اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

شہروں کے بسنے اور ان کے ناموں کی تبدیلی میں اسلامی تہذیب کا کردار

Written by حميدرضا ميرمحمدى   

Wednesday, 19 May 2010 06:44

اسلام فقط جزیرة العرب میں ہی محدود نہیں رہا بلکہ اس نے جزیرة العرب کے باہر بھی سماج کی سیاسی، اقتصادی اور اجتماعی زندگی کی تبدیلی میں عمدہ کردار ادا کیا، حقیقت میں اسلامی آئیڈیولوجی، نے تہذیب اور تمدن کو شکوفا کرنے کی راہیں ہموار کی اس طرح دیہاتوں او شہروں میں لوگوں کی زنگی کے مختلف پہلووں میں انقلاب برپا کردیا۔ کتنی جگہیں ایسی تھیں کہ جو اسلام کے ظہور اور پھیلاؤکے بعد تبدیل ہوگئیں گویا ان کو نئی زنگی مل گئی ہو،کتنے ایسے القاب ہیں کہ جن کو اسلامی تہذیب نے بہت سے 

مقامات کو عطا کئے جیسے زیارتگاہ، امامزادہ، شہید، پیر، قدمگاہ وغیرہ۔

 یہ تمام چیزیں ان جگہوں کے نام رکھنے میں اسلام کی تاثیر کا پتہ دیتی ہیں، ہم نے دوسرے مقالہ میں ان مقامات کی طرف اشارہ کیا ہے جو ایران میں مشہد کے لقب سے ملقب ہیں(۱) اس مقالہ میں ہماری غرض یہ ہے کہ ہم اسلام کی تاثیر کو عمارتوں کی طرز، آبادیوں کو القاب دینے اور ان کے نام رکھنے میں جستجو کریں۔

مجموعی طور پر آبادیوں کی تہذیب میں سلام کی تاثیر کو چند مجموعوں میں تقسیم کرتے ہیں:

الف: اسلام کے جدید شہر جو اسلام ہی سے مخصوص نہیں تھے بلکہ عالمگیر تھے اور یہ عالمگیری شہروں ہی کے اندر تھی اور ان ہی سے وسعت پائی، اسلام کی ترقّی کی تاریخ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی وجہ سے بڑے بڑے شہر وجود میں آئے کہ جنھوں نے ہر حیثیت سے اسلام کے مرکزی شہروں کو سربلند کیا، ان کے علاوہ دوسرے چھوٹے بڑے شہر بھی اسلام کے قلمرو میں داخل ہوئے(۲) مجموعی طور پر وہ شہر جو اسلام کے زمانے میں بنائے گئے، دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں:

