اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

مھدویت کا عقیدہ شیعہ اور اہل سنت کے نزدیک

 

مھدویت کا عقیدہ شیعہ اور اہل سنت کے نزدیک

مھدی موعود کا عقیدہ تمام مذاھب اسلامی کے مسلمات میں سے ہے اہل سنت کے مختلف فرقوں کے علماء مھدویت کے متعلق روایات کومتواتر مانتےہیں ابن حجرھیثمی مکی ،احمد السرود الصباح ،شیخ محمد الخطابی المالکی ،اور شیخ یحیی بن محمد الحنفی اھل سنت کے چاروں فرقوں کے یہ بزرگ علماء مھدویت کے بارےمیں وارد ہونے والی احادیث

 

 

 

مھدی موعود کا عقیدہ تمام مذاھب اسلامی کے مسلمات میں سے ہے اہل سنت کے مختلف فرقوں کے علماء مھدویت کے متعلق روایات کومتواتر مانتےہیں ابن حجرھیثمی مکی ،احمد السرود الصباح ،شیخ محمد الخطابی المالکی ،اور شیخ یحیی بن محمد الحنفی اھل سنت کے چاروں فرقوں کے یہ بزرگ علماء مھدویت کے بارےمیں وارد ہونے والی احادیث کوصحیح السند اورمسلم مانتے ہیں (مھدی فقیہ ایمانی اصالۃ المھدی فی الاسلام ص۱۲۰)

لیکن شیعہ کے نزدیک مھدویت کا عقیدہ ضروریات مذھب میں سے ہے علامہ حسن زادہ کہتے ہیں اگر کوئی حضرت مھدی موعود عج کے بارے میں شیعہ وسنی روایات کا بغور مطالعہ کرے تو اس کے لیے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ مھدی موعودعج پہ ایمان اور ان کے ظہور کاعقیدہ صدراسلام سے لوگوں کے اذھان میں تھا

اگر ہم شیعوں کی  تفسیری ، حدیثی ،تاریخی اور عقیدتی کتابوں کامطالعہ کریں تویہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سب سے پہلی ھستی جس نے مھدویت کےعقیدے کےمتعلق اور مھدی عج کی صفات کےمتعلق گفتگوکی وہ خود رسول اکرم(صل الله عليه و آله و سلم ) تھے اور آپ ص خود اس نظریے کے سب سے پہلے مروج تھے اگرچہ مھدی موعود کے مصداق میں اختلاف ہے لیکن مھدویت کے اصل عقیدے کی کوئی مخالفت نہیں کرتا اور یہ ایک شیعہ سنی کے مسلمات میں سے ہے ۔اور صدراسلام سے لےکرآج تک کوئی بھی مھدویت کے عقیدے کامنکرنہیں گذرا ہے

مکتب خلافت کےطرفداروں کی لکھی گئی کتابوں میں مھدی موعود عج کے ظہور کو قیامت کی سب سے بڑی نشانی کے طور پرمانا گیاہے اور بعض کتابوں میں تواس عبارت کے ساتھ لایاگیاہے کہ (اشراط الساعہ )یعنی قیامت کے وقوع پذیر ہونے کی شرط

  (ملاحظہ ہو مجمع الزواید ج۱۴ ص۳۲۷ الاساس فی السنن سعید جوی ج۲ص۹۶۲ کنز العمال ص ۲۰۳ )

شھید مطہری فرماتےہیں کہ اگرچاہتےہو کہ دیکھوکہ مھدویت کامسئلہ فقط شیعوں کے ساتھ مختص نہیں ہے تودیکھوکہ مھدویت کے جھوٹے دعویدار شیعوں میں زیادہ تھے یا اھل سنت میں تودیکھوگے کہ اھل سنت میں مھدویت کے دعویدار زیادہ تھے (مجموعہ آثارشھید مطھری ج۱۸ ص۱۴۸)

