اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

دہشت پسند اور غارتگر گروہ

337

دہشت پسند اور غارتگر گروہ

معاويہ كو اس اقتدار كے باوجود جو اس نے حاصل كيا تھا اور اس اثر و رسوخ كے بعد بھى جو س كا شام كے لوگوں پر ہوگيا تھا نيزہ سپاہ عراق ميں ہر طرح سے انتشار و پراگندگى پيدا كر كے بھى يہ اطمينان نہ تھا كہ اگر اميرالمومنين حضرت على (ع) كے مركز حكومت پر حملہ كرے گا تو وہ كامياب ہوجائے گا اس نے جنگ صفين كے دوران جو ہولناك مناظر اپنى آنكھوں سے ديكھے تھے اور حضرت على (ع) كى تلوار كے جن واروں كو اس نے سہاتھا وہ اس امر كے متقاضى نہ تھے كہ ايسا كوئي اقدام كرے_ اسے اب تك جو كاميابى نصيب ہوئي تھى وہ سب حيلہ و نيرنگ كا نتيجہ تھى چنانچہ اس كے ساتھيوں نے جب بھى يہ تجوير پيش كى كہ كوفہ پر حملہ كيا جائے تو اس نے اس كا جواب نفى ہى ميں ديا اس ضمن ميں اس نے كہا كہ عراق كے لوگوں كو شكست دينے اور پراگندہ فوجى دستے عراق كے مختلف علاقوں ميں سركشى و غارت گرى كرتے رہيں كيونكہ يہى ايسا طريقہ ہے جس كے ذريعے ہمارے حامى و طرفدار بتدريج طاقت ور ہوتے چلے جائيں گے اور عراق كا محاذ شكست و ريخت اور خوف و خطر ميں مبتلا رہے گا جب عراق كے اشراف و سربرآوردہ لوگ يہ كيفيت ديكھيں گے تو وہ خود ہى على (ع) كا ساتھ چھوڑ كر ہماى طرف آنے لگيں گے_

اس فيصلے كے بعد اس نے نعمان بن بشير، سفيان بن عوف، عبداللہ بن مَسعَدہ اور ضحاك بن قيس جيسے فرمانداروں كى زير قيادت سپاہ كے دستے منظم كئے اور انھيں عراق كے مختلف علاقوں ميں روانہ كيا تا كہ اس فرمان كو جس ميں مسلمانوں كے لئے تباہى و بربادى اور خوف و دہشت كے عناصر شامل تھے جارى و سارى كرسكے_

يہاں ہم ان ہلاكت بار تجاوزات كى درد انگيز داستان بيان كرنے كے ساتھ ہى ان افراد كا

 

338

مختصر تعارف كرائيں گے جو ان دستوں كے سرغنہ و سردار تھے_

1_ نعمان بن بشير

وہ انصار اور طائفہ خزرج ميں سے تھا عثمان كے زمانے ميں جو شورشيں ہوئيں ان ميں اس نے خليفہ وقت كا ساتھ ديا_

عثمان كے قتل كے بعد ان كا خون آلودہ كرتا وہ ملك شام لے كرگيا اور معاويہ كو پيش كيا اور يہيں سے وہ معاويہ كا حامى و طرفدار ہوا معاويہ كى طرف سے كچھ عرصہ حاكم كوفہ بھى رہا اور اس كے بعد اسے '' حمص'' كا حاكم مقرر كيا گيا _

معاويہ نے اسے 39 ھ ميں دوہزار افراد كے ساتھ '' عين التمر'' (1)كى جانب روانہ كيا اميرالمومنين حضرت على (ع) كے فوجى محافظ دستے پر جو تقريبا سو افراد پر مشتمل تھا اس نے حملہ كيا ليكن دلاور مدافعين نے اپنى تلواروں كى نيا ميں توڑ كر پورى پا مردى و جانبازى سے دفاعى مقابلہ كيا اس عرصے ميں تقريبا پچاس افراد ان كى مدد كے لئے وہاں آن پہنچے نعمان كے سپاہيوں كو يہ گمان گذرا كہ مدافعين كے پاس مدد كے لئے جو لشكر پہنچا ہے اس كى تعداد بہت زيادہ ہے چنانچہ راتوں رات وہ اس جگہ سے بھاگ نكلے اور شام كى جانب رخ كيا_

2_ سفيان بن عوف

اسے معاويہ كى طرف سے اس مقصد كے تحت مقرر كيا گيا تھا كہ عراق كے بعض مقامات پر حملہ كريں معاويہ نے رخصت كرتے وقت اسے يہ تاكيد كى تھى كہ :

تمہارے سامنے كوئي بھى ايسا شخص آئے جو تم سے متفق و ہم خيال نہ ہوا سے بے دريغ قتل كردينا تمہارے راستے ميں جو بھى بستياں آئيں انھيں ويران كرتے چلے جانا لوگوں كے مال و متاع كو لوٹ لينا كيونكہ لوٹ مار بھى قتل كرنے كے برابر ہى ہے بلكہ بعض اوقات غارتگرى قتل سے زيادہ جانگداز و مہلك ثابت ہوتى ہے_

چلتے وقت اسے يہ ہدايت بھى كى كہ پہلے شہر '' ہيت'' (2) پر حملہ كرنا اس كے بعدانبار اور

 

339

مدائن كے شہروں پر قبضہ كرنا سفيان بن عوف چھ ہزار سپاہيوں كو ساتھ لے كر روانہ ہوا جب شہر ہيت ميں اسے كوئي نظر نہ آيا تو اس نے شہر انبار پريورش كى محافظين شہر كو كثير تعداد ميں قتل كرنے كے بعد اس نے شہر ميں كشت و كشتار اور غارتگرى كا بازار گرم كيا اور بہت ساماں جمع كر كے وہ شام كى طرف واپس آگيا_ (3)

اميرالمومنين حضرت على (ع) كو جب اس واقعے كى اطلاع ملى تو آپ (ع) نے جہاد كى فضيلت كے بارے ميں مفصل تقرير كى اور بتايا كہ جو لوگ اس اسلامى فرض سے روگردانى كرتے ہيں وہ كيسے ناگوار نتائج سے دوچار ہوتے ہيں اس ضمن ميں آپ (ع) نے فرماياكہ : ميں شب و روز پنہاں و آشكارا تمہيں اس گروہ سے بر سر پيكار ہونے كى دعوت ديتا رہا ميں نے تمہيں يہ ہدايت كى كہ اس سے پہلے وہ تمہارے ساتھ نبرد آزما ہوں تم ہى ان پر وار كردو ... ليكن تم نے سستى سے كام لياور فرض جہاد كو ايك دوسرے پر ٹالتے رہے چنانچہ نوبت يہاں تك آن پہنچى كہ تم پر ہر طرف سے پے در پے حملے كئے جانے لگے تمہيں غارتگرى كا نشانہ بنايا جانے لگا اور اب تمہارى زمين و جائيداد كے مالك دوسرے لوگ ہوئے ہيں يہ شخص جس نے اپنى سپاہ كو ساتھ لے كر شہر انبار پر حملہ كيا '' غامد'' قبيلے كا ہے اس نے فرماندار شہر حسان بن حسان بكرى كو قتل كيا اور تمہارى سپاہ كو اس نے ان كى عسكر گاہوں سے باہر نكل ديا ہے_

مجھے يہ اطلاع ملى ہے كہ ان ميں سے ايك شخص ايك مسلم خاتون اور اس اہل كتاب عورت كے گھر ميں جو مسلمانوں كى زير حمايت زندگى بسر كرتى تھى داخل ہوا اور ان كے زيورات ان كے جسموں پر سے اس نے اتار لئے اس كے بعد بہت سال غنيمت جمع كر كے وہ اور اس كے ساتھى واپس چلے گئے _ ديكھنے كى بات يہ ہے كہ ان غارتگروں ميں سے نہ تو كوئي زخمى ہوا اور نہ ہى كسى كے خون كا قطرہ زمين پر گرا ا س واقعے كے بعد اگر ايك سچا مسلمان غم و افسوس كے باعث مرجائے يا ڈوب مرے تو بجا ہوگا اور وہ قابل سرزنش بھى قرار نہ ديا جائيگا_ (4)

