اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

حضرت امام صادق علیہ السلام کا فرمان

حضرت امام صادق علیہ السلام کا فرمان:

”فقھاء (کرام)اور دینی علماء میں جو شخص (گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ کے مقابلہ میں) اپنے کو محفوظ رکھے، اور دین اور (مومنین کے عقائد کا) محافظ ھو، اور اپنے نفس اور خواہشات کی مخالفت کرتا ھو، اور اپنے (زمانہ کے) مولا و آقا (اور امام) کی اطاعت کرتا ھو، تو مومنین پر واجب ھے کہ اس کی پیروی کریں، اور صرف بعض شیعہ فقھاء ایسے ھوں گے نہ کہ سب لوگ“۔ ([1])

 

 

تیسرا حصہ

امام غائب کے فوائد

سیکڑوں سال سے انسانی معاشرہ حجت خدا کے ظھور کے فیض سے محروم ھے، اور امتِ اسلامی اس آسمانی رھبر اور امام معصوم کے حضور میں مشرف ھونے سے قاصر ھے۔ تو پھر اس کا غیبت میں ھونا اور اس کی مخفیانہ زندگی نیز عمومی رسائی سے دور ھونے کی صورت میں اس کائنات اور اس میں موجود انسانوں کے لئے کیا فوائد ھیں؟ کیا یہ نھیں ھوسکتا تھا کہ ظھور کے نزدیک ان کی پیدائش ھوتی اور ان کے شیعہ ان کی غیبت کے سخت زمانہ کو نہ دیکھتے؟

یہ سوال اور اس طرح کے دوسرے سوالات امام اور حجت الٰھی کی (صحیح) پہچان نہ ھونے کی وجہ سے پیدا ھوتے ھیں۔

در حقیقت اس کائنات میں امام کا مرتبہ کیا ھے؟کیا اس کے وجود کے تمام آثار اس کے ظھور پر ھی موقوف ھیں؟ اور کیا وہ صرف لوگوں کی ھدایت کے لئے ھے یا اس کا وجود تمام ھی موجوادت کے لئے صاحب اثر اور برکت ھے؟

امام؛ کائنات کا محور ھوتا ھے

شیعہ نقطہ نگاہ اور دینی تعلیمات کے پیش نظر امام، کل کائنات کے تمام موجودات کے لئے خدا کے فیض کا واسطہ ھے۔ وہ نظام کائنات میں محور اور مرکزی حیثیت رکھتا ھے ، اس کے وجود کے بغیر اس کائنات، انسان، جنّات، ملائکہ، حیوانات اور جمادات کا نام و نشان تک نہ رھتا۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال ھوا کہ کیا زمین بغیر امام کے باقی رہ سکتی ھے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا:

”اگر زمین پر امام کا وجود نہ ھو تو اسی وقت فنا ھوجائے“۔([2])

چونکہ وہ لوگوں تک خدا کے پیغام کو پہنچانے اور انسانی کمال تک ان کی ھدایت کرنے میں واسطہ ھوتا ھے ، اور تمام موجودات تک ھر طرح کا فیض و کرم اسی کے وجود کے سبب پہنچتا ھے، چنانچہ یہ بات واضح اور روشن ھے۔ کیونکہ خداوندعالم نے شروع ھی سے انبیاء علیھم السلام کے ذریعہ اور پھر ان کے جانشین کے ذریعہ انسانی قافلہ کی ھدایت کی ھے۔ لیکن معصومین علیھم السلام کے کلام سے نتیجہ نکلتا ھے کہ اس کائنات میں ائمہ (علیھم السلام) کا وجود ھر چھوٹے بڑے وجود کے لئے خداوندعالم کی طرف سے ھر نعمت اور فیض میں واسطہ ھے۔ واضح الفاظ میں یوں کھا جائے کہ تمام موجودات خداوندعالم کی طرف سے جو کچھ بھی فیض اور عطا حاصل کرتے ھیں وہ امام کے ذریعہ حاصل ھوتا ھے۔ ان کا خود وجود بھی امام کے واسطہ سے ھے اور اپنی زندگی میں جو کچھ بھی وہ حاصل کرتے ھیں ان میں بھی امام کی ذات واسطہ ھے۔

زیارت جامعہ (جو واقعاً امام کی پہچان کی ایک جامع کتاب ھے) کے ایک فقرہ میں اس طرح بیان ھوا ھے:

 

”بِکُمْ فَتَحَ اللهُ وَ بِکُمْ یَخْتِمُ وَ بِکُمْ یُنَزِّلُ الغَیْثَ وَ بِکُمْ یُمسِکُ السَّمَاءَ اٴنْ تَقَعَ عَلَی الاٴرضِ إلاَّ بِإذْنِہِ“۔([3])

”(اے ائمہ معصومین علیہم السلام) خداوندعالم نے (کائنات کا) آغاز تمھارے سبب کیا، تمھارے ھی سبب سے اس کو آخر تک پہنچائے گا، اور تمھارے (وجود کے سبب) باران رحمت نازل کرتا ھے،اور تمھارے (وجود کی برکت سے) آسمان کو زمین پر گرنے سے محفوظ رکھے ھوئے ھے ،سوائے اس کے ارادہ کے“۔

بھر کیف امام علیہ السلام کے وجودی آثار صرف اس کے ظھور کی صورت میں خلاصہ نھیں ھوسکتے بلکہ اس کا وجود کائنات میں (یھاں تک اس کی غیبت کے زمانہ میں بھی) مخلوقات الٰھی میں تمام موجودات کے لئے سرچشمہٴ حیات ھے، اور خود خداوندعالم کی مرضی یھی ھے کہ سب سے بلند و بالا اور سب سے کامل موجود فیض الٰھی حاصل کرکے دوسری مخلوقات تک پہنچانے میں واسطہ ھو، لہٰذا اس صورت میں غیبت اور ظھور کے درمیان کوئی فرق نھیں ھے۔ جی ھاں، سبھی امام علیہ السلام کے وجود کے آثار سے فیضیاب ھوتے ھیں اور امام مھدی علیہ السلام کی غیبت اس سلسلہ میں کوئی مانع نھیں ھے۔ قابل توجہ بات یہ ھے کہ جب امام مھدی علیہ السلام سے آپ کی غیبت کے زمانہ میں فیضیاب ھونے کے طریقہ کار کے بارے میں سوال کیا جاتا ھے تو آپ فرماتے ھیں:

”وَ اٴمَّا وَجہُ الإنْتِفَاعِ بِی فِی غَیْبَتِی فَکا الإنْتِفَاعِ بِالشَّمْسِ إذَا غَیَّبَتْہَا عَنِ الاٴبْصَارِ السَّحَابَ“۔([4])

”میری غیبت کے زمانہ میں مجھ سے فیضیاب ھونا اسی طرح ھے جس طرح سورج سے فائدہ اٹھایا جاتا ھے جبکہ وہ بادلوں میں چھپ جاتا ھے“۔

امام مھدی علیہ السلام نے اپنی مثال سورج جیسی اور اپنی غیبت کی مثال بادلوں کے پیچھے چھپے سورج کی دی ھے جس میں بھت سے نکات پائے جاتے ھیں لہٰذا ھم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ھیں:

