اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

وصایای اہلبیت (ع)

وصایای اہلبیت (ع) 

مشقت عمل

749۔ امام علی (ع) ! میرے شیعو ! اس عمل کے سلسلہ میں زحمت برداشت کرو جس کے ثواب سے بے نیاز نہیں ہوسکتے ہو اور اس عمل سے پرہیز کرنے کی کوشش کرو جس کے عذاب کو برداشت نہیں کرسکتے ہو میں یہ جانتاہوں کہ عمل کی راہ میں زحمت برداشت کرلینا عذاب الہی برداشت کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے، یاد رکھو کہ اس دنیا کی مدت محدود ہے اور اس کی امیدیں دراز ہیں ، یہ صرف چند روزہ ہے اور اسے ایک دن ختم ہوجاناہے جب خواہشیں بھی لپیٹ دی جائیں گی اور سانسیں بھی تمام ہوجائیں گی ، یہ فرماکر آپ نے رونا شروع کردیا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی ” تم پر کراماً کاتبین کو نگراں معین کردیا گیا ہے جو تمھارے تمام اعمال سے باخبر ہیں، سورہ الفطازا 12 ( امالی صدوق (ر) 96 / 5 روایت مسعدہ بن صدقہ عن الصادق ، روضة الواعظین ص 535 ، شرح نہج البلاغہ 20 ص 281 / 223)۔

750۔ امام زین العابدین (ع)! میرے اصحاب میں تمہیں آخرت کی وصیت کررہاہوں دنیا کی نہیں ، اس لئے کہ اس کی ضرورت نہیں ہے، اس کی حرص تم خود ہی رکھتے ہو اور اس سے تم خود ہی وابستہ ہو۔

میرے اصحاب ! یہ دنیا گذرگاہ ہے اور آخرت قرار کی منزل ہے لہذا اس گذرگاہ سے وہاں کے لئے فراہم کرلو، اپنے پردہٴ حیا کو اس کے سامنے چاک نہ کرو جو تمھارے اسرار سے بھی باخبر ہے، اس دنیا سے اپنے دلوں کو نکال لو قبل اس کے کہ تمھارے جسموں کو نکالا جائے ( امالی صدوق (ر) روایت طاؤس یمانی)۔

751۔ عمرو بن سعید بن بلال ! میں امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھ ایک جماعت اور تھی ، آپ نے فرمایا کہ تم لوگ معتدل امت بنو کہ آگے بڑھ جانے والے تمھاری طرف پلٹ کر آئیں اور پیچھے رہ جانے والے تمھاری طرف پلٹ کر آئیں اور پیچھے رہ جانے والے تم سے ملحق ہوجائیں ۔

شیعیان آل محمد ! عمل کرو عمل ! کہ ہمارے اور خدا کے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہے اور نہ ہمارا خداپر کوئی حق ہے، اس کا تقرب صرف اطاعت سے حاصل ہوتاہے ، جو اس کی اطاعت کرے گا اسے ہماری محبت فائدہ پہنچائے گی اور جو اس کی معصیت کرے گا اسے ہماری محبت سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

اس کے بعد حضرت نے ہماری طرف رخ کرکے فرمایا خبردار دھوکہ میں نہ رہنا اور عمل میں سستی نہ کرنا !

میں نے عرض کیا کہ حضور یہ نمرقہ وسطیٰ (معتدل امت) کیا ہے؟ فرمایا کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ حد اعتدال کو ایک مخصوص فضیلت حاصل ہوتی ہے۔( مشکوٰة الانوار ص 60 ، شرح الاخبار 3 ص 502 / 1440)۔

752۔ جابر امام باقر (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت نے مجھے سے فرمایا، جابر ! کیا ہمارے شیعہ بننے والے لوگ اس بات کو کافی سمجھتے ہیں کہ ہماری محبت کا دعویٰ کردیں، خدا گواہ ہے کہ ہمارا شیعہ صرف وہ ہے جو اللہ سے ڈرے اور اس کی اطاعت کرے۔

جابر ! ہمارے شیعہ تواضع ، خضوع و خشوع، امانتداری ، کثرت ذکر خدا، روزہ ، نماز ، احسان والدین ، ہمسایہ کے فقراء و مساکین کے حالات کی نگرانی ، قرضداروں کے خیال ، ایتام کی سرپرستی ، سچائی ، تلاوت قرآن ، حرف غلط سے پرہیز اور سارے قبیلہ کے امین ہونے کی بنیاد پر پہچانے جاتے ہیں۔

جابر نے عرض کی مولا پھر تو آج کل کوئی شیعہ نہیں ہے، فرمایا جابر ! تمھارا خیال ِ ادھر ادھر نہ جانے پائے، سوچو کیا یہ بات کافی ہوسکتی کہ کوئی شخص محبت علی (ع) کا دعویٰ کردے اور عمل نہ کرے، اس سے بہتر تو یہ ہے کہ محبت رسول کا دعویٰ کردے جن کا مرتبہ علی (ع) سے بالاتر ہے، تو کیا سنت و سیرت پیغمبر سے انحراف کرنے والوں کو یہ دعویٰ محبت فائدہ پہنچا سکتاہے؟ ہرگز نہیں ۔

اللہ سے ڈرو اور خدا کے لئے عمل کرو، خدا کی کسی سے قرابتداری نہیں ہے ، اس کی نظر میں محبوب ترین اور محترم ترین انسان وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار اور اطاعت گذار ہو۔

جابر ! خدا کی قسم تقرب الہی عمل کے بغیر ممکن نہیں ہے، ہمارے پاس جہنم سے بچنے کا کوئی پروانہ نہیں ہے اور نہ ہمارا خدا پر کوئی حق ہے، جو اللہ کا اطاعت گذار ہوگا ہمارا دوست ہوگا، اور جو اس کی معصیت کرے گا وہ ہمارا دشمن ہوگا ، ہماری ولایت و محبت عمل اور تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔( کافی 2 ص 74 /3 ، امالی صدوق (ر) 499 /3 ، صفات الشیعہ 90 / 422 ، تنبیہ الخواطر 2 ص 185 امالی طوسی (ر) 296 / 582)۔

753۔ امام باقر (ع) ! دیکھو تقویٰ کے ذریعہ ہماری مدد کرو اس لئے کہ جو تقویٰ لے کر خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوتاہے اسے کشائش احوال مل جاتی ہے، پروردگار کا ارشاد ہے، جو خدا و رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جن پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں، انبیاء و مرسلین،شہداء، صدیقین اور یہ سب بہترین رفیق ہیں۔( نساء 69 ) اور ہمارے گھرانے میں نبی، صدیق ، شہداء اور صالحین سب پائے جاتے ہیں۔( کافی 2 ص 78 /12 روایت ابوالصباح الکنانی)۔

