اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

ولادت اور بچپن كا زمانہ

47

ولادت اور بچپن كا زمانہ

20 جمادى الثانى بروز جمعہ، بعثت پيغمبر(ص) كے پانچويں سال خانہ وحى ميں رسول اكرم (ص) كى دختر گرامى حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہانے ولادت پائي _ (1) آپ كى والدہ ماجدہ جناب خديجہ بنت خويلد تھيں_

جناب خديجہ قريش كے ايك شريف و نجيب خاندان ميں پيدا اور زيور تربيت سے آراستہ ہوئيں _ان كے خاندان كے تمام افراد حليم و انديشمند اور خانہ كعبہ كے محافظ تھے _ جب يمن كے بادشاہ'' تبّع'' نے حجراسود كو مسجد الحرام سے نكال كر يمن لے جانے كا ارادہ كيا توجناب خديجہ كے والد خويلد دفاع كے لئے اٹھ كھڑے ہوئے آپ كى جنگ اور فداكاريوںكے نتيجہ ميں'' تبّع'' اپنے ارادہ كوعملى جامہ نہ پہنا سكا_(2)

جناب خديجہ كے چچا '' ورقہ'' بھى مكہ كے ايك دانش مند اور علم دوست شخص تھے_ تاريخ كے مطابق جناب خديجہ پر انكا بڑا اثر تھا _

والد كے ساتھ

حضرت فاطمہ صلوة اللہ و سلامہ عليہا كى ولادت سے پيغمبر(ص) وخديجہ كا گھر اور بھى زيادہ مہر ومحبت كا مركز بن گيا جس زمانہ ميں پيغمبر(ص) اكرم مكہ ميں بڑے رنج و الم ميں مبتلا تھے ، اس زمانہ ميں پيغمبر اكرم (ص) كى بيٹى ،نسيم آرام بخش كى طرح ماں باپ كى تھكان كو صبح و شام اپنى محبت سے دور كرتى تھيں

 

48

اور رسول (ص) اكرم كى پر مشقت زندگى كے رنج و غم كے دنوں ميں تسكين بخش تھيں_

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا كا بچپن، صدر اسلام كے بحرانى اوربہت ہى خطرناك حالات ميں گذرا جبكہ رسول(ص) خدا سخت مشكلات اور خطرناك حوادث سے دورچار تھے_ آپ(ص) تن تنہا كفر و بت پرستى سے مقابلہ كرنا چاہتے تھے _ چند سال تك آپ پوشيدہ طور پر تبليغ كرتے رہے جب خدا كے حكم سے آپ(ص) نے كھلم كھلا دعوت اسلام كا آغاز كيا تودشمنوں كى اذيّت اورايذا رسانى نے بھى شدت اختيار كرلي_

جب كفار نے يہ ديكھا كہ اذيت و آزار سے اسلام كى بڑھتى ہوئي ترقى كو نہيں روكا جاسكتا توانہوںنے ايك رائے ہوكر پيغمبراكرم (ص) كو قتل كرڈالنے كا منصوبہ بنايا _

رسول (ص) خدا كى جان كے تحفظ كے لئے جناب ابوطالب نے بنى ہاشم كے ايك گروہ كے ساتھ ''شعب ابى طالب'' نامى درّہ ميں آنحضرت (ص) كو منتقل كرديا_ مسلمانوں نے تين سال تك اس تپتے ہوئے درّہ ميں نہايت تنگى ، تكليف اوربھوك كے عالم ميں زندگى گذارى اور اسى مختصر غذا پر گذارہ كرتے رہے جو پوشيدہ طور پروہاں بھيجى جاتى تھى _

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا تقريباً دوسال تك كفار قريش كے اقتصادى بائيكاٹ ميں اپنے پدر عاليقدر كے ساتھ رہيں اور تين سال تك ماں باپ اور دوسرے مسلمانوں كے ساتھ بھوك اور سخت ترين حالات سے گذريں_

10 بعثت ميں '' شعب'' سے نجات كے تھوڑے دنوں بعد آپ اس ماں كى شفقتوں سے محروم ہوگئيں جنھيں دس سال كى مجاہدت كے رنج و غم خصوصاً اقتصادى نا كہ بدى كى دشواريوں نے رنجور كرديا تھا_ (3)

ماں كا اٹھ جانا ہر چند كہ جناب فاطمہ زہراء كے لئے رنج آور اور مصيبت كا باعث تھا اور آپ كى حساس روح كو اس مصيبت نے افسردہ كرديا تھا ليكن اس كے بعد آپ كو پيغمبراكرم(ص) كے دامن تربيت ميں رہنے كازيادہ موقع ملا_

 

49

10 بعثت ميں جناب ابوطالب اورجناب خديجہ كى وفات نے روح پيغمبر(ص) پر ايسا اثر كيا كہ آپ(ص) نے اس سال كا نام ''عام الحزن ''(4) ( غم واندوہ كا سال) ركھا_ پيغمبر(ص) كے ان دونوں بڑے حاميوں كے اٹھ جانے سے دشمن كى اذيت اور آزار رسانى ميں شدت پيدا ہوگئي ، كبھى لوگ پتھر مارتے كبھى آپ(ص) كے روئے مبارك پر مٹى ڈال ديتے ، كبھى ناسزا كلمات كہتے اكثر اوقات آپ نہايت خستگى كے عالم ميں گھر كے اندر داخل ہوتے _

ليكن يہ فاطمہ (ع) تھيں جو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے آپ(ص) كے سر اور چہرہ اقدس سے گرد جھاڑتيں،نہايت ہى پيار و محبت سے پيش آتيں اور پيغمبراكرم (ص) كے لئے آرام اور حوصلہ كا باعث بنتيں ، جناب فاطمہ (ع) لوگوں كے غصہ اور بے مہرى كى جگہ اپنے باپ سے مہر و محبت سے اس طرح پيش آتى تھيں كہ آپ (ص) كے والدگرامى نے آپ كو '' أُم أَبيہا'' كا لقب ديا_