بعض دانشمندوں کی تحقیق کےمطابق حضرت مھدی عج کانام اھل سنت کی تقریبا ۷۰سےزیادہ کتابوں میں آیا ہے  خلاصہ یہ کہ عقیدہ مھدویت اھل سنت کے نزدیک ایک ناقابل انکار حقیقت ہے

روایات :

بعض کتابوں کےمصنفین نے خلفای اثنی عشر (یعنی بارہ خلیفہ یاامام )کی روایات کوصحاح ستہ سےنقل کیاہے یہ روایات ائمہ اثنی عشر(بارہ اماموں )کی امامت پردلالت کرتی ہیں اس لیے کہ حضرت مھدی عج بھی ان میں سے ایک ہیں اس لیے یہ روایات حضرت مھدی عج کی امامت کوبھی اثبات کرتی ہیں

اھل سنت کی روایات :

ایک روایت میں آیا ہے کہ

حدثنی محمد بن المثنی ،حدثنا غندر ،حدثنا شعبہ ، عن عبدالملک سمعت جابربن سمرۃ قال :سمعت النبی (صل الله عليه و آله و سلم )یقول :یکون بعدی اثنا عشر امیرافقال کلمۃ لم اسمعھافقال ابی :انہ یقول کلھم من قریش

 (ملاحظہ ہو صیحیح بخاری چاپ بیروت ج۸ کتاب الاحکام باب الاستخلاف ص ۱۷۱ حدیث نمبر  ۷۲۲۲  )

ترجمہ:      جابر کہتاہے کہ میں نےرسول اکرم (صل الله عليه و آله و سلم )سےسنا کہ آپ نےفرمایا کہ میرےبعد بارہ جانشین (خلیفے ،امام )ہوں گے جابرکہتاہے کہ اس کےبعد رسول اکرم(صل الله عليه و آله و سلم )نے ایک کلمہ فرمایا جومجھے سمجھ نہ آیا میرےوالد نے کہا کہ پیامبر نے فرمایا :وہ تمام قریش سے ہونگے ۔

باقی صحاح کےمصنفین نے بھی اس حدیث کونقل کیاہے (صحیح مسلم  ج۶ کتاب الامارۃ باب یتبع الناس لقریش ص۳ح ۴۸۰۵ ،۴۸۰۶،۴۸۰۷،۴۸۰۸،۴۸۰۹،۴۸۰۱۰ سنن ترمذی ج۳ باب ما جاء فی الخلفاء ص۳۴۰ ح ۲۳۲۳،۲۳۲۴ سنن ابی داود ج۲ ص ۳۰۹ ح ۴۲۷۹،۴۲۸۰،۴۲۸۱)

اھل سنت کےمحدثین علماءاور دانشمندحضرات ان احادیث کو جن میں بارہ اماموں یا خلیفوں کا تذکرہ آیا ہے ان احادیث کوعالی السند ،معتبر اور مقطوع الصدور کہتے ہیں اور ان روایات کی صحت کےبارے میں کوئی شک وشبہ نہیں رکھتے

لیکن اھل سنت کوجومشکل پیش  آتی ہے وہ بارہ خلیفہ پورے کرنے میں ہے کہ کس طرح اس مشکل کوحل کیا جائے اس لیے ان کے علماء میں اختلاف ہے اس جہت سے اور ہر کسی نے اپنی سمجھ کے مطابق ایک نظریہ دیاہے ہم ان میں سے پندرہ علماء کے اقوال نقل کرتے ہیں جو ایک دوسرے کے بھی خلاف ہیں اور ساتھ ان کا جواب

(۱)پہلا قول یہ کہ ان روایات سے مراد وہ فتنے ہیں جورسول اکرم (صل الله عليه و آله و سلم ) کے بعد وقوع پذیر ہونگے خلفاء کی تعداد زیادہ ہونے کی بنا پر امت اسلامی بھی تقسیم ہوجائے گی (فتح الباری فی شرح البخاری چاپ بیروت ج۱۳ کتاب الاحکام باب الاستخلاف ص۲۶۱ ح۷۲۲۲)

