اردو
Wednesday 24th of April 2024
1
نفر 0

خصائص علوم اہلبیت (ع)

علم اہلبیت (ع) 

خصائص علوم اہلبیت (ع)

1۔ خزانہ دار علوم الہیہ

347۔ رسول اکرم ! پروردگار نے اہلبیت (ع) کے بارے میں فرمایاہے کہ یہ سب تمھارے بعد میرے علوم کے خزانہ دار ہیں ۔( کافی 1 ص 193 / 4 ، بصائر الدرجات 105 / 12 ، روایت ابوحمزہ ثمالی از امام (ع) باقر)۔ 348۔ امام باقر (ع) خدا کی قسم ہم زمین و آسمان میں اللہ کے خزانہ دار ہیں لیکن اس کے خزانہٴ علم … کے خزانہ دار نہ کہ سونے اور چاندی کے ۔( کافی 1 ص 192 / 2)۔

349 ۔ امام باقر (ع) ! ہم علم خدا کے خزانہ دار اور وحی الہی کے ترجمان ہیں۔

(کافی 1 ص 192 / 3 روایت سدیر 1 ص 269/6 اس مقام پر وحی کے بجائے امر کا لفظ ہے، اعلام الوریٰ ص 277 روایت سدیر)۔

350 ۔ امام باقر (ع) ! پروردگار کے لئے ایک علم خاص ہے اور ایک علم عام، علم خاص وہ ہے جس کی اطلاع ملائکہ مقربین اور انبیاء مرسلین کو بھی نہیں ہے، اور علم عام وہ ہے جسے اس نے ملائکہ اور مرسلین کو عنایت فرمادیاہے اور ہم تک یہ علم رسول اکرم کے ذریعہ پہچاہے۔( التوحید 138 / 14 روایت ابن سنان از امام صادق ، بصائر الدرجات 111 / 12 روایت حنان کندی)۔

351۔ امام صادق (ع) ! ہم انبیاء کے وارث ہیں اور ہمارے پاس حضرت موسیٰ کا عصا ہے، ہم زمین میں پروردگار کے خزانہ دار ہیں لیکن سونے چاندی کے نہیں ۔( تفسیر فرات کوفی 107 / 101 از ابراہیم )۔

352۔ امام صادق (ع) ! ہم علم کے شجر ہیں اور نبی کے اہلبیت (ع) ہمارے گھر میں جبریل کے نزول کی جگہ ہے اور ہم علم الہی کے خزانہ دار ہیں، ہم وحی خدا کے معدن ہیں اور جوہمارا اتباع کرے گا وہ نجات پائے گا اورجو ہم سے الگ ہوجائے گا وہ ہلاک ہوجائے گا، یہی پروردگار کا عہد ہے۔( امالی (ر) صدوق 252 / 15 ، بشارة المصطفی ص 54 از ابوبصیر ، روضة الواعظین ص 299 بصائر الدرجات ص 103 باب 19)۔

 

2 ۔ ظرف علم الہی

353۔ امام زین العابدین (ع) ! ہم خدا کے ابواب ہیں اور ہمیں صراط مستقیم ہیں، ہمیں اس کے علم کے ظرف ہیں اور ہمیں اس کی وحی کے ترجمان ، ہمیں توحید کے ارکان ہیں اور ہمیں اس کے اسرار کے مرکز (معانی الاخبار 35 / 5 ، ینابیع المودة 3 ص359 /1 روایت ثابت ثمالی)۔

354۔ اما م صادق (ع) ! ہم امر الہی کے والی ، علم الہی کے خزانہ دار اور وحی خدا کے ظروف ہیں۔( کافی 1 ص 192 /1 ، بصائر الدرجات 61 / 3 ، 105/8 روایت عبدالرحمان بن کثیر)۔

355۔ امام صادق (ع) ۔ پروردگار نے ہمیں اپنے لئے منتخب کیا ہے اور تمام مخلوقات میں منتخب قرار دیا ہے ، ہمیں وحی کا امین اور زمین میں اپنا خزانہ بنایاہے ، ہمیں اس کے اسرار کے محل اور اس کے علم کے ظرف ہیں۔(بصائر الدرجات 62 /7 ، روایت عباد بن سلیمان)۔

356۔ وہب بن منبہ راوی ہیں کہ پروردگار نے جناب موسیٰ کی طرف وحی کی کہ محمد اور ان کے اوصیاء کے ذکر سے متمسک رہو کہ یہ سب میرے علم کے خزانہ دار ۔ میرے حکمت کے ظروف اور میرے نور کے معدن ہیں۔( بحار 51 / ص 149 / 24)۔

357۔جناب فاطمہ صغریٰ نے واقعہ کربلا کے بعد اہل کوفہ سے خطاب کرکے ارشاد فرمایا، اے اہل کوفہ ! اے اہل مکاری و غداری و فریب کاری ! ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جن کے ذریعہ پروردگار نے تمھارا امتحان لیاہے اور بہترین امتحان لیاہے، اس نے اپنے علم و فہم کا مرکز ہمیں بنایاہے اور ہم اس کے علم کا ظرف ، فہم و حکمت کا محل اور زمین میں بندوں پر اس کی حجت میں اس نے ہمیں اپنی کرامت سے مکرم بنایاہے اور اپنے نبی (ع) کے ذریعہ تمام مخلوقات سے افضل قرار دیا ہے۔( احتجاج 2 ص 106 ، ملہوف 195 ، مشیر الاحزان 87 ، بغیر ذکر ظرف فہم)۔