754۔ امام باقر (ع) نے فضیل سے فرمایا کہ ہمارے چاہنے والوں سے ہمارے اسلام کہہ دینا اور کہنا کہ تقویٰ کے بغیر تمھارے کام آنے والے نہیں ہیں لہذا اپنی زبانوں کی حفاظت کرو، اپنے ہاتھوں کو روک کر رکھو اور صبر اور صلوة سے وابستہ رہو کہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔( تفسیر عیاشی 1 ص68 / 123 ، دعائم الاسلام 1 ص 133 ، مستطرفات السرائر 74 / 517 مشکوة الانوار ص 44)۔

755۔ امام صادق (ع) یابن جندب ! ہمارے شیعوں کو ہمارا سلام پہنچا دینا اور کہنا کہ خبردار ادھر ادھر کے چکر میں نہ رہنا ، خدا کی قسم ہماری محبت تقویٰ اور کوشش عمل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ہے، برادران ایمانی سے ہمدردی علامت محبت ہے، وہ ہمارا شیعہ ہرگز نہیں ہے جو لوگوں پر ظلم کرے۔( تحف العقول ص 303)۔

756۔ امام صادق (ع) ! تمھارا فرض ہے کہ تقویٰ الہی ، احتیاط ، مشقت عمل ، صدق حدیث ، اداء امانت، حسن اخلاق، حسن جوار کا راستہ اختیار کرو، لوگوں کو اپنی طرف زبان کے بغیر دعوت دو ، ہمارے لئے زینت بنو اور باعث عیب نہ بنو، رکوع و سجوع میں طول دو کہ جب کوئی شخص رکوع و سجود میں طول دیتاہے تو شیطان فریاد کرتاہے کہ صد حیف اس نے اطاعت کی اور میں نے معصیت کی ، اس نے سجدہ کیا اور میں نے انکار کردیا تھا۔( کافی 2 ص 77 /9 از ابواسامہ)۔

757۔ امام صادق (ع) ! ہمارے شیعو ! ہمارے لئے زینت بنو، عیب نہ بنو، لوگوں سے اچھی باتیں کرو، زبانوں کو محفوظ رکھو اور اسے فضول و بیہود ہ باتوں سے روک کر رکھو ۔( امالی صدوق 336 / 17 ، امالی طوسی (ر) 440 / 987، بشارة المصطفیٰ 10 ص 70 از سلیمان بن مہران )۔

758۔ امام صادق (ع) ! لوگوں کو زبان کے بغیر دعوت خیر دو، وہ تمھارے کردار میں تقویٰ ، سعی عمل ، نماز اور خیرات کو دیکھیں کہ یہ بات خود دعوت خیر دیتی ہے۔( کافی 2 ص 78 / 14 ، از ابن ابی یعفور)۔

759۔ امام صادق (ع) نے مفضل سے فرمایا کہ میرے شیعوں سے کہہ دینا کہ ہماری طرف لوگوں کو دعوت دیں اس طرح کہ محرمات سے پرہیز کریں، معصیت نہ کریں اور رضائے الہی کا اتباع کریں کہ اگر وہ ایسے ہوجائیں گے تو لوگ دوڑ کر ہماری طرف آئیں گے ۔( دعائم الاسلام 1 ص 58 ، شرح الاخبار 3 ص 506 / 1453)۔

760۔ امام صادق (ع) !خبردار تم لوگ کوئی ایسا عمل نہ کرنا جس کی بنا پر لوگ ہمیں برا کہیں، اس لئے کہ نالائق بیٹے کے اعمال پر باپ ہی کو برا کہا جاتاہے، جن کے درمیان رہتے ہوا ن کے لئے ہمارے واسطے زینت بنو، باعث عیب نہ بنو( کافی ص 219 / 11 ، روایت ہشام کندی)۔

 

 

حسن معاشرت

761۔ رسول اکرم ، جس کے ساتھ رہو اس سے اچھا سلوک کرو تا کہ مسلمان کہے جاسکو۔(امالی صدوق (ر) 168 /13، امالی مفید (ر) 350 /1 مناقب الامام امیر المومنین (ع) الکوفی 2 ص 276 / 744 روایت اسماعیل بن ابی زیاد عن الصادق (ع) ، روضة الواعظین ص 474 ، مشکٰوة الانوار ص 68)۔

762۔ امام علی (ع) ! وقت آخر اولاد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا، دیکھو لوگوں کیساتھ اس طرح معاشرت کرو کہ غائب ہوجاؤ تو تلاش کریں اور مرجاؤ تو گریہ کریں (اعلام الدین ص 215 ، تنبیہ الخواطر 2 ص 75)۔

763۔ امام علی (ع) ! اپنے بھائی کے لئے جان و مال دیدو، دشمن کو عدل و انصاف دو، اور عام لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔ ( تحف العقول ص 212)۔

764۔ امام علی (ع) اپنے دوست کو نصیحت کرو ، جان پہچان والوں کی مدد کرو اور عام لوگوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آؤ ۔( غرر الحکم 2466)۔

765۔امام صادق (ع) ! منافق کے ساتھ زبان سے احسان کرو، مومن کے ساتھ دل سے محبت کرو اور اگر یہودی کا ساتھ ہوجائے جب بھی حسن معاشرت کا مظاہرہ کرو ۔( الفقیہ 4 ص 404 / 5872 ، امالی صدوق 502 / 8، اختصاص ص 230 روایت اسحاق بن عمار، امالی مفید 58/10) الزہد للحسین بن سعید 22 ص 49 روایت سعد بن طریف عن الباقر (ع) تحف العقول ص 292 عن الباقر (ع) ، مشکوة الانوار ص 82)۔

766۔ امام صادق (ع) ! کوفہ سے آئی ہوئی ایک جماعت کو رخصت کرتے ہوئے فرمایا ، میں تمھین نصیحت کرتاہوں کہ تقویٰ الہی اختیار کرو اس کی اطاعت کرو ، معصیت سے پرہیز کرو ، جو امانت رکھے اس کی امانت کو واپس کرو، جس کے ساتھ بیٹھ جاؤ اچھی معاشرت کرو، ہمارے حق میں خاموش داعی بنو۔

