اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

محکمات و متشابہات

محکمات و متشابہات

زیر بحث آیت کو دیکھتے هوئے ایک بات جو بہت سے موارد میں پیش آتی هے عرض کردینا ضروری هے اور وہ یہ کہ قرآن کی بعض آیتیں بعض دوسری آیتوں کی تفسیر کرتی هیں: "القرآن یفسّر بعضہ بعضاً" قرآن ایک کھلی هوئی اور روشن کتاب هے۔ خود بھی روشن و واضح هے اور ظاہر و آشکار کرنے والی بھی، خود قرآن کہتا هے کہ مجھ میں دو طرح کی آیتیں موجود هیں، محکمات اور متشابہات۔ آیا ت محکمات کو قرآن "ام الکتاب" کا نام دیتا هے۔ جو ایک عجیب تعبیر هے: ھو الذی انزل علیک الکتاب منہ آیات محکمات ھنّ ام الکتاب واخر متشابھات" متشابہ آیت ایسی آیت هے جس کے مفهوم کو کئی اعتبار سے معنی پہنائے جاسکتے هیں۔ آیت محکمہ سے صرف فقط ایک هی مفهوم اور معنیٰ نکلتا هے۔ قرآن جو آیات محکمات کو "ام" یا ماں کے نام سے یاد کرتا هے، اس کا مطلب یہ هے کہ متشابہ آیات کو محکم آیات کی مدد سے معنی پہنائے جاسکتے هیں۔ اگر قرآن کی کوئی آیت ایسی هو جس کے چند معنی نکلتے هوں تو ہمیں خود اس کے معنی بیان کرنے اور شرح کرنے کا کوئی حق نهیں هے۔ اس کی ایک هی صورت هے۔ وہ یہ کہ اس آیت کو سمجھنے کے لئے قرآن کی طرف رجوع کرنا هوگا اور اس کی تمام آیات کی روشنی میں هی اس آیت کا مفهوم سمجھا جاسکے گا۔ متشابہ آیت کا مطلب یہ نهیں هے کہ وہ مجمل هے یا اس میں جو لفظیں استعمال کی گئی هیں اس کے معنی ہم نهیں جانتے بلکہ ایسی آیت کا مطلب یهی هے کہ اس کے ایک دوسرے سے قریب اور متشابہ کئی معنی بیان کئے جاسکتے هیں۔

مثلاً قرآن کریم میں پروردگار عالم کی مشیت مطلقہ سے متعلق آیتیں هیں جو ظاہر کرتی هیں کہ تمام چیزیں مشیت الٰہی کے تحت هیں۔ اس میں کوئی استثناء نهیں هے۔ منجملہ ان میں سے یہ آیت هے جو اسی بنا پر متشابہ هے:قل اللّھم مالک الملک تؤتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممّن تشاء وتعزّ من تشاء و تذلّ من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شیٔ قدیر[1] " (اب اس سے زیادہ محکم وبالا تر تاکید نهیں هوسکتی) یعنی کهو کہ اے میرے خدا!تمام ملکوں اور تمام قوتوں کا اصل مالک تو هے۔ جیسے چاہتا هے تو ملک عطا کرتا هے اور جس سے چھیننا چاہتا هے تو چھینتا هے جسے عزت دیتا هے تو بخشتا هے اورجسے ذلیل کرتا هے تو ذلیل کرتا هے۔ خیر و بھلائی صرف اور صرف تیرے ہاتھ میں هے اور تو ہر شۓ پر قادر هے۔" یہ آیت اس اعتبار سے متشابہ هے کہ اس کے کئی طرح سے معنی کئے جاسکتے هیں۔ اجمالاً یہ آیت اتنا هی کہتی هے کہ ہر شیٔ مشیت الٰهی میں هے اور یہ بات دو طرح سے ممکن هے، ایک یہ کہ مشیت الٰهی میں کوئی چیز کسی شیٔ کے لئے شرط نهیں، جیسا کہ بعض لوگوں سے اسی طور پر غلط نتیجہ اخذ کیا هے اورکہا هے کہ ممکن هے وہ تمام حالات و شرائط جنھیں ہم عزت کے شرائط کے نام سے یاد کرتے هیں، فراہم هوجائیں، پھر بھی عزت کے بجائے ذلت ہاتھ آئے، اور یہ بھی ممکن هے کہ ذلت کے تمام حالات و شرائط پیدا هوں لیکن اس کا نتیجہ عزت کی صورت میں سامنے آئے! دنیا و آخرت کی سعادت و نیک بختی هیں کوئی شۓ کسی چیز کے لئے شرط نهیں هے کیونکہ تمام چیز مشیت الٰهی سے وابستہ هے! نتیجہ یہ نکلا کہ ممکن هے کوئی قوم یا کوئی شخص بلا کسی سبب یا بغیر کسی مقدمہ کے دنیا میں عزت و شرف کے کمال پر پہنچ جائے یا بلا کسی سبب کے ایک دم ذلیل و رسوا هوجائے۔ یوں هی ممکن هے آخرت میں کسی قوم کو بلا کسی قید و شرط کے اعلیٰ علّیین کا مرتبہ عطا کردیا جائے اورکسی قوم کو بلا سبب اور بغیر کچھ دیکھے بھالے جہنم کے درک اسفل میں ڈال دیا جائے۔ افسوس یہ هے کہ بعض مسلمانوں نے جنھیں اشاعرہ کہتے هیں اس آیت سے یهی نتیجہ اخذ کیا هے، اور کہتے هیں کہ اس میں کوئی مضائقہ نهیں  اگر (معاذاللہ) پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہنم میں چلے جائیں اور ابوجہل جنت میں بھیج دیا جائے کیونکہ خدا نے کہا هے کہ سب کچھ خدا  کی مشیت کے تحت هے۔