 

340

3_ عبداللہ بن مسعدہ

ابتدا ميں وہ حضرت على (ع) كے حامى و طرفداروں ميں سے تھا ليكن دنيا پرستى كے باعث كچھ عرصہ بعد معاويہ كے ساتھ جاملا اور اس كا شمار حضرت على (ع) كے سخت ترين دشمنوں ميں كيا جانے لگا_

معاويہ نے اسے سترہ سو افراد كے ساتھ '' تيمائ'' (5)كى جانب روانہ كيا اور يہ حكم ديا كہ جس بستى ميں سے بھى گذرنا اس سے زكات كا مطالبہ كرنا اور جو شخص ادا كرنے سے منع كرے اسے قتل كرڈالنا _عبداللہ مكہ اور مدينہ كے شہروں سے گذرا جب حضرت على (ع) كو اس كى روانگى كى اطلاع ملى تو آپ(ع) نے مسيب بن نجبہ فزارى كو دو ہزار افراد كے ساتھ ان كا مقابلہ كرنے كے لئے روانہ كيا تيماء ميں دونوں حريف لشكر ايك دوسرے كے مقابل آگئے دونوں كے درميان سخت معركہ ہوا جس كے باعث شامى لشكر كا فرماندار زخمى ہوا اور مسعدہ راتوں رات شام كى جانب بھاگ گيا(6)

4_ ضحاك بن قيس

وہ معاويہ كى فوج كا فرماندار تھا وہ كچھ عرصہ تك محافظين شہر دمشق كا صدر امين رہا اور بعد ميں كوفہ كى حكومت بھى اسے تفويض كى گئي اس نے معاويہ كے حكم پر تين ہزار سپاہيوں كو ساتھ ليكر سرزمين '' نعلبيہ'' (7)كى جانب رخ كيا اس كے گرد و نواح كے ان تمام قبائل كو اس نے اپنى غارتگرى كا نشانہ بنايا جو حضرت على (ع) كے مطيع و فرمانبردار تھے اس كے بعد وہ كوفہ كى جانب روانہ ہوا راستے ميں اسے قطقطانہ (8) نامى علاقے ميں عمربن عميس سے سامنا ہوا وہ زيارت حج بيت اللہ كيلئے تشريف لے جارہے تھے ضحاك بن قيس نے انھيں اور ان كے قافلے كو لوٹ ليا اور انھيں اپنے مقصد كى طرف جانے سے روكا( 9)

حضرت على (ع) نے ان كا مقابلہ كرنے كے لئے حجربن عدى كو چار ہزار سپاہيوں كے ہمراہ ان كے راستے پر روانہ كيا حجر كا ضحاك سے ''تدمر'' (10) نامى مقام پر مقابلہ ہوا جس ميں سپاہ كے اُنيس سپاہى مارے گئے اس كے بعد ان كى سپاہ فرار كر كے شام كى جانب چلى گئي_ (12)

 

341

5_ بسر بن ارطاہ

قبيلہ قريش ميں سے تھا عراق و حجاز كى جانب معاويہ نے جو فرماندار روانہ كيئے تھے ان ميں اس كا شمار خونخوارترين فرماندار كى حيثيت سے ہوتا ہے رخصت كرتے وقت معاويہ نے اس سے كہا تھا كہ مدينہ پہنچنے كيلئے روانہ ہوجاؤ راستے ميں لوگوں كو منتشر و پراگندہ كرتے رہنا سامنے جو بھى آئے اسے خوفزدہ ضرور كرنا جو لوگ تمہارى اطلاعت سے انكار كريں ان كے مال و متاع كو تباہ و غارت كردينا بسربن ارطاة تين ہزار افراد كو ساتھ لے كر مدينہ كى طرف روانہ ہوا وہ جس بستى سے بھى گزر جاتا وہاں كے مويشيوں پر قبضہ كرليتا اور انھيں اپنے لشكريوں كے حوالے كرديتا مدينہ پہنچ كر اس نے تقرير كى جس ميں دل كھول كر مسلمانوں پر سخت نكتہ چينى كى اور جو نہ كہنا تھا وہ تك كہا اس كے ساتھ ہى انھيں مجبور كيا كہ اس كے ہاتھ پر بيعت كريں بہت سے گھروں كو نذر آتش كرنے كے بعد ابوہريرہ كو اپنا جانشين مقرر كيا اور خود مكہ كى جانب روانہ ہوگيا راستے ميں قبيلہ خزاعہ كے بہت سے لوگوں نيز چند ديگر افراد كو قتل كيا اور ان كے مال كو لوٹ كر قبضے ميں كرليا_ مكہ پہنچ كر اس نے ابولہب كى اولاد ميں سے بہت سے لوگوں كو تہ تيغ كر ڈالا اور يہاں سے '' سراة '' كى جانب روانہ ہوا جہاں اس نے حضرت على (ع) كے حامى و طرفداروں كو قتل كر ڈالا '' نجران'' اور يمن ميں اس نے كشت و كشتار كا خوب بازار گرم كيا يہى نہيں بلكہ فرماندار يمن عبيداللہ بن عباس كے دوكم سن بچوں كے سر تك اس نے اپنے ہاتھ سے قلم كئے قتل و غارتگرى اور كشت و كشتار كا بازار گرم كرنے اور تقريبا تيس ہزار كوتہ و تيغ كرنے كے بعد وہ واپس ملك شام پہنچ گيا(12)

حضرت على (ع) كار و عمل

حضرت على (ع) كو جب بسر بن ارطاة كے بزدلانہ حملوں كا علم ہوا تو آپ(ع) نے لوگوں كواس مقابلہ كرنے كى دعوت دى اور فرمايا: كہ مجھے اطلاع ملى ہے كہ بسر نے يمن پر قبضہ كرليا ہے خدا شاہد ہے كہ مجھے اس بات كا علم تھا كہ يہ لوگ جلد ہى تم پر غالب آجائيں گے جس كى وجہ يہ ہے كہ

 

342

وہ باطل پر تو ہيں مگر يكجا ہيں اس كے برعكس تم حق پر ہو مگر منتشر و پراگندہ_ تمہارے رہبر و پيشوا نے تمہيں راہ حق پر چلنے كے لئے كہا مگر تم نے نافرمانى كى وہ آج باطل پر ہيں مگر اپنے سردار كے مطيع و فرمانبردار ہيں_

وہ اپنے رہبر كے ساتھ امانت دارى سے كام ليتے ہيں اور تم خيانت كرتے ہو وہ اپنے شہروں ميں اصلاح كے كام كر رہے ہيں اور تم فساد بپا كئے ہوئے ہو ميں تمہارے پاس اگر قدح ( پيالہ ) بھى بطور امانت ركھوں تو اس بات كا احتمال ہے كہ اس كے گرد كوئي ڈورى بندھى ہوئي ہو تو وہ بھى چرالى جائے گي_ (13)

اہل كوفہ نے پہلے كى طرح اب بھى حضرت على (ع) كے فرمان پر اپنى سرد مہرى دكھائي كچھ عرصہ گزرجانے كے بعد آپ نے ايك ہزار افراد پر مشتمل لشكر جاريہ بن قدّامہ كى زير فرماندارى ترتيب ديا جسے ساتھ لے كر جاريہ بصرہ كى طرف روانہ ہوئے حجاز كے راستے سے وہ يمن پہنچے بسر كو يہ اطلاع مل چكى تھى كہ جاريہ كا لشكر حركت ميں ہے چنانچہ اس نے يمامہ كى سمت كو ترك كر كے اپنا رخ دوسرى طرف موڑليا جاريہ منزلگاہ پر اترے بڑى تيزى كے ساتھ ان كا تعاقب كرنے كے لئے روانہ ہوگئے بسر ان كے خوف سے كبھى ايك طرف فرار كرجاتا اور كبھى دوسرى جانب يہاں تك كہ وہ حضرت على (ع) كى قلمرو و حكومت سے باہر چلاگيا لوگوں نے جب اسطرح فرار ہوتے ہوئے انہيں ديكھا تو اچانك ان پر حملہ كرديا جاريہ كے خوف نے اس كو ايسا سراسيمہ و وحشت زدہ كيا كہ اس كو نہ تو تحفظ و دفاع كا ہوش رہا اور نہ ہى اس مال كو وہ اپنے ساتھ لے سكا جسے اس نے قتل و غارتگرى سے جمع كيا تھا بسر كا مقابلہ كئے بغير جاريہ واپس كوفہ تشريف لے آئے_(14)

