اردو
Wednesday 24th of April 2024
0
نفر 0

امام حسين (ع) كى سوانح عمري (پہلا حصہ )

89

ولادت

تين شعبان 4ھ _ق كو على (ع) و پيغمبر(ص) كى دختر گرامى كے دوسرے بيٹے كى پيدائشے ہوئي_ (1)

ان كانام ركھنے كى رسم بھى ان كے بھائي حسن (ع) بن على (ع) كى طرح پيغمبر(ص) كے ذريعہ انجام پائي، رسول اكرم(ص) نے خدا كے حكم كے مطابق اس نومولود كا نام حسين ركھا _ (2)

ولادت باسعادت كے ساتويں دن جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا نے اپنے فرزند كے لئے ايك بھيڑ عقيقہ كے عنوان سے قربان كى اور ان كے سركے بالوں كو تراش كر بالوں كے وزن كے برابر چاندى صدقہ ميں دي_ (3)

پيغمبر(ص) كے دامن ميں

حسين (ع) بن على (ع) نے ا پنے بچپن كے چھ سال اور چند ماہ پيغمبر اكرم(ص) كے دامن ميں پرورش پائي اور منبع فياض رسالت (ص) سے علم و معرفت حاصل كيا_

پيغمبر اكرم (ص) ، امام حسين (ع) سے جو اظہار محبت و لطف فرماتے تھے وہ شيعوں كے تيسرے رہنما كى عظمت و بلندى كو بيان كرتا ہے_

حضرت سلمان فارسى فرماتے ہيں كہ ميں نے ديكھا كہ رسول (ص) خدا نے حسين (ع)كو اپنے زانو پر بيٹھا ركھا ہے اور بوسے دے رہے ہيں اور فرماتے ہيں كہ تو سيد و سردار ہے، بڑے سردار كا بيٹا ہے ، بڑے سرداروں كا باپ ہے، تو امام ، فرزند امام اور ابوالائمہ ہے _ تو حجت خدا فرزند حجت خدا

 

90

اور جو نو افراد حجت خدا ہيں انكا باپ ہے انكا خاتم ان كا قائم ہوگا_ (4)

جب رسول خدا (ص) سے پوچھا گيا كہ آپ اپنے اہل بيت (ع) ميںسے كس كو زيادہ دوست ركھتے ہيں تو فرمايا: حسن و حسين عليہما السلام كو _(5)

رسول(ص) خدا بار بار حسن (ع) و حسين (ع) كو سينہ سے لگاتے ، ان كى خوشبو سونگھتے، بوسہ ديتے اور فرماتے تھے حسن و حسين( عليہما السلام)جوانان بہشت كے سردار ہيں_ (6)

پيغمبر (ص) اور امام حسين(ع) كے درميان معنوى اور وراثتى رابطہ كو بيان كرنے كے لئے بلندترين قريب ترين اور واضح ترين جملہ، اس جملہ كو كہا جاسكتا ہے جس ميں پيغمبر(ص) نے فرمايا كہ حسين (ع) مجھ سے ہے اور ميں حسين سے ہوں_'' (7)

والد ماجد كے ساتھ

رسول (ص) خدا كى آنكھيںبند ہوجانے كے بعد امام حسين (ع) نے اپنى عمر مبارك كے تيس سال اپنے پدربزرگوار كے ساتھ گذارے _اس پورى مدت ميں آپ دل و جان سے پدر عاليقدر كى اطاعت كرتے رہے اور باپ كى پانچ سالہ حكومت كے زمانہ ميں امام حسين (ع)اسلام كے مقاصد كو آگے بڑھانے ميں ايك جاں باز فداكار كى طرح اپنے بڑے بھائي كى مانند كوشش كرتے رہے اور جمل و صفين و نہروان كى جنگوں ميں شريك رہے_ (8)