ہجرت كے كچھ دنوں بعد آٹھ سال كى عمر ميںحضرت على (ع) كے ساتھ مكہ سے مدينہ تشريف لائيں وہاں بھى باپ كے ساتھ رہيں _ پيغمبراكرم (ص) كى زندگى كے مشكلات ميں حضرت فاطمہ (ع) برابر شريك رہيں ، جنگ احد ميں جنگ كے خاتمہ كے بعد جناب فاطمہ (ع) مدينہ سے پيغمبر(ص) كے خيمہ گاہ كى طرف دوڑتى ہوئي پہنچيں اور باپ كے خون آلود چہرہ كو دھويا اور آنحضرت(ص) كے زخموںكا مداوا كرنے لگيں_(5)

جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا ، اسلام اور قرآن كے ساتھ ساتھ پروان چڑھيں _ آپ نے وحى ونبوت كى فضا ميں پرورش پائي_ آپ كى زندگى پيغمبر(ص) كى زندگى سے جدا نہيں ہوئي يہاں تك كہ شادى كے بعد بچوں كے ساتھ بھى آپ كا گھر پيغمبر(ص) كے گھر سے متصل تھا اور پيغمبر(ص) خدا كى ہر جگہ سے زيادہ فاطمہ (ع) كے گھررفت و آمد تھي_ ہر صبح مسجد جانے سے پہلے آپ(ص) فاطمہ (ع) كے ديدار كوتشريف لے جاتے تھے _ (6)

پيغمبر(ص) كے خدمتگار '' ثومان'' بيان كرتے ہيں كہ جب رسول(ص) اكرم سفر پر جانا چاہتے تو آپ(ص) سب سے آخر ميں فاطمہ (ع) سے وداع ہوتے تھے اور جب سفر سے واپس آتے تھے تو سب سے

 

50

پہلے فاطمہ(ع) كے پاس جاتے تھے _ (7)

آخر كار پيغمبراكرم(ص) كى زندگى كے آخرى لمحات ميں بھى فاطمہ (ع) ان كى بالين پر موجود گريہ فرمارہى تھيں، پيغمبر(ص) ان كو يہ كہہ كردلا سہ دے رہے تھے كہ وہ ہر ايك سے پہلے اپنے باپ سے ملاقات كريں گي_ (8)

حضرت فاطمہ (ع) كى شادي

3 ھ ميں پيغمبر اكرم(ص) نے اميرالمؤمنين '' على (ع) '' سے فاطمہ (ع) كى شادى كردي_ (9) حقيقت تو يہ ہے كہ يہ خوشگوار رشتہ انہيںكے لائق تھا_ اس لئے كہ معصومين (ع) كى تصريح كے مطابق حضرت على (ع) كے علاوہ كوئي بھى فاطمہ (ع) كا كفو اور ہمسر نہيں ہوسكتاتھا_

اس شادى كى خصوصيتوں ميں سے يہ بات بھى ہے جو ان دونوں بزرگ ہستيوں كى بلند منزلت كا ثبوت ہے كہ پيغمبراكرم (ص) نے قريش كے صاحب نام افراد، بڑى شخصيتوں اور ثروت مندوں كى خواستگارى كوقبول نہيں كيا آپ(ص) فرماتے تھے كہ فاطمہ (ع) كى شادى كا مسئلہ حكم خدا سے متعلق ہے _ (10)

رسول (ص) خدا نے فاطمہ زہراء كو على (ع) كے لئے روكے ركھا تھا اورآپ(ص) خدا كى طرف سے مامور تھے كہ نور كونور سے ملا ديں_ (11)

اسى وجہ سے جب حضرت على (ع) نے رشتہ مانگا توپيغمبراكرم (ص) نے قبول فرمايا اور كہا: '' تمہارے آنے سے پہلے فرشتہ الہى نے مجھے حكم خد اپہنچايا ہے كہ فاطمہ (ع) كى شادى على (ع) سے كردو'' (12)

رسول اكرم(ص) نے جناب فاطمہ(ع) كى رضايت لينے كے بعدحضرت على (ع) سے پوچھا كہ شادى كرنے كے لئے تمہارے پاس كيا ہے ؟ آپ (ع) نے عرض كيا : '' ايك ذرّہ ، ايك شمشير اور پانى لانے كے لئے ايك شتر كے علاوہ ميرے پاس اور كچھ نہيں ہے _ '' على (ع) نے پيغمبر (ص) كے حكم كے مطابق ذرہ بيچ

 

51

دى اور اس كى قيمت سے ، جو تقريباً پانچ سودرہم تھي، جہيز كا معمولى سامان خريدا گيا ، ضيافت بھى ہوئي اور مسلمانوں كوكھانا بھى كھلايا گيا _ مسرت و شادمانى اور دعائے پيغمبر(ص) كے ساتھ فاطمہ كو على (ع) كے گھر لے جايا گيا _ (13)

فاطمہ (ع) على (ع) كے گھر ميں

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا باپ كے گ5ھر سے شوہر كے گھر اور مركز نبوّت سے مركز ولايت ميں منتقل ہوگئيں _اور اس نئے مركز ميں فاطمہ كے كاندھوں پر فرائض كا گراں بار آگيا_

آپ چاہتى تھيں كہ اس مركز ميں ايسى زندگى گذاريں كہ جو ايك مسلمان عورت كے لئے مكمل نمونہ بن جائے تا كہ آئندہ زمانہ ميں سارى دنيا كى عورتيں آپ(ع) كے وجود اور آپ(ع) كى روش ميں حقيقت ونورانيت اسلام ديكھ ليں_

گھر كے محاذ ميں جناب فاطمہ كے كردار كے تمام پہلوؤں كو پيش كرنے كے لئے ايك مفصل كتاب كى ضرورت ہے ليكن اختصار كے پيش نظر يہاں چند چيزوں كى طرف اشارہ كيا جاتا ہے:

الف_ گھر كا انتظام

حضرت فاطمہ زہراء اگر چہ بڑے باپ اور عظيم پيغمبر(ص) كى نور چشم تھيں اوركائنات ميںان سے بڑى شريف زادى كا وجود نہيں تھا ليكن ان باتوں كے باوجود آپ گھر ميں كام كرتى تھيں اور گھر كے دشوار كاموں سے بھى انكار نہيں كرتى تھيں_

