337 دہشت پسند اور غارتگر گروہمعاويہ كو اس اقتدار كے باوجود جو اس نے حاصل كيا تھا اور اس اثر و رسوخ كے بعد بھى جو س كا شام كے لوگوں پر ہوگيا تھا نيزہ سپاہ عراق ميں ہر طرح سے انتشار و پراگندگى پيدا كر كے بھى يہ اطمينان نہ تھا كہ اگر اميرالمومنين حضرت على (ع) كے مركز حكومت پر حملہ كرے گا تو وہ كامياب ہوجائے گا اس نے جنگ صفين كے دوران جو ہولناك مناظر اپنى آنكھوں سے ديكھے تھے اور حضرت على (ع) كى تلوار كے جن واروں كو اس نے سہاتھا وہ اس امر كے متقاضى نہ تھے كہ ايسا كوئي اقدام كرے_ اسے اب تك جو كاميابى نصيب ہوئي تھى وہ سب حيلہ و نيرنگ كا نتيجہ تھى چنانچہ اس كے ساتھيوں نے جب بھى يہ تجوير پيش كى كہ كوفہ پر حملہ كيا جائے تو اس نے اس كا جواب نفى ہى ميں ديا اس ضمن ميں اس نے كہا كہ عراق كے لوگوں كو شكست دينے اور پراگندہ فوجى دستے عراق كے مختلف علاقوں ميں سركشى و غارت گرى كرتے رہيں كيونكہ يہى ايسا طريقہ ہے جس كے ذريعے ہمارے حامى و طرفدار بتدريج طاقت ور ہوتے چلے جائيں گے اور عراق كا محاذ شكست و ريخت اور خوف و خطر ميں مبتلا رہے گا جب عراق كے اشراف و سربرآوردہ لوگ يہ كيفيت ديكھيں گے تو وہ خود ہى على (ع) كا ساتھ چھوڑ كر ہماى طرف آنے لگيں گے_ اس فيصلے كے بعد اس نے نعمان بن بشير، سفيان بن عوف، عبداللہ بن مَسعَدہ اور ضحاك بن قيس جيسے فرمانداروں كى زير قيادت سپاہ كے دستے منظم كئے اور انھيں عراق كے مختلف علاقوں ميں روانہ كيا تا كہ اس فرمان كو جس ميں مسلمانوں كے لئے تباہى و بربادى اور خوف و دہشت كے عناصر شامل تھے جارى و سارى كرسكے_ يہاں ہم ان ہلاكت بار تجاوزات كى درد انگيز داستان بيان كرنے كے ساتھ ہى ان افراد كا |
مختصر تعارف كرائيں گے جو ان دستوں كے سرغنہ و سردار تھے_ 1_ نعمان بن بشير وہ انصار اور طائفہ خزرج ميں سے تھا عثمان كے زمانے ميں جو شورشيں ہوئيں ان ميں اس نے خليفہ وقت كا ساتھ ديا_ عثمان كے قتل كے بعد ان كا خون آلودہ كرتا وہ ملك شام لے كرگيا اور معاويہ كو پيش كيا اور يہيں سے وہ معاويہ كا حامى و طرفدار ہوا معاويہ كى طرف سے كچھ عرصہ حاكم كوفہ بھى رہا اور اس كے بعد اسے '' حمص'' كا حاكم مقرر كيا گيا _ معاويہ نے اسے 39 ھ ميں دوہزار افراد كے ساتھ '' عين التمر'' (1)كى جانب روانہ كيا اميرالمومنين حضرت على (ع) كے فوجى محافظ دستے پر جو تقريبا سو افراد پر مشتمل تھا اس نے حملہ كيا ليكن دلاور مدافعين نے اپنى تلواروں كى نيا ميں توڑ كر پورى پا مردى و جانبازى سے دفاعى مقابلہ كيا اس عرصے ميں تقريبا پچاس افراد ان كى مدد كے لئے وہاں آن پہنچے نعمان كے سپاہيوں كو يہ گمان گذرا كہ مدافعين كے پاس مدد كے لئے جو لشكر پہنچا ہے اس كى تعداد بہت زيادہ ہے چنانچہ راتوں رات وہ اس جگہ سے بھاگ نكلے اور شام كى جانب رخ كيا_ اسے معاويہ كى طرف سے اس مقصد كے تحت مقرر كيا گيا تھا كہ عراق كے بعض مقامات پر حملہ كريں معاويہ نے رخصت كرتے وقت اسے يہ تاكيد كى تھى كہ : تمہارے سامنے كوئي بھى ايسا شخص آئے جو تم سے متفق و ہم خيال نہ ہوا سے بے دريغ قتل كردينا تمہارے راستے ميں جو بھى بستياں آئيں انھيں ويران كرتے چلے جانا لوگوں كے مال و متاع كو لوٹ لينا كيونكہ لوٹ مار بھى قتل كرنے كے برابر ہى ہے بلكہ بعض اوقات غارتگرى قتل سے زيادہ جانگداز و مہلك ثابت ہوتى ہے_ چلتے وقت اسے يہ ہدايت بھى كى كہ پہلے شہر '' ہيت'' (2) پر حملہ كرنا اس كے بعدانبار اور |