بھائي كے ساتھ

حضرت على (ع) كى شہادت كے بعد، على (ع) كے بڑے بيٹے حسن بن على عليہما السلام كى طرف امامت و رہبرى منتقل ہوگئي_ امام حسين (ع) جو مكتب رسالت و ولايت كے پروردہ تھے، اپنے بھائي كے ساتھ ہم فكر تھے _ جب اسلام اور مسلمانوں كے معاشرہ كے مصالح كے پيش نظر امام حسن _معاويہ كى

 

91

صلح كى پيشكش كو قبول كرنے كے لئے مجبور ہوئے تو اس وقت امام حسين (ع) بھائي كے غموں ميں شريك تھے _ اور چونكہ آپ جانتے تھے كہ يہ صلح، اسلام اور مسلمانوں كى بھلائي كيلئے ہوئي ہے اس لئے آپ نے ہرگز اعتراض نہيں كيا اور ہميشہ امام حسن (ع) كے موقف كا دفاع كرتے رہے_ (9)

ايك دن معاويہ، امام حسن و امام حسين عليہما السلام كے سامنے امام حسن (ع) اور ان كے پدر بزرگوار اميرالمومنين كى بدگوئي كيلئے لب كشاہوا_ امام حسين (ع) اٹھے تا كہ اس كى اہانت كا جواب ديں ليكن آپ كے بھائي نے خاموش رہنے كا اشارہ كيا اور پھر خود ہى انہوں نے معاويہ كو بہت مناسب اور جھنجھوڑنے والے بيان كے ذريعہ خاموش كرديا_(10)

اخلاقى فضائل و مناقب

امام حسين (ع)كى مكمل حق طلب اور خداپرست 56 سالہ زندگى پر اگر اجمالى نظر ڈالى جائے تو ہم كو پتہ چلے گا كہ آپ(ع) كى زندگى ہميشہ پاك دامني، خدا كى بندگي، محمدى (ص) پيغام كى نشر و اشاعت اور انسانيت كى بلند قدروں كى حفاظت ميں گذرى ہے_

آپ كو پروردگار كى نماز و بندگي، قرآن، دعا اور استغفار سے بڑا شغف تھا_ كبھى كبھى شب و روز ميں سينكڑوں ركعت نماز پڑھتے تھے، (11) حتى كہ اپنى زندگى كى آخرى رات ميں بھى عبادت و دعا سے دست بردار نہيں ہوئے اور اس رات آپ (ع) نے دشمنوں سے مہلت مانگى تا كہ خلوت ميں اپنے خدا سے راز و نياز كرسكيں اور فرمايا: خدا جانتا ہے كہ ميں نماز تلاوت قرآن اور دعا و استغفار كو بہت زيادہ دوست ركھتا ہوں_(12)

ابن اثير نے لكھا ہے كہ حسين (ع) بہت روزے ركھتے_ نمازيں پڑھتے حج كو جاتے، صدقہ ديتے اور تمام اچھے كاموں كو انجام ديتے تھے_ (13)

حضرت اباعبداللہ الحسين (ع)زيارت خانہ خدا كيلئے بارہا پيدل تشريف لے گئے اور حج كا

 

92

فريضہ ادا كيا_ (14)

امام حسين (ع)كى شخصيت ايسى پر شكوہ اور باعظمت تھى كہ جب آپ (ع) اپنے بھائي امام حسن مجتبى _كے ساتھ حج كے لئے پيدل جارہے تھے تو تمام بزرگ اور اسلام كے نماياں افراد آپ(ع) كے احترام ميں مركب اور سوارى سے اتر پڑتے اور آپ(ع) كے ہمراہ پيدل راستہ طے كرتے_ (15)

امام حسين (ع) كا ا حترام اور ان كى قدردانى كا معاشرہ اس لئے قائل تھا كہ آپ(ع) ہميشہ لوگوں كے ساتھ زندگى بسر كرتے اور دوسروں كى طرح ايك معاشرہ كى نعمتوں اور مصيبتوں ميں شامل رہتے تھے اور خداوند عالم پر پُر خلوص اعيان كى بناپر آپ عوام كے غم خوار اور مددگار تھے_

