اردو
Tuesday 16th of April 2024
0
نفر 0

عظمت دوجہاں محمد اور انسانی حقوق

 

موجودہ انسانی مصائب سےنجات ملنےکی واحد صورت یہی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   اس دنیا کےحکمران (رہنما) بنیں ۔ یہ مشہور مغربی محقق و مفکر جارج برناڈشاہ کا قول ہےاور یہ نبی اکرم کی ذات والاصفات کےبارے میں غیر متعصب اور غیر مسلم محققین اور مفکرین کی بےشمار آراء میں سے ایک ہے ۔ جارج برناڈ شاو ان لوگوں میں سے ہیں جو نبی اکرم  (ص) کی نبوت پر ایمان نہیں  لائے پھر بھی وہ آپ کی عظمت کو تسلیم کرتا دکھائی دیتا ہے۔ آپ کی سچائی اور صداقت کا اعتراف صرف عرب تک محدود نہیں  رہا بلکہ ساری دنیا کےدانشور اور مفکر جو اسلام کے ماننےوالےبھی نہیں  ہیں وہ بھی حضور کی عظمت و رفعت کا برملا اعتراف اور آپ کی عمدہ تعریف پر مجبور ہیں ، کارلائل ، نپولین ، رائٹر ، ٹالسائی ، گوئٹے، لینن پول اور دیگر بےشمار ہندو دانشور آپ کی شان میں رطب اللسانہیں، غیر مسلم دانشوروں کو مختلف آفاقی اور الہامی وغیر الہامی ، مذہبی تعصب کےباوجود وہ پیغمبر اسلام کو تمام پیغمبروں اور مسلمین میں کامیاب ترین پیغمبر اور مصلح تسلیم کرنا اور انسان کامل ماننا ہے۔ یہ ہےعظمت رسول کا ایک پہلو۔

آپ کا نام مبارک اور ان کی تعریف کا ذکر نہ صرف قرآن حکیم میں ہے بلکہ تمام آسمانی کتابوں میں بھی آپ کا تذکرہ آیا ہے۔               ہم مسلمانوں کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی عظمت و صفت ، حرمت و تقدس ، رفعت وناموس کےخلاف کسی بھی قسم کا سمجھو تہ یا چپ سادہ لینا تو دور کی بات ہے بلکہ حقیقت حال یہ ہے کہ آپ کی شان کے خلاف سوچ کا ایک لمحہ بھی ہماری دینی حمیت و غیرت کےمنافی ہونے کے ساتھ ساتھ کسی مسلمان کا دائرہ کفر اور ارتداد میں داخلہ کےلیےکافی ہوتا ہے۔ ہمارےعقیدے اور ایمان کےمطابق ایسا کوئی بھی شخص خواہ وہ کتنا ہی متقی اور پرہیز گار مسلمان ہی کیوں نہ ہو اور اندہ درگاہ رب العالمین اور ہمیشہ کےلیےجہنم کا ایندھن بننے کا سزاوار ٹھہرتا ہےاور ہم مسلمانوں کےنزدیک نبی اکرم کی ذات مبارکہ ہمارےایمان و عقیدہ کی پہلی بنیادی اساس ہونےکےساتھ ساتھ بعد از بزرگ توئی کا نعرہ حق و صداقت ہے یہ ہے دوسرا پہلو۔

سوال پیدا ہوتا ہےکہ کیا حقوق انسانی یا آزادی صحافت کی آڑ میں عالمی سطح پر معتبر تسلیم شدہ ہستی ، بے داغ کردار والی شخصیت اور انسان کامل کا سوقیانہ انداز میں ذکر اور کسی بھی استہزائی پیرائےسے اس پر اظہار خیال کیا جا سکتا ہے؟

 اور کیا کسی ایسی قبیح حرکت کو محض چند خود حیض وضع کردہ نام نہاد اصطلاحوں کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے؟ بالخصوص ایسی صورت میں آپ کے ہر مذہب و فکر و نظریہ کےغیر متعصب عالمی دانشور اس شخصیت کو انسانیت کا نجات دہندہ ، بہترین انسان اور رہنما تسلیم کرنے میں ہچکچاتے نہ ہوں اور ایسی شخصیت نبی کی ہو، ارب ہا انسان اس کے پیروکار ہوں اور جو اس ذات گرامی سےغیرمشروط وابستگی ، عشق اور شیفتگی رکھتے ہوں اور حقیقت بھی یہی ہےکہ تاجدار ختم نبوت کی غلامی اور ان کی حرمت و ناموس پر کٹ مرنا ہر مسلمان کی زندگی کی سب سےبڑی آرزو ہے، وہ حضور کےنام اور ناموس پر مر مٹنےاور اس کی خاطر دنیا کی ہر چیز قربان کرنےکو اپنی زندگی کا ماحاصل سمجھتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہےکہ مسلمان ملکوں کی عدالتوں نےشاتم رسول کو سزائےموت کا فیصلہ سنایا اور جن ملکوں میں مسلمانوں کی حکومت نہیں  وہاں مسلمانوں نےرائج الوقت قانون کی پرواہ کیےبغیر گستاخان رسول کو کیفر کردار تک پہنچایا اور خود ہنستےمسکراتے تختہ دار پر چڑھ گئی۔                                                  پیغمبر اسلام، ایک ہمہ گیر اور جامع الصفات شخصیت

