اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

فدك

فدك اطراف مدينہ ميں تقريباً ايك سو چاليس كلو ميٹر كے فاصلہ پر خيبر كے نزديك ايك آباد قصبہ تھا_ جب سات ہجرى ميں خيبر كے قلعے يكے بعد ديگر افواج اسلامى نے فتح كرلئے اور يہوديوں كى مركزى قوت ٹوٹ گئي تو فدك كے رہنے والے يہودى صلح كے خيال سے بارگاہ پيغمبر (ص) ميں سر تسليم خم كرتے ہوئے آئے اور انہوں نے اپنى آدھى زمينيں اور باغات آنحضرت  (ص) كے سپرد كرديئے اور آدھے اپنے پاس ركھے _ اس كے علاوہ انہوں نے پيغمبر اسلام (ص) كے حصہ زمينوں كى كاشتكارى بھى اپنے ذمہ لي _ اپنى كاشتكارى كى زحمت كى اجرت وہ پيغمبر اسلام (ص) سے وصول كرتے تھے، (سورہ حشر آيت) كے پيش نظر اس كى طرف توجہ كرتے ہوئے يہ زمينيں پيغمبر اسلام (ص) كى ملكيت خاص تھيں _ ان كى آمدنى كو آپ (ص) اپنے مصرف ميں لاتے تھے يا ان مدات ميں خرچ كرتے تھے جن كى طرف اس سورہ كى آيت نمبر7 ميں اشارہ ہوا ہے _

لہذا پيغمبر (ص) نے يہ سارى زمينيں اپنى بيٹى حضرت فاطمة الزہرا سلام اللہ عليہا كو عنايت فرما ديں_ يہ ايسى حقيقت ہے جسے بہت سے شيعہ اور اہل سنت مفسرين نے تصريح كے ساتھ تحرير كيا ہے _منجملہ ديگر مفسرين كے تفسير در المنثور ميں ابن عباس سے مروى ہے كہ جس وقت آيت (فات ذاالقربى حقہ) (1) نازل ہوئي تو پيغمبر (ص) نے جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا كو فدك عنايت فرمايا:

كتاب كنزالعمال جو مسند احمد كے حاشيہ پر لكھى گئي ہے، ميں صلہ رحم كے عنوان كے ماتحت ابو سعيد خدرى سے منقول ہے كہ جس وقت مذكورہ بالا آيت نازل ہوئي تو پيغمبر (ص) نے فاطمہ سلام اللہ عليہا كو طلب كيا اور فرمايا:

'' يا فاطمة لك فدك'' ''اے فاطمہ (ع)  فدك تيرى ملكيت ہے''_

حاكم نيشاپورى نے بھى اپنى تاريخ ميں اس حقيقت كو تحرير كيا ہے_

ابن ابى الحديد معتزلى نے بھى نہج البلاغہ كى شرح ميں داستان فدك تفصيل كے ساتھ بيان كى ہے اور اسى طرح بہت سے ديگر مورخين نے بھي، ليكن وہ افراد جو اس اقتصادى قوت كو حضرت على عليہ السلام كى زوجہ محترمہ كے قبضہ ميں رہنے دينا اپنى سياسى قوت كے لئے مضر سمجھتے تھے، انہوں نے مصصم ارادہ كيا كہ حضرت على عليہ السلام كے ياور و انصار كو ہر لحاظ سے  كمزور اور گوشہ نشيں كرديں_

حديث مجہول (نحن معاشر الانبياء ولا نورث) كے بہانے انہوں نے اسے اپنے قبضہ ميں لے ليا اور باوجود يكہ حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا  قانونى طور پر اس پر متصرف تھيں اور كوئي شخص ''ذواليد'' (جس كے قبضہ ميں مال ہو) سے گواہ كا مطالبہ نہيں كرتا، جناب سيدہ سلام اللہ عليہا سے گواہ طلب كيے گئے _

