اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

اصلاح امت اور حضرت علی علیه السلام

قارئین کرام!یہ عنوان بھی روز روشن کی طرح واضح ھے جس طرح اگر حضرت علی علیہ السلام کی تلوار نہ ھوتی تو اسلام کبھی نتیجہ بخش نہ ھوتا اسی طرح اگر آپ کا عمدہ بیان نہ ھوتا تو دین کے ستون اس قدر پختہ نہ ھوسکتے چنا نچہ یہ بات طے ھے کہ حضرت کے کلام اور فرامین کی وجہ سے اسلام مستحکم ھوا۔

قارئین کرام!یہ عنوان بھی روز روشن کی طرح واضح ھے جس طرح اگر حضرت علی علیہ السلام کی تلوار نہ ھوتی تو اسلام کبھی نتیجہ بخش نہ ھوتا اسی طرح اگر آپ کا عمدہ بیان نہ ھوتا تو دین کے ستون اس قدر پختہ نہ ھوسکتے چنا نچہ یہ بات طے ھے کہ حضرت کے کلام اور فرامین کی وجہ سے اسلام مستحکم ھوا۔

 آپ نے اپنے کلام میں حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف کرایا جسکی وجہ سے ان پاک و صاف نفسوں کا آپ کی طرف اشتیاق ھوا جنھیں اللہ تعالیٰ کی محبت پر خلق کیا گیا تھا اور ان میں آپ کے قرب و رضا کا عشق موجودتھا۔ آپ ھی وہ ھستی ھیں جن کے ذریعے لوگوں کے طور طریقوں میں موجودہ کج روی کی اصلاح ھوئی ، گمراہ لوگ دوبارہ ھدایت کی طرف پلٹ آئے ان کا قول و فعل ایک ھوگیا۔اور یہ لوگ اللہ کی وعظ ونصیحت ‘اس کی آیات ،شریعت اور احکام سے وابستہ ھو گئے اور حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر چلنے لگے اور اسلامی احکام کے مطابق عمل کرنے لگے نیز آپ کے علاوہ کسی غیر کی طرف نھیں جھکے۔

۱۔انداز عبادت

ایک شخص نے حضرت امیر المومنین علی (ع)کی بارگاہ میں عرض کیا ! یاامیرالمومنین آپ جو اس قدر اللہ کی عبادت کرتے ھیں کیا آپ نے اسے دیکھا ھے ؟تب حضرت امیر امومنین علیہ السلام نے اسے جواب دیا:

لم اٴکُ با لذي اٴعبد من لم ارہ

میں اس کی عبادت نھیں کرتا جسے میں نے نہ دےکھا ھو۔        

وہ شخص کھتا ھے آپ خدا کو کس طرح دےکھتے ھیں تب حضرت علی (ع)نے جواب دیا:

یا ویحک لم ترہ العیون بمشاھدة الابصار و لکن راٴ تہ القلوب بحقائق  الاٴِیمان معروف با لدلالات منعوت با لعلامات لُا یقاس بالناس ولا تدرکہ الحواس ۔

وائے ھو تجھ پر ان آنکھوں کے ذریعہ اس کو نھیں دیکھا جا سکتالیکن دل اسے ایمان کی حقےقتوں کے ساتھ دےکھ سکتا ھے دلائل اور علامتوں کے ساتھ تو اس کی تعرےف کی جا سکتی ھے لیکن لوگوں کے ساتھ اس کا قیاس نھیں کیا جاسکتا اور حواس خمسہ اسے نھیں پا سکتے چنا نچہ وہ شخص یہ کھتے ھوئے وہاں سے چل دیا :

اللہ اٴعلم حیث یجعل رسا لتہ۔ اللہ ھی بھترجانتا ھے کہ وہ اپنی رسالت کوکہاں قراردیتا ھے ۔[1]

یعنی اللہ نے مناسب مقام پر رسالت رکھی ھے ۔

۲۔عظمت خدا

 حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام غفلت خدا،مقصد مخلوقات کو بیان کرتے ھوئے ارشاد فرماتے ھیں:

قدعلم السرائر و خبر الضمائر لہ الاحاطة بکل شيء والغلبةُ لکل شيء والقوة علیٰ کل شيء فلیعمل العامل منکم في ایام مھلہ قبل اِزھاقِ اٴجلہ۔

 وہ دل کی نیتوں اور اندر کے بھیدوں کو جانتا اور پہچانتا ھے، وہ ھر چیز پراحاطہ کئے ھوئے ھے وہ ھر چیز پر غالب ھے وہ ھر چیزسے قوی ھے اور تم میں سے کسی کو اگر کچھ کرنا ھے تو موت کے حائل ھونے سے پھلے مھلت کے دنوں میں کرلینا چاہئےے۔

اس کے بعدحضرت نے مزید فرمایا :فاللہ اللہ اٴیھا الناس فیما استحفظکم من کتابہ و استودعکم من حقوقہ فاِن اللہ سبحانہ لم یخلقکم عبثا ولم یترککم سدی ولم یدعکم في جھالة ولا عمیٰ قد سمّیٰ آثارکم و علم اٴعمالکم و کتب آجالکم۔

واٴنزل علیکم الکتاب تبیاناً لکلِّ شيء و عمَّر فیکم نبیّہ اٴزمانا حتیٰ اٴکمل لہ ولکم فیما اٴنزل من کتابہ دینہ الذي رضي لنفسہِ واٴنھیٰ اِلیکم علی لسانہ محابہ من الاعمال و مکارھہ و نواھیہ و اٴوامرہ۔

واٴلقیٰ اِلیکم المعذرة واتخذ علیکم الحجہ و قدم اِلیکم بالوعید و اٴنذرکم بین یدي عذاب شدید ۔

اے لوگو! اللہ نے اپنی کتاب میں جن چیزوں کے حفاظت تم سے طلب کی ھے اور جو حقوق تمہارے ذمہ عائدکئے ھیں ،ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رھو۔کیونکہ اللہ سبحانہ نے تمھیں بے کار پیدا نھیں کیا اور نہ اس نے تمھیں بے قید و بند جہالت و گمراھی میں کھلا چھوڑ دیا ھے، اس نے تمہارے کرنے اور نہ کرنے کے اچھے اور برے کام تجویز کر دیئے ھیں اور( پیغمبراکرم(ص) کے ذریعہ) سکھا دئیے ھیں ۔

اس نے تمہاری عمریں مقررومعین کر دی ھیں اور تمہاری طرف ایسی کتاب بھیجی ھے جس میں ھر چیز کا کھلا کھلا بیان ھے۔ اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زندگی دے کر مدتوں تم میں رکھا، یہاں تک کہ خداوندکریم نے قرآن مجیدمیں اپنے نبی(ص)(ص)کے لئے اور تمہارے لئے دین کو پسند کر لیا اسے کامل کر دیا۔ پیغمبر اکرم (ص)کے ذریعہ پسندیدہ اور نا پسندیدہ افعال (کی تفصیل)اور اوامر و نواھی تم تک پھنچا دیئے ، اس نے اپنے دلائل تمہارے سامنے رکھ دئیے ،اور تم پر اپنی حجت  قائم کر دی اور (آنے والے)سخت عذاب سے پھلے ھی خبردار کر دیا ۔[2]

تو حید و اصول علم

حضرت امیر المومنین علیہ السلام تو حےد سے متعلق خطبہ میں علم و معرفت کے اصول بیان کرتے ھوئے ارشاد فرماتے ھیں:

ما وحّدہ مَن کیفّہ ولا حقےقَتہُ اٴصاب مَن مَثّلہ ولا اِیاہ عنٰیٰ من شبْھّہ ولاصمدہ مَن اٴشارَ اِلیہ و توھمہ کل معروف بنفسہ مصنوع و کل قائم فی سواہ معلول فاعل لا باضطراب آلہ مُقِّد ر لا بجول فکر ہ غنيٌّ لا باستفادہ لا تَصحَبُہُ الاٴوقات ولا تر فِدُہ الاد وات سبق الاٴوقات کونُہ والعدم وجودةُ واِلا بتداءَ اٴولہ ۔

جس نے اسے مختلف کےفےتوں سے متصف کیا اس نے اسے ےکتا نھیں سمجھا جس نے اس کا مثل ٹھھرایااس نے اس کی حقیقت کو نھیں پایا،جس نے اسے کسی چیز سے تشبیہ دی اس نے اس کاقصد وارادہ نھیں کیا جس نے اسے قابل اشارہ سمجھا اس نے اسے اپنے تصور کاپابند بنالیا۔

ھر معروف چیز اپنی ذات میں مصنوع و مخلوق ھے وہ آلات کو حرکت میں لائے بغیر فاعل ھے وہ ھر چیز کا مقرر کرنے والا ھے وہ فکر کی جو لانی کے بغیر ھی وہ اپنے کام میں دوسروںکا محتاج نھیں ھے اس کاکوئی ھم نشین نھیں ھے اور نہ آلات اس کے معاون و معین ھیں اس کی ھستی زمانہ سے پھلے اور اس کا وجودعدم پر سبقت رکھتا ھے اور اس کی ابتدا ھی اول ھے اس کے بعد حضرت امیر الموٴمنین ارشاد فرماتے ھیں۔

ولا تجري علیہِ الحرکة و السکون و کیف ےجري علیہ ما ھو اٴجراہ و ےعود فیہ ما ھو اٴبدا ہ و یحدث فیہ ما ھو اٴحدثہ۔

 حرکت و سکون اس پر طاری نھیں ھو سکتے ،بھلا جو چیز اس نے مخلوقات پر طاری کی ھو ،وہ اس پر کیونکر طاری ھوسکتی ھے جو چیز سب سے پھلے اس نے پیدا کی ھو وہ اس کی طرف کیونکر لوٹ سکتی ھے اور جس چیز کو اس نے پیدا کیا ھو وہ اس میں کیونکر پیدا ھو سکتی ھے، اس کے بعد پھر حضرت ارشاد فرماتے ھیں :

اَلذي لا ےحول ولا ےزو ل ولا ےجوز علیہ الاٴفول لم یلد فیکون مولودا ولم یو لد فےصےر محدودا جل عن اِتخاذ الاٴ بناء و طَہُرَ عن ملامسة النساء لا تنالہ الاٴ وھام فتقدرہ ولا متوھمہُ الفطَن فتصورہ ولاٴتدرکہ الحواس فتُحسُّہَ۔