معاويہ كے تجاوزكارانہ اقدام كا نتيجہ

شام كے جن سرپسندوں نے فتنہ و فساد كے بيچ بوئے تھے ان كى اميرالمومنين حضرت على (ع) كى زير حكومت قلمروپر پے در پے حملے سخت نقصان دہ نتائج كا باعث ہوئے ان ميں سے چند كا ذكر

 

343

ذيل ميں كيا جاتا ہے _

1_ وہ اسلامى معاشرہ جس ميں اب امن و سكون مجال ہونے لگا تھا دوبارہ بد امنى اور بحرانى كيفيات كا شكار ہونے لگا خوارج كا فتنہ ابھى دبا ہى تھا بصرہ و كوفہ ميں بھى معاويہ كى تحريك كے شرپسند حملہ آوروں نے مدينہ، مكہ، يمن ا ور ديگر شہروں ميں فتنہ و فساد بپا كرنا شروع كرديا_

2_ وہ بزدل اور سست عقيدہ لوگ اس خوف و خطرہ كے باعث جو اس وقت ماحول پر مسلط تھا يہ سوچنے لگے كہ حكومت اس قابل نہيں كہ امن بحال كرسكے اور معاويہ كے حملے آور ہرجگہ پر اپنا قبضہ كرليں گے اس لئے وہ معاويہ كى جانب چلے گئے_

3_ ديگر عوامل كے ساتھ غارتگر دستوں كے حملے اس امر كے باعث ہوئے كہ اميرالمومنين حضرت على (ع) جنگ نہروان كے بعد اپنى منتشر و متفرق فوجى طاقت كو تيزى كے ساتھ يكجا جمع نہ كرسكے نيز ايسے محكم و مضبوط فوجي، سياسى اور اقتصادى تشكيلات بھى وجود ميں نہ آسكيں جن كے باعث معاويہ كا مقابلہ كيا جاسكتا_

4_ وہ لوگ جو حضرت على (ع) كى حكومت كے حامى اور طرفدار تھے كثير تعداد ميں بزدلانہ حملوں ميں قتل ہوئے قبيلہ ہمدان كے سب ہى افراد حضرت على (ع) كے پيرو و معتقد تھے وہ بسر كے حملوں كاشكار ہوئے جس ميں سارے مردوں كو قتل كرديا گيا اور عورتوں كو بُسر كى قيد ميں ڈال ديا گيا اور يہ وہ اولين مسلم خواتين تھيں جنہيں بردہ فروشوں كے بازار ميں لايا گيا_

دو متضاد سياسى روشيں

اوپر جو كچھ بيان كيا گيا ہے وہ چند نمونے اس سياسى روش و حكمت عملى كے ہيں جو معاويہ نے مطلق اقتدار حاصل كرنے اور حضرت على (ع) كى حكومت كو تباہ و برباد كرنے كے لئے اختيار كى تھى اس كے مقابل ہم اميرالمومنين حضرت على (ع) كى انصاف پسندانہ و عدل گسترانہ سياسى راہ و روش كو ديكھتے ہيں چنانچہ جس وقت جاريہ بن قدامہ كو حضرت على (ع) رخصت كرنے لگے تو آپ نے يہ نصيحت كى كہ :

 

344

صرف جنگجو لوگوں سے ہى جنگ كرنا تم كو چاھے مجبورا پيدل سفر طے كرنا پڑے مگر عوام كے چوپايوں پر ہرگز نظر مت ركھنا جب تك كنوؤں اور چشموں كے مالك اجازت نہ دے ديں تم راستے ميں كسى كنويں اور چشمے كا پانى استعمال نہ كرنا كسى مسلمان كو فحش بات نہ كہنا جس سے تمہارا عہد و پيمان ہوجائے اس كے ساتھ عہد شكنى كر كے ظلم نہ كرنا اور ذرہ برابر خون نا حق نہ بہانا_ (15)

جب ہم ان دو متضاد روشوں كا باہمى مقابلہ كرتے ہيں تو ديكھتے ہيں كہ ان ميں سے پہلى قتل و غارتگرى پر مبنى ہے اگر چہ يہ حكمت عملى بظاہر لوگوں كے مال و حقوق كا احترام كرتى ہے مگر چونكہ پہلا راستہ جس راہ سے گزر كر منزل مقصود تك پہنچتا ہے وہ اصول و ضوابط كے كسى دائرے ميں نہيں آتا اسى لئے وہ شرعى اور قانونى قواعد كى پابندى بھى نہى كرتا اس كے برعكس قانونى حدود اور انسانى قدريں دوسرے گروہ كى راہ ميں چونكہ مانع و حايل ہوتى ہيں اسى لئے وہ اسے ہرناجائز و ناروا كام كو انجام دينے سے روكتى ہيں_

حق گوئي اور عدل پسندى جيسى خصوصيات كى پابنديوں كے باعث حضرت على (ع) كى سپاہ كے دنيا پرست افراد نے جہاد جيسے مقدس فرض كو انجام دينے ميںسستى و سہل انگارى سے كام ليا كيونكہ وہ اپنے سامنے ايسى جنگ ديكھتے تھے جس كا اجر اس دنيا ميں ان كے لئے موت كے سوا كچھ نہ تھا اگر وہ جنگ ميں كامياب ہوتے تو دشمن كے مال پر قبضہ نہيں كرسكتے تھے وہ كسى دشمن كو نہ تو اپنى مرضى سے قتل كرسكتے تھے اور نہ ہى اس كے بيوى بچوں كو اپنى قيد ميں ركھ سكتے تھے جب يہ شرائط و پابندياں عائد ہوں تو جنگ كس لئے كريں؟ جنگ كے محركات احكام خداوندى كى پابندى اور انسانى فضائل پيش نظر ركھے جاتے تو ان كيلئے جنگ كرنا امر لاحاصل تھا اس كے برعكس اہل شام معاويہ كى ايك آواز پر فورا لبيك كہتے كيونكہ جنگ سے ان كے تمام حيوانى جبلتوں كو آسودگى ملتى جسے بھى وہ چاہتے قتل كرتے، كنيز و غلام بنا ليتے قتل و غارتگرى ہى ان كى آمدنى كا ذريعہ و وسيلہ تھا بالخصوص اہل شام ميں ان لوگوں كے جن كى تربيت اسلامى اصول كے مطابق نہيں ہوئي تھى حضرت على (ع) نے كوفہ كے لوگوں سے خطاب كرتے ہوئے اس كى جانب اشارہ كرتے ہوئے فرمايا

 

345

تھا كہ جس چيز سے تمہارى اصلاح ہوتى ہے اور جو چيز تمہارى كجى كو درست كرتى ہے ميں اس سے واقف ہوں ليكن تمہارى اس اصلاح كو اپنے ضمير كى آواز كے خلاف ميں اور ناجائز سمجھتا ہوں(16)

اميرالمومنين حضرت على (ع) كى ريا كار سياست مندوں كى راہ و ورش اختيار كرنے كے بجائے ہميشہ يہ كوشش رہى كہ عراق كے عوام كى اصلاح كے ذريعے عام لوگوں كے ضمير ميں اپنے جذبے كو بيدار كرتے رہيں نيز اسلامى معاشرے كى كمزورى اور دشمن كى طاقت كے عوامل كى جانب توجہ دلا كر انھيں اصلاح نفس و تہذيب اخلاق كى تعليم ديں تا كہ ان كى كمزوريوں كو دور كر كے انھيں دعوت حق قبول كرنے كى اصلاح دى جاسكے_

