریفہ میں مصیبتوں كی قسموں كو بیان كیا ھے اور صبر كرنے والوں كو بشارت دی ھے:

"ولنبلونّكم بشیٍٔ من الخوف والجوع ونقصٍ من الاموال والانفس والثمرات وبشّر الصابرین"۔

"ہم تمہیں كچھ خوف اور بھوك سے اور مالوں، جانوں اور پھلوں كی كمی سے ضرور آزمائیں گے اور اے پیغمبر(ص) صبر كرنے والوں كو بشارت دے دیجئے۔"

صبر وتحمل اس مصیبت بھری دنیا میں زندگی كا ایك لازمہ ھے اور ہمارے ہستی شناس ائمہ معصومین علیھم السلام نے بہت سے ارشادات وتعلیمات اپنے پیروؤں كے لئے یادگار میں چھوڑے ہیں تاكہ اس عظیم امتحان پر صابر وشاكر بن كر بشارت حاصل كریں۔ہم ان ارشادات وتعلیمات كوان پر عمل كرنے كے مناسب وقت اور مرحلہ كی بنیاد پر تین حصوں میں تقسیم كر رھے ہیں:

(۱) اضطراب كے اضافہ سے روكنا

(۲) اضطراب كی كمی

(۳) مكمل كنٹرول

ان مرحلوں میں سے ہر ایك مرحلہ متعدد روشوں اور طریقوں كا حامل ھےجو كہ روایات سے اخذ كئےگئےہیں۔ان كے بیان كرنے سے پہلے اس بات كا ذكر ضروری ھے كہ اس مقالہ میں مصیبت، مالی اور جانی مصیبتوں اور روحی صدموں سب كو شامل ھے اور حدیث نبوی(ص) كی تعبیر میں: "كل شیء ساءالمؤمن" 2 ھے، یعنی: ہر وہ چیز جو ہم كو اور ہماری روح كو آزار وتكلیف دے، جوتے كے فیتے ٹوٹنے اور لباس پھٹنےسے لے كر تمام مال ودولت، اعزاء اور اولاد كے كھودینے تك۔

الف) اضطراب كے اضافہ سے روكنے كے طریقے

مصیبت كے وقت ابتدائی دن اور گھڑیاں سخت اور تلخ ہوتی ہیں۔مصیبت كا شدید دباؤ اوراس سے پیدا شدہ دہشت انسان كو كبھی كبھی غیر عادی كاموں كی طرف ابھارتی ھے، بعض لوگ رونے پیٹنے لگتے ہیں، بعض سكون بخش دوائیاں استعمال كرتے ہیں اور بعض بیہودہ حركتیں انجام دینے پر اتر آتے ہیں، لہذا ہمارا فریضہ سب سے پہلے بیہودہ حركتوں سے روكنا ھےكہ كبھی كبھی خاص اور شدید حالات میں احمقانہ كام جیسے نشیلی چیزوں كا استعمال كرنے لگتےہیں۔

1) سكون

ہماری روایات میں اس طرح كے كاموں سے منع كیا گیا ھے۔امیرالمؤمنین حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں:

"اذاأتتك المحن فاقعد لها، فأن قيامك فيها زيادۃ لها" 3

جب تم پر مصائب ٹوٹ پڑیں تو ان كے سامنے بیٹھ جاؤ اس لئےكہ ان كے سامنے تمہارا قیام كرنا ان كے اضافہ كا باعث ہوگا۔یہ حدیث مصیبت پڑنے كے وقت بیہودہ حركتوں كو صحیح نہیں سمجھتی اور بتاتی ھے كہ نہ صرف وہ تسكین كا سبب نہیں بنتیں بلكہ مصیبت زدہ كی روحی اور جسمی قوتوں كے بیكار ہو جانے كا باعث بن جاتی ہیں (كہ جن قوتوں كو عقلانی اور منظم طریقے سے استعمال كرنا چاہئے) ۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام كی طرف منسوب ایك ارشاد میں ایسے شخص كومختنق سے تشبیہ دی گئی ھے (مختنق اسے كہتے ہیں جس كی گردن رسی سے باندھ دی گئی ہو اور اس كادم گھٹ رہاہو) ایسا شخص جتنا ہی زیادہ كوشش كرے گا اور ہاتھ پاؤں مارے گا اس كی حالت اتنی ہی زیادہ سخت اور بدتر ہوگی۔ 4

وہ تاجرجس كی تجارت ٹوٹ گئی ہو اگر وہ یكبارگی بے سوچے سمجھے اپنی طاقت وقوت كی حد سے بڑھ كرجسمانی قوتیں صرف كرتا ھے اور چاہتاھے كہ پہلی فرصت میں اپنے نقصان كی تلافی كرلے تووہ نہ صرف اپنی مصیبت كی تلافی نہیں كرپاتا بلكہ وہ اپنی صحت وسلامتی اور سكون وآرام بھی ہاتھ سے دھو بیٹھتا ھے۔

شاید مصیبت زدہ شخص كے اپنے مرحوم عزیز كی قبر میں وارد ہونے كی كراہت كا جو فقہی حكم ھے اس كا راز بھی یہی ہو، كیوں كہ بہت سے مصیبت زدہ لوگ اپنے مرحوم عزیز كی قبر میں وارد ہونے اور اس كے دوبارہ دیدار سے تاب ضبط نہیں لاتے اور اپنی پریشانی اور دوسرے ہمراہوں كے گریہ وزاری كے اضافہ كاباعث بن جاتے ہیں۔

2) بیتابی نہ كرنا

بے تاب ہونا، تڑپنا یا جزع وفزع، مصیبت كے مقابل كمزور افراد كا عكس العمل ھے۔

جزع یعنی مصیبت زدہ شخص كے روحی اور نفسانی تعادل وتعاون وتوازن كا بگڑنا ھے جودوشكلوں میں ظاہر ہوتا ھے:

(۱) اضافی كام

(۲) كم كاری۔

ایسا شخص یا ایسے كام كرنے لگتا ھے جو اس سے پہلے نہیں كرتا تھا اور وہ كام زیادہ تر گریہ وزاری، بے تابی، تڑپ، اور فریاد و واویلا كی شكل میں ظاہر ہوتے ہیں، یا وہ زندگی كے لازمی اور اپنے روز مرہ كے كاموں سے ہاتھ كھینچ لیتا ھے اور ہاتھ پر ہاتھ ركھ كرخاموش بیٹھ جاتا ھے اور برق زدہ افراد كے ماننداپنے دائمی كاموں كوچھوڑ دیتا ھے۔ بہت سی روایات میں اس حالت سے منع كیا گیا ھےاور اس سے پرہیزكرنے پر تاكید كی گئی ھے۔امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام جزع وفزع اور بے تابی كونہ صرف مصیبت زدہ شخص كا اضطراب ختم ہونے كاسبب نہیں سمجھتے بلكہ اسے اس كے لئے مصیبت كے اور اضافہ كاسبب سمجھتے ہیں 5 ، كیونكہ یہ شخص روزانہ كے كاموں سے كنارہ گیری اور گوشہ گیری كی وجہ سے اور كام دھندے میں مشغول ہونے كے بجائےباربار اسی مصیبت كو یاد كرتاھے اور ہمیشہ اسی كے بارے میں فكر كرتاھے۔

یہ مصیبت كے حقیقی معنی ہیں اس لئے كہ خود مصیبت اس كے یاد كرنے سے كم نقصان پہنچاتی ھےاور یہ وہی مولیٰ الموحدین حضرت علی علیہ السلام كاارشاد ھے:

"الجزع عندالبلاء تمام المحنة" 6 مصیبت كے وقت جزع وفزع كرنا پوری مصیبت ھے۔ہمارے دوسرے ائٔمہ معصومین علیھم السلام نے بھی اس مسٔلہ پر پوری توجہ دی ھےاور ان سے وارد شدہ بہت سی روایات میں جزع وفزع اور بے تابی سے منع كیا گیاھے۔ 7 اس بناپر غیر عادی كام جیسے كالا لباس بدن سےنہ اتارنا، كئی دنوں یاہفتوں تك سراورداڑھی كے بال نہ كاٹنا، صفائی كرنا، گریبان چاك كرنا اور سرو سینہ پیٹنا یہ سب غلط ھے۔

