اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

اسلام کا نظام عدل

 

دنیا کے معاشرتی نظام چلانے اور انسانوں کو مہذب بنانے کے لیۓ قوانین کی ضرورت پڑتی ہے ۔ قوانیین کا بنا دینا  اور لاگو کر دینا ہی کافی نہیں ہوتا ہے بلکہ  ایک کامیاب ملک اور معاشرے کو چلانے کے لیۓ ضروری ہے کہ قوانین  پر سختی سے عمل درآمد ہو ۔ امن وامان کو برقرار رکھنے کے لیے،توازن اور معتدل زندگی گزارنے کے لیے نظام عدل کا قیام انتہائی ناگزیر ہے-عدل چاہے انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی جگہ پر،ہر جگہ اپنی مستقل حیثیت رکھتا ہے- کسی بھی ملک یا معاشرے سے عدل کو ختم کر دیا جائے تو اس کی بقاء خطرے میں پڑ جاتی ہے اور وہ معاشرہ اندرونی بدامنی اور انتشار کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے ۔

دنیا میں لوگوں نے انصاف کو قائم کرنے کے لیے مختلف نظام ہائے عدالت اور قوانین کو وضع کیا لیکن ہر قانون میں کسی نہ کسی طرح رواداری،یکطرفہ معاملہ اور مجرم کے نکلنے کے راستے موجود ہیں جبکہ اسلامی نظام عدالت میں امیر و غریب،بادشاہ و فقیر،عام وخاص،حاکم و رعایا غرضیکہ ہر فرد قانونی اعتبار سے برابر ہے اور اس پر قانون کے لاگو ہونے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی اور تاریخ اسلام میں اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں اور ان میں سے انتہائی مشہور ترین واقعہ جب قریش خاندان کی عورت فاطمہ نامی عورت نے چوری کی تو اسامہ بن زید نے لوگوں کے کہنے پر اس کی سفارش کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے فرمایا: لو أن فاطمۃ بنت محمد سرقت لقطعت یدھا(اگر فاطمہ بنت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم) بھی چوری کرتی تو میں (محمد)اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا-