 

3۔ ورثہ علوم انبیاء

358 ۔ رسول اکرم ، روئے زمین پر پہلے وصی جناب ہبة اللہ بن آدم (ع) تھے، اس کے بعد کوئی نبی ایسا نہیں تھا جس کا کوئی وصی نہ رہاہو، جبکہ انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی اور ان میں سے پانچ اولوالعزم تھے نوح (ع) ، ابراہیم (ع) ، موسی ٰ (ع) ، عیسیٰ (ع) ، محمد ۔

علی بن ابی طالب محمد کے لئے ہبة اللہ تھے اور انھیں تمام اوصیاء اور سابق کے اولیاء کا ورثہ ملا تھا جس طرح کہ محمد تمام انبیاء کرام کے وارث ہیں ۔( کافی 1 ص 224 / 2 از عبدالرحمٰان بن کثیر ، بصائر الدرجات 121/1 ، عبدالرحمان بن کبیر ، اعلام الدین ص 464)۔

359۔ امام علی (ع) ! آگاہ ہوجاؤ کہ جو علوم لے کر آدم (ع) آئے تھے اور جس کے ذریعہ تمام انبیاء کو فضیلت حاصل ہوئی ہے سب کے سب خاتم النبیین کی عترت میں پائے جاتے ہیں تو آخر تم لوگ کدھر بہک رہے ہو اور کدھر چلے جارہے ہو؟ (ارشاد 1 ص 232 ، تفسیر عیاشی 1 ص 102 / 300 ا ز مسعدہ بن صدقہ تفسیر قمی 2 ص 367 از ابن اذینہ)۔

360۔ امام صادق (ع) ! ہم سب انبیاء کے وارث ہیں، رسول اکرم نے حضرت علی (ع) کو زیر کساء لے کر ایک ہزار کلمات کی تعلیم دی اور ان پر ہر کلمہ سے ہزار کلمات روشن ہوگئے ۔ ( خصال ص 651 / 49 از ذریح المحاربی )۔

361۔امام باقر (ع)! آدم (ع) جو علم لے کر آئے تھے وہ واپس نہیں گیا بلکہ یہیں اس کی وراثت چلتی رہی اور حضرت علی (ع) اس امت کے عالم تھے اور ہم میں سے کوئی عالم دنیا سے نہیں جاتاہے مگر یہ کہ اپنا جیسا عالم چھوڑ کر جاتاہے یا جیسا خدا چاہتاہے۔( کافی 1 ص 222/ 2 از زرارہ و فضیل ، کمال الدین 223 / 14 از فضیل )۔

کمال الدین میں یہ اضافہ بھی ہے کہ علم وراثت میں چلتا رہتاہے اور جو علم یا جو آثار انبیاء و مرسلین اس گھر کے باہر سے حاصل ہوں ، وہ سب باطل ہیں ۔!

362۔ امام باقر (ع) ! ایھا النّاس ۔ تمھارے پیغمبر کے اہلبیت (ع) کو پروردگار نے اپنی کرامت سے مشرف کیاہے اور اپنی ہدایت سے معزز بنادیاہے، اپنے دین کے لئے مخصوص کیا ہے اور اپنے علم سے فضیلت عطا کی ہے پھر اپنے علم کا محافظ اور امین قرار دیاہے۔

اہلبیت (ع) امام ، داعی دین ، قائد، ہادی ، حاکم، قاضی ، ستارہ ٴ ہدایت، اسوہٴ حسنہ، عترت طاہرہ، امت وسط ، صراط واضح ، سبیل مستقیم ، زینت نجباء اور ورثہ انبیاء ہیں،۔( تفسیر فرات کوفی ص 337 ، 460 از فضل بن یوسف القصبانی )۔

363۔ابوبصیر ! میں امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کیا آپ حضرات رسول اکرم کے وارث ہیں؟ فرمایا بیشک میں نے عرض کی کہ رسول اکرم تو تمام انبیاء کے وارث اور ان کے علوم کے عالم تھے؟ فرمایا بیشک ( ہم بھی ایسے ہی ہی ) ( کافی 1 ص 47 / 3 ، رجال کشی 1 ص 408 / 298 ، بصائر الدرجات 269 / 1 ، دلائل الامامہ 226 / 153 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 184 ، الخرائج والجرائح 2 ص 711 / 8 فصول مہمہ ص 215 ۔

364 ۔ امام صادق ! حضرت علی عالم تھے اور علم ان کی وراثت میں چلتارہتاہے کہ جب کوئی عالم مرتاہے تو اس کے بعد اسی علم کا وارث آجاتاہے یا جو خدا چاہتاہے-( کافی 1 ص 221 /1 ، علل الشرائع ص 591 / 40 ، بصائر الدرجات 118 / 2 ، الامامة والتبصرہ ص 225 / 75 از محمد بن مسلم کمال الدین 223 / 13)۔

