اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

ذوالقعدہ ذوالحجة حکمتِ علی - حصّہ 3

کلامِ نورانی امیرالمومنین ـ جو نہج البلاغہ کے نام سے معروف ہے ۔ اس کا تیسرا حصہ کلماتِ قصار یا کلمات حِکَم اور مواعظ و نصائح پر مشتمل ہے ۔ یہ ایک ایک سطر کے ''دُرّ ِگراں بہا'' جنہیں سید رضی نے اپنے حُسنِ ذوق سے امیرالمومنین کے کلام سے منتخب کیا ہے۔ اور ان کلمات کو حکمتِ علی ـ کا نام دیا ہے ۔ 

درحقیقت یہ کلمات قصار امیرالمومنین علی کی فصاحت و بلاغت کا ایک نمونہ اور شاہکار ہیں ۔ عموماً مفسرین قرآن جب آیات قرآنی کی تفسیر کرتے ہیںتو ایک ایک آیت کے مفاہیم کو کھول کر بیان کرتے ہیں ۔ لیکن امیر المومنین کے یہ کلمات ِ حِکم، قرآن کے مضامین اور مطالب کی تلخیص ہیں،جوکہ فصاحت علوی کاایک نمونہ ہے ۔ اورسید رضی نے انہی کلمات کو کلماتِ قصار یا کلماتِ حِکم کانام دے کر انسانیت کی ہدایت کے لئے نہج البلاغہ کے تیسرے حصّے کی صورت میں مدوّن فرمایا ہے

انسانی حیات کا منشور

نہج البلاغہ انسان کی دنیوی حیات اورابدی سعادت کے لئے ایک منشور ہے ۔ ویسے تو قرآن بھی بشر کی دنیوی حیات اورابدی سعادت کے لئے الٰہی منشور ہے۔ لیکن نہج البلاغہ خطباتِ امیرالمومنین ـ کی صورت میں قرآن کے مطالب کی تفسیر ، اور کلماتِ قصار کی صورت میں قرآن کے مضامین کا نچوڑ اور تلخیص ہے۔ یہ دونوں منشور حیات، انسان کی طرف سے متروک اور مہجور ہونے کی وجہ سے مظلوم واقع ہوئے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو توجہ ان دونوں منشور وںکی طرف ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہے ۔ اور ہمیں اس کوتاہی پر خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار اور توبہ کرنی چاہیے ۔ اور قرآن و اہلبیت کی تعلیمات سے دوری اختیار کرنے پر بھی ہمیں خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرنے کی ضرورت ہے ۔ شاید خدا تعالیٰ کی ذات جو کہ ''توّاب ورحیم'' ہے ہماری توبہ قبول کر لے ، اور توبہ کی قبولیت کا اثر یہ نہیں ہے کہ ہم جہنم میں نہیں جائیں گے ۔ بلکہ توبہ کی قبولیت کا اثر اور نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں قرآن اور نہج البلاغہ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی رغبت پیدا ہو جائے گی،جس سے ہمارے صبح و شام قرآن اور نہج البلاغہ کے سائے میں بسر ہوں گے ۔

قرآن اور نہج البلاغہ یا دوسرے لفظوں میں دین کا مقصد ظاہری انسان کو حقیقی انسان بنانا ہے ۔ فلسفہ اور ہدف ِدین بھی یہی ہے کہ اس ظاہری انسان کو حقیقت انسانی سے آشنا کیا جائے۔

انسانی خلقت کے مراحل

خدا وند تبارک وتعالیٰ نے کائنات اور کائنات کی ہر چیز کو اپنی قدرت کا ملہ کے ذریعے خلق فرمایا اور انسان جو اس کائنات کا ایک حصہ ہے۔ اس کی خلقت کو دو مرحلوں میں انجام دیا ، ایک مرحلہ خدا تعالیٰ نے خود انجام دیا ۔ اور دوسرا مرحلہ اس انسان پر چھوڑ کر اسے بتا دیا کہ یہ مرحلہ تو نے خود طے کرنا ہے اس طرح سے انسان کے وجود کے دو حصے ہوگئے ایک خِلقت یعنی خَلقِ انسان اور دوسرا اخلاق یعنی خُلقِ انسان ہے ۔