حضرت على (ع) كے خطبات و ہمدردانہ نصائح ميں وہ تمام انسانى محركات اور مادى و معنوى پہلو موجود ہيں جن ميں عراق كے عوام كى فلاح و بہبود مضمر تھى چانچہ ہر درد و غم اور ہر كمزورى و ناتوانى كاعلاج ان پر كاربند رہ كر ہى كيا جاسكتا تھا اور اسى ميں ان كى فلاح و بہبود پنہاں تھى _

كوئي بھى فرد بشر وہ علم و اقتدار كے اعتبار سے خواہ كسى بھى مقام و منزلت پر ہو حضرت على (ع) جيسى بصيرت نظر كے ساتھ اس كيفيت كو بيان نہيں كر سكتا تھا جو اس وقت عراق و شام پر مسلط و حكم فرما تھى اپنے رہبر كے حكم سے روگرداں ہو كر او رجہاد جيسے مقدم فرض سے كنارہ كشى كر كے عراق كے لوگوں كى كيا سرنوشت ہوسكتى تھى اسے حضرت على (ع) سے بہتر كوئي دوسرا شخص بيان نہيں كرسكتا تھا اس كے ساتھ ہى آپ(ع) نے بہترين دستور عمل پر كاربند رہنے كى ہدايت فرمائي تھى جس سے ان كى حالت فلاح و بہبود پاسكتى تھي_

ليكن عراق كے عوام آپ(ع) كى نظر ميں ان سے كہيں بدتر تھے جنہيں معاويہ جنگ و پيكار كے لئے بھيجا كرتا تھا كيونكہ وہ دوستى كا لبادہ پہن كر آپ(ع) كے پرچم كے نيچے جمع ہوتے اور ہوا خواہى و طرفدارى كا دم بھرتے ليكن اس كے ساتھ اس جنگ ميں جو اہل شام كى طرف سے شروع كى جاتى وہ دفاعى اقدام نہ كرتے وہ ہر لمحہ و لحظہ كوئي نہ كوئي بہانہ تراشتے رہتے كبھى كہتے كہ

 

346

موسم بہت گرم ہے اتنى تو مہلت ديجئے كہ دن كى تمازت ذرا كم ہوجائے اور كبھى يہ كہنے لگتے كہ موسم بہت سرد ہے اس وقت تك كے لئے صبر كيجئے كہ موسم معتدل ہوجائے_(17)

جب حضرت على (ع) انھيں يہ كہہ كر لا جواب كرديتے كہ سردى و گرمى تو تمہارے لئے ايك بہانہ ہے خدا كى قسم تم اس قدر كاہل و بزدل ہوچكے ہو كہ اگر تلوار تمہارے روبرو آجائے تو اسے ديكھ كر فرار كرجاؤ گے اس پر وہ كہتے كہ ہم اس صورت ميں ہى ميدان كار زار كى طرف جاسكتے ہيں كہ جنگ ميں آپ بھى ہمارے ساتھ شريك ہوں _

ان كى يہ شرائط اس وضع ميں تھى جب كہ مركزى حكومت كو حضرت على (ع) كى سخت ضرورت تھى ا س پر حضرت على (ع) فرماتے كيا ان حالات كے تحت ميرے لئے ميدان جنگ كى جانب روانہ ہونا مناسب ہے تمہارى يہى شرط كافى ہے كہ ميں اپنے ايك دلاور اور قابل اعتماد فرماندار كا انتخاب كروں اور اس كے ہمراہ تمہيں جنگ پر روانہ كروں (18)

حضرت على (ع) كے دست مبارك ميں جب تك عنان حكومت رہى آپ كا كوئي بھى وقت ايسانہ گذرا جس ميں آپ نے عوام كى راہنمائي نہ فرمائي ہو وہ اپنے تجربيات اور علوم باطنى كے ذريعے ان پر وہ چيزيں كشف و عياں كرتے جن ميں ان كى فلاح و بہبود مضمر تھى اور انہى سے ان كى حالت بہتر ہوسكتى تھى چنانچہ ايك مرتبہ آپ(ع) نے خود فرمايا تھا: كہ ميں نے تمہارے ساتھ رہ كر تمہارى ہمنشينى و ہمدمى كو زيبائي اور خوبصورتى بخشى اور ميرى ہميشہ يہى كوشش رہى كہ جس قدر ممكن ہوسكے تمہيں ذلت و خوارى كے حلقے اور جور و ستم كى بندشوں سے آزاد كروا دوں_ (19)

ليكن افسوس كہ حضرت على (ع) نے اصلاح كى جو بھى ہمدردانہ سعى و كوشش كى اس كا اثر ان كے تھكے ہوئے جسموں پر اور خستہ و كوفتہ دل و دماغ پر اس حد تك نہ ہو سكا جس قدر آپ(ع) چاہتے تھے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ انہوں نے خود كا غارتگر شاميوں كے حوالے كرديا تا كہ جب بھى چاہيں اور جس طرح بھى چاہيں ان كے جان و مال كو نذر آتش كرديں_

 

347

فتنہ خريت

خوارج كے تباہ كن و خطرناك عقائد ان لوگوں كے دلوں ميں جو ذہنى طور پر فرسودہ و ناكارہ ہوچكے تھے اور اس كج رفتارى كيلئے آمادہ تھے بتدريج قوت پانے لگے اور ان كى وجہ سے اسلامى معاشرے كے لئے وہ نئي مشكل پيدا ہوگئي جس كا ذكر ذيل ميں آئے گا_

'' خريت بن راشد'' (21) بہت سرسخت خوارج ميں سے تھا جب حكميت كے نتيجے كا اعلان كيا گيا تو وہ اپنے حواريوں كوساتھ لے كر حضرت على (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوا اور كہنے لگا كہ اس كے بعد مجھ سے آپ(ع) كى اطاعت و فرمانبردارى نہ ہوسكے گى ميں آپ(ع) كے پيچھے نماز بھى ادانہ كروں گا ... اور كل ميں آپ سے عليحدہ ہوجاؤں گا _

اپنے اس فيصلے كا محرك وہ مسئلہ حكميت كو سمجھتا تھا حضرت على (ع) نے اس كو جواب دينے ميں نرم رويہ اختيار كيا اور اسے پند و نصيحت كرنے كے بعد فرمايا : كہ وہ حكميت كے بارے ميں چاہيں تو بحث و گفتگو كرسكتے ہيں اس وقت تو اس نے گفتگو كرنا مناسب نہ سمجھاالبتہ اگلے دن كا وعدہ كر كے چلا گيا مگر رات كے وقت وہ اپنے حواريوں كو ساتھ لے كر فرار كرگيا_

اور ديگر خوارج كى طرح دہشت پسندى اور غارتگرى شروع كردى چنانچہ راہ ميں اسے جتنے بھى كينہ پرور و عناد پسند لوگ ملے وہ اس كے ہمراہ ہوگئے وہ مدائن پہنچ گيا_

اميرالمومنين حضرت على (ع) '' زياد بن خصفہ'' كو ان كا تعاقب كرنے كے لئے روانہ كيا اور مختلف شہروں ميں اپنے كار پردازوں كو بھى لكھا تا كہ وہ ان علاقوں ميں جو ان كے زير فرمان ہيں ان كى تلاش و جستجو كے لئے اپنے كارندے مقرر كريں اور اس كے نتائج سے آپ كو مطلع و باخبر كرتے رہيں(22)_

حضرت على (ع) كے ''قرظہ بن كعب نامى '' كارپرداز نے اسے اپنى حراست ميں لے ليا اور اس واقعے كى حضرت على (ع) كو اطلاع كى حضرت على (ع) نے زياد كو اس بارے ميں مطلع كيا اور حكم ديا كہ اسے ميرے پاس روانہ كردو اگر وہ آنے سے انكار كرے تو ان كے ساتھ جنگ كرو كيونكہ اس نے نيز

 

348

اس كے حواريوں نے حق كو پس پشت ڈال كر لوگوں كا ناحق خون بہلايا ہے اور راستوں ميں بد امنى پھيلا ركھى ہے_(23)