آپ ايك ايسى جگہ سے گذر ے جہاں كچھ فقير اپنى اپنى چارديں بچھائے ہوئے بيٹھے تھے اور سوكھى روٹيوں كے ٹكڑے كھارہے تھے _ امام حسين (ع) كو ان لوگوں نے دعوت دى تو آپ نے ان كى دعوت قبول كى اور ان كے پہلو ميں بيٹھ گئے اور پھر آپ نے يہ آيت پڑھي: انَّہ لا يحب المستكبرين_ (16)

اس كے بعد آپ (ع) نے فرمايا كہ : '' ميں نے تمہارى دعوت قبول كى اب تم بھى ميرى دعوت قبول كرو_ وہ لوگ امام حسين (ع) كے ساتھ ان كے گھر آئے_ امام (ع) نے حكم ديا كہ جو كچھ گھر ميں ہے وہ مہانوں كے لئے لايا جائے_(17)

اس طرح آپ نے معاشرہ كو تواضع اور انسان دوستى كا د رس ديا_

اس حصّہ كو علائلى كى اس بات كے خلاصہ كے ساتھ ختم كرتا ہوں جو انہوں نے اپنى كتاب ميں ابا عبداللہ الحسين (ع)كے بارے ميں كہى ہے وہ فرماتے ہيں كہ : '' تاريخ ميں ہم كو ايسے بزرگ افراد نظر آتے ہيں جن ميں ہر ايك نے كسى نہ كسى جہت اور كسى نہ كسى محاذ پر اپنى عظمت و بزرگى كو عالمى حيثيت دى ہے_ ايك شجاعت ميں تو دوسرا زہد ميں تو تيسرا سخاوت ميں ...

ليكن ا مام حسين كى عظمت و بزرگى كا ہر پہلو فراز تاريخ كى عظمت كو دوبالا كرنے والا ہے_ گويا آپ(ع) ميں تمام خوبياں اور بلندياں جمع ہوگئي تھيں_ (18)

 

93

امام حسين (ع) معاويہ كے زمانہ ميں ابوعبداللہ الحسن اپنے پدر بزرگوار كى شہادت كے بعد خدا كے حكم اور اپنے بھائي كى وصيت سے اسلامى معاشرہ كى قيادت اور امامت كے منصب پر فائز ہوئے آپ نے اپنى امامت كے تقريباً دس سال معاويہ كى حكومت كے زمانہ ميں گزارے اس مدت ميں آپ نے امام حسن(ع) كى روش كو قائم ركھا اور جب تك معاويہ زندہ رہاآپ(ع) نے كوئي مؤثر اقدام نہ كيا_

امام حسين اگر چہ يہ ديكھ رہے تھے كہ معاويہ اسلام ہى كى طاقت سے اسلامى معاشرہ كى بنياد اور قوانين الہى كو بدل ڈالنے كى كوشش كر رہا ہے_ چنانچہ آپ كو قلق بھى تھا _ ليكن جانتے تھے كہ اگر اس كے مقابلہ كے لئے اٹھا جائے تو ہر مفيد اقدام و تحريك ( اور كوئي بھى نتيجہ حاصل ہونے ) سے پہلے آپ كو قتل كرديا جائے گا_

كبھى تو آپ (ع) معاويہ كے حركات و اعمال پر صرف تنقيد كرتے اور لوگوں كو آئندہ كے لئے اميد دلاتے اور اس تمام مدت ميں جب معاويہ ، يزيد كى ولى عہدى كے لئے لوگوں سے بيعت لے رہا تھا امام حسين (ع) نے شدّت سے مخالفت كى اور يزيد كى بيعت كے لئے ہرگز آمادہ نہيں ہوئے يہاں تك كہ كبھى معاويہ كو سرزنش كرتے اور تنقيدى خط لكھتے تھے_ (19)

قيام حسيني

معاويہ كى موت كے بعد خلافت_ جو كہ سلطنت ميں تبديل ہوگئي تھي_ اس كے بيٹے يزيد كى طرف منتقل ہوگئي_ زمام حكومت كو ہاتھوں ميں ليتے ہى يزيد نے اپنے اركان سلطنت كو مضبوط بنانے كيلئے عالم اسلام كى اہم شخصيتوں اور جانے پہچانے لوگوں سے اپنى بيعت لينے كا ارادہ كيا_ اس غرض سے اس نے حاكم مدينہ كے نام خط لكھا اور حكم ديا كہ امام حسين (ع) سے ميرى بيعت لے اور اگر وہ مخالفت كريں تو ان كو قتل كردو_

 

94

مدينہ كے گورنر نے حكم كے مطابق بيعت كا سوال امام (ع) كے سامنے ركھا، امام حسين (ع) نے فرمايا: ''اناللہ و انا اليہ راجعون و على الاسلام السلام اذا بليت الامة براع: مثل يزيد (20) '' يعنى جب يزيد جيسے لوگ ( شراب خوار، جواري، بے ايمان اور ناپاك) حكومت اسلامى كى مسند پر بيٹھ جائيں تو اسلام پر فاتحہ پڑھ دينا چاہيے_

امام (ع) نے بيعت كى پيش كش كو ٹھكرانے كے بعد يہ سمجھ ليا كہ اگر مدينہ ميں رہے تو آپ(ع) كو قتل كرديا جائے گا_ لہذا رات كے وقت پوشيدہ طور پر 28 رجب 60 ھ كو اپنے يار و انصار كے ساتھ مكہ كى طرف روانہ ہوگئے_(21)

آپ كے مكہ ميں پہنچنے اور يزيد كى بيعت سے انكار كرنے كى خبر مكہ اور مدينہ كے لوگوں كے درميان پھيل گئي اور يہ خبر كوفہ بھى پہنچ گئي _ اس طرح لوگوں كو امام حسين (ع) كى مدد اور ان كى موافقت كے لئے اپنے كوآمادہ كرنے كا موقع نظر آيا كہ شايد اس طرح بنى اميہ كے ظلم سے نجات مل جائے_

كوفيوں نے_ مندرجہ بالا نكات كے پيش نظر _ مكہ پہنچنے كى خبر سنتے ہى بہت سے خطوط كے ذريعہ آپ(ع) كو دعوت دى كہ آپ كوفہ تشريف لايئےور ہمارى رہنمائي كى ذمہ دارى قبول كرليجئے_

حضرت ابو عبداللہ الحسين (ع) نے جناب مسلم كو روانہ كرنے كے ساتھ ان تمام خطوط كا جواب مختصر جملوں ميں اس طرح لكھا'' اما بعد يہ خط حسين بن على (عليہما السلام) كى طرف سے عراق كے مسلمانوں اور مؤمنوں كى جماعت كى طرف بھيجا جار ہا ہے_ تم يہ جان لو كہ ہانى اور سعيد جو تمہارے بھيجے ہوئے آخرى افراد تمہارے خطوط لے كر آئے_ ان تمام باتوں كى جو تمہارى تحريروں سے عياں تھيں مجھے اطلاع ملي_ خلاصہ يہ كہ تمہارا مطلب يہ تھا كہ '' ہمارے پاس كوئي لائق رہبر اور امام نہيں ہے ہمارے پاس آجايئےايد خدا ہم كو آپ كے ذريعہ ہدايت تك پہنچا دے_ فورى طور پرميں حضرت مسلم كو جو ميرے چچا كے بيٹے اور ميرے معتمد ہيں، تمہارے پاس بھيج رہا ہوں اگر انہوں نے لكھا كہ تمہارے آخرى نظريات عملى طور پر اسى طرح ہيں جيسا كہ تم نے

 

95

خط ميں لكھا ہے تو ميں اسے قبول كر كے تمہارى طرف آؤںگا_ آخر ميں آپ(ع) نے مزيد لكھا _ مجھے اپنى جان كى قسم ، امام و پيشوا صرف وہ ہے جو خود دين كا پابند ہو اورعدل و انصاف كرتا ہو اور خدا كى رضا كے لئے حليم ہو _ '' (22)

حضرت مسلم اس خط كو ليكر كوفہ پہنچے ، ان كے پہنچنے كى خبر بڑى تيزى سے كوفہ ميں پھيل گئي _اہل كوفہ نے پر تپاك طريقہ سے امام (ع) كے نمائندہ حضرت مسلم بن عقيل كا استقبال كيا _ايسا استقبال پہلے كبھى نہيں ہوا تھا، پھر جناب مسلم بن عقيل كے ہاتھوں بيعت كى اور دن بدن بيعت كرنے والوں كى تعداد ميں اضافہ ہوتا رہا _

كوفہ سے دو خط

امام حسين (ع) كے حق اور يزيد كى مخالفت ميں انقلابى صورت حال پيدا ہوجانے كے بعد دو خط لكھے گئے_ ايك خط حسين (ع) بن على (ع) كو لكھا گيا اور دوسرا يزيد كو جناب مسلم نے امام حسين (ع) كو لكھا:'' اب تك بے شمار لوگوں نے ميرى بيعت كى ہے_ اب آپ كوفہ آجايئے' (23)

يزيد كے پيروكاروں نے اس كو لكھا كہ : '' اگر عراق كى حكومت كو بچانا ہے تو كسى لائق گورنر كو بھيجوتا كہ ان فتنوں كو ختم كردے اس لئے كہ نعمان بن بشير( حاكم كوفہ) ايك كمزور آدمى ہے يا اس نے اپنے آپ كو كمزور بناركھا (24) ہے_

ان دو خطوط كے نتيجہ ميں دو اقدام سامنے آئے_ پہلے خط نے امام حسين (ع)كى كوفہ كى طرف روانگى كے مقدمات فراہم كئے اور دوسرے خط نے پہلے حاكم كو معزول اور اس كى جگہ پر عبيداللہ ابن زياد كو معين كيا_

امام حسين (ع)ہر چند كہ كوفيوں كو بخوبى پہچانتے تھے اور ان كى بے وفائي، ان كے عقيدہ كا تزلزل اپنے پدر گرامى اور برادر بزرگ كى حكومت كے زمانہ ميں ديكھ چكے تھے ليكن اتمام حجّت

 

96

اورخداوند عالم كے اوامر كے اجراء كے لئے آپ (ع) نے كوفہ جانے كا ارادہ كيا_ خصوصاً مكہ ميں چند ماہ قيام كے بعد آپ(ع) نے يہ سمجھ ليا كہ يزيد( لعن) كسى طرح بھى آپ سے دست بردار ہونے كے لئے تيار نہيں ہے اور اگر آپ(ع) بيعت نہيں كرتے تو آپ كا قتل، اور وہ بھى خانہ خدا كے نزديك يقينى ہے_

اس صورت حال ميں امام حسين (ع) 8 ذى الحجہ تك _ جس دن تمام حُجّاج منى كى طرف جانے كا ارادہ كر رہے تھے(25) مكہ ميں رہے اور حج تمتع كو عمرہ مفردہ سے بدلنے كے بعد اپنے اہل بيت اور اصحاب كو لے كر مكہ كو ترك كيا اور عراق كى طرف چل پڑے _ (26)

امام _كا ايسے زمانہ ميں اور ايسى جگہ سے كوچ كرنا، جہاں لوگ دور دور سے اركان حج بجا لانے كے لئے آتے ہيں، ايسا بے نظير اقدام تھا كہ جس كى ايك عام مسلمان سے بھى توقع نہيں كى جاسكتى تھى چہ جائيكہ فرزند پيغمبر(ص) سے ، اسى وجہ سے تھوڑى ہى مدت ميں سارے شہر مكہ ميں امام كے سفر كى خبر گشت كرنے لگي_

امام حسين (ع) نے اپنے ناگہانى اور آشكار سفر سے اپنے فريضہ پر بھى عمل كيا اور مسلمانوں كو بھى سمجھا ديا كہ فرزند پيغمبر(ص) نے يزيد كى حكومت كو قانونى نہيں سمجھا اور نہ صرف اس كى بيعت نہيں كى بلكہ اس كے خلاف اٹھ كھڑے ہوئے ہيں_

حضرت مسلم ابن عقيل كى شہادت

حضرت مسلم كے ہاتھ پر اہل كوفہ كى بيعت اور امام حسين (ع)كى طرف ان كے ميلان كى اطلاع يزيد كو مل چكى تھى _ اس نے ابن زياد كو كوفہ بھيجا ابن زياد نے شيطانى چال كے ذريعہ ايك نيا بھيس بدلا، چہرہ پر نقاب ڈالا اور بنى ہاشم كے كسى شريف اور بڑى شخصيت كے روپ ميں رات كے اندھيرے ميں كوفہ ميں وارد ہوا _ جو لوگ امام حسين (ع) كے منتظر تھے انہوں نے يہ گمان كيا كہ يہ

 

97

حسين (ع) ہيں_

ابن زياد بغير كسى سے كوئي بات كئے اور نقاب ميں منھ چھپائے ہوئے سيدھا دار الامارہ پہنچا_(27)

عبيداللہ ابن زياد نے دارالامارہ ميں مشورہ كيلئے ايك مٹينگ بلائي اور ابتدائي اقدامات كے بعد، كوفہ والوں كے ايمان كى كمزورى ، دوغلہ پن اور ان كے خوف سے فائدہ اٹھايا اور ان كو ڈرا دھمكا كر حضرت مسلم كے اطراف سے منتشر كرديا يہاں تك كہ جب حضرت مسلم نماز كے لئے آئے تو صرف تيس افراد نے ان كے پيچھے نماز پڑھى اور نماز كے بعد وہ بھى متفرق ہوگئے_ جب آپ مسجد سے باہر نكلے تو آپ كے ساتھ كوئي بھى نہيں تھا

حضرت مسلم نے ابن زياد كے لشكر سے اكيلے جنگ كى اور ايك بہادرانہ جنگ كے بعد شہيد ہوگئے_ (28)

ظلم كے خلاف عظيم ترين قيام

عراق كے قصد سے ابو عبداللہ الحسين (ع) نے حجاز كو چھوڑ ديا ليكن در حقيقت آپ اس مقصد كى طرف جا رہے تھے جو صرف عراق ميں نہيں تھا_ يہ عظيم مقصد اسلام اور مسلمانوں كو استعمار كے چنگل اور خاندان بنى اميہ كے استبدادى پنجہ سے چھڑانا تھا_ اسى وجہ سے آپ(ع) دوستوں كى مقدس مآبانہ باتوں اور نصيحتوں كے برخلاف، جو اس سفر كو ترك كرنے پر مبنى تھيں، اپنے عزم و ارادہ پر جمے رہے اور اسلام كى نجات كے لئے آخرى تحريك شروع كى جس كو بہر قيمت انجام تك پہنچانا تھا_

امام حسين (ع) راستہ ميں بہت سے لوگوں كو اپنى مدد كے لئے دعوت ديتے اور جو لوگ ان كے ساتھ تھے ان كو يزيد سے جنگ كے بارے ميں اپنے مصمم ارادہ سے آگاہ كرتے رہے اور اس

 

98

جنگ كے نتيجے ميں سب كے قتل ہوجانے سے بھى آگاہ كرتے رہے اور اس بات كا اختيار ديا كہ وہ چاہيں تو ساتھ چھوڑ كر جاسكتے ہيں_ '' صفاح'' نام كى ايك جگہ پر كوفہ سے واپس آنے والے فرزدق سے ملاقات ہوگئي، آپ(ع) نے كوفہ كے حالات كے بارے ميں ان سے سوال كيا، فرزدق نے جواب ديا كہ '' لوگوں كے دل تو آپ(ع) كے ساتھ ہيں مگر ان كى تلواريں بنى اميہ كے ساتھ ہيں_(29)

شہادت

امام حسين (ع) كا قافلہ كوفہ سے پہلے سرزمين كربلا پر ( تقريباً كوفہ سے 70 كيلوميٹر دور) دشمن كے بہت بڑے لشكر سے روبرو ہوا_ آپ كے ساتھ صرف وہى لوگ تھے جو جان كى بازى لگانے والے تھے اور فرزند پيغمبر(ص) كى نصرت و مدد كے سوا انكا اور كوئي مقصد و مطلوب نہ تھا _

آخر كار يہ لوگ ابن زياد كے تيس ہزار لشكر كے تنگ گھيرے ميں آگئے (30) يہاں تك كہ فرات كا پانى بھى ان پر بند كرديا گيا_

ايسے حالات ميں فرزند زہراء حضرت امام حسين (ع)كے سامنے دو ہى راستے تھے يا قتل يا بيعت، حسين ابن على (عليہما السلام)جو مكتب وحى محمدى اور ولايت علوى كے پروردہ تھے انہوں نے بيعت نہيں كى اور ان بہتر (31) افراد كے ساتھ ( جو ان كے بہترين اصحاب، وابستگان اور فرزند تھے_ جن ميں سے ہر ايك اخلاص ،جواں مردي، شجاعت، عزت و شرافت انسانى كى اخلاقى قدروں سے آراستہ اور انسانيت كا مكمل نمونہ تھے دس محرم 60 ھ كو صبح سے عصر تك پسر معاويہ كے كثير اور آراستہ لشكر كے مقابلہ ميں ايك شجاعانہ اور قابل فخر جنگ كى _ اور بالآخر شربت شہادت نوش فرمايا_ اور اس زمين كے سينہ پر جب تك انسانيت موجود رہے گى اس وقت تك كے لئے اپنے نام كو جاودانہ بناديا_

 

99

آپ(ع) كى شہادت كے بعد دشمن كا لشكر آپ(ع) كے پسماندگان كے خيمہ ميں گھس آيا، تمام مال و اسباب لوٹ ليا اور آپ(ع) كے اہل بيت كو اسير كركے شہداء كے كٹے ہوئے سروں كے ساتھ كوفہ اور وہاں سے شام لے گيا_

 

100

سوالات

1_ حسين (ع) ابن على (ع) كس تاريخ كو پيدا ہوئے اور پيغمبر(ص) اكرم كے ساتھ كتنے دنوں تك رہے؟

2_ صلح كے بارے ميں امام حسين (ع) كا موقف كيا تھا؟ اس كا ايك نمونہ بيان فرمايئے

3_ امام حسين (ع) كى تواضع اور فروتنى كے ايك نمونہ كا ذكر كيجئے_

4_امام حسين (ع) كا قيام كس زمانہ ميں اور كس طرح شروع ہوا؟

5_ امام (ع) نے مكہ سے كوفہ جانے كا كيوں ارادہ كيا اور كوفہ جانے سے پہلے آپ(ع) نے كون سا اقدام كيا ؟

6_ دشمن كے لشكر سے امام حسين (ع) كس جگہ ملے؟ دونوں لشكروں كے حالات اور آپ(ع) كى اور آپ(ع) كے اصحاب كى تاريخ شہادت بيان كيجئے؟

 

101

حوالہ جات

1 اعلام الورى / 213، بحار جلد 44/ 201_

2 بحار جلد 43/ 241_

3 فروع كافى جلد 6/33 بحار جلد 43/ 257_

4 '' ... انت سيد بن سيد ابوالسادات انت امام ابن امام ابوالائمہ ، انت حجة اللہ بن حجتہ و ابو حجج تسعة من صلبك و تاسعہم قائمہم'' مقتل خوارزمى جلد 1 / 146، كمال الدين صدوق جلد 1/ 262 بحار جلد 43/ 290_

5 ''سئل رسول اللہ اى اہل البيت احب اليك ؟ قال : الحسن والحسين ''سنن ترمذى جلد5/ 323 ، بحار جلد 43/ 264، 265_

6 الحسن والحسين سيد الشباب اہل الجنہ، بحار جلد 43 / 264 ، 265، سنن ترمذى جلد 5/ 323 بحار جلد 43/299_

7 '' حسين منى و انا من حسين'' سنن ترمذى جلد 5/ 324، بحار جلد 43/ 270 _ 272 مقتل خوارزمى جلد 1 / 146، انساب الاشراب بلاذرى جلد 3 / 142_