لیکن یہ آیت سے مفهوم و مطلب نکالنے کا ایک غلط انداز هے۔ آیت صرف اتنا کہہ رهی هے کہ سب کچھ مشیت الٰهی میں هے۔ یہ نهیں بیان کرتی کہ مشیت کسی طرح کار فرماهوتی هے، اور نہ یہ بیان کرتی هے کہ سعادت و شقاوت اور عزت و ذلت وغیرہ کے سلسلہ میں مشیت الٰهی کیا عمل کرتی هے۔ لہٰذا اس آیت سے کئی معنی مراد لئے جاسکتے هیں لیکن جب ہم قرآن کی دوسری آیات کی طرف رجوع کرتے هیں تو وہ محکم یا "ام الکتاب" کی حیثیت سے اس آیت کی تفسیر کرتی نظر آتی هیں۔ مثال کے طور پر یہ آیت بالکل صاف لفظوں میں کہتی هے: ذالک بانّ اللہ لم یک مغیّراً نعمۃً انعمھا علیٰ قوم حتّیٰ یغیّروا مابانفسھم[2] "  یا یہ آیت جو ایک حیثیت سے عمومیت رکھتی هے:انّ اللہ لا یغیّر مابقوم حتّیٰ یغیروا ما بانفسھم[3] " ان دونوں آیتوں میں سے ہر ایک جو بات رکھتی هے، وہ دوسری میں نهیں پائی جاتی۔ دوسری آیت یہ کہتی هے:کہ خداوند عالم اس وقت تک کسی قوم سے اس کی کوئی چیز نهیں لیتا جب تک وہ خود سے اس چیز کو سلب نہ کرلیں جو ان کے درمیان موجود هے۔ یہ آیت عمومیت رکھتی هے یعنی خداوند عالم کسی بھی قوم سے اس کی کوئی نعمت سلب نهیں کرتا اور انھیں بدبختی میں مبتلا نهیں کرتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو بدل نہ دیں۔ اسی طرح بدبخت قوم سے اس کی بدبختی دور نهیں کرتا جب تک وہ خود اپنے حالات نہ بدلیں جبکہ پہلی آیت میں فقط نعمتوں کا تذکرہ هے، بدبختی کا کوئی ذکر نهیں هے، ہاں اس میں ایک نکتہ کا اضافہ هے، اور وہ یہ هے کہ ارشاد هوتا هے: "ذالک بانّ اللہ لم یک مغیراً " یہ اس سبب سے کہ خدا ایسا نهیں هے یا نهیں رہا هے، جیسا کہ وہ قرآن میں فرماتا هے:  ماکان اللہ، خدا ایسا نهیں رہا هے۔ یعنی اس کی الوهیت اسے قبول نهیں کرتی کہ وہ کسی قوم سے بلا سبب کوئی نعمت سلب کرلے۔ مشیت پروردگار بلا وجہ اور عبث کارفرما هو اور کسی شۓ کو کسی چیز کے لئے شرط قرار نہ دے یہ وہ فکر هے جو ذات خدا کی حکمت وکمال اور اس کی الوهیت کے سراسر خلاف هے۔ چنانچہ مذکورہ دونوں آیتیں اس آیت کے لئے مادر قرار پائیں جنھوں نے اس کی تفسیر کردی۔ مشیت سے متعلق آیتیں بس اتنا بتاتی هیں کہ تمام چیزیں خدا کے اختیار میں هیں۔ اور یہ دونوں آیتیں بتاتی هیں کہ مشیت خدا دنیا میں اس طرح اور اس قانون کے تحت کارفرما هوتی هے۔ معلوم هوا کہ یہ مطلب قرآن کا بہت هی مناسب بنیادی اور اصلی مطلب هے اور بہت سی آیتوں میں اس بات کو دہرایا گیا هے کہ اگر ہماری نعمت کا شکر بجالاؤ گے یعنی اس سے صحیح فائدہ حاصل کرو گے تو ہم اسے تمہارے لئے باقی رکھیں گے۔ اور اگر ہماری نعمت سے کھیلو گے اورکفران نعمت کرو گے تو ہم اسے تم سے سلب کرلیں گے۔