مدائن كے شہروں پر قبضہ كرنا سفيان بن عوف چھ ہزار سپاہيوں كو ساتھ لے كر روانہ ہوا جب شہر ہيت ميں اسے كوئي نظر نہ آيا تو اس نے شہر انبار پريورش كى محافظين شہر كو كثير تعداد ميں قتل كرنے كے بعد اس نے شہر ميں كشت و كشتار اور غارتگرى كا بازار گرم كيا اور بہت ساماں جمع كر كے وہ شام كى طرف واپس آگيا_ (3) اميرالمومنين حضرت على (ع) كو جب اس واقعے كى اطلاع ملى تو آپ (ع) نے جہاد كى فضيلت كے بارے ميں مفصل تقرير كى اور بتايا كہ جو لوگ اس اسلامى فرض سے روگردانى كرتے ہيں وہ كيسے ناگوار نتائج سے دوچار ہوتے ہيں اس ضمن ميں آپ (ع) نے فرماياكہ : ميں شب و روز پنہاں و آشكارا تمہيں اس گروہ سے بر سر پيكار ہونے كى دعوت ديتا رہا ميں نے تمہيں يہ ہدايت كى كہ اس سے پہلے وہ تمہارے ساتھ نبرد آزما ہوں تم ہى ان پر وار كردو ... ليكن تم نے سستى سے كام لياور فرض جہاد كو ايك دوسرے پر ٹالتے رہے چنانچہ نوبت يہاں تك آن پہنچى كہ تم پر ہر طرف سے پے در پے حملے كئے جانے لگے تمہيں غارتگرى كا نشانہ بنايا جانے لگا اور اب تمہارى زمين و جائيداد كے مالك دوسرے لوگ ہوئے ہيں يہ شخص جس نے اپنى سپاہ كو ساتھ لے كر شہر انبار پر حملہ كيا '' غامد'' قبيلے كا ہے اس نے فرماندار شہر حسان بن حسان بكرى كو قتل كيا اور تمہارى سپاہ كو اس نے ان كى عسكر گاہوں سے باہر نكل ديا ہے_ مجھے يہ اطلاع ملى ہے كہ ان ميں سے ايك شخص ايك مسلم خاتون اور اس اہل كتاب عورت كے گھر ميں جو مسلمانوں كى زير حمايت زندگى بسر كرتى تھى داخل ہوا اور ان كے زيورات ان كے جسموں پر سے اس نے اتار لئے اس كے بعد بہت سال غنيمت جمع كر كے وہ اور اس كے ساتھى واپس چلے گئے _ ديكھنے كى بات يہ ہے كہ ان غارتگروں ميں سے نہ تو كوئي زخمى ہوا اور نہ ہى كسى كے خون كا قطرہ زمين پر گرا ا س واقعے كے بعد اگر ايك سچا مسلمان غم و افسوس كے باعث مرجائے يا ڈوب مرے تو بجا ہوگا اور وہ قابل سرزنش بھى قرار نہ ديا جائيگا_ (4) |
3_ عبداللہ بن مسعدہ ابتدا ميں وہ حضرت على (ع) كے حامى و طرفداروں ميں سے تھا ليكن دنيا پرستى كے باعث كچھ عرصہ بعد معاويہ كے ساتھ جاملا اور اس كا شمار حضرت على (ع) كے سخت ترين دشمنوں ميں كيا جانے لگا_ معاويہ نے اسے سترہ سو افراد كے ساتھ '' تيمائ'' (5)كى جانب روانہ كيا اور يہ حكم ديا كہ جس بستى ميں سے بھى گذرنا اس سے زكات كا مطالبہ كرنا اور جو شخص ادا كرنے سے منع كرے اسے قتل كرڈالنا _عبداللہ مكہ اور مدينہ كے شہروں سے گذرا جب حضرت على (ع) كو اس كى روانگى كى اطلاع ملى تو آپ(ع) نے مسيب بن نجبہ فزارى كو دو ہزار افراد كے ساتھ ان كا مقابلہ كرنے كے لئے روانہ كيا تيماء ميں دونوں حريف لشكر ايك دوسرے كے مقابل آگئے دونوں كے درميان سخت معركہ ہوا جس كے باعث شامى لشكر كا فرماندار زخمى ہوا اور مسعدہ راتوں رات شام كى جانب بھاگ گيا(6) وہ معاويہ كى فوج كا فرماندار تھا وہ كچھ عرصہ تك محافظين شہر دمشق كا صدر امين رہا اور بعد ميں كوفہ كى حكومت بھى اسے تفويض كى گئي اس نے معاويہ كے حكم پر تين ہزار سپاہيوں كو ساتھ ليكر سرزمين '' نعلبيہ'' (7)كى جانب رخ كيا اس كے گرد و نواح كے ان تمام قبائل كو اس نے اپنى غارتگرى كا نشانہ بنايا جو حضرت على (ع) كے مطيع و فرمانبردار تھے اس كے بعد وہ كوفہ كى جانب روانہ ہوا راستے ميں اسے قطقطانہ (8) نامى علاقے ميں عمربن عميس سے سامنا ہوا وہ زيارت حج بيت اللہ كيلئے تشريف لے جارہے تھے ضحاك بن قيس نے انھيں اور ان كے قافلے كو لوٹ ليا اور انھيں اپنے مقصد كى طرف جانے سے روكا( 9) حضرت على (ع) نے ان كا مقابلہ كرنے كے لئے حجربن عدى كو چار ہزار سپاہيوں كے ہمراہ ان كے راستے پر روانہ كيا حجر كا ضحاك سے ''تدمر'' (10) نامى مقام پر مقابلہ ہوا جس ميں سپاہ كے اُنيس سپاہى مارے گئے اس كے بعد ان كى سپاہ فرار كر كے شام كى جانب چلى گئي_ (12) |