امام علی معلم عدالت                                                                                                                                                          امام  کے خطبوں، خطوط ا وراپنے عمال نیزمددگاروں کو دئے گئے فرامین میں ہمیشہ رعایا کی ایک ایک فرد کیساتھ عدل سے پیش آنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ مالک اشترکے عہد نامے میں آیا ہے ۔(تمہاری نظرمیں سب سے پسندیدہ کام وہ ہونا چاہئے جو زیادہ ترحق کی شاہراہ پرہو اس کا عدل عمومی ہو اوراس میں رعایا کی خوشنودی زیادہ سے زیادہ شامل ہو۔ اسی عہدنامہ کے ایک دوسرے حصے میں امام فرماتے ہیں۔ بلاشبہ حکام اور والیوں کی آنکھوں کا بہتریں نورملکی سطح پرعدالت کا قیام اورقوم کے دلوں کواپنی طرف جذب کرنا ہے اوررعایا کے دلوں کی سلامتی کے بغیران کی محبت ظاہرنہیں ہوسکتی اوران کی خیرخواہی اسی صورت میں ثابت ہوتی ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کے گرد حفاظت کیلے گھیرا ڈالے رہیں اوران کے اقتدارکو اپنے سرپربوجھ نہ سمجھے اوران کی حکومت کے خاتمے کیلئے گھڑیانہ گنیں لہذا(آپ )ان کی امیدوں میں وسعت رکھنا انہیں اچھے لفظوں سے سراہتے رہنا اوران میں سے اچھی کارکردگی رکھنے والوں کے کارناموں کا تذکرہ کرتے رہنا ۔ ک یوں کہ ان کے اچھے کارناموں کا ذکر بہادروں کو جوش میں لاتا ہے اورپست ہمتوں کوابھارتا ہے انشأ۔۔۔۔                                                 اگرملک کے ذمہ دارافراد قوم کے سلسلے میں عدل کی روش اختیارکریں تو دل ان کی طرف راغب ہوں گے اوردلوں میں پڑنے والی گرہیں کھل جائیں گی یہ بات حکومت اورنظام اسلامی کے سربراہوں کے استحکام  اورپائیداری اورقوم سے ان کے محکم اوراستوار روابط کی ضامن ہے ،اوردوسری طرف اجتماعی عدالت کو بنیادی محوربنانا افراد قوم کی صلاحیتوں میں اضافہ اورقوم میں امید کی کرن کو اجاگر کرنے کا عامل ہے جب لوگ مطمئن ہوں گے کہ حق وعدالت کے علاوہ کسی اورچیزکو محور قرارنہیں دیا گیا ہے تواپنی تمناؤں اورآرزؤں تک پہنچنے کیلئے منطقی را ہ اختیارکریں گے جب کہ عدالت سے مایوسی انسان کوبدسلوکی ، رشوت خوری ،اورخلاف کاری پرمائل کردے گی۔  نتیجے میں حکومت کے کام بگڑنے لگیں گے اور معاشرے میں اخلاق اورجذبہ تحرک کو ضرب لگے گی۔ امام عالی مقام (ع نے اسلامی نظام کیلئے اس سرنوشت کو ایک پیش گوئی شد ہ دردناک حادثہ کے عنوان سے یاد کیا ہے آپ مدینے میں بیعت کے بعد اپنے ایک خطبے میں اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ  فرماتے ہیں: (اس ذات کی قسم جس نے رسول(ص) کوحق وصداقت کے ساتھ بھیجا تم اسطرح تہ وبالا کیے جاؤ گے کہ تمھارے ادنی اعلی ہوجائیں گے اورجو پیچھے رہتے تھے آگے بڑھ جائیں گے اورجو ہمیشہ آگے رہتے تھے وہ پیچھے چلے جائیں گے۔                                                        امام کا نورانی کلام اس ظالمانہ دگر گونیوں کی عکاسی کررہا ہے جو قاعدوں؛ صلاحیتوں اورعدالت کی بنیاد پر نہیں بلکہ جوڑ توڑ اورتعلقات کی بنیاد پر معاشرہ پرتسلط ہو جاتی ہیں جو لوگ اسلام کا لیبل لگاۓ پھرتے ہیں وہ اسلام کے سچے سپوتوں سے بھی آگے بڑھتے جاتے ہیں اور جو اسلام کے حقیقی فرزند ہیں میدان سے باہر ہوجاتے ہیں اور یہ بہت بڑا المیہ ہے جو ایک اجتماعی انقلاب اورالہی تحریک کیلئے خطرناک ثابت ہوتا ہے،اسلامی تاریخ میں حکومتوں اورسلطنتوں کی روش اسی نہج اور انداز پر رہی کہ جس کے آثاراورنتایج کو ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔                                                                                            میدان تاریخ میں امیرالمومنین علیہ السلام واحد سیاستداں ہے کہ جسکی حکومت کی بنیاد عدالت پرقایم تھی یہ حکومت اگرچہ مختصرتھی لیکن رہتی دنیا تک کیلیے نمونہ ہے امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت کا دا ئیرہ فقط انسانوں کی حد تک محدود نہیںتھا بلکہ اسکی شعاع انسانی زندگی کے دایرے سے نکل کر تمام حیوانات ؛جمادات تک کو گھیرے ہوۓ ہے؛امام عالی مقام (ع) کے چہار سالہ دور حکومت میں عدل کی کرنیں اسقدر پھیلی ہوی ہیں کہ تمام مخلوقات کو احاطہ کیے ہوۓ  ہے۔                                                                                                                                                                                                ہاں امیرالمومنین وہ واحد ہستی ہے کہ جس نے عدالت کی راہ میں اپنی جان تک کی قربانی دیتے ہوۓ  جام شہادت نوش فرمایا اور ا ۤپکے سرسخت دشمن تک کو یہ کہنا پڑا( قُتِلَ عَلِیٌ لِشِدَّۃِعَدْلِہِ) یعنی علی(ع) شدت عدالت کی وجہ سے شہید ہوۓ ۔                                                                                                  آخر میں ہماری دعا ہے کہ ہمیں بھی اس امام عادل کی راہ پر گامزن ہوتے ہوۓاپنی زندگی میں عدالت کو اپنانے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین ثم آ مین    

