اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

اسلام میں شادی بیاہ

شادی بیاہ اور اس كی شرائط كے بارے میں لوگ بہت زیادہ پوچھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں كہ ہم اس كی شرائط اور خصوصیات وضاحت سے بیان كریں ۔

اس موضوع سے متعلق سوالات كے جواب ذیل میں درج كیے جاتے ہیں:

جنسی خواہش ایك بڑی طاقت ور خواہش ہے جس كی جڑیں انسانی فطرت میں بہت گہری اتری ہوئی ہیں ۔ ظاہر ہے كہ یہ خواہش اور جذبہ صرف لذت اندوزی كے لئے نہیں ہے ۔ اللہ تعالی كے حكیمانہ نظام نے تولید نسل اور نوع انسانی كی بقا كے لئے ایك جذبے كو انسان كے اندر ركھا ہے ۔

ہر لڑكی اور لڑكا جو سن رشد اور بلوغ كو پہنچ جاتا ہے جنس مخالف كے لئے اپنے اندر ایك كشش محسوس كرتا ہے ۔ یہ غیر مرئی كشش اور جذبہ بے زمانے كے گزرنے اور جوانی كی قوتوں كے پروان چڑھنے كے ساتھ ساتھ شدید ہوتا چلا جاتا ہے اور " بڑی ضروری و بنیادی " حیثیت اختیار كرلیتا ہے ۔

اس جذبے كے طاقتور ہونے كے بارے میں كوئی كلام نہیں ۔ اس جذبے كی اسی وقت كو دیكھ كر آسٹریا كا ماہر نفسیات " فرائیڈ " سخت غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا اور اس حد تك كہ اس كے خیال میں تمام خواہشات كے جڑ جنسی خواہش قرار پائی ۔ حتی كہ بچے كے ماں كے سینے سے دودھ پینے كو بھی وہ اسی جذبے سے منسوب كرتا ہے ۔

اس بارے میں كسی بحث كی حاجت نہیں كہ اس فطری خواہش كو پورا كرنا زندگی كے ضروری اور لازمی تقاضوں میں سے ایك ہے ۔

البتہ بحث اس بارے میں ہے كہ انسان كی خواہش كو كس طرح پورا كرنا چاہیئے ؟

اس كے لئے كوئی ایسا طریقہ اختیار كیا جانا چاہیئے كہ یہ خواہش بھی اعتدال پر آ جائے اور اس فطری جذبے كا اصل ہدف پورا ہو اور وہ بھی اس طرح كہ انسانی شرافت اور شخصیت كو كوئی نقصان نہ پہنچے ۔

وہ واحد طریقہ جو تمام جنسی خواہشات كی تكمیل كا ذریعہ قرار پا سكتا ہے شرعی اور قانونی نكاح كے ذریعہ رفیق حیات كو حاصل كرنا ہے ۔

بلاشبہ شادی ، عمر كے انتہائی بحرانی دور میں آرام و سكون كی زندگی مہیا كرنے كی ضامن ہوتی ہے ۔ اسی لئے اسلام میں شادی كی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے ۔     شادی جسم و جان اور قسمت و سر نوشت کا ملاپ اسلام کي رُو سے گھر بسانا ايک فريضہ ہے اور يہ ايسا عملي فريضہ ہے کہ مرد و عورت مل کر اس کام کو ايک ’’خدائي امر‘‘ اور ايک ’’وظيفے‘‘ کے تحت انجام ديں۔ اگرچہ کہ ’’شادي‘‘ کو شرعاً زمرہ واجبات ميں (براہ راست) ذکر نہيں کيا گيا ہے ليکن اسلامي تعليمات ميں اس امر کے لئے اتني توجہ اور ترغيب دلائي گئي ہے کہ انسان سمجھ جاتا ہے کہ خداوند عالم اس امر کے لئے کتنا اصرار کرتا ہے۔