جواب  :یہ  احتمال باطل ہے کیونکہ بارہ خلیفوں کے بارے میں جوروایات وارد ہوئی ہیں وہ خلفاء کی تعریف میں وارد ہوئی ہیں اگر یہ روایات پہلے قول کے مطابق آخری زمانے کے فتنوں کے بارےمیں ہو جس طرح کہ پہلے قول سے واضح ہے توپھر یہ روایات خلفاء کی تعریف میں نہیں ہیں بلکہ ان کی مذمت میں ہونگی اور یہ خود روایات کے مطالب کے ساتھ سازگاری نہیں رکھتا

(۲)یہ بارہ خلیفے ایک ہی زمانہ میں آئیں گے اور امت کے اختلاف کا سبب  بھی نہیں بنیں گے

جواب :یہ بات کہ  وہ بارہ کے بارہ ایک ہی زمانہ ہونگے یہ قول بھی باطل ہے کیونکہ وہ سب کےسب ایک زمانے میں اکٹھے نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ امت کے تقسیم اور اختلاف کا سبب ہوگا اور دوسرا ان روایات میں خلفاء کو تشبیہ دی گئی ہے بنی اسرائیل کے نقباء سے جوایک زمانے میں نہیں تھے پس یہ بھی ایک زمانے میں نہیں ہوسکتے

 

(۳)روایات کی تعبیرات اور الفاظ مختلف ہیں لہذا کوئی حتمی نتیجہ نہیں لیا جاسکتا

جواب :یہ  کہ ان روایات سے کوئی معنی بھی نہیں سمجھا جاسکتا یہ قول بھی بے بنیاد ہے کیا رسول اکرم (صل الله عليه و آله و سلم )نے اس حدیث میں اس قدر مجمل کہا ہے کہ کچھ بھی نہیں سمجھا جاسکتا ؟اگر تھوڑی سی دقت کے ساتھ شیعہ اور سنی روایات کامطالعہ کیا جائے تومقصود واضح ہوجاتاہے

(۴)ان روایات سےمراد یہ کہ رسول اکرم نے اپنے بعد کے خلفاء کی خلافت کی خبردی ہے اور بس

جواب :چوتھا قول یہ کہ یہ احادیث پیامبر اور خلفاء کے بعد کی خلافت کوبیان کرتی ہیں یہ بھی درست نہیں ہےکیونکہ پیامبر نے اس حدیث میں فرمایاہے کہ (۔۔۔۔یکون بعدی ۔۔۔۔)میرے بعد نہیں فرمایا کہ (یکون بعدی وبعد اصحابی )اگربالفرض چوتھا قول قبول کرلیا جائے تو پھر کیسے یہ احادیث خلفاء کی تعریف میں آسکتی ہیں جبکہ پیامبر اوراصحاب کے بعد فسق وفجور اور ظلم وستم حکومتوں کا کام تھا اور ظالم حکمران آتے رہے ۔

 

(۵)ان روایات سےمرادحضرت مھدی عج کی خلافت کے بعدجو خلفاء آئیں گے وہ مراد ہیں

جواب :یہ قول بھی ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اس قول کے مطابق حضرت مھدی عج کے ظہور تک زمین حجت خدا سے خالی رہے گی درحالانکہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہنی چاہیے کیونکہ خلفاء کا متصل ہونا ضروری ہے اور اگرزمین حجت خدا سے خالی رہ جائے تو زمین غرق ہوجائے گی اور یہی اشکال وارد ہے قول نمبر (۷)  (۸)  (۱۰) اور (۱۱)نمبر پر غور کیجیے

 

(۶)یہ روایات بنی امیہ کی حکومت کی طرف اشارہ ہے البتہ بنی امیہ کی حکومت کاتختہ الٹنے سے پہلے

