اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

خوارج كى نامزدگي

273

خوارج كى نامزدگي

ان سركشوں اور باغيوں كى حماقتيں اور كوتاہيوں جو بعد ميں ( خوارج) كے نام سے مشہور ہوئے ايك دو نہ تھيں _ ان سے جو لغزشيں اور خطائيں سرزد ہوئيں ان ميں سے ايك يہ بھى تھى كہ انہوں نے حاكم كا انتخاب صحيح نہيں كيا_ اگرچہ ان كا دعوى تو يہ تھا كہ انہوں نے غير جانبدار شخص كو منتخب كرنے كى كوشش كى ہے_ مگر جس شخص كو انہوں نے اس كام كے لئے نامزد كيا اس كى عداوت و دشمنى حضرت على (ع) كے ساتھ دوسروں كى نسبت كہيں زيادہ تھي_ ليكن اس كے بر عكس معاويہ كو حق انتخاب اس شخص كيلئے ديا گيا كہ جو اس سے كہيں زيادہ مال و جاہ كا حريص اور اس كا فرمانبردار تھا_

ابو موسى وہ شخص تھا جس نے اس وقت جبكہ كوفہ كى فرمانروائي اس كے ہاتھ ميں تھى اپنے پيشوا كے حكم سے سرتابى كى تھى اور جنگ جمل كے موقع پر لوگوں كو حضرت على (ع) كى مدد سے منع كيا تھا_

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ حضرت على (ع) نے انہيں ايك خط ميں لكھا تھا كہ تمہارى طرف سے جو بات مجھ تك پہنچى ہے اس ميں تمہارا نفع بھى ہے اور نقصان بھي_ جيسے ہى ميرا پيغام رساں تمہارے پاس پہنچے تم اپنى كمر كس لينا _ اور اس پر مضبوطى سے پٹكا باندھ لينا_ اور اپنى كمين گاہ سے نكل كر باہر آجانا _ جو افراد تمہارے ساتھ ہيں انہيں بھى باخبر كردينا_ اگر ميرے اس حكم پر عمل كرنا مقصود ہو تو قدم آگے بڑھانا_ اگر خوف غالب ہو اور سستى تمہارے وجود سے عياں ہوتى ہو تو كہيں اور نكل جانا_ خدا كى قسم تمہارى گيلى اور سوكھى ہر لكڑى كو جلا كر خاك كردوں گا_ اور اتنا موقع نہيں دوں گا كہ بيٹھ كر دم لے سكو تمہيں پيٹھ پيچھے جس چيز كا خوف اور ڈر ہے اسے بھى تم اپنے سامنے پاؤں گے_(1)

ليكن اس سركش كارندے نے نہ صرف كمر ہى نہ كسى اور حضرت على (ع) كى دعوت كا مثبت جواب

 

274

نہ ديا بلكہ حضرت على (ع) كا وہ وفد جو حضرت امام حسن (ع) كى سركردگى ميں گيا تھا اس كى بھى مخالفت كى _ اور جو لوگ اپنا فرض ادا كرنے كى غرض سے ابوموسى كے پاس آئے تھے تا كہ اپنا فريضہ معلوم كريں تو يہ ان سے كہتا تھا كہ اگر آخرت كى فكر ہے تو اپنے گھروں ميں جاكر بيٹھو_ عثمان كى بيعت ابھى ہمارى گردنوں پر ہے_ اگر جنگ كرنا ہى مقصود ہے تو پہلے عثمان كے قاتلوں سے جنگ كرو_ (2)

اسى وجہ سے جنگ جمل ميں حضرت على (ع) كے اقدام كو ايك قسم كا فتنہ بتايا تھا اور رسول خدا (ص) سے يہ حديث نقل كى تھى كہ جس وقت فتنہ بپا ہو تو بيٹھے رہنے سے بہتر ہے كہ ليٹ جاؤ_ اگر كھڑے ہو تو بہتر ہے كہ بيٹھ جاؤ اور اگر چل رہے ہو تو اس سے اچھا ہے كہ اپنى جگہ كھڑے رہو_ يہ كہہ كر وہ لوگوں كو اس بات كى جانب ترغيب دلا رہا تھا كہ اپنى تلواروں كو ميان ميں ركھدو اور نيزوں كو توڑ ڈالو تا كہ اس فتنے كے شر ان كا دامن كو نہ پكڑ لے_ (3)

آيا ايسا شخص جو اس طرز فكر كا حامل ہو اور جس كا حضرت على (ع) كے خلاف اس طرح كا يہ موقف رہا ہو ، كيا وہ اس لائق ہو سكتا تھا كہ اسے حضرت على (ع) كے نمائندے كى حيثيت سے منتخب كيا جائے؟

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ حضرت على (ع) ہميشہ اس فكر ميں رہتے تھے كہ وہ لوگ جو توہمات ميں غرق ہيں ان پر صحيح افكار كو روشن اور حقيقت كو واضح كرديا جائے_ اسى لئے آپ (ع) نے يہ فيصلہ كيا كہ چونكہ ابوموسى كا تعلق خوارج كے گروہ سے ہے حكميت كے واسطے ان كے منتخب كئے جانے كے مسئلے كو مزيد و سيع پيمانے پر پيش كريں_ اور سب كے سامنے وہ دلائل پيش كرديں جن كى بنا پر وہ حكميت كيلئے ان كا نام منظور كرنا نہيں چاہتے ہيں_ چنانچہ انہوں نے اپنے تمام ساتھيوں كو جمع كيا اور فرمايا كہ : يہ جان لو كہ شاميوں نے اس شخص كا انتخاب كيا ہے جو قضيے ميں ان سب سے زيادہ نزديك ہے _ ليكن تم نے اس شخص كو منتخب كيا ہے جو اس قضيے ميں تمہارى نفرت كا سب سے زيادہ حقدار ہے_ كيا تم بھول گئے ہو كہ يہ ابوموسى ہى تھا جو يہ كہا كرتا تھا كہ جنگ جمل محض ايك فتنہ ہے_ اس مقصد كيلئے تم اپنى كمانوں كے چلے نہ چڑھاؤ اور اپنى تلواروں كو ميان ميں ركھ لو _ اگر اس كى اس بات ميں حقيقت تھى تو وہ كيوں بحالت مجبورى جنگ صفين ميں شريك ہوا _ اگر يہ صورتحال نہيں