اس اعتبار سے الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم واخشون" کا مطلب یہ هے کہ اب کفار، اسلامی معاشرہ سے باہر (تمہارے دین کو فنا کرنے سے(  مایوس هوگئے۔ اب دنیائے اسلام کو ان کی طرف سے کوئی خطرہ نهیں هے۔ اب مجھ سے ڈرو یعنی اے مسلمانو ! اب خود اپنے آپ سے ڈرو۔ اب آج کے بعد سے اگر کوئی خطرہ هوگا تو  یہ هوگا کہ تم لوگ نعمت اسلام کے سلسلہ میں بد عمل هوجاؤ اورکفران نعمت کرنے لگو، اس دین سے جو فائدہ اٹھانا چاہئے نہ اٹھاؤ نتیجہ میں ہمارا یہ قانون تمہارے سلسلہ میں بھی جاری هو:ان اللہ لا یغیّر ما بقوم حتّیٰ یغیروا مابانفسھم " آج کے دن سے اسلامی معاشرہ کو کوئی باہری خطرہ نهیں رہ گیا۔ اب جو بھی خطرہ هے، داخلی خطرہ هے۔

سوال و جواب

سوال: جیساکہ آپ نے فرمایا، ہمارا عقیدہ هے کہ امام دین و دنیا دونوں کا پیشوا هوتا هے۔ اور یہ منصب مذکورہ دلائل سے حضرت امیرالمومنین علی(علیہ السلام) کی ذات سے مخصوص هے۔ پھر قتل عثمان کے بعد جب لوگ آپ کی بیعت کرنے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تامل کیوں فرمایا؟ یہ کوئی تامل کی جگہ نهیں تھی۔ اسے تو آپ کو خود بخود قبول کرنا چاہئے تھا۔

جواب: جناب کا یہ سوال "خلافت و ولایت" نام کی کتاب میں بھی جو کچھ عرصہ پہلے شایع هوئی هے اٹھایا گیا هے۔ اس کا جواب خود حضرت علی (علیہ السلام) کے ارشاد سے ظاہر هے۔ جب لوگ آپ کے پاس بیعت کے لئے آئے تو آپ نے فرمایا: دعونی والتمسوا غیری فانّا مستقبلون امراً وجوہ والوان[4]" مجھے چھوڑ دوکسی اور کے پاس جاؤ کیونکہ بڑے هی سیاہ و تاریک حوادث ہمیں در پیش هیں (عجیب و غریب تعبیر فرمائی هے) مجھے ایسا امر در پیش هے جسکے کئی چہرے هیں یعنی ایک صورت سے اسے حل نهیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لئے مختلف صورتیں اختیار کرنی هوں گی۔ اس کے بعد فرماتے هیں:"انّ الآ فاق قد افامت والمحجّۃ قد تنکّرت۔" مختصر یہ کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو روشن و واضح راہ معین فرما گئے تھے وہ راہ اب انجانی هوگئی هے۔ فضا ابر آلود هوچکی هے۔ "اور آخر میں فرماتے هیں اگر میں تم پر حکومت کروں گا تو: رکبت بکم ما اعلم " اس روش پر حکومت کروں گا جو میں جانتا هوں تمہاری دلخواہ حکومت نهیں کروں گا۔

اس بات سے پتہ چلتا هے کہ امیرالمومنین(علیہ السلام) نے یہ بات جو تاریخی حیثیت سے بھی پورے طور سے قطعی ومسلّم هے، اچھی طرح درک کر لی تھی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد کے عہد اور آج کے زمانہ میں زمین اور آسمان کا فرق هوچکا هے یعنی حالات بڑی هی عجیب و غریب حد تک تبدیل اور خراب هوچکے هیں، اور یہ جملہ امام علیہ السلام نے کامل طور پر اتمام حجت کے لئے فرمایا هے، کیونکہ بیعت کا مطلب ان لوگوں سے پیروی کرنے کا عہد لیتا هے، بیعت کا مطلب یہ نهیں هے کہ اگر تم لوگ بیعت نهیں کرو گے تو میری خلافت باطل هوجائے گی۔ بلکہ بیعت یہ هے کہ لوگ اس بات کا قول دیتے هیں کہ آپ جو عمل انجام دیں ہم آپ کے ساتھ هیں۔