سورج ، نظام شمسی میں مرکزی حیثیت رکھتا ھے اور دوسرے سیارے اس کے گرد گھومتے ھیں ، اسی طرح امام عصر علیہ السلام کا وجود گرامی بھی کائنات کے نظام میں مرکزی حیثیت رکھتا ھے۔

”بِبَقَائِہِ بَقِیَتِ الدُّنْیَا وَ بِیُمْنِہِ رُزِقَ الوَریٰ وَ بِوُجُوْدِہِ ثَبَتَتِ الاٴرْضُ وَ السَّمَاءُ“۔([5])

”اس (امام) کی وجہ سے دنیا باقی ھے، اور اس کے وجود کی برکت سے کائنات کے ھر موجود کو روزی ملتی ھے اور اس کے وجود کی خاطر زمین اور آسمان مستحکم باقی ھیں“۔

سورج ایک لمحہ کے لئے بھی نور افشانی میں کنجوسی نھیں کرتا، اور ھر چیز اپنے رابطہ کے لحاظ سے سورج کے نور سے فیضیاب ھوتا ھے۔ چنانچہ حضرت ولی عصر علیہ السلام کا وجود بھی تمام مادّی اور معنوی نعمتوں کو حاصل کرنے میں واسطہ ھے، ھر شخص اس مرکز کمالات سے اپنے رابطہ کے مطابق مستفیض ھوتا ھے۔

اگر یہ سورج بادلوں کے پیچھے بھی نہ رھے تو پھر اس قدر ٹھنڈک اور اندھیرا ھوجائے گا کہ کوئی بھی جاندار زمین پر باقی نھیں رہ سکے گا۔ اسی طرح اگر یہ کائنات امام علیہ السلام کے وجود سے محروم ھوجائے (اگرچہ پردہ غیبت میں بھی نہ ھو) تو پھر مشکلات، پریشانیاں اور مختلف بلائیں انسانی زندگی کو آگے بڑھنے میں مانع ھو جائیں گی اور تمام موجودات کا خاتمہ ھوجائے گا۔

امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) شیخ مفید علیہ الرحمہ کو ایک خط لکھتے ھیں جس میں اپنے شیعوں سے خطاب فرماتے ھیں:

”اِنَّا غَیْرُ مُہْمِلِیْنَ لِمُرَاعَاتِکُمْ وَ لاٰ نَاسِیْنَ لِذِکْرِکُمْ وَ لَولٰا ذَلِکَ لَنَزَلَ بِکُمُ اللاَّوَاءُ وَ اصْطَلَمَکُمُ الاٴعْدَاءُ“۔([6])

”ھم تم کو ھرگز اپنے حال پر نھیں چھوڑتے، اور تمھیں کبھی بھی نھیں بھولتے، اگر (ھمیشہ ھماری توجہ) نہ ھوتی تو تم پر بھت سی سختیاں اور بلائیں نازل ھوتیں اور دشمن تم کو نیست و نابود کردیتے“۔

لہٰذا امام علیہ السلام کے وجود کا سورج پوری کائنات پر چمکتا ھے اور تمام موجودات تک فیض پہنچاتا ھے، اور ان تمام مخلوقات کے درمیان بشریت خصوصاً اسلامی معاشرہ ، شیعہ اور ان کے پیروکاروں تک مزید خیرو برکت پہنچاتا رھتا ھے جن کے چند نمونے آپ کی خدمت میں پیش کرتے ھیں:

امید کی کرن

انسان کی زندگی کا اھم سرمایہ امید ھوتی ھے۔ امید ھی انسان کی زندگی میں مایہٴ حیات اور نشاط و شادابی کا باعث ھے۔ امید، تحریک اور عمل کا باعث ھے، اس کائنات میں امام علیہ السلام کا وجود ، روشن مستقبل اور شوق و رغبت کی امید کا باعث ھے، شیعہ ھمیشہ سے اس چودہ سو سالہ تاریخ میں مختلف مشکلات اور پریشانیوں میں مبتلا رھے ھیں، اور ظلم و ستم کے سامنے قیام اور ظالم و ستمگر کے سامنے تسلیم نہ ھونے میں جو چیز مانع اور سب سے بڑی طاقت بھترین مستقبل کی امید تھی، ایسا مستقبل جو خیالی اور من گڑھت کھانی نھیں ھے؛ بلکہ ایسا مستقبل جو نزدیک ھے اور مزید نزدیک بھی ھوسکتا ھے۔ کیونکہ جو شخص قیام اور انقلاب کی رھبری کا عھدہ دار ھے وہ زندہ ھے اور ھر وقت آمادہ اور تیار ھے۔ یہ تو ھم ھیں کہ ھمیں تیار رہنا چاہئے۔

مکتب کا استحکام

ھر معاشرہ کو اپنی حفاظت اور معین مقصد تک پہنچنے کے لئے ایک ماھر رھبر کی ضرورت ھوتی ھے تاکہ اس کی ھدایت کے مطابق معاشرہ صحیح راستہ پر قدم بڑھائے۔ معاشرہ کے لئے رھبر اور ھادی کا وجود بھت ھی معاون ھے تاکہ ایک بھترین نظام کے تحت اپنی حیثیت کو باقی رکھ سکے اور آئندہ کے پرواگرم میں استحکام پیدا ھوسکے اور کمر ھمت باندھ لے۔ زندہ اور بھترین رھبر اگرچہ لوگوں کے درمیان نہ رھے لیکن پھر بھی اصل عناوین اور عام طریقہ کار پیش کرنے میں کوتاھی نھیں کرتا۔ اور مختلف طریقوں سے منحرف راستوں سے ھوشیار کرتا رھتا ھے۔

امام عصر علیہ السلام اگرچہ پردہٴ غیبت میں ھیں لیکن آپ کا وجود مذھب شیعہ کے تحفظ کا بھترین سبب ھے۔ وہ دشمنوں کی سازشوں سے مکمل آگاھی کے ساتھ شیعہ عقائد کی ھر طرح سے حفاظت کرتا ھے، اور جب مکار دشمن مختلف چالوں کے ذریعہ مکتب کے اصول اور اعتقادات کو نشانہ بناتا ھے، اس وقت امام علیہ السلام منتخب افراد اور علماء کی ھدایت و ارشاد کے ذریعہ دشمن کے مقصد کو ناکام بنادیتے ھیں۔

نمونہ کے طور پر بحرین کے شیعوں کی نسبت حضرت امام مھدی علیہ السلام کی عنایت اور توجہ کو علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کی زبانی سنتے ھیں:

”گزشتہ زمانہ میں بحرین میں ایک ناصبی حکمراں حکومت کرتا تھا جس کا وزیر وھاں کے شیعوں سے بھت زیادہ دشمنی کرتا تھا۔ ایک روز وزیر ، بادشاہ کے پاس حاضر ھوا، جس کے ھاتھ میں ایک انار تھا جس پر طبیعی طور پر یہ جملہ نقش تھا: ”لا الہ الا الله محمد رسول الله، و ابوبکر و عمر و عثمان و علی خلفاء رسول الله“۔ بادشاہ اس انار کو دیکھ کر تعجب میں پڑگیا اور اس نے اپنے وزیر سے کھا: یہ تو شیعہ مذھب کے باطل ھونے کی بھترین دلیل ھے۔ بحرین کے شیعوں کے بارے میں تمھارا کیا نظریہ ھے؟ وزیر نے جواب دیا: میری رائے کے مطابق ان کو حاضر کیا جائے اور یہ نشانی ان کو دکھائی جائے، اگر ان لوگوں نے مان لیا تو انھیں اپنا مذھب چھوڑنا ھوگا، ورنہ تو تین چیزوں میں سے ایک ضرور ماننا ھوگا! یا تو اطمینان بخش جواب لے کر آئیں، یا جزیہ ([7]) دیا کریں، یا ان کے مردوں کو قتل کردیں اور ان کے اھل و عیال کو اسیر کرلیں اور ان کے مال و دولت کو غنیمت میں لے لیں۔

بادشاہ نے اس کے نظریہ کو قبول کیا اور اور شیعہ علماء کو اپنے پاس حاضر کیا، اور ان کے سامنے وہ انار پیش کرتے ھوئے کھا: اگر تم لوگ اس سلسلہ میں واضح اور روشن دلیل پیش نہ کرسکے، تو تمھیں قتل کردوں گا اور تمھارے اھل و عیال کو اسیر کر لوں گا یا تم لوگوں کو جزیہ دینا ھوگا۔

شیعہ علماء نے اس سے تین دن کی مھلت مانگی، چنانچہ ان حضرات نے بحث و گفتگو کے بعد یہ طے کیا کہ اپنے درمیان سے بحرین کے دس صالح اور پرھیزگار علماء کا انتخاب کیا جائے، اور وہ دس افراد اپنے درمیان تین لوگوں کا انتخاب کریں، چنانچہ ان تینوں میں سے ایک عالم سے کھا: آپ آج جنگل و بیابان میں نکل جائیں اور امام زمانہ علیہ السلام سے استغاثہ کریں اور ان سے اس مصیبت سے نجات کا راستہ معلوم کریں کیونکہ وھی ھمارے امام اور ھمارے مالک ھیں۔

چنانچہ ان صاحب نے ایسا ھی کیا لیکن امام زمانہ علیہ السلام سے ملاقات نہ ھوسکی، دوسری رات ، دوسرے شخص کو بھیجا، لیکن ان کو بھی کوئی جواب نہ مل سکا، آخری رات تیسرے شخص بنام محمد بن عیسیٰ کو بھیجا، چنانچہ وہ بھی جنگل و بیابان کی طرف نکل گئے اور روتے پکارتے ھوئے امام علیہ السلام سے مدد طلب کی۔ جب رات اپنی آخری منزل پر پہنچی تو انھوں نے سنا کہ کوئی شخص ان سے مخاطب ھو کر کہہ رھا ھے: اے محمد بن عیسیٰ! میں تم کو اس حالت میں کیوں دیکھ رھا ھوں، اور تم جنگل و بیابان میں پریشان کیوں پھر رھے ھیں؟ محمد بن عیسیٰ نے ان سے کھا کہمجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔ انھوں نے فرمایا: اے محمد بن عیسیٰ! میں تمھارا صاحب الزمان ھوں، تم اپنی حاجت بیان کرو! محمد بن عیسیٰ نے کھا: اگر آپ ھی صاحب الزماں ھیں تو پھر میری حاجت بھی آپ جانتے ھیں مجھے بتانے کی کیا ضرورت ھے۔ فرمایا: تم صحیح کھتے ھو۔ تم اپنی مصیبت کی وجہ سے یھاں آئے ھو ، انھوں نے عرض کی: جی ھاں، آپ جانتے ھیں کہ ھم پر کیا مصیبت پڑی ھے، آپ ھی ھمارے امام اور ھماری پناہ گاہ ھیں۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: اے محمد بن عیسیٰ! اس وزیر (لعنة اللہ علیہ) کے یھاں ایک انار کا درخت ھے، جس وقت اس درخت پر انار لگنا شروع ھوئے تو اس نے انار کے مطابق مٹّی کا ایک سانچا بنوایا، اور اس پر یہ جملے لکھے، اور پھر ایک چھوٹے انار پر اس سانچے کو باندھ دیا، اور جب وہ انار بڑا ھوگیا تو وہ جملے اس پر کندہ ھوگئے! تم اس بادشاہ کے پاس جانا اور اس سے کہنا کہ میں تمھارا جواب وزیر کے گھر جاکر دوں گا۔ اور جب تم وزیر کے گھر پہنچ جاؤ تو وزیر سے پھلے فلاں کمرے میں جانا! اور وھاں ایک سفید تھیلا ملے گا جس میں وہ مٹّی کا سانچا ھے ۔ اس کو نکال کر بادشاہ کو دکھانا، اور دوسری نشانی یہ ھے کہ بادشاہ سے کہنا: ھمارا دوسرا معجزہ یہ ھے کہ جب انار کے دو حصے کریں گے تو اس انار میں مٹّی اور دھوئیں کے علاوہ کوئی چیز نھیں ھوگی!

محمد بن عیسیٰ ، امام علیہ السلام کے اس جواب سے بھت خوش ھوئے اور شیعہ علماء کے پاس لوٹ آئے، دوسرے روز وہ سب بادشاہ کے پاس پہنچ گئے اور جو کچھ امام علیہ السلام نے فرمایا تھا اس کو بادشاہ کے سامنے پیش کردیا۔

بحرین کے بادشاہ نے اس معجزہ کو دیکھا تو شیعیت کا عاشق ھوگیا اور حکم دیا کہ اس مکّار وزیر کو قتل کردیا جائے“۔([8])

خود سازی

قرآن کریم میں ارشاد ھوتا ھے:

<وَقُلْ اعْمَلُوا فَسَیَرَی اللهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُہُ وَالْمُؤْمِنُون۔۔۔>([9])

” اور [اے] پیغمبر کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رھو کہ تمھارے عمل کو اللہ ،رسول اور صاحبان ایمان سب دیکھ رھے ھیں۔۔۔“۔

روایات میں منقول ھے کہ آیہٴ شریفہ میں ”مومنین“ سے مراد ائمہ معصومین علیھم السلام ھیں([10])اس بنا پر مومنین کے اعمال امام زمانہ علیہ السلام کی نظروں کے سامنے ھوتے ھیں۔ اور پردہٴ غیبت میں بھی ھمارے اعمال پر ناظر ھیں۔ اور یہ چیز تربیتی لحاظ سے بھت زیادہ موثر ھے ، اور شیعوں کو اپنی اصلاح کی ترغیب دلاتی ھے، اور یھی وجہ حجت خدا اور نیکیوں کے امام کے سامنے برائیوں اور گناھوں سے آلودہ نہ ھونے سے روکتی ھے۔ البتہ یہ بات مسلّم ھے کہ انسان اس پاکیزگی اور صفا کے مرکز پر جتنی توجہ کرے گا تو اس کے دل کا آئینہ بھی اتنی ھی پاکیزگی اور صفا اس کی روح میں بھر دے گا، اور یہ نور اس کی رفتار و گفتار میں نمایاں ھوتا جائے گا۔

علمی اور فکری پناھگاہ

ائمہ معصومین علیھم السلام معاشرہ کے حقیقی معلم اور اصلی تربیت کرنے والے ھیں، اور مومنین ھمیشہ انھی حضرات کے صاف و شفاف سرچشمہ سے فیضیاب ھوتے ھیں۔ غیبت کے زمانہ میں بھی اگرچہ براہ راست امام علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ھونے کی سعادت اور کما حقہ امام سے فیض حاصل نھیں کرسکتے، لیکن وہ الٰھی علوم کے معدن و مرکز شیعوں کی علمی اور فکری مشکلات کو دور فرماتے ھیں۔ غیبت صغریٰ کے زمانہ میں مومنین اور علماء کرام نے بھت سے سوالوں کے جوابات امام علیہ السلام کے ذریعہ حل کئے ھیں۔([11])

امام زمانہ علیہ السلام اسحاق بن یعقوب کے سوال کے جواب میں یوں تحریر فرماتے ھیں:

”خداوندعالم تمھاری ھدایت کرے اور تمھیں ثابت قدم رکھے؛ لیکن چونکہ آپ نے ھمارے خاندان اور چچا زاد بھائیوں میں سے منکرین کے بارے میں سوال کیا، تو تمھیں معلوم ھونا چاہئے کہ خدا کے ساتھ کسی کی کوئی رشتہ داری نھیں ھے، لہٰذا جو شخص بھی میرا انکار کرے وہ ھم میں سے نھیں ھے اور اس کا سر انجام جناب نوح (علیہ السلام) کے بیٹے کی طرح ھے۔۔۔ اور جب تک تم اپنے مال کو پاکیزہ نہ کرلو ھم اس کو قبول نھیں کرسکتے۔۔۔

لیکن جو رقم آپ نے ھمارے لئے بھیجی ھے اس کو اس وجہ سے قبول کرتے ھیں کہ پاک و پاکیزہ ھے۔۔۔

اور جو شخص ھمارے مال کو (اپنے لئے) حلال سمجھتا ھے اور اس کو ہضم کرلیتا ھے گویا وہ آتشِ جہنم کھا رھا ھے۔۔۔ اب رھا مجھ سے فیض حاصل کرنے کا مسئلہ تو جس طرح بادلوں میں چھپے سورج سے فائدہ اٹھایا جاتا ھے (اسی طرح مجھ سے بھی فائدہ حاصل کیا جاسکتا ھے) اور میں اھل زمین کے لئے امان ھوں، جس طرح ستارے اھل آسمان کے لئے امان ھیں۔ اور جن چیزوں کا تمھیں کوئی فائدہ نھیں ھے ان کے بارے میں سوال نہ کرو ،اور اس چیز کو سیکھنے سے پرھیز کرو جس چیز کو تم سے طلب نھیں کیا گیا ، اور ھماری ظھور کے لئے بھت دعائیں کیا کرو کہ جس میں تمھارے لئے بھی فرج (اور آسانیاں) ھوں گی، اے اسحاق بن یعقوب تم پر ھمارا سلام ھو اور ان مومنین پر جو راہ ھدایت پر گامزن ھیں“۔([12])

اس کے علاوہ غیبت صغریٰ کے بعد بھی شیعہ علماء نے متعدد بار اپنی علمی اور فکری مشکلات کو امام علیہ السلام سے بیان کرکے اس کا راہ حل حاصل کیا ھے۔

میر علّام ، مقدس اردبیلی کے شاگرد رقمطراز ھیں:

”آدھی رات ھو رھی تھی اور میں نجف اشرف میں حضرت امام علی علیہ السلام کے روضہ مقدس میں تھا، اچانک میں نے کسی شخص کو دیکھا جو روضہ کی طرف آرھا ھے، میں اس کی طرف گیا جیسے ھی نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ ھمارے استاد ملا احمد مقدس اردبیلی علیہ الرحمہ ھیں۔ میں نے جلد ھی اپنے کو چھپالیا۔

موصوف روضہٴ مطھر کے نزدیک ھوئے جبکہ دروازہ بند ھوچکا تھا، اچانک میں نے دیکھا کہ دروازہ کھل گیا، اور وہ روضہ مقدس کے اندر داخل ھوگئے! اور کچھ ھی مدت بعد روضہ سے باھر نکلے، اور کوفہ کی طرف روانہ ھونے لگے۔

میں چھپ کر اس طرح ان کے پیچھے چلنے لگا تاکہ وہ مجھے نہ دیکھ پائیں، یھاں تک وہ مسجد کوفہ میں داخل ھوئے، اور اس محراب کے پاس گئے جھاں پر حضرت علی علیہ السلام کو ضربت لگی تھی، کچھ دیر وھاں رھے اور پھر مسجد سے باھر نکلے اور پھر نجف کی طرف روانہ ھوئے، میں پھر ان کے پیچھے پیچھے چل دیا یھاں تک کہ وہ مسجد حنّانہ میں پہنچے، اچانک مجھے بے اختیار کھانسی آگئی، جیسے ھی انھوں نے میری آواز سنی میری طرف ایک نگاہ کی اور مجھے پہچان لیا۔ اور فرمایا: آپ میر علّام ھی تو ھیں؟ میں نے کھا: جی ھاں، انھوں نے کھا: یھاں کیا کر رھے ھو؟ میں نے کھا: جب سے آپ حضرت علی علیہ السلام کے روضہ میں داخل ھوئے تھے میں اسی وقت سے آپ کے ساتھ ھوں۔ آپ کو اس صاحب قبر کے حق کا واسطہ آج جو واقعہ میں نے دیکھا ھے اس کا راز مجھے بتائیں!

موصوف نے فرمایا: ٹھیک ھے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جب تک میں زندہ ھوں کسی کے سامنے بیان نہ کرنا! اور جب میں نے ان کو اطمینان دلادیاتو انھوں نے فرمایا: جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی ھے تو اس کے حل کے لئے حضرت علی علیہ السلام سے توسل کرتا ھوں۔ آج کی رات بھی ایک مسئلہ میرے لئے مشکل ھوگیا اور اس کے بارے میں غور و فکر کر رھا تھا کہ اچانک میرے دل میں یہ بات آئی کہ حضرت علی علیہ ا لسلام کی بارگاہ میں جاؤں اور آپ ھی سے اس مسئلہ کا حل دریافت کروں۔

جب میں روضہ مقدس کے پاس پہنچا تو جیسا کہ آپ نے بھی دیکھا کہ بند دروازہ کھل گیا۔ میں روضہ میں داخل ھوا ، خدا کی بارگاہ میں گریہ و زاری کی تاکہ امام علی علیہ السلام کی بارگاہ سے اس مسئلہ کا حل مل جائے اچانک قبر منور سے آواز آئی کہ مسجد کوفہ میں جاؤ اور حضرت قائم علیہ السلام سے اس مسئلہ کا حل معلوم کرو کیونکہ وھی تمھارے امام زمانہ ھیں۔ چنانچہ اس کے بعد (مسجد کوفہ کی) محراب کے پاس گیا ، اور امام مھدی علیہ السلام سے اس سوال کا جواب حاصل کیا اور اب اس وقت اپنی گھر کی طرف جارھا ھوں“۔([13])

باطنی طور پر ھدایت اور روحانی نفوذ

امام لوگوں کی ھدایت اور رھبری کا عھدہ دار ھوتا ھے، لہٰذا اس کی کوشش ھوتی ھے کہ اس کے نور ھدایت کو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں کی ھدایت کرے۔ لہٰذا خداوندعالم کی طرف سے اس ذمہ داری پر عمل کرنے کے لئے کبھی ظاھر بظاھر انسانوں سے براہ راست رابطہ برقرار کرتا ھے، اور زندگی ساز اپنی رفتار و گفتار سے اس کو سعادت اور کامیابی کا راستہ دکھاتا ھے اور کبھی کبھی خداوندعالم کی عطا کردہ قدرت ولایت سے فائدہ اٹھاتے ھوئے لوگوں کے دلوں کو مسخر کرلیتا ھے اور خاص توجہ اور مخصوص عنایت کے ذریعہ دلوں کو نیکیوں اور اچھائیوں کی طرف مائل کردیتا ھے اور ان کے لئے رشد و کمال کا راستہ ھموار کردیتا ھے۔ اس صورت میں امام علیہ السلام کا ظاھری طور پر حاضر ھونا اور براہ راست رابطہ کی ضرورت نھیں ھوتی بلکہ اندرونی اور دلی رابطہ کے ذریعہ ھدایت کردی جاتی ھے۔ حضرت امام علی علیہ السلام اس سلسلہ میں امام کی کارکردگی کو بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

”خداوندا! زمین پر تیری طرف سے ایک حجت ھوتی ھے جو مخلوق کو تیرے دین کی طرف ھدایت کرتی ھے۔۔۔ اور اگر اس کا ظاھری وجود لوگوں کے درمیان نہ ھو لیکن بے شک اس کی تعلیم اور اس کے (بتائے ھوئے) آداب مومنین کے دلوں میں موجود ھیں، اور وہ اسی کے لحاظ سے عمل کرتے ھیں“۔([14])

اسی طرح سے امام پردہ غیبت میں رہ کر عالمی انقلاب اور قیام کے لئے کار آمد لوگوں کی ھدایت کی کوشش فرماتا ھے۔ اور جو لوگ لازمی حد تک صلاحیت رکھتے ھیں وہ امام علیہ السلام کی خصوصی تربیت کے تحت آپ کے ظھور کے لئے تیار ھوجاتے ھیں۔ اور یہ پردہ غیب میں رہنے والے امام کے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ ھے جو آپ کے وجود کی برکت سے انجام پاتا ھے۔

بلاؤں سے امان

اس بات میں کوئی شک نھیں ھے کہ امن و امان انسانی زندگی کا اصلی سرمایہ ھے۔ جو کائنات میں مختلف حوادث کی وجہ سے تمام موجودات کی عام زندگی کو خطرناک موڑ پر پہنچا دیتا ھے، اگرچہ بلاؤں اور مصیبتوں کا سدّ باب مادّی چیزوں کے ذریعہ ممکن ھے، لیکن معنوی اسباب و عوامل بھی ان میں موثر واقع ھوتے ھیں۔ ھمارے ائمہ معصومین علیھم السلام کی روایات میں نظام خلقت کے تمام مجموعہ کے لئے امام اور حجت خدا کا وجود زمین اور اس پر رہنے والوں کے لئے امن و امان کا سبب شمار کیا گیا ھے۔

حضرت امام زمانہ علیہ السلام خود فرماتے ھیں:

”وَ إنِّی لَاَمَانٌ لِاٴہْلِ الاٴرْضِ“۔([15])

”اور میں اھل زمین کے لئے (بلاؤں سے) امان ھوں“۔

امام علیہ السلام کا وجود اس چیز میں مانع ھوتا ھے کہ لوگ اپنے گناھوں اور برائیوں کی وجہ سے سخت عذاب الٰھی میں مبتلا ھوجائیں اور زمین اور اھل زمین کی زندگی کا خاتمہ ھوجائے۔

اس سلسلہ میں قرآن کریم میں پیغمبر اسلام (ص) سے خطاب کرتے ھوئے ارشاد ھوتا ھے:

<وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاٴَنْتَ فِیہِمْ ۔۔۔>([16])

”حالانکہ اللہ ان پر اس وقت تک عذاب نہ کرے گا جب تک آپ  ان کے درمیان میں ھیں۔۔۔“۔

حضرت ولی عصر علیہ السلام جو رحمت اور محبت پروردگار کے مظھر ھیں،بھی اپنی خاص توجہ کے ذریعہ بڑی بڑی بلاؤں کو خصوصاً ھر شیعہ سے دور کرتے ھیں؛ اگرچہ ھم بھت سے مقامات پر آپ کے لطف و کرم کی طرف متوجہ نھیں ھوتے، اور مدد کرنے والے کو نھیں پہچانتے!

آپ خود اپنی شناخت کے بارے میں فرماتے ھیں:

”اَنَا خَاتِمُ الاٴوْصِیَاءِ، وَ بِی یَدْفَعُ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ الْبَلَاءُ مِنْ اٴَہْلِی وَ شِیْعَتِی“([17])

”میں پیغمبر خدا (ص) ) کا آخری جانشین ھوں، اور خداوندعالم میرے (وجود کے سبب) میرے خاندان اور میرے شیعوں سے بلاؤں کو دور کرتا ھے“۔

انقلاب اسلامی ایران کے ابتدائی زمانہ میں اور دفاع مقدس (یعنی عراق سے جنگ کے دوران) امام زمانہ علیہ السلام کے لطف و کرم اور آپ کی محبت کو بار ھا اس قوم اور حکومت پر سایہ فگن دیکھا گیا ھے، اور اسلامی حکومت اور امام کے چاہنے والے شیعوں کو دشمن کی خطرناک سازشوں سے محفوظ رکھا ھے! ۲۱ بھمن میں امام خمینی علیہ الرحمہ کے ذریعہ حکومت شہنشاھی کا خاتمہ ھونا، ”طبس“ کے بیابان میں امریکی فوجی ھیلی کوپٹر کا  ۱۳۵۹ھ۔ق ۔میں سرنگون ھونا،اور ۲۱/تیر ۱۳۶۱ھ۔ق۔ میں ”نوژہ“ نامی بغاوت کی ناکامی، اور (عراق سے) آٹھ سال کی جنگ میں دشمن کی ناکامی اور بھت سے دوسرے نمونہ اس بات کے زندہ گواہ ھیں۔

باران رحمت

کائنات کا عظیم مھدی موعود ، مسلمانوں کی آرزؤں کا قبلہ اور شیعوں کا دلی محبوب (حضرت امام زمانہ علیہ السلام) ھمیشہ لوگوں کے حالات زندگی پر نظر رکھے ھوئے ھے اور اس مھربان خورشید کی غیبت اس چیز میں مانع نھیں ھے کہ مشتاق دلوں پر اپنے زندگی بخش اور نشاط آفرین سایہ سے دریغ کرے، اور ان کو اپنے لطف و کرم کے دسترخوان پر نہ بٹھائے۔ وہ ماہِ منیر ھمیشہ اپنے غمخوار شیعوں اور آپ سے مدد طلب کرنے والوں سے دوستی اور محبت کرتا ھے۔ وہ کبھی تو بیمار لوگوں کے سرھانے حاضر ھوتے ھیں اور اپنے شفا بخش ھاتھوں کوان کے زخموں کا مرھم قرار دیتے ھیں۔ اور کبھی جنگلوں میں بھٹکے ھوئے مسافر پر عنایت کرتے ھیں اور تنھائی کی وادی میں ناچار و بے کس لوگوں کی راہنمائی کرتے ھیں، اور ناامیدی کی سرد ھواؤں میں منتظر دلوں کو امید کی گرمی عطا کرتے ھیں۔ وہ باران رحمتِ الٰھی ھیں جو دلوں کے خشک بیابانوں پر برس کر اپنی دعاؤں کے ذریعہ شیعوں کے لئے ھریالی اور شادابی ھدیہ کرتے ھیں۔ وہ خداوندمحبوب کی بارگاہ کا سجّادہ نشین اپنے ھاتھوں کو پھیلائے ھمارے لئے یہ دعا کرتا ھے:

”یَا نُورَ النُّورِ، یَا مُدَبِّرَ الاٴُمُورِ یَا بَاعِثَ مَنْ فِی القُبُورِ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ اجْعَلْ لِی وَ لِشِیْعَتِی مِنَ الضِّیقِ فَرَجاً، وَ مِنَ الْہَمِّ مَخْرِجاً، وَ اٴوْسَعْ لَنَا الْمَنْہِجَ وَ اطلُقْ لَنَا مِنْ عِنْدِکَ مَا یُفَرِّجُ وَافْعَلْ بِنَا مَا اٴنْتَ اٴہْلُہُ یَا کَرِیمْ“۔([18])

”اے نوروں کے نور!  اے تمام امور کے تدبیر کرنے والے!اے مُردوں کے زندہ کرنے والے! محمد و آلِ محمد پر صلوات بھیج، اور مجھے اور میرے شیعوں کو مشکلات سے نجات عطا فرما، اور غم و اندوہ کو دور فرما، اور ھم پر (ھدایت کے ) راستہ کو وسیع فرما، اور جس راہ میں ھمارے لئے آسانیاں ھو اس کو ھمارے اوپر کھول دے اور تو ھمارے ساتھ ایسا سلوک کر جس کا تو اھل ھے، ایا کریم!“۔

قارئین کرام!  ھماری بیان کی ھوئی گزشتہ باتیں اس بات کی عکاسی کرتی ھیں کہ امام علیہ السلام (اگرچہ وہ پردہٴ غیبت میں ھیں) سے رابطہ رکھنا ممکن ھے اور ان سے متصل ھونا کوئی مشکل بات نھیں ھے، اور یہ امام علیہ السلام کے وجود کا اثر ھے، اور جو حضرات اس بات کی لیاقت اور صلاحیت رکھتے تھے وہ اپنے محبوب امام کی ملاقات اور قرب کی لذت سے محظوظ ھوئے ھیں۔

 

چوتھا حصہ

دیدار امام

زمانہٴ غیبت کی (سب سے بڑی) مشکل اور پریشانی یہ ھے کہ شیعہ اپنے مولا و آقا اور اس فخر یوسف کے جمال کے دیدار سے محروم ھیں، زمانہٴ غیبت کے شروع سے ھی آپ کے ظھور کے منتظر کے دلوں کو ھمیشہ یہ حسرت بے تاب کرتی رھی ھے کہ کسی صورت سے یوسف زھرا (ع) کا دیدار ھوجائے ، وہ اس فراق میں آہ و فغان کرتے رھتے ھیں! اگرچہ غیبت صغریٰ میں آپ کے مخصوص نائبین کے ذریعہ شیعہ اپنے محبوب امام سے رابطہ برقرار کئے ھوئے تھے اور ان میں بعض لوگوں امام علیہ السلام کے حضور میں شرفیاب بھی ھوئے ھیں، جیسا کہ اس سلسلہ میں متعدد روایات موجود ھیں، لیکن غیبت کبریٰ (جس میں امام علیہ السلام مکمل طور پر غیبت اختیار کئے ھوئے ھیں) میں وہ رابطہ ختم ھوگیا، اور امام علیہ السلام سے عام طریقہ سے یا مخصوص حضرات کے ذریعہ ملاقات کرنے کا بھی امکان نھیں ھے۔

لیکن پھر بھی بھت سے علماء کا اعتقاد یہ ھے کہ اس زمانہ میں بھی اس ماہِ منیر سے ملاقات کا امکان ھے اور متعدد بار ایسے واقعات پیش آئے ھیں۔ بھت سے عظیم الشان علماء جیسے علامہ بحر العلوم، مقدس اردبیلی اور سید ابن طاووس وغیرہ کی ملاقات کے مشھور و معروف واقعات کو متعدد علماء نے نقل کیا ھے۔([19])

لیکن یھاں پر یہ عرض کردینا ضروری ھے کہ امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی ملاقات کے سلسلہ میں درج ذیل نکات پر توجہ رکھنا چاہئے:

پھلا نکتہ یہ ھے کہ امام مھدی علیہ السلام سے ملاقات بھت ھی زیادہ پریشانی اور بے کسی کے عالم میں ھوتی ھے، اور کبھی عام حالات میں اور بغیر کسی پریشانی کی صورت میں۔ واضح الفاظ میں یوں کھیں کہ کبھی امام علیہ السلام کی ملاقات مومنین کی نصرت اور مدد کی وجہ سے ھوتی ھے جو لوگ بعض پریشانیوں میں مبتلا ھوجاتے ھیں اور تنھائی اور بے کسی کا احساس کرتے ھیں، مثلاً مختلف مقامات جیسے کوئی حج کے سفر میں راستہ بھٹک گیا اور امام علیہ السلام اپنے کسی صحابی کے ساتھ میں تشریف لائے اور اس کو پریشانی سے نجات دی، امام علیہ السلام سے اکثر ملاقاتیں اسی طرح کی ھیں۔

لیکن بعض ملاقات عام حالات میں بھی ھوئی ھیں، اور ملاقات کرنے والے اپنے مخصوص روحانی مقام کی وجہ سے امام علیہ السلام کی ملاقات سے شرفیاب ھوئے ھیں۔

لہٰذا مذکورہ نکتہ کے مد نظر توجہ رھے کہ امام علیہ السلام کی ملاقات کا دعویٰ ھر کسی سے قابل قبول نھیں ھے۔

دوسرا نکتہ یہ ھے کہ غیبت کبریٰ کے زمانہ میں مخصوصاً آج کل بعض لوگ امام زمانہ علیہ السلام کی ملاقات کا دعویٰ کرکے اپنی شھرت کے پیچھے ھیں، اور اس طرح بھت سے لوگوں کو گمراھی اور عقیدہ و عمل میں انحراف کی طرف لے جاتے ھے؛ اور بعض دعاؤں کے پڑھنے اور بعض اعمال انجام دینے کی دعوت دیتے ھیں جبکہ ان میں سے بعض کی کوئی اصل اور بنیاد بھی نھیں ھے، امام زمانہ کے دیدار کا وعدہ دیتے ھیں، اور اس طرح اس امام غائب کی ملاقات کو سب کے لئے ایک آسان کام قرار دیتے ھیں، جبکہ اس بات میں کوئی شک نھیں ھے کہ امام علیہ السلام خداوندعالم کے ارادہ کے مطابق مکمل طور پر غیبت میں ھیں، اور صرف انگشت شمار افراد ھی کی امام علیہ السلام سے ملاقات ھوتی ھے اور ان کی راہ نجات بھی اسی لطف الٰھی کے مظھر کی براہ راست عنایت ھے۔

تیسرا نکتہ یہ ھے کہ ملاقات صرف اسی صورت میں ممکن ھے کہ امام زمانہ علیہ السلام اس ملاقات میں مصلحت دیکھیں۔ لہٰذا اگر کوئی مومن امام علیہ السلام کی حضور میں شرفیاب ھونے کے لئے شوق اور رغبت کا اظھار کرے لیکن امام سے ملاقات نہ ھوسکے تو پھر یاس اور ناامیدی کا شکار نھیں ھونا چاہئے اور اس کو امام علیہ السلام کے لطف و کرم کے نہ ھونے کی نشانی قرار نھیں دینا چاہئے، جیسا کہ جو افراد امام علیہ السلام کی ملاقات سے مشرف ھوئے ھیں ان کی یہ ملاقات تقویٰ اور فضیلت کی نشانی نھیں ھے۔

نتیجہ یہ ھے کہ اگرچہ امام زمانہ علیہ السلام کے جمالِ پُر نور کی زیارت اور دلوں کے محبوب سے گفتگو اور کلام کرنا واقعاً ایک بڑی سعادت ھے لیکن ائمہ علیھم السلام خصوصاً امام عصر علیہ السلام اپنے شیعوں سے یہ نھیں چاھتے کہ ان سے ملاقات کی کوشش کریں اور اپنے اس مقصود تک پہنچنے کے لئے چِلّہ کھینچیں، یا جنگلوں میں نکل جائیں؛ بلکہ ائمہ معصومین علیھم السلام نے بھت زیادہ تاکید کی ھے کہ ھمارے شیعوں کو ھمیشہ اپنے امام کو یاد رکھنا چاہئے، اور ان کے ظھور کے لئے دعا کرنا چاہئے، اور آپ کی رضایت حاصل کرنے کے لئے اپنی رفتار و کردار کی اصلاح کرنا چاہئے، اور ان کے عظیم مقاصد کے لئے قدم بڑھانا چاہئے، تاکہ جلد از جلد آخری امید جھان کے ظھور کا راستہ ھموار ھوجائے اور کائنات ان کے وجود سے براہ راست فیضیاب ھو۔

خود امام مھدی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”اٴَکثرُوا الدُّعاءَ بِتَعجِیْلِ الفرجِ، فإنَّ ذَلکَ فرَجُکُم“۔([20])

”میرے ظھور کے لئے بھت زیادہ دعائیں کیا کرو کہ اس میں تمھاری ھی آسانی (اور بھلائی) ھے“۔

یھاں پر مناسب ھے کہ مرحوم حاج علی بغدادی (جو اپنے زمانہ کے نیک اور صالح شخص تھے) کی دلچسپ ملاقات کو بیان کریں لیکن اختصار کی وجہ سے صرف اھم نکات کی طرف اشارہ کرتے ھیں:

”وہ متقی اور صالح شخص ھمیشہ بغداد سے کاظمین جایا کرتے تھے اور وھاں دو اماموں (امام موسیٰ کاظم اور امام محمد تقی علیھما السلام) کی زیارت کیا کرتے تھے۔ موصوف کھتے ھیں: خمس اور دیگر رقوم شرعی میرے ذمہ تھی۔ اسی وجہ سے میں نجف اشرف گیا اور ان میں سے ۲۰/ تومان عالم فقیہ شیخ انصاری (علیہ الرحمہ)کو اور ۲۰/ تومان عالم فقیہ شیخ محمد حسین کاظمی (علیہ الرحمہ) کو اور ۲۰/ تومان آیت الله شیخ محمد حسن شروقی (علیہ الرحمہ) کو دیا، اور ارادہ یہ کیا کہ اپنے ذمہ دوسرے ۲۰/ تومان بغداد کی واپسی پر آیت اللہ آل یاسین (علیہ الرحمہ) کو دوں۔ جمعرات کے روز بغداد واپس آیا، سب سے پھلے کاظمین گیا اور دونوں اماموں کی زیارت کی، اس کے بعد آیت اللہ آل یاسین کے بیت الشرف پر گیااور اپنے ذمہ خمس کی رقم کا ایک حصہ ان کی خدمت میں پیش کیا، اور ان سے اجازت طلب کی کہ اس میں سے باقی رقم (انشاء اللہ) بعد میں خود آپ کو یا جس کو مستحق سمجھوں ادا کردوں گا، انھوں نے اس بات کا اصرار کیا کہ انھیں کے پاس رھیں، لیکن میں نے اپنے ضروری کام کی وجہ سے معذرت چاھی، اور خدا حافظی کی اور بغداد کی طرف روانہ ھوگیا، جب میں نے اپنا ایک تھائی سفر طے کرلیا تو راستہ میں ایک باوقار سید بزرگوار کو دیکھا، موصوف سبز عمامہ پہنے ھوئے تھے، اور ان کے رخسار پر ایک کالے تِل کا نشان تھا، اور موصوف بھی زیارت کے لئے کاظمین جارھے تھے۔ میرے پاس آئے اور مجھے سلام کیا، اور گرم جوشی کے ساتھ مجھ سے مصافحہ کیا، اور مجھے گلے لگایا اور مجھے خوش آمد کھا اور فرمایا: خیر تو ھے کھاں جا رھے ھیں؟

میں نے عرض کی: زیارت کرکے بغداد جارھا ھوں، انھوں نے فرمایا: آج شب جمعہ ھے کاظمین واپس جاؤ (اور آج کی رات وھیں رھو) ! میں نے عرض کی: میں نھیں جاسکتا، انھوں نے کھا: تم یہ کام کرسکتے ھو، جاؤ تاکہ میں گواھی دوں کہ میرے جد امیر المومنین علیہ السلام اور ھمارے دوستوں میں سے ھو، اور شیخ بھی گواھی دیتے ھیں، خداوندعالم فرماتا ھے: <وَ اسْتَشْہِدُوا شَہِیدَیْنِ مِنْ رِجَالِکُم>([21]) (اور اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ بناوٴ)

حاج علی بغدادی کھتے ھیں: میں نے اس سے پھلے آیت اللہ آل یاسین سے درخواست کی تھی کہ میرے لئے ایک نوشتہ لکھ دیں جس میں اس بات کی گواھی ھو کہ میں اھل بیت علیھم السلام کے دوستداروں میں سے ھوں تاکہ اس نوشتہ کو اپنے کفن میں رکھوں۔ میں نے سید سے سوال کیا: آپ مجھے کیسے پہچانتے ھیں اور کس طرح گواھی دیتے ھیں؟ فرمایا: انسان کس طرح اس شخص کو نہ پہچانے جو اس کا کامل حق ادا کرتا ھو؟ میں نے عرض کی: کونسا حق؟! فرمایا: وھی حق جو تم نے میرے وکیل کو دیا ھے۔ میں نے عرض کیا: آپ کا وکیل کون ھے؟ فرمایا: شیخ محمد حسن! میں نے عرض کی: کیا وہ آپ کے وکیل ھیں؟ فرمایا: ھاں۔

مجھے ان کی باتوں پر بھت زیادہ تعجب ھوا۔ میں نے سوچا کہ میرے اور ان کے درمیان بھت پرانی دوستی ھے جس کو میں بھول چکا ھوں، کیونکہ انھوں نے ملاقات کے شروع میں ھی مجھے نام سے پکارا ھے! اور میں نے یہ سوچا کہ موصوف چونکہ سید ھیں لہٰذا مجھ سے خمس کی رقم لینا چاھتے ھیں۔ لہٰذا میں نے کھا: کچھ سھم سادات میرے ذمہ ھے اور میں نے اس کو خرچ کرنے کی اجازت بھی لے رکھی ھے،موصوف مسکرائے اور کھا: جی ھاں! آپ نے ھمارے سھم کا کچھ حصہ نجف میں ھمارے وکیلوں کو ادا کردیا ھے۔ میں نے سوال کیا: کیا یہ کام خداوندعالم کی بارگاہ میں قابل قبول ھے؟ انھوں نے فرمایا: جی ھاں!

میں متوجہ ھوا کہ کس طرح یہ سید بزرگوار عصرِ حاضر کے بڑے اور جیّد علماء کو اپنا وکیل قرار دے رھے ھیں؟ لیکن ایک بار پھر مجھے غفلت سی ھوئی اور میں موضوع کو بھول گیا!

میں نے کھا: اے بزرگوار! کیا یہ کہنا صحیح ھے: جو شخص شب جمعہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے (وہ عذاب خدا سے) امان میں ھے۔ فرمایا: جی ھاں صحیح ھے! اور میں نے دیکھا کہ فوراً ھی موصوف کی آنکھیں آنسووں سے بھر گئی، کچھ ھی دیر گزری تھی کہ ھم نے اپنے کو روضہٴ کاظمین میں پایا، کسی سڑک اور راستہ سے گزرے بغیر۔ داخل ھونے والے دروازہ پر کھڑے ھوئے تھے، موصوف نے کھا: زیارت پڑھیں، میں نے کھا: بزرگوار میں اچھی نھیں پڑھ سکوں گا۔ فرمایا: کیا میں پڑھوں تاکہ تم بھی میرے ساتھ پڑھتے رھو؟ میں نے کھا: ٹھیک ھے!

چنانچہ ان بزرگوار نے پیغمبر اکرم اور ایک ایک امام پر سلام بھیجا، اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے نام کے بعد میری طرف رخ کرکے فرمایا: کیا تم اپنے امام زمانہ کو پہچانتے ھو؟ میں نے عرض کی: کیوں نھیں پہچانوں گا؟! فرمایا: تو پھر اس پر سلام کرو، میں نے کھا:

اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَا حُجَّةَ اللهِ یَا صَاحِبَ الزَّمَانِ یَابْنَ الْحَسَنِ! وہ بزرگوار مسکرائے اور فرمایا: عَلَیکَ السَّلام وَ رَحْمَةُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہُ۔

اس کے بعد حرم میں وارد ھوئے اور ضریح کا بوسہ لیا، فرمایا: زیارت پڑھیں۔ میں نے عرض کیا اے بزرگوار میں اچھی نھیں پڑھ سکتا۔ فرمایا: کیا میں آپ کے لئے پڑھوں؟ میں نے عرض کیا: جی ھاں! انھوں نے ”امین اللہ“ نامی مشھور زیارت پڑھی اور فرمایا: کیا میرے جد امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا چاھتے ھو؟ میں نے عرض کی: جی ھاں آج شب جمعہ اور امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی شب ھے ۔ انھوں نے امام حسین علیہ السلام کی مشھور زیارت پڑھی۔ اس کے بعد نماز مغرب کا وقت ھوگیا موصوف نے مجھ سے فرمایا: نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھیں۔ اور نماز کے بعد وہ بزرگوار اچانک میری نظروں سے غائب ھوگئے ، میں نے بھت تلاش کیا لیکن وہ نہ مل سکے!!

ایک پھر متوجہ ھوا کہ سید نے مجھے نام لے کر پکارا تھا اور مجھ سے کھا تھا کہ کاظمین واپس لوٹ جاؤں جبکہ میں نھیں جانا چاھتا تھا۔ انھوں نے عظیم الشان فقھاء کو اپنا وکیل قرار دیا اور آخر کار میری نظروں سے اچانک غائب ھوگئے۔ ان تمام باتوں پر غور و فکر کرنے کے بعد مجھ پر یہ بات واضح ھوگئی کہ وہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام تھے، لیکن افسوس کہ بھت دیر بعد سمجھ سکا۔([22])

 



[1] احتجاج، ج۲، ص ۵۱۱۔

 

[2] اصول کافی، ج۱،ص ۲۰۱۔

[3] مفاتیح الجنان، زیارت جامعہ کبیرہ، نوٹ: یہ زیارت حضرت امام علی نقی علیہ السلام سے منقول ھے،اور سند اور تحریر کے لحاظ سے ایک عظیم الشان زیارت ھے، اور ھمیشہ شیعہ علماء کی خصوصی توجہ اس کے سلسلہ میں رھی ھے۔

[4] احتجاج، ج۲، ش ۳۴۴، ص ۵۴۲۔

[5] مفاتیح الجنان، دعای عدیلہ۔

[6] احتجاج، ج۲، ش ۳۵۹، ص ۵۹۸۔

 

[7] جزیہ ، اسلامی حکومت میں غیر مسلم پر اس سالانہ محصول کو کھا جاتا ھے جس کے مقابلے میں اسلامی حکومت کی سھولیات سے بھرہ مند ھوتے ھیں۔

[8] بحار الانوار، ج۵۲، ص ۱۷۸۔

[9] سورہ توبہ،آیت  ۱۰۵۔

[10] اصول کافی، باب عرض الاعمال، ص ۱۷۱۔

[11] دیکھئے: کمال الدین، ج۲، باب ۴۵، ص ۲۳۵ تا ۲۸۶۔

[12] دیکھئے: کمال الدین، ج۲، باب ۴۵، ص ۲۳۷ ۔

 

[13] بحار الانوار، ج۵۲، ص ۱۷۴۔

[14] اثبات الھداة، ج۳، ح۱۱۲، ص ۴۶۳۔

[15] کمال الدین، ج۲،باب ۴۵، ح۴ ، ص ۲۳۹۔

[16] سورہ انفال، آیت ۳۳۔

[17] کمال الدین، ج۲، باب ۴۳، ح۱۲، ص ۱۷۱۔

[18] منتخب الاثر، فصل ۱۰، باب ۷، ش۶، ص ۶۵۸۔

[19] دیکھئے: جنّة الماویٰ، اور نجم الثاقب ، محدث نوری۔

 

[20] کمال الدین، ج۲، باب ۴۵، ح۴، ص ۲۳۹۔

[21] سورہ بقرہ،آیت۲۸۲

 

[22] بحار الانوار، ج۵۳، ص ۳۱۵۔ النجم الثاقب، داستان ۳۱۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

جھاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
سیاست علوی
قرآن مجید و ازدواج
عید سعید فطر
شب قدر ایک تقدیر ساز رات
آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی
حضرت امام علی علیہ السلام کے حالات کا مختصر جائزہ
چہل احادیث
تاریخ آغازِ طِب

 
user comment