 

275

ہے تو اس پردروغگوئي كا الزام عائد كيا جانا چاہئے ... عمروعاص كے اندرونى ارادے كو عبداللہ بن عباس كے ذريعے خاك ميں ملا دو _ اس موقعے كو ہاتھ سے جانے نہ دو _ اسلام كے اطراف ميں جو سرحديں ہيں ان كى حفاظت كرو _ كيا تم ديكھتے نہيں ہو كہ تمہارے شہروں پر حملہ كئے جا رہے ہيں ور تمہيں تيروں كا نشانہ بنايا جا رہا ہے_ (4)

اميرالمومنين حضرت على (ع) چاہتے تھے كہ عباس كو حكم مقرر كر كے جنگ بندى كے ان تلخ و ناگوار اثرات كو كم كرديں جنہوں نے ان لوگوں كے دل و دماغ پر غفلت كا پردہ ڈال ديا تھا_ كيونكہ عمروعاص كى نيرنگيوں اور ديگر كمزوريوں سے دوسروں كے مقابل وہ زيادہ واقف و باخبر تھے_ اس كے علاوہ مذاكرہ ميں بھى وہ ان سے زيادہ محكم و قوى تھے_(5)

ليكن ايسا معلوم ہوتا تھا كہ حضرت على (ع) كى بات كسى كى كان تك نہيں پہنچى اور كسى كے دل و دماغ پر اس كا اثر نہ ہوا _ اشعث تو حضرت على (ع) كى بات سن كرہى بر افروختہ ہوگيا بالخصوص اس وقت جب كہ اس نے يہ ديكھا كہ جس شخص كو مذاكرے كيلئے منتخب كيا جا رہا ہے وہ قريش ميں سے ہے _ اور اشعث يہ سمجھتا تھا كہ ان كا حكم مقرر كيا جانا قبيلہ يمن كى مذمت كئے جانے كى واضح و روشن دليل ہے_ اور اسى بنا پر وہ كہہ رہا تھا كہ عبداللہ بن عباس ميں حكم ہونے صلاحيت نہيں ہے_ چنانچہ انہوں نے ناراض ہوكر با آواز بلند كہا كہ : خدا كى قسم قيامت تك قبيلہ مُضر كے افراد بيك وقت حكم نہيں بنائے جاسكتے_ (6) معاويہ نے چونكہ حكم كيلئے قبيلہ مُضر كے شخص كا انتخاب كيا ہے اس لئے آپ (ع) ايسے شخص كا انتخاب كريں جو قبيلہ يمن كے لوگوں ميں سے ہو_ اس پر آپ (ع) نے فرمايا كہ : مجھے ڈر ہے كہ كہيں تمہارا يمنى دھو كہ نہ كھا جائے_ اشعث نے كہا اگر وہ دھو كہ كھا گيا اور وہ بات جو ہمارے لئے پسنديدہ نہيں اس نے اسى كو فيصلے ميں تسليم كر ليا تو اس سے بہتر ہے كہ دونوں ہى افراد قبيلہ مضر سے ہوں تا كہ ہمارى مرضى كے مطابق حكم كے فرائض انجام دے سكيں_

اس طرح اشعث نے اپنے باطنى نفاق كو ظاہر و آشكار كرديا_ وہ اقتدار حاصل كرنے كى غرض سے چاہتا تھا كہ حكم كسى ايسے شخص كو بنايا جائے جو انہى كے قبيلے كا ہو_ ليكن اس نظريے كے پس

 

276

پشت ان يمنيوں كا قبائلى تعصب كارفرما تھا جو سپاہ عراق و شام ميں بكثرت شامل تھے_ ايسى صورت ميں اگر دو حكم ميں سے ايك اسى قبيلے كا ہو تو وہ كيوں نہ خلافت پر نظر ركھيں _ ابوموسى كے موقف سے اشعث بخوبى واقف تھا اور يہ جانتا تھا كہ وہ معاويہ كى طرفدارى نہيں كرے گا_ جس كى وجہ يہ تھى كہ ابوموسى اسے بھى فتنہ سمجھتا تھا_ اس كے برعكس دوسرى طرف ان كے ماضى كو مد نظر ميں ركھتے ہوئے كہا جا سكتا تھا كہ وہ حضرت على (ع) كا بھى جانبدار نہ ہوگا_ چنانچہ اسى وجہ سے اسے بہترين طاقت سمجھا گيا تھا_

اشعث كتنا اقتدار پسند اور جاہ طلب تھا اس كى شاہد ذيل كى داستان ہے_

طايفہ '' بنى وليعہ'' ان طائفوں ميں سے تھا جوپيغمبر اكرم(ص) كى رحلت كے بعد مرتد ہو گئے تھے_ جس وقت زياد ابن لبيد انصارى نے ان سے جنگ كى اور انہيں اپنى تلوار كى دھار كا مزہ چكھايا تو وہ اشعث كى حمايت حاصل كرنے كى غرض سے طائفہ كندہ كے سردار كے پاس گئے اس نے اس موقع كو سلطنت حاصل كرنے كا بہانہ سمجھا اور ان سے كہا كہ اگر تم مجھے اپنا بادشاہ تسليم كر لو تو ميں تمہارى مدد كرنے كيلئے تيار ہوں_ انہوں اس كى اس شرط كو مان ليا _ چنانچہ وہ بھى دائرہ اسلام سے خارج ہوگيا _ اور '' قطحان'' خاندان كے بادشاہوں كى طرح رسم تاج پوشى ادا كى گئي_ (7)