 يہ اصرار صرف ايک کام کو معمولي طور سے انجام دينے کے لئے نہيں ہے بلکہ ايک يادگار واقعے اور انساني زندگي اور معاشرے پر تاثير گزار امر کي حيثيت سے اس پر توجہ دي گئي ہے، لہٰذا اسي لئے نوجوان لڑکے اور لڑکي کے بندھن پر اتني زيادہ ترغيب دلائي گئي ہے اور ’’جدائي‘‘ اور ’’دوري‘‘ کو مذمت کي نگاہ سے ديکھا گيا ہے۔ خداوند عالم مرد اور عورت کي تنہا زندگي کو پسنديدہ نگاہ سے نہيں ديکھتا ہے۔

 خاص طور پر وہ جو نوجوان ہوں اور شادي اور گھر بسانے کي دہليز پر کھڑے ہو کر بھي تنہائي کو ترجيح ديں۔ ايک مرد اور عورت کا تمام زندگي اکيلے زندگي گذارنا، اسلام کي نگاہ ميں کوئي مطلوب چيز نہيں ہے۔ ايسا انسان، معاشرے ميں ايک بيگانے موجود کي مانند ہے۔ اسلام کي خواہش يہ ہے کہ ايک گھرانہ، انساني معاشرے کي ايک حقيقي اکائي ہو نہ کہ ايک اکيلا انسان۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا کہ ’’نکاح ميري سنت ہے‘‘۔

 البتہ، تخليق انساني کي ايک خاص روش ہے اور تمام انسانوں اور تمام اقوام و اديان ميں يہ روش رہي ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے کيوں فرمايا کہ يہ ميري سنت ہے؟ آخر اس کو اپني سنت قرار دينے اور اپنے رفتار و عمل سے مخصوص کرنے کے کيا اسباب ہيں؟ شايد يہ سب اس جہت سے ہو کہ اسلام نے گھر بسانے کے لئے بہت زيادہ تاکيد کي ہے جب کہ دوسري شريعتوں اور اديان ميں شادي پر کم تاکيد کي گئي ہے۔

اسلام نے ’’شادي‘‘اور ’’گھر بسانے‘‘ پر جو تاکيد کي ہے کہ وہ دنيا کے کسي بھي مکتبِ فکر اور دنيا ميں رائج کسي بھي فلسفے اور سياست ميں موجود نہيں ہے۔ اسلام اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ لڑکے اور لڑکياں اس سن و سال ميں شادي کريں کہ جس ميں وہ (جسماني و عقلي طور پر) شادي کے قابل ہوجائيں۔ نکاح، فطري تقاضے کو پورا کرنے کے علاوہ ايک ديني اور اسلامي سنت بھي ہے۔۔                                                                                                                              شادی کیلئے مناسب عمر

نوجوانوں کے درميان ايک مسئلہ جنسي جذبات اور احساسات سے متعلق بھي پايا جاتا ہے اور اس کا تدارک جلدي اور صحيح موقع پر ازدواج کے ذريعہ ہي سے ممکن ہے۔ شادي کے بارے ميں ميرا اپنا نظريہ يہ ہے کہ اگر شادي سے متعلق خرافات (افسوسناک بات يہ ہے کہ تکلفات و اخراجات ہمارے معاشرہ ميں آہستہ آہستہ اپني جڑيں گہري کر رہے ہيں) سے اجتناب کيا جائے تو ايک نوجوان مناسب وقت اور موقع پر اپني شادي کرسکتا ہے۔ يہي عمر ہے کہ جو ازدواجي زندگي کے آغاز کے لئے بہت مناسب ہے ۔ افسوس کا مقام ہے کہ کچھ عرصہ سے مغربي کلچر ، ثقافت و مزاج کي پیروي کرتے ہوئے بعض افراد نے ہمارے معاشرے ميں بھي ديرسے شادي کرنے کي رسم ڈال دي ہے ،جب کہ اسلام اس نظریہ کا سراسر مخالف ہے۔ اسلامي اعتبار سے شادي جس قدرنوجواني کے زمانے سے قريب ہو، اتنا ہي بہتر ہے۔ ظاہر سي بات ہے کہ جب بےجا اخراجات مثلا باقاعدہ ايک عليحدہ گھر ہو، مستقل طور پر کوئي نوکري يا کاروبار ہو يا ديگر ہزارہا مسائل ازدواجي زندگي سے منسلک کر دئیے جائيں گي تو لا محالہ شادي ميں تاخير کا مسئلہ پيش آئے گا۔ جبکہ ان ميں سے ايک بھي شرط ازدواجي زندگي شروع کرنے کے لئے ضروري نہيں ہے۔اگر مذکورہ بےجا اخرجات ميں حقيقي طور پر کمي کر لي جائے تو يقينا شادياں اپنے صحيح اور مناسب وقت پر انجام پذير ہونے لگيں گي اور شريعت اسلامي ميں بھي اس بات کي بہت تاکيد کي گئي ہے۔ بہرحال يہ مسئلہ بھي نوجوانوں کي پریشانیوں ميں اضافہ کا باعث ہے۔                                                                                                                       شادى كا مقصد