خَلقِ انسان کا مرحلہ خدا تعالیٰ نے خود انجام دیا ہے ۔ اور خُلقِ انسان کا مرحلہ خود انسان سے انجام دلوانے کے لئے اس کا راستہ اور طریقہ بیان کرنے کے ساتھ اس کا مواد بھی انسان کو عطا کر دیا ہے۔ اور کہا کہ تو نے اپناخُلق ویسے ہی بنانا ہے جیسے میں نے تجھے خَلق کیا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ قرآن میں انسان کی خلقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نے انسان کی خلقت کا آغاز طین سے کیا ہے ۔ اور پھر طین کو سلالة بنایا ہے ۔ سلالة سے نطفہ بنایا پھر نطفے کو قرار مکین میں ڈال دیا ، پھر قرار مکین میں اسی نطفے کو مضغہ بنایا ، پھر اس مضغہ کو علقہ بنایا ، پھر ہم نے اس علقہ کو ج سم میں تبدیل کیا ۔ جسم کو گوشت میں بدلا، پھر اس میں ہڈیاں بنائیں اور پھر اس کے اوپر جلد چڑھا دی اور جلد چڑھانے کے بعد ہم نے اس کے اندر روح ڈالی اور روح ڈالنے کے بعد فرمایا:''فتبارک اﷲ احسن الخالقین …''

انسان کی خلقت کے یہ مراحل بیان کرنے کے بعد سورہ تِین میں اسے اورواضح کر دیا کہ :'' لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ''

اے انسان تو نے اپنی خلقت کا خیال رکھناہے ۔کیوںکہ ہم نے تیری خلقت بہت ہی احسن ، استوار اور مستقیم بنائی ہے ، یعنی جتنی زیبا، جتنی حسین ، جتنی خوبصورت اور جتنی جمیل بنائی جا سکتی تھی وہ ہم نے بنا دی ہے ۔ لیکن تیری یہ خلقت تیری انسانیت نہیں بلکہ تیری انسانیت کا سانچہ ہے تیری یہ خلقت تیری انسانیت کا فریم ہے ، اس کے اندر انسانیت تو نے خود پیدا کرنی ہے ، اس فریم اور سانچے کے اندر انسانیت کا رنگ تو نے خود بھرنا ہے ۔ اس ہڈیوں اور گوشت کے ڈھانچے کو انسان تو نے خود بنانا ہے ۔ کس طرح سے بنانا ہے ؟ یہ کام خدا وند تعالیٰ نے انسان کے سپرد کر دیا ہے ۔

دین کا ہدف اور مقصد

وہ تعلیمات اور موادجس کے ذریعے انسان نے اس احسن تقویم کے اندر حقیقتِ انسانی کا رنگ بھرنا ہے ، ان تعلیمات کا نام دین ہے ، دین صرف ایک ہی ہدف اور مقصد کے لئے آیا ہے اور اس کا صرف ایک ہی نصب العین ہے اور وہ یہ کہ انسان خود اپنے ہاتھ سے اپنی تعمیر کرے ۔ اپنا وجود اور روپ بنائے دوسرے لفظوں میں خدا وند تعالیٰ نے ہماری خلقت کے فریم پر جلد کا پردہ چڑھا دیا ہے اور اس پردے کے نیچے مصوری کرنے کا کام ہمیں سونپ دیا ہے کہ جائو اس فریم کے پردے کے نیچے اپنی تصویر بنائو۔