اس كے بعد ان كى قيادت كرتے ہوئے وہ مسلمين كے ساتھ بر سر پيكار ہوا _ ليكن زياد كے لشكر نے جيسے ہى دباؤ ڈالا اور اس قلعے كا جس ميں اس نے پناہ لى تھى محاصرہ كيا تو انہوں نے فيصلہ كيا كہ اپنى زندگى كو خيانت كے ذريعے خريد ليں اور اپنے ساتھيوں سے دور ہو كر اس نے اپنے نيز اپنے دس قرابت داروں كے لئے پناہ مانگى _ اس كے بعد اس نے قلعے كا دروازہ كھول ديا اور باقى لشكر كو موت كے منھ ميں دھكيل ديا_(8)

ان خيانت كاريوں كى وجہ سے اسے مسلمانوں اور كفار كے درميان ہميشہ لعن طعن اور نفرت كى نظر سے ديكھا جاتا تھا _ بالخصوص كندہ طائفے كى عورتيں اس بزدلى اور خيانت كارى كى وجہ سے جو اس سے سرزد ہوئي تھى اور جس كے باعث اس طائفے كے ايك گروہ كو سخت نقصان پہنچا تھا ، سخت

 

277

لعنت و ملامت كيا كرتى تھيں_ اور عام طور پر '' عرف النار '' ( آگ لگانے والا جاسوس) كہا كرتى تھيں_ اور اس اصطلاح كا اطلاق اس شخص پر كيا جاتا تھا جس كى سرشت ميں مكر ، فريب اور دغہ باز ى شامل ہو_ (9)

ابوموسى بھى جس كا نام اشعث نے حكميت كيلئے پيش كيا تھا_ كسى طرح بھى اشعث سے كم نہ تھا _ جس وقت جنگ جارى تھى اس نے جانبين كى طرف سے كنارہ كشى اختيار كر كے اور شام ميں اس مقام پر جو '' عرض'' كے نام سے مشہور تھا گوشہ نشينى اختيار كر لى تھى _ ليكن جيسے ہى اس كے غلام نے يہ اطلاع دى كہ لوگ جنگ سے دست كش ہوگئے ہيں اور تمہارا نام حكم كى حيثيت سے ليا جا رہا ہے تو صفين كى جانب روانہ ہوا اور اميرالمومنين حضرت على (ع) كے لشكر تك پہنچ گيا_

مالك اشتر اور احنف ابن قيس جيسے امير المومنين حضرت على (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے_ اور ابوموسى كے اوصاف و افكار بيان كرنے كے بعد عرض كيا كہ انہيں حكم منتخب نہ كيا جائے_ اس ضمن ميں انہوں نے يہ بھى كہا كہ اس كا اعلان كرنے كيلئے وہ خودتيار ہيں_

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے ان كا نظريہ لوگوں كے سامنے بيان كيا_ ليكن اس پر خوارج نے كہا كہ ہم ابوموسى كے علاوہ كسى دوسرے شخص كو منتخب نہ كريں گے_(10)

اس سلسلے ميں انہوں نے مزيد كہا كہ : ابوموسى وہ شخص ہيں جن پر شام و عراق كے لوگوں كو اعتماد ہے_ وہ رسول خدا(ص) كے پاس يمن كے لوگوں كا نمائندہ بن كر آچكے ہيںاورمال غنيمت كے سلسلہ ميں حضرت ابوبكر كے امين اور حضرت عمر كے كارگزار رہ چكے ہيں_(12)

آخر كار ابوموسى اشعرى سپاہ عراق كى جانب سے حكميت كيلئے مقرر كرديا گيا_

حكميت كا معاہدہ

جب حكمين مقرر كرلئے گئے تو معاہدہ صلح اس طرح لكھا گيا (ہذا ما تقاضى عليہ على بن ابى طالب اميرالمومنين عليہ السلام و معاويہ بن ابى سفيان ...) ليكن اس پر

 

278

معاويہ نے اعتراض كيا اور كہا كہ : اگر ميں نے انہيں اميرالمومنين تسليم كرليا ہوتا تو ان سے جنگ نہ كرتا_ عمروعاص نے بھى يہى كہا كہ : ہرچند على (ع) تمہارے امير ہيں ليكن وہ ہمارے نہيں_ اس لئے صرف ان كا اور ان كے والد كا نام لكھا جائے_ (13)

ليكن احنف بن قيس نے كہا كہ : اس لقب كو حذف نہ كيا جائے اس كے لئے خواہ كتنا ہى خون ہوجائے كيونكہ مجھے ڈر ہے كہ اگر يہ لقب ايك دفعہ حدف كرديا گيا تو پھر واپس نہ ديا جائے گا_(14)

اميرالمومنين حضرت على (ع) كافى دير تك اس فكر ميں محور ہے كہ يہاں تك كہ اشعث آگيا_ اس كى آنكھوں ميں فاتحانہ چمك تھى اور لہجہ خيانت سے سرشار و شرابور_ اس نے فخريہ انداز ميں كہا كہ: اس نام كو حذف كرديجئے_

اميرالمومنين حضرت على (ع) كو ماضى كا وہ واقعہ ياد آگيا جب كہ '' صلح حديبيہ '' كا معاہدہ لكھا جارہا تھا '' (ہذا ما تصالح عليہ محمد رسول اللہ و سہيل )ابن عمرو سہيل كو يہ ضد تھى كہ لقب '' رسول اللہ '' حذف كيا جائے اور رسول اكرم(ص) انتہائي صبر سے اس كى اس ضد كو برداشت كر رہے تھے_

حضرت على (ع) كيلئے لقب رسول اللہ حذف كرنا گواراہ نہ تھا ليكن رسول اللہ (ص) نے حكم ديا كہ اسے حذف كرديا جائے اور فرمايا كہ اس لقب كے حذف كئے جانے سے مجھے رسالت سے تو محروم نہيں كرديا جائے گا_ اس كے بعد آپ(ص) نے حضرت على (ع) كى جانب رخ كر كے فرمايا كہ : ايك دن تمہارے سامنے بھى يہى مسئلہ آئے گا_ اگر چہ تمہيں بہت زيادہ كوفت ہوگى مگر تمہيں بھى يہى كرنا ہوگا _ (15)