صرف جنگجو لوگوں سے ہى جنگ كرنا تم كو چاھے مجبورا پيدل سفر طے كرنا پڑے مگر عوام كے چوپايوں پر ہرگز نظر مت ركھنا جب تك كنوؤں اور چشموں كے مالك اجازت نہ دے ديں تم راستے ميں كسى كنويں اور چشمے كا پانى استعمال نہ كرنا كسى مسلمان كو فحش بات نہ كہنا جس سے تمہارا عہد و پيمان ہوجائے اس كے ساتھ عہد شكنى كر كے ظلم نہ كرنا اور ذرہ برابر خون نا حق نہ بہانا_ (15) جب ہم ان دو متضاد روشوں كا باہمى مقابلہ كرتے ہيں تو ديكھتے ہيں كہ ان ميں سے پہلى قتل و غارتگرى پر مبنى ہے اگر چہ يہ حكمت عملى بظاہر لوگوں كے مال و حقوق كا احترام كرتى ہے مگر چونكہ پہلا راستہ جس راہ سے گزر كر منزل مقصود تك پہنچتا ہے وہ اصول و ضوابط كے كسى دائرے ميں نہيں آتا اسى لئے وہ شرعى اور قانونى قواعد كى پابندى بھى نہى كرتا اس كے برعكس قانونى حدود اور انسانى قدريں دوسرے گروہ كى راہ ميں چونكہ مانع و حايل ہوتى ہيں اسى لئے وہ اسے ہرناجائز و ناروا كام كو انجام دينے سے روكتى ہيں_ حق گوئي اور عدل پسندى جيسى خصوصيات كى پابنديوں كے باعث حضرت على (ع) كى سپاہ كے دنيا پرست افراد نے جہاد جيسے مقدس فرض كو انجام دينے ميںسستى و سہل انگارى سے كام ليا كيونكہ وہ اپنے سامنے ايسى جنگ ديكھتے تھے جس كا اجر اس دنيا ميں ان كے لئے موت كے سوا كچھ نہ تھا اگر وہ جنگ ميں كامياب ہوتے تو دشمن كے مال پر قبضہ نہيں كرسكتے تھے وہ كسى دشمن كو نہ تو اپنى مرضى سے قتل كرسكتے تھے اور نہ ہى اس كے بيوى بچوں كو اپنى قيد ميں ركھ سكتے تھے جب يہ شرائط و پابندياں عائد ہوں تو جنگ كس لئے كريں؟ جنگ كے محركات احكام خداوندى كى پابندى اور انسانى فضائل پيش نظر ركھے جاتے تو ان كيلئے جنگ كرنا امر لاحاصل تھا اس كے برعكس اہل شام معاويہ كى ايك آواز پر فورا لبيك كہتے كيونكہ جنگ سے ان كے تمام حيوانى جبلتوں كو آسودگى ملتى جسے بھى وہ چاہتے قتل كرتے، كنيز و غلام بنا ليتے قتل و غارتگرى ہى ان كى آمدنى كا ذريعہ و وسيلہ تھا بالخصوص اہل شام ميں ان لوگوں كے جن كى تربيت اسلامى اصول كے مطابق نہيں ہوئي تھى حضرت على (ع) نے كوفہ كے لوگوں سے خطاب كرتے ہوئے اس كى جانب اشارہ كرتے ہوئے فرمايا |
تھا كہ جس چيز سے تمہارى اصلاح ہوتى ہے اور جو چيز تمہارى كجى كو درست كرتى ہے ميں اس سے واقف ہوں ليكن تمہارى اس اصلاح كو اپنے ضمير كى آواز كے خلاف ميں اور ناجائز سمجھتا ہوں(16) اميرالمومنين حضرت على (ع) كى ريا كار سياست مندوں كى راہ و ورش اختيار كرنے كے بجائے ہميشہ يہ كوشش رہى كہ عراق كے عوام كى اصلاح كے ذريعے عام لوگوں كے ضمير ميں اپنے جذبے كو بيدار كرتے رہيں نيز اسلامى معاشرے كى كمزورى اور دشمن كى طاقت كے عوامل كى جانب توجہ دلا كر انھيں اصلاح نفس و تہذيب اخلاق كى تعليم ديں تا كہ ان كى كمزوريوں كو دور كر كے انھيں دعوت حق قبول كرنے كى اصلاح دى جاسكے_ حضرت على (ع) كے خطبات و ہمدردانہ نصائح ميں وہ تمام انسانى محركات اور مادى و معنوى پہلو موجود ہيں جن ميں عراق كے عوام كى فلاح و بہبود مضمر تھى چانچہ ہر درد و غم اور ہر كمزورى و ناتوانى كاعلاج ان پر كاربند رہ كر ہى كيا جاسكتا تھا اور اسى ميں ان كى فلاح و بہبود پنہاں تھى _ كوئي بھى فرد بشر وہ علم و اقتدار كے اعتبار سے خواہ كسى بھى مقام و منزلت پر ہو حضرت على (ع) جيسى بصيرت نظر كے ساتھ اس كيفيت كو بيان نہيں كر سكتا تھا جو اس وقت عراق و شام پر مسلط و حكم فرما تھى اپنے رہبر كے حكم سے روگرداں ہو كر او رجہاد جيسے مقدم فرض سے كنارہ كشى كر كے عراق كے لوگوں كى كيا سرنوشت ہوسكتى تھى اسے حضرت على (ع) سے بہتر كوئي دوسرا شخص بيان نہيں كرسكتا تھا اس كے ساتھ ہى آپ(ع) نے بہترين دستور عمل پر كاربند رہنے كى ہدايت فرمائي تھى جس سے ان كى حالت فلاح و بہبود پاسكتى تھي_ ليكن عراق كے عوام آپ(ع) كى نظر ميں ان سے كہيں بدتر تھے جنہيں معاويہ جنگ و پيكار كے لئے بھيجا كرتا تھا كيونكہ وہ دوستى كا لبادہ پہن كر آپ(ع) كے پرچم كے نيچے جمع ہوتے اور ہوا خواہى و طرفدارى كا دم بھرتے ليكن اس كے ساتھ اس جنگ ميں جو اہل شام كى طرف سے شروع كى جاتى وہ دفاعى اقدام نہ كرتے وہ ہر لمحہ و لحظہ كوئي نہ كوئي بہانہ تراشتے رہتے كبھى كہتے كہ |