۱۔ وہ شہر کہ جن کی پیدائش کا سبب زیارتگاہ یا اُن میں اسلام کے بزرگ پیشواؤں کی قبور کا واقع ہونا تھا، جیسے مشہد، کربلا اور نجف اشرف ان جیسے شہروں میں زیارتگاہ یا روضہ کا وجود، شہر کا قلب اور اس کی پہچان کا ذریعہ اور اس کے پھیلنے کا سبب سمجھا جاتا ہے، ایسے شہروں میں مختلف زیارت گاہیں شہر کے نقشے میں اُبھرتی ہیں اور عمومی طور پر پورے شہر کو اپنی طرف جلب کرتی ہیں ایسی زیارتگاہیں عموماً شہر کے مرکز میں واقع ہوتی ہیں اور اس کے چاروں طرف شہر کا دوسرا حصہ ہوتا ہے جو تقریباً زیارتگاہ سے مساوی فاصلے پر ہوتا ہے(۳)                                                                                                                           اس طرح شہر کے عمدتاً شیعوں کی طرف سے بنائے جاتے تھے اور یہ حکومت کے خلاف کام کرتے اور حکومت کو پریشانیوں اور مشکلات میں مبتلا کرتے تھے، اسی طرح کے شہروں میں کربلا کو بطور نمونہ پیش کیا جاتا ہے، یہ سزمین سن ۶۱/ ہجری تک ایک بے آب وگیاہ بیابان تھا لیکن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد تدریجاً یہاں پر شیعہ آباد ہونے لگے اور آج یہ شہر دینا کے مہم شہروں میں شمار ہونے لگا ہے، ”اخبار طوال“ میں کربلا کے متعلق اس طرح بیان ہوا ہے: حر اور اس کا لشکر امام حسین علیہ السلام کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور آپ کی پیش قدمی سے مانع ہوا اور کہا: آپ یہیں پر اتریں کیونکہ یہ علاقہ نہر فرات سے نزدیک ہے، امام نے فرمایا: اس اس زمین کوکیا کہتے ہیں؟ جواب دیا: کربلا، آپ نے فرمایا: یہ سرزمین مصیبتوں کی سرزمین ہے میرے والد بزرگواربھی جنگ صفین کی طرف جاتے ہوئے یہاں سے گزرے تھے اور میںبھی ان کے ساتھ تھا انھوں نے پوچھا تھا کہ اس کا کیا نام ہے، جب نام بتایاگیا تو انھو نے فرمایا تھا کہ یہ سرزمین میرے بیٹے حسین کی منزل گاہ اور اس کے خون بہانے کی جگہ ہے، جب ان سے اس بات کے معنی دریافت کئے گئے تو فرمایا: محمد مصطفی کے خاندان کا ایک گروہ یہاں پر وارد ہوگا، اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے حکم دیا یہیں پر خیمے نصب کئے جائیں، یہ محرم ۶۱/ ہجری کا بدھ کا دن اور پہلی محرم تھا اور آپ دس محرم کو شہید ہوئے(۴) اس شہر کے ایجاد کرنے میں آپ کے مرقد مطہر کا توسعہ سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔                                              ۲۔ وہ شہر جو اسلامی دوران میں بنائے گئے لیکن ان کے وجود کا سبب اسلام کے بزرگ پیشواؤں کی قبور اور زیارتگاہ نہیں تھا البتہ اسلام کے بعد مسلمانوں کے ہاتھوں وجود میں آئے، اسلام کے بعد سب سے پہلے جو شہر وجود میں آئے وہ ایسے شہر تھے جو اسلامی فوجی چھاؤنی اور مہاجرین کی پناہ گاہ کے لئے بنائے گئے تھے، ان میں بہت سے شہر پہلے تو چھوٹے تھے، بعد میں بڑے ہوتے چلے گئے اور دیکھتے دیکھتے انھوں نے بڑے شہروں کی جگہ لے لی، قاہرہ کو انھیں شہروں میںشمار کیا جاسکتا ہے ، یہ شہر پہلے تو دریائے نیل کے کنارے قسطاط نام سے چھاؤنی کے طور پر بنیا گیا تھا، یونانی اور لاتین میں چھاؤنی کو fassatnou (وہ جگہ جو خندق سے محاصرہ کی گئی ہو) کہتے ہیں(۵) آج قسطاط قاہرہ سے ۵/۲ کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے نیل کے داہنی کنارے واقع ہے اور یہ قاہرہ کے بڑے محلوں میں شمار ہوتا ہے، اس شہر کا بانی عمروبن عاص فاتح مصر ہے(۶)  

