اردو
Thursday 18th of April 2024
0
نفر 0

تاریخ اسلام کو دیگر تواریخ پر فضیلت

تاریخ اسلام کو دوسری تمام اقوام کی تاریخ پر جو فوقیت حاصل ہے ہم یہاں اس کے بعض پہلو بیان کرتے ہیں:

(۱) سیرت پیغمبر اکرم اور دوسرے معصومین کی سیرت و زندگی۔

تاریخ کے بارے میں یہی مستند ترین و دقیق ترین نظریہ اور تجزیہ پیش کرتی ہے۔ اگر ہم واقعات کے بارے میں غور و فکر کریں تو اس نظریئے اور تجزیئے کی روشنی میں ہی تمام واقعات کی حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں، اور ان سے نتائج اخذ کرکے دوسروں کے لیے اسلامی و قرآنی راہ کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔

دور رسالت کی تاریخ خود پیغمبر اکرم کی طرح انسانیت کے لیے بہترین مثال اور نمونہ ہے اور تاریخی روایات کے لیے ہم اسے مفید ترین ماخذ کے طور پر بروئے کار لاسکتے ہیں۔

جزیرہ نما عرب کا محل وقوع

جزیرہ نما عرب ایشیاء کے جنوب میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں عراق، اردن، مشرق میں خلیج فارس، جنوب میں بحر عمان اور مغرب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ واقع ہے۔

اس جزیرہ نما کا رقبہ تیس لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے اور جغرافیائی اعتبار سے تین منطقوں میں تقسیم ہوتا ہے:

مرکزی حصہ صحرائے عرب کے نام سے مشہور ہے اور اس جزیرہ کا وسیع ترین علاقہ ہے۔

شمالی علاقے کا نام حجاز ہے۔ حجاز حجز سے مشتق ہے جس کے معنی حائل اور مانع ہیں۔ چونکہ یہ سرزمین نجد اور تہامہ کے درمیان واقع اور مانع ہے اسی لیے اس منطقے کو حجاز کہا جاتا ہے۔

اس جزیرہ نما کا جنوبی حصہ بحر ہند اور بحر احمر کے ساحل پر واقع ہے جس میں یمن اور ”حضر موت“ کے علاقے شامل ہیں۔

جنوبی منطقے کے علاوہ جزیرہ نما کا پورا علاقہ خشک اور بے آب صحراء ہے، مگر بعض جگہوں پر اس میں نخلستان بھی پائے جاتے ہیں۔ 

تاریخ کی تعریف

لغت کی کتابوں میں تاریخ کے معنی تعیین وقت کے ہیں ۔ ارخ الکتب وارخہ اس نے کتاب لکھنے کی تاریخ لکھی۔

(ملاحظہ فرمائیں القاموس المحیط ۲۔ تاریخ سیاسی معاصر ایران، ج۱ ص ۷،۳۔ جامعہ تاریخ)

تاریخ کے اصطلاحی معانی بیان کرتے ہوئے لوگوں نے اس کی مختلف تعریفیں کی ہیں جن میں سے چند ذیل میں درج ہیں:

""  کسی ایسے قدیم اور مشہور واقعہ کی مدت ابتداء معین کرنا، جو عہد گذشتہ میں رونما ہوا ہو اور دوسرا واقعہ اس کے بعد ظہور پذیر ہو۔ ""

"" سرذشت یا قابل ذکر ایسے اعمال و افعال نیز حادثات اور واقعات کا ذکر جنہیں زمانے کی ترتیب کے لحاظ سے منظم و مرتب کیا گیا ہو۔""

اقسام تاریخ

علم تاریخ اور اس کے اقسام و خصوصیات سے جو فوائد مرتب ہوتے ہیں ان کے بارے میں بہت زیادہ بحث کی جا چکی ہے۔

استاد شہید مرتضیٰ مطہری نے علم تاریخ کی تین قسمیں بیان کی ہیں:

(۱) بیانیہ

عہد حاضر کی وضع و کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ واقعات و حادثات اور عہد ماضی کے انسانوں کی حالت اور کیفیت بیان کرنا۔