انسان اپنے خُلق کی تصویر کا مصوّر

مصور دو طرح کی تصاویر بناتا ہے ۔ ایک عام تصویر کہ جو کسی بھی جگہ بیٹھ کر بنالیتا ہے ۔ اس کے لئے مہم نہیں ہوتا، کہ وہ بازار میں بیٹھ کر بنائے ، یا چوراہے پر بیٹھ کر بنائے ، کوئی اسے بناتے ہوئے دیکھ رہا ہے یا نہیں، اس سے اس کے کام میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا ۔ لیکن یہی مصور ایک دفعہ ، ایک نایاب تصویر بناتا ہے ۔ اور یہ نایاب تصویروہ ہرجگہ نہیں بناتا، بلکہ وہ اس تصویر کو کسی بند جگہ پر ، بند کمرے میں ، بند گھر میں ، یا بند سٹوڈیو میں بناتا ہے ۔ اور اس کے بعد اس پر کپڑا ڈال دیتا ہے ۔ تاکہ اس کے علاوہ کوئی اور اس کو نہ دیکھ سکے جب تصویر فن مصوری سے تکمیل ہوجاتی ہے ۔ تو پھر وہ اس تصویر کی پردہ کشائی کا اعلان کرتا ہے ۔ کہ آج میں اس تصویر سے پردہ ہٹا رہا ہوں ۔ آئو دیکھو میں نے مصوری کا کیساشاہکار بنایا ہے ۔ اسی طرح خدا وند متعال نے انسان کا فریم خلق کرنے کے بعد اس پر جلد کا پردہ چڑھا دیا ۔ تاکہ اس پردے کے نیچے بند کمرے اور بندماحول میں انسان اپنی تصویر بنائے ۔ ہر انسان اس جلد کے پردے کے نیچے اپنی تصویر بنا رہا ہے ۔ اور اپنی مصوّری کے جوہر دکھا رہا ہے ۔ لیکن سوائے خدا تعالیٰ کے کسی کو نہیں پتاکہ انسان اپنی تصویر کیسی بنا رہا ہے ، کیوں کہ خدا تعالیٰ کا ایک اسم ستّار ہے اور ایک ستّار العیوب ہے ، یعنی پردہ ڈالنے والا اور عیبوں پر پردہ ڈالنے والا۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے انسان کے عیبوں کو جلد کے پردے کے نیچے چھپا دیاہے ۔ تاکہ کسی انسان کی مصوری کو دوسرا انسان نہ دیکھ سکے ۔ کیوں کہ جس نے مصور کی ان تصویروں پر پردہ ڈالا ہے ۔ خود اس نے ان پر پردہ اٹھانے اور ان تصویر وں کی نقاب کشائی کے دن کا اعلان کردیا ہے جوکہ روزِ قیامت ہے۔

انسانیت کی نقاب کشائی کا دن

قرآن میں روزِ قیامت کا ایک نام '' یوم تُبلیٰ السرائر'' بھی بیان ہوا ہے ۔ یعنی نقاب کشائی کا دن ۔ جس دن تمام چیزوں کے اوپر سے پردے ہٹائے جائیں گے ۔ اگرچہ آج سب جلد کے ساتھ انسان نظر آتے ہیں لیکن جب قیامت آئے گی اور ان پردوں اور جلدوں کو ہٹایا جائے گا تو جو اندر سے برآمد ہوگا وہ ایک جیسا نہیں ہوگا قرآن نے ان سب چیزوں کو بیان کیا ہے ۔ جو قیامت کے روز ان پردوں کے نیچے سے برآمد ہوں گی ۔

ہم میں سے ہر ایک اپنے آپ کو بنانے کے لئے پیدا ہوا ہے ۔ دین انسان سازی کا منشور ہے ۔ انسان سازی کے لئے دین کی تعلیمات بہت وسیع ہیں ۔ درحالیکہ ہمیں جو دین بتایا گیا ہے ۔ وہ اصل دین اور دینِ کا مل کا عشر عشیر بھی نہیں ہے ۔ بہت ہی معمولی سا دین ہے ۔ جس پر ہم سارا سال عمل کرتے ہیں اور جس سے ہمارا سروکار ہے ۔ دین کا اکثر حصہ ہمارے لئے مجہول ہے ۔ ہمیں اس کی تعلیم نہیں دی گئی ،اور ہمارے لئے دین کے اس راز کو بھی فاش نہیں کیا گیا ۔    

دینِ کامل سے دوری کا نتیجہ

کامل دین ، انسان بنانے کا منشور ہے ،نہ کہ یہ دین جس پر آج ہم عمل کر رہے ہیں۔ چونکہ دین کا مل کی طرف ہماری راہنمائی نہیں کی گئی، اس لئے بعض ذہنوں میں اکثر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں آج جتنی بھی ترقی ہوئی ہے ۔ یہ مصنوعات، یہ مشینیں، یہ عجیب و غریب وسائل زندگی ، یہ بجلی کی نعمت، جس شخص نے بجلی کا تحفہ دیا وہ تودین سے آشنا نہیں تھا یا اس نے دین سے الہام لے کر یہ کام نہیں کیا تھا۔اسی طرح کمپیوٹر جس سے آج دنیا کی اکثریت استفادہ کر رہی ہے ۔ یہ بھی دین سے الہام لے کر نہیں بنایا گیا ۔ہو سکتا ہے ان لوگوں نے نیچر یا طبیعت سے الہام لیا ہو ۔ یا سائنس اور تعلیم سے الہام لیا ہو، یا ہو سکتا ہے ، بعض لوگوں کو خدا تعالیٰ نے ایسے ذہن دیئے ہوں،جن کی مدد سے انہوں نے ان وسائل کو کشف کیا ہے ۔

بہر حال یہ سب ترقی غیر متدین افراد کے ہاتھوں ہوئی ہے ۔ دینی افراد نے یہ کام نہیں کیا یہ سب کام یا تو ان لوگوں نے کئے ہیں جن کا کوئی مذہب نہیں تھا یا پھر ان کا اگر کوئی مذہب تھا تو وہ سیکولرازم تھا۔ ان کا دین پر ایمان مضبوط نہیں تھا اور مذہبی تعلیمات کی روشنی میں انہوں نے یہ کام نہیں کئے۔

اور آج ہماری زندگی کے جتنے وسائل ہیں ، چاہے وہ گھر بنانے کا مٹیریل ہو یا گھر کے اندر استعمال ہونے والی اشیاء ہوں اگر یہ سب کچھ مذہب سے باہر لوگوں نے بنایا ہے اور مذہب سے ہٹ کر انھوں نے کسی سے راہنمائی لی ہے تو پھر یہ مذہب آخر کس کام کاہے ؟ اگردین انسان کی کسی ضرورت کو پورا نہیں کررہا، تو پھر دین آخر کس مرض کی دوا ہے ؟ اگرچہ خطباء اور علماء یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ غیر مذہبیوں نے یہ سارے کام مذہب سے ہی الہام لے کر انجام دیئے ہیں ۔ لیکن ان کے پاس اس کے اوپر خطابت کے علاوہ اور کوئی سند موجود نہیں ہے، کہ ان لوگوں نے دین سے الہام لے کر ہی یہ ترقی کی ہے۔

دین منشور حیات بشر

ایک غلط نظریہ جو یہاں اس سوال کے جواب میں پیش کیا جاتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ دین آخرت کے لئے ہے ۔اور جو لوگ دنیاوی کاموں میں مشغول ہیں یعنی ڈاکٹر ، انجینئر اورکسان وغیرہ جوکہ دنیا کا نظام چلا رہے ہیں ۔ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔ کیوں کہ آخرت جو کہ موت کے بعد کا عالم ہوگاصرف دین داروں کے لئے ہے اور وہاں صرف دین داروں کی کارکردگی دیکھی جائے گی ۔ نہیں ایسے نہیں ہے کہ دین صرف موت کے بعد والی زندگی کے لئے ہو ۔ بلکہ دین منشور حیات بشر ہے ، دین ہماری موت سے پہلے کی زندگی بنانے کے لئے آیا ہے ۔ اور جو زندگی ہم موت سے پہلے بنائیں گے اسی کو آخرت میں لے کرجائیں گے ۔ یوں نہیں ہے کہ دنیا میں ہم کچھ بنائیں لیکن آخرت میں ہمیں کچھ اور ملے ۔ بلکہ دین موت سے پہلے کے لئے آیا ہے اور موت کے بعد ہمیں دین کا نتیجہ ملے گا ۔ موت کے بعد دین پر عمل نہیں ہوگا۔

انسان کی عقل و استعداد کا مقصد

دین، دنیا کے لئے آیا ہے لیکن اس کا معنی یہ نہیں کہ دین نے کمپیوٹر ، موبائیل ، سوفٹ وئیر ، ہارڈ وئیر یا دوسرے وسائل زندگی، ان سب چیزوں کو بنانا ہے ۔ بلکہ خدا وند تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد صلاحیتیں ، قابلیتیں اور عقل و استعداد اس کو دے دی ہے تاکہ انسان ان قابلیتوں کے ذریعے سوچے ، سمجھے ، علم حاصل کرے ، غلط و صحیح کو پرکھے ،اس لئے یہ قابلیتیں انسان کو دی ہیں ۔ خدا تعالیٰ نے انسان کے اندر یہ استعدادیں عبث نہیںرکھیں بلکہ انسان کے ذمہ کچھ کام ہیں جو اس نے ان صلاحیتوں اور استعدادوں کے ذریعے انجام دینے ہیں ۔ اس لئے یہ عقل و استعداد کسی مقصد کے تحت انسان کے اندر رکھی گئی ہے ۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر فرد کے اندر ایک ہی قسم کی صلاحیتیں اور استعدادیں ہوں، بلکہ کچھ لوگ حساب میں تیز ہوتے ہیں تو کچھ لوگ الجبرا میں تیز ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگ مکینیکل فیلڈ میں تیز ہوتے ہیں، تو کچھ لوگ کسی اور علم میں تیز ہوتے ہیں، ہر ایک کے اندر خدا تعالیٰ نے ایک الگ خاصیت رکھی ہے اور حدیث نبوی میں بھی ہے کہ'' کلّ میسّر لما خُلق ''

ہر ایک کے لئے وہ کام آسان ہے جس کے لئے وہ خلق ہوا ہے ۔ یعنی اﷲ تعالیٰ نے ہر ایک کو ایک خاص کام کے لئے بنایا ہے اگر وہ وہی خاص کام کرے، تو وہ کامیاب ہے ، ہمارے معاشرے میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ جس فیلڈ کے لئے ہم خلق ہوئے ہیں اس میں نہیں جاتے بلکہ کسی دوسری فیلڈ میں چلے جاتے ہیں ۔ کسی دوسرے شعبے میں چلے جاتے ہیں بہت سارے لوگ ہیں جن کو ڈاکٹر بننا چاہیے تھا وہ انجینئر بن گئے اور بہت سے جن کو انجینئر بننا چاہئے تھا وہ ڈاکٹر بن گئے اسی طرح بہت سے علماء جن کو کسی اور شعبے میں جانا چاہیے تھالیکن وہ اس شعبے میں آگئے ۔ بعض ایسے ہیں کہ جو بننا کچھ چاہتے تھے لیکن والدین نے انہیں کچھ اور بنا دیا ۔

والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری

والدین کو اولاد کی تربیت کا جوفریضہ سونپا گیا ہے وہ یہی ہے کہ بچے کی قابلیت اور استعداد کو دیکھ کر اس کے لئے راستے کا انتخاب کریں ۔ آج کل تعلیمی اداروں ، سکولوں ، کالجوں اور مدارس کا کام بچوں کو رٹے لگوانا ہے ، حالانکہ ان کا فرض بچوں کی قابلیت پہچان کر ان کی تربیت کرنا تھا تاکہ پرائمری سے لے کر ہائر ایجوکیشن تک ان کی استعداد اجاگر ہوتی جاتی ۔ تعلیمی نظام میں کچھ سٹیپس s) (Stepہیں کہ ایک مدت تک آپ نے بچے کو پڑھانا نہیں ہے ۔ بلکہ بچے کو سمجھنا ہے ، بچے کو کُریدنا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے اندر کون سی صلاحیت رکھی ہے ، اس لئے پرائمری کے ٹیچر کا کام بچے کے اندر موجود الٰہی استعدادوں کو پہچاننا ہے ۔وہ ان استعدادوں کو پہچاننے کے بعد بچے کو دوسرے استاد کے سپرد کردے ،جو اس کے اندر موجود صلاحیتوں کو پروان چڑھائے ،ان کو اجاگر کرے ،اور ان کی پرورش کرے تاکہ انسان وہ کچھ کر سکے، جس کے لئے اس کو پیدا کیاہے ۔ لیکن کچھ کام ایسے ہیں جن کے کرنے کے لئے انسان کے پاس صلاحیت تو ہے ۔ وہ اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر یہ کام کر سکتا تھا ۔ اس لئے خدا وند متعال نے یہ کام اسی کے سپرد کر دیا جیسے انسان کھیتی باڑی خود کر سکتا تھا ۔ اگر آج نہیں تو کل یہ کام کر سکتا تھا ۔ اپنی تعلیم اور استعداد و تجربے کی بنا پر انڈسٹری خود لگا سکتا تھا ۔ آخر آج اس نے یہ کام کر لیا ہے ۔ آج انسان نے انڈسٹریاں لگالی ہیں ، کھیتی باڑی سے لے کر ایٹم کے ذروں تک کو انسان نے چیر دیا ہے ۔ فضائوں اور کہکشانوں کو انسان نے مسخر کر لیا ہے ۔ یہ سب کچھ کیسے کیا ؟ یہ انہی استعدادوں کے ذریعے سے کیا جو خدا تعالیٰ نے اس انسان کے اندر رکھی ہوئی ہیں، اس لئے ہر وہ کام جو خدا کی دی ہوئی استعداد اور صلاحیت کے ذریعے انجام پائے وہ دین کے دائرے میں انجام پایا ہے ، دین سے ہٹ کر انجام نہیں پایا۔

تعلیم کی ایک غلط تقسیم

یہ سوچ غلط ہے کہ علم دین صرف وہی ہے، جو دینی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے ۔ اور جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے وہ اسلام نہیں بلکہ کفر ہے ، ایسے نہیں ہے بلکہ جوعلم مدارس میں پڑھایا جاتا ہے، وہ قولِ خدا کی تفسیر ہے اور جو یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے وہ فعلِ خدا کی تفسیر ہے یونیورسٹیوں میں جو فزکس اور کیمسٹری پڑھائی جاتی ہے وہ یہی نیچر اور طبیعت ہی ہے اور یہ نیچر اور طبیعت خدا وند متعال نے پیدا کی ہے ۔ جس خدا وندتعالیٰ نے قرآن نازل کیا، اسی خدا وندتعالیٰ نے کائنات پیدا کی ہے ، دوسرے لفظوں میں بعض انسان قرآن سمجھنے میں لگے ہوئے ہیں اور بعض خداوند تعالیٰ کی کائنات سمجھنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ اگر ان کے اس کام کا مقصد دنیا کمانا ہے تو پھر اس کا قرآن پڑھانا بھی دین شمار نہیں ہوگا ۔ کیوں کہ اس نے دنیا حاصل کرنے کے لئے یہ کام کیا ہے ۔ اس طرح اگر انسان فزکس اور کیمسٹری کے ذریعے عالم طبیعت میں غور و فکر کرتے ہوئے انسانیت کی خدمت کے لئے کسی چیز کی ایجاد تک پہنچ جاتا ہے ۔ تو یہ دین پر عمل شمار ہوگا۔

آج بلڈنگوں کے اوپر دینی مدارس کے سائن بورڈ لگا کران کے اندر دہشت گردی کی تربیت دی جار رہی ہے ، مدارس میں دینی تعلیم کی جگہ مسلمانوں کے اندر ایک دوسرے سے نفرت کا بیج بویا جا رہا ہے۔ یہ تعلیمات ہر گز دین نہیں ہیں اس لئے کہ دین کانٹے بونے کے لئے نہیں آیا بلکہ پھول اُگانے آیا ہے ۔ اور یہ پھول انہی مدارس میں اُگنے چاہییں ان کی خوشبو انہی مدارس سے آنی چاہیے تھی ۔ یہ دین کی نورانی تعلیمات کی جگہیں ہیں،ان سے نور نکلنا چاہیے تھا ان سے ایک دوسرے کے ساتھ پیار محبت اور بھائی چارے و وحدت کا پیغام نشر ہونا چاہیے تھا ۔ لیکن آج ان مدارس سے دین کا نور نہیں بلکہ نفرت کے شعلے باہر نکل رہے ہیں ، انسان جس مقصد کے لئے عمل انجام دیتاہے اسی مقصد کے ذریعے اس کا دین دار ہونا یا بے دین ہونا ظاہر ہوتا ہے۔

انبیاء کے آنے کا مقصد

خدا وند متعال نے انسان کوعقل و استعداد اس لیے دی ہے، تاکہ انسان ان استعدادوں کے ذریعے اس نقطے تک پہنچ جائیں جہاں خدا انسان کو پہنچانا چاہتا ہے ۔ انبیاء کو خدا تعالیٰ نے ان استعدادوں کو اجاگر کرنے کے لئے پیدا کیا ہے ۔ انبیاء کے آنے کا مقصد انسان کے لئے انڈسٹریاں لگانا نہیں تھا ۔ اور نہ ہی انسان کو انبیاء سے یہ توقع رکھنی چاہیے ۔ کہ اگر انبیاء انڈسٹری لگاتے تو سب سے بہترین انڈسٹری لگا سکتے تھے یا اگر زرعی فارم بناتے تو بھیڑ بکریوں کی بہترین پرورش اور زراعت کے ذریعے بہت زیادہ معاشی فائدہ اٹھا سکتے تھے ۔ لیکن انبیاء نے ایسا نہیں کیا بلکہ وہی لباس جو باقی پہنتے تھے انبیاء  بھی بازار سے خرید کر وہی پہنتے تھے ۔ اور جو خرما و روٹی سب کھاتے تھے وہی انبیاء بھی کھاتے تھے ۔ انبیاء کو خدا نے ان کاموں کے لئے خلق نہیں کیا تھا بلکہ خدا وند تعالیٰ نے انبیاء اور آئمہ معصومین کو اس لئے خلق اور منصوب کیا تاکہ وہ کام جو انسان اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کے ذریعے انجام نہیں دے سکتا اس کام کی طرف انسان کی راہنمائی کریں کیونکہ انسان کا کام کمپیوٹر بنانا یا موبائیل بنانا نہیںہے اس لئے کہ ہو سکتا ہے ، انسان سائنس و ٹیکنالوجی میں فن کی بلندی پر جا پہنچے لیکن کیایہی انسان اپنے آپ کو انسان بھی بنا سکتا ہے کہ نہیں کیوں کہ یہی انسان جو ٹیکنالوجی کا امام ہے آئیڈیالوجی کے اعتبار سے مورتی کے سامنے جھکا ہوا نظر آتا ہے ۔


source : http://www.mashrabenaab.com/urdu/user_selected_chapter_detail.asp?mn=45329772ehgrvx
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
نجف اشرف
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
اذان ومؤذن کی فضیلت
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
نیکی اور بدی کی تعریف

 
user comment