365 ۔ امام صادق (ع)! جو علم حضرت آدم (ع) کے ساتھ آیاتھا وہ واپس نہیں گیا اور کوئی بھی عالم مرتاہے تو اس کے علم کا ورث موجود رہتاہے ، یہ زمین کسی وقت بھی عالم سے خالی نہیں ہوتی ۔( کافی 1 ص 223 / 8 کمال الدین 224 / 19، بصائر الدرجات 116 / 9 از حارث بن المغیرہ)۔

366۔ ضریس کناسی ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تا اور ابوبصیر بھی موجود تھے کہ حضرت نے فرمایا کہ داؤد علوم انبیاء کے وارث تھے اور ہم حضرت محمد کے وارث ہیں ، ہمارے پاس حضرت ابراہیم (ع) کے صحیفے اور حضرت موسیٰ (ع) کی تختیاں سب موجود ہیں ۔

367۔ ابوبصیر نے عرض کی کہ حضور یہ تو واقعی علم ہے، فرمایا یہ علم نہیں ہے، علم وہ جو روز و شب روزانہ اور ساعت بہ ساعت تازہ ہوتا رہتا ہے۔( کافی 1 ص 225 /4،بصائر الدرجات 135/1)۔

368 ۔ امام ہادی ! در زیارت جامعہ، سلام ہو ائمہ ہدیٰ پر چو تاریکیوں کے چراغ ہدایت ، علم ، صاحبان عقل ، ارباب فکر ، پناہ گاہ خلائق ، ورثہ انبیاء، مثل اعلیٰ ، دعوتِ خیر اور دنیا و آخرت سب پر اللہ کی حجت ہیں اور انھیں پر رحمت و برکات ہوں ۔( تہذیب 6 ص 96 / 177)۔

 

4۔ ان کی حدیث حدیث رسول ہے

369۔ امام باقر (ع) ! سوال کیا گیا کہ اگر آپ کی حدیث کو بلاسند بیان کریں تو اس کی سند کیا ہے؟ فرمایا ایسی حدیث کی سند یہ ہے کہ میں نے اپنے والد سے انھوں نے اپنے والد سے ، انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے رسول اکرم سے نقل کیا ہے اور آپ نے جبریل سے نقل کیا ہے۔( ارشاد 2 ص 167 ، الخرائج و الجرائح 2 ص 893 ، روضة الواعظین ص 226)۔

370۔ امام باقر (ع) ! ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جنھیں علم خدا سے عالم بنایا گیا ہے اور ہم نے اس کی حکمت سے حاصل کیا ہے اور قول صادق کو سناہے لہذا ہمارا اتباع کرو تا کہ ہدایت حاصل کرلو۔( مختصر بصائر الدرجات ص 63 ، بصائر الدرجات 514 / 34از جابر بن یزید)۔

371۔ امام باقر (ع) ! اگر ہم اپنی رائے سے حدیث بیان کرتے تو اسی طرح گمراہ ہوجاتے جس طرح پہلے والے گمراہ ہوگئے تھے، ہم اس دلیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں جسے پروردگار نے اپنے پیغمبر کو عطا کیاہے اور انھوں نے ہم سے بیان کیا ہے۔(اعلام الوریٰ ص 294 ، اختصاص ص 281 از فضیل بن یسار) ۔

372۔ جابر ! میں نے امام محمد باقر (ع) سے عرض کیا کہ جب آپ کوئی حدیث بیان کریں تو اس کی سندبھی بیان فرمادیں؟ فرمایا ہماری ہر حدیث کی سند ، والد محترم جد بزرگوار، ان کے والد محترم، پیغمبر اسلام اور آخر میں جبریل امین ہیں۔(امالی مفید 42 /10 ، حلیة الابرار 2 ص95)۔

373۔ امام صادق (ع) ، ہماری حدیث ہمارے والد کی حدیث ہے ، ان کی حدیث ہمارے جد کی حدیث ہے، ان کی حدیث امام حسین (ع) کی حدیث ہے، ان کی حدیث امام حسن (ع) کی حدیث ہے، ان کی حدیث امیر المؤمنین (ع) کی حدیث ہے، ان کی حدیث رسول اللہ کی حدیث ہے اور رسول اللہ کی حدیث قول پروردگار ہے۔( کافی 1 ص 53 / 14 از حماد بن عثمان، روضة الواعظین ص 233)۔

374۔ امام صادق (ع) ! اللہ نے ہماری ولایت کو فرض قرار دیاہے اور ہماری محبت کو واجب کیا ہے، خدا گواہ ہے کہ ہم اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے ہیں اور نہ اپنی رائے سے کام کرتے ہیں ، ہم وہی کہتے ہیں ٍو ہمارے پروردگار نے کہا ہے۔( امالی مفید 60 / 4 از محمد بن شریح)۔

375 ۔ امام موسیٰ کاظم (ع) نے خلف بن حماد کوفی کے سخت ترین سوال کے جواب میں فرمایا کہ میں رسول اکرم اور جبریل کے حوالہ سے بیان کررہا ہوں۔( کافی 3 ص 94 / 1)۔

376۔ امام رضا (ع) ! ہم ہمیشہ اللہ اوررسول کی طرف سے بیان کرتے ہیں ۔( رجال کشی 2 ص 490 / 401 از یونس بن عبدالرحمان)۔

