اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

دینی مدارس کو در پیش مشکلات اور اُن کا حل

اسلامی دنیا میں دینی مدارس کو جو مرکزی حیثیت حاصل ہے وہ کسی اور ادارے کو حاصل نہیں۔کسی بھی اسلامی ملک کے عوامی حلقوںمیں دینی شعورجتنا زیادہ ہو مدارس کا اثر و رسوخ بھی اتنا ہی زیادہ ہوتاہے۔مدارس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ بعض اوقات ایک دینی مدرسہ بیک وقت کئ ذیلی مدارس ،مساجد،قرآن سنٹرزاورلائبریریوں نیزدینی و سماجی سرگرمیوں کی فعالیت کامرکزہوتاہے۔ جب ہم پاکستان جیسے اسلامی ملک میں قائم شدہ دینی مدارس کی صورت حال پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں اعتراف کرناپڑتاہے کہ یہاں پر دینی مدارس کوعوامی حلقوں میں وہ مرکزی اہمیت حاصل نہیں جو ہونی چاہیے۔ظاہرہے کہ جب کسی بھی مرکزی سطح کے ادارے کومرکزی اہمیت نہ ملے تو عوام پراس کی گرفت ڈھیلی پڑھ جاتی ہے اورلوگوں میں اس کی مقبولیت کا گراف بھی نیچے آجاتا ہے۔ پھرلوگ ایسے اداروں کو معاشرے پر بوجھ سمجھنے لگتے ہیں اور یا پھر انہیں آثار قدیمہ کی متبرک عمارتوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایسا اس لئے بھی ہوتا ہے کہ جو بلڈنگ بھی عصر حاضر کے تقاضوں کا ساتھ نہیں دیتی وہ خود بخود آثار قدیمہ کا حصہ بن جاتی ہے۔

ہم نے پاکستان میں دینی مدارس کی مشکلات کا صحیح اندازہ لگانے اور ان کی مشکلات کا درست حل ڈھونڈنے کی خاطر Book to Book Research Method کے ساتھ ساتھ Mobile Research Method کو بھی اختیار کیا ہے۔ اس طرز تحقیق کو اختیار کرنے کے لئے ہم نے تعلیم و تدریس سے متعلق کتابوں اور مجلوں سمیت Face to face مختلف علمی شخصیات، طلاب کرام اور محققین سے سوالات کر کے ان کے افکار و نظریات ،تجاویز اورخدشات کوبھی جمع کیا ہے۔ ہم نے اپنی طرف سے یہ کوشش کی ہے کہ ہماری یہ تحقیق کسی نہ کسی حدتک صاحبان علم و دانش کے لئے عملی طورپرمفیدثابت ہو ۔ اس ضمن میں ہم نے Source of Research کے طورپرجن افراد سے معلومات جمع کی ہیں.

انہیں مندرجہ ذیل پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

 ۱۔ ایسے دینی طالب علم جو خود تو پاکستان کے کسی دینی مدرسے میں نہیں پڑھے لیکن ایران و عراق کے دینی مدارس میں زیر تعلیم ہیں اور ان کا ہر روز پاکستان سے پڑھ کر آنے والے طالبعلموں سے واسطہ پڑھتاہے۔

۲۔ ایسے طالب علم جو پاکستانی دینی مدرسوں میں بھی زیر تعلیم رہے اوراب ایران یاعراق میں زیرِ تعلیم ہیں۔

۳۔ ایسے طالب علم جو پاکستانی مدارس میں کچھ عرصے کے لئے بطور مدرّس اعزام ہوچکے ہیں۔

۴۔ ایسے طالب علم جو ایران میں زیرِ تعلیم ہیں لیکن پاکستان میں بعض مدارس کے نظام تعلیم سے بھی مربوط ہیں۔

۵۔ ایسے حضرات جو ایران سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستانی مدارس میں مشغول تدریس ہیں یا پھر انہوں نے اپنے مدارس قائم کئے ہوئے ہیں۔ ہماری جمع کردہ معلومات اور اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے دینی مدارس کو کچھ خارجی اور کچھ داخلی مسائل درپیش ہیں ۔

سب سے پہلےہم خارجی مسائل کا ذکر کرتے ہیں بعد میں داخلی مسائل اور آخر میں ان کا حل ذکر کریں گے۔ مدارس دینیہ کو لاحق خارجی مسائل:

۱۔ حکومتی پالیسی مدارس دینیہ کو خارجی طور پر جس سب سے بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ حکومتی پالیسی ہے۔چونکہ حکومتیں مدارس کی طاقت سے آگاہ ہوتی ہیں لہذا حاکمان وقت مدارس کی علمی و افرادی قوت کا زور توڑنے کے لئے مذہبی شخصیات کوبعض اوقات بلیک میل کرتے ہیں، ان کے مالی و جنسی سیکنڈ لز سامنے لاتے ہیں، دینی مدارس کے طلاب کو دہشتگردانہ سرگرمیوں میں مشغول کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار کرتے ہیں اور عوام کے دلوں میں مدارس کا وقار گرانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں ۔جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں ضیاء الحق نے جہاد کے نام پر ایک مخصوص مکتب فکر کے دینی مدارس کو استعمال کیا پھر انہی کے ذریعے مختلف دہشتگرد گروہوں کو منظم کیا اور بعد میں پرویز مشرف نے ضیاء الحق کے پالتو دہشتگردوں کا صفایا کرنے کے بہانے مدارس پر یلغار کی۔ان ساری کاروائیوں سے دینی مدرسے بدنام ہوئے اور لوگ دہشتگردی کو دینی مدارس کے نصاب میں شامل سمجھنے لگے ۔ حالانکہ نہ ہی تو ضیاء الحق کو جہاد اور اسلام سے کوئی ہمدردی تھی اور نہ ہی پرویز مشرف کو اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت درکار تھی۔ دونوں نے اپنے اپنے حکومتی مفادات کے لئے دینی مدارس کے "دینی جذبے" سے سوء استفادہ کیا۔

۲۔ میڈیا کا کردار دینی مدارس کے خلاف منفی ماحول کی تشکیل میں، میڈیا بھی حکومتوں کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ میڈیا پر چھائی ہوئی لابیاں حکومتی خفیہ اداروں کے اشاروں پر ایسے پروگرامز اور فیچرز تیار کر تی ہیں جن سے اصل حقائق چھپ جاتے ہیں اور دینی مدارس پر بدنامی کا دھبہ لگ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ابھی پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے تمام تر واقعات کا تانہ بانہ بالآخر جہادی گروپوں سے اور جہادی گروپوں کا تعلق دینی مدارس کے طلاب سے جوڑا جاتا ہے۔ ہمارے بھولے بھالے لوگ ان ساری باتوں کو سچ سمجھتے لگتےہیں حالانکہ میڈیا کو چاہیے کہ وہ عوام پر واضح کرے کہ سارے دینی مدارس کے طلاب ان دہشت گردانہ گروپوں کا حصہ نہیں ہیں اور جو بیچارے ان گروپوں کا حصہ بنے بھی ہیں وہ سی آئی اے کی سازشوں کے باعث بنے ہیں۔ یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ جیسے دہشت گردی کی کڑیاں دینی مدارس سے جوڑتا ہے اسی طرح سی آ اے سے بھی جوڑے اور لوگوں کو امریکہ ، ملا عمر اور اسامہ بن لادن کے گٹھ جوڑسے آگاہ کرے۔

۳۔ بعض علاقائی و مقامی با اثر شخصیات کا کردار بعض علاقوں میں جب دینی مدارس اپنی دینی سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہیں تو اس علاقے میں موجود بعض بدعنوان عناصر کے مفادات کو زَک پہنچتی ہے اورلوگوں میں بدعات اوراخلاقی وسماجی برائیوں مثلاًرشوت ،شراب خوری ،سیاسی کرپشن،عقائد اسلامیہ میں تحریف وغیرہ کے خلاف شعور پھیلنے لگتاہےاور لوگوں میں بیداری آنے لگتی ہے۔اگر کہیں پر مقامی باثر شخصیات کے دامن پر بدعات یا اخلاقی و سماجی برائیوں کے دحب_ے ہوں تو یہ لوگ مدارس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردیتے ہیں۔

۴۔ عوامی رائے عامہ حکومت، میڈیا اور کرپٹ عناصر عوام کی سادہ لوحی سے بخوبی واقف ہوتے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت سنی سنائی باتوں پر اپنی رائے قائم کر لیتی ہیں۔اس لئے وہ اکثر اوقات عوامی رائے عامہ کو مدارس کے خلاف اکسانے میں مصروف رہتے ہیں، جس سے عوام ایک تو مدارس کے بارے میں ہمدردانہ غور و فکر نہیں کرتے اور دوسرے حکومت یا بدعنوان عناصر کے خلاف مدارس کی پشت پناہی بھی نہیں کرتے۔