8 الاصابہ جلد 1 ص 333_

9 كافى ميں منقول ہے كہ جس نشست ميں امام حسن (ع) بيٹھے رہتے تھے اس ميں امام حسين (ع) بھائي كے احترام كى بناپر باتيں نہيں كرتے تھے يہاں تك كہ بخشش و عطا ميں بھى اس بات كا خيال ركھتے تھے كہ امام حسن (ع) سے ذرا كم ہو_

10 ارشاد مفيد / 173 ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد جلد 16 / 47_

11 بحار جلد 44/ 196 ، منقول از فلاح السائل و عقد الفريد_

12 ارشاد مفيد / 230 مطبوعہ مكبة بصيرتي'' فہو يعلم اَنّى قد كنت احبُّ الصلوة و تلاوة كتابہ و كثرة الدعا و الاستغار''

13 اسد الغابہ جلد 2/20_

14 انساب الاشراف بلاذري_

 

102

15 سورہ نحل / 23_

16 تفسير سياسى جلد 2/257 ، مناقب جلد 4/ 66 ، جلاء العيون مرحوم شبر جلد 2/ 24_

17 سمو المعنى / 104_

18 رجال كشى / 94_

19 مقتل خوارزمى جلد 1 /184، لہوف / 20 بحار جلد 44/ 326_

20 ارشاد مفيد / 201 ، تاريخ طبرى جلد 341، بحار جلد 44/ 326_

21 مناقب ابن شہر آشوب جلد 4/90 ،ارشاد مفيد / 204 بحار جلد 44/ 334 كامل ابن اثير جلد 4/21

22 ارشاد مفيد / 205 ،بحار جلد 44/ 336_

23 مناقب ابن شہر آشوب جلد 4/ 91 ،بحار جلد 44 / 366

24 8ذى الحجة كو منى جانا ايك مستحب عمل ہے اس زمانہ ميں اس استحبابى حكم پر عمل ہوتا تھا ليكن اس زمانہ ميں حجاج ايك ساتھ عرفات جاتے ہيں_

25 ارشاد مفيد /281 ،بحار جلد 44/ 363 ،اعلام الوري/ 227 ،اعيان الشيعہ ( دس جلد والي) جلد 1 / 593، نہضت الحسين مصنفہ ہية الذين شہرستانى /165 مقتل ابى مخنف / 66 ، ليكن بعض صحيح روايات سے استفادہ ہوتاہے كہ امام حسين(ع) نے حج تمتع كا احرام نہيں باندھا تھا كہ اس كو عمرہ مفردہ سے تبديل كرديں ملاحظہ ہو وسائل الشيعہ جلد 10 باب 7 از ابواب عمرہ حديث 2،3_

26 ارشاد مفيد / 206 ،بحارجلد 44/ 340 مقاتل الطالبين /63_

27 ارشاد مفيد / 212_

28 ارشاد مفيد / 213 _216_

29 '' قلوبہم معك و سيوف مع بنى اميہ ...'' تاريخ طبرى جلد 5/384 ، كامل ابن اثير جلد 4/ 40 ارشاد مفيد / 618 بحار ،جلد 44/ 195_

30 بحار جلد 44/ 386_ البتہ لشكر يزيد كى تعداد كے بارے ميں دوسرى روايتيں بھى ہيں جن ميں سب سے كم بارہ ہزار كى روايت ہے _ مناقب جلد 4/98پر 35 ہزار افراد كى تعداد بھى لكھى گئي ہے_

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حُرّ؛ نینوا کے آزاد مرد
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(اول)
آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے ...
امام حسن(ع) کی صلح اور امام حسین (ع)کے قیام کا فلسفہ
حدیث غدیر کی سندیت و دلالت
۔حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیھاالسلام کے دروازے ...
اسلام سے قبل جہالت کي حکمراني تھي
ایرانی پروازوں پر سعودی پابندی کے خلاف ردعمل
رسالت پر ایمان لانے کا تقاضا
الکافی

 
user comment