جواب :یہ قول بہت ہی تعجب آور ہے  کیونکہ یہ روایات جوخلفاء کی تعریف اور ان کی شان میں نازل ہوئیں ہیں کیسے انہوں نے معاویہ اور اس جیسے خلفاء پر منطبق کرتے ہیں جبکہ ان کا ظلم وستم کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور شیعہ اور سنی علماء اور دانشمند حضرات معاویہ کوعادل نہیں مانتے اسی طرح کیسے یزید اس روایت کا مصداق بن سکتاہے کہ جس کا فسق وفجور کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ؟کیا یہ روایات ان کے بارے میں آئی ہیں جنہوں نے قرآن کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھا

 

(۹)ان روایات میں خلفاء سےمراد وہ حاکم ہیں جوعلویوں کی خلافت کے بعد ظاہر ہونگے

جواب :اگر ان کی مراد علویوں کی حکومت سےمراد مصر میں علویوں کی حکومت مراد ہے تو پھر بھی وہی مشکل ہوگی کہ زمین حجت خدا سے خالی ہوگی اور اگر مراد امام مھدی عج کی حکومت مراد ہے تو بھی یہی مشکل

 

(۱۰)         ان سےمراد ابوبکر سے لے کرعمربن عبدالعزیز تک مراد ہیں

(۱۱)روایات سےمراد خلفاء راشدین اور بعض بنی امیہ کے حکمران ہیں البتہ یزید کے علاوہ

 (۱۲)بارہوں قول یہ ہے کہ روایت میں خلفاء سے مراد خلفاء راشدین مراد ہیں اور بعض بنی امیہ کے خلفاء بھی کہ یزید ان میں سے ایک ہے

جواب :یہ قول تو اصلا قابل قبول نہیں ہے کیونکہ یزید بھی ان میں سے شمار ہ ان میں سے شمار کیا گیا ہے جس کومسلمان اصلا قبول نہیں کرتے

(۱۳)اس روایت میں خلفاء سےمراد خلفاء راشدین ہیں اور باقیوں کا حال مشخص نہیں ہے

یہ قول بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ انسان کے ضروری ہے کہ وہ اپنے خلیفہ کوپہچانے اور اس کی اطاعت کرے کیونکہ من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیہ اگر امام اور خلیفہ وقت کی پہچان ہی نہ ہو تو اس کی پیروی کیسے کی جائے گی

(۱۴)چودھواں قول یہ کہ اگر خلافت سے مراد خلافت ظاہری مراد ہے تو یہ خلفاء راشدین کے علاوہ عمر بن عبدالعزیز کوبھی شامل ہے اگر مراد خلافت ظاہری مراد ہے تو بنی امیہ اور عباسیان کے بعض خلفاء کو بھی شامل ہے

جواب :یہ تقسیم جو چودھویں قول میں کی گئی ہے یہ تقسیم بشری اور اعتباری ہے درحالانکہ جو خداوند متعال کی طرف سے خلیفہ ہے وہ ظاہرمیں بھی خلیفہ ہے  اور باطن میں بھی

(۱۵)پندرہواں قول یہ ہے کہ جومشخص اور معین ہے وہ یہ کہ جن بارہ خلیفوں کا تذکرہ روایت میں آیا ہے وہ شیعوں کے بارہ امام نہیں ہیں کیونکہ امامت نہیں کہا بلکہ خلافت کہا ہے

جواب :یہ صرف تعصب کی بنا پر ہے اور اسی بنا پر آج تک ان سے یہ مسئلہ حل نہیں ھوسکا اور جس کے دل میں جوآیا اس نے اپنا نظریہ بنا لیا حالانکہ شیعوں میں یہ مشکل نہیں ہے کیونکہ حق پر ہیں اور یہ جو کہاہے کہ خلافت مراد ہے امامت مراد نہیں ہے حالانکہ قرآن میں خود خلافت سے مراد یعنی خدا کی طرف سے حاکم اورامام کے ہے مثلا

