اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

اس سلسلہ میں وضاحت

غیر وھابیوں کا اس بات پر عقیدہ ھے کہ جو شخص زبان پر شھادتین جاری کرے اور نماز روزہ بجالائے زکوٰة ادا کرے اور دین اسلام کے ضروریات کا معتقد هو تو اس کا شمار مسلمانوں کی فھرست میں هوگا، اور اس کی جان ومال محفوظ ھے، اور ان کا یہ عقیدہ سیرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عین مطابق اور اسلام کے مسلمات میں سے ھے،اس سلسلہ میں صحیح بخاری، مسند احمد ابن حنبل او ردوسری معتبر کتابوں میں متعدد احادیث بیان هوئی ھیں، گذشتہ زمانہ سے آج تک تمام مسلمانوں کے فرقوں کی سیرت بھی یھی رھی ھے ، اور مختلف مذاھب کے علمائے اسلام کا اس سلسلہ میں اتفاق اور اجماع ھے:

احمد ابن حنبل حضرت عمر اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ھیں:

”اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتلَ النَّاْسَ حَتّٰی یَقُوْلُوا : لاٰ اِٰلہَ اِلاّٰ اللّٰہ ۔فَمَنْ قاَلَ لاٰ اِلٰہَ اِلاّٰ اللّٰہ فَقَدْ عَصُُمَ مِنِّی مَالُہُ وَنَفْسُہُ اِلاّٰ بِحَقِّہِ وَحِسَابُہُ عَلٰی اللّٰہِ تَعَالیٰ“

”خدا وندعالم نے مجھے حکم فرمایا ھے کہ لوگوں سے جنگ کروں یھاں تک کہ کلمہ” لا الہ الا اللّٰہ“ زبان پر جاری کریں اور جس شخص نے بھی کلمہ لا الہ الا اللّٰہ  کا اقرار کرلیا اس کی جان ومال محفوظ ھے مگر یہ کہ کوئی دوسرا حق درمیان میں هو، اور اس کا حساب خدا کے ھاتھ میں ھے۔

شیخ محمود شَلتُوت (جامع الازھر کے سابق سربراہ) کھتے ھیں کہ خدائے وحدہ لاشریک اورپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کا اقرار (اَشْہَدُ اَنْ لاٰ اِلَہَ اِلاّٰ اللّٰہَ وَاَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللّٰہِ) انسان کے لئے ایک کلید ھے وہ جس سے اسلام میںداخل هوسکتا ھے اور اس پر اسلامی احکام جاری هونگے۔ 

کسی کے بارے میں کفر کا فتویٰ لگانا

وھابیوں اور ابن تیمیہ کے عقائد کی بحث میں یہ بات بیان هوچکی کہ یہ لوگ اپنے علاوہ سبھی دوسرے مسلمانوں کو کافر اورمشرک کھتے ھیں، اور دوسروں پر بھت جلد کفر کا فتویٰ لگا دیتے ھیں، جبکہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب اور مختلف فرقوں کے بڑے بڑے علماء کا طریقہ یہ نھیں تھا، جن چیزوں کو یہ لوگ کفر وشرک کا باعث سمجھتے ھیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے اصحاب اور دینی رھبروں کی نظر میں وہ امور موجب کفر وشرک نھیں تھے۔

اگر مسلمان هونے کے لئے شھادتین کا اقرار کرنا کافی نہ هواورتوحید کا مفهوم ابن تیمیہ اور اس کے ھمنواوٴں نے ھی صحیح سمجھا ھے ، تو پھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ کے زمانہٴ جاھلیت کے اکثرعرب تھے جن میں سے بعض لوگ موٴلفة القلوب تھے ، ان کے اسلام کو کس طرح قبول کیا جاسکتا ھے، جبکہ صحاح ستہ اور اھل سنت کی دوسری معتبر کتابوں اور دوسرے فرقوں کی کتابوں کے لحاظ سے وہ لوگ جو صرف زبان سے شھادتین کا اقرار کرتے تھے، ان کومسلمان تصور کیا جاتا تھا، جبکہ صدر اسلام میں اکثر لوگ یھاں تک کہ خود اصحاب کرام اسلام کے صحیح معنی سے آگاہ نھیں تھے اور صرف زبان سے کلمہ شھادتین کہنے پر ان کی جان ومال محفوظ هوجاتا تھا اور ان کو مسلمان حساب کیا جاتا تھا، لیکن وھابیوں کا کہنا یہ ھے کہ جو شخص کلمہ شھادتین کا اقرار کرے اور نماز پڑھے، روزہ رکھے ، حج بجالائے اور اسلام کی دوسری ضروریات کو قبول کرتے هوئے ان پربھی عمل کرے لیکن اگردینی بزرگوں کی قبور کی زیارت کے لئے جائے تو ایسا شخص مشرک ھے کیونکہ اس نے غیر خدا کو خدا کی عبادت میں شریک قرار دیا ھے ، جبکہ اگر کسی بھی زائر سے چاھے وہ شیعہ هو یا سنی ،یہ سوال کریں کہ تم کس لئے زیارت کے لئے جاتے هو؟ تو اس کا جواب یہ هوگا : وہ خدا کا خاص بندہ ھے اور اس نے خدا کے وظائف دوسروں سے بھتر انجام دئے ھیں اور ھم خدا کی خوشنوی کے لئے اس کی قبر کی زیارت کے لئے جاتے ھیں۔ اس کے لئے دعا کرتے ھیں اور اس کی تعظیم کی کوشش کرتے ھیں۔