 

5 ۔ اعلم الناس

377۔رسول اکرم ! میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہاہوں ۔ اگر تم ان دونوں کو اختیار کرلوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ ایک کتاب خدا ہے اور ایک میری عترت اہلبیت (ع) ، ایہا الناس ! میری بات سنو! میں نے یہ پیغام پہنچادیاہے کہ تم سب عنقریب میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوگے تو میں سوال کروں گا کہ تم نے ثقلین کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اور یہ ثقلین کتاب خدا اور میرے اہلبیت (ع) ہیں ، خبردار ان سے آگے نہ بڑھ جانا کہ ہلاک ہوجاؤ اور انھیں پڑھانے کی کوشش بھی نہ کرنا کہ یہ تم سب سے زیادہ علم والے ہیں۔( کافی 1 ص 294 / 3 از عبدالحمید بن ابی الدیلم از امام صادق (ع) ، تفسیر عیاشی 1 ص 250 / 169 ۔ از ابوبصیر)۔

378۔ رسول اکرم ! یاد رکھو کہ میری عترت کے نیک کردار اور میرے خاندان کے پاکیزہ نفس افراد بچوں میں سب سے زیادہ ہوشمند اور بزرگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم ہوتے ہیں، خبردار انھیں تعلیم نہ دینا کہ یہ تم سب سے اعلم ہیں۔ یہ نہ تمھیں ہدایت کے درواز ہ سے باہر لے جائیں گے اور نہ گمراہی کے دروازہ میں داخل کریں گے۔ ( عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 204 /171 احتجاج2 ص 236 ، شرح نہج البلاغہ معتزلی 1 ص276 ازامام صادق (ع) )۔

379۔ امام علی (ع) ! اصحاب پیغمبر میں حافظان حدیث جانتے ہیں کہ آپ نے فرمایاہے کہ میں اور میرے اہلبیت (ع) سب پاک و پاکیزہ ہیں، ان سے آگے نہ بڑھ جانا کہ گمراہ ہوجاؤ اور ان کی مخالفت نہ کرنا کہ جاہل رہ جاؤ اور انھیں پڑھانے کی کوشش نہ کرنا کہ یہ تم سے اعلم ہیں اور بزرگی میں تمام لوگوں سے اعلم اور کمسنی ہیں تمام بچوں سے زیادہ ہوشمند ہوتے ہیں 0تفسیر قمی 1 ص 4 اثبات الہداة 1 ص 631 / 724)۔

380۔جابر بن یزید، ایک طویل حدیث کے ذیل میں نقل کرتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ انصاری امام زین العابدین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اثنائے گفتگو امام محمد باقر (ع) بھی آگئے ، بچپنے کا زمانہ تھا اور سر پہ گیسو تھے لیکن جابر نے دیکھا تو کانپنے لگے اور جسم کے رنگٹے کھڑے ہوگئے، غور سے دیکھنے کے بد کہا فرزند ! ذرا آگے بڑھو؟ آپ آگے بڑھے، پھر کہا ذرا پیچھے ہٹیں،آپ پیچھے ہٹے، جابر نے یہ دیکھ کر کہا کہ رب کعبہ کی قسم بالکل رسول اکرم کا انداز ہے اور پھر سوال کیا کہ آپ کا نام کیا ہے؟…فرمایا محمد (ع) ! میری جان قربان ، یقیناً آپ ہی باقر (ع) ہیں؟ فرمایا بیشک تو اب اس امانت کو پہنچا دو جو رسول اللہ نے تمھارے حوالہ کی ہے! جابر نے کہا مولا ! حضور نے مجھے بشارت دی تھی کہ آپ کی ملاقات تک زندہ رہوں گا اور فرمایا تھا کہ جب ملاقات ہوجائے تو میرا سلام کہہ دینا لہذا پیغمبر اکرم کا سلام لیلیں۔

امام باقر (ع) نے فرمایا جابر ! رسول اکرم پر میرا سلام جب تک زمین و آسمان قائم رہیں اور تم پر بھی میرا سلام جس طرح تم نے میرا سلام پہنچایاہے اس کے بعد جابر برابر آپ کی خدمت میں آتے رہے اور آپ سے علم حاصل کرتے رہے، ایک مرتبہ آپ نے جابر سے کوئی سوال کیا تو جابر نے کہا کہ میں رسول اللہ کے حکم کی خلافت ورزی نہیں کرسکتاہوں، آپ نے خبر دی ہے کہ آپ اہلبیت (ع) کے تمام ائمہ ہداة بچپنے میں سب سے زیادہ ہوشمند اور بڑے ہوکر سب سے زیادہ اعلم ہوتے ہیں اور کسی کو حق نہیں ہے کہ آپ حضرات کو تعلیم دے کہ آپ سب سے زیادہ اعلم ہوتے ہیں۔

امام باقر (ع) نے فرمایا کہ میرے جد نے سچ فرمایاہے، میں اس مسئلہ کو تم سے بہتر جانتاہوں جو میں نے دریافت کیا ہے اور مجھے بچپنے ہی سے حکمت عطا کردی گئی ہے اور یہ سب ہم اہلبیت (ع) پر پروردگار کا فضل و کرم ہے۔( کمال الدین 253 / 3)۔