۵۔ دینی مدارس میں باہمی رابطے کا فقدان دینی مدارس کے لئے ایک بڑی مشکل ان کے درمیان باہمی رابطے کا فقدان ہے۔ ہمارے ہاں دینی مدارس،دین اسلام کی ترجمانی کے بجائے فرقہ وارانہ تفرقہ وارانہ بنیادوں پرشیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی اور بریلوی وغیرہ میں تقسیم ہیں۔ ایک فرقے کا دینی مدرسہ دوسرے فرقے کے دینی مدرسے سے ایٹم بمب کا سا خطرہ محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سازشی عناصر جب کسی ایک مدرسے کے خلاف کاروائی کا آغاز کرتے ہیں تو دیگر مدارس خاموشی اختیار کئے رکھتے ہیں۔یاپھراپنی مخصوص تنگ نظری اور فرقہ وارنہ سوچ کی بنیاد پر دوسرے فرقے کے مدارس کے خلاف سازشی عناصرکی ممکنہ مدد بھی کرتے ہیں۔ اس کا عملی نمونہ ہم نے پاکستان کی تاریخ میں بارہا دیکھا ہے ۔مثلاً اگر دینی مدارس کا باہمی رابطہ مضبو ط ہوتا تو ضیاء الحق ایک مخصوص مکتب فکر کے دینی مدارس میں دہشت گردی کی تربیت دینے میں کامیاب نہ ہوپاتا ۔چونکہ دینی مدارس کا باہمی رابطہ مضبوط نہیں ہوتااسی لئے وہ آپس میں عدم اعتماد کے بھی شکار رہتے ہیں اور ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے بجائے سیکولر عناصر اور کرپٹ حکمرانوں کے نعروں پر اعتماد کر کے ان کی سازشوں کےشکار ہوجاتے ہیں۔

۶۔ وزارت تعلیم کی پالیسیاں پاکستانی وزارت تعلیم ہمیشہ سے دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی خواہاں ہے۔ جو لوگ وزارت تعلیم میں بیٹھے ہوتے ہیں انہیں خود پتہ نہیں ہوتا کہ دینی تعلیم سے کیا مراد ہے؟ یہ دینی نصاب کو توعصرحاضرسے ہم آہنگ [اپ ڈیٹ] کرنا چاہتے ہیں لیکن خوددینی حوالے سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں۔ انہیں نہ ہی تو دین کی اہمیت اور دینی مدارس کے تعلیمی ڈھانچےکی کچھ خبر ہوتی ہے اور نہ ہی یہ دینی تعلیمی نصاب میں تغیر و تبدیلی کے صحیح مفہوم کو سمجھتےہیں۔ چنانچہ یہ کچھ علماء کی ٹیمیں بناکر انہی کے مشوروں پر منصوبے بناتے رہتے ہیں اور بعد میں ان منصوبوں کو بھی ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔

۷۔ ٹرسٹیز کی صورتحال کچھ جگہوں پریہ دیکھنے میں آیاہے کہ مدارس کو چلانے کے لئے ٹرسٹ بنائے جاتے ہیں ۔بعض اوقات یہ ٹرسٹ ایسے افرادپرمشتمل ہوتےہیں جن کا شعبہ تعلیم سے کسی طرح کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے افراد ٹرسٹ میں اپنی اجارہ داری قائم کر لیتے ہیں اور مدیر مدرسہ کو اپنی پالیسوں کے تحت چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے مدرسے کے قیام کے مقاصد کو نقصان پہنچتا ہے اور اسی طرح بعض مقامات پر جان بوجھ کرمحض فنانس اکٹھاکرنے کے لئے ہر طرح کے افراد کو ٹرسٹ میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ظاہر ہے اس طرح کے ٹرسٹ بنانے سے بڑی بڑی عمارتیں تو بن جاتی ہیں لیکن کو ئی علمی و فکری پیش رفت نہیں ہو پاتی۔