3) سكوت

دوسرا طریقہ جو مصیبت كے پہلے دنوں میں مفید ھے، وہ سكوت اور خاموشی ھے۔شكوہ كرنے اور اپنے درد منددل كا دستر خوان ہر شخص كے سامنے بچھا دینے كا نتیجہ صرف اپنے كوخوار وذلیل كرنا ھے اور یہ مصیبت سےپیدا شدہ درد كوذرہ برابر كم نہیں كرتا۔دوسرے لفظوں میں مصیبت كے وقت آپے سے باہر ہونااور اپنے اوپر قابو نہ ركھنے كے بجائے بے صبری كا مظاہر ہ كرناممدوح نہیں ھے بلكہ سكوت وخاموشی مصیبت كے مقابلہ میں روح وجسم كی كمزوری سے روكنے كا راستہ ھے۔سكوت سے بہت ممكن ھے كہ ذھن میں زندگی كے حادثوں سے پیدا شدہ صدموں كے جبران اور حل كا راستہ اور خلاقیت كا موقع حاصل ہو۔اور انسان كو اس بات كی فرصت ملتی ھے كہ مصیبت كے چھوٹے بڑے ہونے اور اس كے سبب كے بارے میں سوچے اور اس سے مقابلہ كے طریقوں كو سمجھے۔

حضرت پیغمبر اكرم(ص) كی وفات حسرت آیات كے بعد بعض بنی ہاشم اتنا پرشان اور غمگین ہوگئے تھے كہ اپنی حالت كی پرواہ كئے بغیر سرو سینہ پیٹتے تھے اور بے تابی كا اظہار كرتے تھے لیكن امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے جیسا كہ خود فرمایا ھے سكوت وخاموشی اختیار كیا اور اس طرح عالم وجود كی سب سے زیادہ عزیز ہستی كے فقدان كو برداشت كیا۔ 8

4) خدا سے گفتگو

بہت سے ایسے ہیں جونہ خاموش رہنے كی قوت ركھتے ہیں اور نہ كچھ نہ بولنے كی طاقت اور شكوہ شكایت كرنے اور نا خوشی ظاہر كرنے كی خواہش ركھتے ہیں،

نہ تو وہ شكایت نہیں كرسكتے اور نہ تووہ خدا سے گلا كرنا چاہتے ہیں، وہ نہیں چاہتے كہ اعتراض اور شكایت كركےاور كون ومكان كو برابھلا كہہ كے كفر گوئی كو ظاہر كریں۔ہماری روایات نے ایسےافراد كو تاكید كی ھے كہ اپنے دل كاخوان خدایا اپنے حقیقی دوستوں كے سامنے بچھائیں اور اپنے اعتراضات جوان كے انتقال كرنے، فقیر كے محتاج ہونے، ضعیف اور بوڑھا ہونے اور زخمی شخص كے كمزور ہونے سے متعلق ھےخدا كی بارگاہ میں پیش كریں۔

دوسرے لفظوں میں، ہماری روایات میں مصیبت زدہ افراد كے عكس العمل كوناخوشی كے اظہار اور شكوہ وشكایت كی صورت میں منع كیاھے، لیكن اس كے بجائے ایك مناسب بدل اور عوض كا حكم دیا ھے كہ وہ بدل خدا سے مناجات، اس كی بارگاہ میں گریہ وزاری اور اس سے صبر وتحمل اور ہر اس طریقہ سے صدمات كے جبران كی درخواست ھے جس میں ہماری خیر صلاح سمجھے۔یہ مناسب بدل، توبہ كے ساتھ قابل مقایسہ ھے كہ ایك طرح خدا كے سامنے اپنی كمیوں اور حاجتوں كو فاش كرنا ھے۔توبہ، دوسروں كے سامنے "اپنے انتقاد" اور عیب وگناہ كے فاش كرنے كا بدل ھے۔دوسرے لفظوں میں خدا اس درمیان ہمارا بہترین صمیمی دوست اور محرم راز ہوجاتاھے چونكہ وہ رئوف، مہربان اور عالم وقادر ھے۔ہم اپنے درد اس سے بیان كرتے ہیں اور اس سے دعا مانگتے ہیں كہ وہ ہم پر رحمت نازل كرے اور كھوئی ہوئی نعمت كو دوسری صورت میں ہمیں واپس كرے یا عالم آخرت میں ہمارے لئے ذخیرہ كرے۔اس بات پر بہت سی روایات دلالت كرتی ہیں، ہم ان میں سے روایت پر اكتفا كرتے ہیں كہ حضرت رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ھے:

"اذاأضاق المسلم فلا يشكونّ ربّه۔عزوجل۔وليشك الیٰ ربه الذی بيدہ مقاليد الامور وتدبيرھا" ۔ 9

جب مومن پر كوئی سختی پیش آۓتو وہ ہر گز اپنے پروردگار كی شكایت نہ كرے بلكہ اس سے شكایت كرےے كہ تمام امور كی كنجیاں اور تدبیر اسی كے ہاتھ میں ہیں۔

قابل ذكر بات یہ ھے كہ جو شخص اپنے حال كی شكایت لوگوں سے نہ كرے اس كی جزا، اللہ كے نزدیك مغفرت ھے اور حضرت پیغمبراكرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم كے ارشاد كے مطابق خدا نے اس بات كو اپنے اوپر واجب قرار دیاھے۔10 حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

"من شكا الیٰ اخيه فقد شكا الیٰ الله ومن شكا الیٰ غير اخيه فقد شكا الله"

جو شخص اپنے دینی بھائی سے شكوہ كرے اس نے گویا خدا سے شكوہ كیا ھے اور جوشخص اس كے علاوہ دوسرے سے شكوہ كرے اس نے خداكاشكوہ كیاھے۔

5) گریہ سے تسكین

یہ روش بھی گزشتہ روش كے مانند ان لوگوں كے لئے ھےجو كھوئےھوئی یا مفقود شخص سے كچھ زیادہ ہی جزباتی تعلق ركھتے ہیں۔مصیبت پڑنے كے پہلے مرحلوں میں مرحوم عزیز كی یاد باطنی غم اور ظاہری گریہ كا باعث ھوتی ھے اور یہ كسی بھی طرح ناپسند نہیں ھے۔ہماری احادیث اس فطری عكس العمل اور اثر كو انسانی احساسات وجزبات كا نتیجہ جانتی ہیں۔

ایسا جذبہ جو كھوئی ھوئی شے اور مرحوم شخص سے نزدیكی رابطہ كے احساس كی بنا پر فراق وجدائی كی تاب نھیں ركھتا، خصوصا اگر یہ جدائی دائمی اور بغیر بازگشت كے ھو۔ایسی حالت میں ہمارے آئمہ معصومین علیھم السلام كی مكرر نصیحت صرف ھزیان گوئی اور بیھودہ كاری سے پرھیز كرنا ھے۔امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نےاس بارے میں فرمایاھے:

"رخص رسول الله فی البكاء عند المصيبۃ وقال: النفس مصابۃ والعين دامعۃ والعهد قريب، فقولوا مارضی الله ولا تقولوا الھجر"12

حضرت پیغمبر صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مصیبت كے وقت رونے كی اجازت دی ھے،

اور فرمایا ھے: نفس مصیبت زدہ ھے، آنكھ گریاں ھے اور عہد ویاد نزدیك ھے۔لہذاایسی بات كھو جو خدا كو خوشنود كرے اور ھزیان گوئی نہ كرو۔

"رخص" كے لفظ سے یہ استفادہ ھوتا ھے كہ گریہ كا حكم نھیں دیا گیا ھے اور صرف ان لوگوں كے لئے جائز سمجھا گیا ھے جو اپنے اوپر قابو نھیں ركھتے۔اس بات كی تائید مندرجہ ذیل دو روایتوں سے بھی ھوتی ھے: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

"من خاف علیٰ نفسہ من وجد بمصیبۃ فلیفض من دموعہ فانہ یسكن منہ"13

جو شخص مصیبت پڑنے سے اپنی جان كے متعلق خائف ھوتو است چاہئے جی آنسو بھائے اس لئے كہ وہ اسے تسكین دیتاھے۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ایك دوسری روایت میں ایك مصیبت زدہ شخص سے فرماتے ھیں: "فافض من دموعك فانھا تسكن" 14