 دوسرا شہر بصرہ ہے جو عمربن خطّاب کے زمانے میں بنایاگیا اس کے تین سال بعد سن ۱۵ یا۱۷/ میں کوفہ سعد بن ابی وقاص کے ہاتھوں بسایا گیا(۷)، سن ۱۷ مطابق ۶۳۹ عیسوی میں بغیر کسی شک وتردید کے کوفہ کا وجود عربوں کی عراق کے اوپر فتح کا پتہ دیتا ہے اور شہروں کے بنانے کایہ سلسلہ مسلمانوں کا عراق کے اوپر پوری طرح مسلط ہونے کے بعد شروع ہوا، ساسانیوں کی بچی کھچی طاقت کو ایران کے بیابانوں کے طرف دھکیل کر جلولا اور مدائن کو فتح کیا اس طرح انھوں نے پورے ”سواد“ پر قبضہ کرلیا،اس کے بعد ان کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ فتح شدہ شہروں کے اطراف میں ایک جگہ دارالہجرہ کے نام سے بنائی جائے تاکہ وہاں مہاجرین پناہ گزین ہوسکیں اور وہ دشمن کے مقابلے کے لئے فوجی چھاؤنی بن سکے(۸) اسلام کے بعد وجود مےں آئے سات بڑے شہروں میں ”رملہ“ کا چوتھا مقام ہے، شہر ”رام الله“ اموی دوران خلافت کے دوسری صدی ہجری میں خلیفہ سلیمان بن عبدالملک (۹۹۔۹۷ھ ق) کے زمانے میں تاسیس ہوا یہ شہر بیت المقدس سے دریا کی طرف جانے والے راستے پر واقع ہے، مسلمانوں کے نزدیک بیت المقدس کی اہمیت کے علیٰ رغم یہ جدید شہر تھوڑی ہی مدت میں ایک مہم شہر بن گیا اور اس کا شمار فلسطین کے بڑے شہروں میں شمار ہونے لگا، کہا جاتا ہے کہ” رام الله“ کا پرانا نام ”راملہ“ یا ”آرملہ“ تھا(۹) پانچواں شہر عراق کا واسط شہر اس کو حجاج نے سن ۸۳ یا ۸۴ میں احمد بن یحییٰ کے قول کے مطابق بنایا تھا، اس نے اس شہر میں ایک مسجد، محل اور سبز گنبد بنائی اور چونکہ یہ جگہ پہلے نے زار تھی لہٰذا اس کو ”واسط النصب“ کا نام دیا گیا، چھٹا شہر مدینة السلام ہے اس کی تاسیس ابو جعفر منصور دوانقی کی طرف منسوب ہے (ابوجعفر کا مدینہ) بغدا د کے مغرب میں سن ۱۴۵ھ ق میں بننا شروع ہوا اور ۱۴۶ ھ ق میں مکمّل ہوا اس کو مدینة السلام کا نام دیا گیا، ساتواں شہر ”سُرَّمَن رای“ ہے جس کو خلیفہ معتصم عباسی نے بنایا(۱۰) ان میں سے بہت سے شہر، پرانے شہروں کے پاس بطور قلعہ اور فوجی چھاؤنی کے لئے بنائے گئے تاکہ اسلامی مقاصد میں کام آسکیں۔ اسلام کی کی وسیع حکومت بہت سے جدید شہروں کے ایجاد کا بھی سبب بنی، ان میں سے بغداد کو خلفاء عباسی کی سیاست اور روحانیت کے مراکز کے بطور پیش کیا جاسکتا ہے، جیہانی ”اشکال العالم“ میں لکھتا ہے: بغداد اسلام کا نیا شہر ہے یہاں پر کوئی عمارت نہیں تھی ، ابوجعفر منصور دوانقی نے اس کو دجلہ کے کنارے اپنے ہوالی موالی اور خادموں کے لئے بنایا اس کے بعد اس میں عمارتیں بنائیںگئیں، اس کے بعد مہدی عباسی نے دجلہ کے مشرق میں اپنی فوجی چھاؤنی بنائی اور دارالخلافہ کو یہاں پر منتقل کیا(۱۱) دوسری صدی ہجری میں مراکش کے فاس کے شہر اور تیسری صدی ہجری میں فققاز کے گنجہ کے شہر کو آباد کرنے کی بھی نسبت مسلمانوں کی طرف دی جاتی ہے۔

  ب: وہ آبادیوں کا مجموعہ جو ابتدا میں مسلمانوں کے ہاتھوں تو نہ بنایا گیا لیکن مرور ایام کے ساتھ دینی پیشواؤں کا مدفن ہونے کی وجہ سے پھیلتا چلا گیا مسلمانوں نے اس کی آبادی کو بڑھایا اور اکثر کا بھی نام بدل دیا، اس کا واضح نمونہ ایران کے مازندران صوبے میں واقع آستانہ اشرفیہ کا شہر اور مرکزی صوبے میں واقع شہر آستانہ قرار پاسکتے ہیں۔