ان لوگوں نے عرض کی کہ حضور خاموش رہیں گے تو دعوت کیسے دیں گے ، فرمایا کہ ہم نے جس اطاعت خدا کا حکم دیا ہے اس پر عمل کرو اور جس معصیت سے روک دیا ہے اس سے روک جاؤ ، لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کرو ، امانتوں کو واپس کرو ، نیکیوں کا حکم دو، برائیوں سے روکو، لوگ تمھارے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ نہ جانیں، جب لوگ یہ صورت حال دیکھیں گے تو کہیں گے کہ یہ فلاں کی جماعت ہے، خدا اس کے قائد پر رحمت کرے کس قدر حسین ادب سکھایاہے اور اس طرح ہمارے فضل و شرف کو پہچان لیں گے اور ہماری طرف دوڑ کر آجائیں گے ، میں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ میرے پدر بزرگوار ( ان پر اللہ کی رحمت و برکت و مرضات) فرمایا کرتے تھے کہ ایک زمانہ تھا ، جب ہمارے دوست اور ہمارے شیعہ بہترین افراد تھے کہ اگر مسجد کا امام ہوتا تھا تو انھیں میں سے اگر قبیلہ کا موذن ہوتا تھا تو انھیں میں سے اگر کسی کے پاس امانتیں رکھوائی جاتی تھیں تو انھیں میں سے ، اگر کوئی امانت دار ہوتا تھا تو انھیں میں سے ، اگر کوئی عالم و مبلغ ہوتاتھا تو انھیں میں سے ۔ اب تمھارا فرض ہے کہ تم بھی ایسے ہی ہوجاؤ اور لوگوں کے درمیان ہمیں محبوب بناؤ لوگوں کو ہم سے بیزار نہ بناؤ ( دعائم الاسلام 1 ص 56)۔

767۔ امام عسکری نے اپنے شیعوں سے فرمایا کہ میں تمھیں تقوی الہی ، دین میں احتیاط ، عمل میں جد و جہد ، گفتگو میں صداقت ، امانت میں واپسی ( چاہے صاحب امانت نیک ہویا فاسق و فاجر) سجدوں میں طول اور ہمسایہ کے ساتھ اچھے برتاؤ کی وصیت کرتاہوں یہی وہ دین ہے جو پیغمبر اسلام لے کر آئے تھے، قبیلہ والوں کے ساتھ نماز پڑھو، ان کے جنازوں کی مشایعت کو ، ان کے مریضوں کی عیادت کرو، ان کے حقوق کو ادا کرو کہ جب تمھارا کوئی شخص دین میں محتاط ہوگا ، باتوں میں سچا ہوگا ، امانت کو ادا کرے گا ، لوگوں سے اچھے برتاؤ کرے گا تو کہا جائے گا کہ یہ شیعہ ہے اور اس طرح مجھے مسرت ہوگی ، دیکھو اللہ سے ڈرو ، ہمارے واسطے زینت بنو، باعث عیب نہ بنو، ہماری طرف مودتوں کو کھینچ کر لے آؤ اور ہم سے ہر برائی کو دور رکھو ہمارے بارے میں جو بھی اچھی بات کہی جائے گی ہم اس کے اہل ہوں گے اور جو بری بات کہی جائے گی ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، ہمارا کتاب خدا میں ایک حق اور رسول خدا سے ایک قرابت ہے، ہم صاحبان تطہیر ہیں، ہمارے علاوہ جو اس بات کا دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا ہوگا، اللہ کا ذکر زیادہ کرو، موت کو برابر یاد رکھو، تلاوت قرآن کرتے رہو، صلوات پڑھتے رہو کہ صلوات دس نیکیوں کے برابر شمار ہوتی ہے، میری وصیتوں کو یاد رکھنا ، میں تمھیں خدا کے سپرد کرتاہوں ۔ والسلام ( تحف العقول ص 487)۔

 

مسؤلیت علماء

768۔ امام علی ! آگاہ ہوجاؤ۔ اس مالک کی قسم جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اور زندگی کو ایجاد کیاہے، اگر حاضرین موجود نہ ہوتے اور انصار کی موجودگی سے حجت قائم نہ ہوگی ہوتی اور پروردگار نے علماء سے یہ عہد نہ لیا ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی بھوک پیاس پر خاموش نہ رہیں تو میں خلافت کی باگ ڈور پھر اسی کی گردن پر ڈال دیتا اور آخر کو بھی پہلے ہی جام سے سیراب کرتا اور تم دیکھ لیتے کہ تمھاری یہ دنیا میری نظر میں ایک بکری کی چھینک سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے لیکن کیا کروں ۔( نہج البلاغہ خطبہ نمبر 3)۔

769۔ امام علی (ع) ، متقین اور فاسقین کے صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے عترت پیغمبر کے صحیح مرتبہ کا تعارف کراکے لوگوں کی غلط فہمیوں کا اس طرح ازالہ فرماتے ہیں ، بندگان خدا ! خدا کے نزدیک محبوب ترین بندہ وہ ہے جس کی خدا خود اس کے نفس کے مقابلہ میں مدد کردے اور وہ حزن کو شعار بنالے اور خوف خدا کی چادر اوڑھ لے، ہدایت کا چراغ اس کے دل کے اندر روشن ہوجائے اور آنے والے دن کے لئے سامان فراہم کرلے، ایسا ہی شخص دین خدا کا معدن اور زمین خدا کا مرکز ہوتاہے، جس نے اپنے نفس پر عدل کو لازم کرلیاہے اور عدل کا آغاز ، یہاں سے کیا ہے کہ خواہشات نفس کو ختم کردیاہے، حق بیان بھی کرتاہے اور اسی پر عمل بھی کرتاہے، خیر کی کوئی منزل نہیں ہے جس کا ارادہ نہ کرتا ہو اور اس کا کوئی احتمال نہیں ہے جس کا قصد نہ کرتا ہو، اپنی زمام کتاب خدا کے ہاتھ میں دیدی ہے، وہ ہی اس کی قائد اور راہنما ہے، جہاں اس کا حکم ہوتاہے ٹھہرجاتاہے اور جس جگہ وہ نازل ہوجائے وہیں نازل ہوجاتاہے۔

دوسرا شخص وہ ہے جسے لوگوں نے عالم کہہ دیاہے حالانکہ وہ عالم نہیں ہے، ادھر ادھر سے جہالتوں کو جاہلوں سے اور گمراہیوں کو گمراہوں سے حاصل کرلیاہے اور لوگوں کے لئے دھوکہ کے جال بچھادیے ہیں اور مکر و زور کے پھنے تیار کرلئے ہیں، کتاب خدا کو اپنے خیالات پر محمول کرتاہے اور حق کو اپنی خواہشات کی طرف موڑ دیتاہے، لوگوں کو بڑے بڑے جرائم کی طرف سے مطمئن کردیتاہے اور عظیم کبائر کو آسان بناکر پیش کردیتاہے، لوگوں سے کہتاہے کہ میں تو شبہات مین بھی احتیاط کرتاہوں حالانکہ شبہات ہی میں پڑا ہوا ہے۔ دعویٰ کرتاہے کہ میں بدعتوں سے الگ رہتاہوں حالانکہ اسی کے پہلو میں پڑا رہتاہے، اس کی صورت انسان جیسی ہے اور دل جانور جیسا ، نہ راہ ہدایت کو جانتاہے کہ اس کا اتباع کرے اور نہ باب گمراہی کو پہچانتاہے کہ اس سے پرہیز کرے، یہ زندوں میں ایک مردہ ہے۔