پیغمبر ختمی المرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت ایسی ہمہ گیر اور جامع شخصیت ہے کہ اس کے تمام پہلؤں کا احاطہ ناممکن ہے، ہر شخص اور محقق اپنی استعداد کے مطابق اس بحر مواج میں غوطہ زن ہو کر معرفت کے گوہر حاصل کرتا ہے، قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مختلف مواقع پر اپنی تقاریر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات والا صفات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی، تقاریر کے متعلقہ اقتباسات پیش نظر ہیں۔

 الف :امت اسلامیہ کی یکجہتی کا محور:

پیغمبر اسلام (ص)کی شخصیت عالم خلقت کا نقطہ کمال اور عظمتوں کی معراج ہے۔ خواہ کمالات کے وہ پہلو ہوں جو انسان کےلئے قابل فہم ہیں جیسے انسانی عظمت کے معیار کے طور پر عقل، بصیرت، فہم، سخاوت، رحمت اور درگذر وغیرہ کے عنوان سے جانے جاتے ہیں خواہ وہ پہلو ہوں جو انسانی ذہن کی پرواز سے ما ورا ہیں یعنی وہ پہلو جو پیغمبر اسلام (ص) کو اللہ تعالی کے اسم اعظم کے مظہر کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں یا تقرب الہی کے آپ کے درجات کی جانب اشارہ کرتے ہیں، کہ ہم ان پہلوؤں کو کمالات کا نام دیتے ہیں اور اتنا ہی جانتے ہیں کہ یہ کمالات ہیں لیکن ان کی حقیقت سے اللہ تعالٰی اور اس کے خاص اولیا ہی آگاہ ہیں۔ یہ ان کی شخصیت تھی اور دوسری طرف ان کا لایا ہوا پیغام انسانی سعادت کے لئے سب سے عظیم اور بہترین پیغام ہے جو توحید، انسان کی عظمت و سربلندی اور انسانی وجود کے کمال و ارتقا کا حامل ہے اور یہ کہنا بجا ہے کہ انسانیت آج تک اس پیغام کے تمام پہلوؤں کو بطور کامل اپنی زندگی میں نافذ نہیں کر سکی ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ انسانی ترقی اور کمال ایک نہ ایک دن اپنے مطلوبہ مقام تک ضرور رسائی حاصل کرے گا اور یہی انسانیت کا نقطہ عروج و کمال ہوگا۔

 البتہ اس مفروضہ کی بنیاد پر کہ انسانی سوچ اور فکر اور اسکا علم وادراک روزبروز ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور یہ مسلمہ ہے کہ اسلام کا پیغام زندہ و جاوید ہے کوئی وجہ نہیں کہ ایک نہ ایک دن یہ پیغام انسان کی معاشرتی زندگی میں اپنا مقام حاصل نہ کر لے۔ نبی اکرم(ص)کے پیغام توحید کی حقانیت،اسلام کا درس زندگی اور انسانی سعادت اور ترقی کے لئے اسلام کے بیان کردہ زریں اصول انسان کو اس مقام پر پہنچا دیں گے کہ وہ اپنی گمشدہ منزل تلاش کر لے اور پھر اس راہ پر گامزن ہو کر ترقی اور کمال کی منازل طے کرے۔ وہ چیز جو ہم مسلمانوں کے لئے اہم ہے وہ یہ کہ اسلام اور پیغمبر(ص)کی زیادہ سے زیادہ شناخت و معرفت حاصل کریں، آج دنیائے اسلام کا سب سے بڑا درد فرقہ واریت ہے۔ عالم اسلام کی یکجہتی اور اتحاد کا محور پیغمبراسلام(ص)کے مقدس وجود کو قرار دیا جا سکتا ہے جن پر تمام مسلمانوں کا ایمان ہے اور جو تمام انسانوں کے احساسات کا مرکزی نقطہ ہیں۔ ہم مسلمانوں کے پاس پیغمبراسلام(ص)کے مقدس وجود سے بڑھ کر کوئی ایسا جامع اور واضح نقطہ اتحاد نہیں ہے کہ جس پر تمام مسلمانوں کا ایمان و اعتقاد بھی ہو اور جن (ص) کے وجود سے سب مسلمانوں کا اندرونی اور قلبی رشتہ بھی ہو اور یہی نقطہ اتحاد کا بہترین مرکز و محور ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے جو ہم ادھر چند سالوں میں مشاہدہ کر رہے ہیں کہ قرون وسطی کی طرح مستشرقین نے آنحضرت (ص) کے وجود مقدس پر اہانت آمیز تنقید و تبصرے کرنا شروع کر دیا ہے۔ 