موسم بہت گرم ہے اتنى تو مہلت ديجئے كہ دن كى تمازت ذرا كم ہوجائے اور كبھى يہ كہنے لگتے كہ موسم بہت سرد ہے اس وقت تك كے لئے صبر كيجئے كہ موسم معتدل ہوجائے_(17) جب حضرت على (ع) انھيں يہ كہہ كر لا جواب كرديتے كہ سردى و گرمى تو تمہارے لئے ايك بہانہ ہے خدا كى قسم تم اس قدر كاہل و بزدل ہوچكے ہو كہ اگر تلوار تمہارے روبرو آجائے تو اسے ديكھ كر فرار كرجاؤ گے اس پر وہ كہتے كہ ہم اس صورت ميں ہى ميدان كار زار كى طرف جاسكتے ہيں كہ جنگ ميں آپ بھى ہمارے ساتھ شريك ہوں _ ان كى يہ شرائط اس وضع ميں تھى جب كہ مركزى حكومت كو حضرت على (ع) كى سخت ضرورت تھى ا س پر حضرت على (ع) فرماتے كيا ان حالات كے تحت ميرے لئے ميدان جنگ كى جانب روانہ ہونا مناسب ہے تمہارى يہى شرط كافى ہے كہ ميں اپنے ايك دلاور اور قابل اعتماد فرماندار كا انتخاب كروں اور اس كے ہمراہ تمہيں جنگ پر روانہ كروں (18) حضرت على (ع) كے دست مبارك ميں جب تك عنان حكومت رہى آپ كا كوئي بھى وقت ايسانہ گذرا جس ميں آپ نے عوام كى راہنمائي نہ فرمائي ہو وہ اپنے تجربيات اور علوم باطنى كے ذريعے ان پر وہ چيزيں كشف و عياں كرتے جن ميں ان كى فلاح و بہبود مضمر تھى اور انہى سے ان كى حالت بہتر ہوسكتى تھى چنانچہ ايك مرتبہ آپ(ع) نے خود فرمايا تھا: كہ ميں نے تمہارے ساتھ رہ كر تمہارى ہمنشينى و ہمدمى كو زيبائي اور خوبصورتى بخشى اور ميرى ہميشہ يہى كوشش رہى كہ جس قدر ممكن ہوسكے تمہيں ذلت و خوارى كے حلقے اور جور و ستم كى بندشوں سے آزاد كروا دوں_ (19) ليكن افسوس كہ حضرت على (ع) نے اصلاح كى جو بھى ہمدردانہ سعى و كوشش كى اس كا اثر ان كے تھكے ہوئے جسموں پر اور خستہ و كوفتہ دل و دماغ پر اس حد تك نہ ہو سكا جس قدر آپ(ع) چاہتے تھے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ انہوں نے خود كا غارتگر شاميوں كے حوالے كرديا تا كہ جب بھى چاہيں اور جس طرح بھى چاہيں ان كے جان و مال كو نذر آتش كرديں_ |
فتنہ خريتخوارج كے تباہ كن و خطرناك عقائد ان لوگوں كے دلوں ميں جو ذہنى طور پر فرسودہ و ناكارہ ہوچكے تھے اور اس كج رفتارى كيلئے آمادہ تھے بتدريج قوت پانے لگے اور ان كى وجہ سے اسلامى معاشرے كے لئے وہ نئي مشكل پيدا ہوگئي جس كا ذكر ذيل ميں آئے گا_ '' خريت بن راشد'' (21) بہت سرسخت خوارج ميں سے تھا جب حكميت كے نتيجے كا اعلان كيا گيا تو وہ اپنے حواريوں كوساتھ لے كر حضرت على (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوا اور كہنے لگا كہ اس كے بعد مجھ سے آپ(ع) كى اطاعت و فرمانبردارى نہ ہوسكے گى ميں آپ(ع) كے پيچھے نماز بھى ادانہ كروں گا ... اور كل ميں آپ سے عليحدہ ہوجاؤں گا _ اپنے اس فيصلے كا محرك وہ مسئلہ حكميت كو سمجھتا تھا حضرت على (ع) نے اس كو جواب دينے ميں نرم رويہ اختيار كيا اور اسے پند و نصيحت كرنے كے بعد فرمايا : كہ وہ حكميت كے بارے ميں چاہيں تو بحث و گفتگو كرسكتے ہيں اس وقت تو اس نے گفتگو كرنا مناسب نہ سمجھاالبتہ اگلے دن كا وعدہ كر كے چلا گيا مگر رات كے وقت وہ اپنے حواريوں كو ساتھ لے كر فرار كرگيا_ اور ديگر خوارج كى طرح دہشت پسندى اور غارتگرى شروع كردى چنانچہ راہ ميں اسے جتنے بھى كينہ پرور و عناد پسند لوگ ملے وہ اس كے ہمراہ ہوگئے وہ مدائن پہنچ گيا_ اميرالمومنين حضرت على (ع) '' زياد بن خصفہ'' كو ان كا تعاقب كرنے كے لئے روانہ كيا اور مختلف شہروں ميں اپنے كار پردازوں كو بھى لكھا تا كہ وہ ان علاقوں ميں جو ان كے زير فرمان ہيں ان كى تلاش و جستجو كے لئے اپنے كارندے مقرر كريں اور اس كے نتائج سے آپ كو مطلع و باخبر كرتے رہيں(22)_ حضرت على (ع) كے ''قرظہ بن كعب نامى '' كارپرداز نے اسے اپنى حراست ميں لے ليا اور اس واقعے كى حضرت على (ع) كو اطلاع كى حضرت على (ع) نے زياد كو اس بارے ميں مطلع كيا اور حكم ديا كہ اسے ميرے پاس روانہ كردو اگر وہ آنے سے انكار كرے تو ان كے ساتھ جنگ كرو كيونكہ اس نے نيز |
