اردو
Wednesday 24th of April 2024
0
نفر 0

آیت‌اللہ سبحانی: شیعہ علماء کی جانب سے جعلِ حدیث، ایک بہتان ہے

آیت‌اللہ سبحانی نے "تحقیق حدیث کے شعبے اور روشیں" کے تحت منعقدہ تیسرے سیمنار کے نام پیغام میں دینی علوم کے محققین کی طرف سے شیعہ حدیث کی تاریخ مرتب کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ جعفر سبحانی نے "تحقیق حدیث کے شعبے اور روشیں" کے تحت منعقدہ تیسرے سیمنار کے نام پیغام میں کہا ہے کہ مشہد مقدس میں اس سیمنار  کا انعقاد سرور و شادمانی کا باعث ہے۔ اس طرح کے سیمنار شیعہ حدیث اور رجال اور جرح و تعدیل کی تاریخ روشن ہوجانے کا باعث ہیں۔ شیعیان اہل بیت نے حدیث کی تدوین میں دوسروں سے سبقت لی ہے اور پہلی صدی کے بعد سے حدیث کی تألیف کا اہتمام کیا ہے۔ 
انہوں نے لکھا ہے: میں اپنے اس مختصر پیغام میں اس تہمت کی یادآوری کرنا چاہتا ہوں جو ایام گذرنے کے ساتھ ساتھ موٹی اوربھاری بھرکم ہوکر نمایاں ہورہی ہے۔
آیت اللہ سبحانی لکھتے ہیں: بغدادی محدث "ابن خاضبہ" (متوفی 489) کہتے ہیں کہ امت اسلامی کے امتیازی نشانات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے علماء دینی احادیث کو سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں اسلامی مکاتب کے درمیان کسی فرق کا ذکر نہیں کیا ہے اور سارے مکاتب کو ایک آنکھ سے دیکھا ہے لیکن جب ابن تیمیہ کی باری آتی ہے تو وہ تہمت کا بیج بوتا ہے اور کہتا ہے: "اسناد" اسلامی امت کی خصوصیات میں سے ہے لیکن اہل سنت اسناد کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جبکہ اہل تشیع اس کو کم اہمیت دیتے ہیں۔ 
ابن تیمیہ نے ادھورے سے انصاف کو ملحوظ رکھا ہے اور اہل سنت کے لئے مستند حدیث کی ذخیرہ اندوزی سے پرہیز کرتے ہوئے تھوڑا سے حصہ اہل تشیع کے لئے بھی قرار دیا ہے لیکن جب معاصر مؤلف "مرعشلی" کی باری آتی ہے تو وہ لکھتا ہے کہ: سند حدیث اہل سنت کے لئے مختص ہے کیونکہ اہل تشیع اہل بدعت ہیں چنانچہ ان کا اس حوالے سے کوئی حصہ نہیں ہے۔ اور اس کے بعد جب "ڈاکٹر عبدالرحمن الصالح محمود" کی باری آتی ہے تو وہ ام القری یونیورسٹی کے فارغ التحصیل "ایمان صالح اَلعَلوانی" کی کتاب "مصادر التلقّی و الاصولُ الاستدلال العقلیة عند الامامیة الاثنی عشریة" کے دیباچے میں تحریر کرتا ہے: اہل تشیع نے چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں اپنی احادیث کے لئے اسناد اور علم رجال جعل کیا؛ کیونکہ انہوں نے جب دیکھا کہ اہل سنت کے علماء اپنی حدیث سند کا حوالہ دے کر نقل کرتے ہیں تو انھوں نے بھی ایسا کرنا شروع کیا۔ چنانچہ این تیمیہ نے تھوڑا سا کردار اہل تشیع کو دے دیا اور مرعشلی نے اس کردار کا بھی انکار کیا اور تیسرے شخص نے ایک قدم آگے بڑھا کر شیعہ علماء اور فقہا پر اسناد اور جرح و تعدیل جعل کرنے کی تہمت عائد کردی۔ 
وہ گمان کرتے ہیں کہ اہل تشیع حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے زمانے سے ایک خفیہ اور روپوش جمعیت سے عبارت تھے جو دنیا کے علمی حلقوں میں موجود نہ تھے اور مسلسل خفیہ رہتے اور اپنے عقائد خفیہ رکھتے تھے اور احادیث کے لئے سند جعل کرتے اور سند و دلیل کے بغیر حدیث کی جرح و تعدیل کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ 