قرون وسطی میں بھی عیسائی پادریوں نے اپنی تحریروں، تقریروں اور نام نہاد آرٹ کے فن پاروں میں جب مستشرقین کی تاریخ نویسی کا آغاز ہوا تھا، پیغمبر(ص)کی شخصیت کو نشانہ بنایا۔ گذشتہ صدی میں بھی ہم نے ایک بار پھر دیکھا کہ مغرب کے غیر مسلم مستشرقین نے جس چیز کو شک و شبہے اور جسارت و اہانت کا نشانہ بنایا تھا وہ پیغمبراسلام(ص)کی مقدس شخصیت تھی۔ اب کئی سال گذرنے کے بعد ان حالیہ سالوں میں ہم پھر دیکھ رہے ہیں کہ میڈیا اور نام نہاد ثقافتی لٹریچر کے ذریعہ دنیا کے مختلف مقامات پر آپ(ص)کی شخصیت پر ایک بار پھر حملے کرنے کی جسارت کی گئي ہے۔

یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے کیونکہ انہوں نے اس حقیقت کو بھانپ لیا ہے کہ مسلمان اسی مقدس شخصیت کے وجود پر جمع ہو سکتے ہیں کیونکہ ان سے تمام مسلمانوں کو عشق اور والہانہ محبت ہے لہذا انہوں نے اسی مرکز کو حملے کا نشانہ بنایا۔ آج علمائے اسلام اور مسلمان دانشوروں، مصنفین، شعرا اور اہل فن حضرات سب کی ذمہ داری ہے کہ ان سے جتنا بھی ممکن ہو پیغمبر اسلام(ص)کی شخصیت کے عظوم پہلوؤں کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے سامنے بیان کریں ان افراد کا یہ کام امت اسلامیہ کے اتحاد میں اور ان مسلم نوجوانوں کی رہنمائی میں جو اسلام کی طرف بڑی شدت سے راغب نظر آ رہے ہیں، بہت زیادہ مددگار ثابت ہوگا۔

۱۷ربیع الاول کی مناسبت سے حکومتی عہدہ داروں سے خطاب کا اقتباس( ng>۳۱۔۳۔۷۹)

امام خمینی(رہ) کی با بصیرت نظر کی بدولت اسلامی انقلاب کا ایک فیض یہ ہے کہ میلاد النبی(ص)کے ایام کو ہفتہ اتحاد کا نام دیا گیا۔ اس لحاظ سے بھی اس مسئلہ کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی کہ بہت سے لوگوں کی دیرینہ خواہش تھی کہ اسلامی اتحاد کے لیے کام کیا جائے۔ بعض لوگ تو صرف بات کی حد تک کوئی نظریہ دیتے ہیں لیکن بعض لوگوں کی واقعی دیرینہ خواہش تھی بہرحال اس آرزو اور خواہش کی تکمیل کے لیے عملی اقدام ضروری تھا کیونکہ کوئی خواہش بغیر عملی جدوجہد کے پوری نہیں ہو سکتی۔ جب ہم نے اس سمت میں عملی اقدامات اور مطلوبہ مقصد تک پہنچنے کی راہ کے بارے میں سوچا تو اس محور کے طور پر جو بہترین اور عظیم ترین شخصیت ہمارے سامنے جلوہ گر ہوئی۔ وہ فخر کائنات حضرت محمد مصطفٰی(ص) کی ذات تھی کہ جنکی مرکزی حیثیت دنیا تمام مسلمانوں کے عقائد وافکار کا سرچشمہ ہے۔

 اسلامی دنیا میں وہ نقطہ جس پر سب متفق ہوں اور سب کے عقائد اور جذبات و احساسات کی ترجمانی بھی ہو جائے شاید میسر نہ آ سکے یا ہو تو شاذ و نادر ہی ہو کیونکہ جذبات کا انسانی زندگی میں خاص کردار ہے اور یقینا بعض وہ اقلیتیں جو مسلمانوں سے علیحدہ ہو گئی ہیں ان کے درمیان کچھ جذبات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتیں اور عشق و محبت یا توسل اور وسیلے کی منکر ہیں پھر بھی عام مسلمانوں کے لئے پیغمبر اسلام(ص) سے محبت اور عشق و عقیدت دین کا ایک لازمی عنصر ہے لہذا آپ کا وجود مبارک وحدت کا بہترین محور بن سکتا ہے۔