381۔ جبلہ بن المصفح نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ امام علی (ع) نے فرمایا کہ اے برادر بنی عام جو چاہو مجھ سے سوال کرو کہ ہم اہلبیت (ع) خدا و رسول کے ارشادات کو سب سے بہتر جانتے ہیں۔( الطبقات الکبریٰ 6 ص 240)۔

382۔ امام علی (ع) ! ہمارے علم کی گہرائیوں پر غور کرنے والے کے علم کا آخری انجام جہالت ہے۔( الطبقات الکبریٰ 6 ص 240)۔

382۔ امام علی (ع) ! ہمارے علم کی گہرائیوں پر غور کرنے والے کے علم کا آخری انجام جہالت ہے۔( شرح نہج البلاغہ معتزلی 20 ص 307 / 515)۔

383۔ امام باقر (ع) نے سلمہ بن کہیل اور حکم بن عتیبہ سے فرمایا کہ جاؤ مشرق و مغرب کے چکر لگا آؤ کوئی علم صحیح ایسا نہ پاؤگے جو ہم اہلبیت (ع) کے گھر سے نکلا ہو۔( کافی 1 ص 299 / 3 ، بصائر الدرجات 10 ، ابومریم)۔

384۔ ابوبصیر ناقل ہیں کہ امام صادق (ع) نے فرمایا کہ حکم بن عتیبہ ان لوگوں میں سے ہے جس کے بارے میں ارشاد قدرت ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ اللہ اور آخرت پر ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں، اس سے کہہ دو کہ جائے مشرق و مغرب کے چکر لگائے ، خدا کی قسم کہیں علم نہ ملے گا مگر یہ کہ اسی گھر سے نکلا ہوگا جس میں جبریل کا نزول ہوتاہے۔( بصائر الدرجات 9 ص 2 ، کافی 1 ص 299 /4 روایت مضمرہ)۔

385۔ امام باقر (ع) کسی شخص کے پاس نہ کوئی حرف حق ہے اور نہ حرف راست اور نہ کوئی صحیح فیصلہ کرنا جانتاہے مگر یہ کہ وہ علم ہم اہلبیت (ع) ہی کے گھر سے نکلاہے اور جب بھی امور میں اختلاف نظر آئے تو سمجھ لو کہ غلطی قوم کی طرف سے ہے اور حرف راست حضرت علی (ع) کی طرف سے ہے۔( کافی 1 ص 399 / 1 ، بصائر الدرجات 519 / 12 ، المحاسن 1 ص 243 / 448 ، امالی مفید 96 /6 روایت محمد بن مسلم)۔

386۔ زرارہ ! میں امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک مرد کوفی نے امیر المومنین (ع) کے اس ارشاد کے بارے میں دریافت کیا کہ جو چاہو پوچھ لو ، میں تمھیں بتاسکتاہوں! فرمایا کہ بیشک کسی شخص کے پاس کوئی علم نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا مصدر امیر المومنین (ع) کا علم ہے، لوگ جد ھر چاہیں چلے جائیں بالآخر مصدر یہی گھر ثابت ہوگا ۔( کافی 1 ص 399 / 2)۔

387۔ امام باقر (ع) ! جو علم بھی اس گھر سے نکلا ہوسمجھ لو کہ باطل اور بیکار ہے۔(مختصر بصائر الدرجات 62 ، بصائر الدرجات 511 / 21 از فضیل بن یسار)۔

388۔ عبداللہ بن سلیمان ! میں نے امام باقر (ع) کو اس وقت فرماتے سنا ہے جب آپ کے پاس بصرہ کا عثمان اعمیٰ نامی شخص موجود تھا اور آپ نے فرمایا کہ حسن بصری کا خیال ہے کہ جو لوگ اپنے علم کو پوشیدہ رکھتے ہیں ان کی بدبو سے اہل جہنم کو بھی اذیت ہوگی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن آل فرعون بھی ہلاک ہوگیا حالانکہ جناب نوح کے زمانہ سے علم ہمیشہ پوشیدہ رہاہے اور حسن بصری سے کہہ دو کہ داہنے بائیں بائیں ہر جگہ دیکھ لے اس گھر کے علاوہ کہیں علم نہ ملے گا ۔( کافی 1 ص 51 / 15 ، احتجاج 2 ص 193 / 212)۔

389 ۔ ابوبصیر ! میں نے امام باقر (ع)سے سوال کیا کہ ولدالزنا کی گواہی جائز ہے یا نہیں ؟ فرمایا نہیں … میں نے عرض کی کہ حکم بن عتبہ تو اسے جائز جانتاہے؟ فرمایا، خدایا اس کے گناہ کو معاف نہ کرنا ، پروردگار نے قرآ ن کو اس کے اور اس کی قوم کے لئے ذکر نہیں قرار دیا ہے، اس سے کہہ دو کہ مشرق و مغرب سب دیکھ لے ، علم صرف اس گھر میں ملے گا جس میں جبریل کا نزول ہوتاہے) کافی 1 ص 400 / 5)۔