یہ بات تمام شیعہ اور اہل سنت مؤرخین نے لکھی هے کہ عمر کے بعد شوریٰ کا جو قضیہ پیش آیا، اس شوریٰ کے چھ  افراد میں سے ایک علی (علیہ السلام) بھی تھے۔ اس میں تین افراد دوسرے تین افراد کے حق میں دست بردار هوگئے۔ زبیر، علی (علیہ السلام) کے حق میں الگ هوگئے، طلحہ ،عثمان کے حق میں اور سعد وقاص، عبد الرحمن بن عوف کے حق میں علاحدہ هوگئے۔ باقی بچے تین افراد ان تین افراد میں سے عبدالرحمان بن عوف نے خود کو میدان هی سے الگ کرلیا۔ دو شخص باقی بچے علی(علیہ السلام) اورعثمان (اور اس ایثار کے عوض( انتخاب کی کلید عبد الرحمان بن عوف کے ہاتھ میں آگئی کہ وہ جسے منتخب کریں وهی خلیفہ هے۔ وہ پہلے امیرالمومنین(علیہ السلام) کے پاس آئے اور کہا میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے آمادہ هوں لیکن ایک شرط هے کہ آپ کتاب خدا، سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سیرت شیخین کے مطابق عمل کریں گے۔  آپ نے فرمایا میں تیار هوں لیکن صرف کتاب خدا  سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عمل کروں گا۔ سیرت شیخین سے انکار کردیا۔ عبدالرحمن بن عوف نے عثمان کے سامنے بھی بیعت کے لئے یهی شرط رکھی۔ انهوں نے کتاب خدا، سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سیرت شیخین پر عمل کی شرط قبول کرلیا۔ جبکہ بقول آقای محمد تقی شریعتی"عثمان نے سیرت شیخین پر عمل کا وعدہ تو کیا تھا لیکن اتفاق سے ان کی سیرت پر عمل هی نهیں کیا۔" اگر ہم یہاں مقائسہ و موازنہ کریں تو چونکہ سیرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اور سیرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک هی تھی اس لئے آپ کی سیرت شیخین کی سیرت سے بھی بہت کچھ ملتی جلتی تھی کیونکہ شیخین کافی حد تک پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت پر عمل کرتے تھے۔ لیکن اگر امیر المومنین (علیہ السلام) اس وقت اس شرط کو قبول کرلیتے تو گویا وہ انحراف اور غلطیاں جو شیخین کے دور میں پیدا هوچکی تھیں ان پر صادر فرمادیتے اور پھر ان غلطیوں کے خلاف اقدام یامقابلہ نهیں کرسکتے تھے لہٰذا آپ نے اس شرط کو قبول نهیں فرمایا۔ مثال کے طور پر تفاضل (وظائف کی تقسیم میں کمی یا زیادتی) کا مسئلہ یعنی انصار و مہاجرین اور عرب و عجم وغیرہ کے درمیان امتیاز پیدا کرکے مساوات اسلامی کو ختم کرنے کی بنیاد عمر کے زمانہ میں هی پڑی هے جبکہ امیرالمومنین(علیہ السلام) اس کے سخت مخالف تھے ، چنانچہ اگر آپ فرمادیتے کہ میں سیرت شیخین کے مطابق عمل کروں گا تو جو کچھ عمر کے زمانہ میں هوچکا تھا اسے باقی رکھنے پر مجبور هوتے جبکہ آپ اس عمل پر اپنی مہر ثبت کرنا نهیں چاہتے تھے ۔ ساتھ هی جھوٹا وعدہ بھی نهیں کرنا چاہتے تھے کہ آج کہدیں کہ ہاں میں عمل کروں گا اورکل اس سے مکر جائیں۔ یهی وجہ تھی کہ آپ نے صاف انکار کردیا ۔

بنابر ایں جب علی(علیہ السلام)، عمر کے بعد سیرت شیخین پر عمل کرنے کو آمادہ نهیں تھے جبکہ سیرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے انحرافات بہت کم تھے (تو ظاہر سی بات هے کہ ) عثمان کے بعد جب حالات ایک دم خراب هوچکے تھے اور خود حضرت (علیہ السلام) کے بقول اسلام کا اندوھناک مستقبل کئی رخ سے سامنے آرہا تھا۔ مزید یہ کہ مسلمان بھی یهی چاہتے تھے کہ وہ جس طرح چاہتے هیں علی(علیہ السلام) اس طرح حکومت کریں، ایسی صورت میں آپ نے صاف طور پر واضح کردینا ضروری سمجھا کہ اگر میں حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لوں گا تو جس طرح میں مناسب سمجھوں گا عمل کروں گا نہ یہ کہ جس طرح تم چاہتے هو۔ چنانچہ آپ ان لفظوں میں حکومت سے انکار نهیں فرما رهے تھے بلکہ آپ مکمل طور سے اتمام حجت کردینا چاہتے تھے۔

سوال: ہم دیکھتے هیں کہ خود قرآن میں اتحاد کے سلسلہ میں بہت تأکید کی گئی هے لہٰذا مسئلہ و امامت اور جانشینی امیر المومنین(علیہ السلام) کی اہمیت کے پیش نظر یہ سوال اٹھتا هے کہ اس کا ذکر صاف لفظوں میں قرآن میں کیوں نہ کردیا گیا اور خود پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعدد مواقع پر اس موضوع کو کیوں بیان نهیں فرمایا؟