مسلمانوں اور مسلم دانشوروں کو چاہیئے کہ وہ پیغمبر اسلام(ص)کی شخصیت، آپ کی تعلیمات اور آپ سے عشق ومحبت کے موضوع کے سلسلے میں وسیع النظری سے کام لیں۔ ان عوامل میں جو اتحاد و یکجہتی کےلیے محور قرار پا سکتے ہیں اور تمام مسلمان جن پر متفق ہو سکتے ہیں اہلبیت پیغمبر(ع) کی اطاعت اور پیروی بھی ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) کے اہلبیت(ع) کی عظمت کو تمام مسلمان قبول کرتے ہیں البتہ شیعہ ان کی امامت کے بھی قائل ہیں اور غیر شیعہ ان کو شیعی نقطہ نگاہ کی طرح امام منصوص نہیں مانتے پھر بھی انہیں پیغمبراسلام(ص)کے عظیم خاندان سے اسلامی تعلیمات اور اسلامی احکام سے کما حقہ آشنا اسلام کی عظیم شخصیات میں سمجھتے ہیں لہذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ اہلبیت پیغمبر(ع) کے فرامین پر عمل کے دائرے میں متفق ہو جائیں۔ یہ وحدت و یکجہتی کا بہترین وسیلہ ہے۔

پیغمبراسلام (ص) کی میلاد کے ایام ہر مسلمان کے لئے تاریخ کے سنہری مواقع ہیں۔ اسی ولادت کی برکت سے تاریخ بشریت نے ایک نیا رخ اختیار کیا،کائنات کی ہر فضیلت کا سرچشمہ آپ(ص)کی بعثت اور مکارم اخلاق ہیں ہر مسلمان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ دنیائے اسلام کی محبتوں کا مرکز اور مسلمانوں کے مختلف مذاہب ومکاتب کا محور حضرت محمد مصطفٰی(ص) کا مقدس وجود ہے چونکہ تمام مسلمانوں کو آپ سے عشق ہے لہذا آپ تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کے لئے نقطہ اتحاد رہے ہیں۔ اسی لیے آپ کے ایام ولادت مبارک بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

اسلامی یکجہتی عالمی کانفرنس کے شرکا اور عمائدین مملکت سے خطاب سے اقتباس (۲۴۔۵۔۷۴)

مسلمانوں کے اتحاد کا مرکزی نقطہ پیغمبر اسلام(ص) ہیں اور آپ کی عظیم شخصیت،آپ کا اسم مبارک، محبت، کرامت اور عظمت امت اسلامی کی فکری یکجہتی کا مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا وجود ذی جود امت اسلامیہ کی ہر فرد کے لئے پوری تاریخ اسلام میں وحدت کا محور رہا ہے۔

دین اسلام کا کوئی ایسا عنوان نہیں ہے جو آپ(ص)کے مقدس وجود کی طرح ہر لحاظ سے عقل کی راہ ہو یا عشق و محبت کی، روحانی اور معنوی پہلو ہو یا اخلاقی،تمام اسلامی مکاتب کے لئے قابل قبول ہو۔ یہی وہ مرکزی محور اور نقطہ ہے جو ہمہ گیر ہے ورنہ قرآن وکعبہ اور واجبات وعقائد سب مشترک ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک انسانی شخصیت کے ایک پہلو مثلا عقائد، محبت، روحانی میلان، کردار وغیرہ سے متعلق ہیں اور مذکورہ مفاہیم مسلمانوں کے مابین مختلف تشریحات اور تفاسیر کے حامل ہیں لیکن وہ چیز جو تمام مسلمانوں میں فکری واعتقادی بالخصوص جذبات و احساسات کے حوالے سے اتحاد و یکجہتی کا محور بن سکتی ہے، خود پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰی (ص) کا مبارک وجود ہے۔اسکی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اور اس محبت میں روز بروز آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور آپ کے مقدس وجود کی طرف معنوی اور روحانی رجحان کو مسلمانوں اور اقوام عالم کی ہر فرد کے ذہن میں اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دشمن کی اسلامی تہذیب کے خلاف سازشوں کے دھارے کا سب سے بڑا نشانہ پیغمبر اسلام(ص)کا نورانی وجود ہے (مرتد رشدی کی) شیطانی آیات نامی کتاب میں بھی جس حساس نقطہ کو نشانہ بنایا گیا ہے، حضرت محمد مصطفٰی (ص)کی ذات اور صفات ہیں اور دشمن کی اس گندی سازش سے معلوم ہو گیا کہ وہ مسلمانوں کے عقائد اور احساسات کے کس محور پر نظر گڑائے ہوئے ہے۔

رسالت پر ایمان لانے کا تقاضا

قرآن پاک نے جس خوبصورت اسلوب میں اور بار بار مقام رسالت کو بیان کیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ رسالت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور قرآن اس حسین اسلوب بیان سے صادق و عاشق اور وفا شعار امت کے دل میں ’’عشق رسول‘‘ پیدا کرنا چاہتا ہے اس لئے کسی سچے اور پکے امتی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کلمہ پڑھ لینے کے بعد فارغ بیٹھ جائے اور یہ سمجھنے لگے کہ اب اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، اسے نجات کا پروانہ مل گیا ہے اور اب وہ آزاد ہے جس طرح چاہے زندگی گزارے۔