390۔ امام صادق (ع) نے یونس سے فرمایا کہ اگر علم صحیح درکار ہے تو اہلبیت(ع) سے حاصل کرو کہ اس کا علم ہمیں کو دیا گیا ہے اور ہمیں حکمت کی شرح اور حرف آخر عطا کیا گیاہے، پروردگار نے ہمیں منتخب کیا ہے اور وہ سب کچھ عطا کردیا ہے جو عالمین میں کسی کو نہیں دیا ہے۔( بحار الانوار 26 ص 158 /5 الصراط المستقیم 2 ص 157 ، اثبات الہداة 1 ص 602 از یونس بن ظبیان)۔

391۔ امام صادق (ع) کے پاس ایک جماعت حاضر تھی جب آ پ نے فرمایا کہ حیرت انگیز بات ہے کہ لوگوں نے رسول اکرم سے علم حاصل کیا اور عالم بن گئے اور ہدایت یافتہ ہوگئے اور ان کا خیال ہے کہ اہلبیت (ع) نے حضور کا علم نہیں لیا ہے، حالانکہ ہم اہلبیت(ع) ان کی ذریت ہیں اور وحی ہمارے ہی گھر میں نازل ہوئی ہے اور علم ہمارے ہی گھر سے نکل کر لوگوں تک گیاہے! کیا ان کا خیال ہے کہ یہ سب عالم اور ہدایت یافتہ ہوگئے ہیں اور ہم جاہل او ر گمراہ رہ گئے ہیں ، یہ تو بالکل امر محال ہے( کافی 1 ص 398 /1 ، امالی مفید 122 / 6 ، بصائر الدرجات 12 / 3 روایت یحیئ بن عبداللہ)۔

392۔ امام رضا (ع) ! انبیاء اور ائمہ وہ ہیں جنھیں پروردگار توفیق دیتاہے اور اپنے علم و حکمت کے خزانہ سے وہ سب کچھ عنایت کردیتاہے جو کسی کو نہیں دیتا ہے ان کا علم تمام اہل زمانہ کے علم سے بالاتر ہوتاہے جیسا کہ ارشاد قدرت ہے ” کیا جو شخص حق کی ہدایت دیتاہے وہ زیادہ پیروی کا حقدار ہے یا وہ شخص جو اس وقت تک ہدایت بھی نہیں پاتاہے جب تک اسے ہدایت نہ دی جائے، آخر تمھیں کیا ہوگیا ہے اور تم کیا فیصلہ کررہے ہو“۔(یونس آیت 35)۔

دوسرے مقام پرارشاد ہوتاہے” جسے حکمت دیدی جائے اسے خیر کثیر دیدیا گیا ہے۔(بقرہ آیت 269)۔

پھر جناب طالوت کے بارے میں ارشا د ہوا ہے کہ ” اللہ نے انھیں تم سب میں منتخب قرار دیا ہے اور علم و جسم کی طاقت میں وسعت عطا فرمائی ہے اور اللہ جس کو چاہتاہے ملک عنایت کرتاہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہے اور صاحب علم بھی ہے۔بقرہ آیت 247 “ کافی 1 ص 202 / 1 ، کمال الدین 280 / 31 ، امالی صدوق 540 / 1 عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 221 /1 ، معانی الاخبار 100 /2 ، تحف العقول ص 441 ، احتجاج 2 ص 445 / 310 روایت عبدالعزیز بن مسلم )۔

 

6۔ راسخون فی العلم

393۔ اما م علی (ع) ! کہاں ہیں وہ لوگ جن کا خیال ہے کہ ہمارے بجائے وہی ” راسخوں فی العلم“ ہیں حالانکہ یہ صریحی جھوٹ ہے اور ہمارے اوپر ظلم ہے کہ خدا نے ہمیں بلند بنایاہے اور انھیں پست قرار دیا ہے، ہمیں علم عنایت فرمایاہے اور انھیں اس علم سے الگ رکھاہے، ہمیں اپنی بارگاہ میں داخل کیا ہے اور انھیں دور رکھاہے، ہمارے ہی ذریعہ ہدایت حاصل کی جاتی ہے، اور تایکیوں میں روشنی تلاش کی جاتی ہے۔(نہج البلاغہ خطبہ 124 مناقب ابن شہر آشوب 1 ص 285 ، غرر الحکم ص 2826)۔

394۔امام علی (ع) ! پروردگار نے امت پر اولیاء امر کی اطاعت کو واجب قرار دیاہے کہ وہ اسکے دین کے ساتھ قیام کرنے والے ہیں جس طرح کہ اس نے رسول کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے” اطیعوا للہ و اطیعو الرسول و اولی الامر منکم“ اس کے بعد ان اولیاء امر ، کی منزلت کی وضاحت تاویل قرآن کے ذریعہ کی ہے” و لو ردوہ الی الرسول و الیٰ اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم“( نساء آیت 83) اگر یہ لوگ مسائل کو رسول اور اولی الامر کی طرف پلٹا دیتے تو دیکھتے کہ یہ حضرات تمام امور کے استنباط کی طاقت رکھتے ہیں ۔ اور ان کے علاوہ ہر شخص تاویل قرآن کے علم سے بے خبر ہے، اس لئے کہ یہی راسخون فی العلم“ آل عمران آیت 7 ( بحار 69 ص 79 / 29)۔

