اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

صحابہ قرآن میں

صحابہ قرآن میں

                سورہ فتح میں خدا وند کریم صحابہ کے متعلق ارشاد فرماتا ہے:

                مُحَمَّد رَسُولُ اللّٰہ وَ الَّذِیْنَ مَعْہ اَشِدَّاء عَلٰی الْکُفَّار رُحْمٰاء بَیْنَھُمْ تَرَاھُم رکعا سجدا یبتغون فضلا من اللّٰہ و رضوانا سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود ذالک مثلھم فی التوراة و مثلھ-م فی الانجیل کزرع اخرج شطاہ فازرہ فاستغلظ فاستویٰ علی سوقہ یعجب الزراع لیغیظ بھم الکفار وعداللّٰہ الذین آمنوا و عملوا الصالحات منھم مغفرة و اجرا عظیما“(فتح/۲۹)

                محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحم دل ہیں تم انھیں بارگاہ احدیت میں سر خم کئے ہوئے سجدہ ریز دیکھو گے اور اپنے پرور دگار سے فضل و کرم اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہوں گے کثرت سجود کی بنا پر ان کی پیشانیوں پر سجدے کے نشانات پائے جاتے ہیں یہی ہیں جن کی مثال تورات میں ہے اور یہی ہیں جن کی صفت انجیل میں ہے جیسے کوئی کھیتی ہو جو پہلے سوئی نکالے پھر اسے مضبوط بنائے پھر وہ موٹی ہو جائے اور پھر اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے کہ کاشتکاروں کو خوش کرنے لگے تاکہ ان کے ذریعہ کفار کو جلایا جائے اور اللہ نے صاحبان ایمان و عمل صالح انجام دینے والے سے مغفرت اور عظیم اجر کا وعدہ کیا ہے

                لمحہ فکریہ

                اگر کوئی شخص آیت کے پہلے حصہ کو پڑھے گا تو دیکھے گا کہ رسول  کے ساتھ عموم صحابہ کی مدح کی جارہی ہے لیکن جب آیت کریمہ کے اس ٹکڑے پر پہنچے گا:”وعد اللهالذین آمنوا وعملوا الصالحات منھم ۔۔۔“اسے یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ االلہ تعالیٰ نے تمام صحابہ سے مغفرت واجر کاوعدہ نہیں کیا ہے بلکہ جولوگ ایمان وعمل صالح کو بجالانے والے ہیں فقط ان ہی سے وعدہ الٰہی مخصوص ہے اگر تمام صحابہ سے وعدے الٰہی ہوتا توآیت میں”وعدھم اللّٰہ “آناچاہئے تھا ،اسی سورہٴ مبارکہ میں ایک دوسرے مقام پر اصحاب رسول اللہ  کاذکر کیاجارہاہے جہاں پر خداوند کریم نے ارشاد فرمایا:

                ان الّذین یبایعونک انما یبایعون الله یدالله فوق ایدیھم فمن نکث فانما ینکث علیٰ نفسہ ومن اوفیٰ بھا عاھدعلیہ اللهفسیوٴتیہ اٴجراً عظیماً“(فتح /۱۰)

                بیشک جولوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ کی بیعت کرنے والے ہیں اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کاہاتھ ہے اب اس کے بعد جو بیعت کوتوڑ دیتاہے وہ اپنے ہی خلاف اقدام کرتاہے اور جوعہد الٰہی کوپورا کرتاہے خدا عنقریب اسی کو اجر عظیم عطاکرے گا

                آپ یہاں پر غور کریں کہ بیعت توڑنے والوں کی تہدید کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ دیکھو جوکوئی بیعت توڑدے گا در حقیقت وہ خدا کو کوئی نقصان وضرر نہیں پہنچارہاہے بلکہ اپنے خلاف وہ خود اقدام کررہاہے اسی آیت کے مقابلہ میں سورہ الحجرات کی یہ آیت کریمہ ہے:

                ان الّذین ینادونک من وراء الحجرات اکثرھم لایعقلون  ولو انھم صبروا حتی تخرج الیھم لکان خیرا لھم واللهغفور رحیم “ (حجرات/۴،۵)

                بیشک جولوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان کی اکثریت کچھ نہیں سمجھتی ہے ،اور اگر یہ اتنا صبر کرلیتے کہ آپ نکل کرباہر آجاتے تو یہ ان کے حق میں زیادہ بہتر ہوتا اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے

                غور کریں خداوند کریم نے مسلمانوں کے اس فرقہ کی جو صفت بیان کی ہے وہ یہ کہ اکثریت کچھ نہیں سمجھتی ،اسی سورہ کے آغاز میں ان لوگوں کی ایک صفت اور بیان کی کہ یہ اپنی آواز کونبی  کی آواز پر بلند کرتے ہیں جب کہ موٴمن بھی ہیں،اسی سورہ کی ایک آیت ملاحظہ فرمائیں :

                یاایّھا الّذین آمنوا ان جاء کم فاسق بنباء فتبینوا ان تصیبکم قوماً بجھالة فتصبحوا علیٰ ما فعلتم نادمین“(سورہ حجرات/۶)

                اے ایمان والوں اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی جستجو وتحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ جہالت کی بنیاد پر کسی قوم کو نقصان پہنچادو پھر اپنے کئے پر نادم ہوکہ جس اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے

                یہ بات معروف ومشہور ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ عثمان بن عفان کا مادری بھائی تھا ،رسول اکرم  نے ولید کو بنی مصطلق کے پاس زکاة وصول کرنے کے لئے بھیجا ، وہ لوگ رسول  کے نمائندہ کی آمد کی خبر سن کر استقبال کے لئے باہر نکل آئے ولید نے واپس آکر دروغ بیانی سے کام لیا اور یہ مشہور کردیا  ۱# کہ وہ لوگ جنگ کے لئے آمادہ ہےں ،اللہ سبحانہ تعالیٰ تو ولید کوفاسق کہہ رہاہے اور آئمہ اہل سنت اس کو عادل بتارہے ہیں ۔

                سورہ توبہ میں خداوند کریم کاارشاد گرامی دیکھیں:

                لقد نصرکم الله فی مواطن کثیرة ویوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلن تغن عنکم شیئاً وضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین“(توبہ /۲۵)

                بیشک اللہ نے بہت سے مقامات پر تمھاری مدد کی ہے اور حنین کے دن بھی جب تمھیں اپنی کثرت پر ناز تھا لیکن اس نے تمھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایااور تمھارے لئے زمین اپنی وسعتوں سمیت تنگ ہوگئی اور اس کے بعد تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے

                اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مذمت کررہاہے جب کہ مسلمان نبی  کوچھوڑ کر بھاگ نکلے ،ایک قلیل جماعت جو انگلیوں پر شمار کرلی جائے مرسل اعظم  کے پاس ٹھہری رہی اور بقیہ تمام افراد نے فرار اختیار کرلیا ،دوسری بات جو آیت سے مستفاد ہوتی ہے وہ مسلمانوں کے غرور کی مذمت ہے یعنی مسلمانوں کو اپنی قوت و کثرت پر بڑا نا ز تھا اور یہ بات ابوبکر نے کہی تھی کہ :  لن نغلب الیوم من قلة ۲  #

                اسی سورہ ٴ  توبہ میں خدا صحابہ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمارہاہے :

یا ایّھا الّذین آمنوا مالکم اذا قیل لکم انفروا فی سبیل الله اثاقلتم الی الارض ارضیتم بالحیوة الدنیا من الاخرة فما متاع الحیوة الدنیا فی الاخرة الا قلیل الا تنفروا یعذبکم عذابا الیما و یستبدل قوماًغیرکم ولاتضروہ شیئاً والله علیٰ کل شی ء قدیر“   ۳#

اے ایمان والو تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا گیا کہ راہ خدا میں جہاد کے لئے نکلو تو تم زمین سے چپک کر رہ گئے کیا تم آخرت کے بدلے زندگانی دنیا سے راضی ہو گئے ہو تو یاد رکھو کہ آخرت میں اس متاع زندگانی دنیا کی حقیقت بہت قلیل ہے اگر تم راہ خدا میں نہ نکلو گے تو خدا تمھیں درد ناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور تمھارے بدلے دوسری قوم کو لے آئے گا اور اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ہو کہ وہ ہر شیٴ پر قدرت رکھنے والا ہے

                خدا حکیم یہاں پر صحابہ کو سرزنش کر رہا ہے کہ وہ جہاد سے پیٹھ دکھا رہے تھے ،یہ بات بھی پوشیدہ نہیںہے کہ خدا وند کریم صحابہ کو عذاب الیم (درد ناک عذاب )کا مژدہ سنا رہا ہے اور اس جانب بھی تصریح کر رہا ہے کہ دیکھو !میں تمھارے بدلے ایک دوسری قوم لے آؤںگا (ایک رائے کے مطابق وہ دوسری قوم فرض ہے)اگر تم خد اکی راہ میں جہادکے لئے نہ نکلے اب میرا سوال ہے کہ یہاں پر تو صحابہ کی مذمت کی جارہی ہے مدح کہاں ہو رہی ہے ؟ اسی سورہ میں یہ آیت بھی ہے ۔