واذقال ربک للملائکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ (سورہ بقرہ ۳۰ )

یا داود انا جعلناک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالعدل (سورہ ص آیۃ ۲۶ )

اور خلیفہ سے مراد اپنے غیر کا نائب قرار پانا ہے اور جونائب بن رہا ہے ضروری ہے کہ اس میں ایسی صفات ہوں جومنوب عنہ (جس کا نائب بن رہاہے )اس میں موجود ہوں نبی معصوم تھے اب اگر ان کا جانشین اور خلیفہ اور نائب بننا ہے تواس کوبھی معصوم ہونا چاہیے اور فقط شیعہ اپنے اماموں کی عصمت کے قائل ہیں اور اس عصمت کو آیۃ تطھیر اور حدیث ثقلین سے ثابت کرتے ہیں

اور کسی قسم کی مشکل بھی نہیں اور عقل کے نزدیک بھی ہے نہ حیران ہیں کہ بارہ اماموں کی تعداد کیسے پوری کریں جیسا کہ اھل سنت والے آج تک پریشان ہیں کہ کیسے بارہ کی تعداد پوری کریں کس کوداخل کریں اور کس کوخارج کریں تاکہ بارہ پورے ہوجائیں اور نہ زمین کے حجت خدا سے خالی رہنے کا اشکال شیعوں پر آتاہے کیونکہ ان کے نزدیک ان کا بارہواں امام موجود ہے

 

   

نقد عام :

ہرایک قول کوذکرکرکے اس کا جواب دیا جاچکاہے اب ایک کلی اشکال جوان

تمام اقوال وارد ہے اس کوذکرکرتے ہیں

نقد عام جو تمام اقوال کے رد میں ہے اور اس کے بعدہرایک قول احتمال کو رد کیا جائے گا

(۱)پیامبر کے خلیفوں کاتعین خداوند متعال کی جانب سے ہے نہ اپنی رائے اور اجماع کے ذریعے

کیونکہ بعض روایات میں پیامبر کے خلفاء کو تشبیہ دی گئی ہے بنی اسرائیل کے نقباء کے ساتھ اور بنی اسرائیل کے نقباء خداوند متعال کے حکم سے تعیین ہوئے تھے جیسا کہ خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ

ولقد اخذنا میثاق بنی اسرائیل وبعثنا منھمم اثنا عشر نقیبا "(۴۰)  ومن قوم موسی امۃ یھدون بالحق وبہ یعدلون وقطعناھم اثنا عشر اسباطا (۴۱)

پس معلوم ہوا کہ خلیفہ کے انتخاب میں لوگوں کا کوئی کردار نہیں ہے اور مذکورہ پندرہ احتمالات کی کوئی قیمت نہیں ہے کیونکہ یہ سب اس وقت اہمیت رکھتے ہیں کہ جب لوگ خلیفہ کوانتخاب کرنے کا حق رکھتے ہیں اور جیسا کہ قرآن کی آیت سے ثابت ہے کہ یہ حق صرف خداوند متعال کو حاصل ہے

(۲)ان روایات میں جوبارہ خلیفوں کے بارے میں وارد ہوئیں ہیں علماء اور دانشمندوں میں اختلاف ہے کہ ان سے کونسے بارہ خلیفے مراد ہیں یہاں تک کہ اتنے حیران وپریشان تھے کہ جس کے ذھن میں جوکچھ آیا اس نے اپنے ذھن کے مطابق ایک نظریہ دے دیا اور یہاں تکہ پندرہ سے بھی زیادہ اقوال ذکر ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی متفق علیہ (جوسب کا مورد قبول ہو)نظریہ اور قول پیش نہیں کرسکے

(۳)پہلے چار خلیفوں کے بعد خلافت بادشاھی میں تبدیل ہوچکی تھی پس اس کوخلافت کہنا درست نہیں ہے