اس كے حواريوں نے حق كو پس پشت ڈال كر لوگوں كا ناحق خون بہلايا ہے اور راستوں ميں بد امنى پھيلا ركھى ہے_(23) زياد ا ور خريت ايك دوسرے كے مقابل آئے دونوں كے درميان گفتگو اور سوال و جواب ہوئے خريت اپنے عقيدے ميں پابر جاتھا دونوں كے درميان سخت جنگ ہوئي اور ان كے بيشتر افراد كارى زخموں كے باعث مجروح ہوئے جب رات ہوگئي تو خريت فرار كر كے اہواز كى سمت چلاگيا اور زيادہ واپس بصرہ تشريف لے آئے_ اہواز ميں بہت سے راہزن ، اس كے ہم عقيدہ عرب اور سطحى مسلمان جو اس كى تحريك كو دين پر ضرب لگانے، خراج ادا نہ كرنے اور قانون كى ہر قيد و بند سے خارج ہونے كا ذريعہ و وسيلہ سمجھتے تھے اس كے گرد جمع ہوگئے_ حضرت على (ع) كو جب ان واقعات كى اطلاع ملى تو آپ (ع) نے '' معقل بن قيس '' كو ايك ہزار افراد كے ہمراہ جنگ كرنے كے لئے بھيجا آپ (ع) نے صوبہ دار بصرہ حضرت عبداللہ بن عباس كو بھى لكھا كو دو ہزار افراد كے ساتھ كسى دلير و بہادر نيز راستباز شخص كو روانہ كريں تا كہ وہ حضرت معقل كے ساتھ مل كر جنگ كر سكے اس كے ساتھ ہى آپ (ع) نے زياد اور ان كے ہم قبيلہ لوگوں كى تعريف و توصيف كرتے ہوئے انھيں واپس آنے كے لئے حكم صادر كيا(24)_ حضرت ابن عباس نے حضرت خالد بن معدان طائي كو دوہزار افراد كے ہمراہ روانہ كيا خريت كا تعاقب كرنے كے لئے حضرت معقل اہواز پہنچ كر اترے اس وقت خوارج وسيع دشت سے گذر كر كوہ رامہرمز كى بلنديوں كى جانب جانے كى كوشش و فكر ميں تھے تا كہ تعاقب كرنے والى جماعت كى نسبت وہ بہتر اور زيادہ مستحكم جگہ پر قيام كرسكيں ليكن معقل نے انھيں اچانك بے خبر نرغے ميں لے ليا اور ابھى وہ پہاڑ كے دامن سے اوپر نہيں گئے تھے كہ ان پر حملہ كرديا خونريز جنگ ، قبيلہ بنى ناجيہ كے تين سو ستر افراد كے قتل اور ان كے بے دين ساتھى كى كشت و كشتار( جن ميں كچھ عرب، بے دين اور بعض كر دشامل تھے) كے بعد خريت كيلئے فرار كے علاوہ كوئي چارہ باقى نہ رہ گيا |
اس فيصلے كے بعد آپ نے حضرت معقل بن قيس كو سَواد (27) كوفہ (28) كى جانب روانہ كيا تا كہ لوگوں كو جنگ ميں شريك ہونے كى دعوت دے سكيں_ آپ(ع) نے والى آذربائيجان قيس بن سعد كو بھى خط لكھا جس ميں مرقوم فرمايا كہ وہ لوگوں كو شام كى جانب روانہ ہونے كيلئے آمادہ اور نظرياتى اعتبار سے ان ميں وحدت يكجہتى كرے (29) اس كے علاوہ حضرت على (ع) نے خود بھى كوفہ كے لوگوں كو آمادہ كرنے كے لئے مفصل تقرير كى جس ميں آپ (ع) نے فرمايا كہ اے ا للہ كے بندو گذشتہ اقوام كى تاريخ پر غور و فكر كرنا تمہارے لئے بيش قيمت درس عبرت ہے كہاں ہيں وہ بادشاہوں كے غول اور ان كے وارثين سلطنت كہاں ہيں فراعنہ اور ان كے جانشين ؟ كدھر گئے وہ خاندان رس كے مدنى فرمانروا جن سب نے پيغمبروں كو تہ تيغ، سنت كے روشن چراغوں كو خاموش اور ستمگروں كى راہ و روش كو زندہ كيا تھا كہاں گئے وہ فرمانروا جو عظيم لشكر لے كر روانہ ہوئے اور جنہوں نے ہزاروں بلكہ لاكھوں كى سپاہ كو شكست دى كدھر جاچھپى فاتحين كى وہ فوج كثير تعداد جو يكجا جمع ہوئي اور جس نے نئے شہروں كى بنياد ركھي؟ ...خدا كے برگزيدہ و نيك بندے سفر پرجانے كے لئے كمربستہ ہوگئے انہوں نے دنيا كا فانى و بے ثبات چند روزہ چيزوں كا سودا آخرت كى جاودانى زندگى سے كيا سچ تو يہ ہے كہ ہمارے وہ بھائي جنہوں نے جنگ صفين ميں اپنا خون بہايا تھا اگر آج اس دنيا ميں نہيں ہيں تو انہوں نے كون سا خسارہ برداشت كيا؟ كہاں ہيں وہ ميرے بھائي جنہوں نے جہاد كى راہ اختيار كى اور جادہ حق طے كيا كہاں ہيں عماريا كہاں گئے ابن تيہان ذوالشہادتين ؟اور كدھر گئے ان جيسے دوسرے لوگ جنہوں نے موت سے عہد و پيمان كيا اور شرپسندوں كے ہاتھوں اپنے سر قلم كرائے اس كے بعد آپ(ع) نے ريش مبارك پر اپنے ہاتھ ركھے اور كافى دير تك گريہ و زارى كرتے رہے _اس كے بعد فرمايا: كہ افسوس افسوس كہاں گئے وہ ميرے بھائي جنہوں نے قرآن پاك كى تلاوت كى اور زندگى ميں اسے اپنا حاكم بنايا اپنے فرائض كے پابند رہے اور ہميشہ انھيں پورا كيا انہوں نے سنت نبوى كو زندہ |