اس کی وضاحت اس طرح ہے: آستانہ اشرفیہ کا پہلا نام ”کوچان“تھا آج یہ شہر، چھوٹے شہروں کا مرکز ہے، مقامی تلفظ میں اس کو ”پیلہ آسونہ“ کہتے ہیں، کاشانی نے تاریخ الجایتو میں اس کا نام ”کوچیان“ بتایا ہے، دوسرے احتمال بھی اس کی طرف منتہی ہوتے ہیں، آقا سید حسن یا سید ابراہیم معروف یہ سلطان جلال الدین اشرف علیہ السلام امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے فرزندارجمند کے دفن کے بعد آہستہ آہستہ ”کوچیان“ کا نام بھلادیا گیا اور آستانہ اشرفیہ کا نام رائج ہوگیا (رابینو نے بھی اس کا نام آستانہ ہی بتایا ہے اور اس کے بارے وضاحت بھی کی ہے اس کے قول کے مطابق ریشم کی فصل کے اٹھنے کے موسم میں لوگ پورے ایران سے زائرین اس زیارتگاہ کی طرف آتے تھے وہ بڑا بازار جو اس شہر میں بنایا گیا ریشم کا کاروبار کرنے والوں کے لئے فائدہ کا ایک بڑا مرکز تھا(۱۲)

مرکزی صوبے میں آستانے کا قدیم نام ”کرج“ تھا ، ۹۰۸ھ ق میں شاہ اسماعیل صفوی نے سلطان مراد بایندری (یہ شخص حکومت کا مدعی تھا) کو شکست دی اس فتح کی خوشی میں حکم صادر کیا کہ کرج میں واقع آستانہ امامزادہ ”سہب بن علی“ کو اچھی طرح تعمیر کرایا جائے اور اس میں ایک بڑا گنبد اور زیارتگاہ بنائی جائے، اس وقت سے شہر کرج کو آستانہ کہا جانے لگا، آستانہ کا نام ”بویین کرج“ تھا اس کو ”بویین کرہ“ بھی کہتے تھے، اس شہر نے مامون اور امین کی جنگ کے دوران کے غیر جانبداری کا اعلان کیا تھا اور یہ ہی اس کی ویرانی کا سبب ہوا ، اس کا بچا کھچا حصّہ مغلوں کے حملے میں ویران ہوگیا، بویین کرہ کی ویرانی کے بعد اس کے کچھ رہنے والوں نے کرج (جو تہران کے نزدیک ہے) کو آباد کرلیا اور کچھ دوسروں نے بویین زہرا نامی شہر بنالیا اور کچھ لوگوں نے ادریس آباد (شاہ زند) کو بطور سکونت اختیار کیا(۱۳)

ج: آبادیوں کا ایک دوسرا مجموعہ لوگوں کے مذہبی اعتقادات کے سبب یاکسی مہم حادثہ کے زیر اثر مسلمانوں کی توجہ کا مرکز قرار پایا، اس کا واضح نمونہ آخری چند دہائیوں میں صوبہٴ یزد میں واقع ابوالفضل نامی شہر ہے اس شہر کی بنیاد۱۳۵۳ھ ش میں حضرت ابوالفضل العباس کے مبارک نام پر ایک مسجد کی تعمیر کے ذریعہ ڈالی گئی اگرچہ یہ شہر یزد ، بندر عباس اور کرمان کی سرحدوں پر واقع ہونے کی وجہ سے بہت سے امتیازات کا حامل ہے لیکن حقیقت میں اس شہر کی بنیاد کا راز وہ ہی حضرت عباس علیہ السلام کےنام نامی پر بنائی گئی مسجد ہے، یہ مسجد سیّاحوں خصوصاً بھاری گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے لئے بہت سے زیادہ عقیدت کی حامل ہے، کیونکہ بہت زیادہ جستجو کے بعد یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اس مسجد سے پہلے اس جگہ پر ابادی کا کوئی وجود نہ تھا ، مشہور ہے کہ ابوالفضل العباس علیہ السلام کے معتقد ڈرائیور نے ایک حادثہ میں جان بچنے کے سبب آپ کے نام پر ایک مسجد کی تعمیر کا ارادہ کیا اس کار خیر میں کچھ خیّرین نے بھی اس کی مدد کی ، آخرکار ایران کے بیابان کے قلب میں جہاں ظاہراً آبادی کا کوئی نام ونشان نہ تھا کوئی مناسب عمارت بھی نہیں تھی ایک مسجد وجود میں آگئی دیکھتے ہی دیکھتے بڑی تیزی کے ساتھ ترقی ہونے لگی اور یہاں پر ایک چھوٹا سا شہر بس گیا(۱۴)