                ومنھم من عاھد اللہ لئن اتانا من فضلہ لنصدقن و لنکونن من الصالحین ۔فاعقبھم نفاقا فی قلوبھم الیٰ یوم یلقونہ بما اخلفوا اللہ ما وعدہ و بما کانوا یکذبون“  ( توبہ /۷۵تا ۷۷ )

                ان میں وہ بھی ہیں جنھوں نے خدا سے عہد کیا کہ اگر وہ اپنے فضل و کرم سے عطا کردے گا تو اس کی راہ میں صدقہ دیں گے اور نیک بندوں میں شامل ہو جائیں گے اس کے بعد جب خدا نے اپنے فضل و کرم سے عطا کر دیا تو بخل سے کام لیا اور کنارہ کش ہو کر اپنی بات سے پلٹ گئے ۔تو ان کے بخل نے ان کے دلوں میں نفاق کو راسخ کر دیا اس دن تک کے لئے جب یہ خدا اسے ملاقات کریں گے اس لئے کہ انھوں نے خدا سے کئے ہوئے وعدہ کی مخالفت کی اور جھوٹ بولے ہیں

                مفسرین کے درمیان مشہور ہے کہ یہ آیت حضور  کے ایک صحابی کے متعلق نازل ہوئی اور وہ ثعلبہ بن حاطب الانصاری تھا ، جس نے آنحضرت  سے اپنے فقر کی شکایت کی اور دعا کی درخوا ست کی کہ میں ثروت مند ہو جاؤں اور جب خدا نے اس کو مال و ثروت عطا کر دیا اور پیغمبر اکرم  نے زکاة کے لئے اس کے پاس عامل بھجے تو اس نے کہا یہ تو ایک قسم کا جزیہ ہے یا جزیہ کے مثل ہے چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی ۔ ثعلبہ ایک صحابی تھا خدا اور رسول پر ایمان رکھتا تھا لیکن خدا نے اس کی توصیف نفاق سے کی ہے تو اب تمام صحابہ کی عدالت کہاں جائے گی ؟ اور پھر علمائے اہل سنت اور ان کے ائمہ کے جو دعوے ہیں ان کا کیا ہوگا؟ پھر اس قول کی کیا تاویل ہوگی کہ اگر کسی صحابی کی کوئی تنقیص کرے تو وہ زندیق ہے جب کہ یہاں پر خد ا نے ثعلبہ کے نفاق کی خبر دی ہے یعنی اس کے کردار کی صحیح تصویر کشی کی ہے (بلکہ ایک ثعلبہ ہی کیا بہت سوں کی خدا نے مذمت کی ہے )تو اب ہل سنت حضرات کیا فتویٰ دیں گے۔ ”فاعتبروا یا اولی الابصار

                سورہ احزاب کی اس آیت پر توجہ کریں:

                واذ یقول المنافقون والذین فی قلوبھم مرض ما وعدنا الله و رسولہ الا غرورا“  (احزاب /۱۲)

                اور جب منافقین اور وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں مرض تھا یہ کہہ رہے تھے کہ خدا اور رسول نے ہم سے صرف دھوکہ دینے والا وعدہ کیا ہے

----------------------------------------------------

   ۱)  دیکھئے تفسیر فخر الرازی (التفسیر الکبیر)سورہ حجرات کی آیت ۶ کی ذیل میں اور طبری ۲۶/۷۸،در منثور ۷/۵۵                         ۲)۔تفسیر فخر رازی سورہ توبہ/۲۵

   ۳)۔سورہ توبہ /۳۸۔۳۹،سورہ توبہ کی ان دو آیتوں کے ذیل میں مخر الدین رازی کہتے ہیں کہ ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ تمام مومنین اس تکلیف میں سستی دکھا رہے تھے اور یہ سستی اور یہ سستی معصیت ہے اس کے بعد رازی کہتے ہیں کہ یہاں پر کل سے خطاب ہےاور بعض کا ارادہ کیا ہے یہ مجاز قرآن میں موجود ہے۔

 

 

 

                ہو سکتا ہے کہ اہل سنت کے علماء یہ کہیں کہ یہ آیت تو منافقین سے مخصوص ہے اس میں صحابہ کا کیادخل ؟ ( ہم عنقریب بیان کریں گے کہ صحابہ ہی منافق تھے ) لیکن اگر کوئی تھوڑی سی بھی دقت نظر کرے گا تو دیکھا گا کہ آیت نے دو گروہوں کا تذکرہ کیا ہے ایک گروہ تو منافقین کا ہے اور دوسرا ان افراد کا ہے جن کے دلوں میں مرض ہے ملاحظہ کیجئے اسی سورہ احزاب میں خدا صحابہ کے متعلق کیا فرما رہا ہے۔