اس میں تبدیلی واقع نھیں ھوتی ھے اور نہ اس پر زوال طاری ھوتاھے، نہ اس کے لئے غروب ھونا روا ھے اور نہ ھی اس کی کوئی اولاد ھے اور نہ وہ کسی کی اولاد ھے، ورنہ یہ محدود ھو کر رہ جائے گا،وہ اھل و عیال رکھنے سے بلند وبالا اور عورتوں کو چھونے سے پاک و منزہ ھے ۔

تصورات اسے نھیںچھو سکتاکہ اس کا اندازہ لگاسکیںاور عقلیں اس کا تصور نھیں کر سکتیں تاکہ اس کی کوئی صورت مقرر کرسکیں حواس اس کا اداراک نھیں کر سکتے کہ اسے محسوس کرسکیں ۔

اس کے بعدحضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :ولا یوصف بشیء من اَلاٴجزا ء ولا با لجوارح والاٴ عضاء ولا بعرضٍ من الاٴعراض ولا بالغیریة والا بعا ض ولا یقال لہ حدٌّ ولانہایة ولا اِنقطاع و لاغایة۔

ولا اٴنَّ الاشیاء تحویہ فتقلّہ اٴوتُھویہ۔ اٴواٴنَّ شیئاً یحملہ فیمیلہُ اٴو یعدلہ لیس من الاشیاء بِوالِج ولا عنھا بخارج۔۔۔۔۔

 یخبر لابلسان ولھوات و یسمع لا بخروق واٴدوات یقول ولا یلفظ و یحفظ ولا یتحفظ و یرید ولا یضمر یحب ویرضیٰ من غیر رقہ و یُبغضُ و یغضب  من غیر مشقة۔

 یقول لمن اٴراد کونہ‘ کن فیکون لا بصوت ےَقرَعُ ولا بنداء یُسمع واِنماکلامہ سبحانہ فعل منہ اٴنشاٴہ  ومَثَّلَہ لم یکن من قبل ذلک کائناً ولوکان قدےما لکان اِلٰھا ثانیا۔۔۔“

اسے اجزا اوراعضاء وجوا رح میں سے کسی کے ساتھ متصف نھیں کیا جاسکتا اس کے لئے کسی حد اور اختتام ،زوال پذےری اور انتھاء کو نھیں بیان کیا جاسکتا اور نہ یہ چیزےں اس پر غالب ھیں کہ ان اشیاء کے ھو نے یا نہ ھونے سے اس کی عظمت میں کوئی فرق پڑتاھو۔

اورتمام اشیاء اس کے ارادے کے تابع ھیں، وہ نہ چیزوں کے اندر ھے اور نہ چیزوں کے باھر ،وہ زبان کی حرکت کے بغیر خبر دیتا ھے وہ آلات سماعت اور کانوں کے سوراخوں کے بغیر سنتا ھے اور وہ تلفظ کے بغیر بات کرتا ھے وہ یاد کرنے کے بغیر ھی ھر چیز کو یاد رکھتا ھے اور وہ ضمےر اور قلب کے بغیر ارادہ کرتا ھے اور وہ رقت طبع کے بغیر دوست رکھتا اور خوشنود ھوتا ھے وہ غم وغصہ کے بغیر ھی دشمن رکھتا ھے اور غضبناک ھوتا ھے ۔

وہ جس چیز کو پیدا کرنا چا ھتا ھے تواسے ”کن “کھتا ھے توو ہ ھوجاتی ھے بغیر ایسی آواز کے جو کانوں کے پردوں سے ٹکرائے اور بغیر ایسی صدا کہ جو سنی جاسکے بلکہ اللہ سبحانہ کا کلام اس کا اےجاد کردہ فعل ھے اور اس طرح کا کلام پھلے سے موجود نھیں ھوسکتا ،اگر وہ قدےم ھوتا تو دوسرا خدا ھوتا۔[3]

لوگوں کواللہ نبی (ص)اور اھلبیت (ع)کی طرف رجوع کرنے کی تاکید

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام لوگوں کو اللہ ،نبی(ص) اور اھلبیت علیھم السلام کی طرف رجوع کرنے پر زور دیتے ھوئے فرماتے ھیں:اِنَّ اللّٰہ خَصَّ محمداً بالنبوة واصطفاہ بالرسالةو اٴنباٴہُ بالوحي فانال بالناس و اٴنال وعندنا اٴھل البیت معاقلُ العلم واٴبوابُ الحکم و ضیاءُ الاٴمر فمن یُحبُّنا  ینفعہ اِیمانُہ و یُتَقَبَّل عملہ و من لا یُحبُّنا لا ینفعہ اِیمانہ ولا یُتَقَبّل عملہ و اِن داٴب اللیل و النھار ۔

بے شک اللہ تبارک و تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت کے ساتھ مختص فرمایا اور رسالت کے لئے ان کا انتخاب کیا اور انھیں وحی کے ذریعہ خبریں دیں اور انھیں لوگوں کی نسبت خیر کثیر عطا فرمایا۔ ھمارے نزدیک اھلبیت ھی علم کی عقلیں، ابواب حکمت اور امر خدا کے نور ھیں جو شخص ھمارے ساتھ محبت رکھے گا اس کا ایمان اسے نفع دے گا اور اس کا عمل مقبول ھو گا اور جو شخص ھمارے ساتھ محبت نھیں رکھے گااس کا ایمان بھی اسے کوئی فائدہ نھیں دے گا اور اس کا عمل بھی قبول نھیں ھوگا اگرچہ وہ عمل کرتے کرتے دن رات ایک کر دیں۔[4]

قارئین کرام!اسی گذشتہ خطبہ کی طرح آپ کا ایک اور خطبہ بھی ھے جس میں آپ اس طرح ارشاد فرماتے ھیں :اٴلا اِن اٴبرار  عترتي و اٴطایب اٴرومتي اٴحلم الناس صغاراً واٴعلم الناس کباراً اٴلا و اِنّا اٴھل بیت من عِلم اللّٰہ عُلِّمنا و بحکم اللّٰہ حَکمنا۔

 وبقول صادق اٴخذنا فاِن تتَّبعوا آثارنا تھتدوا ببصائرنا و اِن لم تفعلوا یُھلِکُکَم اللّٰہ بایدنا معنا رایة الحق مَن تبعھا لحق ومَن تاٴخر عنھا غرق اٴلا وبنا

خبردار! یہ میری عترت(ع) کے نیک افراد ھیں اور اصل میں پاکیزہ افراد ھیں ان کے بچے دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ حلیم اور ان کے بڑے دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ عالم ھیں ۔

تُدَرک ترة کلِّ موٴمن وبنا تُخلع رِبقةُ الذل من اٴعناقکم و بنا فَتَح لابکم و بنا یختم لابکم۔

خبردار!  بے شک ھم اھلبیت کا علم اللہ کے علم سے ھوتاھے اور اللہ کے حکم سے ھی ھمارا حکم ھوتاھے اور ھم ھی اپنی گفتگو میں صادق ھیں ۔اگر تم لوگوں نے ھمارااتباع کیا تو تم بھی ھماری بصیرتوںتک پھنچ جاؤ گے اور اگر تم نے ھمارا اتباع نہ کیا توا للہ تعالی تم کو ھمارے ہاتھوں ھلاک کردے گا۔

حق و صداقت کا پر چم ھمارے پاس ھے ۔ جس نے اس کی پیروی کی وہ ھمارے ساتھ مل جائے گا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ غرق و بر باد ھو جائے گا ھمارے ذریعے ھر مومن حق کو پا سکتا ھے اور ھمارے وسیلے سے ھی گردنوں میں پڑے ذلت کے طوقوں سے نجات مل سکتی ھے ،ھمارے ذریعہ سے فتح حاصل کی جاسکتی ھے نہ تمہارے ذریعے سے ،اورسر انجام ھمارے ہاتھ میں ھے نہ تمہارے ہاتھ میں۔[5]

۵۔) اسلام اور شریعت کے اوصاف

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اسلام اور شریعت کے اوصاف بیان کرتے ھوئے ارشاد فرماتے ھیں :

الحمدُ للّٰہ الذي شرّع الاٴسلام فسّھل شرائعہُ لمن وردہ واٴعز اٴرکانہ علیٰ مَن غالبہ فجعلہ اٴمنا لمن علقہَ وسلماً لمن دَخَلَہ۔

وبرھاناً لمن تکلم بہ و شاھداً لمن خاصم عنہ و نوراً من اِستضاء بہ وفھما لمن عقل ولباً لمن تدبر و آیة ً لمن توسم  وتبصرةً لمن عزم وعبرة لمن اِتعظ ونجاةً لمن صدق وثقةً لمن توکل وراحةً لمن فوّض وَجَّنةً لمن صبر۔

تمام حمد اس ذات کے لئے ھے جس نے شریعت اسلام کو جاری کیا اور اس (کے سرچشمہ)ھدایت پر اترنے والوں کے لئے اس کے قوانین کو آسان بنایا اور اس کے ارکان کو حریف کے مقابلے میں غلبہ وسرفرازی عطاکی چنانچہ جو اس سے وابستہ ھوا اس کے لئے امن ھے اور جواسمیں داخل ھوا اس کے لئے سلامتی ھے جو اس کی بات کرے اس کیلئے دلیل

اور جو اس کی حمایت میں لڑے تو یہ اس پر شاھد و گواہ ھے ۔

جواس سے ضیاء حاصل کرے اسکے لئے نورھے ،عقل مند کیلئے فھم و فراست ھے ،غور کرنے والے کے لئے تدبیر ،تصدیق کرنے والے کے لئے نجات ، بھروسہ کرنے والے کے لئے باعث اعتماد اورراحت ھے اس کیلئے جو امور کو اس کے سپرد کرے، اور صبر کرنے والے کے لئے سپرھے۔

اس کے بعدمزید ارشاد فرماتے ھیں:التصدیق منھاجُہ والصالحات منارہُ والموت غایتةُوالدنیا مضمارَہ والقیامة حَلَبتُہ والجنة سُبقَتہُ۔

تصد ےق اس (اللہ اور رسول )کا راستہ ھے اور اچھے اعمال (اس کے )نشا نات ھیں دنیا گھوڑے سواری کا میدان اور موت اس کی انتھاھے ،اور دنیا اس کا میدان ھے،اور قیامت ا نعام کی جگہ اور جنت انعام ھے۔[6]