لہذا اب تم لوگ کدھر جارہے ہو اور کہاں بھٹک رہے ہو؟ جبکہ نشانباں قائم ہیں، علامات واضح ہیں ، منارہٴ ہدایت نصب ہوچکا ہے تو اب تمھیں کدھر لے جایا جارہاہے اور کیسے اندھے ہوئے جارہے ہو جبکہ تمھارے درمیان عترت پیغمبر موجود ہے اور یہی لوگ حق کی زمام، دین کے پرچم اور صداقت کی زبان ہیں، انھیں قرآن کی بہترین منزلوں پر رکھو اور ان کے پاس اس طرح وارد ہو جس طرح پیاسا چشمہ پر وارد ہوتاہے۔

ایہا الناس ! خاتم النبیین کے ارشاد گرامی پر اعتماد کرو کہ ہم میں سے جب کوئی مرجاتاہے تو وہ مردہ نہیں ہوتا اور کہنہ سال ہوتاہے تو سال خوردہ نہیں ہوتاہے جو بات نہیں جانتے ہو اسے منہ سے مت نکالو کہ حق کا بیشتر حصہ وہی ہے جسے تم نہیں پہچانتے ہو، اسے معذور قرار دو جس پر تمھاری کوئی حجت نہیں ہے یعنی میں … دیکھو کیا میں نے ثقل اکبر پر عمل نہیں کیا ہے اور ثقل اصغر کو تمھارے درمیان نہیں رکھا ہے، میں نے تمھارے درمیان ایمان کا پرچم نصب کردیاہے اور تمھیں حلال و حرام کے حدود سے آگاہ کردیاہے، اپنے عدل کی بناپر لباس عافیت پہنا دیا ہے اور اپنے قول وفعل سے نیکیوں کا فرش بچھا دیاہے اور اپنے نفس سے بلندترین اخلاق کا مشاہدہ کرادیاہے، خبردار ان چیزوں میں اپنی رائے استعمال مت کرو جن کی گہرائیوں تک نگاہیں نہیں جاسکتی ہیں ہے اور جن کے اندر نفوذ کرنے کا یارا فکر کو بھی نہیں ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ نمبر 87)۔

770۔ امام حسین (ع) ! امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں ان کلمات کو امیر المومنین (ع) سے بھی نقل کیا گیا ہے ” ایہا الناس ان کلمات سے عبرت حاصل کرو جن کی نصیحت پروردگار نے اپنے دوستوں کو کی ہے اور ان میں یہودی علماء کی مذمت کی ہے کہ یہ لوگ لوگوں کو بری باتوں سے منع نہیں کرتے تھے، اور اسی بناپر قابل لعنت قرار پائے تھے اور یہ ان کا بدترین طرز عمل تھا۔ یہ مذمت اس لئے کی گئی تھی کہ وہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ ظالم لوگ منکرات اور فساد میں مبتلا ہیں لیکن انھیں منع نہیں کرتے تھے یا اس لالچ میں کہ ان سے منافع حاصل کرنا چاہتے تھے یا اس خوف سے کہ وہ صاحبان اقتدار تھے جبکہ پروردگار کہہ رہا تھا کہ ” لوگوں سے نہ ڈرو، اور مجھ سے ڈرو“۔( مائدہ آیت 44)۔

”صاحبان ایمان آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ۔( توبہ آیت ص 71)

پروردگار نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو فریضہ قرار دیاہے کہ اسے معلوم ہے کہ اگر یہ کام ہوجائے تو سارے فرائض قائم ہوسکتے ہیں ، یہ مسئلہ اسلام کی طرف دعوت ، مظالم کی روک تھام، ظالم کی مخالفت حقوق شرعیہ کی صحیح تقسیم ، صدقات کے برمحل صرف کا ذریعہ ہے۔

پھر تم لوگ تو علم کے ساتھ شہرت رکھتے ہیں اور تمھارا ذکر خیر کے ساتھ ہوتاہے، نصیحت کرنے والے ہو، لوگوں کے دلوں میں ہیبت رکھتے ہو، شریف تم سے مرعوب رہتے ہیں ، ضعیف تمھارا احترام کرتے ہیں، وہ لوگ بھی تمھیں مقدم کرتے ہیں جن پر نہ تمھیں کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ تمھارا کوئی احسان ہے، لوگوں کے ضروریات میں سفارش کرکے کام کرادیتے ہو اور لوگوں کے درمیان بادشاہ بن کے رعب و داب اور بزرگوں کی ہیبت کے ساتھ چلتے ہو۔

کیا تمھاری یہ ساری حیثیت و شخصیت اس لئے نہیں ہے کہ لوگ تم سے امید رکھتے ہیں کہ تم حق الہی کے ساتھ قیام کرسکتے ہو اگر چہ تم اکثر حقوق میں کوتاہے کررہے ہو، تم نے ائمہ کے حق مین کوتاہی کی ہے کمزوروں کے حقوق کو ضائع کیا ہے،صرف اپنا حق طلب کرتے رہتے ہو نہ کوئی مال خرچ کرتے ہو اور نہ نفس کے لئے کوئی خطرہ مول لیتے ہو اور نہ خدا کے لئے اپنی قوم سے کوئی مول لیتے ہو ، صرف یہ آرزو رکھتے ہو کہ جنّت مل جائے، انبیاء کرام کے ہمسایہ میں رہیں اور عذاب سے نجات حاصل کرلیں ۔

اے خدا سے بیجا آرزوئیں وابستہ کرنے والو ! مجھے تمھارے بارے میں عذاب کے نازل ہوجانے کا خطرہ ہے کہ تم خدا کی مہربانی سے اس منزل تک پہنچ گئے ہو جہاں بہترین فضیلت دی جاتی ہے ، تم خدا شناسوں کا احترام نہیں کرتے ہو اور بندگان خدا تمھارا احترام کرتے ہیں ، تم عہد الہی کو ٹوٹتے دیکھتے ہو تو بیچین نہیں ہوتے ہو حالانکہ اپنے عہدوں کیلئے ہمیشہ بیچین رہتے ہو، دیکھو پیغمبر اسلام کا عہد حقیر بنایا جارہاہے ، شہروں میں اندھے پن ، گونگے پن اور لنج کی بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں مگر نہ تمھیں رحم آتاہے اور نہ تم اپنے مقام پر عمل کرتے ہو اور نہ عمل کرنے والوں کی مدد کرتے ہو، صرف ظالموں کی خوشامد اور ان کے ساتھ اچھے تعلقات کی پناہ تلاش کرتے رہتے ہو، پروردگار نے تمھیں برائیوں سے رکنے اور روکنے کا حکم دیا ہے مگر تم سب سے غافل ہو، تمھاری مصیبت سب سے زیادہ عظیم تر ہے کہ کہ تم علماء کی جگہ لئے ہوئے ہو، اگر تمھیں اس بات کا شعور ہو۔