یہ بات واضح ھے کہ کسی ایسے شخص کے بارے میں کفر و شرک کا فتویٰ لگانا حقیقت اسلام کے مخالف اور سیرت پیغمبر اکرم   صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نیز سلف صالح اور دینی رھبروں کی سیرت کے خلاف ھے۔

اس موقع پر مناسب ھے کہ کسی کے بارے میں کفر و شرک کے فتوے لگانے کے بارے میں آنحضرت   صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، اصحاب اوردینی رھبروں کی سیرت کی روشنی میں کتاب”الاسلام بین السنة والشیعہ“ سے کچھ چیزیں بیان کردی جائیں تاکہ معلوم هوجائے کہ کسی موحد اور مسلمان کے کفر کا فتویٰ اتنی آسانی سے نھیں لگایا جاسکتا، اور کروڑوں مسلمانوں کو ایسی چیزوں کی وجہ سے جو کبھی بھی توحید اور عبادت خدا کے منافی نھیں ھیں، بڑی آسانی سے کافر نھیں کھا جا سکتا ۔

کسی پر کفر کا حکم لگانا خدا کا کام ھے

e-level: 5; mso-margin-top-alt: auto; mso-margin-bottom-alt: auto;" dir="rtl">اسلام قول اور فعل کے ذریعہ ظاھر هوتا ھے اور انھیں اقوال اور افعال کی وجہ سے میراث کا مسئلہ بھی جاری هوتا ھے، اور لوگوں کا نماز پڑھنا زکوٰة دینا حج بجالانا وغیرہ ایسے امور ھیں جن کے ذریعہ انسان کفر سے نکل کر ایمان کی منزل میں آجاتا ھے۔ 

یھاں پر چند دینی رھبروں کے اقوال آپ کی خدمت میں پیش کرتے ھیں:

”میں کسی اھل قبلہ کو کافر نھیں جانتا“

”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد لوگوں میں بھت سے مسائل میں اختلاف پیدا هوگیا اور مختلف فرقے پیدا هوگئے، اسلام ان سب کو ایک جگہ جمع کردیتا ھے اور سب پر مسلمان کا اطلاق  هوتا ھے“

”میں کسی اھل قبلہ کے کفر کا فتویٰ نھیں دیتا“ 

”میں کسی بھی عنوان شھادتین کہنے والوں کو کافر نھیں کھتا“ 

”اگر میرے بدن کا گوشت درندے کھالےں، میں اس کو اس چیز سے بھتر سمجھتا هوں کہ خدا سے اس حال میں ملاقات کروں کہ کسی ایسے شخص سے دشمنی رکھوں جو خدائے وحدہ لاشریک اور نبوت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اعتقاد رکھتا هو“ 

”میں کسی بھی اسلامی مذھب سے تعلق رکھنے والوں کو کافر نھیں کہہ سکتا“ 

”کسی بھی موحد انسان سے دشمنی جائز نھیں ھے اگرچہ اس کو هوا وهوس نے حق سے منحرف ھی کیوں نہ کر دیا هو“ 

آخر کلام میں ھم حضرت امام صادق ںکے کلام کو پیش کرتے ھیں ، چنانچہ آپ نے فرمایا: ”مسلمان،مسلمان کا بھائی ھے اور ھر مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی آنکھ، آئینہ ،اور راہنما ھے جس سے وہ خیانت نھیں کرتا اور نہ ھی اس کو دھوکہ دیتا، اور نہ ھی اس کی غیبت کے لئے اپنا منھ کھولتا ھے۔