۶۔: فرائض اسلام کی دعوت

ایک اور خطبہ جس میں حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ  السلام فرائض کا تذکرہ کرتے ھوئے لوگوں کو ان فرائض کی طرف دعوت دیتے ھیں۔

اِنَّ اٴفضل ما توسّل بہِ المتوسلون اِلیٰ اللہ سبحانہ و تعالی الایمانُ بہ وبرسولہ والجہاد في سبیلہِ فاِنہ ذروة الِاسلام و کلمةُ اِلاخلاص فاِنھا الفطرہ واِقامُ الصلوٰة فاِنھا المِلَّہ واِیتاٰء الزکاٰة فاِنھا فریضةٌ واجبة و صوم شھر رمضان  فانہّ  جنة من العقاب۔ وحَجُّ البیت واِعتمارہ فاِنَّھما ینفیان الفقر ویرحضان الذنب ‘ وصلة الرحم فاِنھامثراةٌ في المال ومنساٴ ة في الاجِل وصدقة السرّ فانھاتکفرّ الخطیئةً  وصدقة العلانیة ۔فانھا تدفع میتة السوء وصنائع المعروف ‘فانھا تقی مصارع الھوان۔ اٴفےضوا في ذکراللہ فاِنّہُ اٴحسن الذکر وارغبوا فیما وعدالمتقین فاِن وعد ہُ اُصدقُ الوعد ۔واھتدوا بھدیٰ نبیکم۔

فاِنّہ اٴفضل الھدُی واستنوٴا بسَنَّتہ فاِنھا اٴھدیٰ السُنن وتعلموا القرآن فاِنہَّ اٴحسن الحدیث وتفقھوا فیہ فاِنہ ربیعُ القلوب واستشفوا  بنورہ فاِنہ شفاء الصدور واٴحسنوا تلا وتہ فاِنّہ اٴنفع القصص۔

واِنّ العالم العامل بغیر علمہ کالجاھل الحائر الذي لایستفیق من جھلہِ بل الحجة ُعلیہ اٴعظم والحسرةُ لہ اٴلزَم وھو عنداللہ اٴلَومْ۔

اللہ تعالی کی طرف و سےلہ ڈھونڈنے والوں کے لئے بھترین  وسیلہ اللہ اور اس کے رسول(ص) پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرناھے اس لئے وہ اسلام کی سربلند چوٹی ھے اور کلمہ توحےدکو اپنانا اس لئے کہ وہ فطرت (کی آواز)ھے اور نماز کی پابندی کرناکیونکہ وہ عےن دین ھے اور زکوة ادا کرنا کیونکہ وہ فرض اور واجب ھے۔اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا کیونکہ وہ عذاب کی سپر ھیں اور خانہ کعبہ کا حج وعمرہ بجالانا کیونکہ وہ مال کی فراوانی اور عمر کی درازی کا سبب ھیں اور مخفی طور پر خیرات اداکرناکیونکہ وہ گناھوں کا کفارہ ھے اور کھلم کھلا خیرات دینااس لئے کہ وہ بری موت سے بچاتا ھے اور لوگوں پر احسان کرنا کیونکہ وہ ذلت اور رسوائی کے مواقع سے بچاتا ھے ۔ھمیشہ اللہ کا ذکرکرتے رھو کیونکہ وہ بھترین ذکر ھے،اور اس چیز کی تمنا رکھو کہ جس کا اللہ نے پرھیز گاروں سے وعدہ کیا ھے اور اس کا وعدہ سچا ھے ۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی پیروی کروکہ وہ بھترین سیرت ھے اور ان کی سنت پر عمل کرو کیونکہ وہ ھدایت کا بھترین طریقہ ھے اور قرآن کا علم حاصل کرو کیونکہ وہ بھترین کلام ھے اور اس میں غور و فکر کرو کیونکہ یہ دلوں کی بہار ھے۔ اور اس کے نور سے شفا حاصل کرو کہ وہ(سینوں کے اندر چھپی ھوئی بیماریوں) کے لئے شفا ھے۔ اور اس کی اچھی طرح تلاوت کروکیونکہ اس کے قصے ،سب سے زیادہ فائدہ مند ھیں ،وہ عالم جو اپنے علم کے مطابق عمل نھیں کرتا وہ اس سرگرداں جاھل کی مانند ھے جو جہالت کی سرمستیوں سے ھوش میں نھیں آتا بلکہ اس پر( اللہ کی )عظیم حجت قائم ھے اور حسرت و افسوس اس کامقدر ھے، اور اللہ کے نزدیک وہ زیادہ قابل ملامت ھے۔[7]

۷۔: دنیا اور اس کی زینت سے دور رھنے پر تاکید

حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام دنیا اور اس کی زینت سے ڈراتے ھوئے اور موت اور اس کے حالات کی یاد دلاتے ھوئے ارشاد فرماتے ھیں :

واُحذِّرکُم الُدنیافاِنھا منزل قُلعَةٍ و لیست بدار نُجعةٍ قد تزیِّنت بغرورھا و غرِّت بزینتھا دارٌ، ھانت علیٰ ربِّھا فخلط حلالَھا بحرامھا وخیرھا بشرھا و حیاتھا بموتھا و حلوھا بمرھا۔

لم یصفھا اللّہ تعالیٰ لاولیائہِ ولم یَضِنُّ بھاعن اٴعدائہِ خیرُھا زھید و شرُّھا عتید و جمعھا ینفذُو ملُکھا یُسلَب و عامِرھُا یَخرَب فما خیر دارٍ تُنقضُ نَقض البنا ء وعمرٌ یُفنیٰ فیھا ۔

فنا ء الزاد و مدّة تنقطع اِنقطاع اِلسیر! اِجعلوا ماافترضَ اللّہ علیکَم من طلبتکمُ واَ ساٴ لوہ من اٴداء حقّہِ  کما ساٴلکم  واٴسمعِوا  دعوة  الموت آذا نَکم  قبل اٴن ےُدعیٰ بِکُم۔

میں تمھیں دنیا سے خبردار کئے دیتا ھوںکیونکہ یہ ایسے شخص کی منزل ھے ۔

جس کے لئے قرار نھیں ھے اور ایسا گھر ھے جس میں آب و دانہ نھیں ڈھونڈا جا سکتا ۔یہ اپنے باطل سے آراستہ ھے اور اپنی آرائیشوں سے دھوکہ دیتی ھے یہ ایک ایسا گھر ھے جو اپنے رب کی نظروں میں ذلیل و خوار ھے۔ چنانچہ اس نے حلال کے ساتھ حرام اور بھلائیوں کے ساتھ برائیاں اور زندگی کے ساتھ موت اور شیرینیوں کے ساتھ تلخیاں مخلوط کر دی ھیں اور اپنے دوستوں پر اس کی خصوصیات کو واضح کردیا اور دشمنوں پر بھی کو ئی چیز پوشےدہ نھیں رکھی ۔

اس کی بھلائیاں بھت ھی کم ھیں اور برائیاں جہاں چاھوموجود ھیں ، اسمیں اکٹھا کیا ھوا مال ختم ھو جانے والا ھے اور اس کاملک چھن جانے والا اور اس کی آبادیاں ویران ھو جانے والی ھیں ۔بھلا اس گھر میں خیر وخوبی ھی کیا ھو سکتی ھے جو کمزور عمارت کی طرح گر جائے اوروہ عمر میں جو زاد راہ کی طرح ختم ھو جائے اوروہ مدت میں جو چلنے پھرنے کی طرح تمام ھو جائے جن چیزوں کی تمھیں طلب و تلاش رھتی ھے ان میں اللہ تعالی کے فرائض کو بھی شامل کر لو اور جو اللہ نے تم سے چاھاھے اسے پورا کرنے کی توفیق بھی اس سے مانگو ،موت کا پیغام آنے سے پھلے اس پر توجہ دو ۔

اس کے بعداسی خطبہ میں حضرت(ع) مزید فرماتے ھیں :

اِنَّ الزاھدین في الدنیا تبکي قلوبھم واِن ضَحِکو ا ویشتُدحزنُھم واِن فَرِحوا و یکثُر مقتُھم اٴنفُسَھُم واِن اِغتبطوابمارُزقواقِد غاب عن قلوبکم ذکرُ الآجال وحضر تکم کواذب الآمال فصارت الدنیا۔ اَمَلکُ بکم من الاٴخرة والعاجلہَ اٴٴَذھبَ بکمُ من الٓاجلہَ و اِنّما اٴنتم اِخوانُ علیٰ دین اللہ ما فرق بینکم اِلّاخبُثُ السرائر وسوُ ءُ الضمائر فلا توازرون ولا تناصحون ولا تباذلون ولا توادوُن ۔مابالَکم تفرحون بالیسیر من الدنیا تُدرکونہ۔ولا یحزُنُکم الکثیر من الآخرةِ تُحرّمونہُ و یُقلقُکم الیسیر من الدنیا یفوُتکم حتیٰ یتبیِّن ذلک في وجوھِکُم وقِلّةِ صبرِکمُ عمازويَ منھا عنکم کاٴنھا دار مُقامکم و کاٴن متاعَھا باقٍ علیکم۔

 اس دنیا میں زاھدوں کے دل روتے ھیں ،اگرچہ وہ ھنس رھے ھوں اور ان پرغم و اندوہ طاری رھتاھے اگرچہ ان (کے چھروں) سے مسرت ٹپک رھی ھو اور انھیں اپنے نفسوں پر انتہائی غلبہ ھوتا ھے اگرچہ وہ رزق جو انھیں میسر ھے وہ قابل رشک ھے ۔  تمہارے دلوں سے موت کی یاد ختم ھو گئی ھے اور جھوٹی امید وں نے تمہارے اندر گھر بنالیا ھے ،آخرت کی بنسبت تمہارا جھکا ؤدنیا کی طرف زیادہ ھے  اور وہ عقبیٰ سے زیادہ تمھیں اپنی طرف کھینچتی ھے ۔تم دین خدا کے سلسلہ میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی ھو ۔

لیکن بد نیتی اور بد گمانی نے تم میں تفرقہ ڈال دیا ھے ،نہ تم ایک دوسرے کا بوجھ بٹاتے ھو نہ باھم پند و نصیحت کرتے ھو،نہ ایک دوسرے پر خرچ کرتے ھو، اور نہ تمھیں ایک دوسرے کی چاھت ھے ۔

تھوڑی سی دنیا پا کر تم خوش ھوجاتے ھولیکن آخرت کے بیشتر حصہ سے محرومی تمھیں غم زدہ نھیں کرتی ذرا سی دنیا کاتمہارے ہاتھ سے نکلنا تمھیں بے چین کر دیتا ھے ۔

یہاں تک کہ بے چینی تمہارے چھروں سے ظاھر ھونے لگتی ھے اور کھوئی ھوئی چیز کے سلسلہ میں تمہاری بے صبری آشکار ھو جاتی ھے گویا یہ دنیا تمہارا (مستقل )مقام ھے اور دنیا کا ساز و برگ ھمیشہ رھنے والا ھے ۔[8]

۸۔ توکل خدا

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اپنی ایک دعا میں لوگوں کو خدا پر توکل اور بھروسہ کی تعلیم دیتے ھوئے ارشاد فرماتے ھیں :

اللّٰھم صن وجھي بالیسار ولا تبذُل جاھي بالاٴِ قتار فاستَر زقُ طالبي رزقکِ واٴستعِطف شرار خلقک واٴُبتلیٰ بحمد مَن اعطاني واٴُفتتن بذمِّ مَن مَنعني و اٴنتَ مِن وراء ذلک کلِّہ ولي الاعطا ءِ والمنع اِنک علیٰ کلِّ شیءٍ قدیر۔

خدایا!میری آبرو کو غناء و توانگری کے ساتھ محفوظ رکھ اور فقر و تنگ دستی سے میری منزلت کو نظروں سے نہ گرا کہ میں تجھ سے رزق مانگنے والوں سے رزق مانگنے لگوں ۔

 اورتیرے بندوں کی نگاہ لطف وکرم کواپنی طرف موڑنے کی تمنا کروں اور جو مجھے دے اس کی مدح وثناء کرنے لگوں اور جو نہ دے اس کی برائی کرنے میںمشغول ھو جاؤں اور ان سب چیزوں کے پس پردہ توھی عطا کرنے اور روک لینے کا اختیار رکھتا ھے بے شک تو ھر چیز پر قادر ھے۔[9]

ظلم سے ممانعت

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ظلم اور ظالموںکا تعاون کرنے سے منع کرتے ھوئے، اپنے خطبے میں اس طرح ارشاد فرماتے ھیں:

واللّٰہ لان اٴبیت علیٰ حَسَک السَّعدانِ مُسھّدا، اٴواٴُجَرَّ في الاغلالِ مُصفَّداًاٴحب اِليّٰ مِن اٴن اُلقی اللّٰہ ورسولَہُ یوم القیامةِظالماً لبعضِ العبادِ۔

وغاصباً لشيءٍ من الحُطام، وکیف اٴظلِمُ اٴحداً لنفسٍی یسرع اِلیٰ البِلیٰ قُفُولھا وےطولُ في الثریٰ حلولُھا۔واللہِ لقد راٴیت عقیلًا، وقد اٴمَلَقَ حتٰی استما حني من بُرِّکم صاعاً، وراٴیت صبیا نہ شُعثَ الشعور غُبرَ الالوانِ من فقرِھم کاٴنما سوُدَتْ وُجوُھُھم بالعظِلم

وعاودنی موٴکداًوکُررعليَّ القول مردّداً فاٴصغیت اِلیہ سمَعي فظن اٴنی اٴبیعہ دیني واٴتبع قیادَہُ مفارقاًًطریقتي فاحمیتُ لہُ حدیدةً

ثم اٴدنیتَھا من جسمہِ لیعتبرَبھا فضج ضجیج ذي دَنَفٍ من اٴلمِھا، وکاد اٴن یحترق من میسمھا، فقلتُ لہ ثَکِلْتکَ الثواکِلُ یاعقیل اٴتئنُّ من حدیدةٍ اٴحماھا اِنسانُھا للعبِہِ، وتجرني اِلیٰ نارٍ سجَّرھا جبارُھا لغضبہِ اٴتئنُّ من الاٴذیٰ ولا اٴئِنّ  من لظیٰ۔

خدا کی قسم مجھے سعدان کے کانٹوں پر جاگتے ھوئے رات گزارنا ، اور طوق و زنجےر میں جکڑ کر گھسےٹ کرلے جانا اس سے کھیں زیادہ پسند ھے کہ میں اللہ اور اس کے رسول(ص) سے اس حالت میں ملاقات کروں کہ میں نے اس کے کسی بندے پر ظلم کیا ھویا کسی کامال غصب کیا ھو میں اپنے اس نفس کی خاطر کیونکر کسی پر ظلم کر سکتاھوں جو جلد ھی فناھونے والا اور مدتوں تک مٹی کے نےچے پڑا رھنے والا ھے ۔

خدا میں نے(اپنے بھائی )عقےل کوسخت فقروفاقہ کی حالت میں دےکھا یہاں تک کہ وہ اپنے (حصہ کے)گیھوںمیں ایک صاع مجھ سے اضافی مانگنے لگے اور میں نے ان کے بچوں کو بھی دےکھا جن کے بال بکھرے ھوئے اور فکر وبے نوائی سے ان کے چھرے مرجھائے ھوئے تھے گویا ان کے چھرے نیل چھڑک کر سیاہ کر دےے گئے ھیں۔

 وہ اصرار کرتے ھوئے میرے پاس آئے اور اس بات کو بار بار دھرایا میں نے ان کی باتوں کو کان لگا کر سنا تو انھوں نے یہ خیال کیا کہ میں ان کے ہاتھ اپنا دین بےچ ڈالوں گا اور اپنی روش کوچھوڑ کر ان کے دباؤ میں آ جاؤں گا مگر میں نے یہ کیا کہ ایک لوھے کی سلاخ کوگرم کیا اور پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ وہ عبرت حاصل کرےں ۔

چنانچہ وہ اس طرح چیخے جس طرح بےمار درد وکرب سے چیختا ھے اور قریب تھا ان کابدن اس داغ دینے سے جل جائے پھر میں نے ان سے کھاکہ اے عقیل رونے و الیاںتجھ پر روئےں کیا تم اس لوھے کے ٹکڑے سے چےخ اٹھے ھو۔ جسے ایک انسان نے ھنسی مذاق میں (جلانے کی نےت کے بغیر )گرم کیا ھے۔ اور تم مجھے اس آگ کی طرف دعوت دے رھے ھو کہ جس کو خداوند قہار نے اپنے غضب سے بھڑکایا ھے ۔تم تو اذےت سے چےخو۔اور میں جھنم کے شعلوں سے نہ چلاؤں۔[10]

۱۰۔ تقویٰ اور خوف خدا    

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام لوگوں کو تقویٰ اور خوف خدا اختیار کرنے پرتحریک کرتے ھوئے ارشاد فرماتے ھیں :

عبادُاللہ اُوصےکم بتقویٰ اللّہ فاِنھا حق اللّہ علیکم والمُوجِبةُ علیٰ اللّہِ حَقَّکم واٴن تستعینوا علیھاباللّہ وتستعینوا بھا علیٰ اللہ فاِنَّ التقویٰ في الیوم الحرزوالجنة وفي غدٍ الطریق اِلیٰ الجنة مَسلَکھُا واضح وسالِکُھا رابح ومستَودَعھُا حافِظ۔لم تَبرح عارضةٌ نَفسھا علیٰ الاٴُمم الماضَین منکم والغابرےن۔

لحاجتِھم اِلیھا غداً  اِذا اٴعاد اللّہُ مااٴبدیٰ واُخذما اٴعطیٰ وساٴل عمّا اٴسدیٰ فما اٴقلَّ مَن قَبِلَھا وحَمَلَھا حقَّ حَمِلھَا اٴولئِکَ الا قلّون عدداًً  وَھم اٴھلُ صفةِ اللّٰہ سبحانَہُ اٴذیقول ”وقلیلٌ مِن عبادي الشکور“

اے بندگان خدا میں تمھیں اللہ سے ڈرتے رھنے کی وصیت  کرتا ھوں کہ اللہ کا تم پر حق ھے جو الله پر تمہارے حق کوثابت کرنے کا مؤجب بنتا ھے۔تقوی ٰ کے ذریعہ اللہ سے مددطلب کرواور (تقرب) الٰھی کے لئے اس سے مدد مانگواس لئے کہ تقوی اس دنیا میں پناہ و سپر ھے اور کل جنت میں وہ ایک واضح اورآشکارراستہ ھے اور اس کی راہ پر چلنے والا نفع میں رھے گاجو اس کا حامل ھے اس کا یہ نگھبان ھے ۔

یہ تقوی اپنے آپ کوگذشتہ اور آئندہ آنے والی امتوں کے سامنے ھمیشہ پیش کرتا رھاھے کیونکہ ان سب کو کل اس کی ضرورت ھو گی ۔کل جب خداوند عالم اپنی مخلوق کو دوبارہ پلٹائے گا اور جو ان کو دے رکھا ھے وہ واپس لے گا اور اپنی بخشی ھوئی نعمتوں کے بارے میں سوال کرے گا تو اسے قبول کرنے والے اور اس کا پورا پورا حق ادا کرنے والے بھت ھی کم نکلیں گے وہ گنتی کے اعتبار سے کم اورالله کے اس قول کے مصداق ھیں”میرے بندوں میں شکر گزار بندے کم ھیں اس کے بعدحضرت اسی خطبہ میں مزید فرماتے ھیں:

اٴیقظوا بھا نومَکُم واقطعوا بھا یَومَکم واشعروھا قلوبَکم وارحَضوا بھا ذُنُوبَکم وداووا بھا الاٴسقام و بادروا  بھا الحِمام واعتبروابمَن اٴضاعھا ولا یَعتَبِرَنَّ بکَم مَن اٴطاعھا۔

اسے خواب غفلت سے چونکنے کا ذریعہ بناؤاور اسی میں اپنے دن کاٹ دو اور اسے اپنے دلوں کا شعار بناؤ اور گناھوں کو اس کے ذریعہ سے دھوڈالو اور اس سے اپنی بیماریوں کا علاج کرو اور موت سے پھلے اس کا توشہ حاصل کرو اور جنھوں نے اسے ضائع و برباد کیا ھے ان سے عبرت حاصل کرو جوتقویٰ پر عمل کرے گا دوسروں کیلئے نمونہ عمل قرار پائے گا ۔[11]

کلمات قصار‘ جلالت معنیٰ اور بھترین روش کا ایجاد کرنا

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ اسلام کے کلمات قصار جلالت معنی ٰ اور  بداعات سبب کا اعلیٰ نمونہ ھیں جیسا کہ آپ ارشاد فرماتے ھیں :

فاِنَّ الغایة اٴمامَکُم واٴنَّ وراء کُم الساعةَ تحدوکم تَخفّفوا تلحقو افاِنّما یُنَتظَرُ باوّلِکُم آخرِکم ۔

تمہاری منزل مقصود تمہارے سامنے ھے موت کی ساعت تمہارے پیچھے ھے جو تمھیں آگے کی طرف لئے چل رھی ھے ھلکے پھلکے رھوتاکہ آگے بڑھنے والوں کو پاسکوتم سے پھلے جانے والے، آنے والوں کے منتظر ھیں تاکہ یہ بھی ان تک پھنچ جائیں ۔

سید رضی فرماتے ھیں کہ کلام خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جس کلام سے بھی ان کلمات کا موازنہ کیا جائے تو حسن و خوبی میںان کا پلہ بھاری رھے گا اور ھر حیثیت سے یہ کلمات ممتاز نظر آئیں گے ۔[12]

لوگوں کوعمل صالح کی طرف رغبت دلانا

لوگوں کو عمل صالح کی طرف رغبت دلاتے ھوئے حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ارشاد فرماتے ھیں :

اِن المالَ والبنینَ حرثُ الدنیاوالعمل الصالح حرثٌ الٓاخرة۔

ُوقد یجمعُھما اللہ تعالیٰ لاٴقوام فاحذروامن اللّٰہ ما احذّرکم مِن نفسہ واخشوہُ خشیة لیست بتعزیر واعملوا من غیر ریاءٍ ولا سمعةٍ فاِنہ من یعمل لغیرِ اللّٰہ یکلہُ اللّٰہ اِلیٰ مَن عَمِلَ لہ نساٴ ل اللّٰہَ منازلَ الشھداء و معایشة السعداء و مرافقة الاٴنبیاء۔

 بے شک مال اور اولاد دنیا کی کھیتی اور عمل صالح آخرت کی کھیتی ھے اور بعض لوگوں کے لئے اللہ ان دونوں کوایک جگہ جمع کردیتا ھے ،جتنا اللہ نے ڈرایا ھے اتنا اس سے ڈرتے اورخوف کھاتے رھو کہ تمھیں عذر نہ کرنا پڑے ،اس لئے بغیر ریاکے عمل انجام دوکیونکہ جوشخص کسی اور کے لئے عمل انجام دیتا ھے،اللہ اس کو اسی کے حوالے کردیتا ھے۔

ھم اللہ سے شھیدوں کی منزلت اور نیک لوگوں کی معاشرت اور انبیاء کی رفاقت کا سوال کرتے ھیں۔[13]

موت کے بعدکا خوف وھراس

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام موت کے بعد پیش آنے والے خوف وھراس کامنظر اپنے ایک خطبہ میں اس طرح  پیش کرتے ھیں:

فاِنکم لو قدعاینتم ماقد عاینَ من ماتَ منکم لجزعتُم و وَھلتم و سَمِعتمُ و اٴَطعتم ولکن محجوبٌ عنکم ماقد عاینوا۔و قریبٌ مایُطرح الحجاب ولقد بُصِّرتم ان اٴبصرتم و اٴُسمِعتُم اِن سَمِعتم و ھُدیتم اِن اِھتدیتم وبحقٍ اٴقول لُکم: لقد جاھرتکم العبِرَ و زُجِرتُم بما فیہ۔ مزدَجَر وما یبلِّغُ عن اللہ بعد رُسُل السماءِ اِلاّ البشر ۔

جن چیزوں کو تمہارے مرنے والوں نے دیکھا ھے ۔اگر تم بھی انھیں دیکھ لیتے توتم پریشان، سراسیمہ اور مضطرب ھو جاتے اور (حق کی بات)سنتے اور اس پر عمل کرتے لیکن جو انھوں نے دیکھا ھے وہ ابھی تک تم سے پوشیدہ ھے اور قریب ھے کہ وہ پردہ اٹھا دیا جائے۔

 اگر تم چشم بینا اور گوش شنوا رکھتے ھو تو تمھیں سنایا اور دکھایا جاچکاھے اور اگر تم کوھدایت کی طلب ھے تو تمھیں ھدایت کی جاچکی ھے میں سچ کہہ رھاھوں کہ عبرتیں تمھیں بلند آواز سے پکار رھی ھیں اور دھمکانے والی چیزوں سے تمھیں دھمکایا جا چکا ھے۔ آسمانی رسولوں (فرشتوں )کے بعد بشر ھی ھیں جو تم تک اللہ کا پیغام پھنچاتے ھیں[14]

 علم اور علماء کی فضیلت ۔

حضرت امیر المومنین علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام حضرت کمیل بن زیاد کو ایک وصیت میں علم اور علماء کی فضیلت بیان کرتے ھوئے ارشاد فرماتے ھیں :

یاکُمیل اِنَّ ھذہ القلوب اٴوعیة فخیرُھا اٴوعاھا احفظ ما اٴقول لک الَناس ثلاثةُ عالم رَبّاني و متعلِّم علیٰ سبیل النجاة و ھمج رعاعٌ اَتباع کل ناعق یمیلون مع کل ریح لم یستضیئوابنور العلم۔

ولم یلجئوا اِلیٰ رکن وثیق۔یاکمیل العلم خیر مِنَ المال ،العلم یحرسُک و اٴنت تحرس المال العلم یزکوٰ علیٰ اِلانفاق والمال یزول و محبة العلم دین یُدان بہ یکسبہ الطاعة فی حیاتہ و جمیل الاحدوثَہ بعد مماتہ العلم حاکم والمالُ محکوم علیہ یا کمیل مات خزانِ المال وھم اٴحیاء والعلما ء باقون ما بقي الدھر اٴعیانھم مفقودہ و اٴمثالھم في القلوب موجودة۔

اے کمیل! یہ دل، اسرار ورموز کے ظروف ھیں ان میں سب سے بھتر وہ ھے جو زیادہ نگھداشت رکھنے والا ھو لہٰذا جو میں تمھیں بتاؤں، تم اسے یاد رکھنا ۔

دیکھو! تین قسم کے لوگ ھیں ایک عالم ربانی ،دوسرا متعلم جو نجات کی راہ پر برقرار ھے اور تیسرے عوام الناس کا وہ پست گروہ ھے کہ جو ھر پکارنے والے کے پیچھے ھوجاتا ھے ،اور ھر ھوا کے رخ پر مڑ جاتا ھے ،نہ انھوں نے نور علم سے کسب ضیاء کیا اورنہ کسی مضبوط سہارے کی پناہ لی۔

اے کمیل!یاد رکھنا علم مال سے بھتر ھے کیونکہ علم تمہاری حفاظت کرتا ھے اور مال کی تم اور مال خرچ کرنے سے کم ھوتا ھے لیکن علم صرف کرنے سے بڑھتا ھے۔

اے کمیل!علم کی محبت ایک فریضہ ھے جس کو ادا کرنا ضروری ھے علم کے ذریعہ انسان اپنی زندگی میں اطاعت کا اندازسیکھتا ھے، اور مرنے کے بعداس کی خوبیاں باقی رھتی ھیں یاد رکھو کہ علم حاکم ھوتا ھے اور مال محکوم ۔

اے کمیل! مال اکٹھاکرنے والے مردہ ھوتے ھیں اور علماء رھتی دنیا تک باقی رھتے ھیں، بے شک ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ھوجاتے ھیں لیکن ان کی صورتیں دلوں میں باقی رھتی ھیں۔[15]

 غصب شدہ حق سے متعلق

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اپنے غصب کئے گئے حق سے متعلق ارشاد فرماتے ھیں :

 اما بعد !جب خداوندعالم نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح کو قبض فرمایا تو ھم نے کھا:ھم ھی اس کے اھلبیت رشتہ دار اس کے وارث اور اولیاء ھیں ،باقی عوام کی نسبت ھم اس کے زیادہ حق دار ھیں ھم اس کے حق اورحکومت میں جھگڑا نھیں کرتے ۔

 جب منافقوں نے اعراض کیا اور انھوں نے ھمارے نبی کے حق و حکومت کو ھم سے چھین لیا اوراس کو ھمارے غیر کے حوالے کردیا ،خدا کی قسم اس وقت ھمارے دلوں اور ھماری آنکھوں نے مل کر سخت گریہ کیااور ان کے اس عمل سے ھمیں سخت صدمہ پھنچا جس سے ھمارا دل ٹکڑے ٹکڑے ھو گیا۔

خدا کی قسم اگر ھمیں مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور ان میں سے اکثر لوگوں کے دین چھوڑ کر کفر کی طرف پلٹ جانے کا خوف نہ ھوتا ،توھم بتادیتے کہ ھمارے اندر بھی بیعت لینے کی طاقت موجود ھے اوراس وقت لوگ میری بیعت کرتے ان دونوں(طلحہ اور زبیر) نے مجبورا میری بیعت کی۔

 پھر یہ دونوںبصرہ کے لالچ میں کھڑے ھوگئے اور تمہارے درمیان اختلاف ڈالنے میںکمر باندھ لی یہ اس ارادے کے ساتھ اٹھے کہ بصرہ میں تمہاری جماعت میں تفرقہ ڈالیں اور یہ دونوں تمہارے پاس آگئے ۔ پروردگار! انھیں اس امت کو دھوکا اور عوام کو فریب دینے پر سخت مصیبت میں گرفتار فرما ۔[16]

اللہ تعالی سے شباھت کی نفی

شعبی کی روایت کے مطابق حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اللہ تعالی سے تشبیہ کی نفی کرتے ھوئے ارشاد فرماتے ھیںکہ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے ایک شخص کو یہ جملے کھتے ھوئے سنا :مجھے قسم ھے اس ذات کی جو ساتویں طبق پر چھپا ھوا ھے اور اس کی بلندی کی کس طرح مثال پیش کروں ۔چنا نچہ پھرحضرت نے اس سے کہا:یا ویلک اِن اللّہ اٴجلّ من اٴن یحتجب عن شیء ٍاٴو یُحتجب عنہ شَیء سبحان الذي لایحویہ مکان ولا یخفیٰ علیہ شیء ٍفي الاٴرض ولا في السماء۔