كنى كرديں_ ان ميں سے تين افراد نے اس مقصد كے لئے اپنى زندگى داؤ پر لگادى _ تا كہ تينوں مذكورہ حضرات كى زندگى كو ختم كرديں حضرت على (ع) كو قتل كرنے كا ذمہ عبدالرحمن ابن ملجم نامى نے ليا انہوں نے اس سازش كى تكميل كے لئے باہمى عہد و پيمان كئے اور يہ فيصلہ كيا كہ بتاريخ 19 ماہ رمضان 40 ھ صبح كے وقت وہ اپنى دہشت پسندانہ كاروائي پر عمل در آمد كريں گے اس كے بعد وہ ايك دوسرے سے جداہوگئے_ ابن ملجم كوفہ ميں داخل ہوا اور اپنى چچازاد بہن قَطَام كے گھر پہنچا وہ اس كے ساتھ پہلے بھى چونكہ معاشقہ كرچكا تھا اسى لئے اب اسے اپنى شادى كرنے كا پيغام ديا قَطَام خود خوارج ميں سے تھى اس كے بھائي اور باپ كا قتل جنگ نہروان ميں ہوچكا تھا اسى لئے اس كے دل ميں حضرت على (ع) كے خلاف سخت عداوت و دشمنى تھى اس نے كہا كہ ميں اس شرط پرشادى قبول كرسكتى ہوں كہ ايك كنيز و غلام اور تين ہزار درہم نقد دينے كے علاوہ تو على (ع) كو قتل كردے اگر تو اس مقصد ميں كامياب ہوگيا تو تو ميرے كليجے كو ٹھنڈا كرے گا اور مجھ سے داد مراد پائے گا اور اگر كہيں تو خود مارا گيا تو تجھے دنيوى نعمتوں سے كہيں زيادہ عظيم اس كااجر و ثواب ملے گا _ ابن ملجم نے جب ديكھا كہ يہ عورت اس كام كے لئے بہت زيادہ اصرار كررہى ہے تو اس نے بتاديا كہ ميں يہى ناپاك ارادہ لے كر كوفہ سے آيا ہوں_ (32) ابن ملجم نے شبيب بن بجرہ نامى دوسرے شخص سے جو خود بھى خوارج ميں سے تھا اس كام ميں مدد لى قطام نے و ردان بن مجالد كو بھى اس كے ساتھ كرديا تا كہ وہ بھى اس كام ميں اس كا مدد گار ہوسكے اس نے '' اشعث بن قيس'' كو بھى اپنا راز دار بناليا اس شخض نے بھى اس كام كو تمام كرنے كے لئے اس كى حوصلہ افزائي كي(33) |
آپ(ع) نماز ادا كرنے كيلئے كھڑے ہوئے اور قلب و زبان كو ذكر خدا ميں مشغول كرديا_ اس وقت شبيب نے چاہا كہ آپ (ع) پر تلوار سے وار كرے مگر اس كى تلوار محراب مسجد نے ٹكرا كر رہ گئي ابن ملجم تباہ كار جلدى سے آگے آيا اس نے اپنى تلوار اوپر اٹھائي اور باواز بلند كہا ''الحكم للہ لا لك يا على و لا لاصحابك'' يہ كہہ كر اس نے حضرت على (ع) كے سر مبارك پر اپنى تلوار اٹھائي جو ٹھيك اسى جگہ لگى جہاں جنگ خندق ميں ''عمرو بن عبدود'' (37)كى تلوار آپ كے سرمبارك پر لگ چكى تھى حق و عدل كا وہ پيكر جو صريح و واضح كفر اور الحاد كے ضربات سے زمين پر نہيں گرسكا تھا آج نفاق اور جہل و تعصب آميز ظاہرى تقدس كے ايك ہى وار سے خاك و خون ميں لوٹنے لگا حضرت على (ع) نے جيسے ہى ضرب شمشير كو محسوس كيا فرمايا: '' فزت و رب الكعبہ'' (38) قسم كعبہ كے خدا كى آج ميں نے كاميابى حاصل كي_ آپ (ع) كے فرزندوں اور اصحاب پر تو گويا غم و اندوہ كا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہر طرف سے گريہ و نالہ اور آہ و بكا كى صدائيں سنائي دينے لگيں لوگ سراسيمگى كى حالت ميں مسجد كى جانب دوڑے_ حضرت على (ع) كا سرمبارك حضرت امام حسن (ع) كى آغوش ميں تھا جس سے مسلسل خون جارى تھا زخم كى شدت اور بہت زيادہ خون بہہ جانے كى وجہ سے آپ (ع) اب تك بے ہوشى كى حالت ميں تھے ابن ملجم بھى پكڑا گيا اور اسے حضرت امام حسن (ع) كى خدمت ميں پيش كيا گيا حضرت مجتبى (ع) نے اس سے فرمايا اے ملعون تو نے پيشوائے مسلمين حضرت على (ع) كو قتل كرديا كيا نيكى اور خير خواہى كا بدلہ يہى ہے تو وہى شخص ہے جسے خليفہ وقت نے پناہ دى اور اپنا مقرب بنايا؟ اس كے بعد آپ (ع) نے والد محترم كى خدمت ميں عرض كيا بابا جان يہ آپ كا اور خدا كا دشمن بحمداللہ گرفتار كرليا گيا ہے وہ اس وقت آپ كے روبرو حاضر ہے_ حضرت على (ع) نے چشم مبارك كو كھولا اور فرمايا كہ تو بہت عظيم سانحہ كا مرتكب ہوا ہے اور تو نے نہايت ہى خطرناك كام كيا ہے كيا ميں تيرے لئے برا امام ثابت ہوا؟ ايسى كون سى مہربانى اور بخشش تھى جو ميں نے تيرے حق ميں روانہ ركھى كيا لطف و مہربانى كا يہى بدلہ وصلہ ہے؟ |