زياد ا ور خريت ايك دوسرے كے مقابل آئے دونوں كے درميان گفتگو اور سوال و جواب ہوئے خريت اپنے عقيدے ميں پابر جاتھا دونوں كے درميان سخت جنگ ہوئي اور ان كے بيشتر افراد كارى زخموں كے باعث مجروح ہوئے جب رات ہوگئي تو خريت فرار كر كے اہواز كى سمت چلاگيا اور زيادہ واپس بصرہ تشريف لے آئے_

اہواز ميں بہت سے راہزن ، اس كے ہم عقيدہ عرب اور سطحى مسلمان جو اس كى تحريك كو دين پر ضرب لگانے، خراج ادا نہ كرنے اور قانون كى ہر قيد و بند سے خارج ہونے كا ذريعہ و وسيلہ سمجھتے تھے اس كے گرد جمع ہوگئے_

حضرت على (ع) كو جب ان واقعات كى اطلاع ملى تو آپ (ع) نے '' معقل بن قيس '' كو ايك ہزار افراد كے ہمراہ جنگ كرنے كے لئے بھيجا آپ (ع) نے صوبہ دار بصرہ حضرت عبداللہ بن عباس كو بھى لكھا كو دو ہزار افراد كے ساتھ كسى دلير و بہادر نيز راستباز شخص كو روانہ كريں تا كہ وہ حضرت معقل كے ساتھ مل كر جنگ كر سكے اس كے ساتھ ہى آپ (ع) نے زياد اور ان كے ہم قبيلہ لوگوں كى تعريف و توصيف كرتے ہوئے انھيں واپس آنے كے لئے حكم صادر كيا(24)_

حضرت ابن عباس نے حضرت خالد بن معدان طائي كو دوہزار افراد كے ہمراہ روانہ كيا خريت كا تعاقب كرنے كے لئے حضرت معقل اہواز پہنچ كر اترے اس وقت خوارج وسيع دشت سے گذر كر كوہ رامہرمز كى بلنديوں كى جانب جانے كى كوشش و فكر ميں تھے تا كہ تعاقب كرنے والى جماعت كى نسبت وہ بہتر اور زيادہ مستحكم جگہ پر قيام كرسكيں ليكن معقل نے انھيں اچانك بے خبر نرغے ميں لے ليا اور ابھى وہ پہاڑ كے دامن سے اوپر نہيں گئے تھے كہ ان پر حملہ كرديا خونريز جنگ ، قبيلہ بنى ناجيہ كے تين سو ستر افراد كے قتل اور ان كے بے دين ساتھى كى كشت و كشتار( جن ميں كچھ عرب، بے دين اور بعض كر دشامل تھے) كے بعد خريت كيلئے فرار كے علاوہ كوئي چارہ باقى نہ رہ گيا

 

349

(25) يہاں سے فرار كرنے كے بعد خريت بحرين ميں دور ترين ممكن مقام پر پناہ گزيں ہوا يہاں بھى اس نے اپنے اغراض و مقاصد كا پر چار شروع كرديا اوردوبارہ لوگوں كو اپنے گرد آنے كى دعوت دينے لگے معقل نے حضرت على (ع) كے حكم كے مطابق ان كا تعاقب كيا بحرين پہنچنے كے بعد اس نے سب سے پہلے حضرت على (ع) كا وہ خط پڑھ كرسنايا جس ميں آپ (ع) نے مسلمانوں ، عيسائيوں، مرتدين اور بے دين لوگوں سے خطاب كيا تھا اس كے بعد انہوں نے پرچم دين لہرايا اور كہا كہ خريت اور اس كے ان حواريوں كى علاوہ جو كينہ و عداوت كے باعث مسلمانوں سے عليحدہ ہوگئے ہو جو شخص بھى اس پرچم كے زير سايہ آجائے گا وہ امن و امان ميں رہے گا اور ابھى چند لمحے ہى گذر ے تھے كہ خريت كے اطراف ميں اس كے اہل قبيلہ كے علاوہ كوئي شخص نہ رہا اس كے اور معقل كے درميان سخت جنگ ہوى تجاوز كاروں كى استقامت و پايدارى ايك گھنٹہ سے زيادہ قائم نہ رہ سكى ان كا رہبر اپنے ايك سوسترسے زيادہ افراد كے ساتھ قتل ہوا باقى ساتھى ايسے فرار كر گئے جيسے بھيڑوں كے درميان كوئي بھيڑيا آيا ہوليكن وہ بھى گرفتار و قيد ہوا ان ميں سے جو لوگ تائب ہوگئے معقل نے انھيں آزاد كرديا اور باقى افراد كو جو تعداد ميں پانچ سو سے زيادہ تھے كوفہ كى جانب روانہ كرديا_ (26)

آخرس سعى و كوشش

39 40 ہجرى كے دوران معاويہ كى يورش ميں چونكہ بہت اضافہ ہوگيا تھا اسى لئے حضرت على (ع) نے اس كے حملوں كو روكنے كے لئے ان فوجى دستوں كو بھيجنے كے علاوہ جن كى حيثيت محفوظ لشكر كى تھى يہ فيصلہ كيا كہ اپنى تمام سعى و كوشش شام كى جانب لازم و ضرورى فوجى طاقت روانہ كرنے كيلئے صرف كرديں تا كہ معاويہ كى تجاوز كارى كا ہميشہ كے لئے سد باب ہوسكے كيونكہ آپ كے لئے اس كے علاوہ كوئي چارہ باقى نہيں رہ گيا تھا كہ مكمل جنگى سطح پر اس كا مقابلہ كيا جائے تا كہ اس شر سے ہميشہ كے لئے نجات حاصل ہو اور وہ بھى اپنى جگہ خاموش ہركر بيٹھے رہے_

 

350

اس فيصلے كے بعد آپ نے حضرت معقل بن قيس كو سَواد (27) كوفہ (28) كى جانب روانہ كيا تا كہ لوگوں كو جنگ ميں شريك ہونے كى دعوت دے سكيں_

آپ(ع) نے والى آذربائيجان قيس بن سعد كو بھى خط لكھا جس ميں مرقوم فرمايا كہ وہ لوگوں كو شام كى جانب روانہ ہونے كيلئے آمادہ اور نظرياتى اعتبار سے ان ميں وحدت يكجہتى كرے (29)

اس كے علاوہ حضرت على (ع) نے خود بھى كوفہ كے لوگوں كو آمادہ كرنے كے لئے مفصل تقرير كى جس ميں آپ (ع) نے فرمايا كہ اے ا للہ كے بندو گذشتہ اقوام كى تاريخ پر غور و فكر كرنا تمہارے لئے بيش قيمت درس عبرت ہے كہاں ہيں وہ بادشاہوں كے غول اور ان كے وارثين سلطنت كہاں ہيں فراعنہ اور ان كے جانشين ؟ كدھر گئے وہ خاندان رس كے مدنى فرمانروا جن سب نے پيغمبروں كو تہ تيغ، سنت كے روشن چراغوں كو خاموش اور ستمگروں كى راہ و روش كو زندہ كيا تھا كہاں گئے وہ فرمانروا جو عظيم لشكر لے كر روانہ ہوئے اور جنہوں نے ہزاروں بلكہ لاكھوں كى سپاہ كو شكست دى كدھر جاچھپى فاتحين كى وہ فوج كثير تعداد جو يكجا جمع ہوئي اور جس نے نئے شہروں كى بنياد ركھي؟

...خدا كے برگزيدہ و نيك بندے سفر پرجانے كے لئے كمربستہ ہوگئے انہوں نے دنيا كا فانى و بے ثبات چند روزہ چيزوں كا سودا آخرت كى جاودانى زندگى سے كيا سچ تو يہ ہے كہ ہمارے وہ بھائي جنہوں نے جنگ صفين ميں اپنا خون بہايا تھا اگر آج اس دنيا ميں نہيں ہيں تو انہوں نے كون سا خسارہ برداشت كيا؟

كہاں ہيں وہ ميرے بھائي جنہوں نے جہاد كى راہ اختيار كى اور جادہ حق طے كيا كہاں ہيں عماريا كہاں گئے ابن تيہان ذوالشہادتين ؟اور كدھر گئے ان جيسے دوسرے لوگ جنہوں نے موت سے عہد و پيمان كيا اور شرپسندوں كے ہاتھوں اپنے سر قلم كرائے اس كے بعد آپ(ع) نے ريش مبارك پر اپنے ہاتھ ركھے اور كافى دير تك گريہ و زارى كرتے رہے _اس كے بعد فرمايا: كہ افسوس افسوس كہاں گئے وہ ميرے بھائي جنہوں نے قرآن پاك كى تلاوت كى اور زندگى ميں اسے اپنا حاكم بنايا اپنے فرائض كے پابند رہے اور ہميشہ انھيں پورا كيا انہوں نے سنت نبوى كو زندہ

 

351

اور بدعتوں كا قلع قمع كيا انہوں نے جہاد كى حكومت كو قبول كيا اور اپنے ہادى اور رہبر پر پورا اعتماد كرتے ہوئے اس كى پيروى كى _

اس كے بعد آپ(ع) نے بآواز بلند فرمايا: (جہاد جہاد) اے خدا كے بندو ميں تمہيں يہ بتادينا چاہتا ہوں كہ آج ميں بھى تمہارے ساتھ عسكر گاہ كى جانب چلوں گا جو شخص بھى خدا كى جانب جلد از جلد آنا چاہتا ہے وہ نكل كر ہمارے ساتھ آئے_ (30)

آپ (ع) كى اس سعى و كوشش كا يہ نتيجہ بر آمد ہوا كہ تقريبا چاليس ہزار افراد عسكر گاہ ميں جمع ہوگئے_

بقول '' نوف بكالي'' آپ (ع) نے دس ہزار سپاہ كا پرچم حضرت امام حسين (ع) كو ديا دس ہزار سپاہى حضرت قيس كے زير نگرانى كئے دس ہزار سپاہ حضرت ابوايوب انصارى كى زير فرماندارى مقرر كئے اور دس ہزار سپاہى ان ديگر فرمانداروں كے حوالے كئے جنہوں نے اس تعداد ميں مزيد اضافہ كيا تھا اور حكم ديا كہ پورى فوج صفين كى جانب روانہ ہوليكن ابھى جمعہ بھى نہ گذر ا تھا كہ آپ (ع) كے سرمبارك پر ابن ملجم نے كارى ضرب لگائي جس كے باعث لشكر بحالت مجبورى واپس كوفہ آگيا_(31)

حضرت على (ع) كے خلاف دہشت پسندانہ سازش

تمام مشكلات اور سختيوں كے باوجود حضرت على (ع) جس زمانے ميں شام كى جانب روانہ ہوئے اور معاويہ سے جنگ كا تدارك كر رہے تھے اسى عرصہ ميں چند خوارج بظاہر مراسم حج بيت اللہ ادا كرنے كى نيت سے مكہ ميں جمع ہوئے يہاں انہوں نے چند جلسات كى تشكيل كى جس ميں ان مقتولين كو ياد كيا جو جنگ نہروان ميں كام آگئے تھے ان كے خيال ميں وہ لوگ بے قصور مارے گئے تھے اور ان كے قتل كے اصل ذمہ دار حضرت على (ع) ، معاويہ اور عمروعاص تھے_

ان كے خيال ميں يہ تينوں ہى حضرات '' ائمہ ضلال ( گمراہوں كے امام) تھے_ چنانچہ انہوں نے فيصلہ كيا كہ تينوں كا فيصلہ كرديا جائے تا كہ اس طرح باہمى اختلاف ، كشمكش اور ناانصافى كى بيخ

 

352

كنى كرديں_

ان ميں سے تين افراد نے اس مقصد كے لئے اپنى زندگى داؤ پر لگادى _ تا كہ تينوں مذكورہ حضرات كى زندگى كو ختم كرديں حضرت على (ع) كو قتل كرنے كا ذمہ عبدالرحمن ابن ملجم نامى نے ليا انہوں نے اس سازش كى تكميل كے لئے باہمى عہد و پيمان كئے اور يہ فيصلہ كيا كہ بتاريخ 19 ماہ رمضان 40 ھ صبح كے وقت وہ اپنى دہشت پسندانہ كاروائي پر عمل در آمد كريں گے اس كے بعد وہ ايك دوسرے سے جداہوگئے_

ابن ملجم كوفہ ميں داخل ہوا اور اپنى چچازاد بہن قَطَام كے گھر پہنچا وہ اس كے ساتھ پہلے بھى چونكہ معاشقہ كرچكا تھا اسى لئے اب اسے اپنى شادى كرنے كا پيغام ديا قَطَام خود خوارج ميں سے تھى اس كے بھائي اور باپ كا قتل جنگ نہروان ميں ہوچكا تھا اسى لئے اس كے دل ميں حضرت على (ع) كے خلاف سخت عداوت و دشمنى تھى اس نے كہا كہ ميں اس شرط پرشادى قبول كرسكتى ہوں كہ ايك كنيز و غلام اور تين ہزار درہم نقد دينے كے علاوہ تو على (ع) كو قتل كردے اگر تو اس مقصد ميں كامياب ہوگيا تو تو ميرے كليجے كو ٹھنڈا كرے گا اور مجھ سے داد مراد پائے گا اور اگر كہيں تو خود مارا گيا تو تجھے دنيوى نعمتوں سے كہيں زيادہ عظيم اس كااجر و ثواب ملے گا _

ابن ملجم نے جب ديكھا كہ يہ عورت اس كام كے لئے بہت زيادہ اصرار كررہى ہے تو اس نے بتاديا كہ ميں يہى ناپاك ارادہ لے كر كوفہ سے آيا ہوں_ (32)

ابن ملجم نے شبيب بن بجرہ نامى دوسرے شخص سے جو خود بھى خوارج ميں سے تھا اس كام ميں مدد لى قطام نے و ردان بن مجالد كو بھى اس كے ساتھ كرديا تا كہ وہ بھى اس كام ميں اس كا مدد گار ہوسكے اس نے '' اشعث بن قيس'' كو بھى اپنا راز دار بناليا اس شخض نے بھى اس كام كو تمام كرنے كے لئے اس كى حوصلہ افزائي كي(33)

 

353

شہادت كا انتظار

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے احاديث نبوى اور علم لدنى كى بنياد پر يہ پيشين گوئي كردى تھى كہ آپ (ع) كى شہادت ماہ رمضان المبارك كے آخرى عشرہ ميں واقعہ ہوگى جب ماہ رمضان آگيا تو افطار كے بعد آپ(ع) كبھى امام حسن (ع) كبھى امام حسين (ع) اور بعض راتوں ميں حضرت عبداللہ بن عباس كے گھر قيام فرماتے ليكن افطار كے وقت تين لقموں سے زيادہ تناول نہ فرماتے جب اس كى وجہ دريافت كى گئي تو آپ (ع) نے فرمايا كہ ميرى يہ آرزو ہے كہ خداوند تعالى كا ديدار شكم سير ہوئے بغير كروں (34)

ماہ مبارك كى انيسويں شب ميں اميرالمومنين حضرت على (ع) پر سخت ہيجانى كيفيت طارى تھى آپ(ع) اچانك گھر كے اندر سے نكل كر صحن ميں تشريف لے آتے اور وہاں ٹہلنے لگتے اور آسمان كى طرف ديكھتے_ آپ(ع) نے سب حاضريں كو بتادياتھا كہ آج كون سا عظيم حادثہ رونما ہونے والا ہے آپ يہ فرماچكے تھے كہ '' خدا كى قسم ميں غلط نہيں كہہ رہا رہوں اور مجھے غلط خبر نہيں دى گئي ہے كہ آج كى رات وہى رات ہے جس كا مجھ سے وعدہ كيا جاچكا ہے(35)