وائے ھوتجھ پر !اللہ تعالی اس سے بھت بلند و بالا ھے کہ وہ کسی چیز میں چھپے یا کوئی چیز اس میں پوشیدہ ھو،اللہ تو وہ پاک و پاکیزہ ذات ھے جو کسی جگہ قبضہ نھیں کرتی اور زمین وآسمان میںجو کچھ ھے وہ اس سے مخفی نھیں ۔[17]

قضاء و قدر

قضاء وقدر ان ابحاث میں سے ھے جس میں اکثر لوگ غلطی کر جاتے ھیں اور بعض لوگ تو اس سے منحرف ھو گئے ھیں ۔لیکن حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے کلام میں اس کی اس طرح تصریح فرمائی ھے کہ یہ مسئلہ واضح اور اس کا ابہام دور ھو گیا۔

چنا نچہ مرحوم کلینی علی بن محمد کی سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ھیں کہ جنگ صفین ختم ھونے کے بعد ایک شخص حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوا  اور عرض کی :اے امیر المومنین !ھمیں بتائیں کہ آپ کے اور اس قوم کے درمیان ھونے والی جنگ اللہ تعالی کی قضاء وقدرکے مطابق ھے؟تب حضرت امیر المومنین نے فرمایا : ماعَلَوُتم تلعةًولا ھَبَطتُم وادیاً اِلاّوللّٰہِ فیہ قضاء و قدر۔

تمہارا بلندی پر پھنچنا اور وادی میں اترنا سب قضا ؤ قدر کے مطابق ھے۔

وہ شخص کھتا ھے کہ اے امیرالمومنین !کیایہ کام اللہ کے نزدیک عنایت شمار ھوگا۔تب حضرت نے اس سے فرمایا :

مہ یا شیخ!فواللّٰہ لقد عظّمَ اللّہ الاٴ جر في مسیر کم واٴنتم سائرون وفي مقامکم واٴنتم مقیمون ،وفي منصرفکم واٴنتم منصرفون ولم تکونوافي شيءٍ من حالاتکم مکرھین ولا اِلیہ مضطرّین۔

اے شیخ منتظرر ھو، خدا وندا عالم انھیں کاموں کے ذریعہ تمھیں اجر دیتا ھے اور تم تمام کام انجام دیتے رھتے ھو اور کسی بھی کام میں مجبور اور مضطر نھیں ھو۔

پھرشیخ آپ کی خدمت میں عرض کرتا ھے کہ یہ کیسے ممکن ھے کہ ھم اپنے حالات میں کسی چیز کی طرف مجبور و مضطر نہ ھوں جبکہ قضاء وقدر ھی ھمارا راستہ ھے اور اسی سے ھم منقلب اور منصرف ھوتے ھیں ؟

حضرت نے جواب میںارشاد فرمایا :و تظن اٴنہّ کان قضاءً حتماً وقدراًلازماً اِنہ لو کان کذلک لبطل الثواب والعقاب والاٴمر والنہي والزجر من اللہ وسقط معنیٰ الوعد والوعید فلم تکن لائمةللمذنب ولا محمدہ للمحسن ولکان المذنب اٴولیٰ بالاحسان من المحسن ولکان المحسن اُولیٰ بالعقوبةِ من المذنب ،

تلک مقالة اِخوان عبدة الاٴوثان و خُصماء الرحمن وحزبْ الشیطان وقدریة ھذہ الامة ومجوسھا۔ان اللہ تعالی کلّف تخییراً ونھیٰ تحذیرا ًواٴعطیٰ علیٰ القلیل کثیراً ولم یُعصَ مغلوباً۔

 ولم یُطَع مکرَھا ولم یملّک مفوّضاً ولم یَخلق السماوات والاٴرض ومابینھما باطلا ولم یبعث النّبین مبشرین ومنذرین عبثاً ذلک ظن الذین کفروافویل للذین کفروا من النار۔

شاید تم نے قضاء و قدر کوحتمی و لازمی سمجھ لیا ھے (کہ جس کے انجام دینے پر ھم مجبور ھیں) اگر ایسا ھوتا تو پھر نہ کوئی ثواب کا سوال پیدا ھوتانہ عذاب کا ،اور نہ ھی اللہ تعالی کے امر ونھی اورڈرانے کا کوئی مفھوم ھوتا ،نہ وعدہ کے کچھ معنی رھتے نہ وعید کے ،گناہ گار کا کوئی گناہ نہ ھوتا اور محسن کی کوئی تعریف نہ ھوتی اور گناھگار محسن کی نسبت احسان کا زیادہ حق دار ٹھھرتا اور محسن ،گناہ گار کی نسبت عقاب کا زیادہ سزاوار بن جاتاھے۔

یہ ان لوگوں کی گفتگوھے جو بتوں کے پجاری اوررحمن کے دشمن اور شیطان کے لشکر کے سپاھی ھیں ۔اللہ تبارک و تعالی نے تو بندوں کو خود مختار بنا کر مامور کیا ھے اور عذاب سے ڈراتے ھوئے نھی کی ھے اور تھوڑا کرنے پر زیادہ اجر دیتا ھے اس کی نافرمانی اس لئے نھیں ھوتی کہ وہ مغلوب ھو گیا ھے اسکی اطاعت اس لئے نھیں کی جاتی ھے کہ اس نے مجبور کر رکھا ھے اور وہ ایسا مالک بھی نھیں ھے جو مفوض ھو اور آسمان و زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ھے اس نے اسے بیکار پیدا بھی نھیں کیاھے ۔

اس نے بشارت دینے والے ،اورڈرانے والے نبیوں کو بے فائدہ نھیں بھیجا یہ تو ان لوگوں کا خیال ھے جنھوں نے کفر اختیار کیا اور کفر اختیارکرنے والوں کیلئے جھنم ھے۔

یہ سن کر  شیخ نے یہ اشعار پڑھے :

اٴنت الامام الذي نرجو بطاعتہ۔

 یوم النجاةمن الرحمن غفرانا ۔

اٴوضحت من اٴمرِنا ماکان ملتبساً 

جزاک ربُّک بالاٴِحسان اِحسانا۔

آپ وہ امام ھیں جن کی اطاعت کے ذریعے ھم امید رکھتے ھیں کہ قیامت کے دن خدا وند رحمن ھمارے گناہ معاف کر دے گا،ھم پر یہ پوشیدہ معاملہ ظاھر ھوگیا اللہ ھی آپ کواپنے احسان کے ساتھ بھترین جزادے گا ۔[18]

ایک اور روایت میں حضرت امیر المومنین علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام قضاء وقدر کی وضاحت بیان کرتے ھیں ۔جس کووالبی نے جناب ابن عباس سے بیان کیا ھے کہ ایک شخص حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ھوا اور اس نے عرض کی کہ مجھے قدر کے متعلق بتائیں کہ قدر کیا ھے ؟

چنا نچہ حضرت نے فرمایا: طریق مظلم فلا تسلکوہ۔

یہ ایک تاریک راستہ ھے لہٰذا تم اس کے مسافر نہ بنو ۔وہ پھر عرض کرتا ھے کہ مجھے قدر کے متعلق بتائیں۔

 حضرت نے فرمایا:سرُّاللہ فلاتفشہ۔

یہ اللہ کا ایک راز ھے اسے افشا نہ کرو۔

وہ پھر کھتا ھے کہ مجھے قدر کے متعلق بتائیں ۔

حضرت نے فرمایا:بَحرٌ عمیق فلا تَلِجّہُ۔

یہ ایک گھرا سمندر ھے اس میں نہ اترو۔

پھر ارشاد فرمایا :

اے سائل بتا !اللہ تعالی نے تجھے کس طرح خلق کیا ھے ؟کیا اس نے تجھے تیری مرضی کے مطابق پیدا کیا یا اپنی مرضی کے مطابق ؟

وہ کھنے لگا کہ اس نے مجھے اپنی مرضی کے مطابق پیدا کیا ھے۔

حضرت نے پھر پوچھا :کیا تمہاری موت اسی کی مرضی کے مطابق ھو گی یاتیری مرضی کے مطابق؟وہ کھنے لگا کہ میری موت اسی کی مرضی کے مطابق ھو گی جس طرح وہ چاھے گااسی طرح موت دے گا۔

حضرت نے ارشاد فرمایا :اٴلکَ مشیّہ فوق مشیّة اللّٰہ ام لک مشیّہ مع مشیّة اللّٰہ اٴولکَ مشیّة دون مشیّةاللہ فاِن قلت لکَ مشیّة فوقَ مشیّةاللّٰہ فقد ادعیت الغلبہ للّٰہ تعالیٰ واِن قلتَ لک مشیّہَ مع مشیّة اللہ فقد اِدعیت اَلشرکہ واِن قلتَ مشیتّي دون مشیتہ فقد اِکتیفت بمشیّتک دون مشیّةاللہ۔

کیا تیری مشیت اللہ کی مشیت سے ما فوق ھے ؟یا تیری مشیت اللہ کی مشیت کے برابرھے ؟یا تیری مشیت اللہ کی مشیت کے علاوہ ھے؟اگر تم نے یہ کھاکہ تیری مشیت اللہ کی مشیت سے مافوق ھے تو تم نے اللہ پرغلبہ کا دعوی کیا ھے اور اگر تم نے کھاکہ میری مشےت اللہ کی مشیت کے برابر ھے تو تم نے اللہ کے ساتھ شریک ھونے کا دعوی کیا اور اگر تم نے یہ کھاکہ میری مشیت اللہ کی مشیت کے علاوہ ھے تو پھر تم نے صرف اپنی مشیت پر اکتفاء کیا اور اللہ کی مشیت کو ضروری نہ سمجھا۔

 پھر حضرت نے اس سے ارشاد فرمایا کہ تم یہ جملہ اداکرو:

لاحول ولا قوة الاباللہ۔

اللہ تعالی کے سواکوئی طاقت اور قوت نھیں ھے ،اس نے یہ جملہ ادا کیا پھر اس نے حضرت سے عرض کی کہ آپ اس کی تفسیر سے آگاہ فرما دیں۔