اب وہ زمان موعود آن پہنچا تھا_ چنانچہ حضرت على (ع) نے پورى رضا و رغبت اور مكمل اطمينان كے ساتھ اس كلام كو ملحوظ ركھتے ہوئے جو رسول گرامى (ص) كے زبان مبارك سے ادا ہوا تھا فرمايا كہ : '' لا الہ اللہ و اللہ اكبر'' تاريخ خود كو دھرا رہى ہے ...(16) _

 

279

آج ميں ان كى آل و اولاد كيلئے اس طرح لكھ رہا ہوں جيسا رسول خدا(ص) ان كے آباواجداو كيلئے تحرير فرماچكے ہيں_ (17)

معاہدے كا متن لقب '' اميرالمومنين'' حذف كر كے طرفين كى اتفاق رائے سے جس طرح تحريرى شكل ميں آيا اس كا اجمالا ذكر ہم ذيل ميں اس كے اہم نكات كے ساتھ كريں گے_

1_ طرفين قرآن و سنت پيغمبري(ص) كے مطابق حكم خداوندى كو قبول كريں گے_ حكم قرآن او سنت رسول(ص) كے جو خلاف ہے اسے وہ دور كرنے كى كوشش كريں گے_

2_ حكمين ابوموسى اشعرى اور عمروعاص ہيں_ جب تك حق سے تجاوز نہ كريں ان كے جان و مال اور ناموس كو حفظ و امان ميں ركھا جائے گا_

3_ حكمين اور تمام مسلمين پر فرض ہے كہ وہ حكم كو قرآن و سنت كے مطابق قبول كريں _ اور اس پر عمل پيراہوں_

4_ جب تك حكمين كا حكم جنگ بندى برقرار ہے اس وقت تك طرفين ميں سے كسى كو بھى دوسرے پر تجاوز كرنے كا حق نہيں_

5_ منصفين كو اختيار ہے كہ وہ شام و عراق كے درميان كوئي متوسط نقطہ متعين كرسكتے ہيں_ ان افراد كے علاوہ جن كے بارے ميں اتفاق رائے ہوگا كسى بھى شخص كو مجلس منصفين ميں داخل ہونے كى اجازت نہيں دى جائے گى _ منصفى كى مدت ماہ رمضان كے آخر تك معين ہے_

6_ اگر منصفين نے مقررہ مدت تك قرآن و سنت كے مطابق حكم صادر نہيں كيا تو طرفين كو حق حاصل ہوگا كہ اپنى پہلى حالت پر واپس آجائيں اور ايك دوسرے سے جنگ كريں_

مذكورہ معاہدے پر حضرت على (ع) كے طرفداروں ميں سے عبداللہ بن عباس، مالك اشتر، حضرت امام حسن (ع)، حضرت امام حسين (ع)، سعيد بن قيس نيز اشعث نے اور معاويہ كى طرف سے حبيب بن مسلمہ ، ابوالاعور بُسروغيرہ نے دستخط كئے_ (18)

اور اس طرح ايك سودس روزہ جنگ ستر مرتبہ سے زيادہ مقابلوں كے بعد تاريخ 17 صفر

 

280

سنہ 37 ہجرى كو اختتام پذير ہوئي_(19)

مورخين نے اس جنگ كے جانى نقصانات كے مختلف اعداد درج كيئے ہيں_ بعض نے مقتولين كى تعداد ايك لاكھ دس ہزار بتائي ہے_ جن ميں سے نوے ہزار شام كے سپاہى اور بيس ہزار عراقى فوج كے لوگ شامل تھے اور پچيس ہزار عراق كے لوگ_ (20)

جنگ صفين كے عبرت آموز سبق

جنگ صفين كا نتيجہ اسلام كى فتح و نصرت كے ساتھ يہ ہونا چاہيئے تھا كہ فتنہ و فساد و نيز درخت نفاق كى بيخ كنى ہو اور اس كے ساتھ ہى فرمانروائے شام كى بيدادگرى كا قلع قمع ہوجائے_ ليكن عراقى فوج كے بعض كمانڈروں كى خود سرى اور اميرالمومنين حضرت على (ع) كے حكم سے روگردانى كے باعث جو نتائج برآمد ہوئے وہ انتہائي تلخ و ناگوار ہونے كے ساتھ ، عبرت آموز بھى ثابت ہوئے اس سے قبل كہ جنگ صفين كے نتائج كا اجمالى جائزہ ليا جائے ہم يہاں اس كے بعض درس آموز نكات كى جانب اشارہ كريں گے:

1_ جنگ صفين نے ثابت كرديا كہ معاويہ كے بارے ميں اميرالمومنين (ع) نے جو بھى پيشين گوئي كى اور ابتدائے امر سے ہى جتنے بھى موقف اختيار كئے وہ تمام حق پر مبنى تھے اور اس بات كے آئينہ دار تھے كہ حضرت على (ع) كو ايسے عناصر كى كتنى گہرى شناخت تھى _

معاويہ كى سياسى سرگرمى كے باعث ناسازگار ماحول پيدا ہوگيا تھا اور وہ افراد جنہوں نے اپنے كرو فر كى خاطر انھيں ان كے مرتبے پر برقرار ركھا تھا اگر اس ہنگامہ آرائي ميں سرگرم عمل نہ ہوتے تو وہ تمام ہلاكتيں تباہياں نہ ہوتيں جو اس جنگ كى وجہ سے رونما ہوئيں اميرالمومنين حضرت على (ع) نے اس كى معزولى كا فرمان جارى كر كے اور جنگ و نبرد آزمائي كے ذريعے اس كى سركشى و بالا دستى كا جس طرح قلع و قمع كيا اس سے آپ (ع) نے يہ ثابت كرديا كہ اس جيسے كسى بھى غير پسنديدہ عنصر كو ہرگز برداشت نہيں كيا جاسكتا تھا_

 

281

2_ جنگ كے دوران لشكر شام پر يہ بات ثابت ہوگئي كہ لشكر اسلام كو قوت ايمانى اور دليرانہ حوصلہ مندى كے باعث اس پر نماياں فضيلت و برترى حاصل ہے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ معاويہ نے اپنى شكست و نابودى سے نجات پانے كے لئے فريب كارى و نيرنگى كا سہارا ليا_