395۔ یزید بن معاویہ ! میں نے امام محمد باقر (ع) سے آیت کریمہ” و ما یعلم تاویلہ الا اللہ و الراسخون فی العلم“ کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ پورے قرآن کی تاویل کا راز خدا اور راسخون فی العلم کے علاوہ کوئی نہیں جانتاہے۔ رسول اکرم ان تمام افراد میں سب سے افضل ہیں کہ پروردگار نے انھیں تمام تنزیل اور تاویل کا علم عنایت فرمایاہے اور کوئی ایسی شے نازل نہیں کی جس کی تاویل کا علم انھیں نہ دیا اور پھر ان کے اوصیاء کو عنایت فرمایاگیا اور جب جاہلوں نے یہ سوال کیا کہ ہم کیا کریں ؟ تو ارشاد ہوا ” یقولون امنا بہ کل من عند ربنا “ تمھاری شان یہ ہے کہ سب پر ایمان لے آو اور کہو کہ سب پروردگار کی طرف سے ہے۔

دیکھو قرآن میں خاص بھی ہے اور عالم بھی، ناسخ بھی ہے اور منسوخ بھی ، محکم بھی ہے اور متشابہ بھی اور راسخون فی العلم ان تمام امور کو بخوبی جانتے ہیں ۔( تفسیر عیاشی 1 ص 164 / 6، کافی 1 ص 213 / 2 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 107 ، بصائر الدرجات ص 204 /8 ، تفسیر قمی 1 ص 96 ، مجمع البیان 2 ص 701)۔

396۔امام صادق (ع) ! ہم ہی راسخون فی العلم ہیں اور ہمیں تاویل قرآن کے جاننے والے ہیں ۔( کافی 1 ص 213 / 1 ، بصائر الدرجات 5 ص 204۔

تفسیر عیاشی 1 ص 164 /8 تاویل الآیات الظاہرہ ص 106 از ابوبصیر)۔

397۔ امام صادق (ع) ! راسخون فی العلم امیر المومنین (ع) ہیں اور انکے بعد کے ائمہ ۔( کافی 1 ص 213 /3 روایت عبدالرحمان بن کثیر )۔

 

7۔ معدن العلم

398۔ رسول اکرم ! ہم اہلبیت(ع) رحمت کی کلید، رسالت کا محل ، ملائکہ کے نزول کی منزل اور علم کے معدن ہیں۔( فرائد السمطین 1 ص 44 /9 از ابن عباس)۔

399۔حمید بن عبداللہ بن یزید المدنی ناقل ہے کہ رسول اکرم کے سامنے ایک فیصلہ کا ذکر کیا گیا جو علی (ع) بن ابی طالب (ع) نے صادر کیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم اہلبیت(ع) کے گھر میں حکمت قرار دی ہے۔(فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 654/ 1113، شرح الاخبار 2 ص 309 / 631)۔

400۔ امام علی (ع) ! ہم شجرہٴ نبوت ، محل رسالت ، منزل ملائکہ ، معدن علم چشمہ حکمت ہیں ، ہمارا دوست اور مددگار ہمیشہ منتظر رحمت رہتاہے اور ہمارا دشمن اور بغض رکھنے والا ہمیشہ عذاب کے انتظار میں رہتاہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ص 109 ، غرر الحکم 10005)۔

401۔ امام علی (ع) نے مدینہ میں ایک خطبہ کے دوران فرمایا، آگاہ ہوجاؤ ! قسم اس پروردگار کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اور ذی روح کو پیدا کیا ہے اگر تم لوگ علم کو اس کے معدن سے حاصل کرتے اور پانی کو اس کی شیرنی کے ساتھ پیتے اور خیر کا ذخیرہ اس کے مرکز سے حاصل کرتے اور واضح راستہ کو اختیار کرتے اور حق کے منہاج پر گامزن ہوتے تو تمھیں صحیح راستہ مل جاتا اور نشانیاں واضح ہوجاتیں اور اسلام روشن ہوجاتا۔( کافی 8 ص 32 / 5 )۔

402۔امام حسین (ع) ! میں نہیں جانتا کہ لوگ ہم سے کس بات پر عداوت رکھتے ہیں جبکہ ہم رحمت کے گھر ، نبوت کے شجر اور علم کے معدن ہیں۔( نزہة الناظرہ85 / 21)۔

403۔ امام زین العابدین (ع) ! لوگ ہم سے کسی بات پر بیزار ہیں ، ہم تو خدا کی قسم کے شجرہ میں ہیں، رحمت کے گھر ، حلم کے معدن اور ملائکہ کی آمد و رفت کے مرکز ہیں۔( کافی 1 ص 221 /1 روایت ابوالجاروڈ، نزہة الناظر 85 / 21)۔

204۔ امام باقر (ع)(ع) ! کتاب خدا اور سنت پیغمبر کا علم ہمارے مہدی کے دل میں اسی طرح ظاہر ہوگا، جس طرح بہترین زمین پر زراعت کا ظہور ہوتاہے لہذا شخص بھی اس وقت تک باقی رہ جائے اور ان سے ملاقات کرے وہ سلام کرے، سلام ہو تو پر اے اہلبیت (ع) رحمت و نبوت و معدن علم و مرکز رسالت ! ( کمال الدین ص 603 /18 روایت جابر ، بحار الانوار 52 / 307 / 16 نقل از العدد القویہ)۔