حضرت نے ارشاد فرمایا :لاحول عن معصیةاللّٰہ اِلاّبعصمتہ ولا قوّةعلیٰ طاعتہِ اِلاّ بمعونَتہِ۔

اللہ کی عصمت کے بغیر اس کی معصےت سے بچنا مشکل ھے اس کی مدد کے بغیر اس کی اطاعت کرنا دشوار ھے ۔

حضرت نے پوچھا :کیا اب تم نے اللہ کو سمجھ لیا ھے ؟ اس نے کھاجی ہاں۔

حضرت نے اپنے اصحاب سے فرمایا :الاٴن اٴسلم اَخوکم قومواالیہ فصافحوہ۔

اب تمہارا یہ بھائی مسلمان ھوگیا ھے اٹھو اور اس کے ساتھ مصافحہ کرو۔[19]

مسلمانوںکے درمیان اس بات میں اختلاف چلاآرھاھے کہ آیا عمل ایمان میں داخل ھے یاداخل نھیں ھے ؟شیعہ اور معتزلہ کھتے ھیں داخل ھے اور مرجعہ کھتے ھیں کہ داخل نھیں ھے، چنانچہ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام جن کے متعلق حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ھیں:

” علی مع الحق والحق مع علی۔“علی (ع)حق کے ساتھ ھیں اور حق علی (ع)کے ساتھ ھے ۔

ارشاد فرماتے ھیں:لانسُبَنَّ الاٴِسلام نِسبةًًلم ینسُبھا اٴحدٌ قبلي،اِلاسلام ھو التسلیم والتسلیم ھو الیقین والیقین ھو التصدیق والتصدیق ھو اِلاقرار واِلاقرار ھو الاٴَداء والاٴداء ھو العمل۔

اسلام کے ساتھ مجھے وہ نسبت دو جومجھ سے پھلے کسی کونصےب نہ ھوئی ھو (کیونکہ)اسلام ھی تسلیم ھے اور تسلیم ھی یقین ھے اور یقین کسی چیز کی تصدیق کرنا ھے اور کسی چیز کی تصدیق کرنا ھی اقرار کھلاتا ھے اور کسی چیز کا اقرار ادا ھوا کرتا ھے اور ادا کا نام ھی عمل ھوتا ھے۔[20]

حضرت حجت کے بارے میں بشارت

جیساحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت میںیہ بات گزر چکی ھے کہ حضرت نے امام منتظر عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظھور کی بشارت دی ھے اور حضرت علی (ع) بھی اس سلسلہ میں ارشاد فرماتے ھیں:

لتعطفن الدنیا علینا بعد شمارسھا عطف الضّروس علی وَلَدِھا: و تلا عقیب ذلکَ: <ونَرید اٴن نمنَّ علیٰ الذین اِستضُعفوا في الاٴرض ونجعلَھُم اٴئمةً و نجعلَھُم الوارثین۔>

یہ دنیااپنا زور دکھانے کے بعد پھر ھماری طرف جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچے کے طرف جھکتی ھے اس کے بعد حضرت نے (سورہ قصص کی پانچویں آیت کی تلاوت فرمائی) ھم یہ چاھتے ھیں کہ جو لوگ زمین میں کمزور کر دیے گئے ھیں ان پر احسان کریں اور ان کو پیشوا بنائیں اور انھی کو (اس زمین کا)مالک قرار دیں ۔[21]

ایک اور مقام پر حضرت امیر المومنین اپنے کلام میں کمیل بن زیاد نخعی کو حضرت حجت عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظھور کے متعلق بتاتے ھیں ۔

اللھم بلیٰ لاتخلوالاٴرض من قائم للہِ بحجّة اِماّ ظاھراً مشھوراً واِما خائفاً مغموراً لئَلّا تَبطُل حجج ُاللہِ و بیّناتِہِ۔

ہاں زمین کبھی ایسے فرد سے خالی نھیں رہ سکتی جو خدا کی حجت کو برقرار رکھتا ھے چاھے وہ ظاھرو مشھور ھو یا خائف و پنہاں ،تاکہ اللہ کی دلیلیںاور بینات مٹنے نہ پائیں۔[22]

حکمت اور موعظہ

حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب( علیہ السلام )دنیا کی بے ثباتی او ر آخرت کیلئے زاد راہ مھیا کرنے کے سلسلے میں وعظ ونصےحت فرماتے ھیں :

خذوا۔رحِمَکَم اللّٰہ۔مِن مَمرِّ کم لمقرّکم ولا تَھتکوا اٴستارَکم عند مَن لا تخفیٰ علیہ اٴسرارَ کم واٴخرجوا مِن الدنیا قلوبَکم قبل اٴن تخرج منھا اٴبدَانکم فللآخرة خُلقتُم و في الدنیا حُبستم اِنّ المرء اِذا ھلک قالت الملائکة ما قدّم؟  وقال الناس ماخلّف ؟

فللّٰہ آباوٴکم قدموابعضاً یکن لکم ولا تُخلِّفوا کلًّا فیکون علیکم فاِنما مثلُ الدُنیا مثلُ السّمِّ یاکلہ مَن لا یَعرفہُ۔

اے لوگو!  اللہ تم پر رحم کرے اس راہ گزر سے اپنی منزل کے لئے توشہ اٹھالو ، جس کے سامنے تمہارا کوئی بھےد چھپا نھیں رہ سکتا اس کے سامنے اپنے پردے چاک نہ کرو قبل اس کے کہ تمہارے جسم اس دنیا سے الگ کر دئےے جائیں اپنے دل اس سے ہٹالو اس دنیا میں تمھیں محبوس کیا گیا ھے لیکن تمھیں آخرت کے لئے پیداکیا گیا ھے جب کوئی انسان مرتا ھے تو فرشتے کھتے ھیں اس نے آگے کے لئے کیا سازوسامان بھیجا ھے۔

 اور لوگ کھتے ھیںکہ وہ یہاں کیا چھوڑکر گیا ھے خدا تمہارا بھلا کرے کچھ آگے کے لئے بھےجو خدا کی قسم تمہارے بزرگوں نے آگے کیلئے کچھ نہ کچھ روانہ کیا ھے جس کا تمھیں کوئی فائدہ نھیں ملے گا لہٰذاتم بھی سب کا سب پیچھے نہ چھوڑ جاؤ کہ وہ تمہارے لئے بوجھ بنے گا کیونکہ یہ دنیا زھر کی مانند ھے جو اسے نھیں پہچانتا اسے وہ ہڑپ کر جاتی ھے۔

 اسی کے متعلق حضرت امیر المومنین علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام مزید اس طرح ارشاد فرماتے ھیں:

لا حیاة اِلاّ بالدین ولا موت الا بجحود الیقین فاشربوا العذب الفرات یُنَبّھکم من نومة السبات واِیّاکم والسّمائم المھلکات ۔

دین زندگی ھے اور یقین  کا انکار موت ھے اورگوارپانی کاذائقہ چکھنا ھے تمھیں غفلت سے بےدار کیا گیا ھے اس سے بچو ،اور ھلاک کنندہ زھر سے دور رھو۔

اس کے بعدآپ نے مزید فرمایا :

الدنیا دارصدقٍ لمن عَرَفھا ،ومضمارُ الخَلاص لِمَن تزوُّد  منھا ، ھی مَھبطُ وحي اللّٰہ ومتّجَرَاٴولیائہ اتَّجَروا فَربحوا الجنّة۔

دنیا صداقت کی جگہ ھے جس نے اسکو پہچان لیا اور جو اس دنیا سے اپنا زادر اہ فراھم کرتا ھے وہ نجات پا جاتا ھے (کیونکہ )یھی دنیا ھے جہاں اللہ کی وحی نازل ھوتی ھے یہ اولیاء خداکی تجارت گاہ ھے تم بھی یہاں تجارت کرو تاکہ فائدہ حاصل کر سکو ۔[23]

 شناخت پروردگار

جب ذعلب ےمانی نے آپ(ع) سے سوال کیا کہ یاا میر المومنین کیاآ پ نے اپنے پروردگار کو دےکھا ھے تو حضرت امیر الموٴمنین (ع) نے ارشاد فرمایا :اٴفا اٴعبد مالا اری۔

کیا میں اس اللہ کی عبادت کرسکتا ھوں جسے میں نے دےکھانہ ھو، حضرت امیرالمومنین علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام کے اس کلام سے مختلف پھلو نکلتے ھیں جن  میں ایک پھلو یہ بھی ھے کہ آپ نے اس کلام میں اللہ کے ساتھ تشبیہ کی نفی فرما ئی ھے )ذعلب کھتا ھے مولا آپ (ع) کس طرح دےکھتے ھیں۔

 حضرت نے ارشاد فرمایا:

لا تُدرکہ العیون بمشاھدةِ العیان ولکن تدرکہُ القلوب بحقائقِ الایمان قریب مَن الاشیاء غیر ملًامسٍ بعیدٌ منھا غیر مُباےنٌ متکلّم بلا رویّة  مُرےد لا بھمّہ صانعٌ لا بجارحةٍ لطیف لا یوصَفُ بالجفاء کبےرٌ لا یوصف بالجفاٍ بصےرٌ لا یوصَفُ بالحاسَّة رحیمٌ لا یوصفُ بالرِّقة  تعنواالوجوة لعظمتہِ وتجِبُ القلوب من مخافتہ۔

اسے ظاھری آنکھوں سے نھیں دےکھا جا سکتا بلکہ اسے دل کی آنکھوں اورایمان کے حقائق کے ذرےعہ سے دیکھا جا سکتا ھے لیکن جسمانی اتصال کے طور پر نھیں وہ ھر شیء سے دور ھے لیکن الگ نھیں وہ غوروفکر کرنے کے بغیر کلام کرنے والا اورآمادگی کے بغیر قصد وارادہ کرنے والا اور اعضاء کی مددکے بغیر بنانے والا ھے۔

اللہ تبارک وتعالی لطیف ھے مگر پوشےد گی سے اسے متصف نھیں کیا جاسکتا وہ بزرگ وبر تر ھے لیکن تند خوئی اور بد خلقی کی صفت اس میں نھیں ھے وہ دےکھنے والا ھے مگر حواس سے اسے موصوف نھیں کیا جاسکتا وہ رحم کرنے والا ھے اس صفت کو نرم دلی سے تعبےر نھیں کیا جاسکتا چھرے اس کی عظمت کے سامنے ذلیل وخوار اور دل اس کے خوف سے لرزاں و ھراساں ھیں ۔[24]