                یا ایّھا الّذین آمنوا لا تدخلو ا بیوت النبی الا ان یوذن لکم الی طعام غیرناظرین اناہ و لکن اذادعیتم فادخلوا فاذا طعمتم فانتشروا ولا مستانسین لحدیث ان ذلکم کان یوذی النبی فیستحی منکم واللّٰہ لا یستحی من الحق و اذا سالتموھن متاعا فسئلو ھن من وراء حجاب ذالکم اطھر لقلوبکم وقلوبھن و ماکان لکم ان توذوا رسول اللّٰہ ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا ان ذالکم کان عند اللّٰہ عظیما“(احزاب/۵۳)

                اے ایمان والو خبر دار پیغمبر کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہونا جب تک تمھیں کھانے کی اجازت نہ دے دی جائے اس رعایت کے ساتھ کہ برتنوں پر نگاہ نہ پڑنے پائے لیکن جب تمھیں دعوت دے دی جائے تو داخل ہو جاؤ اور جب کھا لو تو فورا اپنی جگہ سے منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں نہ لگ جاؤاس لئے کہ یہ بات پیغمبر کے لئے تکلیف دہ ہے وہ تمھارا خیال کرتے ہیں اور اللہ حق کے بارے میں کسی بات میں شرم نہیں کرتا اور جب ازواج پیغمبر سے کسی چیز کا سوال کرو تو پردہ کے پیچھے سے سوال کرو یہ بات تمھارے اور ان کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے اور تمھیں حق نہیں ہے کہ خدا کے رسول کو اذیت دو یا ان کے بعد کبھی بھی ان کی ازواج سے نکاح کرو یہ بات خدا کی نگاہ میں بہت عظیم ہے

                امام فخر الدین رازی اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں :طلحہ بن عبید اللہ نے یہ بات کہی تھی کہ اگر میں پیغمبر کے بعد زندہ رہا تو عائشہ سے نکاح کروں گا  ۔  ۱#

                خدا وند کریم سورہ احزاب کی ایک دوسرے آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

                یا نساء النبی من یات منکن بفاحشة مبینة یضاعف لھا العذاب ضعفین و کان ذالک علی اللہ یسیرا“ ( احزاب/۳۰)

                اے پیغمبر کی بیوی جو بھی تم میں سے کھلی ہوئی برائی کا ارتکاب کرے گااس کا عذاب بھی دہرا کر دیا جائے گااور یہ بات خدا کے لئے بہت آسان ہے

                یہ ہے قرآن کی منطق ،خدا سے مخلوقات خدا کی کوئی رشتہ داری و قرابت داری نہیں اور نہ ہی خدا اور رسول کی جانب سے کسی ایک کے لئے کوئی تکلیف ہے نہ تو کوئی صحابی نہ کوئی زوجہ ، بیشک خدا کے نزدیک معزز ترین مخلوق میں سے وہ ہیں جو سب سے زیادہ پرہیز گا ر ہیں چاہے انبیاء ہوں ،یا مرسلین ،اصحاب پیغمبر  اور ازواج نبی کی مسوٴلیت زیادہ سنگین ہے ان میں سے جو بھی دینی قوانین کی رعایت جس طرح سے انجام دینا چاہئے اگر انجام نہیں دیا تو اس کا عذاب اسی اعتبار سے دوہرا ہوگا کیوں کہ اس نے حق کا مشاہدہ کیا ہے اور پیغمبر اکرم  سے براہ راست ہدایت حاصل کی ہے اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پیغمبر  کے بعد بھی کوئی ہادی ہے ؟ یا ان سے زیادہ امت میںکوئی با عظمت ہے ؟ اگر رسول اعظم کا وجود نہ ہوتا تو نامعلوم اصحاب میں سے کتنو پر عذاب الٰہی نازل ہو جاتا جس طرح سامری اور اس سے پہلے اصحاب و پیروان انبیاء پر عذاب نازل ہوا۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خاندانی حقوق
امام حسن علیہ السلام نے انسانی معاشرے کوعظیم درس ...
دنیائے اسلام کا ممتاز مقام
اسلام ، ملیشیا میں
کربلا اور اصلاح معاشرہ
اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
اسلامی بیداری 2
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
فرانس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا طوفان
عیسائیوں اور یہود یوں نے بے انتہا مسلمانوں کو قتل ...

 
user comment