جواب: یہ دو الگ الگ سوال هیں۔ ایک یہ کہ قرآن میں اس موضوع کا صراحت سے ذکر کیوں نہ هوا۔ اور دوسرے یہ کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعدد مواقع پر اس مسئلہ کو بیان فرمایا یا نهیں؟ اس طرح قرآن کریم نے مختلف مقامات پر اس مسئلہ کا ذکر کیا هے یا نهیں؟ دوسرے سوال کے جواب میں ہم یهی کہتے هیں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت هے حتیٰ بہت سے اہل سنت بھی اسے قبول کرتے هیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات متعدد مقامات پر بیان فرمائی هے۔ یہ بات صرف غدیر خم تک محدود نهیں رهی هے اور یہ بات موضوع امامت سے متعلق کتابوں میں موجود هے، جملہ: "انت منّی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الّا انہ لا نبیّ بعدی " آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک کے واقعہ کے دوران فرمایا۔ یا جملہ : لاعطینّ الرّایۃ غداً رجلاً کراراً یحب اللہ ورسولہ ویحبہ اللہ ورسولہ" جو علی (علیہ السلام) کے مرتبہ و منزلت کو ثابت کرتا هے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ خیبر میں ارشاد فرمایا تھا۔ یہاں تک کہ بعثت کے شروع میں هی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش سے خطاب کرتے هوئے فرمایا تھا: تم میں سے جو سب سے پہلے میری بیعت کرے گا وہ میرا وصی، وزیر  (حتیٰ وصی و وزیر اورخلیفہ ) هوگا۔ ( اور وہ شخص علی (علیہ السلام) هی تھے)

 یهی صورت حال قرآن مجید میں هے۔ قرآن میں بھی اس مسئلہ کو ایک، دو نهیں بلکہ متعدد جگهوں پر ذکر کیا گیا هے۔ صرف سوال اتنا سا هے اور اتفاق سے یہ سوال بھی کتاب "خلافت و ولایت" میں اٹھایا گیا هے کہ قرآن میں سیدھے سیدھے نام کا ذکر کیوں نهیں کردیا گیا ؟ چونکہ ہم تحریف قرآن کے قائل نهیں هیں اور ہمارے عقیدہ کے مطابق کوئی چیز قرآن میں کم یا زیادہ نهیں هوئی هے لہٰذا یہ طے هے کہ کهیں بھی علی (علیہ السلام) کا نام صراحت کے ساتھ ذکر نهیں هوا هے۔

یہاں اس مسئلہ کو دو رُخ سے بیان کیا جاتا هے۔ ایک تو اسی کتاب "خلافت و ولایت" میں جناب محمد تقی شریعتی نے اس کی بڑے اچھے انداز میں وضاحت کی هے قرآن ایک مخصوص طرز و روش رکھتا هے اور وہ یہ کہ موضوعات کو ہمیشہ ایک اصل کے طور پر بیان کرتا هے انفرادی و شخصی صورت میں ذکر نهیں کرتا اور یہ بذات خود قرآن کا ایک امتیاز هے۔ مثلاً: "الیوم اکملت لکم دینکم" کے مسئلہ میں، کفار اس دین سے اس وجہ سے مایوس هوگئے کہ وہ برابر کہا کرتے تھے کہ جب تک پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود هیں کچھ نهیں کیا جاسکتا۔ ہاں ان کے اٹھ جانے کے بعد کوئی مسئلہ نهیں رهے گا، سب کچھ تمام هوجائے گا۔ مخالفین پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گویا یہ آخری امید تھی۔ لیکن جب انهوں نے دیکھ لیا کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کی بقا کی تدبیر بھی کر ڈالی کہ میرے بعد لوگوں کا فریضہ کیا هے تو مایوس هوگئے۔

دوسری بات جسے اہل سنت نے بھی لکھا هے، یہ هے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام میں قرآن کی آیت میں لفظ:  واخشون " سے متعلق کافی فکر مند اور پریشان رہتے تھے۔ یعنی خود امت کے ہاتھوں امت کے مستقبل سے متعلق فکر مند تھے۔ یہاں میں جو حدیث نقل کررہا هوں اسے اہل سنت نے بھی نقل کیا هے۔ ابو مذیہبہ، عائشہ کے غلام کا بیان هے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کی آخری شبیں تھیں ایک رات نصف شب کے وقت میں نے دیکھا کہ پیغمبر (ص )اپنے حجرہ سے تنہا باہر تشریف لائے۔ کوئی شخص بیدار نہ تھا۔ آپ بقیع کی طرف روانہ هوئے۔ میں نے جب دیکھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنھا تشریف لے جارهے هیں تو خیال هوا کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنہا نہ چھوڑیں۔ اس خیال سے حضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پیچھے یوں چلنے لگا کہ دور سے آنحضرت کا هیولا نظر آتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل بقیع کے لئے استغفار کیا۔ اس کے بعد کچھ جملے ارشاد فرمائے جس کا مضمون یہ هے : "تم سب چلے گئے، کیا خوب گئے اور سعادت و نیکی سے ہمکنار هوئے۔ اب فتنے سر اٹھارهے هیں "کقطع اللیل المظلم" یعنی اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح۔ "اس سے پتہ چلتا هے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بعد کے فتنوں کی پیشین گوئی فرمارهے تھے جن میں مسلم طور پر یہ مسئلہ بھی رہا هے۔