خواھشات کی پیروی

حضرت امیر المومنین علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام اپنے پاک کلام میں نفسانی خواھشات کی پیروی کرنے سے ڈراتے ھوئے قرآن مجےد کی عظمت اوراس کے دلوںپر اثرات کو بیان کرتے ھوئے ارشاد فرماتے ھیں ۔

انتفعوا ببیان اللّٰہ واتعظوابمواعظِ اللّٰہ واقبلوا نصےحة اللّٰہ فاِن اللّٰہ قد  اٴعذَر اِلیکم بالجلےةّ واٴخذعلیکم الحُجّة وبین لکم محابَّہُ من الاٴعمال ومکارھَہُ منھا لتتبعوا ھذہ وتَجتنبوا ھذہ۔

خدا وند عالم کے ارشاد ات سے فائدہ اٹھاؤ اور اسکے موعظوں سے نصےحت حاصل کرو اور اس کی نصےحتوں پر عمل کروکیونکہ اس نے واضح دلیلوں سے تمہارے لئے عذر کی گنجائش نھیں رکھی اور تم پر (پوری طرح )حجت کوتمام کردیا ھے اور اپنے پسندےدہ اور ناپسندیدہ اعمال تم سے بیان کر دےے ھیں تاکہ اچھے اعمال بجالاؤ اور برے اعمال سے دوری اختیار کرو۔

 جیساکہ اس سلسلہ میں حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ھے :

ان الجنة حُفَّت بالمکارِہِ واِنَّ النارَ حُفَّت بالشھوات ۔

بے شک جنت سختیوں سے گھری ھوئی ھے اور دوزخ خواھشوں میں گھرا ھوا ھے۔

 حضرت مزید ارشاد فرماتے ھیں:واعلموا اٴنّہ مامن طاعة للّٰہ في شيءَ اِلاّ یاتي في کرہٍٍ وما مِن معصےة للّٰہ في شيء  اِلا یاتي في شھوة فرحم اللّٰہ اِمرء اً  نزع عن شھوتہِ وقمع ھویٰ نفسہِ فاِن ھذہ النفس اٴبعدُ شیءٍ  منزعاًً واِنّھا لاتزال تَنزِعُ اِلیٰ معصےةً في ھویٰ ۔

یاد رکھو کہ اللہ کی اطاعت سختی کے ھمراہ ھے اور اسکی معصےت ھوا و ھوس کے ھمراہ ھے خدا اس شخص پر رحم فرمائے جوخواھشوں سے دوری اختیار کرے اورھوا وھوس کی بنیاد کو اکھاڑ پھینکے کیونکہ نفس خواھشات میں لامحدود حد تک بڑھنے والا ھے اور وہ ھمےشہ خواھش وآرزوئے گناہ کی طرف مائل ھوتی ھیں۔

عظمت قرآن

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام قرآن کی عظمت کے متعلق ارشاد فرماتے ھیں :

واعلموا اٴنَّ ھذا القرآنَ ھو الناصح الذي لاَےغُشُّ ، والھادي الذي لا ےضل ،والمحدّثُ الذي لا یکذب وما جالَسَ ھذا القرآن اٴحدٌ اِلاّ قامَ عنہُ بزیادةٍ اٴونقصانٍ زیادة في ھدیٰ اٴونقصان من عمیٰ ۔

واعلموا اٴنہ لیس علیٰ اٴحد بعد القرآن مِن فاقة ولا لاٴحد قبل القرآن مِن غنیٰ فاستشفوہ من اٴدوائِکم واستعینوا بہ علیٰ لاٴ وائکم فاِن فیہ شفاءً من اٴکبر الداء وھو الکفرُ والنفاقُ والغُّي والضلال فاساٴلوا اللّٰہَ بہ وتوجّھوا اِلیہ بِحُبہّ ولا تساٴلوا بہ خَلقِہ اِنّہ ماتوجّہ اِلیٰ اللہ تعالیٰ بمثلہ ۔

یاد رکھو  !  یہ قرآن مجےد اےسا نصےحت کرنے والا ھے جو فرےب نھیں دیتا، اےسا ھدایت کرنے والا ھے جو گمراہ نھیں کرتا اور اےسا بیان کرنے والا ھے جو جھوٹ نھیں بولتا جو بھی قرآن کا ھم نشےن ھوا وہ گمراھی و ضلالت سے نکل کر ھدایت پا گیا۔ جان لو کسی کو قرآن (کی تعلیمات )کے بعد کسی اور لائحہ عمل کی ضرورت نھیں رھتی اور نہ کوئی قرآن سے (کچھ سےکھنے )سے پھلے اس سے بے نیاز ھو سکتا ھے اسکے ذرےعے بیماریوں سے بچنے کی شفاء طلب کرو اور اپنی مصیبتوں پر اس سے مدد مانگو۔،اس میں کفر ونفاق اورضلالت وگمراھی جیسی بڑی بڑی بیماریوں کی شفاء پائی جاتی ھے اس کے ذریعے اللہ سے مانگواور اس کی محبت کو لیکراس کا رخ کرو اور اسے لوگوں سے مانگنے کا ذرےعہ نہ بناؤ یقینا یہ بندوں کے لئے اللہ کی طرف متوجہ ھونے کا بھترین ذرےعہ ھے۔

اس کے بعدحضرت مزید ارشاد فرماتے ھیں:

واعلموا اٴنہّ شافعٌ  مُشفَّعُ وقائلٌ مصدّق واٴنہ من شَفع لہ القرآنُ یوم القیامة شفَّع فیہ ومن مَحَل بہ القرآن یوم القیامة صُدِّق علیہ فاِنہُ ےنادي منادِ یوم القیامةُ۔الا اِنّ کل حارثٍ مبتلیٰ في حرثہِ وعاقبة عملہِ غیر حَرَثةِ القرآن ۔

فکونوا من حَرثَتہِ واٴتباعہ واستدلّوِہُ علی رِبِّکم واستنصحو ہُ علیٰ اٴنفسکم واتھموا علیہ آراء کمُ واُستغشوا فیہ اھواء کم۔ العمل العَمَل ثم النھایة النھایة والاٴ ستقامةَ الاستقامةَثم الصبرَ الصبرَ والورَعَ الورعَ۔

 تمھیں معلوم ھونا چاہئے کہ قرآن اےسا شفاعت کرنے والا ھے جس کی شفاعت مقبول ھے اور اےسا کلام کرنے والا ھے (جس کی ھر بات ) تصدیق شدہ ھے قیامت کے دن جس کی یہ شفاعت کرے گا وہ اس کے حق میں مانی جائے گی اور اس روز جس کے عیوب بتائے گا تو اس کے بارے میں بھی اس کے قول کی تصدیق کی جائے گی قیامت کے دن ایک ندا دینے والا پکار کر کھے گا۔

دےکھو! قرآن کی کھےتی بونے والو ںکے علاوہ ھر بونے والا اپنی کھےتی اور اپنے اعمال کے نتےجہ میں مبتلا ھے لہٰذا تم قرآن کی کھےتی بونے والے اور اس کے پیرو کار بنو اور اپنے پروردگار تک پھنچنے کے لئے اسے دلےل راہ بناؤ اپنے نفسوں کے لئے اس سے پند ونصےحت حاصل کرواور اس کے مقابلہ میں اپنی خواھشوں کو غلط وفرےب خوردہ سمجھو، عمل کرو عمل کرو اور عاقبت وانجام کو دےکھو، استوار وپائدار رھو پھر یہ کہ صبر کرو صبر کرو ،تقویٰ اور پر ھےز گاری اختیار کرو۔[25]

[1] ارشادشیخ مفید ج۱ ص ۲۲۵۔

[2] شرح نھج البلاغہ ج۶ ص۳۵۰ ۔

[3] شرح نھج البلاغہ ابن حدید ج ۱۳ ص۶۹،۸۲۔

[4] ارشاد ج۱ص۲۴۱۔

[5] ارشاد ج۱ ص۲۴۰۔

[6] شرح نھج البلاغہ ابن حدید ج ۷ ص۱۷۱۔

[7] شرح نھج البلاغہ ابن حدید ج۷ص۲۲۱۔

[8] ابن حدید کی شرح نھج البلاغہ ج۷ ص۲۴۶۔

[9] شرح نھج البلاغہ ج۱۱ص۲۵۵۔

[10] شرح نھج البلاغہ ج۱۱،ص۲۴۵۔

[11] شرح نھج البلاغہ ج۱۳ص۱۱۵۔۱۱۶۔       

[12] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۳۰۱۔

[13] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص ۳۱۲۔

[14] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۹۸۔

[15] تذکرة الخواص ص ۱۳۲۔

[16] ارشاد ج۱ ص۲۴۵۔۲۴۶۔          

[17] ارشاد ج۱ ص۲۲۴۔

[18] جناب کلینی کی کافی ،کتاب توحید ص۱۵۵،۱۵۶

[19] سبط ابن جوزی کی تذکرة الخواص ص۱۴۴۔

[20] شرح نھج البلاغہ ج۱۸ص۳۱۳۔

[21] شرح نھج البلاغہ  ج۱۹  ص۲۹۔

[22] شرح نھج البلاغہ ج۱۸ص۳۴۷۔ 

[23] ارشاد ج ۱ ص ۲۹۵ ،۲۹۶ ۔      

[24] شرح نھج البلاغہ ج ۱۰ص ۶۴ ۔

[25] شرح نھج البلاغہ ج ۱۰ ص۶ا،۲۴ ۔

[ دیدار کی تعداد : 69]    

 

 

 

 

 

 

 

 

 


source : http://www.madinatulelm.com/ordo/pages/news.php?nid=17
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام
حدیث غدیر پر علمائے اہلسنت کے اعتراضات اور ان کے ...
دو سوالوں کے جواب اکیسویں فصل
حج کی مادی اور دنیاوی برکتیں
عزاداری امام حسین علیہ السلام
فلسفہ شہادت اور واقعہ کربلا
عید قربان اور جمعہ کی دعا
ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کے لیے لمحہ فکر و عمل
پوری دنیا میں محرم کا آغاز، عزاداری کا سلسلہ شروع
بعثت کی حقیقت

 
user comment