یاد رکھو کہ تمام امور دنیا اور احکام کے تنفیذی راستے ان علماء کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں جو حلال و حرام کے امین ہوتے ہیں ، اور تمھارے پاس یہ منزلت نہیں ہے، اس لئے کہ تم نے حق سے انحراف کیا ہے اور واضح دلائل کے باوجود سنت میں اختلاف کیا ہے ، حالانکہ اگر تم اذیتوں پر صبر کرلیتے اور خدا کے معاملہ میں دشواریوں کو برداشت کرلیتے تو تمام مذہبی امور تمھارے ہی پاس وارد ہوتے اور تمھارے ہی گھر سے برآمد ہوتے اور پھر بازگشت بھی تمھاری ہی طرف ہوتی۔

لیکن افسوس کہ تم نے ظالموں کو اپنے سارے اختیارات دیدئے اور امورا لہیہ کو ان کے حوالہ کردیا کہ وہ شبہات پر عمل کرتے ہیں اور خواہشات کی راہ میں آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں ، انھیں سارا اختیار تمھارے موت سے فرار اور دنیاپسندی نے دیدیاہے، اگر چہ یہ دنیا ساتھ دینے والی نہیں ہے، تم نے اللہ کے کمزور بندوں کو ظالموں کو رحم و کرم پر چھوڑ دیاہے کہ اب کوئی وطن سے دور مقہور ہے اور کوئی کمزور اور روٹی سے محروم ہے اور یہ سب ساری حکومت میں انھیں کی مرضی سے الٹ پلٹ کرتے ہیں اور ذلت و رسوائی کواپنا شعار بنائے ہوئے ہیں کہ انھوں نے اشرار کی اقتداء کرلی ہے اور خدائے جبار کے مقابلہ میں جری ہوگئے ہیں ، ہر شہر کے منبر پر انھیں کا خطیب گرج رہاہے، زمین انھیں کے زیر تصرف ہے اور ان کے ہاتھ بالکل کھلے ہوئے ہیں، لوگ ان کے غلام ہوچکے ہیں اور کسی کے ہاتھ کو روک نہیں سکتے ہیں۔

ان ظالموں میں کوئی دشمن ترین جابر ہے اور کوئی کمزوروں پر ظلم ڈھانے والا صاحب اختیار ہے، ایسا حکمراں ہے جو اس خدا کو پہچانتا ہی نہیں ہے جس نے ایجاد کیا ہے اور پھر واپس بلانے والا ہے۔

کس قدر تعجب کی بات ہے اور کس طرح تعجب نہ کیا جائے کہ زمین خدا خیانت کار منحوسوں اور صدقہ دینے والے ظالموں اور مومنین کے حق میں بے رحموں سے بھری ہوئی ہے خیر اب خدا ہی ہمارے اختلاف کا فیصلہ کرے گا اور وہی ان مسائل میں اپنے فیصلہ کو جاری کرے گا ۔

خدایا تجھے معلوم ہے کہ میرا اقدام نہ کسی اقتدار کے حصول کے لئے تھا اور نہ مال دنیا کی تلاش کے لئے، میں صرف یہ چاہتا تھا کہ تیرے دین کے نشانات واضح ہوجائیں، تیرے شہروں میں اصلاح نمایاں ہوجائے، تیرے مظلوم بندے مطمئن ہوجائین اور تیرے فرائض ، سنن ، اور احکام پر عمل ہونے لگے۔

یاد رکھو کہ تم لوگ اگر اب بھی میری مدد نہ کروگے اور انصاف نہ کروگے تو ظالم مزید قوی ہوجائیں گے اور تمھارے پیغمبر کے چراغ ہدایت کو خاموش کردیں گے، اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور اسی پر ہمارا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی بارگاہ میں ہماری بازگشت ہے۔( تحف العقول ص 237)۔

771۔ امام زین العابدین (ع) ! آپ نے محمد بن مسلم الزہری کو نصیحت فرماتے ہوئے ایک خط ارسال فرمایا، اللہ ہمیں اور تمھیں فتنوں سے بچائے اور آتش جہنم سے محفوظ رکھے، تم نے اس حال میں صبح کی ہے کہ جو ھی تمھیں پہچان لے گا تمھارے حال پر رحم کرے گا ، تمھارے اوپر اللہ کی نعمتوں کا ایک بوجھ ہے، اس نے تمھارے بدن کو صحت دی ہے، زندگی کو طویل بنایاہے، کتاب دے کر حجت تمام کردی ہے ، دین فہمی کا شعور دیاہے، سنت پیغمبر کا عرفان عطا فرمایاہے اور پھر ہر نعمت کے مقابلہ میں اور ہر اتمام حجت کے نتیجہ میں ایک فرض قرار دیاہے اور وہ فرض یہ ہے کہ ہر فضل و کرم اور ہر نعمت و احسان پر اس کا شکریہ ادا کرو، ارشاد ہوتاہے ” اگر تم میرا شکریہ ادا کروگے تو میں اضافہ کردوں گا اور اگر کفران نعمت کروگے تو میرا عذاب بہت سخت ہوگا۔

تو اب دیکھو کہ کل تمھارا کیا حال ہوگا جب اس مالک کے سامنے کھڑے ہوگے اور وہ ہر نعمت کے بارے میں سوال کرے گا کہ اس کا کس طرح تحفظ کیا تھا اور ہر حجت کے بارے میں سوال کرے گا کہ اس کے بارے میں کیا فیصلہ کیا تھا اور یہ یاد رکھو کہ خدا نہ کسی بے ربط عذر کو قبول کرسکتاہے اور نہ کسی تقصیر سے راضی ہوسکتاہے، افسوس ، افسوس، یہ کچھ نہیں ہوسکتاہے، اس نے اپنی کتاب میں علمائے سے عہد لے لیا ہے کہ اسے لوگوں کے لئے واضح کروگے اور اس کے مطالب کو چھپاؤگے نہیں “۔( آل عمران 187)۔

یاد رکھو کہ کم سے کم نعمت خدا کا کتمان اور معمولی سے معمولی تمھاری مسؤلیت یہ ہے کہ تم نے ظالم کی وحشت کو انس میں تبدیلی کیا ہے اور اس کی گمراہی کے راستہ کوآسان کردیا ہے کہ جب اس نے چاہا اس سے قریب ہوگئے اور جب اس نے پکارا لبیک کہہ دی ۔