تم آنسو بھاؤ كہ وہ تسكین بخشنے والاھے۔

اس كے معنیٰ یہ ھیں كہ جو لوگ مصیبتوں سے دور ھوتے ھیں اور جذبات واحساسات سے بہت كم متاثر ھوتے ھیں یاجو لوگ قوی دل كے مالك ھوتے ھیں اور مصائب كے سامنے نھیں جھكتے وہ رونے كی احتیاج نھیں ركھتے اور یہ روش ان لوگوں كے لئے لازم ھے كہ آنسوؤں كو روكنے اور غم كے دبانے سے جن كی جان پر آبنتی ھے اور گریہ وزاری كا مظاہرہ نہ كرنے كی صورت میں ان كی روح فرسودہ ھوجاتی ھے اور دل مردہ ھوجاتا ھے۔یہ بالكل ان بعض تندرو فرقوں اور شدت پسند افراد كے مد مقابل ھے جو مردہ پر رونے كو حرام سمجھتے ھیں اور اس سے منع كرتے ھیں یا كم از كم اسے جائز نھیں سمجھتے۔

6) تسلی (صبر وتحمل كی تلقین)

ہم مصیبت زدہ اشخاص سے ملاقات كے وقت روایات سے استفادہ كرتے ھوئےان كو مصیبت زدہ اشخصاص پر الہٰی سلوت (تسلی) كے نزول كا پیغام سنا سكتے ھیں اور اس طرح سے انھیں صبر وتحمل كی تلقین كركے صبر وتحمل كا درجہ بلند كرسكتے ھیں۔سلوت یعنی یہ كہ انسان مصیبت كو اپنے فعال حافظہ سے دور كرسكے اور اسے بھلا سكے۔وہ اس حالت میں دھیرے دھیرے مصیبت كی دائمی فكر سے دور ھوجاتاھے اور اسے اسی پھلی شدت كے ساتھ نھیں یاد كرتا۔یہ فراموشی اور بھول انسان كو مصیبت كے اولین جان كادرد وغم كے چنگل سے چھڑا كراسے زندگی ضروریات اور دوسرے كاموں میں مشغول ركھتاھے۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے اسی بارے میں ارشاد فرمایا ھے:

"اذاتباعدت المصیبۃ قربت السلوۃ" 15 جب مصیبت دور ھوجاتی ھے تو تسلی نزدیك ھوجاتی ھے۔نیز آپ ھی سے یہ بھی منقول ھے۔"ان اللہ ینزل الصبر علی قدر المصیبۃ"بے شك خداوند متعال صبر كو مصیبت كی مقدار بھرنازل فرماتاھے۔"اذاصبرت فللت حدھا" 17 صبر مصیبت كو بھلا دیتا ھے اسے انسان كے لئےقابل تحمل بنادیتاھے۔مصیبت زدہ شخص كو اس بلند معرفت كی رہنمائی كرنا اور اسے سمجھانا اس كی روح بلند كرنے میں موثٔراور اھلبیت علیھم السلام كے ارشادات كے معتقدین كے لئےتسلی بخش ھے۔تعزیت كے وقت تسلیت دینے كے معنیٰ بھی اس كے علاوہ اور كچھ نھیں ھیں۔

بعض روایات میں سلوت (تسلی) كے نزول كی ضرورت كی طرف اشارہ كیاگیا ھے اور اسے انسان پر اس كی زندگی اور نسل كی حفاظت كے لئےخدا كا احسان سمجھا ھے۔ 18 یہ بات قابل توجہ ھے كہ یہ الہٰی سلوت خانوادہ كے سب سے دردمند شخص پر نازل ھوتی ھے اور اسے تسكین دیتی ھےكہ اگر ایسا نہ ھوتو دنیا كا نظام درھم وبرھم ھوجائےاور دنیا آبادنہ ھو۔ 19

7) عبادت وذكر

روایات میں لے كہ مصیبت كے وقت حضرات آئمہ طاھرین علیھم السلام كی سیرت نماز پڑھنا،

صدقہ دینا، روزہ ركھنا اور ذكركرنا بھی رھی ھے۔روایات ھوئ ھے كہ امیرالمٔومنین حضرت علی علیہ السلام اپنی زندگی كی سخت مصیبتوں كے وقت ہزار ركعت نماز پڑھتے تھے اور كبھی كبھی ساٹھ لوگوں كو صدقہ دیتے تھے اور تین دن تك روزہ ركھتے تھے اور اپنی اولاد كو بھی ان چیزوں كو حكم دیتے تھے۔ 20

یہ عبادتیں الہٰی رحمت ورضایت اور خدائ محبت پیداكرنے كے علاوہ كس قدر انسان كے مصیبت بھلادینے كا سبب بنتی ھیں اور اسے عام زندگی كی طرف لے جاتی ھیں۔

ذكربھی آئمہ علیھم السلام كی سیرت میں مصیبت كے وقت ایك خاص مرتبہ كا حامل ھےخصوصا مخصوص اذكار جیسے ذكر ھونسیہ جوكہ قرآن كریم سے ماخوذھے:

"وذاالنون اذذھب مغاضبا فظن ان لن نقدر علیہ فنادیٰ فی الظلمٰت ان لاالہ الا انت سبحنك انی كنت من الظلمین، فاستجبنالہ ونجینٰہ من الغم وكذالك ننجی المؤمنین"۔ 21

اور ذوانون (یونس كویادكرو) جبكہ غصہ میں آكرچلتے ھوۓاور یہ خیال كیا كہ ھم ان پرروزی تنگ نہ كریں گے(تو ھم نے انھیں مچھلی كے ھیٹ میں پھونچا دیا) توگھٹا ٹوپ اندھیرے میں (گھبراكر) چلا اٹھا كہ (پروردگارا) تیرے سوا كوئی معبود نھیں تو (ھر عیب سے) پاك وپاكیزہ ھے شك میں قصور وار ھوں تو ھم نے ان كی دعا قبول كی اور انھیں رنج سے نجات دی اور ھم تو ایمانداروں كویوں ھی نجات دیا كرتے ھیں۔

آیۃٔكریمہ كی آخری عبارت تمام مؤمنین كو یہ خبر دیتی ھے كہ خداوند تعالیٰ ھر مؤمن كی آواز كو سنتاھے اور اسے رنج وغم سے نجات دیتاھے۔

ذكر"لاحول ولاقو ۃالا باللہ" بھی نھایت تاثیرركھتا ھے یہ ذكر جس كے معنیٰ یہ ھیں كہ تمام تغیرات وتبدیلات اور نشیب وفراز كی قوت خداكے ھاتھ میں منحصر ھے اور جس كی طرف ھم مقالہ كے تیسرے حصہ میں اشارہ كریں گے، آیۃ استرجاع (ان للہ وانا الیہ راجعون) كے مانند مصیبت زدہ شخص كو ایك بنیادی نظر اور عقیدت بخشتاھےاور اسے غم واندوہ سے بچنے كے لئے دفاعی اسلحلہ سے مسلح كرتاھے۔اگردنیا میں ھر گردش وتغییرحق مطلق كے ھاتھ میں ھےاور ھرچیز اسی كی طرف سےاور اسی كی طرف پلٹنےوالی ھےتو ھم وغم كیوں؟

ذكر استرجاع كا حكم متعدد روایات میں دیا گیاھے ۔حضرت پیغمبر اكرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اكلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زھرا صلوات اللہ علیھا سے احتضار كے وقت فرماتے ھیں:

"قولی اذا مامت: انا للہ وانا الیہ راجعون، فان لكل انسان بھا من كل مصیبۃ معوضۃ"۔ 22

میں جب دنیا سے چلا جاؤں تو كھو: انا للہ وانا الیہ راجعون (بیشك ھم خدا كے لئے ھیں اور اسی كی طرف پلٹنے والے ھیں) كہ ھر انسان اس كے ذریعہ اپنی ھر مصیبت كے لئے عوض اور بدل پاتا ھے۔

نیز امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام مالك اشتر رضی اللہ عنہ كی خبر شھادت سنے كے وقت اسی ذكر كو زبان مبارك پر جاری كرتے ھیں (جیساكہ سب سے پھلے یہ ذكر استرجاع آپ ھی نے حضرت حمزہ علیہ السلام كی شھادت كے موقع پر فرمایا تھا اور آیت كی صورت میں اس كے بعد نازل ھوا ۔مترجم) ۔