یہ خیال غلط ہے، حقیقت یہ ہے کہ ایمان وہ معتبر ہے جو امتی کو اپنے نبی کا عاشق و طالب بنا دے اور وہ اپنے نبی کے لئے پروانے کا روپ دھار لے کہ اس کی دید اور یاد کے بغیر اسے قرار ہی نہ آئے، اٹھتے بیٹھتے، آتے جاتے اور ہر کام کے دوران تصورِ جاناں ہی میں مستغرق رہے۔ اس لئے نبی پر ایمان لانے کے کچھ تقاضے ہیں، امتی کے لئے جن کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ وہ آداب و تقاضے یہ ہیں۔

اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دل و جان سے تعظیم کرے۔

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے مثل جاننا۔

اللہ تعالیٰ نے انہیں جو کمالات و مراتب عطا فرمائے ہیں، انہیں تسلیم کرے اور ان کے تذکرے سے خوش ہو، جہاں فضائل و معجزات کی تفصیل سنے اس کا دل کنول کی طرح کھل اٹھے۔

دل کی گہرائیوں سے نبی کی تعظیم کرنا

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس پر ایمان لانے کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ انسان ان کی تعظیم و تکریم کو اپنا شعار بنائے۔

تعظیم رسالت ایک ایسا مسئلہ ہے جسے قرآن پاک نے بڑی اہمیت دی ہے اور اسے ایسے ایمان افروز اسلوب میں بیان کیا ہے جس سے حسین تر اور معنی خیز اسلوب کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

انسان کی فطرت بھی عجیب ہے، وہ طبعی طور پر علم و حکمت کا رسیا اور فضل و کمال کا قدر دان ہے۔ اسے کسی شخصیت کی خصوصیات اور اس کی ذات میں پائے جانے والے غیر معمولی اور انمول کمالات کا پتہ چل جائے تو وہ بن دیکھے ہی اس پر دل و جاں سے فدا ہو جاتا ہے اور اسی کے تصور میں گم رہنے لگ جاتا ہے اور ہر حال و مجلس میں اس کے ذکر کے سوا اسے کچھ نہیں سوجھتا۔

اسی اصول کے مطابق، قرآن پاک نے اہل ایمان کے دلوں میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور عقیدت پیدا کرنے کے لئے سورۃ الفتح کی آیت میں پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کچھ اعلیٰ ترین اور یگانہ و یکتا شانیں بیان کی ہیں کہ وہ گواہ اور شاہد ہیں اور بشیر و نذیر بھی، تاکہ امتی اس حقیقت سے آگاہ ہوکر کہ اس کے رسول بڑے ہی مہربان اور شفیق ہیں جو قیامت کے دن اپنی گناہگار امت کے حق میں گواہی دیں گے اور کسی بھی مرحلہ پر اسے بے یارو مددگار نہیں چھوڑیں گے۔ اس حوالے سے ان کی ذات نہایت ہی قابل قدر، عظیم و جلیل اور محبت کے لائق ہے اس لئے مومنوں کا حق ہے کہ وہ بھی ان سے ٹوٹ کر پیار کریں اور ان کی عقیدت کو دل میں جگہ دیں چنانچہ ارشاد فرمایا:

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاo لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ.

(الفتح، 48 : 8، 9)

’’اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو شہادت و بشارت اور انذار کے منصب پر فائز کرکے بھیجا ہے، (اے لوگو! یہ اس لئے ہے) تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوب تعظیم و توقیر کرو‘‘۔

قرآن پاک نے دوسری جگہ ٹوٹ کر پیار کرنے اور تعظیم و توقیر کا یہی عمل اختیارکرنے والوں کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کی بشارت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَo

(الْأَعْرَاف ، 7 : 157)

’’پس جو لوگ ایمان لائے اور ان کی خوب تعظیم اور مدد کی اور جو نور ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، اس کی پیروی کی تو یہی لوگ مسرت و کامیابی حاصل کرنے والے ہونگے‘‘۔

دونوں آیات میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کا حکم دینے کے لئے لفظ ’’تعزیر‘‘ لایا گیا ہے جو اپنی جگہ بڑا معنی خیز ہے۔ یہ لفظ عام قسم کی تعظیم و تکریم کے لئے نہیں بولا جاتا بلکہ تعظیم کی اس حالت پر بولا جاتا ہے جو تعظیم کی انتہائی حدوں کو چھولے۔

 مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک وہ بے مثل ذات ہے کہ عام انسانوں کے لئے تو تعظیم میں مبالغہ آ سکتا ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک وہ بے مثل ذات ہے جہاں مبالغہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لئے قرآن پاک نے یہ لفظ ذکر کیا ہے تاکہ اہل ایمان تعظیم کے لئے جو بھی عمل اور انداز اختیار کرنا چاہیں وہ بلا تکلف اختیار کرلیں اور اپنے پاک نبی کی صفت وثناء بیان کریں، چاہے ان کا بیان کتنا ہی پر شکوہ اور حسنِ عقیدت سے لبریز ہو اور ان کا نیاز مندانہ انداز، خواہ کتنی ہی عاجزی لئے ہوئے ہو پھر بھی اس میں مبالغہ پیدا نہیں ہوگا کیونکہ نبی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اتنی ارفع و اعلیٰ ہے اور رب کریم نے ان کو اتنی عظمتیں عطا فرمائی ہیں کہ امتی جو خوبی اور شان بھی بیان کرے گا وہ ان کی ذات اقدس میں موجود ہوگی۔

