اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

سیرت صبر و رضا

سیرت صبر و رضا

667۔ امام حسین (ع) ! عراق کے لئے نکلتے ہوئے آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا کہ موت کا نشان اولاد آدم کی گردن سے یونہی وابستہ ہے جس طرح عورت کے گلے میں ہار ، میں اپنے اسلاف کا اسی طرح اشتیاق رکھتاہوں جس طرح یعقوب کو یوسف کا اشتیاق تھا میری بہترین منزل وہ ہے جس کی طرف میں جارہاہوں اور میں وہ منظر دیکھ رہاہوں کہ نواویس اور کربلا کے درمیان نبی امیہ کے درندے میرے جوڑ جوڑ کو الگ کررہے ہیں اور اپنی عداوت کا پیٹ بھر رہے ہیں، قلم قدرت نے جو دن لکھ دیا ہے وہ بہر حال پیش آنے والا ہے ” اللہ کی مرضی ہی ہم اہلبیت (ع) کی رضا ہے، ہم اس کی بلاپر صبر کرتے ہیں اور وہ ہمیں صابروں کا اجر دینے والا ہے رسول اکرم سے ان کے پارہ ہائے جگر الگ نہیں رہ سکتے ہیں، خدا سب کو جنت میں جمع کرنے والا ہے جس سے ان کی آنکھوں کو خنکی نصیب ہوگی اور ان سے کئے گئے وعدہ کو پورا کیا جائے گا، دیکھو جو ہمارے ساتھ اپنی جان قربان کرسکتاہے اور لقائے الہی کے لئے اپنے نفس کو آمادہ کرچکاہے وہ ہمارے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوجائے، ہم کل صبح نکل رہے ہیں ۔( کشف الغمہ 2 ص 241 ، ملہوف ص 126 ، نثر الددر ص 333)۔

668۔ امام زین العابدین (ع) ! جب امام حسین (ع) کے حالات انتہائی سخت ہوگئے تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ کے حالات تمام لوگوں کے حالات سے بالکل مختلف ہیں۔ سب کے رنگ بدل رہے ہیں ، اعضاء لرزرہے ہیں، دل کانپ رہے ہیں لیکن امام حسین (ع) اور ان کے مخصوص اصحاب کے چہرے دمک رہے ہیں ، اعضاء ساکن ہیں اور نفس مطمئن ہیں۔

لوگوں نے آپس میں کہنا شروع کردیا کہ دیکھو یہ کس قدر مطمئن نظر آتے ہیں جیسے موت کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے، آپ نے فرمایا ، شریف زادو! صبر کرو صبر، یہ موت صرف ایک پل ہے جس کے ذریعہ سختی اور پریشانی سے نکل کر جنت النعیم کے محلول تک پہنچا جاتاہے، تم میں کون ایسا ہے جو اس بات کو برا سمجھتاہے کہ زندان سے نکل کر قصر میں چلاجائے، مصیبت تمہاری دشمنوں کے لئے ہے جنھیں محل سے نکل کر زندان کی طرف جاتاہے،میرے پدر بزرگوار نے رسول اکرم سے روایت کی ہے کہ دنیا مومن کے لئے قیدخانہ ہے اور کافر کے لئے جنت اور موت ایک پل ہے جو مومن کو جنت تک پہنچا دیتاہے اور کافر کو جہنم تک ، میں نہ غلط بیانی سے کام لیتاہوں اور نہ کسی نے یہ بات مجھ سے غلط بیان کی ہے۔( معانی الاخبار 288 / 3)۔

669۔ ابومخنف ! امام حسین (ع) تین ساعت تک تن تنہا خون میں ڈوبے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ کر یہ مناجات کرتے رہے، خدایا میں تیرے امتحان پر صابر ہوں اور تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، اے فریادیوں کے فریادرس! جس دیکھ کر چالیس سوار بڑھے کہ آپ کے سر مبارک و مقدس و منور کو قلم کرلیں اور عمر سعدیہ آواز دیتا رہا کہ ان کے قتل میں عجلت سے کام لو ۔( ینابیع المودة 2 ث 82)۔

670۔ عبیداللہ بن زیاد کا دربان بیان کرتاہے کہ ابن زیاد نے حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) اور خواتین کو طلب کیا اور سر حسین (ع) بھی سامنے لاکر رکھدیا ، خواتین کے درمیان حضرت زینب (ع) بنت علی بھی تھیں، ابن زیاد نے انھیں دیکھ کر کہا کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے تمہیں رسوا کیا ، قتل کیا اور تمھاری باتوں کو جھوٹا ثابت کردیا ، آپ نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم کو حضرت محمد کے ذریعہ کرامت عطا فرمائی اور ہمیں پاک و پاکیزہ قرار دیا، رسوائی فاسق کا حصّہ ہے اور جھوٹ فاجر کا مقدر ہے۔

اس نے کہا کہ تم نے اپنے ساتھ پروردگار کا برتاؤ کیسا پایا ؟ فرمایا ہمارے گھر والوں پر شہید ہونا فرض تھا تو وہ گھروں سے نکل کر اپنے مقتل کی طرف آگئے اور عنقریب خدا تیرے اور ان کے درمیان اجتماع کرکے دونوں کا فیصلہ کردے گا۔( امالی صدوق ص 140 / 3 ، روضة الواعظین ص 210 ، ملہوف ص 200 ، اعلام الوریٰ ص 247)۔

671۔ امام حسین (ع) کے ایک فرزند کا انتقال ہوگیا اور لوگوں نے چہرہ پر رنج و غم کے اثرات نہ دیکھے تو اعتراض کیا، آپ نے فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) خدا سے سوال کرتے ہیں تو وہ عطا کردیتاہے اور پھر جب وہ کوئی ایسی چیزچاہتاہے جو بظاہر ناگوار ہوتی ہے تو ہم اس کی رضا سے راضی ہوجاتے ہیں۔( مقتل الحسین (ع) خوارزمی 1 ص 147)۔

672۔ ابراہیم بن سعدت ! امام سجاد (ع) نے گھر کے اندر نالہ و شیون کی آواز سنی تو اٹھ کر اندر تشریف لے گئے اور پھر واپس آگئے کسی نے دریافت کیا کیا کوئی حادثہ ہوگیاہے؟ یقینا لوگوں نے پرسہ دیا لیکن آپ کے صبر پر تعجب کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) جس چیز کو پسند کرتے ہیں اس میں خدا کی اطاعت کرتے ہیں اور جس بات کو ناپسند کرتے ہیں اس پر بھی اس کا شکر ہی کرتے ہیں ۔( حلیة الاولیاء 3 ص 138 ، تاریخ دمشق حالات امام سجاد (ع) 5/ 88، کشف الغمہ 2 ص 314 عن الباقر (ع) )۔

673۔امام باقر (ع) ! جب جس چیز کو پسند کرتے ہیں اس کے بارے میں دعا کرتے ہیں، اس کے بعد اگر ناخوشگوار امر پیش آجاتاہے تو خدا کی مخالفت نہیں کرتے ہیں، (حلیة الاولیاء 3 ص 187 از عمرو بن دینار، کشف الغمہ 2 ص 363 از احمد بن حمون)۔

674۔ علاء بن کامل ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ گھر سے نالہ و فریاد کی آواز بلند ہوئی ، آپ اٹھے اور پھر بیٹھ گئے اور انا للہ کہہ کر گفتگو میں مصروف ہوگئے اور آخر میں فرمایا کہ ہم خدا سے اپنے لئے اپنی اولاد اور اپنے اموال کے لئے عافیت چاہتے ہیں لیکن جب قضاء واقع ہوجاتی ہے تو یہ ممکن نہیں ہوتا ہے کہ جس کو خدا چاہتاہے اس کو ناپسند کردیں۔( کافی 3 ص 226 / 13)۔

675۔قتیبہ الاعشی ! میں امام صادق (ع) کے گھر آپ کے ایک فرزند کی عیادت کیلئے حاضر ہوا تو دروازہ پر آپ کو مخزون و رنجیدہ دیکھا اور پوچھا بچہ کا کیا حال ہے ، فرمایا وہی حال ہے ، اس کے بعد گھر کے اندر گئے اور ایک ساعت کے بعد مطمئن برآمد ہوئے، میں سمجھا کہ شائد صحت ہوگئی ہے ، میں نے کیفیت دریافت کی ؟ فرمایا مالک کی بارگاہ میں چلاگیا۔

میں نے عرض کی ، میری جان قربان، جب وہ زندہ تھا تو آپ رنجیدہ تھے، اب جب مرگیا ہے تو وہ حالت نہیں ہے؟ فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) مصیبت کے نازل ہونے سے پہلے تک پریشان رہتے ہیں ، اس کے بعد جب امر الہی واقع ہوجاتاہے تو اس کے فیصلہ پر راضی ہوجاتے ہیں اور اس کے امر کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں ۔( کافی 3 ص 225/11)۔

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت علی المرتضیٰ۔۔۔۔ شمعِ رسالت کا بے مثل پروانہ
پیغمبر كی شرافت و بلند ھمتی اور اخلاق حسنہ
یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ ...
فاطمہ (س) اور شفاعت
نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام

 
user comment