بى بى نے گواہ پيش كيے كہ پيغمبر اسلام (ص) نے خود انہيں فدك عطا فرمايا ہے ليكن انہوں نے ان تمام چيزوں كى كوئي پرواہ نہيں كي_ بعد ميں آنے والے خلفاء ميں سے جو كوئي اہلبيت سے محبت كا اظہار كرتا تو وہ فدك انہيں لوٹا  ديتا ليكن زيادہ دير نہ گزرتى كہ دوسرا خليفہ اسے چھين ليتا اور دوبارہ اس پر قبضہ كر ليتا _ خلفائے بنى اميہ اور خلفائے بنى عباس بارہا يہ اقدام كرتے رہے _

واقعہ فدك اور اس سے تعلق ركھنے والے مختلف النوع حوادث جو صدر اسلام ميں اور بعد كے ادوار ميں پيش آئے، زيادہ دردناك اور غم انگيز ہيں اور وہ تاريخ اسلام كا ايك عبرت انگيز حصہ بھى ہيں جو محققانہ طور پر مستقل مطالعہ كا متقاضى ہے تا كہ تاريخ اسلام كے مختلف حوادث نگاہوں كے سامنے آ سكيں_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ اہل سنت كے نامور محدث مسلم بن حجاج نيشاپورى نے اپنى مشہور و معروف كتاب  ''صحيح مسلم''  ميں جناب فاطمہ (سلام اللہ عليہا) كا خليفہ اول سے فدك كے مطالبہ كا واقعہ تفصيل سے بيان كيا ہے، اور جناب عائشہ كى زبانى نقل كيا ہے كہ جناب فاطمہ كو جب خليفہ اول نے فدك نہيں ديا تو بى بى ان سے ناراض ہوگئي اور آخر عمر ان سے كوئي گفتگو نہيں كي_ (صحيح مسلم،كتاب جہاد ج3ص1380حديث 52) ''نحن معاشر الانبياء لا نورث''

اہل سنت كى مختلف كتابوں ميں پيغمبراسلام (ص) كى طرف منسوب ايك حديث موجود ہے جو اس طرح كے مضمون پر مشتمل ہے:

''نحن معاشر الانبياء لا نورث ما تركناہ صدقة''

''ہم پيغمبر(ص) لوگ اپنى ميراث نہيں چھوڑتے جو ہم سے رہ جائے اسے راہ خدا ميں صدقے كے طور پر خرچ كر ديا جائے''_

اور بعض كتابوں ميں ''لا نورث'' كا جملہ نہيں ہے بلكہ''ما تركناہ صدقة'' كى صورت ميں نقل كيا گيا ہے _

اس روايت كى سند عام طور پر ابوبكر تك جا كر ختم ہوجاتى ہے جنھوں نے آنحضرت (ص) كے بعد مسلمانوں كى زمام امور اپنے قبضے ميں لے لى تھي_ اور جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا يا پيغمبر اكرم (ص) كى بعض بيويوں نے ان سے پيغمبر (ص) كى ميراث كا مطالبہ كيا تو انھوں نے اس حديث كا سہارا لے كر انھيں ميراث سے محروم كرديا_

اس حديث كو مسلم نے اپنى صحيح (جلد 3 كتاب الجھاد والسير ص1379) ميں، بخارى نے جزو ہشتم كتاب الفرائض كے صفحہ 185 پر اور اسى طرح بعض ديگر افراد نے اپنى اپنى كتابوں ميں درج كيا ہے_

يہ بات قابل توجہ ہے كہ مذكورہ كتابوں ميں سے بخارى ميں بى بى عائشہ سے ايك روايت نقل كى گئي ہے: فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا اور جناب عباس بن عبد المطلب (رسول (ص) كى وفات كے بعد ) ابو بكر كے پاس آئے اور ان سے اپنى ميراث كا مطالبہ كيا _ اس وقت انھوں نے اپنى فدك كى اراضى اور خيبر سے ملنے والى ميراث كا مطالبہ كيا تو ابوبكر نے كہا ميں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا_

''ہم ميراث ميں كوئي چيز نہيں چھوڑتے، جو كچھ ہم سے رہ جائے وہ صدقہ ہوتا ہے''_

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا نے جب يہ سنا تو نا راض ہو كر وہاں سے واپس آگئيں اور مرتے دم تك ان سے بات نہيں كي_

حوالہ جات:

(1) سورہ روم ايت 38


source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=116834
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
نجف اشرف
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
اذان ومؤذن کی فضیلت
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
نیکی اور بدی کی تعریف

 
user comment