عدالت علوی                                                                                                                   مسیحی مصنف جارج جرداق اپنی کتاب ” الام علی(ع) صوت عدالة الانسانیة “ (امام علی عدالت انسانی کی آواز ) میں لکھتا ھے کہ انسانی معاشرہ میں واحد لیڈر علی بن ابی طالب (ع) ھیں جنھوں نے انسانیت اور عدالت کی بنیاد پر بیت المال کی تقسیم کی ھے۔ جب آپ (ع) نے اھل کوفہ سے سوال کیا کہ کیا تم میں کوئی ایسا ھے جو بھوکا ھو تو سب نے کھا  یا علی ! آپ حاکم ھیں، اب یھاں کوئی بھوکا نھیں ھے ۔ سوال کیا کوئی ھے جس کے پاس لباس نہ ھو ؟ سب نے کھا  یا علی ! اب سب کے پاس لباس ھے ۔ سوال کیا کوئی ھے جس کے پاس مکان نہ ھو ؟ سب نے کھا  یا علی ! سب کے پاس مکان ھے ۔ امام علی (ع) نے عدالت کا جو نمونہ پیش کیا اسے دیکہ کر دنیا آج تک حیرت زدہ ھے ۔جارج جرداق اس واقعہ کا بھی ذکر کرتا ھے جب امام علی (ع) نے ایک بوڑھے یھودی کو کوفہ میں بھیک مانگتے ھوئے دیکھا تھا ۔ امام نے سوال کیا کہ یہ میری حکومت میں بھیک کیوں مانگ رھا ھے ۔ اس نے کھا  یا علی ! کل تک مجھ میں قوت تھی ، میں کام کرتا تھا لیکن اب مجھ میں قوت نھیں رھی ۔ امام نے فرمایا  اس کی تمام ضرورتوں کو بیت المال کے ذریعہ پورا کیا جائے اور اسے ماھانہ وظیفہ دیا جائے ۔ کسی نے کھا  یا علی !یہ یھودی ھے ۔ آپ نے فرمایا  یہ ایک انسان ھے جب تک اس کے جسم میں قوت تھی اس نے معاشرے کی خدمت کی ھے ۔ اب حکومت کی ذمہ داری ھے کہ اس کی ضرورتوں کو پورا کرے ۔ یہ علی بن ابی طالب(ع) ھیں جنھوں نے انسانی بنیادوں پر تقسیم اموال کی ھے ۔ یہ عدالت انسانی کی آواز ھے اور عدالت کے حدود عالمی حدود ھیں ۔ اس پر غور و فکر ھونا چاھئے ،اس پر گفتگو اور کام ھونا چاھئے ۔ ھم دیکھیں کہ ھمارے گھر میں ، ھمارے محلّے میں ، ھمارے شھرمیں کھاں پر بے انصافی ھو رھی ھے اور وھاں پر عدالت کے لئے کام کریں اور اگر ایسا کر لیا گیا تو آپ کے ساتھ ھر ایک ھو گا ۔2

متعلقہ تحریریں:

 افق زندگی میں فروغ محبت

  گناہوں سے آلودہ معاشرہ

تحریر: محمد علی جوہری مدرسہ حجتیہ

 


source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=73562
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت آدم ﴿ع﴾ پر سب سے پہلے سجدہ کرنے والے فرشتہ ...
خود شناسی(پہلی قسط)
قرآن کی حفاظت
جھاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
سیاست علوی
قرآن مجید و ازدواج
عید سعید فطر
شب قدر ایک تقدیر ساز رات
آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی

 
user comment