اس سلسلہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت اور آنحضرت کا فرمان کہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص اس حال میں مرے کہ خدا کے علاوہ کسی کو خدا نہ جانے تو ایسا شخص بہشت میں داخل هوگا۔ 

ھم دیکھتے ھیں کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مُعاذ بن جَبَل کو یمن میں تبلیغ کے لئے بھیجا تاکہ لوگوں کو خدا کی طرف بلائےں تو آپ نے ان سے تاکید کی کہ خدا پر ایمان کی حقیقت اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کے اعتراف پر اکتفاء کرنا، پیغمبر   صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے کھا: تم اس قوم کے پاس جارھے هو جو اھل کتاب ھیں، ان کو یہ بتانا کہ تم پر خداوندعالم نے روزانہ پانچ وقت کی نمازیں واجب کی ھیں اور اگر وہ لوگ قبول کرتے ھیں تو پھر ان کے مالداروں سے کہنا کہ تم پر زکوٰة واجب ھے تاکہ وہ فقیروں میں تقسیم کی جائے۔

جو شخص اپنے دل میں اس بات کا معتقد هو کہ جنت ودوزخ خدا کے حکم اور اس کے فرمان کے تحت ھے اور کسی پر کفر اور ایمان کا حکم لگانا اور انسان کے دل کی گھرائیوں کا حال جانناخدا سے مخصوص  ھے، ایسے شخص نے چاھے وہ کتنا بڑا هو،عالم هو یامعجز نما هو اس نے ان اعتقادات کے باوجود خدا کے سامنے بزرگی وبڑائی کی جراٴت کی ھے ۔

اسی طرح جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سنا کہ ان کے ربیب اُسامہ بن زید نے میدان جنگ میں اس شخص کو قتل کردیا جس نے زبان پرکلمہ توحید جاری کیا تھا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھت ناراض هوئے اور جب اُسامہ بن زید نے یہ عذر پیش کیا کہ اس نے جان کے خوف سے یہ کلمہ زبان پر جاری کیا تھا (یعنی صرف اپنی جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا) تو آپ نے اُسامہ کے عذر کو قبول نھیں کیا اور فرمایا کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ اس کا یہ شھادتین کا اقرار اعتقاد سے تھا یا خوف سے؟ اور یہ بات معلوم ھے کہ ایمان کی جگہ انسان کا دل هوتا ھے اور دل کے اسرار سے صرف خدا ھی واقف هوتا ھے کوئی دوسرا ان سے واقف نھیں هوسکتا۔

اسی طرح جب حضرت عمر نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عبد اللہ ابن اُبیّ (جو منافقوں کا سردار تھا) کے قتل کی اجازت مانگی، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم یہ کام کروگے تو لوگ یہ کھیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ھی اصحاب کو قتل کررھے ھیں، گویا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی اس بات سے حضرت عمر اور دوسرے لوگوں کو یہ سمجھانا چاھتے تھے کہ اسلام فقط ظاھر پر حکم کرتا ھے چاھے شک اور تردید کے ساتھ هو۔ 

شیخ سلیمان جو محمد بن عبد الوھاب کے بھائی تھے اور محمد بن عبد الوھاب کے سخت مخالفین میں شمار هوتے تھے، انھوں نے اپنے بھائی محمد بن عبد الوھاب جو تمام مسلمانوں کو کافر و مرتد کھتا تھا کی ردّ میںایک کتاب ”الصواعق الالٰھیہ“  لکھی جس میں ۵۲ حدیثیں ایسی لکھی ھیں جس میں ھر اس شخص کو مسلمان کھا گیا ھے جس نے زبان پرکلمہ لا الہ اللہ کو جاری کیا اور بھت سی ایسی حدیثیں لکھیں جس میں ھر اس شخص کو کافر کھا گیا ھے جو کسی مسلمان کو کافر کھے۔ 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

متعہ
[دین اور سیاست] نظریہ ولا یت فقیہ
تشیع کی پیدائش اور اس کی نشو نما (۲)
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جاہل کی پہچان
جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)
عدل الہی قرآن کی روشنی میں
دستور اسلام ہے کہ ہم سب ''معتصم بہ حبل اللہ''
تشيع کا خصوصي مفہوم
عبادت اور خدا کا ادراک

 
user comment