405۔ امام باقر (ع) ! وہ درخت جس کی اصل رسول اللہ ہیں اور فرع امیر المومنین (ع) ڈالی جناب فاطمہ (ع) ہیں اور پھل حسن (ع) و حسین (ع) … یہ نبوت کا شجر اور رحمت کی پیداوار ہے، یہ سب حکمت کی کلید، علم کا معدن، رسالت کا محل، ملائکہ کی منزل، اسرار الہیہ کے امانتدار ، امانت پروردگار کے حامل، خدا کے حرم اکبر اور اس کے بیت العتیق اور حرم ہیں۔(الیقین ص 318 ، تفسیر فرات 395 / 527 ) اس میں نبت الرحمہ کے بجائے بیت الرحمہ ہے اور حرم کے بجائے ذمہ کی لفظ ہے اور روایت زیاد بن المنذر سے ہے)۔

406۔ امام صادق (ع) ! امام علی (ع) بن الحسین (ع) زوال آفتاب کے بعد نماز ادا کرکے یہ دعا پڑھا کرتے تھے ” خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما جو نبوت کے شجر رسالت کامحل ، ملائکہ کی منزل، علم کا معدن اور وحی کے اہلبیت (ع) ہیں (جمال الاسبوع ص 250 ، مصباح المتہجد ص 361)۔ نوٹ! اس موضوع کے ذیل میں احقاق الحق 10 ص 409 کا مطالعہ بھی کیا جاسکتاہے جہاں امام صادق (ع) ، امام کاظم (ع) اور امام رضا (ع) کے حوالہ سے اس تعبیر کا ذکر کیا گیاہے۔

 

8۔ زندگانی علم

407۔ امیر المومنین (ع) آل محمد کے صفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، یہ حضرات علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں، ان کا حلم ان کے علم کی خبر دے گا اور ان کا ظاہر ان کے باطن کے بارے میں بتائے گا اور ان کی خاموشی ان کے نطق کی حکمت کی دلیل ہے، یہ نہ حق کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ اس میں اختلاف کرتے ہیں، اسلام کے ستون ہیں اور تحفظ کے وسائل ، انھیں کے ذریعہ حق اپنی منزل پر واپس آیاہے اور باطل اپنی جگہ سے ہٹ گیاہے۔

اور اس کی زبان جڑ سے کٹ گئی ہے۔ انھوں نے دین کو پورے شعور کے ساتھ محفوظ کیا ہے اور صرف سماعت اور روایت پر بھروسہ نہیں کیا ہے۔ اس لئے کہ علم کی روایت کرنے والے بہت ہیں اور اس کی رعایت و حفاظت کرنے والے بہت کم ہیں۔( نہج البلاغہ خطبہ 239 ، تحف العقول 22)۔

408۔ امام علی (ع) (ع)! یاد رکھو کہ تم ہدایت کو اس وقت تک نہیں پہچان سکتے ہو جبتک اسے چھوڑنے والوں کو نہ پہچان لو اور میثاق کتاب کو اس وقت تک اختیار نہیں کرسکتے ہو جب تک اس عہد کے توڑنے والوں کو نہ پہچان لو اور اس سے متمسک نہیں ہوسکتے ہو جب تک نظر انداز کرنے والوں کی معرفت نہ حاصل کرلو لہذاہدایت کو اس کے اہل سے حاصل کرو کہ یہی لوگ علم کی زندگی ہیں اور جہالت کی موت، یہی وہ ہیں جن کا حکم ان کے علم کی خبر دے گا اور ان کی خاموشی ان کے تکلم کا پتہ دے گی، ان کا ظہر ان کے باطن کی بہترین دلیل ہے ، یہ نہ دین کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ اس میں اختلاف پیدا کرتے ہیں یہ دین ان کے درمیان ایک سچا گواہ اور ایک خاموش ترجمان ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ 147 ، کافی 8 ص 390 / 586 روایت محمد بن الحسین)۔

 

1
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت امام حسن علیہ السلام
25 شوال المکرم؛ رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ ...
پیغمبراکرم(ص) کے کچھ حکمت آمیز کلمات
13 رجب کعبہ میں امام علی علیہ السلام کی ولادت
امام زین العابدین علیہ السلام
شہادت امام جعفر صادق علیہ السلام
حقوق اہلبیت (ع)
مقام و منزلت ائمہ معصومین علیہم السلام در زیارت ...
حضرت فاطمہ زہر(س) خواتین عالم کیلئے نمونہ عمل
قرآن و سنت میں حضرت فاطمہ زہرا کے گھر کا احترام

 
user comment

سید مہربان علی
ماشااللہ اللہ لکھنے والے مومن بھائی کی توفیقات میں اضافہ فرمائے بہت خوشی ہوئی آل محمد علیہ السلام کی فضلیت پڑھ کر
پاسخ
0     0
16 خرداد 1392 ساعت 4:11 بعد از ظهر