شادى انسان كى ايك فطرى ضرورت ہے اور اس كے بہت سے فائدے ہيں جن ميں سے اہم يہ ہيں:

1۔ بے مقصد گھومنے اور عدم تحفظ كے احساس سے نجات اور خاندان كى تشكيل .

غير شادى شدہ لڑكا اور لڑكى اس كبوتر كى مانند ہوتے ہيں جس كا كوئي آشيانہ نہيں ہوتا اور شادى كے ذريعہ وہ ايك گھر ٹھكانہ اور پناہ گاہ حاصل كر ليتے ہيں ۔ زندگى كا ساتھى ، مونس و غمخوار ، محرم راز ، محافظ اور مددگار پاليتے ہيں ۔

2۔ جنسى خواہشات كى تسكين

جنسى خواہش، انسان كے وجود كى ايك بہت اہم اور زبردست خواہش ہوتى ہے اسى لئے ايك ساتھى كے وجود كى ضرورت ہوتى ہے كہ سكون و اطمينان كے ساتھ ضرورت كے وقت اس كے وجود سے فائدہ اٹھائے اور لذت حاصل كرے ۔ جنسى خواہشات كى صحيح طريقے سے تكميل ہونى چاہئے كيونكہ يہ ايك فطرى ضرورت ہے ۔ ورنہ ممكن ہے اس كے سماجى ، جسمانى اور نفسياتى طور پر برے نتائج نكليں ۔ جو لوگ شادى سے بھاگتے ہيں عموماً ايسے لوگ نفسیاتى اور جسمانى بيماريوں ميں مبتلا ہوتے ہيں ۔

3۔ توليد و افزائش نسل

شادى كے ذريعہ انسان اولاد پيدا كرتا ہے ۔ بچے كا وجود شادى كا ثمرہ ہوتا ہے اور خاندان كى بنياد كو مستحكم كرنے نيز مياں بيوى كے تعلقات كو خوشگوارى اور پائدار بنانے كا سبب بنتا ہے ۔ يہى وجہ ہے كہ قرآن اور احاديث ميں شادى كے مسئلہ پر بہت زيادہ تاكيد كى گئي ہے مثال كے طور پر ۔ خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتا ہے ، خدا كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى يہ (بھي) ہے كہ اس نے تمہارے لئے شريك زندگى بنائي تاكہ تم ان سے انس پيدا كرو ۔ (1) رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں: اسلام ميں زناشوئي (شادي) سے بہتر كوئي بنياد نہيں ڈالى گئي ہے ۔ (2)

امير المومنين عليہ السلام فرماتے ہيں ۔ شادى كرو كہ يہ رسول خدا (ص) كى سنت ہے ۔

پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم كا ارشاد ہے : جو شخص چاہتا ہے كہ ميرى سنت كى پيروى كرے اسے چاہئے شادى كر لے ۔ شادى كے وسيلے سے اولاد پيدا كرے ( اور مسلمانوں كى تعداد ميں اضافہ كرے ) تاكہ قيامت ميں ميرى امت كى تعداد ، دوسرى امتوں سے زيادہ ہو ۔ (3)

امام رضا عليہ السلام فرماتے ہيں : انسان كے لئے نيك اور شائستہ شريك زندگى سے بڑھ كر اور كوئي سودمند چيز نہيں ۔ ايسى بيوى كہ جب اس كى طرف نگاہ كرے تو اسے خوشى و شادمانى حاصل ہو ۔ اس كى غير موجودگى ميں اپنے نفس اور اس كے ماں كى حفاظت كرے ۔ (4)