اس رات حضرت على (ع) تمام وقت بيدار رہے پورى رات تلاوت قرآن مجيد اور عبادت ميں گذرى طلوع فجر سے قبل جب آپ گھر سے مسجد تشريف لے جانے لگے تو راستے ميں مرغابياں آگئيں جنہيں راستے سے دور كرديا گيا اس پر حضرت على (ع) نے فرمايا كہ انھيں كچھ مت كہو يہ نوحہ و گريہ كر رہيں ہيں(36)

شہادت

اميرالمومنين حضرت على (ع) مسجد ميں تشريف لائے جو لوگ محو خواب تھے انھيں بيدار كيا كہ خداوند تعالى كى عبادت و مناجات ميں مشغول ہوں آپ(ع) نے ابن ملجم كو بھى بيدار كيا(31) وہ تو اول شب سے ہى آپ(ع) كى آمد كا منتظر تھا ا وراس وقت خود كو سوتا ہوا بناليا تھا اس كے بعد

 

354

آپ(ع) نماز ادا كرنے كيلئے كھڑے ہوئے اور قلب و زبان كو ذكر خدا ميں مشغول كرديا_

اس وقت شبيب نے چاہا كہ آپ (ع) پر تلوار سے وار كرے مگر اس كى تلوار محراب مسجد نے ٹكرا كر رہ گئي ابن ملجم تباہ كار جلدى سے آگے آيا اس نے اپنى تلوار اوپر اٹھائي اور باواز بلند كہا ''الحكم للہ لا لك يا على و لا لاصحابك'' يہ كہہ كر اس نے حضرت على (ع) كے سر مبارك پر اپنى تلوار اٹھائي جو ٹھيك اسى جگہ لگى جہاں جنگ خندق ميں ''عمرو بن عبدود'' (37)كى تلوار آپ كے سرمبارك پر لگ چكى تھى حق و عدل كا وہ پيكر جو صريح و واضح كفر اور الحاد كے ضربات سے زمين پر نہيں گرسكا تھا آج نفاق اور جہل و تعصب آميز ظاہرى تقدس كے ايك ہى وار سے خاك و خون ميں لوٹنے لگا حضرت على (ع) نے جيسے ہى ضرب شمشير كو محسوس كيا فرمايا: '' فزت و رب الكعبہ'' (38) قسم كعبہ كے خدا كى آج ميں نے كاميابى حاصل كي_

آپ (ع) كے فرزندوں اور اصحاب پر تو گويا غم و اندوہ كا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہر طرف سے گريہ و نالہ اور آہ و بكا كى صدائيں سنائي دينے لگيں لوگ سراسيمگى كى حالت ميں مسجد كى جانب دوڑے_

حضرت على (ع) كا سرمبارك حضرت امام حسن (ع) كى آغوش ميں تھا جس سے مسلسل خون جارى تھا زخم كى شدت اور بہت زيادہ خون بہہ جانے كى وجہ سے آپ (ع) اب تك بے ہوشى كى حالت ميں تھے ابن ملجم بھى پكڑا گيا اور اسے حضرت امام حسن (ع) كى خدمت ميں پيش كيا گيا حضرت مجتبى (ع) نے اس سے فرمايا اے ملعون تو نے پيشوائے مسلمين حضرت على (ع) كو قتل كرديا كيا نيكى اور خير خواہى كا بدلہ يہى ہے تو وہى شخص ہے جسے خليفہ وقت نے پناہ دى اور اپنا مقرب بنايا؟

اس كے بعد آپ (ع) نے والد محترم كى خدمت ميں عرض كيا بابا جان يہ آپ كا اور خدا كا دشمن بحمداللہ گرفتار كرليا گيا ہے وہ اس وقت آپ كے روبرو حاضر ہے_

حضرت على (ع) نے چشم مبارك كو كھولا اور فرمايا كہ تو بہت عظيم سانحہ كا مرتكب ہوا ہے اور تو نے نہايت ہى خطرناك كام كيا ہے كيا ميں تيرے لئے برا امام ثابت ہوا؟ ايسى كون سى مہربانى اور بخشش تھى جو ميں نے تيرے حق ميں روانہ ركھى كيا لطف و مہربانى كا يہى بدلہ وصلہ ہے؟

 

355

اس كے بعد آپ(ع) نے حضرت امام حسن (ع) سے فرمايا كہ اے فرزند عزيز اپنے اس قيدى كے ساتھ خاطر و مدارات كا سلوك كرنا اور اس كے ساتھ مہربانى و نوازش سے پيش آنا_

جو كچھ تم كھاؤ اور پيو وہى تم اسے كھلانا اور پلانا اگر ميں مرجاؤں توميرے خون كے قصاص ميں اسے قتل كردينا مگر اس كے ناك، كان نہ كاٹنا كيونكہ ميں نے پيغمبر اكرم(ص) كى زبان مبارك سے سنا ہے كہ اس كتے كے بھى ناك كان نہ كاٹو جس نے تمہيں كاٹا ہے اور اگر ميں بچ گيا تو ميں ہى جانتا ہوں كہ اس كے ساتھ كيا سلوك كروں گا اسے معاف كردينے ميں مجھے سب پر فضيلت حاصل ہے كيونكہ ہمارا خاندان وہ خاندان ہے جس نے بڑے بڑے گناہگاروں كو معاف كيا اور ان كے ساتھ ہم بزرگوارى كے ساتھ پيش آتے ہيں (39)

حضرت امام حسن (ع) اپنے والد بزرگوار كو گھر لے آئے لوگ گريہ و نالہ كرتے اور آپ سے رخصت ہوتے عجب كہرام كا عالم تھا لگتا تھا كہ غمگساروں كى جان كھينچ كرلبوں پر آگئي ہے_

حضرت امام مجتبى (ع) نے بعض اطبا كو جن ميں اثير بن عمرو سكونى سب سے زيادہ ماہر و حازق طبيب تھے علاج كے لئے بلايا انہوں نے كہا كہ بھيڑ كا تازہ جگر لاؤ اس كى ايك رگ انہوں نے حضرت على (ع) كے زخم كے اندر ركھى اور اسے باہر نكال ليا انہوں نے ديكھا كہ مغز كى سفيدى اس رگ پر لگ گئي ہے اور دم شمشير كى ضرب نے دماغ تك اثر كيا ہے يہ ديكھ كر اس طبيب نے كہا '' يا اميرالمومنين اگر كوئي وصيت كرنا چاہيں تو كرديجئے''(40)

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے اپنے فرزندوں كو اخلاق حسنہ كى وصيت فرمائي اپنى زندگى كے قابل قدر و قيمت درس انھيں اور تمام مسلمين كو ديئے _ امور خلافت اپنے فرزند محترم امام حسن (ع) كو تفويض كيئے اور اس كا گواہ اپنے فرزندوں اور بزرگان خاندان كو بنايا كلام مجيد اور اپنا اسلحہ آپ كى تحويل ميں ديا_

جب حضرت على (ع) اپنے فرزندوں كو پند ونصائح كرچكے تو آپ(ع) نے موت كى علامات محسوس كيں اس كے بعد آپ قرآن پاك كى تلاوت ميں مشغول ہوگئے آخرى آيت جوآپ كى

 

356

زبان مبارك پر آئي وہ يہ تھي_

فمن يعمل مثقال ذرة خير ايرہ و من يعمل مثقال ذرة شر ايرہ (41)

(پھر جس نے ذرہ برابر نيكى كى ہوگى وہ اس كو ديكھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدى كى ہوگى وہ اس كو ديكھ لے گا )

بتاريخ 21 رمضان 40 ھ اس وقت جب كہ آپ كاسن شريف تريسٹھ برس كا تھا آپ كى روح مقدس و مطہر اس جہان فانى سے پرواز كر كے عالم جاودانى كى جانب عروج كرگئي_

حضرت امام حسن (ع) نے اپنے ديگر بھائيوں اور حضرت على (ع) كے اصحاب كى مدد سے اپنے شہيد والد محترم كى تجہيز كا انتظام كيا غسل و كفن كے بعد جب كچھ رات گذر گئي تو اس پيكر مقدس كو كوفہ سے باہر لے آئے تمام راستہ جنازے كے پيچھے رہ كر طے كيا اور جنازہ اس جگہ لايا گيا جو آج نجف اشرف كے نام سے مشہور و معروف ہے نماز جنازہ ادا كرنے كے بعد انتہايى خاموشى كے ساتھ اس پيكر تقدس كو سپرد خاك كرديا( 42)