ایسی ہی آبادیوں کا ایک نمونہ کہ جو مومنین کے اعتقاد کی وجہ سے موجود میں آئیں اور وسیع ہوئی، صوبہ اصفہان میں واقع شہر ”نجف آباد“ ہے اس کا قصّہ یہ ہے کہ شاہ عباس صفوی نے تقریباً ۱۰۲۳ھ ق میں کچھ پیسہ اور جواہرات حضرت علی علیہ السلام کی بارگاہ کے لئے نجف اشرف بھیجنے کا ارادہ کیا، شیخ بہائی اس ارادہ سے مطلع ہوتے ہیں، وہ چونکہ معتقد تھے کہ پیسے کا اتنا بڑا ذخیرہ کا ملک سے باہر جانا ملک کی مصلحت کے منافی ہے ، لہٰذا وہ بادشاہ کو اس ارادہ سے منصرف کرنے کے لئے ایک تدبیر سوچتے ہیں اور بادشاہ سے کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں حضرت علی علیہ السلام کی زیارت کی ہے ا نھوں نے فرمایا ہے کہ نجف کو تمھاری اس جواہرات کی ضرورت نہیں ہے اس کو نجف آباد نامی شہر بسانے میں اور اس میں عمارتیں بنوانے میں خرچ کرو، شاہ عباس اس بات کو قبول کرلیتا ہے اور اس شہر کی عمارتیں بنوانے کا حکم صادر کردیتا ہے اور تاکید کرتا ہے کہ اس کا نام نجف آباد رکھا جائے(۵)

ایسا ہی آبادیوں کا ایک نمونہ کہ جو مومنین کے مذہبی اعتقاد کی وجہ سے بسائی گئیں لرستان صوبہ میں واقع امامزادہ قاسم کی بستی بنام ”جاپلق“ ہے یہاں پر امامزادہ قاسم اور امامزادہ زید کے مقدس مزارات ہیں یہ بستی ”ازنا“ شہر سے ۳۰/ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے، یہ بستی اس سے پہلے ”کندہ سفید“ نام سے موسوم تھی اور اس کا جائے وقوع ”ازنا“ شہر سے ”شازند“ جانے والے راستے میں ایک سرسبز جنگل میں تھا جو اس وقت ”الیگودرز“ نامی شہر کا ایک دیہات شمار ہوتا تھا، اہل بستی کے کہنے کے مطابق سید احمد المدنی مقلب بہ میر نظام الدین اپنے بیوی بچوں کے ساتھ امام علی بن موسی الرضاکی زیارت کی غرض سے ایران آتا ہے ایک منزل بنام ”کندہ سفید“ پر یہ چھوٹا سا قافلہ آرام کرتا ہے رات کو سید احمد اُن کے خواب میں ایک بزرگ آتے ہیں اور اپنے آپ کو امام حسن علیہ السلام کے فرزند کے عنوان سے پہچنواتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اس جگہ دفن ہوں اور میرے برابر میں امام کے فرزندوں میں ایک قاسم بن زید نامی فرزند بھی دفن ہیں یہ بزرگ قبروں کے نشانات کو دکھانے کے بعد کہتے ہیں کہ تم اپنے جدّ کی قبر کی تعمیر کراؤ، سید احمد مدنی خواب کے اس واقعہ کو اپنے ساتھیوں کو بتاتا ہے اور اس جگہ کو مناسب جائے سکونت ہونے کی وجہ سے اپنا محل سکونت اختیار کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے لہٰذا سید احمد مدنی (میرنظام الدین) اس گاؤں کو خرید لیتا ہے اوراپنے اجداد کی قبروں کو کھود کر جنازوں کو کہ جو اہل بستی کے قول کے مطابق بالکل تازہ تھے، مناسب جگہ دفن کردیتا ہے، اس وقت یہ مقدس اور متبرک بارگاہ جغرافیائی اعتبار سے امامزادہ قاسم کے نام سے مشہور ہے(۱۶)