مذكورہ باتيں ، شادى كے ذريعہ حاصل كئے جانے والے دنيوى اور حيوانى فوائد و منافع كے متعلق تھيں كہ ان ميں سے بعض سے حيوانات بھى بہرہ مند ہوتے ہيں ۔ البتہ اس قسم كے مفادات كوانسان كى ازدواجى زندگى كا (اس اعتبار سے كہ وہ انسان ہے) اصل مقصد قرار نہيں ديا جا سكتا ۔

   شریک حیات کا انتخاب

آپ كی رفقیہ حیات كیسی ہو ؟

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

" وہ عورت تمہاری رفقیہ حیات بننے كے لئے سب سے بہترین ہے جو تمہیں اولاد سے بہرہ مند كرنے والی ، مہربان اور پاك دامن ہو ۔ خاندان میں معزز اور باوقار ہو ، شوہر كے سامنے عاجزی و انكساری كرنے والی ہو، شوہر كے لئے بناؤ سنگھار میں كوئی كوتاہی نہ كرتی ہو ، البتہ دوسروں كے سامنے وہ اس قدر وقار كے ساتھ رہتی ہو كہ وہ اپنے لئے اس كی بے اعتنائی كو محسوس كریں خصوصاً ازدواجی تعلقات میں اپنے شوہر كی خواہشات كا لحاظ كرے اور اس كے جائز اور شرعی مطالبات كے آگے سرتسلیم خم كرے لیكن اس كے ساتھ ساتھ اپنی عزت اور وقار كو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے ۔ " 1

میاں بیوی کا  ہم مرتبہ ہونا

شادی كی شرائط میں سے ایك شرط " ہم مرتبہ " ہونا ہے لڑكے اور لڑكی كا ہم مرتبہ ہونا دولت اور مادی حالات كی بنا پر نہیں ہے بلكہ اس سے  مراد دونوں كا پاكدامنی ہونا اور لڑكے كا اس قابل ہونا ہے كہ وہ زندگی كے اخراجات كو پورا كر سكے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:

" المومن كفوالمومنة "

" مومن مرد مومن عورت كا كفو ہے " 2

امام صادق (ع) نے فرمایا:

" كفو " سے مراد یہ ہے كہ مرد پاكدامن ہو اور وہ زندگی كے اخراجات پورے كرسكتا ہو ۔" 3

كیا باپ لڑكی كی مرضی كے خلاف اس كی شادی كرسكتا ہے ؟

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیئے كہ اسلام كی رو سے كوئی باپ اس بات كا مجاز نہیں ہے كہ وہ مادی اسباب اور اپنی مصلحتوں كی بنا پر اپنی بیٹی كی شادی كے لئے اقدام كرے ۔ اگر لڑكی كی كسی خاص شخص كے اچھے كردار كی بنا پر اس كی جانب مائل ہو تو باپ كو یہ حق حاصل نہیں ہے كہ وہ اسے اس شادی سے باز ركھے اور اس كی شادی كسی ایسے شخص سے كرنا چاہے جس كو وہ پسند نہ كرتی ہو ، كیونكہ شادی كے معاملے میں خود لڑكی كی مرضی كو بنیادی شرط كی حیثیت حاصل ہے ۔ اور اس حد تك كہ اگر باپ لڑكی كی كسی سے شادی كر دے اور لڑكی اس شادی سے راضی نہ ہو تو وہ نكاح باطل قرار پائے گا ۔

اس روایت پر غور كیجے

ایك لڑكی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے باپ كی شكایت كی ۔

حضرت ۖ نے دریافت فرمایا كہ:

" تیرے باپ نے تیرے ساتھ كیا كیا ہے ؟"

اس نے كہا كہ:

" میرے باپ نے میری مرضی كے بغیر مجھے اپنے بھتیجے كے عقد میں دے دیا ۔"

حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:"""'' " آب كہ تیرے باپ نے یہ كام انجام دے دیا ہے تو اسے قبول كرلے اور اس كی مخالفت نہ كر ۔"

لڑكی نے عرض كی:::::: "میرے باپ نے جہاں میرا رشتہ كیا ہے اس سے مجھے كوئی رغبت نہیں ہے ۔"