مجھے کس قدر خوف ہے کہ کل تم منزل عتاب میں اس گناہ کی بناپر خائنوں کے ساتھ محشور ہو اور تم سے ظالموں کی اس اعانت کا حساب لیا جائے کہ تم نے ظالم کے غلط عطیہ کو قبول کرلیا اور حقدار کو حق نہ دینے والے سے قرب اختیار کرلیا ، اس کے باطل کو رد نہیں کیا اور خدا سے مقابلہ کرنے والے کے مطالبہ کو قبول کرلیا۔

کیا ظالم کا تمھیں بلاکر ایسا قطب قرار دیدینا جس پر وہ ظلم کی چکی چلاسکے اور ایسا پل بنادینا جس سے گذر کر مظالم تک پہن سکے اور ایسی سیڑھی کا درجہ دیدینا جس سے گمراہی تک جاسکے… اور مسلسل ضلالت کی دعوت دیتے ہوئے اپنے راستہ پر چلتا رہے جس کا مقصد یہ تھا کہ تمھارے ذریعہ علماء کو مشکوک بنائے اور پھر جہلاء کے دلوں کو ان کی طرف کھینچ کر لے جائے، تو ظالم کے مخصوص ترین وزیر اور مقرب ترین مددگار نے بھی وہ نہیں کیا جو تمھارے ذریعہ ہوگیا کہ ان کے فساد کی تائید کردی اور ان کے پاس عوام و خواص کی آمد و رفت کا ذریعہ بن گئے۔

بھلا کس قدر وہ دولت کم ہے جو انھوں نے تمھیں اس برے کام کے معاوضہ میں دی ہے اور کس قدر معمولی وہ تعمیر تمھارے لئے کی ہے اس تخریب کے مقابلہ میں جو تمھاری آخرت کے سلسلہ میں کردی ہے، اب تم اپنے بارے میں خود غور کرو کہ دوسرا غور کرنے والا نہیں ہے اور تم اپنا حساب اس شخص کی طرح کرو جسے کل حساب دینا ہے۔

اور یہ بھی دیکھو کہ تم نے اس کا کیسا شکریہ ادا کیا ہے جس نے صبح و شام چھوٹی بڑی نعمتوں کی غذا دی ہے ، مجھے تو بیحد خوف ہے کہ تمھارا حال ان لوگوں جیسا نہ ہوجائے جن کے بارے میں ارشاد الہی ہوتاہے“ ان کے بعد وہ لوگ کتاب کے وارث ہوگئے جنھیں صرف اس دنیا کے مال و متاع کی فکر تھی اور آخرت کے بارے میں کہتے تھے کہ عنقریب ہمارے گناہ معاف کردیے جائیں گے “ (اعراف 169)۔

تم قیام والے گھر میں نہیں ہو، تم ایسی منزل میں ہو جہاں سے کوچ کا اعلام ہوچکاہے اور آدمی اپنے ساتھیوں کے بعد رہ بھی کس قدر سکتاہے خوشا بحال جو اس دنیا میں خوف آخرت کے ساتھ زندہ رہیں، اور بدبختئ ان کے لئے ہے جو خود تو مرجائیں لیکن ان کے گناہ باقی رہ جائیں۔

ہوشیار ہوجاؤ کہ تمھیں خبردار کردیا گیاہے اور جلدی عمل کرو کہ وقت کم رہ گیا ہے ، تمھارا معاملہ اس سے ہے جو جاہل نہیں ہے اور تمھارے اعمال کا محافظ وہ ہے جو غافل نہیں ہے، تیاری کرو کہ طولانی سفر قریب آگیا ہے اور اپنے گناہوں کا علاج کرو کہ شدید بیماری کا سامنا ہے۔

خبردار یہ خیال نہ کرنا کہ میں تمھیں تنبیہ اور سرزنش کرنا چاہتاہوں، میرا مقصد صرف یہ ہے کہ تمہاری جورائے مردہ ہوچکی ہے وہ زندہ ہوجائے اور تمھارا جو دین گم ہوگیاہے وہ پلٹ کر چلا آئے، تمھین تو پروردگار کا یہ ارشاد یاد ہے” یاد دلاتے رہو کہ یاد دہانی صاحبان ایمان کے حق میں مفید ہوتی ہے“ (زیارات 55)۔

کیا تمھیں وہ ساتھی ، ہمسن یاد نہیں ہیں جو یہاں سے چلے گئے اور تمھیں اکیلا چھوڑ گئے، اور تمھیں اکیلا چھوڑ گئے، دیکھو کیا وہ بھی اس مصیبت میں مبتلا تھے جس میں تم مبتلا ہو یا اس مسئلہ میں گر پڑے تھے جس میں تم گرے ہو، یا تمھیں کوئی ایسا خیر یاد آگیا ہے جسے انھوں نے چھوڑ دیا تھا یا ایسی چیز معلوم ہوگئی ہے جس سے وہ ناواقف تھے… تمھیں تو یہ نعمت بھی حاصل ہوگئی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں تمھاری مخصوص جگہ ہے اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں ، تمھاری رائے کا اتباع ہوتاہے، تمھارے احکام پر عمل ہوتاہے، تمھارے حلال و حرام کی پابندی کی جاتی ہے۔

اور عوام کو تمھارے اس اتباع پر صرف اس چیز نے آمادہ کردیا ہے کہ علماء ختم ہوگئے ہیں اور جہل تم پر اور ان پر دونوں پر غالب آگیاہے اور ریاست کی محبت نے غلبہ کرلیا ہے اور یہ تم سے اور حکام سے دنیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اب کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ تم کس جہالت اور فریب میں مبتلا ہو اور عوامل کس بلا اور فتنہ میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ ان کو سارا شوق ہے کہ تمھارا جیسا علم حاصل ہوجائے اور تمھاری جیسی منزل حاصل کرلیں اور اس کے نتیجہ میں اسی سمندر میں گڑ پڑے ہیں جس کی تھاہ نہیں مل سکتی ہے اور اسی بلاء میں مبتلا ہوگئے ہیں جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتاہے، اللہ ہم دونوں کا نگہبان ہے اور اسی سے مدد کی امید ہے۔

اچھا دیکھو اب ان حالات سے کنارہ کش ہوجاؤ تا کہ صالحین سے ملحق ہوجاؤ جو قبروں میں دفن ہوچکے ہیں، اس عالم میں کہ پیٹھ اور پیٹ ایک ہوگئے ہیں اور اب خدا اور ان کے درمیان کوئی حجاب نہیں رہ گیا ہے، نہ دنیا انھیں دھوکہ دے سکتی ہے اور نہ وہ دھوکہ کھاسکتے ہیں ۔ انھوں نے آخرت کی رغبت پیدا کی، اسے تلاش کیا اور بالآخر منزل تک پہنچ گئے۔

اگر دنیا تمھیں اس قدر بہکا سکتی ہے جبکہ بوڑھے ہوگئے ہو اور شعور پختہ ہوچکاہے اور موت سامنے آچکی ہو تو نوجوان کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں جو علم کے اعتبار سے جاہل ، فکر کے اعتبارسے کمزور اور عقل کے اعتبار سے مشکوک ہیں ۔(انا للہ وانا الیہ راجعون)۔