د: آبادیوں کا ایک مجموعہ وہ شہر یا دیہات ہیں کہ یا تو اسلام کے بعد ان کا نام بدل دیا گیا یا کوئی خاص لقب دے یا گیا، انھی شہروں میں سے ایک شہر ”یثرب“ ہے کہ اسلام کے بعد جس کا نام مدینہ ہوگیا، پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کی سیرت طیّبہ میں اس طرح آیا ہے کہ آپ شہروں کے برے ناموں کو پسند نہ فرماتے تھے اور ان کا نام بدل دیتے تھے (ان رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کان یغیر الاسماء القبیحہ فی ․․․البلدان) مثلاً آپ نے ہجرت کے بعد یثرب کا نام مدینہ رکھ دیا(۱۷) مدینہ کاپہلا نام طیبہ تھا، بہت زیادہ بارشوں نے اس شہر کی آب وہوا کو گوارا اور مناسب بنادیا تھا لہٰذا مقامی لوگوں نے اس سرزمین کا نام طیبہ (پاک وپاکیزہ) انتخاب کیا تھا لیکن غیر مقامی عرب لوگ کہ جو خشک اور بیابانی ہوا کے عادی ہوچکے تھے اور زیادہ بارش کی وجہ سے پریشان ہوجاتے تھے انھوں نے اس کا نام یثرب (اذیت دینے والا) رکھ دیا تھا ، پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) بھی اس میں ہجرت کے بعد یہاں کی مرطوب ہوا کی وجہ سے مریض ہوگئے تھے جس سے آپ کو اذیت بھی ہوئی تھی لیکن آپ نے اس کا نام ”مدینہ “ (شہر) رکھ دیا (۱۸) عثمان بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ خداوندعالم نے مدینہ کو ”الدار والایمان“ کہا ہے (۱۹) ابراہیم بن ابی یحییٰ سے روایت ہے کہ توریت میں مدینہ کے گیارہ نام ذکر ہوئے ہیں: ۱۔مدینہ ، ۲۔طیبہ، ۳۔طابہ، ۴۔المسکینہ، ، ۵۔جابرہ، ۶۔المجبورہ، ۷۔المرحومہ، ۸۔العذراء، ۹۔المحبہ، ۱۰۔المحبوبہ،۱۱۔العاصمہ، زید بن اسلم سے روایت ہے کہ رسول خدا (صلی الله علیه و آله وسلم) نے فرمایا : مدینہ کے دس نام ہیں(۲۰)قرآن مجید میں مکہٴ مکرّمہ کو”ام القریٰ“ اور ”البلدا منا“ کے لقب سے یاد کیا ہے، سورہٴ مبارکہ ”شوریٰ“ کی ساتویں آیت میں مکہ مکرمہ کو ”ام القریٰ کا لقب دیا گیا ہے <وَکَذَلِکَ اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لِتُنْذِرَ اٴُمَّ الْقُرَی وَ․․․>” اسی طرح ہمنے تمھاری طرف عربی قرآن کی وحی نازل کی تاکہ تم ام القری (مکہ میں رہنے والوں) کو ڈراؤ، سورہٴ مبارکہ ابراہیم کی ۳۵ ویں آیت میں ارشاد ہورہا ہے: <وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ رَبِّ اجْعَلْ ہَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَ․․․․>

قابل ذکر ہے کہ ایران میں بھی القاب اور عناوین دینا رائج تھا گذشتہ چند دہائیوں میں ایران کے۶۶/ شہروں کے نام بدلے گئے اور بہت سے شہروں کو نئے لقب دیئے گئے ، شورای عالی انقلاب فرہنگی نے تصویب کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے شہر، ظاہری اور باطنی لحاظ سے اسلامی تہذیب کی تاریخ اور جغرافیہ کے نومنے ہونا چاہیے لہٰذا اس قانون کو جاری کرنے کے لئے نام دینے والے تمام افسروں سے کہا گیا ہے شہروں کے نام رکھتے ہیں حتی المقدور اسلامی تہذیب کی ایرانی یا دوسرے ملکوں کی بڑی تاریخی شخصیتوں کے ناموں سے استفادہ کیا جائے ، اسلامی انقلاب کے بعد بہت سے شہروں کے نام کی تبدیلی بھی اسی پروگرام کے تحت عمل میں آئی ہے جیسے ”رضائیہ“ کو ”اورمیہ“ ، ”شاہ آباد غرب“ کو ”اسلام آباد غرب“، ”شاہ رود“ کو ”امام شہر“، ”شاہی“کو ”قائم شہر“،”ہمایوں شہر“ کو ”خمینی شہر“، ”شہشوار“ کو ”تنکابن“، ”بندرشاہ“ کو ”بندرترکمن“، ”آریا شہر“، (یزد) کو” آزاد شہر“ وغیرہ کہا جانے لگا (۲۱) بہت سے القاب اور عناوین جو شہروں کے دئے گئے ہیں وہ بھی ملک ایران کے اسلامی تہذیب سے متاثر ہونے کے کی حکایت کرتے ہیں، جیسے قم کا لقب دارالایمان اور دارالمومنین، یزد کا لقب ”دارالعبادہ“ اردستان کا لقب دارالعرفان وغیرہ، یا وہ القاب جو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد بہت سے شہروں کو دیئے گئے، جیسے قم کو شہر خون وقیام یا شہر علم واجتہاد، خرم شہر کو خونین شہر، دزفول کو شہر حماسہ و ایثار کا لقب دیا گیا۔

مذکورہ آبادیوں کے علاوہ ظہور اسلام کے بعد بہت سے شہر ایسے ہیںجن میں ردّوبدل واقع ہوئی یا ان کی آبادی میں اضافہ ہوا، جیسے نیشاپور، غزنین، اصفہان، بلخ، ری، ہمدان، بخارااور یزد ، ان شہروں کی آبادی اور رونق، اسلام کی مرہون منت ہے۔

حوالے:

۱۔ میر محمد، حمید رضا ”پژوہشی برمکانہای ملقب یہ مشہد در ایران“ فصل نامہ، مشکوٰة،شمارہٴ ۴۸،پائیز۱۳۷۴، ص۶۴

۲۔ موٴمنی، مصطفی، ”سرچشمہ ہائے جہان بینی وآئین شہرسازی ایرانی اسلامی“ فصل نامہ، تحقیات جغرافیائی،شمارہ، ۳۳، تابستان ۱۳۷۳، ص۲۸

۳۔سعید ی رضوانی، عباس، بینش اسلامی وپدیدہ ہای جغرافیائی، بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی، ۱۳۶۸، ص۱۲۲

۴۔دینوری ابوحنیفہ احمد بن داؤد، اخباالطوال، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، نشر نی ۱۳۷۱، ص۲۹۹، ونیز جہت وجہ تسمیہ کربلا، ملاحظہ ہو ”معجم البلدان“ یاقوت حموی، ج۴، ص۴۴۵

۵۔قاموس، ج۵

۶۔جیہانی، ابوالقاسم اشکال العالم ترجمہ علی بن عبدالسلام کاتب، شرکت بہنشر (آستانہ قدس رضوی) ۱۳۶۸، ص۹۶

۷۔حموی، یاقوت، معجم البلدان، ج۴، دار بیروت، ۱۴۰۸ھ ق، ۱۹۸۸ عیسوی، ص۴۹۱، یاقوت کہتا ہے کہ کوفہ بصرہ کے بعد بسایا گیا یعنی دوسال بعد سن ۱۹ ہجری میں بہت سے کہتے ہیں سن۱۸ ہجری میں

۸۔ہشام، محیط، کوفہ، پیدائش شہر اسلامی، ترجمہ ابوالحسن سروقد مقدّم، بنیاد پژوہشہای اسلامی، آستانہ قدس رضوی ،۱۳۷۲، ص۹

۹۔بار تولد،فرہنگ وتمدن مسلمانان، ترجمہ علی اکبر دیانت، تبریز، ابن سینا، ۱۳۳۷، ص۴۰

۱۰۔دیکھیں: حاشیہ ۲۸۔۲۷ محمد ابراہیم آیتی بہ نقل از التبیہ والاشراف مسعودی، ص۳۱۲ اور ۳۱۱ ابی یعقوب احمد کی کتاب البلدان میں ترجمہ محمد ابراہیم آیتی، بنگاہ ترجمہ ونشر کتاب ۱۳۴۷