اس كے بعد آپ(ع) نے حضرت امام حسن (ع) سے فرمايا كہ اے فرزند عزيز اپنے اس قيدى كے ساتھ خاطر و مدارات كا سلوك كرنا اور اس كے ساتھ مہربانى و نوازش سے پيش آنا_ جو كچھ تم كھاؤ اور پيو وہى تم اسے كھلانا اور پلانا اگر ميں مرجاؤں توميرے خون كے قصاص ميں اسے قتل كردينا مگر اس كے ناك، كان نہ كاٹنا كيونكہ ميں نے پيغمبر اكرم(ص) كى زبان مبارك سے سنا ہے كہ اس كتے كے بھى ناك كان نہ كاٹو جس نے تمہيں كاٹا ہے اور اگر ميں بچ گيا تو ميں ہى جانتا ہوں كہ اس كے ساتھ كيا سلوك كروں گا اسے معاف كردينے ميں مجھے سب پر فضيلت حاصل ہے كيونكہ ہمارا خاندان وہ خاندان ہے جس نے بڑے بڑے گناہگاروں كو معاف كيا اور ان كے ساتھ ہم بزرگوارى كے ساتھ پيش آتے ہيں (39) حضرت امام حسن (ع) اپنے والد بزرگوار كو گھر لے آئے لوگ گريہ و نالہ كرتے اور آپ سے رخصت ہوتے عجب كہرام كا عالم تھا لگتا تھا كہ غمگساروں كى جان كھينچ كرلبوں پر آگئي ہے_ حضرت امام مجتبى (ع) نے بعض اطبا كو جن ميں اثير بن عمرو سكونى سب سے زيادہ ماہر و حازق طبيب تھے علاج كے لئے بلايا انہوں نے كہا كہ بھيڑ كا تازہ جگر لاؤ اس كى ايك رگ انہوں نے حضرت على (ع) كے زخم كے اندر ركھى اور اسے باہر نكال ليا انہوں نے ديكھا كہ مغز كى سفيدى اس رگ پر لگ گئي ہے اور دم شمشير كى ضرب نے دماغ تك اثر كيا ہے يہ ديكھ كر اس طبيب نے كہا '' يا اميرالمومنين اگر كوئي وصيت كرنا چاہيں تو كرديجئے''(40) اميرالمومنين حضرت على (ع) نے اپنے فرزندوں كو اخلاق حسنہ كى وصيت فرمائي اپنى زندگى كے قابل قدر و قيمت درس انھيں اور تمام مسلمين كو ديئے _ امور خلافت اپنے فرزند محترم امام حسن (ع) كو تفويض كيئے اور اس كا گواہ اپنے فرزندوں اور بزرگان خاندان كو بنايا كلام مجيد اور اپنا اسلحہ آپ كى تحويل ميں ديا_ جب حضرت على (ع) اپنے فرزندوں كو پند ونصائح كرچكے تو آپ(ع) نے موت كى علامات محسوس كيں اس كے بعد آپ قرآن پاك كى تلاوت ميں مشغول ہوگئے آخرى آيت جوآپ كى |
زبان مبارك پر آئي وہ يہ تھي_ فمن يعمل مثقال ذرة خير ايرہ و من يعمل مثقال ذرة شر ايرہ (41) (پھر جس نے ذرہ برابر نيكى كى ہوگى وہ اس كو ديكھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدى كى ہوگى وہ اس كو ديكھ لے گا ) بتاريخ 21 رمضان 40 ھ اس وقت جب كہ آپ كاسن شريف تريسٹھ برس كا تھا آپ كى روح مقدس و مطہر اس جہان فانى سے پرواز كر كے عالم جاودانى كى جانب عروج كرگئي_ حضرت امام حسن (ع) نے اپنے ديگر بھائيوں اور حضرت على (ع) كے اصحاب كى مدد سے اپنے شہيد والد محترم كى تجہيز كا انتظام كيا غسل و كفن كے بعد جب كچھ رات گذر گئي تو اس پيكر مقدس كو كوفہ سے باہر لے آئے تمام راستہ جنازے كے پيچھے رہ كر طے كيا اور جنازہ اس جگہ لايا گيا جو آج نجف اشرف كے نام سے مشہور و معروف ہے نماز جنازہ ادا كرنے كے بعد انتہايى خاموشى كے ساتھ اس پيكر تقدس كو سپرد خاك كرديا( 42) سلام عليہ يوم ولد و يوم استشہد و يوم يبعث حيا سلام ہو آپ پر جس دن آپ كى ولادت ہوئي اور جس دن شہيد كئے گئے اور جس دن زندہ اٹھائے جائيں گے_) |
سوالات1_ معاويہ نے كن محركات كے تحت دہشت پسند دستے ان مناطق ميں بھيجے جہاں حضرت على (ع) كى حكومت تھي؟ 2_ بسر بن ارطاہ نے جو قتل و غارتگرى كى اس كى كچھ مثاليں بيان كيجئے ان كے تجاوز كارانہ اقدام كا حضرت على (ع) كى جانب سے كيا رو عمل ہوا؟ 3_ سپاہ عراق پر سپاہ شام كى كاميابى كے كيا عوامل تھے؟ نہج البلاغہ ميں بيان كئے گئے حضرت على (ع) كے اقوال كى روشنى ميں اس امر كى وضاحت كيجئے؟ 4_ معاويہ كے حملات اور تجاوز كارانہ اقدامات كا سد باب كرنے كيلئے حضرت على (ع) كا آخرى فيصلہ كيا تھا؟ 5_ اميرالمومنين حضرت على (ع) كو قتل كرنے كے لئے خوارج نے كيا سازش كى اس اقدام ميں كون سے عوامل كار فرماتھے؟ 6_ حضرت على (ع) نے اپنے قاتل كے بارے ميں كيا ارشاد فرمايا؟ اور حضرت امام حسن (ع) كو اس سلسلے ميں كيا پند نصائح كيئے 7_ حضرت على (ع) كى شہادت كس تاريخ كو واقع ہوئي شہادت كے وقت آپ كا سن مبارك كتنا تھا؟ |