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:" جب تجھے یہ رشتہ پسند نہیں ہے تو تجھے اختیار ہے كہ جس شخص كو بھی تو پسند كرتی ہے اسے اپنے لئے منتخب كرلے ۔"

اس لڑكی نے جب رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے اس ارشاد كو سنا تو اس نے عرض كی:" حضور ۖ میں اپنے اسی چچا زاد بھائی كو پسند كرتی ہوں لیكن محض اس لئے كہ باپ اپنی لڑكیوں كی شادی ان كی مرضی كے خلاف نہ كیا كریں ، اس لئے میں ان آپ ۖ كی خدمت میں حاضری دی اور آپ سے اس طرح كے سوال جواب كیے تاكہ میں تمام مسلمان عورتوں كے سامنے یہ اعلان كرسكوں اور لڑكیوں كے باپ یہ جان لیں كہ انھیں یہ اخیتار حاصل نہیں ہے كہ وہ لڑكیوں كی مرضی كے بغیر ایسے اشخاص سے ان كا عقد كردیں جو كو وہ پسند نہ كرتی ہوں ۔" 4

كیا لڑكی كی شادی كے لئے باپ كی مرضی شرط ہے ؟

روایات میں آیا ہے كہ كنواری لڑكی كی شادی كے لئے باپ كی رضا مندی لازمی ہے ۔ البتہ یہ شرط خود لڑكی كے مفاد میں ہے ، كیونكہ بصورت دیگر عین ممكن ہے كہ لڑكی جسے ابھی زندگی كا كوئی تجربہ نہیں ہے دھوكہ كھا جائے اور اس شخص كے دام میں آ جائے جو اس سے اظہار محبت كرتا ہے اور بعد میں یہ چیز اس كے لئے پشیمانی اور حسرت كا سبب بن جائے ۔

باپ كے مرتبے اور احترام كو ملحوظ ركھتے ہوئے بھی بعض روایات میں باپ كی اجازت و مرضی كو ایك شرط قرار دیا گیا ہے ۔

حوالہ جات :

1. وسائل الشیعہ جلد 14 ۔ ص 14 ۔

2. وسائل الشیعہ جلد 14 ۔ ص 43 ۔

3. وسائل الشیعہ جلد 14 ۔ ص 52 ۔

4. مسالك ، ج 1 ۔ ص 16 ۔ از كتاب نكاح ۔

 ویل ڈورانٹ كہتا ہے:""' """""""""اگر لوگ اپنی زندگی كے بہترین اور موزوں سالوں میں شادیاں كرنا شروع كردیں تو بے حیائیاں ، خطرناك بیماریاں ، بے نتیجہ تنہائیاں اور ناگوار گوشہ نشینیاں اور وہ بغاویتں اور سركشیاں جو آج كے دور كو داغدار بنا چكی ہیں ، گھٹ كر نصف رہ جائیں ۔" 1

آج ماضی كے برعكس بہت سی ركاوٹیں شادی كی راہ میں حائل نظر آتی ہیں ۔ ان میں سے ایك ناكافی آمدنی ہے ۔ آج كی دنیا میں جوانوں كے جنسی بلوغ اور اقتصادی بلوغ كے درمیان ایك فاصلہ پیدا ہو گیا ہے اور یہ چیز شادی دیر سے ہونے كا سبب بنتی ہے ۔

جو نوجوان علمی اور صنعتی شعبوں میں اپنی تكمیل چاہتے ہیں انھیں طویل برسوں تك تعلیم حاصل كرنی پڑتی ہے تاكہ وہ كچھ كمائی كرسكیں اور اپنے خاندان تك تعلیم حاصل كرنی پڑتی ہے تاكہ وہ كچھ كمائی كرسكیں اور اپنے خاندان كی ضروریات پوری كرسكیں ۔ لیكن تعلیم كے اس درمیانے عرصے میں ان پر جنسی خواہشات غالب آنے لگتی ہیں اور انھیں فساد اور بگاڑ كے تنگ راستے پر ڈال دیتی ہیں ۔