۱۱۔اشکال المعالم، ص۹۸

۱۲۔موسوی بجنوردی، کاظم (زیرنظر) دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۱،۱۳۶۸، ص۳۵۱ 

۱۳۔محتاط محمد رضا، سیمای شہر اراک، ج۱، تہران، آگاہ ۱۳۶۸، ص۲۶، مرحوم استاد ابراہیم دہگان کی کتاب ”تاریخ اراک“ سے نقل

۱۴۔پدیدہ ہای جغرافیائی وبینش اسلامی، نمونہ شہرک ابوالفضل، فصل نامہ تحقیقات جغرافیائی شمارہٴ مسلسل ۲۰، بہار۱۳۷۰، ص۱۱ ونیز گزیدہ مقالات جغرافیائی، تالیف شادرواں سعیدی، ص۱۷۵

۱۵۔نوبان مہرالزمان، ”وجہ تسمیہ شہرہا وروستاہا ایران“، ۱۳۶۵، ص۱۲۹، راہنمائی شہرستای ایران، ص۴۳۵ سے نقل

۱۶۔غضنفری، حسین، امامزادہ قاسم، جاپلق لرستان، میراث فرہنگی، شمارہ ۸۶۹، بہاروتابستان ۱۳۷۲، ص۳۸”مجموعی طور سے امامزادہ نام سے ایران میں ۵۶ آبادیاں ہیں“ اسی طرح یہ آبادیاں بھی ہیں جیسے تربت جام کی وجہ تسمیہ احمد جام عارف ملقب بہ زندہ پیل کہ اس جگہ دفن ہونے کی وجہ سے اور جیسے تربت حیدریہ صوبہ خراسان میں پیر روشن دل قطب الدین حیدر کے وہاں دفن ہونے کی وجہ سے

۱۷۔موٴلف کتاب ”ارامگاہ ہای خاندان پاک پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم)“ یاقوت حموی کتاب ”معجم البلدان“ کی ج۸، ص۴۹۸ سے نقل کرتا ہوا کہتا ہے: مدینہ کو یثرب اس وجہ سے کہا گیا چونکہ وہاں پر سکونت کرنے والا سب سے پہلا شخص ”یثرب بن قافیہ بن مہلائیل بن آدم بن عیل بن عوض بن آدم بن سام بن نوح“ تھا جب پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) مدینہ میں تشریف لائے تو آپ نے اس کا نام طیبہ رکھا اور حضور کی تشریف آوری کے ہی سبب سے اس کو مدینة الرسول کہا جانے لگا، دیکھیں کتاب ”خاندان پاک پیامبر (صلی الله علیه و آله وسلم) اصحابہ وتابعین“ میں بنیاد پژوہشہای اسلامی، ص۲۶۳

۱۸۔اسفندیاری، محمد، ”عنوان کتاب وآئین انتخاب آن“آئینہٴ پژوہش، سال اوّل، شمارہ۴، آذر ودی، ۱۳۶۹، ص۱۱

۱۹۔سورہٴ مبارکہ حشر کی آیت۹کی طرف اشارہ 

۲۰۔ابن رستہ، اعلاق النفیسہ، ترجمہ حسین قرہ چانلو، تہران، امیر کبیر، ۱۳۶۵، ص۸۸

۲۱۔وہ شہر جن کے نام بدلے گئے ہیں یہ ہیں: آریا شہر (پولاد شہر)، شاہ پور (سلماس)، بندر شاہ پور، (بندر امام خمینیۺ) شاہین دژ (صایین دژ) بندر پہلوی (بندرانزلی)، دشتیشان (دشت آزادگان) کہک قم (نوفل لو شاتو) شاہ پسند (آزاد شہر)، خسرو شاہ (خسروشہر)، بندرفرحناز (کیاشہر)، سعادت آباد (سعادت شہر)، پہلوی دژ (ننورکردستان)، پہلوی دژ (آق قلعہ۔ مازندران)


source : www.taghrib.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خود شناسی(پہلی قسط)
قرآن کی حفاظت
جھاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
سیاست علوی
قرآن مجید و ازدواج
عید سعید فطر
شب قدر ایک تقدیر ساز رات
آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی
حضرت امام علی علیہ السلام کے حالات کا مختصر جائزہ

 
user comment