8) اھم كاموں میں مشغول ھونا

كبھی كبھی حادثہ اور مصیبت اتنی عظیم ھوتی ھے جس كے سبب انسان زندگی كے فعال دائرہ سے خارج ھوجاتا ھے اور بے تابی اور بے صبری كی وجہ سے اپنے اھم كاموں كو ترك كردیتا ھے اور غیر معمول رنج وغم اٹھانے اور حد سے زیادہ طولانی عزاداریوں میں لگ جاتا ھے ایسے لوگوں كے درد كی دوا زندگی كے اھم اور بنیادی كاموں میں مشغول ھونا ھے ۔حتیٰ اگر كوئی انسان ایسا بھی نہ ھو اور اپنے اوپر كنٹرول ركھتا ھو اس كے لئے بھی بہتر ھے كہ مصیبت كو اھم اور بڑےكاموں میں مشغول ركھ كر اپنے ذہن سے دوركردے۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے حضرت پیغمبر اكرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم كی عظیم مصیبت میں اسی روش كو اختیار كیا تھا۔آپ خاموشی اختیاركرنے كے علاوہ قرآن كریم كی جمع آوری میں لگ گئےاور كلام الھی نیز پیغمبر(ص) كے عھدكی جمع آوری كے اھم اور بنیادی كام میں مشغول رہ كراپنی دردمند روح كو سكون بخشا ۔اس بات كی سند وھی ھے كہ جس كا ایك حصہ سكوت سے متعلق مطلب میں ذكر كیا جا چكا ھے۔

9) ماحول كے عوامل واسباب كی پاكیزگی

جس طرح سے جسمانی بیماریوں اور معمولی دردوں میں بیماری پیدا ھونے یا شدید ھونے كے عوامل واسباب سے بیمار كا دور ركھنا اس كی حفاظت كے لئے ایك اھم اور بنیادی اقدام ھے اسی طرح سے نفسیاتی مشكلات میں بھی مصیبت زدہ شخص كو مشكل بڑھانے والے عوامل واسباب سے دور ركھنا چاھیۓ۔انھیں مشكلات بڑھانے والوں میں سے ایك ان لوگوں كی شماتت اور زخم پر نمك چھڑكنا ھے جو مصیبت زدہ شخص پر مصیبت پڑنے سے خوش ھوتے ھیں اور اپنی دلی خوشی كو مختلف طریقوں سے ظاھر كرتے ھیں اور اپنا زھر شماتت، مسخرہ اور مزاق كركے باھر نكالتے ھیں۔

یہ حالت ان مصیبتوں كے وقت جبكہ مصیبت زدہ شخص اپنے كو اس میں مقصر (قصوروار)

سمجھتا ھے، اور زیادہ سخت ھوجاتی ھے، اس لئے كہ ایسی مصیبتوں كی نفسیاتی تشویش كئی گنا بڑھ جاتی ھے۔اس وجہ سے بہت سی روایات میں مصیبت زدہ شخص كی سرزنش كرنے اور اس كا مزاق اڑانے سے منع كیا گیا ھے اور مسخرہ باز كو ھوشیار كیا گیا ھے كہ وہ بھی اسی مصیبت میں گرفتار ھوگا۔

حضرت پیغمبر خداصل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بارے میں فرمایا ھے:

"لا تظھر الشماتۃ باخیك فیرحمہ اللہ ویبتلیك" 24

تم اپنے بھائی كی شماتت نہ كرو كہ خدا اس پر رحم كرے گا اور تمھیں مبتلا كردےگا۔

ایك دوسری روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس بات پر راكید كرتے ھیں اور شماتت كرنے والے كے بلا میں مبتلا ھونے كو یقینی سمجھتے ھیں اور فرماتے ھیں كہ جب تك وہ مصیبت نہ دیكھ لے اس دنیا سے نھیں جاتا۔

ابان ابن عبد الملك نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت كی ھے:

"من شمت بمصیبۃ نزلت باخیہ لم یخرج من الدنیا حتیٰ یفتتن بہ" 25

جو شخص اپنے دینی بھائی كی اس كی مصیبت كی وجہ سے شماتت كرے تو وہ دنیا سے نھیں جاۓ گا یھاں تك كہ خود اس مصیبت میں مبتلا ھوجاۓ۔

مصیبت زدہ شخص كے حق میں ھمارا فریضہ ھےكہ ھم خود بھی اس كی شماتت سے پرھیز كریں اور دوسروں كوبھی ایسے برے كام سے باز ركھیں۔تربیتی سرزنش، تجربہ منتقل كرنے اور عبرت پیدا كرنے كے اعتبار سے ایك دوسرے مناسب موقع پر سنانی چاہئے۔جس شخص كا نھایت سرعت اور حد سے زیادہ تیز دوڑ كے سبب تصادم (ایكسیڈینٹ) ھوگیاھے اور اس نے اپنے اعزاء كو كھودیا ھے وہ نصیحت سننے كا كان اور قبول كرنے كی روح نھیں ركھتا، وہ اس وقت دستگیری اور رحم كا محتاج ھے نہ كہ سرزنش اور نصیحت كا۔تادیب اور تعلیم كے لئے ایك دوسرازمانہ چاہئے۔

ب) اضطراب كم كرنےكے طریقے

پھلے حصہ میں ھم نےایسے طریقےذكر كئے كہ مصیبت پڑنے كے پھلے مرحلہ میں جن كی تاكیدكی گیٔ ھے تاكہ مصیبت زدہ شخص كی نفسیاتی تشویش كے اضافہ سے باز ركھے اور درد كو اسی حد میں روك دے۔یھاں پر ھم مصیبت زدہ شخص كے لئےكچھ طریقے پیش كركے كوشش كررھے ھیں كہ مصیبت كے درد كو اس كے لئے ھلكے سے ھلكا كریں،

ان طریقوں كوھم نے تین حصوں میں بیان كررھےھیں۔

الف۔ مصیبت كو چھوٹا سمجھنا

ب۔ مصیبت كو زوال پزیر سمجھنا

ج۔ عوض اور بدل كی طرف توجہ دینا

1) مصیبت كو چھوٹا سمجھنا

بھت سی روایات میں مصیبت كو چھوٹا سمجھنے كا حكم دیا گیا ھے اور اس كے حاصل كرنے كے لئے بھت سے طریقے بتائے گئے ھیں۔وہ طریقے یہ ھیں:

1/1) مصیبت كو عام سمجھنا

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

"المصائب باسویۃ، مقسومۃ بین البریۃ" 26

مصائب مساوی طور پر مخلوق كے درمیان تقسیم كئے گئےھیں۔ور پر مخلوق كے درمیان تقسیم كئے گئےھیں۔

اگر ھر شخص اس آسان نكتہ كو سمجھ لے تو اس كی تكلیف كی شدت كم ھوجاۓگی۔فارسی زبان میں اس مسٔلہ میں بھت سی ضرب الامثال موجود ھیں،

مثلا: "اجتماعی عزاشادی ھے" یا "یہ ایسا اونٹ ھے جو سب كے گھر میں ھوتا ھے" ۔كہ آخری مثل ممكن ھےآیۂ در "كل نفس ذائقۃالموت" 27 سے لی گئی ھو۔

میدانی تحقیقات اس بات كی نشاندھی كرسكتی ھیں كہ عظیم جنگوں، شدید زلزلوں اور علاقائی سیلابوں كے موقع پر مشكلات كے سامنے انسان كا مقابلہ چھوٹی اور كم درجہ مصیبتوں كے سامنے مقابلہ كرنے سے زیادہ ھوتاھے یانھیں؟ دوسرے لفظوں میں خود كومصیبت میں تنھا نہ پانا اور ھرشخص كو ایك طرح سے مشكلات ومصائب میں گرفتار دیكھنا، مصیبت سے پیداشدہ نفسیاتی تشویش كے كم ھونے پر براہ راست اثر ركھتا ھے یا نھیں؟

1/2) مصیبت كو سنت الہٰی سمجھنا

خداوند متعال سورٔہ تغابن كی گیارھویں آیت میں فرماتاھے:

"مااصاب من مصیبۃ الا باذن اللہ" كوئی مصیبت نھیں آتی مگر خدا كے اذن سے۔

اور سورٔہ حدید كی بائیسویں آیت میں فرماتاھے۔

"مااصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسكم الا فی كتاب من قبل ان نبرأھاان ذلك علی اللہ یسیر" جتنی مصیبتیں روئے زمین پر اور خود تم لوگوں پر نازل ھوتی ھیں (وہ سب) قبل اس كے كہ ھم انھیں پیداكریں كتاب (لوح محفوظ) میں لكھی ھوئی۔بیشك كہ خداپرآسانی ھے۔

ان دونوں آیتوں اور اس آیت كا مجموعی مفھوم جو كہ اس مقالہ كی ابتدا میں تحریر كی گئی ھے، یہ ھے كہ ان مصائب كے ذریعے ھمارا امتحان لیا جاتاھے جو خدا كی جانب سے ھمارے لئے پیش آتے ھیں، تنگدستی، قحط، بیماری، زلزلہ، موت، ھم وغم اور وہ تمام بلائیں اور مصیبتیں (جو كبھی كبھی سخت جان لیوا ھوتی ھیں) خدا كے اذن سے اور اس كے نظام كے دائرہ میں نازل ھوتیں ھیں تاكہ ھماری وجودی ماھر نكھر كر سامنے آجائے۔

مصیبت پر ایسی نگاہ ركھنا اور خداوندمتعال كے حكیم، رحیم اور رئوف ھونے پر توجہ ركھنا ھمیں آسانی سے اس نتیجہ تك پہنچاتا ھے كہ مصیبتیں اتفاقی، بے حكمت اور ھماری قدرت وطاقت سے بڑھ كر نھیں ھوتیں كہ"لایكلف اللہ نفسا الا وسعھا" (خدا كسی كو اس كی قدرت وطاقت سے زیادہ تكلیف نھیں دیتا۔) اور خداصبر كوبھی مصیبت كے برابر نازل كرتاھے۔ 28

اور روایات كے الفاظ میں انسان بلا كے تیروں كا دائمی نشانہ ھے اور ھمارا وجود ھمیشہ مصائب میں گھرا ھوا ھے۔

1/3) بڑی مصیبت سے تولنا

مصیبت كادرد سے یاد ركھنے كی وجہ سے باقی رھتا ھے لہذا انسان چھوٹے چھوٹےدردوں كو ان سے بڑے بڑے دردوں كی طرف توجہ كرنے بھلا سكتا ھے۔

اگر ھم اپنے كو آخرت كا مسافر سمجھیں عالم برزخ میں وارد ھونے اور قبر سے محشور ھونے كی طرف توجہ كریں اور اس دن كو سامنے ركھیں جس وقت الھی عظمت وعدالت كی بارگاہ میں اس حال میں كھڑے ھوں گے كہ ھاتھ خالی ہ وں گے اور كاندھوں ھر گناھون كا بوجھ ھوگا اور حساب وكتاب كے لئےآمادہ ھوگے تو پھر كسی بھی طرح دینوی مصیبتوں كو عظمت ووحشت كی نگاہ سے نھیں دیكھیں گے۔اسی وجہ سے روایات نے حكم دیا ھے كہ ھم موت نیز برزخ وقیامت كو یاد كریں تاكہ مصیبت كو آسانی سے برداشت كرسكیں۔ 30

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ھے:

"مااصغر المصیبۃ مع عظم الفافۃ" 31

كس قدر (دنیا كی) مصیبت آخرت میں ھمارے ھاتھ خالی ھونے كے مقابل چھوٹی ھے۔

آپ نے حضرت پیغمبر اكرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم كی مصیبت كے بعد كسی مصیبت كو بڑا نہ سمجھا اور آسانی كے ساتھ ھر مصیبت كو برداشت كیا۔آپ نے مالك اشتر رضی اللہ عنہ كی شھادت كے موقع پر (جوكہ آپ كی حكومت كے سب سے بڑے فداكار اور بھترین عامل، میدان جنگ كے ساتھی اور سب سے بڑے عقیدت مند سردار تھے) فرمایا:

"وطنا علیٰ انفسنا علیٰ ان نصبر علیٰ كل مصیبۃ بعد مصابنا برسول اللہ۔ ۔ ۔" 32

ھم نے اپنے حضرت رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم كی مصیبت كے بعد ھر مصیبت برداشت كرنے پر آمادہ كرلیا ھے۔

یہ بات امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص نھیں ھے جیسا كہ كئی ایك روایات نے ھمیں مصیبت پڑنے كے وقت حضرت پیغمبر اكرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم كی وفات كو یاد كرنے كی تاكید كی ھے۔ 33

ھماری تہذیب میں امیر المؤمنین حجرت علی علیہ السلام، حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت زینب كبریٰ علیھا السلام، حضرت رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم كے بعد سب سے عظیم اور عمدہ صبر وتحمل كے نمونے ھیں اور اب بھی شھداء كے غمگین ماں باپ كے لئے باعث تسلیت ھیں۔آپ حضرات كی سیرت پر توجہ دینا مصائب پڑنے كے وقت لازم ھے، جیسا كہ قرآن كریم نے اس مقصد سے الھی انبیاء ومرسلین جیسے ایوب، نوح، داؤد، یعقوب ویوسف علیہھم السلام وغیرہ كی زندگی كی طرف اشارہ كیا ھے۔ 34

1/4) كھوئی ھوئی چیز كی قیمت واھمیت كم سمجھنا

یہ طریقہ جو كہ زیادہ ترمالی دنیاوی مصیبتوں میں قابہ عمل ھے، یہ شناخت مصیبت زدہ شخص كو دیتاھے تاكہ وہ اپنے رنج وغم كی اصل اور بنیاد كو سمجھے۔ھم اس وجہ سے اپنے كو مصیبت زدہ سمجھتے ھیں كہ كسی گرانبھا چیز كے كھوجانے كا غم محسوس كرتے ھیں۔اب اگر وہ كھوئی ھوئی چیز ھماری نظر میں كم قیمت واھمیت ركھتی ھوتو درد كم اور اگر زیادہ قیمت واھمیت كی حامل ھوتو درد زیادہ احساس ھوتاھے۔بھت سی روایات نے اس نكتہ كی طرف توجہ دی ھے كہ ھمارے نزدیك دنیا كا كم قیمت وكم اھمیت ھونا مصیبت كو آسانی سے برداشت كرنے میں مدد دیتا ھے۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے نقل كرتے ھوئے فرماتے ھیں:

"من زھد فی الدنیا ھانت علیہ المصیبات" 35

جو شخص دنیا میں زھد اختیار كرے (دنیا سے رغبت نہ كرے) اس پر مصیبتیں آسان ھوجاتی ھیں۔امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے غررالحكم ودررالكلم میں اسی معنیٰ كو "لھا عن الدنیا" (دنیا سے دل نہ لگائے) كے الفاظ سے گوش گزار كیا ھے۔ 36

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے بھی دنیا كو بے قیمت سمجھنے كو مصائب كے نا پسند نہ سمجھنے كا سبب جانا ھے اور عبارت "ولم یكرھھا" كا اس معنیٰ وحدیث پر اضافہ فرمایاھے۔ 37 یہ سختی ومصیبت كے استقبال اور خطرہ، درد اور غم كی طرف دوڑنے كے معنیٰ میں ھے۔دنیا اور مال دنیا كے متعلق ایسی نظر انسان كے لئے ھرطرح كی سختی سے مقابلہ كرنے كی ھمت وشجاعت پیداكرتی ھے اور انسانی روح كوھرجانكاہ دردكے برداشت كی قدرت۶ عطاكرتی ھے كہ "الشجاعۃ صبر ساعۃ" یا "الصبر شجاعۃ" شجاعت یعنی ایك طرح پائیدار اور صبر۔۔ 38

2) مصیبت كو زوال پزیر سمجھنا

پرانی كھانیوں میں ھے كہ ایك بادشاہ نے اپنے وزیر كو حكم دیا كہ ایك انگوٹھی اس كے لئےبنائے اور اس كے نگینہ پر ایسا جملہ نقش كرے كہ جب بھی غم واندوہ اور سرور وخوشی كی دونوں حالتوں میں اس پر نظر كرے تو وہ فطری حالت كی طرف واپس آجائے۔بھت سے مشوروں میں سے صرف ایك جملہ "یہ بھی گزر جائےگا" پسند كیا گیا اور یہ وھی نكتہ ھے كہ جس كی طرف روایات میں اشارہ كیا گیا ھے۔

ھماری روایات نے اس بات پر تاكید كی ھے كہ دنیا كی سختی اور تنگی رویہ زوال ھے اور اس كی نعمت كے مانند اس كی سختی كی مدت بھی معین اور محدود ھے۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے دنیا كے بارے میں فرمایا ھے۔

"ضرھا وبؤسھا الیٰ نفاذوكل مدۃ منھا الیٰ منتھا" 40

اس كا نقصان اور اس كی سختی زوال پزیر ھے اور اس كی ھرمدت تمام ھونے والی ھے۔

بعض روایات میں اس زوال كو مسلسل مشكلات ومصائب واقع ھونے كے وقت بتایا گیاھے۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ان لوگوں كو خطاب كركے پے درپے بلاؤں اور مصیبتوں كی خوفناك موجوں میں گرفتار ھوتے ھیں فرماتے ھیں:

"اذا اضیف البلاء الیٰ البلاء، كان من البلاء عافیۃ" 41

جب بلا پے درپے آتی ھے تو عافیت كا وقت آپہنچتا ھے۔

اس صورت میں مشاور كا فریضہ یہ ھے كہ مصیبت زدہ شخص كے نفسیات كو سمجھ كراسے اپنے اور دوسروں كے حل شدہ مصائب یاد دلائے اور اس سے مشابہ واقعات كو پیش كركے اسے سمجھائے كہ یہ نئی مصیبت پھلی دوسری مصیبتوں كے مانند قابل حل اور وقتی ھے۔ھماری دعاؤں میں یہ یاد آوری نظر آتی ھے۔اس دعامیں جو حضرت پیغمبر اكرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زھر علیھا السلام كو تعلیم دی اس طرح ذكر ھوا ھے:

"یاھازم الاحزاب لمحمد یاكائد فرعون لموسیٰ یامنجی عیسیٰ من ایدی الظلمۃ یامخلص قوم نوح من الغرق یاراحم عبدہ یعقوب یاكاشف ضر ایوب یامنجی ذی النون من الظلمات۔ ۔ ۔" 42

اےمحمد(ص) كے لئے گروھوں كو شكست دینے والے، اے موسیٰ (ع) كے لئے فرعون كے خلاف تدبر كرنے والے، اے عیسی(ع) كو ظالموں كے ھاتھوں سے نجات دینے والے، اے نوح(ع) والوں كو غرق سے بچانے والے، اے اپنے بندے یعقوب(ع) پر رحم كرنے والے، اے ایوب(ع) كے مصائب ومشكلات كو دور كرنے والے، اے یونس(ع) كو تاریكیوں سے نجات دینے والے۔ ۔ ۔ ۔

جیسا كہ واضح ھے كہ بڑی بڑی مصیبتوں سےمصیبت زدہ افرادكی رھائی كی یاد آوری اور تمام مصائب ومشكلات كو دور كرنے كے لئےالھی رحمت وقدرت كا تمزكر، ھمارے لئے مصیبتوں كے زوال پزیر سمجھنے اور نتیجہ میں ان كو چھوٹا سمجھنے كاباعث ھوتاھے۔ایك دوسری دعا میں(جس كو روایات كی بنا پر حضرت پیغمبر اكرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اور حضرت علی علیہ السلام بھی سختیوں اور مصیبتوں كے وقت پڑھتے تھے) اسی نكتہ پر تاكید ھے اور پھلی دعاكے مطالب كے علاوہ غرور كے تسلط سے حضرت ابراھیم علیہ السلام كی نجات كی طرف بھی اشارہ ھے۔

قابل ذكر بات ھے كہ موت كی یاد بھی اس سلسلہ میں راہ حل ھے۔موت جس طرح كہ اس دنیا كی خوشیوں كاآخری نقطہ ھے اور اسی وجہ سے اسے "ھادم الذات" (لذتوں كو ختم كرنے والی) كھا جاتاھے اسی طرح دنیائے خاكی اور زندان افلاك سے مومن كی رھائی اور آزادی كا سرآغاز ھے۔یہ بكتہ خصوصاسخت اور ناقابل علاج بیماریوں میں تسكین بخشتی ھے۔

3) عوض اور بدل كی طرف توجہ دینا

یہ بات گزر چكی ھے كہ كھوئی ھوئی چیز جتنی بڑی ھوگی مصیبت بھی اتنی بڑی ھوگی، اب اگر ھم كو معلوم ھو یاامید ھو كہ دوسری چیز اسی كھوئی ھوئی چیز كے بربر ھمیں مل جائے گی یا كچھ شرائط حاصل كرنے كے ذریعہ اور مختصر كوشش كے ذریعہ اس سے بھتر ھمیں نصین ھوجائے گی توتكلیف بھت حد تك كم ھوجائے گی۔یہ مسٔلہ ھماری روز مرہ كی زندگی میں بارھا سامنے آتاھے۔اس ڈرائیور كی تكلیف جس كا تصادم ھوجاتا ھے حادثہ كے مقصر (قصوروار) كی طرف سے معتبر بیمہ پیش كرنے كے بعد ختم ھوجاتی ھے اور فوت شدہ فرزند كے بعد دوسرے فرزند كی پیدائش بھت حد تك ھم وغم كو خانوادہ كے چھرے سے دور كردیتی ھے۔

بھت سی روایات كی بناپرخداوندكریم یہ عوض اور بدل ھمیں بخشتا ھےاور اس ہستی سے آگا ھی كی بنا پر امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ اسلام، اشعث كو تسلیت دیتے ھیں، آپ اشعث ابن قیس كو اس كے بیٹے كا پرسا دینے كے لئےاس كے پاس جاتے ھیں اور فرماتے ھیں:

"یااشعث !ان تحزن علیٰ ابنك فقداستحقت منك ذالك الرحم وان تصبر فی اللہ من كل مصیبۃ خلف۔یااشعث!ان صبرت جری علیك القدروانت ماجور وان جزعت جری علیك القدر وانت مأزور۔یااشعث!ابنك سرك وھو بلاءوفتنۃ وحزنك وھو ثواب ورحمۃ۔" 43

اے اشعث!اگر تم اپنے بیٹے پر رنج وملال كرو تویہ خون كا رشتہ اس كا سزاوار ھےاور اگر صبر كرو تواللہ كے نزدیك پر مصیبت كاعوض ھے۔اے اشعث!اگر تم نے صبركیا توتقدیر الھی نافز ھوگی اس حال میں كہ تم اجروثواب كے حقدار ھوگے اور اگر چیخے چلائے جب بھی حكم قضا جاری ھوكر رھے گامگر اس حال میں كہ تم پر گناھوں كا بوجھ ھوگا۔تمھارے لئے بیٹا مسرت كا سبب ھوا حالانكہ وہ ایك زحمت وآزمائش تھا اور تمھارے لئے رنج واندوہ كا سبب ھوا حالانكہ وہ(مرنے سے) تمھارے لئے اجرورحمت كا باعث ھواھے۔

اس عوض اور بدل سے استفادہ كرنے اور وعدہ كئے گئے ثواب اور جزا حاصل كرنے كی صرف ایك شرط صبر و شكیبائی ھے اور مصیبت كو عاقلانہ طور پر برداشت كرنا۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے خود حضرت پیغمبر اكرم صل اللہ علیہ وآلہ و سلم كی وفات حسرت آیات كے وقت اپنی اور بنی ھاشم كی تعزیت میں اسی بات كو سنا اور اسی طریقہ سے ان كے غم واضطراب كو كم كرسكے۔آپ نے یہ الھی آواز اور غیبی تسلیت حضرت خضر علیہ السلام كی زبان سے سنی:

"السلام علیكم اھل البیت ورحمۃ اللہ فی اللہ عزاء من كل مصیبۃ وخلف من كل ھالك وردرك من كل مافات، فباللہ ثقوا وایاہ فارجوا"۔ 44

اے اھل بیت!آپ حضرات پر سلام اور خدا كی رحمت ھو، خداوند تعالیٰ خود ھر مصیبت كی تعزیت دیتا ھے اور ھر ھلاك ھونے والے كا جانشین ھے اور ھر فوت ھونے والی شے كا جبران كرے والا ھے، لہذا خدا ھی پر بھروسہ ركھو اور اسی سے امید لگاؤ۔

جی ھاں، خداوند كریم ھر مصیبت میں اجروثواب كا ایك بدل اور عوض عطا كرتاھے اور ھر دوسرے طاقتور سے زیادہ كھوئی ھوئی چیز كے جبران كی قدرت ركھتاھے۔لہذا آئیں ھم خدا ھی اطمینان كے ساتھ مصیبت زدہ افراد كو بتاسكتے ھیں كہ خداكے وعدہ پر اعتماد كرو اور فوت شدہ چیز كے عوض وبدل كے منتظر رھو، وھی یااس سے بھتر، اس دنیائے فانی میں یا اس عالم بقامیں۔اسی طرح ھم اس كے لئےاس عوض وبدل كے جلدی حاصل ھونے كے لئے دعاكرسكتے ھیں جیسا كہ حضرت امام تقی علیہ السلام نے اس شخص كے خط كاجواب میں تحریر فرمایا تھا جس كا فرزند فوت ھوگیاھے:

"اعظم اللہ اجرك واحسن عزاك وربط علیٰ قلبك انہ قدیر وعجل اللہ علیك بالخلف وارجوا ان یكون اللہ قد فعل، ابشاءاللہ تعالیٰ"۔

خداوند كریم تمھیں اجر عظیم اور صبر جمیل عطاكرے اور تمھارے دل كومضبوط كرے كہ بے شك وہ قادر ھے، اور جلدازجلداس كا نعم البدل تمھیں عنایت فرمائے اور امید ركھتا ھوں كہ خداوند كریم ایسا ھی كرے گا، انشاءاللہ تعالیٰ۔

قابل ذكر بات ھے كہصبر كےعلاوہ ذكر استرجاع بھی عوض وبدل حاصل كرنے كا ایك ذریعہ ھے امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام ایك دوسری جگہ ارشاد فرماتے ھیں:

"من استرجع عند المصیبۃ جبر اللہ مصیبۃ" 45

جو شخص مصیبت كے وقت كلمٔہ استرجاع (آئہ انا للہ وانا الیہ راجعون) جاری كرتا ھے خداوند كریم اس كی مصیبت كا جبران كرتا ھے۔

ج) مكمل كنٹرول

اضطراب كے مكمل كنٹرول حتیٰ اس سے پھلے ھی بچنے كے لئے حادثہ سے پھلے ھی اس كے متعلق سوچا جا سكتا ھےاور اس سے بچنے كے كی تدبیر كی جاسكتی ھے، اگر حادثہ اور مصیبت كے وقوع كو نھیں روكا جاسكتا ھے اس لئے كہ وہ خدا كی عام اور قطعی سنت ھے اور صدقہ ودعا بھی كچھ ھی حد تك اسے روك سكتے ھیں لیكن اس سے پیدا شدہ پریشان خاطری اور ذہنی الجھن كو روكا جا سكتا ھے اور مصیبت كے اس چھرہ كو دور كیا جاسكتا ھے جوخطرناك اور نقصان دہ ھے۔ھم جانتے ھیں كہ مصیبت كا مسلسل دباؤمصیبت زدہ شخص كے اضطراب كا سبب ھوتا ھے اور اس كے جسم وروح كو فرسودہ كردیتا ھے اور ھم یہ بھی جانتے ھیں كہ اضطراب، بیرونی عامل وسبب اور اندرونی (روحی) فكركانتیجہ ھے اور انسان اور ماحول كے درمیان تعامل سے وجود میں آتا ھے،

اس لحاظ سے اضطراب انسان كی فكرواندیشہ نیز اس كے احساسات وجزبات سے وابستہ ھے۔اس بنا پر اگر ھم حتیٰ بیرونی عوامل واسباب كو بدل سكتے یاان كا توازن صحیح بقرار نھیں ركھ سكتے ھیں پھر بھی مصیبت كے متعلق مصیبت زدہ شخص كی اندرونی فكر كو بدل كر اضطراب پیدا ھونے كے اسباب كو دور كرسكتے ھیں۔انسان كی تفسیر زندگی، موت، رنج ومصیبت سے یہ سب مصیبت سے حاصل شدہ نفسیاتی مشكلات كے سامنے اس كے مقابلہ كے لئے مؤثرھیں اور اگر یہ شناخت اور فكرونظر مصیبت سے قبل انسان كے ذہن كے اندر پیدا ھوجائے اور مشكل پیدا ھونے سے پھلے اضطراب سے روكنے میں اپنا كردار اداكرسكےتوھم بھترین حالت میں پہبچ جائیں گے، لیكن اس كے معنیٰ یہ نھیں ھیں كہ ان كو مصیبت كے بعد مصیبت زدہ شخص كےسامنے پہش نھیں كیا جاسكتا۔مصیبت سے پھدا شدہ آگ بجھنے اور پھلے مرحلوں كے ختم ھوجانے كے بعد دھیرے دھیرے مصیبت كے متعلق فكرونظر كی تصیحیح كی جاسكتی ھے۔

ھم روایات كی مصیبت كومفید سمجھ سكتے ھیں اور اسے كچھ شرائط وحالات كے ساتھ انسان كا مددگار كہہ سكتے ھیں۔

1. مصیبت كو مفید سمجھنا

پھلے: اجر

روایات كی بنا پر انسان پروارد ھونے والی ھرمصیبت ایك اجر ركھتی ھے جس كے حاصل ھونے كی شرط صبروتحمل ھے اور بے تابی نہ كرنا ھے۔اجروثواب كے لئے مصیبت كے كلید ھونے كے متعلق امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام كی حسین تعبیر اس الھی ذخیرہ كی نشاندھی كرتی ھےكہ مصیبت جتنی بڑی ھوگی اس كا اجر بھی اتنا ھی عظیم ھوگا:

"كلما كانت البلوی والاختیار اعظم كانت المثوبۃ والجزاءاجزل" 46

بلا اور امتحان جتنا ھی عظیم ھوگا اجرثواب اتنا جزیل ھوگا۔

یہ پاداش واجر اتنا عظیم ھے كہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایك بزرگ صحابی عبد اللہ بن یعفور (جنھوں نے اپنے پرانے درد كا شكوہ كیا تھا) ان كے جواب میں فرمایا

"یاعبداللہ!لو یعلم امؤمن مالہ من الاجری المصائب لتمنی انہ قرض بالمقاریض" 47

اے عبداللہ!اگر مومن جان لیتاكہ اس كے لئے مصائب میں كتنا اجر ھے تووہ تمنا كرتا كہ قینچیوں سے اس كے ٹكڑے ٹكڑے ھوجائیں۔

اگر ھم اس نكتہ پر توجہ دیں كہ اجر، اخروی اور نھایت وسیع ابدی عالم ھے اور اس كا مسٔلہ كسی بھی طرح دنیا كی چند روزہ اور زود گزر زحمتوں اور سختیوں سے نھیں كیا جا سكتا اور اس كے حصول كی شرط صرف صبر وتحمل كو سمجھیں تو آسانی سے مصیبت كوقبول كرلیں گے، خصوصا اگراس نقطہ سےواقف ھوں كہ جو كچھ خدا اپنےمؤمن بندہ كے لئےچاھتا ھےاس میں خیر ھی پوشیدہ ھوتا ھے خواہ اسے عافیت اور خوشحالی بشنے یامصیبت میں مبتلا كرے 48 خدا نے خود یہ نقطہ فرمایا ھے:

"عبدی المؤمن لااصرفہ فی شیء الا جعلتہ خیر الہ"۔ 49

میں اپنے مومن بندہ كو كسی جگہ اور كسی میں نھیں لے آتا مگر یہ كہ اسے اس كے لئے خیر قرار دیتا ھوں۔

دوسرے: گناہ كا كفارہ

ھم اپنی زندگی كے راستے میں معصیت كے كیچڑ میں كود پڑتے ھیں اور اپنی پاك وصاف روح كوآلودہ كرلیتے ھیں، لیكن انسانیت كا آخری مقصد، قرب الھی كی بہشت ھے جس میں وارد ھونے كا حق صرف پاك وپاكیزہ افراد كو ھے۔لہذا اگر ھم اپنی روح كو رنج وبلا كے حمام سے غسل نہ دیں تواس میں داخل ھونے كی اجازت نہ پائیں گے۔مصیبت وبلا ھماری روح كا حمام ھیں جوھماری روح كو پاك وصاف كرنے كے لئے بنائی گئی ھیں۔اس روح كے پاك وصاف كرنے كا وسیلہ اور اس كے امكانات فراھم كرنا بندہ كی تكریم ھے نہ اس كی اھانت۔

یہ وھی حضرات امام جعفر صادق علیہ السلام كے اس ارشاد كے معنیٰ ھیں جو آپ نے یونس ابن یعقوب سے فرمایا تھا:

"ای یونس!ان المؤمن اكرم علی اللہ تعالیٰ من ان یمرّ علیہ اربعون لایمحص فیھا ذنوبہ ولو بغمّ یصیبہ لایدری ماوجھہ"۔ 50

اے یونس!مؤمن خدا كے نزدیك اس بات سے بڑا ھے كہ چالیس دن گزر جائیں اور وہ اس كے گناھوں كو پاك نہ كرے اگرچہ ایسے غم كے ذریعہ جس كی وجہ بھی وہ نھیں جانتا۔

اس بنا پر آیہ"وما اصابكم من مصیبۃ فبما كسبت ایدیكم" 51

(جو مصیبت بھی تم تك پہنچتی ھے وہ تمھارے ھاتھوں كی كمائی ھے) ھم گنہ گاروں كے لئے ایك سخت لیكن نوید بخش آیت ھے۔

تیسرے: كبرو غفلت كی صفائی

ھمیشگی صحت وسلامت، بے انتھا مال ودولت اور دائمی خوشی اور راحت اس دنیا میں انسان كی مصلحت نھیں ھے اس لئے كہ یہ ممكن نھیں اور اگر وجود میں بھی آجائے تو مفید نھیں ھے ۔ خوشی اور عیش میں ڈوبا انسان سركشی كرنے لگتا ھے اور خداكی بندگی اور خلق خدا كے سامنے تواضع كرنے سے روگردانی كرنے لگتا ھے۔ بلا ومصیبت ھمارے سنبھلنے اور صحیح راستے پر آنے كے لئےٹھوكے ھیں، سختی اور غم اور كبھی كبھی دولت، صحت اور فرزند كا ھاتھ سے جانا تكبر اور اكڑ كو اگرچہ تھوڑے ھی وقت كے لئے ھمارے دلوں سے دور كردیتا ھے اور ھمیں روحی تذلّل وتواضع عطا كرتا ھے۔خدا نخواستہ ھم سرمست مغرور ھوجائیں اور اپنی انسانیت كو كھودیں۔امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے ارشادات میں كئ جگہ اس كبر وغرور سے منع كیا ھے اور حجاب غفلت چاك كرنے كا حكم دیا ھے۔ 52

امام (ع) فرماتے ھیں:"ولكن اللہ یختبر عبادہ بانواع الشدائد ویتعبّدھم بانواع المجاھد ویبتلیھم بضروب المكارہ اخراجاً لتكبّرمن قلوبھم واسكاناًلتذلّل فی نفوسھم ولیجعل ذلك ابواباً فتحاً الیٰ فضلہ و اسباباً ذللاً الیٰ عفوہ"۔

خداوند تعالی اپنے بندوں كا مختلف سختیوں سے امتحان لیتا ھے اور مختلف سخت كاموں میں گرفتار كرتا ھے اور طرح طرح كی تكلیفوں میں مبتلا كرتا ھے تاكہ ان كے دلوں سے تكبر كو دور كردے اور تواضع وفروتنی ان كی روحوں میں ساكن كردے اور تاكہ اسے اپنے فضل كے لئے كشادہ دروازہ اور اپنے عفو كا وسیلہ قرار دے ۔

حواشی

1. لقد خلق الانسان فی كبد(سورۂ مائدہ: آیہ۴) ۔

"بتحقیق كہ ھم نے انسان كو مشقت میں(رھنے والا) پیدا كیا ھے ۔

2. جامع الصغیر: ج۱، ص۲۸۲، ح۶۳۲۳۔

3. غررالحكم ودررالكلم: ح۴۱۴۴۔

4. شرح نہج البلاغہ: ج۲۰، ص۲۹۱۔

5. غررالحكم ودررالكلم: ح۲۰۴۳، ۷۹۳۶، ۶۵۳۔

6. مائۃ كلمۂ جاحظ: ح۱۲۔

7. ر۔ك: میزان لاحكمۃ: ج۱، باب الجزع ۔

8. بحارالانوار: ج۲۲، ص۵۱۲، ح۱۱، ماخوذ از خصال صدوق(رح) ۔

9. تحف العقول: ص۱۱۴۔

10. الترغیب والترھیب، منزری: ج۴، ص۲۸۶، ح۳۶۔

11. یھاں پر جس بات كو مستثنی قراردیا گیا ھے وہ اپنے دینی بھائی اور صمیمی و حقیقی دوست سے شكوہ كرنا ھے كہ حقیقت میں اس سے شكوہ كرنا خدا سے شكوہ كرنا ھے ۔(بحارالانوار: ج۷۲، ص۳۲۵، ح۱۔

12. دعائم الاسلام: ج۱، ص۲۲۵۔

13. من لایحضرہ الفقیہ: ج۱ص۱۸۷۔

14. دعوات الراوندی: ص۲۸۵، ح۸ ۔

15. غررالحكم ودررالكلم: ح۴۰۵۵۔

16. نھج البلاغہ: حكمت۱۴۴۔

17. غررالحكم ودررالكلم: ح۴۰۱۴۔

18. علل الشرائع: ص۲۹۹، ح۱۔الخصال: ج۱، ص۱۱۲، ح۸۷ ۔

19. الكافی: ج۳، ص۲۲۷، ح۱۔

20. بحارالانوار: ج۷۹، ص۱۳۳، ح۱۷بحوالۂ دعوت راوندی: ص۲۸۷۔

21. سورۂ انبیاء: آیہ۸۷، ۸۸ ۔

22. الطبقات الكبری: ج۲، ص۳۱۲۔

23. الغارات: ج۱، ص۲۶۴۔

24. امالی الصدوق: ص۱۸۸، ح۵ ۔

25. الكافی: ج۲، ص۱۵۹، ح۱۔

26. تحف العقول: ص۲۱۴۔

27. سورۂ آل عمران: آیہ ۱۸۵۔سورۂ انبیاء: آیہ ۳۵۔سورۂ عنكبوت: آیہ ۵۷۔

28. نھج البلاغہ: حكمت۱۴۴۔

29. ر۔ك: بحارالانوار: ج۷۸، ص۴، ح۵۳ ۔

30. الخصال: ص۴۱۴، ح۱۰۔

31. الكافی: ج۸، ص۲۴۔

32. مستدرك الوسائل: ج۲، ص۴۰۴، ح۲۳۰۸۔

33. ر، ك: بحارالانوار: ج۸۲، ص۸۴ ۔

34. سوارۂ صافّات: آیہ۶۵، ۷۴۔سورۂ قمر: آیہ۹، ۱۰۔سورۂ ص: آیہ ۱۷، ۴۱۔سورۂ یوسف: آیہ۱۵، ۳۳۔

35. الكافی: ج۲، ص۵۰، ح۱۔

36. ر، ك: غررالحكم ودررالكلم: ح۸۵۸۷ ۔

37. بحارالانوار: ج۷۸، ص۱۳۹، ح۲۵۔

38. ایضاً: ص۱۱، ح۷۰۔

39. نھج البلاغہ: حكمت۸ ۔

40. من لایحضرہ الفقیہ: ج۱، ص۴۳۰۔

41. تحف العقول: ص۳۵۷۔

42. مكارم الاخلاق: ج۲، ص۱۳۸۔

43. نھج البلاغہ: حكمت۲۹۱۔

44. كنزالعمال: ج۷، ص۲۵۱، ح۱۸۷۸۵۔

45. بحارالانوار: ج۸۲، ص۱۲۶۔قابل ذكر بات ھے كہ اھلسنت كی كتابوں میں یہ حدیث حضرت پیغمبر اكرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل وئی ھے اور اس كے آخر میں یہ اضافہ بھی ھے: "واحسن عقباہ وجعل لہ خلفا یرضاہ"خدا اسے حسن عاقبت عطا كرے گا اور ایسا نعم البدل قرار دے گا كہ وہ خوش ھوجائے گا۔(ر، ك: مجمع الزوائد: ج۲، ص۳۳۱۔

46. ر، ك: غررالحكم ودررالكلم: ح۴۰۰۔

47. الكافی: ج۲، ص ۲۵۵، ح ۱۵۔

48. ر، ك: مشكاۃ الانوار: ص۵۲۱، ۵۲۰ ۔

49. الكافی: ج۲، ص۶۱، ۶۲۔

50. بحارالانوار: ج۸۱، ص۱۹۱، ح۴۹۔

51. سورۂ شوریٰ: آیہ۳۰۔

52. ر، ك: شرح ابن ابی الحدید: ج۱۳، ص۱۳۱، ۱۵۶۔

بشکریہ سایٹ صادقین  

 


source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_articles.php?articles_id=1027&link_articles=family_and_community_library/general_articles/musibat_say_muqabilay_maharatien
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
۹ ربیع الاول امام زمانہ(ع) کی امامت کا یوم آغاز
امام جعفر صادق علیہ السلام کی فرمائشات
ماہ رمضان کی فضیلت
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
قرآنِ کریم میں "حجاب" سے متعلق آیات
ماہ رمضان ، عظیم ترین مہینہ
کيا ہم بھي عيد غدير کي اہميت کو اجاگر کرنے ميں ...
قرآن مجید اور ازدواج
فضائل ماہ شعبان و شبِ براء ت

 
user comment