رهی یہ بات کہ ( قرآن نے صاف طور سے جانشین پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کا ذکر کیوں نہ کردیا ) تو اس کے جواب میں پہلی بات یہ کهی جاتی هے کہ قرآن کا اصول یہ هے کہ وہ مسائل کو ایک اصل کی شکل میں بیان کرتا هے۔ دوسرے نہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور نہ خداوند عالم کا منشاء یہ تھا کہ یہ مسئلہ جس میں آخرکار هوا وهوس کے دخل کا امکان هے۔ اس صورت سے سامنے آئے اگر چہ  (جو کچھ ذکر کیا گیا) اس میں بھی لوگوں نے اپنی طرف سے توجیہ و اجتہاد کرکے یہ کہنا شروع کردیا کہ نهیں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقصد اصل میں یہ تھا اور وہ تھا۔ یعنی اگر کوئی آیت بھی ( اس مسئلہ میں نام کی صراحت کے ساتھ ) ذکر هوئی هوتی تو اس کی بھی  توجیہ اپنے مطلب کے مطابق کردی جاتی۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد میں پوری صراحت کے ساتھ "ھٰذا علی مولاہ" فرمایا، اب اس سے زیادہ صریح اور واضح با ت کیا هوسکتی هے؟! لیکن بہر حال پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صریحی ارشاد کو زمین پر دے مارنے اور قرآن کی ایک آیت سے نام کی صراحت کے باوجود پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دنیا سے اٹھتے هی انکار کردینے اوراس کی غلط توجیہ کرنے میں بڑا فرق هے۔ چنانچہ میں اس جملہ کو کتاب ( خلافت و ولایت ) کے مقدمہ میں نقل کرچکا هوں کہ ایک یهودی نے حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کے زمانہ میں صدر اسلام کے ناخوش آئند حالات کے بارے میں مسلمانوں پر طنز کرنا چاہا ( اور حقیقتاً یہ  طنز کی بات بھی هے ) اس نے حضرت سے کہا : مادفنتم نبیّکم حتیٰ اختلفتم فیہ" "ابھی تم نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دفن بھی نهیں کیا تھا کہ ان کے بارے میں جھگڑنے لگے۔ امیر المومنین (علیہ السلام) نے عجیب جواب دیا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: انّما اختلفنا عنہ لا فیہ ولٰکنّکم ما جفّت ارجلکم من البحر حتّیٰ قلتم لنبیّکم اجعل لنا الٰہً کما لھم الھۃً فقال انّکم قوم تجھلون۔[5]ہم نے پیغمبر کے بارے میں اختلاف نهیں کیا بلکہ ہمارا اختلاف اس دستور و حکم کے سلسلہ میں تھا جو ان کے ذریعہ ہم تک پہنچا تھا، لیکن ابھی تمہارے پاؤں دریا کے پانی سے خشک بھی نہ هوئے تھے کہ تم نے اپنے پیغمبر سے یہ تقاضہ کردیا کہ وہ دین کی پہلی اور بنیادی اصل یعنی توحید کو هی غارت کردے، تم نے اپنے نبی سے یہ خواہش ظاہر کی کہ دوسروں کے خداؤں کی طرح، ہمارے لئے بھی ایک بت بنادو۔ پس جو کچھ تمہارے یہاں گزرا اور جو ہمارے یہاں پیش آیا ان دونوں میں بہت فرق هے۔ دوسرے لفظوں میں ہم نے خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اختلاف نهیں کیا بلکہ ہمارا اختلاف یہ تھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دستور کا مفهوم اور مطلب کیا هے۔ بڑا فرق هے ان دونوں باتوں میں کہ جس کام کو انھیں بہر حال انجام دینا تھا۔ اس کی توجیہ ظاہر میں اس طرح هو (نہ یہ کہ حقیقتاً ایسا هی تھا ) کہ یہ کہا جائے ( جو لوگ اس خطا کے مرتکب هوئے ) ان کا خیال یہ تھا کہ اصل میں پیغمبر(ص) کا مقصود یهی تھا نتیجہ میں انهوں نے آنحضرت کے قول کی اس شکل میں توجیہ کر ڈالی یا یہ کہا جائے کہ اتنی صریح اور واضح قرآن کی نص کو ان لوگوں نے ٹھکرادیا یا قرآن کی تحریف کرڈالی۔