بھلا کس پر بھروسہ کیا جائے اور کس کے پاس فریاد کی جائے، اور کس کے پاس فریاد کی جائے، ہم خدا کی بارگاہ میں اپنے غم اور تمہاری حالت کے بارے میں فریاد کرتے ہیں اور اسی کے یہاں اپنی مصیبتوں کا حساب کرتے ہیں۔

اب تم دیکھو کہ جس نے چھوٹی بڑی نعمتوں سے نوازا ہے اس کا شکریہ کس قدر ادا کرتے ہو او راس کی عظمت کا کس قدر خیال رکھتے ہو جس نے اپنے دین کے ذریعہ تمھیں لوگوں میں جمیل بنادیا ہے اس کے لباس عافیت کو کس قدر محفوظ رکھتے ہو جس کے ذریعہ اس نے تمھاری پردہ پوشی کی ہے، اس سے کس قدر قریب یا دور ہو جس نے تمھیں اپنے سے قریب رہنے کا حکم دیاہے۔

آخرت تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ اس غفلت سے ہوشیار نہیں ہوتے ہو ان لغزشوں سے سنبھلتے نہیں ہو کہ یہ اقرار کرو کہ بخدا میں نے ایک مقام پر بھی خدا کے لئے ایسا قیام نہیں کیا ہے جس سے اس کے دین کو زندہ کیا جاسکے یا کسی باطل کو مردہ بنایا جاسکے… اور اسی اقرار کو اس معبود کی نعمتوں کا شکریہ قرار دو، مجھے کس قدر خوف ہے کہ تم ان لوگوں جیسے ہوجاؤ جن کے بارے میں پروردگار نے فرمایا ہے کہ ” ان لوگوں نے نمازوں کو برباد کردیا اور خواہشات کا اتباع کرلیا تو اب عنقریب اپنی گمراہی کا سامنا کریں گے ۔( مریم 59)۔

خدا نے تمھیں اپنی کتاب کا حامل اور اپنے علم کا امانتدار بنایا تھا اور تم نے اسے ضائع کردیا ہے، ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہم کو اس بلا سے محفوظ رکھا ہے جس میں تمھیں مبتلا کردیا ہے۔ والسّلام (تحف العقول ص 274)۔

772۔ یزید بن عبداللہ نے اپنے راوی کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ امام ابوجعفر (ع) نے سعد الخیر کے نام لکھا ’ ‘ بسم اللہ الرحمن الرحیم “ اما بعد میں تمھیں تقویٰ الہی کی وصیت کرتاہوں کہ اسی میں بربادی سے نجات اور آخرت میں فائدہ کی امید ہے، پروردگار نے تقویٰ کے ذریعہ بندوں کو عقل کے گم ہوجانے سے بچایاہے اور ان کی جہالت اور گمراہی کا علاج کیاہے۔ تقویٰ ہی کے ذریعہ نوح اور ان کے اہل سفینہ نے نجات پائی تھی اور صالح اور ان کے ساتھیوں نے بجلی سے امان حاصل کی تھی، تقویٰ ہی کے ذریعہ صابرین اور ان کی جماعت نے ہلاکتوں سے نجات حاصل کی تھی اور ان کے ساتھی اسی راستہ پر چل کر اسی فضیلت کے طلب گار تھے، انھوں نے شبہات میں گرنے کی سرکشی کو چھوڑ دیا تھا کہ کتاب خدا کا پیغام ان تک پہنچ گیا تھا، انھوں نے رزق الہی پر اس کا شکریہ ادا کیا کہ وہ شکریہ کا حقدار تھا اور اپنی کوتاہیوں پر اپنے نفس کی مذمت کی کہ نفس مذمت کے قابل تھا، انھیں یہ معلوم تھا کہ خدا علیم اور حلیم ہے اس کا غضب صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو اس کی رضا کو قبول نہیں کرتے ہیں اور وہ نعمتوں سے محروم بھی انھیں کو رکھتاہے جو اس کے عطا یا کو قبول نہیں کرتے ہیں ، وہ گمراہی میں انھیں کو چھوڑ دیتاہے جو ہدایت کو قبول نہیں کرتے ہیں۔

اس کے بعد اس نے گناہگاروں کو توبہ کا موقع دیا تا کہ گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل کرلیں اور اپنی تاب میں بلند آوازسے بندوں کو اس امر کی طرف دعوت دی ، اس نے بندوں کو دعاؤں سے روکا نہیں ہے لیکن ملعون وہ لوگ ہیں جنھوں نے تنزیل الہی کو چھپا دیا ہے۔

پروردگار نے اپنے نفس پر رحمت کو لازم قرار دے لیا ہے ، اس کی رحمت غضبت پر سبقت رکھتی ہے اور صدق و عدالت کے ساتھ مکمل ہے وہ بندوں پر اس وقت تک غضبناک نہیں ہوتاہے جبتک وہ خود غضبناک نہ ہوں، یہ علم الیقین ہے اور یہی علم ا لتقویٰ ہے، ہر قوم کا انجام یہی ہوا ہے کہ جب اس نے کتاب کو چھوڑ دیا ہے تو خدا نے علم الکتاب کو چھین لیاہے اور جب دشمنان خدا کو اپنا ولی امر بنالیاہے تو انھیں کے حوالہ کردیا ہے۔

کتاب کو چھوڑ دینے کا مطلب یہ تھا کہ اس کے حروف کو باقی رکھا اور حدود میں ترمیم کردی ۔ اس کی روایت تو برابر کرتے رہے لیکن رعایت نہیں کی، جاہلوں کو ان کی روایت ہی اچھی لگتی ہے اور علماء رعایت و حفاظت کو نظر انداز کردینے کی بناپر ہمیشہ رنجیدہ رہتے ہیں۔

دوسرا طریقہ کتاب کو چھوڑنے کا یہ تھا کہ جاہلوں کو کتاب کا ولی امر بنادیا اور انھوں نے خواہشات کی منزل میں وارد کردیا اور ہلاک کی طرف پہنچا دیا، دین کے احکام کو تبدیل کردیا اور پھر کتاب کا وارث جاہلوں اور نادان بچوں کو بنادیا، اب امت امر الہی کے بجائے انھیں کے احکام لے کر جاتی ہے اور انھیں کے پاس آتی ہے ، ہائے ظالموں نے کس قدر غلط بدل تلاش کیا ہے، ولایت خد ا کے بعد ولایت بشر اور ثواب الہی کے بدلے معاوضہٴ انسان اور رضائے الہی کے بجائے رضائے مردم ۔