حوالہ جات1_ يہ كوفہ كے مغرب ميں شہر انباركے نزديك بستى تھى (معجم البلدان ج 4 پ 176 ) الغارات ج 2 /445 ، طبرى ج 5 / 133 ، كامل ابن اثير ج 3 / 475 ، شرح ابى الحديد ج 2 / 305 _ 301 2_ يہ شہر دريائے فرات كے كنارے بغداد اور انبار كے درميان واقع تھا(معجم البلدان 5/420) 3_ شرح ابن ابى الحديد ج 2 ص 85 ، كامل ابن اثير ج 3/376 و الغارات ج 2 /464 4_ نہج البلاغہ خ 27 5_ يہ بستى شام كے اطراف ميں شام اور وادى القرى كے درميان اس راستے پر واقع ہے جہاں سے شام و دمشق كے حجاج گذر كر مكہ پہنچتے تھے (معجم البلدان ج 2 /67) 6_ تاريخ طبرى ج 5/134 ، كامل ابن اثير ج 3/376 ، تاريخ يعقوبى ج 2/196 7_ يہ كوفہ كے راستے ميںايسى بستى تھى جہاں حجاج قيام كرتے تھے يہ خزيمہ سے پہلے اور شقوق كے بعد حجاج كى منزل گاہوں پر واقع تھي_ 8_ يہ جگہ كوفہ كے نزديك خشكى كى سمت واقع تھى سرزمين طف اور زندان نعمان بن منذر اسى جگہ تھى (معجم البلدان ج 4/374) 9_ تاريخ طبرى ج 5/135 ، ليكن ثقفى نے الغارات كتاب ج 3/422 ميں لكھا ہے كہ ضحاك بن قيس نے عمرو بن عميس نيز اس كے ساتھيوں كو قتل كرديا_ 10_ تدمر سرزمين شام كا قديم شہر تھا يہ جگہ شہر حلب سے پانچ دن كے سفر پر وقع تھى (معجم البلدان )_ 11_ تاريخ طبرى ج 5 /135 ، الغارات ج 2/425_ 12_ ملاحظہ ہو الغارات ج 2 /600، و ديگر بعد كے صفحات ، نيز شرح ابن ابى الحديد ج 2/17_7 و الغاتى 16/266_ 13_ نہح البلاغہ خ 25_ 14 شرح ابن ابى الحديد ج 2 / 16_ 15_ تاريخ يعقوبى ج 2 / 200_ |
16_ انى لعالم بما يصلحكم و يقم اودكم و لكنى لا ارى اصلاحكم بافساد نفسى نہج البلاغہ خ 69_ 17_ نہج البلاغہ خ 17_ 18_ نہج البلاغہ خ 119_ 19_ نہج البلاغہ خ 159_ 20_ ان كا ذكر سطور ذيل ميں آئے گا_ 21_ يہ حضرت جنگ جمل اور جنگ صفين ميں حضرت على (ع) كے ہمراہ تھے جنگ جمل ميں تو انہوں نے قبيلہ نصر كى فرماندارى كے فرائض بھى انجام دئے ليكن مسئلہ حكميت كے بعد حضرت على (ع) سے برگشتہ ہوگئے اور آپ(ع) كى مخالفت پر اتر آئے _ الغارات ج 1/333_ 332 _ 22_ الغارات ج 1 338_332_ 23_ الغارات ج 1 342/349_ 24_ الغارات ج 1/349_ 25_ الغارات جلد ،1 353_352_ كامل ابن اثير ج 3 / 368_367_ 26_ الغارات ج 1 /359_كامل ابن اثير 3/369_ 27_'' سواد كوفہ '' اطراف كوفہ ميں وہ جگہ تھى جہاں كھجور كے درخت اس كثرت سے تھے كہ دور سے وہ جگہ سياہ نظر آتى تھى اسى وجہ سے اسے سواد كہا جاتا تھا يہ جگہ طول ہيں موصل سے آبادان تك اور عرض ميں غريب سے علوان تك پھيلى ہوئي تھى (مجمع البحرين ج 3/72)_ 28_ الغارات ج 2 /782 ، تقيح المقال ما مقانى ج3/297 _ 29_ تاريخ يعقوبى ج 2 /203_ 30_ ملاحظہ ہو نہج البلاغہ كا خطبہ 182_ 31_ نہج البلاغہ خ 182 ، ومناقب ابن شہر آشوب ج 3 /194_ 32_ مروج الذہب ج 2/411 ، بحار ج 42/228، مقاتل الطالبين 18تاريخ طبرى ج 5/143_ |
33 _ حضرت امام جعفر صادق(ع) سے روايت ہے كہ حضرت على (ع) كے قتل ميں اشعث بن قيس شركت تھا اس كى بيٹى نے حضرت امام حسن (ع) كو زہر ديااس كابيٹا محمد بھى حضرت امام حسين(ع) كے قتل ميں شريك تھا بحار ج 42/226_ 34_ بحار ج 42/224 ، ارشاد مفيد 14_ 35_ و اللہ ما كذبت و لا كذبت انہا معى ليلة التى وعدت فيہا بحار ج 42/226 ، ارشاد 15 _ 36_ ذروہن فانہن نوائح بحار ج 42 /226 ، و ارشاد مفيد/15_ 37_ بحار ج 42/226 ، ارشاد ص 12_ 38_ مناقب ج 3/312 ، بحار ج 42/239_ 39_ بحار الانوار ج 42 /288_287_ 40_ مقاتل الطالبين 23_ 41_ سورہ زلزال آيہ 6_ 42_ بحارالانوار ج 42/294_ |
..............................................