حسن یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضاء داری

آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری

محمد سر بسر حمدِ خدا ہیں

محمد جانِ ہر حمد و ثناء ہیں

محمد ہیں، محمد ہی محمد (ص)

محمدِ مصطفیٰ ہی مصطفیٰ (ص) ہیں

اس حقیقت ثابتہ اور نورانی ضابطہ کے مطابق امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے قصیدہ بردہ شریف میں ارشاد فرمایا:

دَعْ مَا اَدَّعَتْهُ النَّصَارٰی فِی نَبِيِّهِم وَاحْکُمْ بِمَا شِئْتَ مَدْحًا فِيْهِ وَاحْتَکِم

’’نصاری نے اپنے نبی کو خدا کا بیٹا کہا تھا تم یہ مت کہو اس کے علاوہ جس طرح چاہو، ان کی شان بیان کرو (سب کچھ بیان واقعہ ہوگا، مبالغہ نہیں ہوگا)‘‘۔

نبی کو خدا کا بیٹا کہنا بے شک مبالغہ اور خلاف واقعہ بات ہے، کفر ہے، اس لئے اس سے منع کیا گیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارٰی.

جس طرح نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مبالغہ کیا تھا، تم اس سے باز رہو اور میری اس قسم کی تعریف نہ کرو کیونکہ یہ تعریف نہیں، کذب بیانی ہے، خلاف واقعہ، غلط اور جھوٹی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے، کوئی نبی اس کا بیٹا نہیں ہوسکتا، اس لئے جو بھی کسی کو اس کا بیٹا کہے گا وہ جھوٹ بولے گا اور مبالغہ کی حدوں سے بھی آگے بڑھ جائے گا، اس لئے یہ غلط بات کہنے اور اس انداز سے تعریف کرنے کی اجازت نہیں، باقی ہر قسم کی تعریف و ستائش، مدح ونعت اور صفت و ثناء کی اجازت ہے۔

اس حدیث کی آڑ لے کر یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تعریف سے منع فرمایا ہے، اس لئے کسی قسم کی مدح و ستائش جائز نہیں اور وہ مبالغہ کی تعریف میں آ جاتی ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ اس حدیث پاک میں خدا کا بیٹا کہہ کر مدح کرنے کی ممانعت ہے، باقی رہے وہ اوصاف جو آپ کی ذات اقدس میں حقیقتاً پائے جاتے ہیں ان کے بیان کی ممانعت نہیں بلکہ ان کا ذکر ضروری اور موجب خیرو برکت ہے۔

حضرت حسان رضی اللہ عنہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو دعا دیا کرتے تھے۔

اَللّٰهمَّ اَيّدْهُ بِرُوْحِ الْقُدُس.

’’اے اللہ! جبریل امین کو حسان کی تائید و تقویت کے لئے مامور فرما‘‘۔

اس لئے ایمان کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ حکم قرآن کے مطابق دل کھول کر آپ کی تعظیم کی جائے اور مدح و نعت اور درود و سلام کے مہکتے پھول بطور نذرانہ عقیدت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے حضور بصد ادب و احترام پیش کئے جائیں۔     خرم شہزاد خرم ( پاک نیٹ )

پیغمبراسلام (ص) آخری نبی

ضروریات دین میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آخری پیغمبر ماننا ہے جس کے بعد خدا وند متعال کی طرف سے نہ کوئی پیغمبر آیا اور نہ کوئی شریعت ،اس بات کے اثبات میں قرآن میں بہت سی آیتیں پائی جاتی ہیں جیسے سورہٴ احزاب آیت ۴۰،سورہٴ فرقان آیت۱، سورہٴ فصلت آیت ۴۱۔۴۲۔سورہٴ انعام آیت ۱۹ ،سورہٴ سبا ، آیت ۲۸ وغیرہ ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ علیہم السلام کی بہت سی روایتیں آپ کے خاتم الانبیاء ہونے پر صریحی ور سے دلالت کرتی ہیں لیکن آنحضرت   صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد آنے والے زمانوں میں فریبی اور چالباز لوگوں نے نیا پیغمبر بنا کر آپ کی خاتمیت کو مخدوش بنانا چاہا۔ تاکہ اس طرح سے خود ساختہ ادیان جیسے قادیانیت، بابی گری اور بہائیت معاشرہ میں اپنا اثر ورسوخ پیدا کرسکیں۔

اب درج ذیل مناظرہ جو ایک مسلمان اور بہائی کے درمیان ہوا ملاحظہ فرمائیں:

مسلمان: ”تم اپنی کتابوں اور تقریروں میں اسلام اور قرآن کو اس فرق کے ساتھ قبول کرتے ہو کہ اسلام نسخ ہو گیا ہے اور اس کی جگہ دوسری شریعت آ گئی ہے اب میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ قرآن نے تو اپنی متعدد آیتوں میں اسلام کو ایک عالمی اور قیامت تک باقی رہنے والا مذہب کہا ہے اور ساتھ ساتھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خاتمیت کا اعلان کرتے ہوئے آنے والے نئے دین کا باطل قرار دیا ہے۔

بہائی: ”مثلاً کون سی آیت یہ کہہ رہی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخری پیغمبر ہیں ؟

مسلمان: ”سورہٴ احزاب کی ۴۰ ویں آیت میں۔

”مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اٴَبَا اٴَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ وَکَانَ اللهُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًا “

”محمد ، تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ رسول خدا اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر شئے کا علم رکھنے والا ہے“۔

آیت میں جملہ ”خاتم النبیین“ واضح طور پر بتا رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخری پیغمبر ہیں،کیونکہ لفظ خاتم کو جس طرح بھی پڑھا جائے اس سے یہی سمجھ میں آتا ہے ،لہٰذا اس آیت سے صریحی طور پر سمجھ میں آتا ہے کہ آپ آخری پیغمبر ہیں اور آپ کے بعد کوئی بھی پیغمبر اور شریعت نہیں آئے گی“۔

بہائی: ”خاتم انگوٹھی کے معنی میں بھی آیا ہے جو زینت کے لئے استعمال ہوتی ہے اس طرح اس آیت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انبیاء کی زینت ہیں“۔

مسلمان: ”لفظ خاتم کا رائج اور حقیقی معنی ختم کرنے والے کے ہیں اور کہیں پر یہ نہیں آیا کہ لفظ خاتم کسی انسان کے لئے آیا ہو جس سے زینت مراد لی گئی ہو اور اگر ہم لغات کی طرف رجوع کریں تو پتہ چلے گا کہ خاتم کے معنی ختم کرنے والے کے ہی ہیں اب اگر کوئی لفظ اپنے معنی کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ کچھ سیاق وسباق رکھتا ہو،ہم اس لفظ کے ساتھ کوئی قرینہ یا کسی طرح کی کوئی دلیل نہیں پاتے ہیں جس کی وجہ سے اصلی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی مراد لئے جائیں۔

یہاں پر لفظ خاتم کے بارے میں چند لغات آپ ملاحظہ فرمائیں فیروز آبادی ”قاموس اللغة“ میں کہتے ہیں ”ختم“مہر کرنے کے معنی میں آتا ہے اور ”ختم الشئی“یعنی کسی چیز کا آخر۔

جوہری ”صحاح“میں کہتے ہیں کہ ختم یعنی پہنچنا اور ”خاتمة الشئی“ یعنی اس چیز کا آخر۔

ابو منظور ”لسان العرب“میں کہتے ہیں کہ” ختام القوم“ یعنی قوم کی آخری فرد اور ”خاتم النبیین“ یعنی انبیاء کی آخری فرد۔

راغب ”مفردات“میں کہتے ہیں کہ خاتم النبیین یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود آ کر  سلسلہ نبوت کو منقطع کر دیا اور نبوت کو تمام کر دیا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ لفظ خاتم سے زینت معنی مراد لینا ظاہر کے خلاف ہے جس کے لئے دلیل کی ضرورت ہے اور یہاں پر کوئی دلیل نہیں پائی جاتی ہے“۔

بہائی: ”لفظ خاتم کے معنی خط پر آخری مہر ہے جس کے معنی تصدیق شدہ کے ہیں لہٰذا اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے سے پہلے کے انبیاء کی تصدیق کرنے والے تھے۔

مسلمان: ”غرض پہلے سوال کے جواب سے یہ واضح ہو گیا کہ خاتم کے اصلی اور رائج معنی تمام اور اختتام کے ہیں اور یہ کہیں پر نہیں سنا گیا ہے لفظ خاتم سے استعمال کے وقت تصدیق مراد لی گئی ہو،اتفاق سے اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ خاتم یعنی آخر میں مہر لگانا یعنی خاتمہ کا اعلان کرنا“۔

بہائی: ”آیت کہتی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاتم النبیین،یعنی پیغمبروں کے سلسلہ کوختم کرنے والے ہیں ،آیت یہ نہیں کہتی کہ مرسلین کے ختم کرنے والے ہیں لہٰذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد رسول کے آنے کی نفی ہوتی ہے“۔

مسلمان: ”اگرچہ قرآن میں رسول اور نبی میں فرق پایا جاتا ہے مثلاً خداوند متعال نے قرآن میں جناب اسماعیل علیہ السلام کو رسول اور نبی دونوں کہا ہے۔(سورہٴ مریم آیت ۵۴)

اور اسی طرح جناب موسیٰ کو بھی رسول اور نبی بھی کہا ہے (سورہٴ مریم آیت ۵۱) لیکن یہ چیز کسی بھی طرح لفظ خاتم میں شبہ نہیں پیدا کرتی ہے کیونکہ نبی یعنی ایسا پیغمبر جس پر خداوند متعال کی طرف سے وحی ہوتی ہے خواہ وہ لوگوں کی تبلیغ کرنے والا ہو یا نہ ہو، لیکن رسول وہ ہے جو صاحب شریعت اور صاحب کتاب ہو لہٰذا ہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے۔

نتیجہ یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خاتم انبیاء کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا اس فرض کے ساتھ کہ ہر رسول پیغمبر ہے بس رسول بھی نہیں آئے گا مثال کے طور پر نبی اور رسول کی مثال انسان اور عالم دین (منطق کی زبان میں عموم خصوص مطلق )کی نسبت پائی جاتی ہے جب بھی ہم کہیں کہ آج ہمارے گھر کوئی انسان نہیں آیا یعنی عالم دین انسان بھی نہیں آیا، اور ہماری بحث میں اگر کہا جائے گیا کہ کوئی پیغمبر ،رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد نہیں آئے گا یعنی کوئی رسول بھی نہیں آئے گا“۔

بہائی: ”نبی اور رسول کے درمیان تباین (جدائی ) پایا جاتا ہے جو نبی ہوگا وہ رسول نہیں ہوگا اور جو رسول ہوگا وہ نبی نہیں ہوگا لہٰذا ہمارا اعتراض بجا ہے“۔

مسلمان: ”لفظ رسول ونبی میں اس طرح کا فرق ،علماء اور مفکرین اور آیات وروایات کے خلاف ہے اور یہ ایک مغالطہ ہے کیونکہ تمہارا یہ مسئلہ خود آیت میں ذکر ہوا ہے“۔

”وَلَکِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ“

”اور لیکن وہ رسول خدا اور خاتم النبیین ہیں“۔

اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ملتا ہے:”وکان رسولا ”نبیا““موسیٰ علیہ السلام رسول بھی تھے اور نبی بھی

(سورہٴ نساء آیت ۱۷۱)حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی

(سورہٴ نساء آیت ۱۷۱میں)

رسول کہہ کر پکارے گئے اور سورہٴ مریم آیت ۳۰،میں نبی کہہ کر پکارے گئے ہیں اگر لفظ نبی اور رسول آپس میں ایک دوسرے کے متضاد لفظ ہوتے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام جیسے انبیاء ان دو متضاد صفتوں کے حامل نہ ہوتے، اس کے علاوہ اور بہت سی روایتیں اس سلسلے میں ہم تک پہنچی ہیں جس میں پیغمبر اکرم   کو خاتم المرسلین کہا گیا ہے جن میںیہ وضاحت کی گئی ہے کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور آپ ہی ختم الرسل ہیں“۔

بہائی: ”جملہ خاتم النبیین سے ممکن ہے خاص پیغمبر مراد لئے گئے ہوں اس طرح تمام کے تمام پیغمبر اس آیت میں شامل نہیں ہوں گے“۔

مسلمان: ”اس طرح کا اعتراض دوسرے اعتراضوں سے زیادہ مضحکہ خیز ہے کیونکہ جو شخص بھی عربی قواعد سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا ہوگا وہ اس طرح کے جملے میں ہر جگہ ”ال“سے مراد عموم لے گا اور یہاں اس الف اور لام سے مراد ”عہد“ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے لہٰذا اس سے عموم ہی مراد لیا جائے گا

 

متعلقہ تحریریں:

تلاوت قرآن کے شرائط

انبیاء الہی کی حمایت اور ان کی پیروی

تحریر : محمد اسلم لودھی  ( کتاب گھر ڈاٹ کام (

متعلقہ تحریریں:

حضرت محمد مصطفی(ص) کی ولادت با سعادت کے وقت حیرت انگیزواقعات کاظہور

تلاوت قرآن کی شرائط

بیّنہ کی تعریف

متعلقہ تحریریں:

 صاحبان فضيلت كا اكرام

 انبیاء کی بعثت کا فلسفہ

 


source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=89245
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خطبات حضرت زینب(سلام اللہ علیہا)
امام مہدی (ع) کے بارے میں علی (ع) کی چالیس حدیثیں
معصوم چھاردھم
جب انسان اشرف المخلوقات ہے تو کیوں جنات کو نہیں ...
حضرت علی اکبر علیہ السلام کی ولادت با سعادت مبارک
ولادت باسعادت امام حسن عسکری (ع) مبارک ہو
آیئے صحیفہ سجادیہ کو پہچانیں
خانه وحی پر آگ (تاریخ اسلام کا حیرت انگیز سوال)
وحی رسالی کی اقسام
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا(دوسری قسط)

 
user comment