اس میں سوانح عمری، فتح نامے اور سیرت کی وہ کتابیں شامل ہیں جو تمام اقوام میں لکھی گئی ہیں اور اب بھی لکھی جا رہی ہیں۔

بیانیہ تاریخ کی خصوصیات

(الف) یہ تاریخ جزئی ہوئی ہے، مجموعی اور کلی نہیں۔

(ب) یہ محض منقول ہے اور اس میں عقل و منطق کا داخل نہیں ہوتا۔

(ج) ان واقعات کا علم جو وقوع پذیر ہو چکے، نہ کہ آئندہ ہوں گے۔

(د)ان واقعات کا تعلق ماضی سے ہوتا ہے حال سے نہیں۔

(۲) تاریخ علمی

ان آداب و رسوم کا علم جن کا رواج عہد ماضی کے انسانوں میں تھا اور یہ علم ان واقعات و حواثات کے مطالعے سے حاصل ہوتا ہے جو گزر چکے ہیں۔

(۳) فلسفہٴ تاریخ

وہ علم ہے کہ جس کے ذریعے انسانی معاشروں میں ارتقاء کے ذریعہ تبدیلی واقع ہوئی اور وہ کس طرح ایک مرحلے سے گزر کر دوسرے مرحلے تک پہنچے اور اس ارتقاء پذیر حالت کے وقت ان میں کون سے قوانین کارفرما ہیں۔

یہاں اس بات کو مدنظر رکھا گیا ہے کہ سب سے پہلے ان واقعات کو بیان کیا جائے جو پیغمبر اکرم حضرت محمد (ص) کی رسالت کے دوران رونما ہوئے اور اس کے ساتھ ہی ان کا تجزیہ بھی کیا جائے اس کے بعد دیگر مراحل میں ان واقعات سے پند و نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ ان سے نتائج اخذ کرکے ان سے مجموعی قواعد مرتب کیے جائیں اور انہیں انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بروئے کار لایا جائے، بالخصوص اس بات کے پیش نظر کہ ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ درحقیقت وہ منطقی سلسلہٴ تاریخ ہے جس کا آغاز دوران رسالت و خلافت سے ہوتا ہے۔ چنانچہ ہمیں اس انقلاب میں ایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس عہد میں بھی ہم ان واقعات سے دوچار ہوتے ہیں، جو اب سے قبل صدر اسلام میں رونما ہوئے تھے۔

بیانیہ تاریخ کی اصل حقیقت

علمی اور بیانیہ تاریخ کی تشکیل چونکہ ان واقعات کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے جو عہد ماضی میں گزر چکے ہیں اس لیے محققین یہ طے نہ کرسکے کہ یہ واقعات کس حد تک معتبر یا غیر معتبر ہوسکتے ہیں۔

بعض محققین کی رائے یہ ہے کہ قدماء کی کتابوں میں بیانیہ تاریخ سے متعلق جو کچھ درج کیا گیا ہے اسے بیان اور قلمبند کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے واقعات کو اغراض کی بنیاد، شخصی محرکات، قوت تعصبات یا اجتماعی و عقیدتی وابستگی کی بنیاد پر نقل کیا ہے اور اس میں تصرف و تحریف کرکے واقعات کو اپنی منشاء کے مطابق پیش کیا ہے یا انہوں نے واقعات کو اس طرح لکھا ہے جس سے ان کے اغراض و مقاصد پورے ہوتے تھے اور ان کے عقائد کے منافی بھی نہیں تھے۔

بیانیہ تاریخ کے بارے میں یہ بدبینی بے سبب نہیں ہے، بلکہ اس کا سرچشمہ تاریخ کی کتابوں کی کیفیت اور مورخین کے مزاج کو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود تاریخ بھی دیگر علوم کی طرح مسلمہ حقائق و واقعات پر مبنی ایک سلسلہ ہے اس کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ ایک محقق شواہد و قرائن کی بنیاد اور اپنی اجتہادی قوت کے ذریعہ سراغ لگا سکتا ہے کہ حوادث و واقعات میں کس حد تک صحت و سقم ہے اور انہی کی اساس پر وہ بعض نتائج اخذ کرسکتا ہے۔

تاریخ اسلام کی اہمیت اور قدر و قیمت

جن مسلم اور غیر مسلم محققین اور دانشوروں نے تاریخ خصوصاً تاریخ اسلام اور سیرت النبی کے بارے میں تحقیق کی ہے انہوں نے اس کی اہمیت کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے کر اس کی قدر و قیمت کا اعتراف کیا ہے۔

تاریخ کی اہمیت قرآن کی نظر میں

قرآن کی نظر میں تاریخ حصول علم و دانش اور انسانوں کے لیے غور و فکر کے دیگر ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے۔ قرآن نے انسانوں کو غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے غور و فکر کے منابع بھی ان کے سامنے پیش کیے ہیں۔

قرآن نے مختلف آیات میں انسانوں کو یہ دعوت دی ہے کہ وہ گزشتہ اقوام کی زندگی کا مطالعہ کریں۔ ان کی زندگی کے مفید نکات پیش کرنے کے بعد انہیں یہ دعوت دی کہ وہ باصلاحیت افراد کو اپنا ہادی و رہنما بنائیں اور ان کی زندگی کو اپنے لیے نمونہ سمجھیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے:

قد کان لکم اسوة حسنة فی ابراھیم والذین معہ

”تم لوگوں کے لیے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے۔“

اسی طرح رسول اکرم کے بارے میں قرآن فرماتا ہے:

لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة

”درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے۔“

حدیث و سنت نبوی اور آئمہ کی رفتار و گفتار امت مسلمہ کے لیے حجت قاطع اور سند محکم ہیں۔ سیرت نبوی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ہمارا اخلاق و کردار نبی کی سیرت کے مطابق ہونا چاہیے جب کہ دیگر تواریخ میں اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔

تاریخ اسلام

تاریخ کے جتنے بھی منابع و ماخذ موجود ہیں ان میں تاریخ اسلام سب سے زیادہ معلومات سے لبریز اور مالا مال ہے چنانچہ جب کوئی محقق تاریخ اسلام لکھنا شروع کرتا ہے اور اسے تاریخی واقعات وافر مقدار میں بصورت دقیق مل جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ اسلام میں جس قدر مستند و باریک نیز روشن نکات موجود ہیں وہ دیگر تواریخ میں نظر نہیں آتے۔

ان خصوصیات کا سرچشمہ سیرت اور سنت رسول ہے اور یہ مسلمانوں کے لیے قطعی حجت و دلیل ہے چنانچہ وہ انہی کی پیروی کرتے ہیں۔

تاریخ اسلام کے بارے میں استاد مطہری رقم طراز ہیں

پیغمبر اسلام اور مذہب اسلام کو دیگر مذاہب پر فوقیت حاصل ہے، کیونکہ آپ کی تاریخ روشن و مستند ہے۔ اس اعتبار سے دنیا کے دیگر رہبر و راہنما ہماری برابری نہیں کرسکتے چنانچہ پیغمبر اکرم کی زندگی کی دقیق باتیں اور اس کے جزئیات آج بھی ہمارے پاس قطعی اور مسلم طور پر موجود و محفوظ ہیں۔ آپ کا سال ولادت ماہ ولادت روز ولادت یہاں تک کہ ہفتہ ولادت بھی تاریخ کے سینے میں درج ہے۔ دوران شیرخوارگی، وہ زمانہ جو آپ نے صحرا  میں بسر کیا، وہ دور جب آپ سن بلوغ کو پہنچے، وہ سفر جو آپ نے ملک عرب سے باہر کیے، وہ مشاغل جو آپ نے مبعوث بہ رسالت ہونے سے پہلے انجام دیئے ہیں وہ ہمیں بخوبی معلوم ہیں۔ آپ نے کس سال شادی کی اور اس وقت آپ کا سن مبارک کیا تھا؟ آپ کی ازواج کے بطن سے کتنے بچوں نے ولادت پائی اور کتنے بچے آپ کی رحلت سے قبل اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ وفات کے وقت آپ کی کیا عمر تھی؟ یہ واقعات مبعوث برسالت ہونے کے وقت تک ہیں، اس کے بعد کے واقعات اور دقیق ہو جاتے ہیں۔ تفویض رسالت، جیسا عظیم واقعہ کب پیش آیا وہ پہلا شخص کون تھا جو مسلمان ہوا، اس کے بعد کون شخص مشرف بہ اسلام ہوا۔ آپ کی لوگوں سے کیا گفتگو ہوئی؟ آپ نے کیا کارنامے انجام دیئے اور کیا راہ و روش اختیار کی سب دقیق طور پر روشن و عیاں ہیں۔

سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پیغمبر اکرم کی تاریخ میں زمانہٴ ”وحی“ کے دوران تحقیق ثبت کی گئی۔ تئیس سالہ عہد نبوت کا ہر واقعہ وحی آسمان کے نور سے منور ہوا، اور اس کی روشنی میں اس کا تجزیہ کیا گیا، قرآن مجید میں جو واقعات درج ہیں ان میں اکثر و بیشتر وہی مسائل و واقعات ہیں جو عہد نبوت کے دوران پیش آئے۔ ہر وہ واقعہ جسے قرآن نے بیان کیا ہے بے شک وہ خداوند عالم الغیب والشہادہ نے ہی بیان کیا ہے۔ قرآن کی رو سے تاریخ بشر اور اس کا ارتقاء اصول و ضوابط کی بنیاد کے سلسلے پر قائم ہے، عزت و ذلت، کامیابی و ناکامی فتح و شکست اور بدبختی و خوش نصیبی کے واقعات دقیق و منظم حساب کے مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ان اصول و ضوابط اور قوانین کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تاریخ کو سمجھا جائے۔ اور اس کے ذریعے اپنی ذات نیز معاشرے کو فائدہ پہنچایا جائے۔ یہاں مثال کے طور پر یہ آیت پیش کی جاسکتی ہے:

قد خلت من قبلکم سنن فسیروا فی الارض فانظر واکیف … 

”تم سے پہلے بہت سے دور گزر چکے ہیں، زمین میں چل پھر کر دیکھ لو ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جنہوں نے اللہ کے احکامات اور ہدایات کو جھٹلایا۔“

تاریخ کی اہمیت نہج البلاغہ کی روشنی میں

قرآن کے علاوہ معصومین علیھم السلام کے پیشوا حضرت علی علیہ السلام نے بھی اپنے اقوال میں اس عظیم اور علم و دانش کے وسیع سرچشمے کی قدر و قیمت کی جانب اشارہ فرمایا ہے چنانچہ اس سلسلہ میں آپ کے ارشادات عالیہ میں سے نہج البلاغہ کے اس قول کو نقل کیا جاسکتا ہے:

یابنی! انی وان لم اکن عمر من کان قبلی فقد نظرت فی اعمالھم وفکرت فی اخبارھم و رت فی اثارھم حتی عدت کاحدھم بل کانی بما انتہی الی من امورھم قد عمرت مع اولھم الی آخر ھم فعرفت صنعوا ذالک من کدرہ و نفعہ من ضررہ

”اے میرے بیٹے! میری عمر ہر چند اتنی طویل نہیں جتنی گزشتہ دور کے لوگوں کی رہی ہے لیکن میں نے ان کے کاموں کو دیکھا، ان کے واقعات پر غور کیا، ان کے جو آثار باقی رہ گئے تھے ان میں تلاش و جستجو کی یہاں تک کہ میں بھی ان جیسا بن گیا بلکہ ان کے جو اعمال و افعال مجھ تک پہنچے میں نے گویا ان کے ساتھ اوّل تا آخر زندگی بسر کی، اس کے بعد ہی میں نے ان کے کردار کی پاکیزگی و خوبی کو برائی اور تیرگی سے علیحدہ کرکے نفع و نقصان کو پہنچانا۔“

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا یہ بیان اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام کس حد تک عہد گزشتہ کی تاریخ کو اہمیت دیتے تھے۔

غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں تاریخ اسلام کی اہمیت

عیسائی دانشور ادیب جرجی زیدان رقمطراز ہے:

اس میں شک نہیں کہ تاریخ اسلام کا شمار دنیا کی اہم ترین تواریخ عامہ میں ہوتا ہے، کیونکہ مذکورہ تاریخ نے قرون وسطیٰ سے متعلق پوری دنیا کی تاریخ تمدن کا احاطہ کرلیا ہے۔

بالفاظ دیگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ اسلام زنجیر کی وہ کڑی ہے جس نے دنیائے قدیم کی تاریخ کو جدید تاریخ سے متصل کیا ہے۔ یہ تاریخ اسلام ہے جس سے جدید تمدن کا آغاز اور قدیم تمدن کا اختتام ہوتا ہے۔

تاریخ اسلام کو دیگر تواریخ پر فضیلت

تاریخ اسلام کو دوسری تمام اقوام کی تاریخ پر جو فوقیت حاصل ہے ہم یہاں اس کے بعض پہلو بیان کرتے ہیں:

(۱) سیرت پیغمبر اکرم اور دوسرے معصومین کی سیرت و زندگی۔

تاریخ کے بارے میں یہی مستند ترین و دقیق ترین نظریہ اور تجزیہ پیش کرتی ہے۔ اگر ہم واقعات کے بارے میں غور و فکر کریں تو اس نظریئے اور تجزیئے کی روشنی میں ہی تمام واقعات کی حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں، اور ان سے نتائج اخذ کرکے دوسروں کے لیے اسلامی و قرآنی راہ کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔

دور رسالت کی تاریخ خود پیغمبر اکرم کی طرح انسانیت کے لیے بہترین مثال اور نمونہ ہے اور تاریخی روایات کے لیے ہم اسے مفید ترین ماخذ کے طور پر بروئے کار لاسکتے ہیں۔

واقعہ قرطاس

حجۃ الوداع سے واپسی پربمقام غدیرخم اپنی جانشینی کااعلان کرچکے تھے اب آخری وقت میں آپ نے یہ ضروری سمجھتے ہوئے کہ اسے دستاویزی شکل دیدوں اصحاب سے کہاکہ مجھے قلم ودوات اورکاغذ دیدو تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جوتمہیں گمراہی سے ہمیشہ ہمیشہ بچانے کے لیے کافی ہو یہ سن کر اصحاب میں باہمی چہ می گوئیاں ہونے لگیں لوگوں کے رحجانات قلم ودوات دے دینے کی طرف دیکھ کر حضرت عمرنے کہا ”ان الرجل لیھجرحسبناکتاب اللہ“ یہ مرد ہذیان بک رہاہے ہمارے لیے کتاب خداکافی ہے صحیح بخاری پ ۳۰ ص ۸۴۲ علامہ شبلی لکھتے ہیں روایت میں ہجرکالفظ ہے جس کے معنی ہذیان کے ہیں ۔۔۔۔

حضرت عمرنے آنحضرت کے اس ارشادکو ہذیان سے تعبیرکیاتھا(الفاروق ص ۶۱) لغت میں ہذیان کے معنی بیہودہ گفتن یعنی بکواس کے ہیں(صراح جلد ۲ ص ۱۲۳)

 شمس العلماء مولوی نذیراحمددہلوی لکھتے ہیں ”جن کے دل میں تمنائے خلافت چٹکیاں لے رہی تھی انہوں نے تودھینگامستی سے منصوبہ ہی چٹکیوں میں اڑادیا اورمزاحمت کی یہ تاویل کی کہ ہمارے ہدایت کے لیے قرآن بس کرتاہے اورچونکہ اس وقت پیغمبرصاحب کے حواس برجانہیں ہیں۔

کاغذ،قلم ودوات کالانا کچھ ضروری نہیں خداجانے کیاکیالکھوادیں گے ۔ (امہات الامہ صفحہ ۹۲) اس واقعہ سے آنحضرت کوسخت صدمہ ہوا اورآپ نے جھنجلاکر فرمایاقومواعنی میرے پاس سے ہٹ اٹھ کرچلے جاؤ نبی کے روبروشوروغل انسانی ادب نہیں ہے علامہ طریحی لکھتے ہیں کہ خانہ کعبہ میں پانچ افراد نے حضرت ابوبکر،حضرت عمر،ابوعبیدہ ،عبدالرحمن ،سالم غلام حذیفہ نے متفقہ عہدوپیمان کیاتھا کہ ”لانودہذہ الامرفی بنی ہاشم“ پیغمبرکے بعدخلافت بنی ہاشم میں نہ جانے دیں گے (مجمع البحرین) میں کہتاہوں کہ کون یقین کرسکتاہے کہ جیش اسامہ میں رسول سے سرتابی کرنے والوں جس میں لعنت تک کی گئی ہے اورواقعہ قرطاس میں حکم کوبکواس بتلانے والوں کورسول خدانے نمازکی امامت کاحکم دیدیاہوگا میرے نزدیک امامت نمازکی حدیث ناقابل قبول ہے۔

سرورکائنات حضرت محمد مصطفی (ص)کی زندگی کے آخری لمحات

حجۃ الوداع سے واپسی کے بعد آپ کی وہ علالت جوبروایت مشکواۃخیبرمیں دئے ہوئے زہرکے کروٹ لینے سے ابھراکرتی تھی مستمرہوگئی آپ علیل رہنے لگے بیماری کی خبرکے عام ہوتے ہی جھوٹے مدعی نبوت پیداہونے لگے جن میں مسیلمہ کذاب ،اسودعنسی، طلیحہ، سجاح زیادہ نمایاں تھے لیکن خدانے انہیں ذلیل کیا اسی دوران میں آپ کواطلاع ملی کہ حکومت روم مسلمانوں کوتباہ کرنے کامنصوبہ تیارکررہی ہے آپ نے اس خطرہ کے پیش نظرکہ کہیں وہ حملہ نہ کردیں اسامہ بن زیدکی سرکردگی میں ایک لشکربھیجنے کافیصلہ کیا اورحکم دیاکہ علی کے علاوہ اعیان مہاجروانصارمیں سے کوئی بھی مدینہ میں نہ رہے اوراس روانگی پراتنا زور دیاکہ یہ تک فرمایا”لعن اللہ من تخلف عنہا“ جواس جنگ میں نہ جائے گااس پرخداکی لعنت ہوگی اس کے بعدآنحضرت نے اسامہ کواپنے ہاتھوں سے تیار کرکے روانہ کیا انہوں نے تین میل کے فاصلہ پرمقام جرف میں کیمپ لگایااوراعیان صحابہ کاانتظارکرنے لگے لیکن وہ لوگ نہ آئے ۔ مدارج النبوت جلد ۲ ص ۴۸۸ وتاریخ کامل جلد ۲ ص ۱۲۰ وطبری جلد ۳ ص ۱۸۸ میں ہے کہ نہ جانے والوں میں حضرت ابوبکروحضرت عمربھی تھے ۔ مدارج النبوت جلد ۲ ص ۴۹۴ میں ہے کہ آخرصفرمیں جب کہ آپ کوشدیددردسرتھا آپ رات کے وقت اہل بقیع کے لئے دعاکی خاطر تشریف لے گئے حضرت عائشہ نے سمجھاکہ میری باری میں کسی اوربیوی کے وہاں چلے گئے ہیں ۔ اس پروہ تلاش کے لیے نکلیں توآپ کوبقیع میں محودعاپایا۔

اسی سلسہ میں آپ نے فرمایاکیااچھاہوتا ائے عائشہ کہ تم مجھ سے پہلے مرجاتیں اورمیں تمہاری اچھی طرح تجہیزوتکفین کرتا انہوں نے جواب دیاکہ آپ چاہتے ہیں میں مرجاؤں توآپ دوسری شادی کرلیں۔ اسی کتاب کے ص ۴۹۵ میں ہے کہ آنحضرت کی تیمارداری آپ کے اہل بیت کرتے تھے۔

ایک روایت میں ہے کہ اہل بیت کوتیمارداری میں پیچھے رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔

 

 

 

 


source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=4102
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

آسيہ
جنت البقیع کا تاریخی تعارف
عمار بن یاسر کے اشعار کیا تھے؟
مشرکینِ مکہ کی مکاریاں
واقعہ فدک
تاریخ اسلام کو دیگر تواریخ پر فضیلت
گروہ ناکثین (بیعت شکن)
ساتواں سبق
بنی نجار میں ایک عورت
جناب ابو طالب(ع) نیک خصال جوانمرد

 
user comment