بلاشك و ترديد كہا جاسكتا ہے كہ اس فضيلت و برترى كا بنيادى عامل خود حضرت على (ع) نيز ان كے فرزندوں اور اصحاب كا جذبہ ايثار و قربانى تھا_

3_ اسلامى افواج جب تك حضرت على (ع) كے زير فرمان رہيں انھيں نماياں كاميابى حاصل ہوئي ليكن جيسے ہى افواج كے سرداروں نے خود سرى اختيار كر كے آپ كے احكام سے روگردانى كى تو نہ صرف مسلمانوں بلكہ دين اسلام كو سخت ناگوار نتائج و حادثات سے دوچار ہونا پڑا_

4_ جنگ صفين نے يہ سبق سكھايا كہ اگر پيروان حق اپنے موقف پر ثابت قدم رہيں تو حق ہى غالب رہتا ہے_ اور اس كا ہى بول بالا ہوتا ہے_ اس كے برعكس اگر وہ اپنے جزئي جانى مالى نقصان كى وجہ سے اپنے موقف سے پھر جائيں اور سازش و ريشہ دوانى كا رويہ اختيار كرليں تو ظاہر ہے كہ باطل كو ہى ان پر برترى و بالا دستى حاصل ہوگئي _

جنگ كے نتائج

صفين كى تباہ كن جنگ كے باعث دونوں ہى لشكروں كا سخت مالى و جانى نقصان ہوا اس كے ساتھ ہى اس جنگ كے جو سودمند و ضرر رساں نتائج برآمد ہوئے ان كى كيفيت مندرجہ ذيل ہے_

1_ جب لشكر عراق ميدان جنگ سے واپس آيا تو اس كى فوج ميں سخت باہمى اختلاف پيدا ہوگيا_ چنانچہ ان ميں سے بعض كو تو ميدان كارزار ترك كرنے كا اتنا سخت افسوس وملال ہوا تھا كہ ان كے دلوں ميں ان لوگوں كے خلاف دشمنى و عداوت پيدا ہوگئي جو ميدان جنگ ترك كرانے كے اصلى محرك تھے_چنانچہ يہ دشمنى و عداوت اس حد تك پہنچى كہ بھائي بھائي سے اور بيٹا باپ سے

 

282

نفرت كرنے لگا _ اور كہيں كہيں تو نوبت يہاں تك آئي كہ انہوں نے ا يك دوسرے كو خوب زد كوب كيا_ (21)

2_ اگر چہ معاويہ كا نقصان بہت زيادہ ہوا ليكن اس كے باوجود وہ عمرو عاص كى نيرنگى كے باعث اپنى سياسى حيثيت برقرار ركھنے ميں كامياب ہوگيا _ جنگ سے قبل وہ اميرالمومنين حضرت على (ع) كى حكومت كا معزول و باغى كارگزار تھا ليكن اس معاہدے كى رو سے جو اس جنگ كے بعد كيا گيا اس كا مرتبہ حضرت على (ع) كے ہم پايہ و ہم پلہ تھا_ اور اسے سركارى سطح پر رہبر شام تسليم كرليا گيا تھا_

3_ اگر چہ لشكر عراق ميں ايسے سپاہيوں كى تعداد كم ہى تھى جنہوں نے اس جنگ سے درس عبرت ليا اور راہ حق پر كاربند رہے ليكن اس ميں ايسے ظاہربين فوجيوں كى تعداد بہت زيادہ تھى جو منافق اور اقتدار پرست افراد كے دام فريب ميں آگئے اور انہوں نے اپنى نيز دين اسلام كى تقدير كو حيلہ گر ، نيرنگ ساز،كج انديش حكمين كے حوالے كرديا اور اپنے لئے مصائب و آلام كو دعوت دے دى _

4_ اس جنگ كا دوسرااہم نتيجہ فتنہ و آشوب كا بيج بويا جانا تھا اور يہ در حقيقت عراقى فوج كے بعض نادان افراد كى خود سرى و ضد كا ثمرہ تھا_

چنانچہ اشعث اس معاہدے كو لے كردونوں لشكروں كے سپاہيوں كى جانب روانہ ہوا اور اس كى شرائط پڑھ كر انھيں سنائيں_ شاميوں نے سن كر خوشى كا اظہار كيا اور انہيں قبول بھى كرليا ليكن فوج عراق ميں سے بعض نے تو اس پر رضايت ظاہر كي، بعض نے مجبور انھيں پسند كيا مگر چند ايسے بھى تھے جنہوں نے سخت مخالفت كى اور معترض ہوئے_

مخالفت كى پہلى صدا طايفہ '' عَنزہ ''كى جانب سے بلند ہوئي جو چار ہزار سے زيادہ افراد پر مشتمل تھا_ اور ان ميں دو افراد نے بلند كہا لا حكم الا اللہ يعنى خدا كے علاوہ كسى كو حاكميت كا حق نہيں_ اس كے بعد وہ معاويہ كے لشكر پر حملہ آور ہوگئے مگر شہيد ہوئے_ (22)

 

283

دوسرے مرحلے پر '' بنى تميم'' كا نعرہ سنا گيا بلكہ اس قبيلے كے ايك فرد نے تو اشعث پر حملہ بھى كرديا_ اور كہا كہ امر خداوندى ميں افراد كو حاكم قرار ديا جاسكتا ہے ايسى صورت ميں ہمارے جوانوں كے خون كا كيا انجام ہوگا؟ (23)

تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ لا حكم الا للہ كا ہلہلہ و غلغلہ بيشتر سپاہيوں كے گلے سے جوش مارنے لگا_ انہوں نے اپنے گذشتہ عمل كى اس طرح اصلاح كى كہ ''حكميت'' كے لئے راضى ہوجانا در اصل ہمارى اپنى ہى لغزش تھى ليكن اپنے كئے پر ہم اب پشيمان اور توبہ كے طلب گار ہيں چنانچہ انہوں نے على (ع) سے كہا كہ جس طرح ہم واپس آگئے ہيں آپ(ع) بھى آجايئےرنہ ہم آپ (ع) سے بيزار ہوجائيں گے_(24)