اب امت کا یہ حال ہوگیا ہے کہ انھیں میں وہ بھی ہیں جو اس گمراہی میں کوشش عبادت کئے چلے جارہے ہیں اپنے حال پر خوش ہیں اور دھوکہ مین مبتلا ہیں، ان کی عبادت خود ان کے واسطے بھی فتنہ ہے اور ان کا اتباع کرنے والوں کے واسطے بھی وجہ گمراہی ہے۔

دیکھو! مرسلین کے زندگی میں عبادت گذاروں کے لئے بہترین نصیحت موجود ہے جب کوئی نبی اطاعت کے درجہ کمال تک پہنچنے کے بعد اگر ایک مرتبہ ترک اولیٰ کردیتا تھا تو کبھی جنت سے باہر نکل آتا تھا اور کبھی مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا جاتا تھا، اس کے بعد توبہ اور اعتراف کے بغیر اس مصیبت سے نجات نہیں پاتا تھا۔

اس کے بعد علماء یہود اور راہبوں کی مثالوں کو دیکھو جو کتاب الہی کو چھپاتے بھی تھے اور اس میں تحریف بھی کرتے تھے لیکن اس تجارت سے کوئی فائدہ نہ ہوا اور ہدایت یافتہ بھی نہ ہوسکے۔

اس کے بعد اس امت کے ان افراد کو دیکھو جنہوں نے کتاب کے حروف کو باقی رکھا اور حدود میں ترمیم کردی، اپنے حکام اور شخصیات کے ساتھ لگے رہے اور جب حکام کے درمیان اختلاف پیدا ہوا تو ان کے ساتھ لگ گئے جن کے پاس دنیا زیادہ تھی ، یہی ان کے علم کی انتہاء تھی اور اسی طرح دلوں پر مہر لگ گئی اور لالچ میں زندگی گذارتے رہے، ابلیس کے حرف باطل کی آواز ہمیشہ انھیں کی زبانوں سے سنائی دیتی رہی۔

علماء برحق ہمیشہ ان احبار و رہبان جیسے علماء سے اذیتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرتے رہے اور یہ علماء برحق کو حق کی تکلیف دینے پر عیب دار قرار دیتے رہے۔

یاد رکھو یہ علماء خود بھی خائن ہیں اگر نصیحت کو مخفی رکھیں ، گمراہ کو دیکھ کر ہدایت نہ دیں، مردہ دل کو دیکھ کر زندہ نہ بنائیں، یہ بدترین اعمال انجام دینے والے ہیں کہ پروردگار نے اپنی کتاب میں ان سے عہد لیا ہے کہ نیکیوں کا حکم دیتے رہیں اور برائیوں سے روکتے رہیں ، نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کریں اور گناہ اور ظلم پر تعاون نہ کریں ۔

علماء جہلاء کی طرف سے ہمیشہ زحمت و مصیبت میں رہتے ہیں ۔ نصیحت کریں تو کہتے ہیں کہ تم اونچے ہورہے ہو، جس حق کو نظر انداز کردیا گیاہے اس کی تعلیم دیں تو کہتے ہیں کہ جھگڑا ڈال رہے ہو، الگ ہوجائیں تو کہتے ہیں کہ لاپرواہ ہوگئے ہو، ان کی باتوں پر دلیل کا مطالبہ کریں تو کہتے ہیں کہ یہ منافقت ہے اور ان کی اطاعت بھی کرلیں تو کہتے ہیں کہ تم خدا کی معصیت کررہے ہو۔

یہ جہلاء اپنی جہالت کی بناپر ہلاک ہوگئے کہ تلاوت کے بارے میں امّی محض ہیں ، تعریف کے وقت کتاب کی تصدیق کرتے ہیں اور تحریف کے وقت تکذیب کردیتے ہیں اور کوئی انکار کرنیوالا بھی نہیں ہے۔

ان لوگوں کی مثال احبار اور رہبان جیسی ہے جو خواہشات کے میدان کے قائد اور گمراہیوں کے سردار تھے۔

دوسری قسم وہ ہے جو ہدایت اور گمراہی کے درمیان میں ہے اور ایک گروہ کو دوسرے سے الگ نہیں کرپاتی ہے، وہی کہتے ہیں جسے لوگ پہچانتے ہیں اور خود نہیں جانتے ہیں کہ یہ کیا ہے ؟ لوگوں کی شریعت پیغمبر کو چھوڑنے پر بھی تصدیق کردیتے ہیں، ان پر نہ کوئی بدعت ظاہر ہوتی ہے اور نہ کوئی سنت تبدیل ہوتی ہے نہ کوئی خلاف ہے نہ اختلاف ، مگر جب لوگوں پر غلطیوں کی تاریکی چھا جاتی ہے تو دو طرح کے امام پیدا ہوجاتے ہیں ، ایک اللہ کی طرف دعوت دیتاہے اور ایک جہنم کی طرف ، یہی وقت ہوتاہے جب شیطان کا بیان ظاہر ہوتاہے اور اس کی آواز اس کے چاہنے والوں کی زبان سے بلند ہوجاتی ہے ، اس کے سوار اور پیادہ بکثرت جمع ہوجاتے ہیں اور وہ ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجاتاہے ، وہ لوگ اس کی بدعتوں پر عمل کرتے ہیں اور کتاب و سنت کو چھوڑ دیتے ہیں، ہاں اولیاء خدا حجت کے ساتھ بولتے ہیں اور کتاب و حکمت کو اختیار کرلیتے ہیں ، اور اس طرح اہل حق اور اہل باطل الگ الگ ہوجاتے ہیں، اہل ہدیات کو چھوڑ دیا جاتاہے اور اہل ضلالت سے تعاون کیا جاتاہے یہاں تک کہ جماعت فلاں اور اس کے امثال کے ساتھ ہوجاتی ہے لہذا ان دونوں قسموں کو نگاہ میں رکھو اور جو شریف میں ان کے ساتھ رہو یہاں تک کہ منزل پر پہنچ جاؤ، بیشک خسارہ والے وہی ہیں جنھوں نے اپنے نفس اور اپنے اہل سب کو روز قیامت خسارہ میں مبتلا کردیا اور یہی کھلا ہوا خسارہ ہے، سورہ رمز آیت 5۔ ( کافی 8 ص 52 / 16)۔

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام حسين(ع) کا وصيت نامه
قرآن کی نظر میں جوان
حضرت محمد بن الحسن (عج)
امام حسین علیہ السلام کے مصائب
شہادت امیرالمومنین حضرت علی مرتضی علیہ السلام
روزہ کی اہمیت کے متعلق نبی اکرم (ص) کی چند احادیث
حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے بارے میں ابن ابی الحدید ...
آیت تطہیر کا نزول بیت ام سلمہ (ع) میں
ادب و سنت
زیارت حضرت فاطمہ معصومہ قم (ع)

 
user comment