سوال:فلاں ڈاکٹر صاحب نے جو سوال دریافت فرمایا هے اسے میں اس صورت میں پیش کررہا هوں کہ یہ صحیح هے کہ قرآن میں اصل اور بنیادی قانون هی بیان هونا چاہئے لیکن جانشینی کی اصل اور اسلام میں حکومت کا مسئلہ تو مسلم طور پر بڑی اہمیت کا حامل هے۔ اس لئے چاہئے یہ تھا کہ قرآن میں نام کا ذکر هونے کی حیثیت سے نهیں بلکہ ایک دستور العمل کی حیثیت سے اس مسئلہ کو واضح طور سے بیان کردیتا هے۔ مثلاً پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ وحی هوجاتی کہ تمیہں اپنا جانشین معین کرنا هے۔ اور تمہارا نائب بھی اپنا جانشین خود معین کرے گا۔ اور یوں هی یہ سلسلہ آخر تک قائم رہتا۔ یا دستور یہ هوتا کہ جانشین کا انتخاب مشورہ ( شوریٰ ) سے هوگا یا انتخاب سے هوگا ۔ یعنی اسلام جیسے دین کے لئے جس میں حکومت و حاکمیت لازم و ضروری هے جانشینی کا مسئلہ کوئی ایسی معمولی بات نهیں هے جسے اپنے حال پر چھوڑدیا جائے اور اس کی وضاحت نہ کی جائے۔ کوئی نہ کوئی جانشینی کا دستور تو هونا هی چاہئے تھا۔ مسئلہ یہ نهیں هے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے نام کا ذکر کیا جاتا یا نہ کیا جاتا۔ بلکہ جانشینی و حکومت کے طریقہ کار سے متعلق اس قدر اختلافات کو دیکھتے هوئے ایک مستقل دستور العمل کی ضرورت بہر حال محسوس هوتی هے کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! تمہارا فرض هے کہ اپنا جانشین مقرر کردو۔ اب یہاں ممکن هے یہ اختلاف هوتا کہ کون جانشین هے مختلف تفسیریں کی جاتیں۔ لیکن یہ بات تو قطعی اور یقینی هوتی کہ اپنا جانشین پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود معین فرمایا تھا۔ اس کا مسلمانوں کی شوریٰ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسی طرح جانشین پیغمبر اپنے بعد اپنا جانشین یا امام مقرر کرتا۔ یا لوگوں کا گروہ اس کا انتخاب کرتا یا پھر لوگ اس سلسلہ میں مشورہ کرتے؟ بہر حال میری دانست میں یہ قضیہ قرآن کی روشنی میں بھی مبہم رہ گیا هے۔ اور ہمارے پاس اس سلسلہ میں کوئی صریحی دستورالعمل موجود نهیں هے۔

دوسرے یہ کہ میں نے کچھ عرصہ پہلے اسلام میں حکومت" کے موضوع پر ایک کتاب دیکھی جس میں خود حضرت علی (علیہ السلام) اور دیگر اشخاص کے بہت سے اقوال نقل هیں، جن سے پتہ چلتا هے کہ یہ امر (یعنی امر خلافت) عام مسلمانوں سے مربوط هے اور مسلمانوں کو اس میں فیصلہ کا حق هے۔ ارباب حل و عقد کو اپنی رائے دینا چاہئے۔ امر خلافت میرا مسئلہ نهیں هے۔ ان لوگوں کو مشورہ کرنا چاہئے اور اپنی رائے پیش کرنی چاہئے، نیز مصنف نے ایسے بہت سے دلائل اکٹھا کئے هیں جو ثابت کرتے هیں کہ اسلام میں حکومت کا مسئلہ ایک امر انتخابی هے۔ نہ کہ تعیینی کسی کو یہ حق نهیں هے کہ وہ اپنا جانشین خود مقرر کرے اس سلسلہ میں آپ کیافرماتے هیں؟

تیسرے یہ کہ اگر ہم فرض کرلیں کہ یہ بارہ امام جانشین کے عنوان سے یکے بعد دیگر معین هوئے هیں (اس سے بحث نهیں کہ وحی کے ذریعہ معین هوئے یا کسی اور ذریعہ سے) یہ بتائیں کہ اسلامی معاشرہ میں ہمیشہ کے لئے کلی و قطعی طور پر جانشین کے تعیین کا ( نہ کہ انتخاب کا) کیا اصول یا قانون هے۔ یعنی کیا پہلے سے یہ کہا جاچکا تھا کہ وحی الٰهی کے مطابق صرف یہ بارہ ائمہ (علیہم السلام) جو ان خصوصیات کے حامل یعنی معصوم و……هیں یکے بعد دیگر ے تعیین هوں گے اورا س کے بعد زمانۂ غیبت میں مثلاً یہ مسئلہ انتخاب کے ذریعہ حل هوگا؟ کیا اس کی وضاحت کی گئی هے ؟ یہ استنباط تو خود ہماری طرف سے هے کہ چونکہ اس وقت بارھویں امام (علیه السلام) حاضر و موجود نهیں هیں لہٰذا حکومت کا سربراہ مجتہد جامع الشرائط هوگا یا نہ هوگا۔ لیکن قرآن کو ایک بنیادی دستور العمل مسلمانوں کے حوالہ کرنا چاہئے کہ (پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد شروع میں) ہم چند معصوم اشخاص کو خصوصی طور سے تم پر حاکم مقرر کریں گے۔ ان کے بعد تم خود اپنے باہمی مشوروں سے ( کسی کا انتخاب کرو ) یا فقیہ جامع الشرائط تم پر حاکم هوگا۔ یہ مسئلہ بھی گیارھوں امام کےبعد سے الجھ جاتا هے اور پھر اشکالات و اختلافات اٹھ کھڑے هوتے هیں شیعی نقطۂ نظر سے اس مسئلہ کا کیا حل هے؟