وہ اس قدر جلد پشيمان ہوئے كہ انہوں نے پورى سنجيدگى سے يہ مطالبہ كرديا كہ معاہدہ جنگ بندى پر كاربند نہ رہا جائے_ ليكن حضرت على (ع) نے آيات مباركہ و افوا بعہداللہ اذا عاہدتم و لا نتقضوا الايمان بعد توكيدہا ( اللہ كے عہد كو پور كرو جب تم نے ان سے كوئي عہد باندھا ہو اور اپنى قسميں پختہ كرنے كے بعد توڑ نہ ڈالو) (25) اور اوفوا بالعقود ( لوگو بندشوں كى پورى پابندى كرو) (26) سناكر انھيں عہد و پيمان شكنى سے باز ركھا( 27)

مگر ان كى سست رائے اور متزلزل ارادے پر اس كا ذرا بھى اثر نہ ہوا جنگ كى كوفت كے آثار بھى ان كے چہرے سے زائل نہ ہوئے تھے كہ دوسرے فتنے كا بيج بوديا گيا_

سركشوں كى تشكيل و گروہ بندي

جب جنگ صفين ختم ہوگئي تو اميرالمومنين حضرت على (ع) كوفہ واپس تشريف لے آئے ليكن جو لوگ سركش و باغى تھے وہ راہ ميں آپ (ع) سے عليحدہ ہوگئے_ يہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اس وقت جب كہ جنگ پورى اوج پر تھى تو حضرت على (ع) كو يہ دھمكى دى تھى كہ جنگ بندى كا اعلان كيجئے ورنہ ہم آپ (ع) كو قتل كرڈاليں گے اور حكميت كا تعين ہوجانے كے بعد انہى افراد نے لا حكم الا اللہ كا نعرہ

 

284

بلند كيا تھا اور ''حروراوئ''(28) نامى مقام پر تقريبا بارہ ہزار افراد نے قيام كيا اور يہاں خود ايك مستقل گروہ كى شكل اختيار كرلى جہاں انہوں نے '' شبث بن ربعى '' كو اپنا فرماندار اور '' عبداللہ بن كوّاء '' كو اپنا امام جماعت مقرر كيا_ (29)

حضرت على (ع) كے اصحاب نے جب اس واقعے كے بارے ميں سنا تو اس خيال كے پيش نظر كہ وہ اپنى وفادارى كا حضرت على (ع) پر دوبارہ اظہار كريں انہوں نے آپ (ع) كے ساتھ نيا عہد كيا اور وہ يہ تھا كہ دوستان على (ع) كے ساتھ دوست اور آپ (ع) كے دشمنوں كے ساتھ دشمن كا سلوك روا ركھيں_ليكن خوارج نے اس وعدہ كو كفر و گناہ سے تعبير كيا اور شيعيان على (ع) سے كہا كہ تمہارى اور شاميوں كى مثال ان دو گھوڑوں كى سى ہے جنہيں دوڑ كے مقابلے ميں لگايا گيا ہوچنانچہ اس راہ ميں تم كفر كى جانب بڑھ گئے ہو _

حضرت على (ع) خوارج كے درميان

جب خوارج ، حضرت على (ع) سے عليحدہ ہوگئے تو آپ(ع) نے يہ سوچ كر كہ ان كے ساتھ زيادہ نزديك سے ملاقات كى جائے اور ان كے ذھنوں ميں جو پيچيدگياں پيدا ہوگئي ہيں ان كا حل تلاش كيا جائے_ سب سے پہلے ابن عباس كو ان كے پاس بھيجا حضرت على (ع) چونكہ انكے بارے ميں جانتے تھے كہ وہ حالات و واقعات كا تجزيہ تو نہيں كرسكتے ا لبتہ حريف كو قائل كرنے كى ان ميں غير معمولى مہارت و صلاحيت ہے اسى لئے آپ (ع) نے ابن عباس سے تاكيدا يہ بات كہى كہ ان كے ساتھ گفتگو كرنے ميں عجلت نہ كريں بلكہ اس قدر توقف كريں كہ ميں ان تك پہنچ جاؤں_(30)

ليكن ابن عباس جيسے ہى وہاں پہنچے انہوں نے فورا ہى بحث و گفتگو شروع كردى _ بالآخر انہوں نے بھى مجبورا اپنى زبان كھولى اور اس آيہ مباركہ و ان خفتم شقاق بينہما فابعثوا حكما من اہلہ و حكما من اہلہا (31)

( اور اگر تم كو كہيں شوہر او ربيوى كے تعلقات بگڑجانے كا انديشہ ہو تو ايك حكم مرد كے رشتہ

 

285

داروں ميں سے اورايك عورت كے رشتہ داروں ميں سے مقرر كرو) نيز حكم عقل كے ذريعے ثابت كرديا كہ '' حكميت '' كا تقرر شرعا جائز ہے مگر انہوں نے جواب ميں اس مرتبہ بھى وہى بات كہى جو اس سے پہلے كہتے چلے آرہے تھے_(32)

ابن عباس كے چلے جانے كے بعد حضرت على (ع) بھى اس طرف روانہ ہوئے اور چونكہ يزيد بن قيس سے واقفيت تھى اس لئے آپ (ع) اسى كے خيمے ميں پہنچے يہاں دو ركعت نماز ا دا كرنے كے بعد آپ (ع) نے مجمع كى جانب رخ كيا اور دريافت فرمايا كہ تمہارا رہبر كون ہے؟ انہوں نے جواب ديا كہ '' ابن الكوا'' اس كے بعد آپ (ع) نے فرمايا كہ وہ كون سى چيز تھى جس نے تمہيں ہم سے برگشتہ كيا_ انہوں نے كہا كہ آپ (ع) كى جانب سے حكميت كا تعين و تقرر اس پر حضرت على (ع) نے جواب ديا كہ حكميت كى پيشكش تمہارى جانب سے كى گئي تھي_ ميں تو اس كا سخت مخالف تھا انہوں نے حضرت على (ع) كے مدلل جوابات كى تائيد كرتے ہوئے اپنى اس نئي راہ و روش كى يہ توجيہ پيش كى كہ ہمارے سابقہ اعمال كفر پر مبنى تھى چنانچہ ہم نے ان سے توبہ كرلى ہے_ آپ (ع) بھى تائب ہوجايئےا كہ ہم آپ (ع) كے ہاتھ پر دوبارہ بيعت كرليں_

حضرت على (ع) نے فرمايا انى ''استغفر اللہ من كل ذنب ''اس پر خوارج نے سمجھا كہ آپ(ع) نے '' حكميت'' كو منظور كرنے پر توبہ كى ہے_ چنانچہ وہ سب آپ(ع) كے ساتھ كوفہ چلے آئے اور بظاہر اس فتنہ و فساد كا خاتمہ ہوگيا_(33)

منافقين كى تحريكات

وہ منافق و موقع پرست لوگ جو حكومت كے اقتدار اورمملكت ميں امن و امان كى فضا برداشت نہيں كرسكتے تھے جب خوارج كا گروہ واپس گيا تو مختلف قسم كى افواہيں پھيلانے لگے_ اور يہ كہنا شروع كرديا كہ اميرالمومنين حضرت على (ع) حكميت كے معاملے ميں پشيمان ہيں وہ اسے گمراہى تصور كرتے ہيں اور فكر ميں ہيں كہ جنگ كے امكانات پيدا ہوجائيں تا كہ دوبارہ معاويہ كى جانب

 

286

روانہ ہوسكيں_ (34)

يہ افواہيں معاويہ كے كانوں تك بھى پہنچيں اس نے ايك شخص كو كوفہ كى جانب روانہ كيا تا كہ اس سلسلے ميں بيشتر اطلاعات فراہم كرسكے_ اميرالمومنين حضرت على (ع) كو معاويہ اچھى طرح جانتا تھا يہ بھى معلوم تھا كہ حضرت على (ع) قرآن اور اسلام كے راستے سے منحرف نہ ہوں گے اور جو عہد و پيمان انہوں نے كيا ہے اس كى وہ بھى خلاف ورزى نہ كريں گے_ ليكن شايد ظاہر كرنے كے لئے كہ وہ حضرت على (ع) كى حركات و سكنات كى نگرانى كر رہا تھا اسى لئے اس نے يہ اقدام كيا_

اس بارے ميں يہ بھى كہا جاسكتا ہے كہ معاويہ كو متحرك كرنے كا اصل عامل اشعث تھا _ اور وہ عہد جنگ بندى كى خلاف ورزى سے متعلق افواہوں كے بارے ميں جانتا چاہتا تھا _ كيونكہ اشعث وہ شخص تھا جو ابن ابى الحديد كے قول كے مطابق معتزلى تھا اور جن كا مقصد حضرت على (ع) كو حكومت ميں ہر قسم كى تباہى و بربادى كو فروغ دينا تھا اور مسلمانوں كے لئے ہر طرح كى ا ضطرابى و پريشانى كا عامل بننا مقصود تھا_ (35) چنانچہ حضرت على (ع) نے بھى اسے منافق اور كافر بچہ كے ساتھ ياد كيا ہے_ (36)

اس احتمال كو جو چيز تقويت ديتى ہے وہ يہ ہے كہ جس وقت شام سے حضرت على ( ع) كے پاس پيغام پہنچا اور آپ (ع) سے معاہدے كى خلاف ورزى سے اجتناب كرنے كو كہا گيا تو اميرالمومنين حضرت على (ع) كى خدمت ميں وہ حاضر ہوا اور ان بہت سے لوگوں كى موجودگى ميں جوحضرت على (ع) كى خدمت ميں حاضر تھے كہا كہ يہ سننے ميں آيا ہے كہ آپ (ع) حكميت كو گمراہى قرار ديتے ہيں اور اس پر ثابت قدم رہنا آپ كے نزديك كفر ہے_ (37)

افواہوں كو بے بنياد ثابت كرنے اور ان كى حقيقت كو عوام پر واضح و روشن كرنے كے لئے حضرت على (ع) نے ضرورى سمجھا كہ مسجد ميں تشريف لے جائيں اور وہاں حاضرين سے خطاب كريں چنانچہ آپ (ع) نے ارشادات عاليہ كے دوران فرمايا كہ : جس شخص كو يہ گمان ہے كہ ميں معاہدہ حكميت پر قائم نہيں ہوں تو اس نے درو غگوئي سے كام ليا ہے ا ور جو بھى مسلمان حكميت كو گمراہى كا سبب سمجھتا

 

287

ہے وہ دوسروں كے مقابل خود زيادہ گمراہ ہے _ (38)

حضرت على (ع) كا خطبہ ابھى ختم نہيں ہوا تھا كہ مسجد كے ايك كونے سے يہ آواز سنائي دى كہ '' اے علي تم نے ان افراد كو خدا كے دين ميں شامل كرليا '' لا حكم الا للہ اس آواز كے بلند ہونے كے ساتھ ہى مسجد كى پورى فضا لا حكم الا للہ كے نعروں سے گونجنے لگى _ (39)

منافقين كى تحريكات كا نتيجہ يہ برآمد ہوا كہ خوارج نہ صرف اپنى اصلى حالت پر واپس نہيں آئے بلكہ كينہ و عداوت ان كے دلوں ميں پہلے كے مقابل زيادہ گھر كرنے لگا_ چنانچہ جلسہ ختم ہوا تو لوگ گذشتہ كى نسبت اب زيادہ غم و غصہ اور نفرت كے جذبات سے لبريز شہر كے باہر روانہ ہوئے اور ا پنے خيمہ گاہوں ميں واپس آگئے_

 

288

سوالا ت

1_ اشعث جنگ بندى كے لئے كيوں بہت زيادہ كوشش كر رہا تھا اس كے مرتد ہونے كے بارے ميں آپ كيا جانتے ہيں ؟

2_ اميرالمومنين حضرت على (ع) ابو موسى كو كن اسباب كى بنا پر منتخب كرنا نہيں چاہتے تھے_ اشعث اور اس كے حواريوں نے ان كے انتخاب پر كيوں اصرار كيا؟