۸۔ عصر جدید کے تقاضے جو مدارس عصر جدید کے تقاضوں سے چشم پوشی کرتے ہیں ان کے طالب علم کسی بھی علمی حلقے میں خصوصاً کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں کے سامنے اپنے آپ کو دینی طالب علم بتانے میں شرم محسوس کرتے ہیں ۔اس طرح کے احساس کمتری میں مبتلا افراداپنی عملی زندگی میں قدم قدم پر مشکلات سے دوچار رہتے ہیں۔یہ افراد عموماً کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کے خلاف کمر کس لیتے ہیں۔ ان کے مدارس میں جو بچہ بھی داخلہ لیتا ہے وہ جلد ہی محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس کا علمی رشد اور ارتقاء رک گیا ہے۔ چنانچہ بہت سے داخلہ لینے والے طالب علم دینی تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں یاپھر ایسے مدارس کا رخ کرتے ہیں جہاں پر دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی ہو جبکہ یہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ بعض طالب علم کسی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لے کر دینی تعلیم کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیتے ۔احساس کمتری میں مبتلا افراد اگر مدارس میں اساتذہ کے مقام تک پہنچ جائیں تو اگروہ خود پرائمری، مڈل، میٹرک یا ایف اے وغیرہ ہوں تو کوشش کرتے ہیں کہ اِن کا طالب علم اُن سے سکول یاکالج کی تعلیم میں ایک آدھ کلاس آگے نہ نکل جائے۔ اسی طرح بعض مدارس میں آج بھی اخبار پڑھنے اور ٹیلی ویژن دیکھنے یا کسی دینی و ملی ریلی وغیرہ میں شرکت کرنے کو وقت کے زیاںکا باعث سمجھا جاتا ہے۔

۹۔علماء سو اورنام نہاد مفکرین کاکردار بہت سارے ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر اپنے چہروں پر دینداری کاماسک چڑھایاہواہوتاہے۔یہ صرف اور صرف اپنے نام و نمود اور رقم بٹورنےکے چکرمیں ہوتے ہیں۔فتویِ بازی اور دین میں بدعات کو فروغ دینا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔اسی طرح بعض حضرات فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ٹھگوں کی طرح اپنے نام کے ساتھ "ڈاکٹر"اور"پروفیسر"لگاکربھی لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ یہاں تک تو دینی مدارس کے خارجی مسائل کا ذکرتھا، آئیے اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے دینی مدارس کے داخلی مسائل کیا ہیں۔

 

۱۔ تعلیمی نظام کی مشکلات مدارس میں مقدمات اور علوم اصلی تو پڑھائے جاتے ہیں لیکن علوم عملی پر خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ مقدمات سے لے کر علوم اصلی سمیت تمام طالب علموں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔ مثلاً جو طالبعلم، ایم۔ اے کر کے مدرسے میں داخلہ لیتا ہے اور جو مڈل پاس کر کے آتا ہے دونوں کے ہاتھ میں ایک ہی کتاب تھما دی جاتی ہے۔ کتابوں کو تبدیل کرنے، مطالب کو نئے انداز میں ڈھالنے یا نئی کتابیں لکھنے کو گویا شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ مدارس کے تعلیمی نظام میں طلاب کی ذہنی سطح کی درجہ بندی کے مطابق اُنہیں تعلیم دینے کا کوئی خاص نظام موجود نہیں۔ جس کے باعث ایک لمبے عرصے تک طلاب قدیم کتابوں کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں اور جب معاشرے میں عملی خدمت انجام دینے کے لئے قدم رکھتے ہیں تو جدید علمی تقاضوں کو نبھانے کے سلسلے میں ان کا ہاتھ خالی ہوتا ہے۔

۲۔ تربیتی نظام کا نہ ہونا ارباب علم و دانش پر واضح ہے کہ مدارس فقط تعلیمی ادارے نہیں ہیں بلکہ تعلیمی و تربیتی ادارے ہیں۔ ایک مدرسے میں تعلیمی نظام بدن کی جبکہ تربیتی نظام روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ تعلیمی نظام کے حوالے سے مدارس کے پاس کسی حد تک ایک لائحہ عمل موجود ہے لیکن تربیتی حوالے سے نمازِ شب، تلاوت قرآن، دعاوں اور مناجات کو ہی کافی سمجھ لیا گیا ہے پھر زیادہ سے زیادہ اخلاقی دروس کا اہتمام کر کے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ طالب علموں کی تربیت ہو رہی ہے حالانکہ تربیت فکری سے بڑھ کر عملی چیز کا نام ہے۔

۳۔ اساتذہ کے تعیّن، ترقی اور علمی رُشد کا انتظام نہ ہونا دینی مدارس کی ساکھ اور فعالیت کو متاثر کرنے والی ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ عام طور پر دینی مدارس کے پاس اساتذہ کے تعیّن، ترقی اور علمی رشد کا کوئی انتظام نہیں۔ اکثر جگہوں پر یہ ہوتا ہے کہ جس شخص نے جو کتاب پڑھی ہوتی ہے وہ بعد میں وہی کتاب پڑھانے لگ جاتا ہے۔ ایسا شخص ممکن ہے کہ "کتاب" تو پڑھا لے لیکن چونکہ بطورِ استاد اُس کی تربیت نہیں ہوئی ہوتی لہذا اُسے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ ایک دینی مدر سے کے استاد کو کن اخلاقی و معنوی اوصاف سے آراستہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ برس ہا برس کی محنت کے باوجود ایسے استاد کے حلقہ درس سے خود اس کی سطح کے طالب علم بھی نہیں نکلتے۔ ایسے اساتذہ کے وجود میں آنے کے باعث ایک تو دیگر طلاب کی علمی ترقی رک جاتی ہے اور دوسرے خود ایسے اساتذہ بھی علمی طور پر ترقی نہیں کر پاتے اور انہی کتابوں کو جن کی تدریس کر رہے ہوتے ہیں لگے لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے تعلیمی سلسلے کوآگے جاری نہیں رکھتے حالانکہ اسلام میں علمی ارتقاء کے رُکنے کا کوئی جواز نہیں۔

۴۔ مدارس کی سماجی سرگرمیاں بعض مدارس تو سماجی سرگرمیوں کو حرام سمجھتے ہیں اور بعض ان سرگرمیوں میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ ان کی طالبات ڈنڈے لے کراسلام آباد کی لال مسجد کے سامنے لوگوں پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔سماجی سرگرمیاں اہم ضرور ہیں لیکن سماج کی تربیت کرنے کی خاطر نہ کہ سماج پر تسلط اور دھونس جمانے کی خاطر۔

 ۵۔ طلاب کے انتخاب کے سلسلے میں مشکلات مدارس کے قیام کے وقت مکمل منصوبہ بندی نہیں کی جاتی جس کی بناپر پنجاب کے اکثر مدارس میں شمالی علاقہ جات کے طلاب ہی نظر آتے ہیں جبکہ مقامی طلاب کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض جگہوں پر مڈل، میٹرک یا ایف۔اے کا معیار بھی نہیں رکھا جاتااور یہ معیار نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو لوگوں کا دینی مدارس کی طرف رجحان پہلے سےہی کم ہے پھراگر میرٹ پربھی سختی کی جائے تو آنے والے افراد پر بھی دینی تعلیم کے دروازے بند ہونے کی مشکل کھڑی ہوجاتی ہے۔

۶۔ مدارس میں طلباء تنظیموں کا غیر فعال ہونا مدارس کی ایک داخلی مشکل یہ بھی ہے کہ مدارس کے طلاب کو کسی تنظیمی لڑی میں پرویا نہیں جاتا جس سے ان کی اجتماعی،علمی اور سیاسی شخصیت میں نکھار نہیں آتا۔ زیادہ تر مدارس میں سکولوں کی بزم ادب کمیٹیوں کی طرز پر چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بنا دی جاتی ہیں اور ان بزم ادب نما کمیٹیوں میں کام کرنے والے حضرات اپنی عملی زندگی میں بھی اسی اندازمیں کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس طرح بزم ادب کی کمیٹیوں میں کیا جاتاہے۔یعنی کچھ مقدار میں چندہ اکٹھا کر لیا،مٹھائی لے لی،کچھ سنانے [حمد،نعت،قصیدہ،تقریر،دعا،قرآن خوانی،قوالی وغیرہ] کے بہانے کچھ لوگوں کواپنے پاس جمع کرلیا اور پھر یہ سمجھ لیا کہ ہم نےدین کی خدمت کا حق اداکردیاہے۔ ۷۔ دینی اساتذہ اور مدیران کی یونین کا نہ ہونا پاکستانی مدارس کی مشکلات میں سے ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ دینی مدارس کے اساتذہ اور مدیران کوئی فعال یونین نہیں اور اِن کے پاس کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں جس پر جمع ہوکر یہ دینی مدارس کو درپیش مشکلات سے نکالنے کے لئے غوروفکرکرسکیں۔

 ۸۔ مدرسہ، بطورِ ذریعہ آمدن بعض جگہوں پر مدارس ذریعہ آمدن کے طور پر کھولے جاتے ہیں، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جو لوگ خود جدید تعلیم سے آشنا نہیں ہوتے وہ بھی مخیر حضرات کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے جدیدتعلیم کا نعرہ لگا کر مدرسہ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر اِن حضرات سے جدید تعلیم کی تعریف پوچھی جائے تو اِن کے نزدیک انگریزی پڑھا جانے اور کمپیوٹر پرسی ڈی چلانے کا نام جدید تعلیم ہے۔اس طرح کے مدارس کے وجود میں آنے سے حقیقی معنوںمیں دین کی خدمت کرنے والے مدارس کی طرح بھی لوگ مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگتے ہیں: یہاں تک تو ذکر تھامسائل کا،آئیے اب ان مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں۔مدارس کی مشکلات کو حل کرنے کے سسلسلے میں ہماری جمع کردہ تجاویز اور مشوروں کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے:

 الف۔ مدارس اپنی فرقہ وارانہ شناخت [شیعہ،سنی،وہابی،دیوبندی وغیرہ]کے بجائے اسلامی و علمی شناخت کی طرف قدم بڑھائیں ۔

 ب۔ علماء اور دانشوروں پر مشتمل ایک اسلامک ایجوکیشنل ٹیم تیارکی جائے جودینی نظام تعلیم کے حوالے سے پہلے سے فعال اداروں کی فعالیت و کارکردگی کا جائزہ لے کر اُنہیں بے لاگ رپورٹ لکھے اورپھر ان تعلیمی پروگراموں کے اجراء کے لئے منصوبہ بندی کرے جن کے اجراء کرنے میں دوسرے ادارے ناکام رہے ہیں۔

ج۔ ملت کے مختلف ماہر ین اقتصادیات کو جمع کر کے مدارس کے لئے فنانشل سپورٹ فنڈ کاپروگرام بنایا جائے۔

د۔ اساتذہ کے انتخاب اور ان کی علمی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے لائحہ عمل بنایاجائے۔

ز۔ تعلیمی نظام کو اپ ڈیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام سے ہم آہنگ تربیتی نظام بھی نصاب میں شامل کیا جائے۔

ر۔ پاکستان میں ملکی سطح پر حقیقی معنوںمیں ایک بین الاقوامی دینی حوزے کی تشکیل کے لئے لائحہ عمل بنایا جائے۔ س۔ پاکستان کے دور افتادہ علاقوں میں جہاں لوگ بچوں کو ابتدائی تعلیم دلوانے سے بھی قاصر ہیں وہاں پر بھی ایسے مدارس قائم کئے جائیں جو دینی و بنیادی تعلیم کو پہلے مرحلے میں مقدمات کی حد تک فراہم کرسکتے ہوں۔

ص۔ دینی مدارس میں دینی و دنیاوی تعلیم کی تقسیم ختم کر کے کالج اور یونیورسٹی کے درمیان ایک حسین امتزاج قائم کرنے کے لئے سنجیدہ طور پر غور و فکر کی جائے۔

ض۔ مدارس کے اندر علوم کو عملی طور پر قابل استفادہ بنانے کے لئے ریسرچ سنٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے جو مندرجہ ذیل شعبوں پر کام کریں۔

 ۱۔ ترجمہ ۲۔ تصنیف ۳۔ تالیف ۴۔ تحقیق ۵۔ تبلیغ ۶۔ تقریر۷۔ تحریر ۸۔ تکلم [اردو،فارسی، عربی، انگلش]۔ ۹۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی ۱۰۔تدریس ۱۱۔مدیریت ۱۲۔علوم سیاسی مدارس کو درپیش مشکلات اور ان کا حل ذکر کرنے کے بعدآخرمیں ہم دعاگو ہیں کہ خداوند عالم ہم سب کوہرقسم کے علاقائی و مذہبی تعصبات سے بالاتر ہوکر دین اسلام کی خدمت کرنےکی توفیق عطافرمائے۔ 


source : http://omidworld.org/ur/component/news/?cat=features&fid=243
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مسجد الاقصی پر صہیونیوں کا حملہ، فلسطینیوں کا ...
وہابی دعوت؛ حضرت زینب (س) کا حرم منہدم کیا جائے
صومالیہ کے دار الحکومت میں بم دھماکہ، درجنوں ...
موغادیشو میں وہابی دہشت گردوں کےخودکش حملہ میں 20 ...
عالم اسلام کو درپیش چیلنجز اور انکا راہ حل
قرآن كريم كا جديد پنجابی ترجمہ
دریائے اردن کے مغربی ساحل میں یہودیوں نے ایک مسجد ...
فلسطینی قوم کی حمایت عالم اسلام کی ترجیح
اقوام متحدہ كے سيكرٹری جنرل كی جانب سے امريكا میں ...
یمن میں اشیائے خوردنی کی شدید قلت

 
user comment