" ویل ڈورانٹ " لكھتا ہے:" ماضی كی طرح اس دور میں بھی جنسی بلوغ كی منزل جلد آتی ہے جب كہ اقتصادی بلوغ كی منزل دیر میں آتی ہے ۔ ایك دیہاتی زندگی میں ، شہوتوں كو قابو میں ركھنا ، معقول اور عملی دكھائی دیتا ہے ۔ لیكن ایك صنعتی معاشرے میں شادی كو تیس سال كی عمر تك ٹالنا ایك مشكل اور غیر فطری كام معلوم ہوتا ہے۔ شہوت اپنا سر اٹھاتی ہے اور اسے قابو میں ركھنا دشوار ہو جاتا ہے ۔ "2

پھر بعض لوگ شادی كے مختلف رسوم اور رواج كو اتنی اہمیت دیتے ہیں كہ تھوڑی مدت كے اندر شادی كے انتظامات كرنا ان كے لئے مشكل ہوتا ہے اور وہ اس كے لئے زیادہ وقت لینا چاہتے ہیں ۔ یہ چیز بھی نوجوان نسل كو اكثر گناہوں میں آلودہ كردیتی ہے ۔

حوالہ جات :

 1. لذات فلسفہ ص 184 ۔

 2.  لذات فلسفہ ۔

مجلس مصنفين اداره در راه حق (قم ايران(

ترجمه: محمد خالد فاروقى 

خودسازي

خودسازي کا بہترين زمانہ جواني کا دور ہے۔ امام اپنے فرزند عزيز امام حسن سے فرماتے ہيں :انماقلب الحدث کالارض الخالية ماالقي فيھامن شئي قبلتہ فبادرتک بالادب قبل ان يقسواقلبک ويشتغل لبک۔ نوجوان کا دل خالي زمين کے مانند ہے جو اس ميں بويا جائے قبول کرتي ہے پس قبل اس کے کہ تو قسي القلب (سنگدل) ہوجائے اورتيري فکرکہيں مشغول ہو جائے ميں نے تمہاري تعليم وتربيت ميں جلدي کي ہے۔

ناپسنديدہ عادات جواني ميں چونکہ ان کي جڑيں مضبوط نہيں ہوتيں اس لئے ان سے نبرد آزمائي آسان ہوتي ہے۔ امام خميني فرماتے ہيں ”جہاد اکبر ايک ايسا جہاد ہے جو انسان اپنے سرکش نفس کے ساتھ انجام ديتا ہے۔ آپ جوانوں کو ابھي سے جہاد کوشروع کرنا چاہئے کہيں ايسا نہ ہو کہ جواني کی  طاقت تم لوگ ضائع کر بيٹھو۔

 جيسے جيسے يہ قوت ضائع ہوتی جائےگی ويسے ويسے برے اخلاقيات کي جڑيں انسان ميں مضبوط اورجہاد مشکل تر ہوتا جاتا ہے ايک جوان اس جہاد ميں بہت جلد کامياب ہو سکتا ہے جب کہ بوڑھے انسان کي اتني جلدي کاميابي نہيں ہوتي۔

 ايسا نہ ہونے دينا کہ اپني اصلاح کو جواني کي بجائے بڑھاپے ميں کرو۔

اميرالمومنين ارشاد فرماتے ہيں :غالب الشہوة قبل قوت ضراوتھا فانھا ان قويت ملکتک واستفادتک ولم لقدرعلي مقاومتھا۔

اس سے قبل کہ نفساني خواہشات جرائت اورتندرستي کي خواپنا ليں ان سے مقابلہ کرو کيونکہ اگر تمايلات اور خواہشات اگرخودسر اورمتجاوز ہو جائيں تو تم پر حکمراني کريں گي پھرجہاں چاہيں تمہيں لے جائيں گي يہاں تک کہ تم ميں مقابلے کي صلاحيت ختم ہوجائے گي۔

حوالہ جات :

1-سورہ روم آيت 21

2- وسائل الشيعہ : تاليف : شيخ محمد بن الحسن الحر العاملى (م سنہ) جلد 14 ص 3

3- وسائل الشيعہ جلد 14 ص 13

4- وسائل الشيعہ ج 14 ص 23                                                                                                                       


source : 4- وسائل الشيعہ ج 14 ص 23 http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=57092
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تربيت ميں محبت کي اہميت و ضرورت
ادب و سنت
اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
نجف اشرف
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
اذان ومؤذن کی فضیلت

 
user comment