3_ صلح حديبيہ اور معاہدہ صفين كے درميان كيا باہمى ربط ہے رسول خدا(ص) كى اس بارے ميں كيا پيشين گوئي تھي؟

4_ جنگ صفين سے مسلمانوں نے كيا سبق سيكھا؟

5_ جنگ صفين كے كيا نتائج پر آمد ہوئے؟ مختصر طور پر لكھيئے

6_ جب اميرالمومنين (ع) كوفہ تشريف لے گئے تو وہ كون تھے جو آپ كے ساتھ كوفہ ميں داخل نہ ہوئے ان كى تعداد كتنى تھى ؟ انہوں نے اپنے خيمے كہاں لگائے اور ان كا پيش امام كون شخص تھا؟

7_ خوارج جب كوفہ واپس آگئے تو انہوں نے كيا افواہيں پھيلائيں اور ان ميں كون لوگ سرگرم عمل تھے اس سلسلے ميں اشعث كياكردار رہا؟ مختصر طور پر لكھيئے؟

 

289

حوالہ جات

1_ نہج البلاغہ مكتوب 63

2_ الامامہ و السياسہ ج 1 ص 61

3_ نہج البلاغہ خطبہ 236 سے ماخوذ

4_ حضرت على (ع) نے اپنے خطبے ميں بھى اس امر كى جانب اشارہ كيا ہے كہ عباس كو منتخب كرنے ميں كيا مصلحت تھى تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو وقعہ صفين ص 500

5_ ربيعہ اور مضر كا شمار عرب كے دو بڑے قبيلوں ميں ہوتا تھا يہ دونوں قبيلے نزر ابن معد بن عدنان كے فرزندان، ربيعہ اور مضر كى نسلوں سے تھے قبيلہ ربيعہ كے بيشتر لوگ يمن ميں اور مضر كے اكثر افراد حجاز ميں آباد تھے يہ دونوں قبيلے اپنے قبائلى مسائل كى بناپر ايك دوسرے كى جان كے دشمن تھے

6_ وقعہ صفين / 500

7_ لا ا نصركم حتى تملكونى فملكوہ و تو جوہ كما يتوج الملك من قحطان _

8_ شرح ابن ابى الحديد ج 1 ص 295_293

9_ شرح ابن ابى الحديد ج 1 ص 296، تاريخ طبرى ج 3 ص 338

10_ وقعہ صفين ص 502_ 500 ، تاريخ طبرى ج 5 ص 52_ 51 _ كامل ابن ايثر جلد3/ 319

11_ الامامہ و السياسہ ج 1 ص 113، وقعہ صفين / 502

12_ تاريخ طبرى ج 5 ص 52، كامل ابن اثير ج 3 ص 319، وقعہ صفين 508، الامامہ و السياسہ ج 1 ص 114

13_ لا تمسح اسم امرة المومنين عنك و ان قتل الناس بعضہم بعضا فانى اتخوف الا ترجع اليك ابدا

14_ شرح ابن الحديد ج 2 ص 232، وقعہ صفين 508، الامامہ و السياسہ ج 1 ص 114

15_ يہ جملہ حضرت على (ع) كى فرمايش كے مطابق '' سنة بسنة'' نقل كيا گيا ہے_

16_ فاليوم اكتبہا الى ابنائہم كما كتبہا رسول اللہ الى ابائہم سنة و مثلا وقعہ صفين 508، شرح ابن ابى ا لحديد ج 2 ص 232، تاريخ طبرى ج 5 ص 52

17_ وقعہ صفين ص 505_ 504، الاماميہ و السياسہ ج 1 ص 115، كامل ابن اثيرج 3 ص 320

 

290

18_ مروج الذہب ج 2 ص 394_ 393

19_ ايضاً

20_ وقعہ صفين 511

21_ مروج الذہب ج 2 ص 394

22_ وقعہ صفين 513_ 512

23_ ايضاً

24_ وقعہ صفين 516_ / 513

25_ سورہ نحل آيت 90

26_ سورہ مائدہ آيت 1

27_ حروراء 200جگہ كوفہ سے تقريبا نصف فرسخ كے فاصلے پر واقع تھى اور چونكہ انہوں نے يہاں قيام كيا تھا اسى لئے وہ '' حروريہ'' كہلائے جانے لگے_ تاريخ يعقوبى ج 2 ص 291

28_ كامل ابن اثير ج 3 326، مروج الذہب ج 2 395

29_ كامل ابن اثير ج 3، 327

30_ سورہ نساء آيہ 35، ابن عباس كى دليل يہ تھى كہ جب خداوند تعالى نے ايك خاندان كى اصلاح كيلئے ايك منصف ثالث كو لازم قرار ديا ہے تو يہ كيسے ممكن ہے كہ اس كا اطلاق اس عظيم امت پر نہ ہو_

31_ كامل ابن اثير ج 3 ص 327

32_ تاريخ يعقوبى ج 2 ص 191، كامل ابن اثير ج 3 ص 328،عقد الفريد ج 2 ص 388

33_سيرة الائمہ الانثى عشر ج 1 /489

34_ كل فساد كان فى خلافة على عليہ السلام و كل اضطراب حدث فاصلہ الاشعث ، شرح نہج البلاغہ ج 2 ص 279

35_ عليك لعنة اللہ و لعنة اللاعنين حائك بن حائك منافق بن كافر نہج البلاغہ ج 19

36_ سيرة الائمہ الاثنى عشر ج 1 / 498، شرح نہج البلاغہ علامہ خوئي ج 4 ص 126

37_ سيرة الائمہ الاثنى عشر ج 1 ص 489

38_ شرح نہج البلاغہ ، علامہ خوئي ج 1 ص 127

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

جنگى توازن
تہذيبي انقلاب کي اہميت
حدیث ثقلین شیعوں کی نظر میں
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(سوم)
اچھي عبادت سے خدا خوش ہوتا ہے
نبوت کي نشانياں
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
عام الحزن
دعوت اسلام کا آغاز
کاتبان وحی

 
user comment