آیت اللہ سبحانی کا کہنا تھا: اہل تحقیق بخوبی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد ـ جب خلفاء کی طرف سے حدیث لکھنے اور نقل کرنے پر پابندی لگ گئی اور یہ پابندی سنہ 143 ہجری تک جاری رہی ـ اہل تشیع نے امیرالمؤمنین علیہ السلام اور آپ (ع) کے فرزندوں کا اتباع کرتے ہوئے حدیث و تاریخ تدوین کی اور جو احادیث امیرالمؤمنین اور ائمۂ طاہرین علیہم السلام نے تحریر فرمائی تھیں انہیں کتابوں کی زینت بنانا شروع کیا اور حدیث کے سلسلے میں اہل تشیع کی ابتدائی کاوشیں پہلی صدی ہجری میں منظر عام پر آئیں۔ اس دوران ابورافع اور ان کے دو بیٹوں عبیداللہ بن ابی رافع اور علی بن ابی رافع کی کتابیں تدوین ہوئیں جو شیخ نجاشی کی کتاب "الرجال" میں مذکور ہیں اور یہ کاوشیں تدوین کرنے والے یا تو صحابی تھے یا تابعین میں سے تھے۔ 
آیت اللہ سبحانی نے اپنی پیغام میں رقم کیا ہے: میں اپنے عزیزوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے جناب ڈاکٹر عبدالرحمان الصالح المحمود کو ایک مفصل مراسلہ بھیجا جس میں میں نے ان کے دیباچے پر تنقید کی اور انہیں یادآوری کرائی کہ ہم ایسی کتابوں کے وارث ہیں جو دوسری اور تیسری صدی ہجری میں شیعہ علماء نے منظم اسناد کے ساتھ تحریر کی ہیں اور یہ ساری کتابیں زیور طبع سے بھی آراستہ ہوئی ہیں۔ آپ کیونکر دعوی کرسکتے ہیں کہ اہل تشیع نے چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں روایات کی اسناد جعل کی ہیں؟!
میں نے انہیں لکھا کہ "وقعة صفیں" مؤلفہ "نضربن مزاحم منقری، (متوفی 212ہجری)، "کتاب النوادر"، مؤلفہ "احمد بن محمد بن عیسی"، (متوفی 254 ہجری)، "کتاب الغارات"، مؤلفہ "الثقفی"، (متوفی 283) ، "تفسیر الحبری"، مؤلفہ "حسیں بن حکم کوفی"، (متوفی 286)، "کتاب المحاسن"، مؤلفہ "البرقی"، (متوفی 274)، "بصائر الدرجات"، مؤلفہ "محمد بن حسن الصفار"، (متوفی 290)، "قرب الاسناد"، مؤلفہ "عبداللہ بن جعفر الحمیری"، (متوفی 301)، ان کتابوں میں سے ہیں جو ابتدائی شیعہ تألیفات میں شمار ہوتی ہیں اور ان کے مؤلفیں کی تاریخ وفات سے ان کی کاوشوں کا زمانہ بھی سامنے آتا ہے۔ 
[
یہاں یہ سوال بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ 143 ہجری تک تو اہل سنت کے ہاں حدیث لکھنے کا تصور ہی نہ تھا جبکہ شیعہ علماء نے پہلی اور دوسری صدی میں مستند کتابیں تألیف کی ہیں تو پھر شیعہ علماء نے کونسے سنی علماء کی کتابوں میں اسناد دیکھ کر خود بھی سند ذکر کرنے کی ضرورت کا ادراک کیا؟]۔
آیت اللہ سبحانی نے مزید کہا ہے: میں نے انہیں لکھا کہ یہ اسانید سے بھرپور کتابیں دوسری اور تیسری صدیوں میں تألیف ہوئی ہیں؛ کیا آپ پھر بھی اپنے دعوی پر اصرار کریں گے کہ شیعہ علماء نے چوتھی اور پانچویں صدی میں اسناد جعل کی ہیں؟!۔ 
آیت اللہ سبحانی نے آخر میں لکھا ہے: یہی ناروا تہمت باعث ہوئی کہ میں نے "دور الشیعہ فی الحدیث و الرجال نشأة و تطوّرا" نامی کتاب تألیف کردی اور میں اس کتاب کا ایک نمونہ بھی سیمنار کے لئے ارسال کررہا ہوں۔ ان شاء اللہ اس سیمنار اور دوسرے متعلقہ سیمناروں کے لئے تحریر شدہ مقالات شیعہ تاریخ حدیث اور رجال و جرح و تعدیل کی تاریخ کی زیادہ سے زیادہ وضاحت کے اسباب فراہم کرسکیں۔


source : http://abna.ir/data.asp?lang=6&id=190097
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حریم آل اللہ کا دفاع کرتے ہوئے ایرانی جوان شہید
تہران بك فيسٹيول ؛حرم مقدس امامين كاظمين (ع) كے ...
ایران کے شہر یا سوج میں ولایت فقیہ اور اسلامی ...
سوئس میں اسلامی حجاب کی حمایت میں بل کی منظوری
دمشق اور حمص میں خودکش حملوں میں شہداء کی تعداد 140 ...
صہیونی ریاست کو تا قیامت تسلیم نہيں کریں گے
یونان میں "عفاف و اخلاق کانفرنس" کا انعقاد
سات عظیم الشان مساجد مسلم دنیا کے منفرد عجائبات ...
انيسویں بين الاقوامی قرآنی نمائش میں قرآن كريم ...
پوری طاقت سے مکتب اہل بیت (ع) کا تحفظ کرنا چاہئے

 
user comment