(۴)اھل سنت کے علماء اور دانشوروں کی سب سے مھم دلیل اجماع ہے اور اجماع فقط علی علیہ السلام کے لیے حاصل ہوا تھا

(۵)علماء اھل سنت کے اقوال آپس میں ایک دوسرے کے موافق نہیں ہیں لہذا قابل قبول بھی نہیں ہیں

(۶)تمام یہ اقوال نص کے مقابل میں اجتھاد ہے کیونکہ خلافت کااثبات متوقف ہے نص پر کہ خدا وند متعال نے اسے اپنے ساتھ مخصوص کیا ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا (۔۔۔۔۔وجعلنا ائمۃ یھدون بامرنا )۴۵ترجمہ:اور ہم نے امام قرار دیے جوہمارے حکم سے ھدایت کرتےہیں

(۔۔۔۔انی جاعلک للناس اماما ) ۴۶

                ہم نے تجھے لوگوں کےلیے امام بنا دیاہے

پس امام اور خلیفہ کا تعین کرنا خود خدا کا کام ہے اور اگر لوگ خود انتخاب کرنے ہیں تویہ نص کےمقابلے میں اجتھاد ہے جوباطل ہے

(۷)یہ تمام اقوال اھل سنت کی بعض روایات کے مخالف ہیں بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ میرے بعد خلافت تیس سال ہے ،، جبکہ بارہ خلیفے پورے کرنے کے لیے تیس سال سے بھی اوپر چلے گئے ہیں پس اس روایت کے خلاف ہے

(۸)ان اقوال کی بنا پر خلفاء کے درمیان فاصلہ آجاتاہے جونہیں آنا چاہیے کیونکہ حجت الھی کے درمیان فاصلہ یعنی اھل زمین کا تباہ ہونا جیسا کہ حدیث ہے کہ (لاتخلواالارض من خلیفۃ )۴۸

یعنی زمین کبھی حجت خدا اور خلیفہ الھی کے بغیرخالی نہیں رہ سکتی اگر ایسا ہوجائے توزمین اپنے اھل کے ساتھ دھنس جائے گی

اھل سنت کے علماء بھی کہتے ہیں کہ اھل بیت کا وجود اھل زمین کے لیے امان  ہے انہوں نے حدیث امان کوذکر کیاہے اور کہا ہے کہ زمین کی امان اھل بیت علیھم السلام ہیں اگر زمین ان کے وجود سےخالی ہوجائے تو امان میں نہیں ہوگی یعنی تباہ وبرباد ہوجائے گی

احمد بن حنبل کہتاہے کہ (خداوندکریم نے زمین کو پیامبر اکرم کی خاطر خلق کیا اور اس کی ہمیشگی کو آنحضرت کی اھل بیت کے ساتھ مشروط کردیا )۵۰

یعنی زمین اس وقت تک امان میں ہے جب تک رسول کی عترت میں سے اور حجت خدا موجود ہوگا پس ان پندرہ اقوال کے درمیان کوئی جامع قول نہیں ہے جوسب کوشامل ہوتاکہ اس پر عمل کیا جائے بلکہ ہر کسی کے ذھن میں جوبات آئی اس نے بیان کردی جوقابل قبول نہیں ہے جبتکہ کوئی محکم دلیل نہیں ہو جب اصحاب خلیفہ کے بارے میں سوال کرتے کہ آپ کےبعد خلیفہ کون ہوگا تو ان کے خیال میں یہ تھا کہ امام اور خلیفہ اللہ کی جانب سے ہے جو خدا نے تعیین فرمانا ہے اور رسول خدا بھی فرماتے تھے کہ میرے خلیفوں کی تعدا بنی اسرائیل کے نقباء کی تعداد کے مطابق ہے

 امام زمانہ عج اور اھل سنت کے مصنفین

وہ علماء اھل سنت جنہوں نے اپنی کتابوں میں امام مھدی عج کے بارے میں وارد احادیث کو بیان کیا ہے(۱)  ابن خلدون نے مقدمہ تاریخ میں   (۲)      بخاری نے صحیح بخاری میں  (۳)       أبو الترمذي نے جامع الاحادیث میں  (۴)    داودنے سنن داود میں (۵)   ابن ماجه نے سنن ابن ماجہ میں (۶)   النسائي  سنن النسائی میں (۷)    أحمد نے مسند احمد میں (۸)    ابن حبان نے صحیح ابن حبان میں (۹)    الحاكم نے مستدرک علی الصحیحین میں (۱۰)    أبو بكر بن أبي شيبة نے المصنف میں (۱۱)    نعيم بن حماد نے كتاب الفتن میں (۱۲)    الحافظ أبو نعيم نے كتاب المهدي و الحلية میں (۱۳)    الطبراني في الكبير والأوسط والصغير(۱۴)    الدار قطني نے الأفراد میں (۱۵)    البارودي نے معرفة الصحابة میں (۱۶)          أبو يعلى الموصلي اپنی  مسندمیں (۱۷)      البزار نےاپنی  مسند میں (۱۸)     الحارث بن أبي أسامة نےاپنی مسندمیں  (۱۹)     ابن عساكرنے تاريخ ابن عساکرمیں (۲۰)  ا بن منده نے تاريخ أصفهان میں (۲۱)     أبو الحسن الحربي نے الأول من الحربيات میں (۲۲)     تمام الرازي نے  فوائدمیں (۲۳)      ابن جرير نے تهذيب الآثار میں (۲۴)     أبو بكر بن المقري نے معجم میں (۲۵)     أبو عمرو الداني نے  اپنی سنن میں (۲۶)            ابو غنم الكوفي نے  كتاب الفتن میں (۲۷)       الديلمي نے  مسند الفردوس میں (۲۸)         أبو بكر الإسكاف نے  فوائد الأخبارمیں (۲۹)   أبو الحسين بن المناوي نے  كتاب الملاحم میں (۳۰)     البيهقي نے   دلائل النبوة میں (۳۱)    أبو عمرو المقري نے اپنی  سنن میں(۳۲)     ابن الجوزي نے  تاريخ ابن جوزی میں (۳۳)     يحيى بن عبد الحميد الحماني نے  مسند يحيى بن عبد الحميد الحماني میں (۳۴)    الروياني نے اپنی  مسند میں (۳۵)               ابن سعد نے  الطبقات الکبری میں (۳۶)         ابن خزيمة(۳۷)      الحسن بن سفيان(۳۸)عمر بن شبه(۳۹)   أبو عوانةیہ 
اھل سنت کے وہ مشہور علماء ہیں جنہوں نے اپنی اپنی کتابوں میں امام مھدی عج کے بارے میں احادیث کو بیان کیاہے اور اپنی اپنی نظر دی ہے پس یہ کہنا کہ یہ عقیدہ اور یہ روایات شیعوں کی من گھڑت ہیں درست نہیں ہے ۔اور خود اھل سنت بھی اس کو رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ روایات جو امام مھدی عج کے بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ صحیح ہیں اور جو ان احادیث کا منکر ہے وہ دین اسلام سے خارج ہے

 

 

 


source : /www.islamshia-w.com/Portal.aspx?PID=71243&Cultcure=Urdu&CaseID=39611
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عالمگیریت، تاریخ کا خاتمہ اور مہدویت
عقيدہ مہدويت كا آغاز
علم کلام میں مهدویت کے کون سے مبانی هیں؟
امام مہدی علیہ السلام کا دورِخلافت آئے بغیر ...
اذا قام القائم حکم بالعد ل
انتظار اور فطرت
امام حسین علیہ السلام اورامام زمانہ(عج)کےاصحاب ...
نظریہ رجعت
قرآن اور حضرت امام زمانہ(عج) علیہ السلام
امام مہدی (عج) کی سیرت طیبہ اور ان کےانقلابی ...

 
user comment