گھر كے اندر آپ اتنى زحمت اٹھاتى تھيں كہ على (ع) بھى ان سے ہمدردى كا اظہار كرتے اور ان كى تعريف كرتے ہوئے نظر آتے ہيں_ اس سلسلہ ميں حضرت على (ع) نے اپنے ايك صحابى سے

 

52

فرمايا:كہ تم چاہتے ہو كہ ميں اپنى اور فاطمہ (ع) كى حالت تم كو بتاؤں؟

... آپ گھر كے لئے اتنا پانى بھر كر لاتى تھيں كہ آپ كے جسم پر مشك كا نشان پڑجاتا تھا اور اسى قدر چكياں چلاتى تھيں كہ ہاتھ ميں چھالے پڑجاتے تھے گھر كو صاف ستھرا ركھنے ، روٹى اور كھانا پكانے ميں اتنى زحمت برداشت كرتى تھيں كہ آپ كا لباس گرد آلود ہوجاتا تھا _ (14)

جناب سيدہ (ع) نے گھر كو ، حضرت علي(ع) اور اپنے بچوں كے لئے مركز آسائشے بنادياتھا اس حد تك كہ جب حضرت على (ع) پر رنج و غم ، دشواريوں اور بے سروسامانيوں كا حملہ ہوتا تھا تو آپ(ع) گھر آجاتے اور تھوڑى دير تك جناب فاطمہ (ع) سے گفتگو كرتے تو آپ(ع) كے دل كو اطمينان محسوس ہونے لگتا _

امام جعفر صادق _فرماتے ہيں كہ على (ع) گھر كى ضرورت كے لئے لكڑى اور پانى مہيا كرتے گھر ميںجھاڑو ديتے اور فاطمہ چكى پيستيں اور آٹاگوندھ كر روٹى پكاتى تھيں_ (15)

ب_ شوہر كى خدمت

جناب فاطمہ وہ بى بى ہيں جنہوں نے غريب ليكن انتہائي با فضيلت انسان كے ساتھ عقد فرمايا_ انہوں نے ابتدا ہى سے اسلام اور اپنے شوہر كے حساس حالات كو محسوس كرليا تھا _ وہ جانتى تھيں كہ اگر على (ع) كى تلوار نہ ہوتى تو اسلام كو اتنى پيش قدمى حاصل نہ ہوتى او ريہ بھى جانتى تھيں كہ اسلام كا بہادر سپہ سالار اس صورت ميں ميدان جنگ ميں كامياب ہوسكتا ہے جب گھر كے داخلى حالات كے اعتبار سے اس كى فكر آزاد اور وہ بيوى كى مہر و محبت اور تشويق سے مالامال ہو _ جب على (ع) ميدان جنگ سے تھك كر واپس آتے تھے تو ان كو مكمل طور پر بيوى كى مہربانياں اور محبتيں ملتى تھيں_ حضرت فاطمہ انكے جسم كے زخموں كى مرحم پٹى كرتيں ، اور ان كے خون آلود لباس كو دھوتى تھيں_چنانچہ جب حضرت على (ع) جنگ احد سے واپس لوٹے تو انہوں نے اپنى تلوار فاطمہ (ع) كودى اور فرمايا اس كا خون دھوڈالو_ (16)

آپ زندگى كى مشقتوںميں حضرت على (ع) كى ہم فكر اور ان كى شانہ بشانہ تھيں _ آپ ان كے

 

53

كاموں ميں ان كى مدد كرتيں ، ان كى تعريف اور تشويق فرماتيں ، ان كى فداكارى اور شجاعت كى ستائشے كرتيں اور ان كى كوششوں اور زحمتوں كے سلسلہ ميں بڑى فرض شناس تھيں_ پورى زندگى ميںكوئي موقعہ بھى ايسا نہيں آياكہ جس ميں آپ نے اپنے شوہر سے دل توڑنے والى كوئي بات كہى ہو يا ان كے دل كورنج پہنچايا ہو _ بلكہ ہميشہ آپ اپنى بے لاگ محبت و عنايت سے ان كى دكھى روح اور تھكے ماندہ جسم كو تسكين ديتى رہى ہيں_حضرت على (ع) اس سلسلہ ميں فرماتے ہيں:

'' جب ميںگھر آتا تھا اورميرى نظر فاطمہ زہرا پر پڑتى تو ميرا تمام غم و غصہ ختم ہوجاتا تھا_''(17)

جب آنحضرت (ص) نے على (ع) سے سوال كيا تھا كہ آپ نے'' فاطمہ كو كيسا پايا؟ '' تو آپ(ع) نے جواب ميں فرمايا تھا كہ '' فاطمہ اطاعت خداوند عالم ميں ميرى بہترين مددگار ہيں _ (18)

ج _ تربيت اولاد

جناب فاطمہ كے فرائض ميں سے ايك اہم فريضہ ،بچوں كى پرورش اور ان كى تربيت تھى _ آپ كو خداوند عالم نے پانچ اولاديں عطا كى تھيں، حسن (ع) ، حسين (ع) ، زينب (ع) ، ام كلثوم (ع) اور محسن (ع) _ پانچويں فرزند جن كا نام محسن تھا، وہ سقط ہوگئے تھے_ آپ كے تمام بچے پاكباز ، با اخلاص اورخدا كے مطيع تھے_ جناب فاطمہ نے ايسى اولاد كى پرورش كى كہ جو سب كے سب اسلام كے محافظ اور دين كى اعلى اقدار كے نگہبان تھے _ كہ جنھوں نے اس راستہ ميں اپنى جان دينے كى حد تك مقاومت كا مظاہرہ كيا _ ايك نے صلح كے ذريعہ اور دوسرے نے اپنے خونين انقلاب سے نہال اسلام كى آبيارى كى اور دين اسلام كو بچاليا_ (19)

ان كى بيٹيوں نے بھى خاص كر واقعہ كربلا ميں اپنے بھائيوں كى آواز اور امام حسين(ع) كے پيغام كو كوفہ ، شام اور تمام راستوں ميں دوسروں تك پہنچايا_