سلام عليہ يوم ولد و يوم استشہد و يوم يبعث حيا

سلام ہو آپ پر جس دن آپ كى ولادت ہوئي اور جس دن شہيد كئے گئے اور جس دن زندہ اٹھائے جائيں گے_)

 

357

سوالات

1_ معاويہ نے كن محركات كے تحت دہشت پسند دستے ان مناطق ميں بھيجے جہاں حضرت على (ع) كى حكومت تھي؟

2_ بسر بن ارطاہ نے جو قتل و غارتگرى كى اس كى كچھ مثاليں بيان كيجئے ان كے تجاوز كارانہ اقدام كا حضرت على (ع) كى جانب سے كيا رو عمل ہوا؟

3_ سپاہ عراق پر سپاہ شام كى كاميابى كے كيا عوامل تھے؟ نہج البلاغہ ميں بيان كئے گئے حضرت على (ع) كے اقوال كى روشنى ميں اس امر كى وضاحت كيجئے؟

4_ معاويہ كے حملات اور تجاوز كارانہ اقدامات كا سد باب كرنے كيلئے حضرت على (ع) كا آخرى فيصلہ كيا تھا؟

5_ اميرالمومنين حضرت على (ع) كو قتل كرنے كے لئے خوارج نے كيا سازش كى اس اقدام ميں كون سے عوامل كار فرماتھے؟

6_ حضرت على (ع) نے اپنے قاتل كے بارے ميں كيا ارشاد فرمايا؟ اور حضرت امام حسن (ع) كو اس سلسلے ميں كيا پند نصائح كيئے

7_ حضرت على (ع) كى شہادت كس تاريخ كو واقع ہوئي شہادت كے وقت آپ كا سن مبارك كتنا تھا؟

 

358

حوالہ جات

1_ يہ كوفہ كے مغرب ميں شہر انباركے نزديك بستى تھى (معجم البلدان ج 4 پ 176 ) الغارات ج 2 /445 ، طبرى ج 5 / 133 ، كامل ابن اثير ج 3 / 475 ، شرح ابى الحديد ج 2 / 305 _ 301

2_ يہ شہر دريائے فرات كے كنارے بغداد اور انبار كے درميان واقع تھا(معجم البلدان 5/420)

3_ شرح ابن ابى الحديد ج 2 ص 85 ، كامل ابن اثير ج 3/376 و الغارات ج 2 /464

4_ نہج البلاغہ خ 27

5_ يہ بستى شام كے اطراف ميں شام اور وادى القرى كے درميان اس راستے پر واقع ہے جہاں سے شام و دمشق كے حجاج گذر كر مكہ پہنچتے تھے (معجم البلدان ج 2 /67)

6_ تاريخ طبرى ج 5/134 ، كامل ابن اثير ج 3/376 ، تاريخ يعقوبى ج 2/196

7_ يہ كوفہ كے راستے ميںايسى بستى تھى جہاں حجاج قيام كرتے تھے يہ خزيمہ سے پہلے اور شقوق كے بعد حجاج كى منزل گاہوں پر واقع تھي_

8_ يہ جگہ كوفہ كے نزديك خشكى كى سمت واقع تھى سرزمين طف اور زندان نعمان بن منذر اسى جگہ تھى (معجم البلدان ج 4/374)

9_ تاريخ طبرى ج 5/135 ، ليكن ثقفى نے الغارات كتاب ج 3/422 ميں لكھا ہے كہ ضحاك بن قيس نے عمرو بن عميس نيز اس كے ساتھيوں كو قتل كرديا_

10_ تدمر سرزمين شام كا قديم شہر تھا يہ جگہ شہر حلب سے پانچ دن كے سفر پر وقع تھى (معجم البلدان )_

11_ تاريخ طبرى ج 5 /135 ، الغارات ج 2/425_

12_ ملاحظہ ہو الغارات ج 2 /600، و ديگر بعد كے صفحات ، نيز شرح ابن ابى الحديد ج 2/17_7 و الغاتى 16/266_

13_ نہح البلاغہ خ 25_

14 شرح ابن ابى الحديد ج 2 / 16_

15_ تاريخ يعقوبى ج 2 / 200_

 

359

16_ انى لعالم بما يصلحكم و يقم اودكم و لكنى لا ارى اصلاحكم بافساد نفسى نہج البلاغہ خ 69_

17_ نہج البلاغہ خ 17_

18_ نہج البلاغہ خ 119_

19_ نہج البلاغہ خ 159_

20_ ان كا ذكر سطور ذيل ميں آئے گا_

21_ يہ حضرت جنگ جمل اور جنگ صفين ميں حضرت على (ع) كے ہمراہ تھے جنگ جمل ميں تو انہوں نے قبيلہ نصر كى فرماندارى كے فرائض بھى انجام دئے ليكن مسئلہ حكميت كے بعد حضرت على (ع) سے برگشتہ ہوگئے اور آپ(ع) كى مخالفت پر اتر آئے _ الغارات ج 1/333_ 332 _

22_ الغارات ج 1 338_332_

23_ الغارات ج 1 342/349_

24_ الغارات ج 1/349_

25_ الغارات جلد ،1 353_352_ كامل ابن اثير ج 3 / 368_367_

26_ الغارات ج 1 /359_كامل ابن اثير 3/369_

27_'' سواد كوفہ '' اطراف كوفہ ميں وہ جگہ تھى جہاں كھجور كے درخت اس كثرت سے تھے كہ دور سے وہ جگہ سياہ نظر آتى تھى اسى وجہ سے اسے سواد كہا جاتا تھا يہ جگہ طول ہيں موصل سے آبادان تك اور عرض ميں غريب سے علوان تك پھيلى ہوئي تھى (مجمع البحرين ج 3/72)_

28_ الغارات ج 2 /782 ، تقيح المقال ما مقانى ج3/297 _

29_ تاريخ يعقوبى ج 2 /203_

30_ ملاحظہ ہو نہج البلاغہ كا خطبہ 182_

31_ نہج البلاغہ خ 182 ، ومناقب ابن شہر آشوب ج 3 /194_

32_ مروج الذہب ج 2/411 ، بحار ج 42/228، مقاتل الطالبين 18تاريخ طبرى ج 5/143_

 

360

33 _ حضرت امام جعفر صادق(ع) سے روايت ہے كہ حضرت على (ع) كے قتل ميں اشعث بن قيس شركت تھا اس كى بيٹى نے حضرت امام حسن (ع) كو زہر ديااس كابيٹا محمد بھى حضرت امام حسين(ع) كے قتل ميں شريك تھا بحار ج 42/226_

34_ بحار ج 42/224 ، ارشاد مفيد 14_

35_ و اللہ ما كذبت و لا كذبت انہا معى ليلة التى وعدت فيہا بحار ج 42/226 ، ارشاد 15 _

36_ ذروہن فانہن نوائح بحار ج 42 /226 ، و ارشاد مفيد/15_

37_ بحار ج 42/226 ، ارشاد ص 12_

38_ مناقب ج 3/312 ، بحار ج 42/239_

39_ بحار الانوار ج 42 /288_287_

40_ مقاتل الطالبين 23_

41_ سورہ زلزال آيہ 6_

42_ بحارالانوار ج 42/294_

..............................................

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

رسالت پر ایمان لانے کا تقاضا
الکافی
چھے لوگوں کی شوریٰ( اہل سنت کے مآخذ سے منطقی تحلیل ...
آسيہ
جنت البقیع کا تاریخی تعارف
عمار بن یاسر کے اشعار کیا تھے؟
مشرکینِ مکہ کی مکاریاں
واقعہ فدک
تاریخ اسلام کو دیگر تواریخ پر فضیلت
گروہ ناکثین (بیعت شکن)

 
user comment