جواب: ان سوالات کے جوابات ایک حد تک ھم گذشتہ جلسوں میں عرض کرچکے هیں۔آپ نے مسئلہ امامت کو دوبارہ اٹھایا هے۔ وہ بھی صرف مسئلہ حکومت کی شکل میں۔ ہم گزشتہ ہفتوں میں عرض کرچکے هیں کہ مسئلہ حکومت مسئلۂ امامت سے الگ هے۔ اور شیعی نقطۂ نظر سے امام کی موجودگی میں حکومت کا مسئلہ ویسا هی هے جیسا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں تھا۔ یہاں حکومت استثنائی حکم رکھتی هے۔ یعنی جس طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یہ مسئلہ نهین اٹھتا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے هوتے هوئے حکومت کس کی هوگی یوں هی امام  (یعنی اس مرتبہ کا امام جس کے شیعہ قائل هیں) کی موجودگی اور اس کے حضور میں بھی حکومت کا مسئلہ ایک فرعی اور طفیلی حیثیت سے زیادہ وقعت نهیں رکھتا۔ اگر ہم مسئلہ حکومت کو بالکل الگ کرکے پیش کریں تو یہ ایک علاحدہ مسئلہ هے۔ یعنی ایسے زمانہ میں جس میں امام کا وجود هی نہ هو (اور ایسا کوئی زمانہ هے هی نهیں) یا پھر امام غیبت میں هو تو ایسی صورت میں البتہ یہ ایک بنیادی مسئلہ بھی هے۔ اسی بناپر ہم :"امرھم شوریٰ بینھم" کے منکر نهیں هیں۔ لیکن یہ "امرھم شوریٰ بینھم" کہاں عمل میں آئے گا؟ کیا شوریٰ  اس مسئلہ میں بھی کار فرما هوگی جس میں قرآنی نصّ موجود هے اور فرائض و وظائف روشن و واضح هیں؟ ظاہر هے کہ ایسا نهیں هے۔ بلکہ شوریٰ ان مراحل کے لئے هے جہاں نہ کوئی حکم الٰهی موجود هو اور نہ کوئی دستور ہم تک پہنچا هو۔

رهی "حکومت در اسلام " نامی کتاب میں تحریر مسائل کی بات، البتہ میں نے اس پر کامل تحقیق نهیں کی هے افسوس کی بات یہ هے کہ اس کتاب میں اول تو زیادہ تر مسائل یک طرفہ بیان هوئے هیں یعنی دلائل کے ایک رخ کو لکھا گیا هے اور ان کے مخالف دلائل کا کوئی ذکر هی نهیں هے اور یہ اس کتاب کا بہت بڑا عیب هے کیونکہ انسان اگر کچھ لکھتا هے تو اسے ہر پہلو کو مد نظر رکھنا چاہئے اس کے بعد دیکھنا چاہئے کہ ان تمام دلائل میں کون سی دلیلیں وزنی اور معتبر هیں؟ کسے اپنانا چاہئے اور کسے چھوڑنا چاہئے۔؟

اس کتاب کا دوسرا عیب یہ هے کہ اس میں مطالب بیان کرنے کے سلسلہ میں قطع و برید سے کام لیا گیا هے (اگر چہ میں نے خاص طور سے اس کتاب کا مطالعہ نهیں کیا هے، لیکن جن اہل نطر افراد نے اسے پڑھا هے۔ وہ یهی کہتے هیں کہ) اس نے جملوں کو ادھر اُدھر سے کاٹ کر درمیان سے اپنے مطلب کی بات نقل کی هے۔ نتیجہ میں جملہ کا مفهوم هی بدل گیا هے۔ اگر پوری بات نقل کی جاتی تو کبھی یہ معنی و مقصود ظاہر نہ هوتے۔ اس کے علاوہ ان دلائل کا بڑا حصہ ان مسائل سے مربوط هے جو امام کی موجودگی اور ان کے حضور کے زمانہ سے تعلق نهیں رکھتے، اور امام کی عدم موجودگی یا غیبت میں شوریٰ و انتخاب کی اہمیت سے کسی کو انکار نهیں هے۔

 



[1] سورۂ آل عمران، آیت / ۲۶

 

[2] سورۂ انفعال/ ۵۳

[3] سورۂ رعد/ ۱۱

[4] نہج البلاغہ، فیضی الاسلام خطبہ ۹۱

[5] نہج البلاغہ، حکمت ۳۱۷

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment