اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

امامت کے بارے میں مکتب خلفاء کا نظریہ اور استدلال(دوسرا حصہ)

ارباب حل و عقد کے انتخاب سے وجود میں آنے والی امامت کے بارے میں علماء کئی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان اختلاف ہے۔ ارباب حل و عقد کی تعداد کتنی ہونی چاہیے؟ ایک گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ امامت ہر علاقے کے اہل حل و عقد کی اکثریت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی تاکہ لوگوں کی حمایت کا دائرہ عام ہو اور امام کی اطاعت اجماعی ہو۔ یہ نظریہ ابوبکرکی بیعت کے پیش نظر ناقابل قبول ہے۔ کیونکہ ان کو سقیفہ بنی ساعدہ میں موجود لوگوں نے منتخب کیا تھا اور اس بیعت سے پہلے غائبین کی آمد کا انتظار نہیں کیا گیا تھا۔

دوسرے گروہ کا خیال میں منصب امامت کے پختہ ہونے کے لئے کم از کم پانچ افراد کی ضرورت ہے جو سب مل کر منتخب کریں یا ایک شخص کے انتخاب کو دوسروں کی رضامندی حاصل ہو۔ اس نظریے کی دو دلیلیں ہیں:

پہلی دلیل: ایک تو بیعت ابوبکرسے جو پانچ افراد کے اتفاق سے عمل میں آئی اور اس کے بعد لوگوں نے ان کی متابعت کی۔ یہ پانچ افراد عمربن خطاب، ابوعبیدہ بن جراح، اسیدبن حضیر، بشیربن سعد اور ابو حذیفہکے غلام سالم تھے۔

امامت کے بارے میں مکتب خلفاء کے نظریات مکتب خلفاء کا نظریہ اور استدلال

حضرت ابو بکر نے کہا: یہ امارت قریش کے اس قبیلے کے علاوہ کسی کے لئے تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ وہ نسب اور خاندان کے لحاظ سے سارے عربوں میں ممتاز ہیں۔ میں تمہارے لئے ان دونوں مردوں یعنی حضرت عمراور ابو عبید ہمیں سے ایک کو پسند کرتا ہوں۔ پس ان دونوں میں سے جس کی چاہو بیعت کر لو۔

حضرت عمرنے کہا :کوئی شخص یہ سمجھ کر مغالطہ نہ ڈالے کہ ابوبکرکی بیعت اتفاقاً اور بغیر سوچے سمجھے ہو گئی تھی اور انجام کو پہنچی تھی۔ بیشک معاملہ یونہی تھا لیکن اللہ نے اس کے برے عواقب سے بچایا۔ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو عظمت و فضلیت میں ابو بکرکی برابری کر سکے۔ جو شخص مسلمانوں سے مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کرے تو نہ اس کی بیعت کی جائے گی اور نہ اس کی جس کی اس نے بیعت کی ہو۔ کہیں یہ دونوں (مسلمانوں کو) دھوکہ دینے کے جرم میں قتل نہ کئے جائیں۔

مکتب خلفاء کے پیروکاروں کے نظریات

قاضیوں میں سے بہترین قاضی ماوردی بغدادی(متوفی ۴۵۰ھ) اپنی کتاب ”الاحکام السلطانیہ“ میں کہتے ہیں نیز علّامہٴ زماں امام قاضی ابو یعلی (متوفی ۴۵۸ھ) نے بھی اپنی کتاب الاحکام السلطانیہ میں کہا ہے کہ امامت دو طریقوں سے منعقد ہو تی ہے۔ ایک تو ارباب حل و عقد کے انتخاب کے ذریعے اور ثانیاً پہلے امام کی وصیت کے ذریعے۔

ارباب حل و عقد کے انتخاب سے وجود میں آنے والی امامت کے بارے میں علماء کئی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان اختلاف ہے۔ ارباب حل و عقد کی تعداد کتنی ہونی چاہیے؟ ایک گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ امامت ہر علاقے کے اہل حل و عقد کی اکثریت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی تاکہ لوگوں کی حمایت کا دائرہ عام ہو اور امام کی اطاعت اجماعی ہو۔ یہ نظریہ ابوبکرکی بیعت کے پیش نظر ناقابل قبول ہے۔ کیونکہ ان کو سقیفہ بنی ساعدہ میں موجود لوگوں نے منتخب کیا تھا اور اس بیعت سے پہلے غائبین کی آمد کا انتظار نہیں کیا گیا تھا۔ 

دوسرے گروہ کا خیال میں منصب امامت کے پختہ ہونے کے لئے کم از کم پانچ افراد کی ضرورت ہے جو سب مل کر منتخب کریں یا ایک شخص کے انتخاب کو دوسروں کی رضامندی حاصل ہو۔ اس نظریے کی دو دلیلیں ہیں:

پہلی دلیل: ایک تو بیعت ابوبکرسے جو پانچ افراد کے اتفاق سے عمل میں آئی اور اس کے بعد لوگوں نے ان کی متابعت کی۔یہ پانچ افراد عمربن خطاب، ابوعبیدہبن جراح، اسیدبن حضیر، بشیربن سعد اور ابو حذیفہکے غلام سالم تھے۔

 دوسری دلیلیہ ہے کہ حضرت عمرنے چھ افراد کی مشاورتی کمیٹی بنائی تاکہ پانچ افراد کی حمایت سے چھٹا آدمی خلیفہ بنے۔

 یہ بصرہ کے اکثر فقہاء اور متکلمین کا نظریہ ہے۔ کوفہ کے بعض علماء کہتے ہیں کہ تین افراد کافی ہیں یعنی دو کی رضامندی سے تیسرا شخص امام بن سکتا ہے۔ بنا بریں ایک حاکم اور دو گواہ ہوئے۔ جیسا کہ صیغہ نکاح کے لئے ولی اور دو گواہ کافی ہیں۔ بعض کا یہ نظریہ بھی ہے کہ ایک شخص کے ذریعے بھی امامت حاصل ہو سکتی ہے کیونکہ حضرت عباس نے حضرت علی(ع) سے کہا تھا کہ اپنا ہاتھ دراز کریں تاکہ میں آپ کی بیعت کروں لوگ کہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازاد بھائی کی بیعت کر لی ہے۔ پھر آپ کے بارے میں دو افراد کے درمیان بھی اختلاف نہیں ہو گا۔ چونکہ یہ ایک حکم ہے اور ایک شخص کا حکم نافذالعمل ہے۔ 3 رہا پہلے امام کی وصیت کے ذریعے انعقاد امامت کا طریقہ تو اس کے جواز پر اجماع قائم ہے اور اس کی صحت اتفاقی مسئلہ ہے۔ اس کی دلیل دو باتیں ہیں جن پر مسلمانوں نے عمل کیا ہے اور ان کی مخالفت بھی نہیں کی۔

پہلی دلیل یہ ہے کہ ابو بکرنے وصیت کے ذریعے امامت حضرت عمرکو دی اور مسلمانوں نے بھی ان کو وصیت کے ذریعے حاصل شدہ امامت کی توثیق کی دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر  نے وصیت کے ذریعے امامت کا مسئلہ مشاورتی کمیٹی کے حوالے کیا۔ آگے چل کر کہتے ہیں۔ کہ کیونکہ حضرت عمرکی بیعت صحابہ کی رضامندی پر موقوف نہ تھی اور اس لئے کہ امام اس امر کا زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔

امام کی معرفت کے لزوم پر بھی علماء کے درمیان اختلاف نقل ہوا ہے۔ ان میں سے

بعض کہتے ہیں کہ تمام لوگوں پر واجب ہے کہ وہ امام کی ذات اور امام کے نام کی معرفت حاصل کریں۔ جس طرح ان پر خدا اور رسول(ص) کی معرفت ضروری ہے۔ پھر کہتے ہیں۔ اکثر لوگوں کے عقیدے کی رو سے امام کی اجمالی معرفت سب پر لازم ہے۔ تفصیلی معرفت واجب نہیں ہے۔

قاضی القضاة ابویعلی (متوفی ۴۵۸ھ) نے الاحکام السلطانیہ میں مذکورہ اقوال پر کسی اور کے اس قول کا اضافہ کیا ہے۔ امامت طاقت اور قہر و غلبے کے ذریعے بھی حاصل ہو جاتی ہے اس کے لئے بیعت کی ضرورت نہیں ہے۔ جو شخص تلوار کے زور سے تسلط حاصل کرے پھر خلیفہ بن کر امیر المومنین کا لقب پائے تو اللہ اورآخرت پر ایمان رکھنے والے کسی فرد کے لئے یہ جائز نہیں ہے وہ اس کو امام جانے بغیر رات گزارے۔ خواہ وہ نیک ہو یا فاجر وہ ہر حال میں امیر المومنین ہے۔

ابو یعلی اس امام کے بارے میں جس کے مقابلے میں حکومت کا طالب کوئی شخص خروج کرے اور دونوں کے ہمراہ کچھ لوگ ہوں۔ کہتے ہیں ان میں سے جو غالب آجائے جمعہ کی نماز انہی کے ساتھ ہو گی۔ اس کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ ابن عمرنے واقعہ حرہ کے دوران اہل مدینہ کے ساتھ نماز پڑھی اور کہا ہم اسی کے ساتھ ہیں جس کا غلبہ ہو۔

امام الحرمین جوینی (متوفی ۴۷۸ھ) کتاب الارشاد میں خلیفہ کے انتخاب، اس کی کیفیت اور انتخاب کنندگان کی تعداد کے بارے میں کہتے ہیں۔ یہ بات ذہین نشین کر لیجئے کہ امامت کے لئے اجماع شرط نہیں ہے بلکہ امامت امت کے اجماع کے بغیر بھی قائم ہوجاتی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت ابوبکرکو امامت حاصل ہوئی تو انہوں نے مسلمانوں کے امور کو فوری طور پر نپٹانا شروع کیا اور اس بات کا انتظار نہیں کیا کہ دور دراز علاقوں میں موجود اصحاب تک اس کی خبر پہنچ جائے۔ اور کسی نے اس بات پر ان کی ملامت بھی نہیں کی اور نہ اسے کسی نے سستی و لاپرواہی پر محمول کیا ہے۔

جب منصب امامت کے پختہ ہونے کے لئے اجماع کی ضرورت نہیں ہے تو ایک خاص تعداد اور معین مقدار کی شرط پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔ لہذا درست بات یہی ہے کہ ارباب حل و عقد میں سے صرف ایک شخص کے ذریعے بھی امامت کا انعقاد ہو سکتا ہے۔ امام ابن عربی (متوفی ۵۴۳ھ) کہتے ہیں۔ امام کی بیعت کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ سارے لوگ بیعت کریں بلکہ اس کے انعقاد کے لئے ایک یا دو آدمی بھی کافی ہیں۔

نیز شیخ الفقیہ امام علامہ مفسرو محدث قرطبی(متوفی ۶۷۱ھ) سورة بقرہ کی آیت: انی جاعل فی الارض خلیفة کی تفسیر کے آٹھویں مسئلے میں کہتے ہیں۔

کہ اگر ایک شخص بھی جس کا تعلق رباب حل و عقد سے ہو بیعت کر لے تو خلافت ثابت ہو جاتی ہے اور دوسروں کے لئے بھی بیعت لازم ہو جاتی ہے۔ اس قول کے برخلاف کچھ حضرات کہتے ہیں کہ امامت ارباب حل و عقد کی ایک جماعت کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ جب حضرت عمر  نے ابو بکرکی بیعت کی اور کسی صحابی نے ان کی مخالفت نہیں کی۔ بنابریں دیگر عقود کی طرح ایک خاص تعداد کی ضرورت نہیں ہے۔ امام ابو المعالی کہتے ہیں کہ جو شخص ایک فرد کی بیعت کے ذریعے امام بن جائے تو پھر اس کی امامت پکی ہو جاتی ہے۔ وہ پھر کسی خاص وجہ یا تبدیلی کے بغیر معزول نہیں کیا جا سکتا۔ بعد ازاں کہتے ہیں کہ اس مسئلے پر اجماع قائم ہے۔ مفسر قرطبی مذکورہ آیت کی تفسیر کے پندرھویں مسئلے میں کہتے ہیں کہ جب ارباب حل و عقد کے متفقہ فیصلے سے یا ایک شخص کی بیعت سے (جیسا کہ ذکر ہو چکا) کوئی شخص امام بن جائے تو پھر اس کی بیعت تمام لوگوں پر واجب ہو جائے گی۔

قاضی القضاة عضد الدین الایجی (متوفی ۷۵۶ھ) اپنی کتاب ”المواقف“ میں لکھتے ہیں۔ تیسرا مسئلہ اس بات کے بیان میں کہ امامت کس طرح ثابت ہوتی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امامت صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان یا سابقہ امام کی تصریح سے ثابت ہوتی ہے اور یہ بات اجماعی ہے۔ اس کے علاوہ ارباب حل و عقد کی بیعت سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن مکتب شیعہ اس نظریے کے خلاف ہے۔  ہماری دلیل بیعت کے ذریعے ابوبکرکی امامت کا ثابت ہونا ہے۔

پھر لکھتے ہیں کہ جب امامت کا انتخاب اور بیعت کے ذریعے وجود میں آنا ثابت ہو جائے تو جان لو کہ اس کے لئے اجماع کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اس بات پر عقل اور نقل کی روشنی میں کوئی دلیل قائم نہیں ہے۔ بلکہ اس امر کے لئے ارباب حل و عقد میں سے ایک دو افراد کا اقدام کافی ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ صحابہنے دین میں اپنی پختگی کے باوجود اسی پر اکتفاء کیا تھا۔ جیسا کہ حضرت عمرنے ابوبکرکی بیعت کی تھی۔ اور عبدالرحمان بن عوف نے حضرت عثمانکی بیعت کی تھی۔ انہوں نے اس بات کی شرط نہیں رکھی کہ مدینہ میں موجود افراد اتفاق کر لیں چہ جائیکہ پوری امت کے اجماع کو شرط قرار دیتے۔

اس کے علاوہ کسی نے ان کی سرزنش بھی نہیں کی اور آج تک ہر دور میں یہی سلسلہ جاری ہے۔ 

 قاضی عبدالرحمن بن احمد الایجی کی کتاب ”المواقف“ کے شارحین مثلاً سید الشریف جرجانی(متوفی ۸۱۶ھ) وغیرہ نے بھی قاضی صاحب کی تائید کی ہے۔

سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کے باوجود امام کی اطاعت کا وجوب

حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میرے بعد ایسے امام آئیں گے جو مجھ سے ہدایت نہیں حاصل کریں گے نہ میری سنت پر عمل پیرا ہوں گے۔ ان میں جلد ہی ایسے اشخاص اٹھیں گے جن کے دل شیطانی ہوں گے لیکن بدن انسانی۔ حضرت حذیفہکہتے ہیں کہ میں نے پوچھا:اے اللہ کے رسول(ص) اگر میں اس وقت موجود ہوا تو کیا کروں؟

فرمایا:تم امیر کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو اگرچہ وہ تمہاری پشت پر مارے اور تمہارے مال کو چھین لے۔ پس اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔

حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے امام سے ایسے امر کا مشاہدہ کرے جو ناپسندیدہ ہو تو وہ صبر کرے۔ کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت الگ ہو جائے وہ جاہلیت (کفر) کی موت مرے گا۔ 

عبد اللہ  بن عمر سے روایت ہے کہ جب یزید بن معاویہ کے دور میں واقعہ حرہ میں جو ہونا تھا ہو چکا تو عبد اللہ بن عمرنے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا۔ جو کسی (حاکم کی) اطاعت سے خارج ہو جائے تو قیامت کے دن خدا کے آگے اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہو گی۔ جو شخص اس حالت میں مر جائے کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت کا طوق نہ ہو تو وہ جاہلیت (کفر) کی موت مرے گا۔ 

امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں ”لزوم طاعة الامراء فی غیر معصیة“ نامی باب میں کہا ہے کہ اہل سنت کے فقہا محدثین اور متکلمین کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ فسق، ظلم اور حقوق کی پامالی کے باعث امام اپنے منصب سے خودبخود معزول نہیں ہوتا نہ اسےبرطرف کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے خلاف خروج کی اجازت ہے۔ بلکہ لوگوں پر واجب ہے کہ اس بارے میں موجود احادیث کے ذریعے اسے وعظ و نصیحت کریں اور ڈرائیں۔ اس سے قبل فرماتے ہیں کہ ان کے خلاف خروج اور جنگ اجماع کی رو سے حرام ہے اگرچہ وہ فاسق اور ظالم ہی ہوں اور اس بارے میں متعدد احادیث ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔ اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ حکمران ارتکاب گناہ کے باعث معزول نہیں ہوتا۔

  قاضی ابو بکر محمد بن طیب باقلانی (متوفی ۴۰۳ھ) نے ”التمہید“ میں امام کی معزولی اور وجوب اطاعت امام کے سقوط کے اسباب سے متعلق جو کچھ کہا ہے اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ اہل اثبات اور اصحاب حدیث کی اکثریت کہتی ہے کہ امام فسق، ظلم، غصب اموال، ناحق کسی کی جان لینے، حقوق کی پامالی اور احکام خدا کی خلاف ورزی کے باعث اپنے عہدے سے الگ نہیں ہوتا۔ اس کے خلاف خروج بھی ضروری نہیں ہے بلکہ اسے وعظ و نصیحت کرنی چاہیے اور خدا کا خوف دلانا چاہیے۔ اس کے کسی بھی امر کی حکم عدولی حرام ہے۔ اس بات کے اثبات کے لئے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ سے مروی احادیث سے استدلال کیا ہے۔ ان احادیث میں حکمرانوں کی اطاعت کو واجب قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ وہ ظلم کریں اور اموال کی تقسیم میں امتیازی سلوک روا رکھیں۔ نیز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا۔ ”سنو اور اطاعت کرو اگرچہ (حکم کرنے والا) کٹی ہوئی ناک والا ایک غلام یا ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، نماز پڑھو ہر نیک اور فاجر کے پیچھے۔“ علاوہ بریں یہ حدیث بھی نقل کی ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی اطاعت کرو اگرچہ وہ تمہارا مال کھائیں اور تمہاری پشت پر ضربت لگائیں۔

آخری صدیوں میں مکتبخلفاء کے پیروکاروں کا استدلال

ماضی میں خلفاء کی حکومت کے قیام کی صحت پر آخری صدیوں میں مکتب خلفاء کے پیروکاروں کا استدلال یہ ہے کہ خلفاء کی حکومت مسلمانوں کے باہمی مشورے کی بنیادوں پر قائم تھی۔ ان کے بعض حضرات اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ آج بھی اسلامی حکومت بیعت کی بنیاد پر قائم ہونی چاہیے۔ لہذا مسلمان جس شخص کی بیعت کر لیں وہ اسلامی حکمران ہو گا اور مسلمانوں پر اس کی اطاعت واجب ہو جائے گی۔

مسئلہ امامت فروع دین میں سے ہے نہ کہ اصول دین میں سے

کیا امت مسلمہ میں اتحاد کی خاطر اس مطلب کو بیان کیا جا سکتا ہے کہ مسئلہ امامت فروع دین میں سے ہے نہ کہ اصول دین میں سے ؟

یہ وہ بحثیں ہیں جو استاد معظم حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کے فقہ اور اصول کے درس خارج کےاختتام پر مطرح ہوئیں تھیں ۔

ہم یہاں پر مختصراًکچھ ایسے مطالب جو امامت کی بحث سے مربوط ہیں ذکر کرتے ہیں ۔

مسئلہ امامت بہت اہم مسائل میں سے ہے اور یہ اعتقاد ات کی بنیاد ہے ۔

ہم طلاب جو احکام شرعیہ کے استنباط اور استخراج کے راستے میں لگے ہوئے ہیں ہمیں اس مسئلہ سے زیادہ آگاہ ہونا چاہیے ۔ ہم جتنا اپنے آپ کو اس بنیادی نکتہ سے نزدیک کریں گے اتنا ہی علمی اعتبار سے ترقی کریں گے ۔آپ جانتے ہیں کہ کچھ ایسی روایات موجود ہیں جن میں ائمہ طاہرین نے فرمایا کہ ہر وہ چیز جو ہم اہلبیت کے علاوہ لی جائے وہ باطل ہے اور صحیح نہیں ہے ۔ لہذاٰہمیں واقعی علم کو انکے در سے لینا چاہیے ۔اور ہم اس مطلب کو کسی تعصّب کی بناء پر عرض نہیں کر رہے ہیں ۔

اور ہمارے اعتقادات کے مطابق وہ لوگ جو علم کے حقیقی منبع سے متصل ہیں وہ ائمہ اطہارعلیہم الصلاة و السلام ہیں ، اگر انسان پوری دنیا میں تلاش کرے کے انکے علاوہ کسی ایسےشخص کو ڈھونڈ نکالے کہ علم واقعی کے سرچشمہ سے متصل ہو تو ان کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو گا۔

ہمارے والد محترم کہا کرتے تھے،اگر یہ جاننا چاہیں کہ حضرت علی ع نے کس کے پاس درس پڑہا ہے ؟

اور امام حسن مجتبی ع،امام حسین ع اور امام محمد باقر ع اور جعفرصادق ع تک کے علم کے پروان چڑہنے کا دورتھا انھوں نے کس کے پاس درس پڑھا ہے ؟آپ کسی آدمی کو تلاش نہیں کر پایئں گے اور کسی بھی تاریخی کتاب کو دکھا نہیں پایئں گے کہ جس میں یہ لکھا ہو ان افراد نے فلاں کے پاس علم حاصل کیا ہے ۔

اور اہل سنت کے علماء کے بارے میں صاف لکھا ہے کی انھوں نے علم صرف و نحو کو کہاں سے حاصل کیاہے قرآن کو کہاں سے سیکھا ہے تفسیر کو کس سے پڑھا ہے یہاں تک کہ انکے اساتید کے نام بھی موجود ہیں لیکن ہمارے ائمہ ع کے بارے میں ایسا کسی بھی صور ت میں نہیں مل سکتا ہے ۔

اس بناء پر جس بنیادی نکتہ کی طرف میں اشارہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کہ اگر ہم علم حاصل کرنا چاہیں تو انھیں کے در پہ جانا چاہیے۔ اور اگریہ سیکھنا چاہیں کہ کون سے کام اچھے یا برے ہیں یا،سعادت ،، شقاوت ، فضیلت اگر ہم ان سب چیزوں کو سمجھنا چاہیں تو ہیں انھیں کی طر ف رجوع کرنا چاہیے ۔ ہمییں چاہیے کہ اخلاقی مسائل میں جتنا ہو سکے ان سے قریب ہونے کی کوشش کریں ۔ اب آشنائی اس صورت میں کہ ہم انکی احادیث کی طرف رجوع کریں اوران سے درس حاصل کریں اور اسی طرح قلبی اور باطنی طور پر بھی ہمیں ان سے رابطہ رکھنا چاہیے اور ہمیشہ انھیں سے مدد مانگنا چاہیے ۔

اور ان افراد کو چھوڑ دیں کہ جو توسل ،شفاعت ،کی حقئقت سے آگاہ نہیں ہیں اور ہم پر اعتراض کرتے ہیں ۔یہ لوگ کسی چیز کو سمجھتے نہیں ہیں اور ان کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہیے اس لئے ان کا اس بات کو قبول نہ کرنا کسی دلیل کی بناء پر نہیں ہے ۔اب یہاں پر ایک مقابلہ کرتے ہیںجو نمازیں ہم قربةًالی اللہ پڑہتے ہیں کس حد تک خدا کے ولی کی اس پر نظر ہے اور پروردگار کی اس پرنظر تو دوسرا مرحلہ ہے جس طرح ائمہ اطہار (ع)نماز پڑھتے تھے ویسی نمازہمارے لئے محال ہے ۔

لیکن ضروری ہے کہ یہ جانیں کیا ہمیں کیا کرنا چاہیے کہ ہماری نمازیں بھی ان جیسی ہو سکیں اور یہ فاصلہ کم ہو جائے یہ ساری چیزیں مسئلہ امامت کی معرفت کے سائے میں حاصل ہو سکتی ہیں۔ امامت ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے کہ ہمارے ہاں عقاید میں اس سے زیادہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے ۔ہمارا عقیدہ ہے کہ خالص توحید صرف اسی راستے سے سمجھی جا سکتی ہے نبوت اسی رستے سے صحیح ہم تک پہونچتی ہے ۔

ان کے علاوہ ممکن نہیں ہےکہ انسان واقعی معنی میں یکتاپرست اور پیغمبر (ص)کا واقعی اطاعت گزار بن سکے ۔ وہ امامت کی جس کی اتنی اہمیت ہو افسوس کی بات ہے بعض افراد نے اس کو فروع دین میں شمار کیا ہے جسطرح امر بہ معروف و نہی از منکر،خمس وغیرہ دوسرے مسائل ہیں اور وہ اس بات سے

غافل ہیں مسئلہ امامت کی کتنی اہمیت ہے ۔ ہم طلباءحضرات کیلئے یہ چیز اظھرمن الشمس ہے کہ امامت اصول دین میں سے ہے نہ کہ فروع دین میں سے ۔ ہمارے پاس بہت سارے دلائل ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ امامت اصول دین میں سے ہے اور ایک فرعی امر نہین ہے ۔

اصل یہ ہے کہ اس کی شعاعیں تمام فروع دین کو شامل ہو جاتی ہیں ۔جس طرح نماز توحید ،پیامبر پر عقیدہ ،اور معاد کے بغیر صحیح نہیں ہے اسی طرح امامت کے اعتقاد کے بغیر نماز صحیح نہیں ہے ۔

اور اصل کے معنی یہ ہیں کی جس کا سایہ تمام دین پر احاطہ حاصل کر لے اور اس کے بغیر کسی چیز کا اعتبار بھی نہ ہو(امامت بھی بالکل اسی طرح ہے )۔

تو کیا اب شیعہ سنّی وحدت کے مسئلہ کو بہانا بنا کر یہ عنوان پیش کیا جائے کہ امامت فروع دین میں سے ہے یہ کسی بھی صورت میں صحیح نہ ہو گا۔

تو ان کے جواب میں کہنا چاہیے کہ مسئلہ وحدت جس کی بنیاد امام راحل حضرت امام خمینی رہ نے رکھی تھی اور اس مسئلہ پر امام سے پہلے مرحوم بروجردی نے بھی کافی تاکید کی تھی اور ان سب سے پہلے ہمارے ائمہ طاہرین نے وحدت کے مسئلہ پر کافی زور دیا اور تقیہ کی بات (جس پر ہم نے بھی مفصل دلیلیں بیان کی ہیں )اس سے مربوط ہے کہ ہماری ذمہ دار ی ہے کی اتحاد کو قائم رکھیں تا کہ کوئی اختلاف وجود میں نہ آئے۔اس بنا ءپر مسئلہ وحدت ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں ائمہ( ع )نے بھی دستور دیا ہے ۔اور بزرگان اور مراجع کرام نے بھی اسی بات کو بیان کیا ہے ۔

کہ اس مسئلہ میں کسی طرح کے شک کی گنجائش نہیں ۔

خاص طور رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیةاللہ خامنہ ای (دام ظلہ العالی )نے اس سال کا نام سال اتحاد ملی اور انسجام اسلامی رکھا ہمیں اس کو غنیمت سمجھنا چاہیے ۔

لیکن اگر کوئی اس عنوان سے سوء استفادہ کرے اور شیعوں کے عقیدہ کو ضعیف کرے تو یہ جائزنہ ہو گا۔ ہمارے بزرگان میں سے کسی نے بھی اس بات کی اجازت نہیں دی ہیے ؟ ہمارے اماموں میں سے کسی امام نے اس بات کو پیش کیا؟ اس کے باوجود کہ وہ تقیہ کی بحث کو بھی پیش کرتے تھے اور شیعوں  کے عقیدہ کے تنزل کے دائرہ کو بھی پیش کیا ہے ؟

امام باقر علیہ السلام نے قتادہ جو اہلسنت کے بڑے علماء میں سے تھا کہا :تو کس طرح فتویٰ دیتا ہے؟

اس نے کہا میں قرآن اور سنت سے فتوی دیتا ہوں ۔حضرت نے اس سے کہا کیا تم قرآن

کو سمجھتے ہو؟اور اس کے قسم کھائی کہ واللہ ما ورثک من کتاب اللہ من حرف (تمہارے پاس کتاب خدا کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے ۔یہ ہمارے ائمہ کا بیان ہے بزرگان اہلسنت سے ۔ آیئیں اس بات کو بھی چھوڑ دیتے ہیں اور ہم ان سے کہتے کے ہمارے پاس فقہ ہے تو ان کے پاس بھی فقہ ہے ،ہمارے پاس تفسر ہے تو ان کے پاس بھی تفسیر ہے ،ہمارے پاس استنباط اور استدلال ہے تو انکے پاس بھی استنباط اور استدلال ہے ۔ ہمارے بزرگان میں کوئی بھی اس بات سے راضی نہیں ہے اور وہ اس بات کو قبول نہیں کرتے ہیں ۔

وہ بزرگان جو منادی وحدت ہیں وہ ہرگز یہ بات نہیں کہتے ہیں کہ شیعہ اپنے عقاید میں تنزّلی اختیار کریں وحدت ایک ایسا مسئلہ جو مسلمان اسلام دشمن طاقتوں کے مقابلہ میں اختیار کریںاور آپس میں اختلاف نہ کریں ۔لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وحدت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم مسئلہ امامت جو ایک اہم ترین مسئلہ ہے ہم اس سے دست بردار ہو جائیں ۔اور یہ کہیں کہ یہ ایل فرعی امر ہے بلکہ ہمیں اپنے عقاید پر پابند رہنا چاہیے (ما نودی لشیءمثل مانودی بولایة)

میں یہاں کچھ دلیلوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امامت

اصول دین میں سے ہے نہ کہ فروع دین میں سے :

پہلی دلیل :سورہ مائدہ کی کی آیت کہ جس میں خداوند متعال پیامبر (ص)سے فرماتا ہے:

یا ایّھاالرسول بلّغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ (ای پیامبر اگر اس بات کو لوگوں تک نہیں پہونچایا تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام ہی نہیں دیا۔

(رسالتہ )میں جو ضمیر پائی جاتے ہے وہ خداوند متعال کی پلٹ رہی ہے نہ پیامبر کی طرف ،یعنی اس کے علاوہ رسالت الہی واقع ہی نہیں ہو سکتی ۔اگر امامت نہ ہو تو رسالت ناقص ہے ۔اور اس بات کے یہ معنی ہیں کہ امامت اصول دین میں سے ہے نہ کہ فروع دین میں سے ۔

دوسری آیت: سورہ مائدہ کی یہ آیت ( الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت الکم الاسلام دیناً) کہ جس پر شیعہ سنی کا اتفاق ہے کہ یہ آیت واقعہ غدیر سے مربوط ہے کہ جب پیامبر اکرم حجةالوداع سے واپس آ رہے تھے اور حضرت علی -ع- کی ولایت کا اعلان کیا۔

اس آیہ شریفہ میں کچھ اہم موضوعات پائے جاتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اگر امامت نہ ہو تو دین ناقص ہے اور ایسے جسم کی مانند ہو جاتی ہے کہ جس کا سر نہ ہو ۔

اسی مسئلہ کی بناء پر خدا نعمتیں تمام ہوئی ہیں ۔

اور خدا اس دین سے راضی ہے کہ جس میں ولایت پائی جاتی ہو ۔

پس معلوم ہوا کہ امامت اصول دین میں سے ہے اور اس کے بغیر کوئی بھی اسلام نہیں ہے ۔ اور امامت ہی کی وجہ سے نعمتیں تمام ہوئی ہیں ۔روایات میں بھی ایک مشہور روایت پائی جاتی ہے کہ جس وقت علماء کسی سے بحث کرتے تھے تو اس حدیث کو دلیل کے عنوان سے پیش کرتے تھے اور مقابل اسی وجہ سے مغلوب ہو جا تا تھا وہ حدیث یہ ہے( من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتةالجاہلیہ)اگر کوئی شخص اس حال میں

مر جائے کہ وہ اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو تووہ جاہلیت کی موت مرے گا۔

جاہلیت کی موت سے مراد یہ ہے یعنی اسلام سے پہلے مرا ہویعنی غیر مسلمان مرا ہو۔

یہ روایت اہلسنت کی اکثر کتابوں میں موجود ہے کہ جن کو مرحوم علامہ امینی نے کتاب الغدیرکی دسویں جلد میں اہل سنت کی بہت ساری کتابوں کا تذکرہ کیاہے جیسے مسند احمد حنبل، السنن الکبری بیہقی،معجم الکبیرطبرانی ۔۔وغیرہ ہیں کی جنہوں نے اس حدیث کو مختلف تعابیر کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔ اب یہ امام کہ جس کی معرفت ہر انسان کیلئے ضروری ہے یہ وہی مسئلہ امامت ہے کہ جس کے ہم معتقد ہیں ۔وگرنہ وہ حاکم کہ جس کولوگ انتخاب کریں اور اس کو رئیس قرار دیں کہ نہ جس کی عدالت کا پتہ ہو نہ اس کے تقوے کی کوئی خبر ہو وہ کبھی اسلام کے ساتھ میل نہیں کھا سکتا بلکہ اس ادمی کی معرفت اسلام کے ساتھ میل کھاتی ہے کہ جو حقیقت اسلام سے آشنا ہو علم کامل کا مالک ہو اور معصوم بھی ہو ۔

اگر انسان ایسے شخص کو پہچانے بغیر مر جائے وہ واقعاً جاہلیت کی موت مرا ہے اس بناءپر یہ روایت بھی اچھے طریقے سے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امامت اصول دین میں سے ہے نہ کی فروع دین میں سے ۔

یہ بات بزرگوں کے کلمات میں بھی واضح طور ہر موجود ہے مثال کے طور پر :مرحوم ملامھدی نراقی کتاب شھاب الثاقب کہ جو کچھ ہی عرصہ پہلے چاپ ہوئی ہے اس میں واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ امامت اصول دین میں سے ہے اور اس بات پر ایک عقلی دلیل ذکر کرتے ہیں ۔انھوں نے فرمایا ہے کہ ہر وہ دلیل جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبوت اصول دین میں سے ہے اور اس پر اعتقاد ایمان کا ایک جزءہے وہی دلیل بالکل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امامت اصول دین میں سے ہے ۔

نبی بندوں اور خداکے درمیان ایک واسطہ ہے خدااور اسکے بندوں درمیان ایک حجت ہے احکام کو جس طرح خدانے فرمایاہے بیان کرتا ہے اور امامت بھی نبوت کا ادامہ ہے اور احکام دین کا محافظ بلکہ خود دین ہے اس بناءپر اس کا مرتبہ خود نبوت کا مرتبہ ہونا چاہیے ۔جس طرح انسان بغیر نبوت کے مسلمان نہیں ہو سکتا اور نبوت دین کے محکم اصول میں سے ہے امامت بھی بالکل اسی طرح ہے ۔

لہذ اگر کوئی امامت کی دلیلوں پر ایک اجمالی نظر بھی ڈالے تو وہ کھبی شک نہیں کرے گا کی امامت اصول دین میں سے نہیں ہے۔ 

اور اگر کسی کا عقیدہ اس کے علاوہ ہو تو یہ اعتقاد شیعوں کا اعتقاد نہیں ہو گا۔ یعنی ایک شیعہ کسی بھی صورت میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ امامت فروع دین میں سے ہے۔اس سے ہٹ کہ جب ہم کلامی کتابوں کو دیکھتے ہیں کو جو امامت کی تعریف کرتی ہیں اس یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہلسنت بھی امامت کے اس طرح معنی کرتے ہیں گویا کہ ایک اصل دین ہے مگر امامت کے مصداق کے بارے میں یہ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں ۔

اہلسنت کے بعض علماء جیسے قاضی بیضاوی نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ امامت اصول دین میں سے ہے ۔اب اگر ہم اور یہ واضح دلیلیں موجود ہوں تو کیا ہم امامت کو ایک جزئی امر قرار دے سکتے ہیں ؟

کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امامت فروع دین میں سے ہے ؟

 

امامت ایک ایسا مرکزی نکتہ ہے کہ جس کی وجہ سے تمام عبادتیں قبول ہو سکتی ہیں اس سے بڑھ کے تمام کاموں کی حقیقت چاہے وہ فرعی ہوں یا اصلی ان سب کی روح امامت ہے ۔اور ایک مختصر سے الفاظ میں تمام فروع دین کی بازگشت امامت کی طرف ہے اور کوئی بھی عمل بغیر امامت اور ولایت کے علاوہ قابل قبول نہیں اور وہ کسی کام نہیں ائیں گے ۔ لیکن یہ کبھی کبھی سنا جاتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ امامت فروع دین میں سے ہے نہ کہ اصول دین میں سے وہ لوگ اس بات آشنا نہیں ہیں کہ ہماری دلیلیں کیسی ہیں وہ لوگ دلیلوں سے اگاہ نہیں ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں کہ وہ تمام آیتیں اور روایتیں جو امامت پر دلالت کرتی ہیں ان کا انکار کرتے ہیں ۔

اور وہ یہ کہتے ہیں نماز بغیر ولایت کے بھی قبول ہے اور اسی طرح حج بھی بغیر ولایت کے قبول ہے ۔

ان شاءاللہ خداوند متعال ہم کو شیطان رجیم کے شرّ سے محفوظ رکھے ۔

مجھے یہاں پر ان بحثوں سے جو اخلاقی نکتہ پیش کرنا ہے وہ یہ ہےکہ انسان جڑھ تلاش کرے اگر وہ اپنے نفس کی اصلاح کیلئے کوئی قدم اٹھانا چاہتا ہے تو پہلے کہاں سے شروع کرے ؟

انسان کو چاہیے کہ وہ اصل کی تلاش کرے سیر و سلوک اور تہذیب نفس میں امامت کا

ایک اہم رول ہے اور اس مسئلہ کی طرف توجہ کیے بغیر انسان کسی جگہ تک نہیں پہونچ سکتا ہے ۔

عبارت( اللھم عرفنی حجتک) ہماری دعاوں کا ایک حصہ ہونا چاہیے کہ خداوند متعال انسان کوتوفیق عطا کرے کہ انسان اپنے زمانے کے ا مام کو پہچانے اور ان بزرگان کی طرف توجہ کئے بغیر انسان خدا کو نہیں پہچان سکتا۔ اس بناءپر ہمارا جتنا رابطہ امامت سے محکم ہو گا ہماری نمازوں کو اتنا ہی عروج ملے گا ، اگرہمارا عقیدہ امامت پر محکم ہو گا نوافل کی ادائیگی میں ہماری توفیقا ت میں اضافہ ہوگا ۔ لیکن ہم کیا کریں تا کہ ہم ان انوار مقدسہ کو پہچانیں یہ خود ایک اہم بحث ہے کہ جس کو کسی دوسری  جگہ پیش کیا جائے گا۔  .


source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=68181
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلام نے زمانے کو عزت بخشي
عصر جدید میں وحی کی احتیاج
اہمیت زیارت اربعین
شيعہ کافر ، تو سب کافر ( حصّہ ہشتم
اچھا گھرانہ اور اچھا معاشرہ
حضرت امام علی علیہ السلام کی وصیت اپنے فرزند حضرت ...
پیارے نبی ص کے اخلاق ( حصّہ ششم)
پیغمبر اسلام، ایک ہمہ گیر اور جامع الصفات شخصیت
کربلا ۔۔۔وقت کے ساتھ ساتھ
مختصر حالات زندگی حضرت امام حسن علیہ السلام

 
user comment