 

54

جناب فاطمہ كى معنوى شخصيت

تمام عورتوں كى سردار، حضرت فاطمہ كى معنوى شخصيت ہمارے ادراك اور ہمارى توصيف سے بالاتر ہےں_ يہ عظيم خاتون كہ جو معصومين (ع) كے زمرہ ميں آتى ہيں ان كى اور ان كے خاندان كى محبت و ولايت دينى فريضہ ہے _ اور ان كاغصہ اور ناراضگى خدا كا غضب اور اسكى ناراضگى شمار ہوتى ہے (20) ان كى معنوى شخصيت كے گوشے ہم خاكيوں كى گفتار و تحرير ميںكيونكر جلوہ گر ہوسكتے ہيں ؟

اس بناء پر ، فاطمہ كى شخصيت كومعصوم رہبروں كى زبان سے پہچاننا چاہئے _ اور اب ہم آپ كى خدمت ميںجناب فاطمہ كے بارے ميں ائمہ معصومين(ع) كے چند ارشادات پيش كرتے ہيں:

1_ پيغمبراكرم (ص) نے فرمايا : جبرئيل نازل ہوئے اورانہوں نے بشارت دى كہ '' ... حسن (ع) و حسين (ع) جوانان جنّت كے سردار ہيں اور فاطمہ (ع) جنّت كى عورتوں كى سردار ہيں _(21)

2_ آنحضرت (ص) نے فرمايا: دنيا كى سب سے برتر چار عورتيں ہيں : مريم بنت عمران، خديجہ بنت خويلد ، فاطمہ دختر محمد (ص) اور آسيہ دختر مزاحم ( فرعون كى بيوي) (22)

3_ آپ (ص) نے يہ بھى فرمايا: '' خدا ، فاطمہ كى ناراضگى سے ناراض اور ان كى خوشى سے خوشنود ہوتا ہے'' _ (23)

4_ امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا: '' اگر خدا ،اميرالمؤمنين كوخلق نہ كرتا تو روئے زمين پر آپ كا كوئي كفو نہ ہوتا '' _(24)

5_ امام جعفر صادق _سے سوال ہوا كہ : '' حضرت فاطمہ كا نام'' زہرا'' يعنى درخشندہ كيوں ہے؟ تو آپ نے فرمايا كہ : '' جب آپ محراب ميں عبادت كے لئے كھڑى ہوتى تھيں تو آپ كا نور اہل آسمان كو اسى طرح چمكتا ہوا دكھائي ديتا تھا كہ جس طرح ستاروں كا نور ،زمين والوں كے لئے جگمگاتا ہے _ (25)

 

55

حضرت فاطمہ سے پيغمبر(ص) كى مہر و محبت

جناب فاطمہ (ع) كے ساتھ پيغمبر اعظم(ص) كى مہر و محبت اتنى شديد تھى كہ اس كوپيغمبر(ص) كى زندگى كى تعجب خيز باتوں ميں سمجھنا چاہئے_ رسول خدا (ص) تمام امور ميں معيار حق اور ميزان عدل و اعتدال تھے ان كى تمام حديثيں اور ان كے تمام اعمال يہاں تك كہ تقرير پيغمبر(ص) ( يعني: ہر وہ كام كہ جس كو ديكھ كر آپ(ص) اپنى خاموشى سے اس كى تصديق كرديتے) بھى شريعت كا حصہ اور حجت ہے ، اور ضرورى ہے كہ يہ چيزيں، سارى امت كے اعمال كا قيامت تك نمونہ قرار پائيں_ اس نكتہ پر توجہ كر لينے كے بعد ،جناب فاطمہ كى معنوى منزلت اوركرداركى بلندى كو زيادہ بہتر طريقہ سے سمجھا جاسكتا ہے _

پيغمبراكرم(ص) كے ہاں اور بھى بيٹياں تھيں (26) اور پيغمبر (ص) اپنے خاندان حتى غيروں كے ساتھ بھى بڑى مہربانى اور نيكى سے پيش آتے تھے ليكن فاطمہ سے آپ(ص) كو خصوصى محبت تھى اور فرصت كے مختلف لمحات ميں اس محبت كا صريحاً اعلان اور اس كى تاكيد فرماتے تھے _ يہ اس بات كى سند ہے كہ فاطمہ اور آنحضرت(ص) كے گھرانے كى سرنوشت ،اسلام كے ساتھ ساتھ ہے اور پيغمبر(ص) اور حضرت فاطمہ كا تعلق صرف ايك باپ اوربيٹى كا ہى نہيں ہے _ بلكہ پورى كائنات كے لئے پيغمبر اكرم(ص) كى عملى تبليغ كا شبعہ فاطمہ زہرا كى عملى سيرت سے ہى مكمل ہوتا ہے_

اس مقام پر پيغمبر(ص) كى حضرت فاطمہ سے مہر و محبت كے چند نمونوں كا ذكر كردينا مناسب ہے _ يہ نمونے ان نمونوں كے علاوہ ہوں گے كہ جو پہلے بيان ہوچكے ہيں_

1_ امام محمد باقر (ع) اور امام جعفر صادق _فرماتے ہيںكہ _ پيغمبر اكرم (ص) ہميشہ سونے سے پہلے فاطمہ كے چہرے كا بوسہ ليتے ، اپنے چہرہ كو آپ كے سينہ پر ركھتے اور فاطمہ (ع) كيلئے دعا فرماتے_(27)

 

56

2_ پيغمبراكرم (ص) نے فاطمہ كا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں ليكر فرمايا:

'' جو انھيں پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہے اور جو نہيں پہچانتا ( وہ پہچان لے كہ ) يہ فاطمہ محمد (ص) كى بيٹى ہيں ، يہ ميرے جسم كا ٹكر ااور ميرا قلب و روح ہيں_ جو ان كو ستائے گا وہ مجھے ستائے گا اور جو مجھے ستائے گا وہ خدا كو اذيت دے گا _'' (28)

3_ امام جعفر صادق _فرماتے ہيں :

'' رسول خدا،(ص) فاطمہ كو بوسہ ديتے تھے ، جناب عائشےہ نے اعتراض كيا ،تو پيغمبر(ص) نے جواب ديا ، ميں جب معراج پر گيا اور جنت ميں پہنچا تو ميں نے طوبى كے پھل كھائے اور اس سے نطفہ پيدا ہوا _ اور جب ميں زمين پر پلٹ كر آيا اور خديجہ (ع) سے ہمبستر ہوا تو فاطمہ كا حمل قرار پايا_ اس لئے جب ميںفاطمہ كو بوسہ ليتا ہوں تو مجھے ان سے شجرہ طوبى كى خوشبو محسوس ہوتى ہے_'' (9 2)

ايمان و عبادت فاطمہ

پيغمبراكرم (ص) نے آپ كے ايمان كے بارے ميں فرمايا كہ : '' ان كے دل كى گہرائي اور روح ميں ايمان اس طرح نفوذ كئے ہوئے ہے كہ عبادت خدا كيلئے وہ اپنے آپ كو تمام چيزوں سے جدا كر ليتى ہيں (30)''

امام حسن مجتبى _فرماتے ہيں كہ ميں نے اپنى والدہ ماجدہ، حضرت فاطمہ (ع) زہرا كو ديكھا كہ شب جمعہ محراب ميں سپيدہ سحرى تك عبادت' ركوع و سجود ميں مشغول رہتى تھيں_ ميں نے سنا كہ آپ صاحب ايمان مردوں اور عورتوں كے لئے تودعا كرتى تھيں_ مگر اپنے لئے كوئي دعا نہ مانگتى تھيں_ ميں نے ان سے عرض كيا كہ جس طرح آپ دوسروں كے لئے دعا كرتى ہيں ويسے ہى اپنے لئے دعا كيوں نہيں فرماتيں؟ فرمانے لگيں ميرے لال، پہلے ہمسايہ پھر اپنا گھر (32) _

حسن بصرى كہا كرتے تھے كہ امت اسلامى ميں فاطمہ سے زيادہ عبادت كرنيوالا ،كوئي اور پيدا نہيں ہوا وہ عبادت حق تعالى ميں اس قدر كھڑى رہتى تھيں كہ ان كے پائے مبارك ورم كر جاتے تھے (33) _

 

57

فاطمہ(ع) باپ(ص) كے بعد

پيغمبر اكرم (ص) كى وفات كے وقت'ان كا سراقدس حضرت علي(ع) كى گود ميں تھا اور حضرت فاطمہ (ع) اور حسن و حسين آپ(ص) كے چہرہ اقدس كو ديكھ ديكھ كر رو رہے تھے، آپ(ص) كى آنكھيں بند اور زبان حق خاموش ہوچكى تھى اور روح عالم ملكوت كو پرواز كر چكى تھي، رسول اكرم (ص) كى رحلت كے سبب، حضرت فاطمہ زہراء (ع) پر سارے جہاں كا غم و اندوہ ٹوٹ پڑا، فاطمہ(ع) جنہوں نے اپنى عمر كو مصيبت و آلام ميں گذارا تھا اور تنہا انكى دلى مسرت باپ كا وجود تھا اس تلخ حادثہ كے پيش آنے كے بعد آپكى سب اميديں اور آرزوئيں تمام ہوگئيں_

''سقيفہ بنى ساعدہ'' ميں مسلمانوں كے ايگ گروہ كے اجتماع كى خبر

ابھى رسول(ص) خدا كا جسم اقدس زمين پرہى تھا كہ حضرت ابوبكر كى خلافت و جانشينى كى تعيين كيلئے لوگوں كے اجتماع سے فاطمہ(ع) كے ذہن كو جھٹكا لگا، اس غم و غصہ كى كيفيت ميں تھكے ہوئے اعصاب كو چوٹ پہنچي_

فاطمہ كہ جنہوں نے توحيد و خداپرستي، مظلوم كے دفاع اور ظلم و ستم سے مقابلہ كرنے كے لئے تمام سختيوں، دشواريوں ، بھوك اور وطن سے دور ہوجانے كى مصيبت كو برداشت كيا تھا وہ اس انحرافى روش كو برداشت نہ كرسكيں_

حضرت فاطمہ(ع) زہراء كے مبارزات و مجاہدات

فاطمہ(ع) اور على (ع) جب پيغمبر(ص) كے كفن و دفن سے فارغ ہوئے اور مسئلہ خلافت كے سلسلہ ميں انجام شدہ عمل سے دوچار ہوئے تو آپ لوگوں نے مدبرانہ اور زبردست مبارزہ كا ارادہ كيا تاكہ اسلام كو ختم ہونے اور مٹ جانے كے خطرہ سے بچاليا جائے_ ان كے مبارزات كے چند مراحل ،ملاحظہ ہوں_

 

58

پہلا مرحلہ :

حضرت على (ع) نے يہ ارادہ كيا كہ خليفہ وقت كى بيعت نہيں كريں گے اور اس طرح آپ(ع) نے سقيفہ كى انتخابى حكومت كى روش سے اپنى مخالفت كا اظہار كيا_ جناب فاطمہ زہراء (ع) نے بھى اس نظريہ كى تائيد فرمائي اور اس بات كا مصمم ارادہ كر ليا كہ شوہر پر آنے والے ہر ممكنہ خطرہ اور حادثہ كا واقعى دفاع كريں گي_

انہوں نے اپنى اس روش كے ذريعہ ثابت كرديا كہ تمام جنگيں تير و تلوار سے ہى نہيں ہوتيں، سب سے پہلے اسلام كا اظہار كرنے والے شخص كے خاندان كے افراد اور قريبى افراد كى بے اعتنائي اور حكومت وقت كى تائيد نہ كرنا اس كے غير قانونى ہونے كى سب سے بڑى اور بہترين دليل ہے_

جناب فاطمہ جانتى تھيں كہ على (ع) كے حق كے دفاع ميں اس طرح كى جنگ كا نتيجہ رنج اور تكليف ہے_ ليكن انہوں نے تمام دكھوں اور تكليفوں كو خندہ پيشانى سے قبول كيا اور اس جنگ كو آخرى مرحلہ تك پہنچايا_

دوسرا مرحلہ :

فاطمہ و على عليہما السلام ،جناب امام حسن (ع) و حسين (ع) كى انگلى پكڑے ہوئے مدينہ كے بزرگوں اور نماياں افراد كے پاس جاتے اور ان كو اپنى مدد كى دعوت ديتے اور انہيں پيغمبراكرم(ص) كى وصيتوں اور ارشادات كو ياد دلاتے تھے (33) _

جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا فرماتى تھيں '' اے لوگو كيا ميرے باپ(ص) نے على (ع) كو خلافت كے لئے معين نہيں فرمايا تھا؟ كيا تم ان كى قربانيوں كوبھول گئے؟ ... كيا ميرے باپ (ص) نے يہ نہيں فرمايا تھاكہ ، ميں تمہارے درميان سے جارہا ہوں مگر دو گرانقدر چيزيں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان سے تمسك كرو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے ايك كتاب خدا ،اور دوسرے ميرے اہل بيت (ع) ہيں، اے لوگو كيا يہ مناسب ہے كہ تم ہم كو تنہا چھوڑ دو اور ہمارى مدد سے ہاتھ اٹھالو؟ (34)''

 

59

تيسرا مرحلہ:

زمام حكومت سنبھالنے كے بعد حضرت ابوبكر نے جناب فاطمہ زہراء سے ''فدك ''(35)لينے كا ارادہ كيا اور حكم ديا كہ فدك ميں كام كرنے والوں كو نكال باہر كيا جائے اور ان كى بجائے دوسرے كاركنوں كو وہاں مقرر كر ديا (36)_

فدك كو قبضہ ميں كرنے كے وجوہات ميں سے ايك وجہ يہ تھى كہ وہ لوگ اس بات كو بخوبى جانتے تھے كہ حضرت على (ع) كے ذاتى فضائل و كمالات ،ان كاعلمى مقام اور ان كى فداكارياں قابل انكار نہيں ہيں، اوران كے بارے ميں پيغمبر(ص) كى وصيتيں بھى لوگوں كے درميان مشہور ہيں اگر ان كى اقتصادى حالت بھى اچھى ہوگئي اور ان كے پاس پيسے آگئے تو ممكن ہے كہ ايك گروہ ان كے ساتھ ہوجائے اور پھر خلافت كے لئے خطرہ پيدا ہوجائے_ اس نكتہ كو ان باتوں ميں ديكھا جاسكتا ہے جو حضرت ابوبكر كو مخاطب كركے حضرت عمر نے كہى ہيں: '' لوگ دنيا كے بندے ہيں اور سوائے دنيا كے انكا كوئي مقصد نہيں ہے اگر خمس و بيت المال اور فدك كو على (ع) سے چھين لو تو پھر لوگ خود بخود ان سے على حدہ ہوجائيں گے (37) _

جب جناب فاطمہ(ع) ، ابوبكر كے اس اقدام سے مطلع ہوئيں تو انہوںنے سوچا كہ اگر اپنے حق كا دفاع نہ كيا تو لوگ يہ سمجھ بيٹھيں گے كہ حق سے چشم پوشى اور ظلم كے بوجھ كے نيچے دب جانا ايك پسنديدہ كام ہے_ يا يہ تصور كريں گے كہ حق ،ابوبكر كے ساتھ ہے_ جيسا كہ اس وقت ان تمام مبارزوں كے باوجود حضرت ابوبكر كے پيروكار، ابوبكر كى اس روش كو حق بنا كر پيش كرتے ہيں_

ان سب باتوں كے پيش نظر ،جناب فاطمہ زہراء س نے ممكنہ حد تك اپنے حق كے دفاع كا ارادہ كيا_

البتہ جس بى بى (ع) كا باپ تازہ ہى دنيا سے رخصت ہوا ہو اورجس كا بچہ تازہ ہى سقط ہوا ہو نيز جس نے اور بہت سے مصائب برداشت كئے ہوں اس كے لئے يہ سب كام سہل اور آسان نہيں

 

60

تھے، ان حادثات ميں سے ايك حادثہ ہى ايك عورت كو ہميشہ كيلئے ستمگروں سے مرعوب كرنے كے لئے كافى تھا_ ليكن فاطمہ (ع) ، كہ جنھيں فداكارى اور شجاعت كى خو ماں اور باپ سے وراثت ميں ملى تھيں _ اور جنھوں نے فداكار افراد كے درميان زندگى گذارى تھي، انھيں يہ چھوٹى چھوٹى دھمكياں خو فزدہ نہيں كر سكتى تھيں_

اس مرحلہ ميں جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا كے مبارزات كا خلاصہ مندرجہ ذيل ہے_

1_ بحث و استدلال :

جناب فاطمہ (س) نے حضرت ابوبكر سے گفتگو كے دوران قرآنى آيات كى شہادت وگواہياںپيش كركے برہان و استدلال سے ثابت كيا كہ فدك ان كى ملكيت ہے اورخلفاء كى شيزى كا يہ اقدام غير قانونى ہے_

2_ مسجد بنوي(ص) ميں تقرير:

جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا نے دلائل اور براہين كے ذريعہ خلافت كى مذمت اور اپنى حقانيت ثابت كرنے كے بعد يہ ارادہ كيا كہ مسجد ميں جائيں اور لوگوں كے سامنے حقائق كو بيان كريں_

جناب سيدہ سلام اللہ عليہا نے مسجد ميں مہاجرين و انصار كے كثير مجمع كے درميان ايك مفصل خطبہ ديا آپ (ع) نے لوگوں كو خدا كى طرف دعوت دي_ پيغمبر اكرم(ص) اور ان كى رسالت كى تعريف كى فلسفہ احكام كے بارے ميں گفتگو فرمائي، ولايت اور رہبر و قائد كى عظمت كى تشريح فرمائي اور دوسرے بہت سے اہم مسائل پر روشنى ڈالنے كے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئيں كہ جو كہنے كى باتيں تھيں ميں نے وہ كہديں_

آخر ميں فرمايا:

'' اے لوگو جو كہنا چاہئے تھا وہ ميں كہہ چكي، باوجود اس كے كہ مجھے معلوم ہے كہ تم ميرى مدد نہيں كروگے، تمہارے بنائے ہوئے نقشے مجھ سے پوشيدہ نہيں ہيں ليكن ميں كيا كروںيہ ايك درد

 

61

دل تھا جس كو ميں نے شدت غم كى بنا پر بيان كرديا تا كہ تمہارے اوپر حجت تمام ہوجائے_(38)

3_ ترك كلام:

جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا نے مبارزہ كو جارى ركھنے كے لئے ترك كلام كو منتخب فرمايا اور حضرت ابوبكر سے كھلے عام كہديا كہ اگر فدك كو واپس نہ كروگے تو ميں جب تك زندہ رہوں گى تم سے كلام نہيں كرونگى ، جہاں بھى ابوبكر سے سامنا ہوتا اپنا رخ ان كى طرف سے پھير ليتيں اور ان سے بات نہ كر تيں (39) _ اس بى بى (ع) نے جو پيغمبر(ص) كے قول كے مطابق رضائے خدا كے بغير كبھى غضبناك نہيں ہوتى تھيں، اپنى اس روش كے ذريعہ امت كے جذبات و احساسات كى موج كو خلافت كى مشينرى كے خلاف ابھارا_

4_ رات ميں تدفين:

نہ صرف يہ كہ شہزادى نے اپنى زندگى كے آخرى لمحات تك مبارزہ كو جارى ركھا بلكہ آپ نے اسے قيامت كى سرحدوں سے ملاديا_ اپنے شوہر حضرت على كو وصيت كرتے ہوئے كہا كہ '' اے على (ع) مجھ كو رات ميں غسل دينا، رات ميں كفن پہنانا اور پوشيدہ طور پر سپرد خاك كردينا، ميں اس بات سے راضى نہيں ہوں كہ جن لوگوں نے مجھ پر ستم كيا ہے وہ ميرے جنازہ كى تشييع ميں شريك ہوں_حضرت على (ع) نے بھى شہزادى كى وصيت كے مطابق ان كو راتوں رات دفن كرديا اور ان كى قبر كو زمين كے برابر كرديا اور چاليس نئي قبروں كے نشان بناديئےہ كہيں ان كى قبر پہچان نہ لى جائے (40)_

شہادت

پيغمبراكرم (ص) كى رحلت كا رنج اور خلافت اميرالمؤمنين (ع) غضب كرنے والوں كى روش نے بھى

 

62

جناب فاطمہ (ع) كے وجود اور ان كے جسم و جان كو سخت تكليف پہنچائي ، آپ (ع) پيغمبر(ص) كے بعد، مسلسل گريہ كناں اور غمزدہ رہتيں _كبھى با پ كى قبر كى زيارت كو تشريف لے جاتيں اور كبھى شہداء كے مزار پر جاكر گريہ فرماتيں (41) _ نيز گھر ميں گريہ و عزادارى ميں مصروف رہتى تھيں_

آخر كار ، شہزادى دو عالم جاكر كى طاقت كو كم كردينے والے غم اور ديگر پہنچنے والے صدموں نے آپ كو مضمحل اور صاحب فراش بناديا _ بالاخر انہيں صدمات كے نتيجے ميں آپ 13 جمادى الاولى (42)يا سوم جمادى الثانيہ (43)- 11 ھ ق يعنى رسول اكرم (ص) كى رحلت كے 75 يا 95 دن بعد، دنيا سے رخصت ہوگئيں اورآپ نے اپنى شہادت سے اپنے پيروكاروں كے دلوں كو ہميشہ كيلئے غم والم ميں مبتلا كرديا _

 

63

سوالات

1_ جناب فاطمہ زہراء (ع) كى ولادت كس تاريخ كو ہوئي اور مكہ ميں آپ كا بچپن كيسے ماحول اور كن حالات ميں گذرا؟

2_جناب خديجہ (عليہا سلام) كے انتقال كے بعد جناب فاطمہ زہرا(ع) كا باپ كے ساتھ كيسا سلوك رہا اور ''ام ابيہا'' آپ كا لقب كيوں پڑا؟

3_حضرت على (ع) سے آپ كى شادى كس سن اور كس تاريخ ميں ہوئي اور اس شادى كى خصوصيت كيا تھي؟

4_ايك بيوى كے عنوان سے على (ع) كے ساتھ جناب معصومہ (ع) كا كيا سلوك رہا؟

5_جناب سيدہ كى عبادت كا ايك نمونہ كا ذكر كيجئے؟

6_سقيفہ كى كاروائي اور پيغمبر (ص) كى جانشينى كے مسئلہ ميں جناب فاطمہ (ع) كا كيا رد عمل تھا؟

7_خلافت كى مشينرى كے ساتھ آپ كے مبارزہ كى كيا روش تھي؟ اس كے دو نمونے بيان فرمايئے

 

64

حوالہ جات

1 مناقب ابن شہر آشوب جلد 3/ص 357، بحارالانوار جلد 43 ص 6_ دلائل الامامہ ص 10 _ اصول كافى جلد 1_

2 الروضہ الانف جلد 1 ص 213، منقول از بانوى نمونہ اسلام مصنفہ ابراہيم امينى ص 18_

3 و4 مناقب ابن شہر آشوب جلد 1 ص 174_

5 بحارالانوار جلد 20 ص 88، الصحيح من سيرة النبى جلد 4 ص 324_

6 كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد 1 ص 457_

7 كشف الغمہ فى معرفة الائمہ جلد 1 ص 457_

8 امالى طوسى جلد 2 ص 14_

9 جناب معصومہ كى شادى كى تاريخ ميںاختلاف ہے سيد ابن طاؤس نے مرحوم شيخ مفيد كى كتاب حدائق الرياض ميںاقبال كے مطابق ازدواج كى تاريخ 21 محرم 3 ھ نقل كى ہے _ ليكن مصباح ميں اول ذى الحجہ مانتے ہيں _ امالى ميں آيا ہے: فاطمہ كى شادى عثمان كى بيوى رقيہ كى وفات كے سولہ دن بعد اورجنگ بدر سے واپسى پر ہوئي بحار جلد 43/93_ 97_

10 '' امرہا الى ربہا'' كشف الغمہ جلد 1 ص 353 _ مطبوعہ تبريزبحار جلد 43ص 1 _

11 دلائل الامامہ ص 19_

12 بحار 43/127_

13 كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد 1 ص 360_ 369_ بحار جلد 43 ص 127_ ص 133_

14 بحار الانوار جلد 43/82_

15 بحار جلد 43/151 منقول از كافى '' ... كانَ اَميْرُ الْمُؤمنيْنَ (ع) يَحْتَطبُ وَ يَسْقيْ وَ يَكنُسُ وَ كانَتْ فاطمَةُ (ع) تَطْحَن و تَعْجنُ و تَخْبزُ''

16 سيرة ابن ہشام جلد 3 ص 106، الصحيح من سيرة النبى جلد 4 ص 324_ بحار جلد 2 ص 88_

17 مناقب خوارزمى ، ص 256_

18 بحار الانوار جلد 43/111 '' ... نعم الصون على طاعة اللہ''_

19 يہ حصہ كتاب '' بانوى نمونہ اسلام '' مصنفہ ابراہيم امينى كا اقتباس ہے_

 

65

20 بحار الانوار جلد 34/19_ و26كشف الغمہ جلد 1مطبوعہ تبريز /458، الغدير جلد 3/20 _

21 امالى مفيد ص 3، امالى طوسى جلد 1 ص 83، كشف الغمہ جلد 1 ص 456_

22 بحار جلد 43/9_ 26 ... ... ... ... مناقب ابن شہر آشوب جلد3 ص 322_

23 بحار جلد 43/9_ كشف الغمہ جلد 1 ص 467 _

24 بحار جلد 43/19_ 26 ، كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد ص 472_

25 بحار جلد 43 ص12، علل اشرائع مطبوعہ مكتبہ الداورى قم ص 181 '' قال : سئلت ابا عبداللہ عن فاطمہ ، لمَ سميّت زہرائ؟ فقال: لانّہا كانت اذ اقامت فى محرابہا زہر نورہا لاہل السماء كما يزہر نور الكواكب لاہل الارض''_

26 فاطمہ كے علاوہ پيغمبركى ديگر بيٹيوں كا ثبوت اہل سنت كى كتابوں سے ملتا ہے جبكہ اكثر شيعہ علماء نے تفصيلى تحقيق كے بعد يہ سمجھا ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) كى صرف ايك ہى بيٹى فاطمہ تھيں_

27 بحار الانوار جلد 43/42 ، مناقب ابن شہر آشوب جلد 3/334 '' ... كان النّبى (ص) لا ينام حتّى يقبل عرض وَجہ فاطمة (ع) يَضَعُ وَجَہَہْ بين ثديى فاطمة و يدعولہا ...'' _

28 كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد 1 / 467، فصول المہمہ /146، بحار جلد 43/52، الغدير جلد 3/20 '' ... من عرف ہذہ فقد عرفہا و من لم يعرفہا فہى فاطمة ينت محمد (ص) و ہى بضعة منّى و ہى قلبى الذى بين جنبى فمن آذاہا فقد آذانى و من آذانى فقد آذى اللہ _

29 بحار الانوار جلد 43/6 منقول از تفسير على بن ابراہيم ، كشف الغمہ جلد 1 ص 459_

30 بحار ج 33/ 46_

31 بحار الانوار جلد 43/ 82، كشف الغمہ مطبوعہ تبريزى جلد 1 ص 468 '' ... فقالت يا بنى الجار ثم الدار''_

33 بحار الانوار جلد 43/ 76، 84 '' ما كان فى ہذہ الامة اعبد من فاطمة كانت تقوم حتى تورّم قدماہا''_

33 الامامة و السياسة جلد 1 ص 19_

34 ''بانوئے نمونہ اسلام'' مصنفہ ابراہيم امينى ص 144_

35 ''فدك'' مدينہ سے چند فرسخ كے فاصلہ پر ايك ديہات تھا جو 7 ھ ميں رسول(ص) خدا اور يہوديوں كے درميان صلح كے معاہدہ ميں بغير كسى خونريزى كے رسول(ص) كو ملا تھا اور يہ صرف رسول(ص) كا حق تھا چنانچہ آپ (ص) نے

 

66

خدا كے حكم كے مطابق فدك كو اپنى بيٹى فاطمہ (س) كو بخش ديا تھا_

36 تفسير نور الثقلين جلد 3/ 154 مطبوعہ حكمت قم اصول مالكيت جلد 2_ موضوع فدك و الاحصہ ملاحظہ ہو_

37 ناسخ التواريخ ج زہراء / 122_

38 كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد 1 ص 491 ، احتجاج طبرسى جلد 1 ص 141'' ألاقد قلت ما قلت ہذا على معرفة منى بالجذلة التى خامرتكم و العذرة التى استشعرتہا قلوبكم ولكنّہا فيضة النفس و نفثة الغيظ ...''_

39 شرح ابن ابى الحديد جلد 6/ 46 ، كشف الغمہ جلد 1/ 477_

40 دلائل الامة طبرى /46، مناقب ابن شہر آشوب جلد 3/363_ يہ حصہ ابراہيم امينى كى كتاب ''بانوى نمونہ اسلام'' كا اقتباس ہے_

41 بحار الانوار جلد 43/195_

42 بحار الانوار ج 43 /195_

43 كشف الغمہ جلد 1/503 دلائل الامامہ / 45 ، بحار 43/196 منقول ا ز اقبال الاعمال_

67

   

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

الکافی
چھے لوگوں کی شوریٰ( اہل سنت کے مآخذ سے منطقی تحلیل ...
آسيہ
جنت البقیع کا تاریخی تعارف
عمار بن یاسر کے اشعار کیا تھے؟
مشرکینِ مکہ کی مکاریاں
واقعہ فدک
تاریخ اسلام کو دیگر تواریخ پر فضیلت
گروہ ناکثین (بیعت شکن)
ساتواں سبق

 
user comment