اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

حضرت على (ع) كا معاويہ كے ساتھ مراسلت ميں محرك

187

حضرت على (ع) كا معاويہ كے ساتھ مراسلت ميں محرك

حضرت على (ع) جب تك كوفہ ميں قيام پذير رہے اور صفين كى جانب روانہ ہونے سے پہلے تك آپ نے معاويہ كى جانب خطوط بھيجنے اور اپنے نمايندگان كو روانہ كرنے ميں ہميشہ پيشقدمى كى تا كہ اسے اس راہ و روش سے روكا جا سكے جو اس نے اختيار كر ركھى تھى جس كى پہلى وجہ يہ تھى كہ حضرت على (ع) دل سے يہ نہيں چاھتے تھے كہ شام كے لوگوں سے جنگ كى جائے كيونكہ وہ بھى مسلمان تھے_

دوسرى وجہ يہ تھى كہ حضرت على (ع) چاھتے تھے كہ معاويہ ،شام كے عوام اور ان لوگوں كے لئے جو آئندہ آپ كے ہمركاب رہ كر معاويہ سے جنگ كريں گے اتمام حجت ہوجائے_

تيسرى وجہ يہ تھى كہ اگر امير المومنين حضرت على (ع) معاويہ كے خطوط كا جواب نہ ديتے اور اس كے عدم تعاون كے خلاف صريح و قطعى موقف اختيار نہ كرتے تو ممكن تھا كہ عوام اس رائے كے حامى ہوجاتے كہ معاويہ حق بجانب ہے_

ابن ابى الحديد نے ان بعض خطوط كونقل كرتے ہوئے جن كا مبادلہ حضرت على (ع) اور معاويہ كے درميان ہوا لكھا ہے كہ اگر چہ زمانے ميں نيرنگياں تو بہت ہيں مگر اس سے زيادہ كيا عجيب بات ہو سكتى ہے كہ حضرت على (ع) كے لئے نوبت يہاں تك آن پہنچى كہ ان كا اور معاويہ كا شمار ايك ہى صف كيا جانے لگا اور وہ ايك دوسرے كے ساتھ مراسلت كريں_(1)

اس كے بعد ابن ابى الحديدنے لكھا ہے كہ اس مراسلت و مكاتبت كے پس پشت كون سا محرك كار فرما تھا وہ لكھتا ہے كہ '' شايد حضرت على (ع) كى نظر ميں اس كى وہ مصلحت آشكار و روشن تھى جو ہم پر

 

188

پوشيدہ و پنہاں ہے '' اوپر جو وجوہ بيان كے گئے ہيں ان كے علاوہ خطوط لكھنے كى وجہ يہ بھى ہو سكتى ہے كہ :

1-_ زور آور و تنومند سياسى افراد نے مختلف احاديث جعل كركے معاويہ كو اس بلند مقام پر پہنچا ديا اور اس كے لئے ايسے فضائل اختراع كئے كہ معاويہ امام(ع) كے مقابلہ ميں آگيا يہى نہيں بلكہ معاويہ خود كو افضل تصور كرتا اور اس پر فخر كرتا تھا يہ تحريك عمر كے عہد خلافت ميں شروع ہوئي (2) اور بالاخرہ امير المومنين حضرت على (ع) كے زمان خلافت ميں شدت اختيار كر گئي_

2_ معاويہ نے حضرت على (ع) كو جو خطوط لكھے ہيں ان ميں اس نے حضرت على (ع) سے بہت سى ناروا باتيں منسوب كى ہيں اور اپنى طرف ايسے افتخارات كى نسبت دى ہے جن كى كوئي اساس نہيں ہے اگر حضرت على (ع) نے ان حقائق كوآشكار نہ كيا ہوتا اور اس ضمن ميں ضرورى باتيں نہ بتائي ہوتيں تو بہت سے حقيقى واقعات نظروں سے او جھل ہو كر رہ جاتے اور وہ افترا پردازياں جو آپ (ع) كے ساتھ روا ركھى گئيں ان كا جواب نہ ديا گيا ہوتا تو سادہ لوح انسان ان كو حقيقت سمجھ كر قبول كر ليتے_

حضرت على (ع) سے جو اتہامات منسوب كئے گئے ان ميں سے ايك يہ بھى تھا كہ آپ (ع) كو اپنے سے پہلے كے خلفاء سے حسد و بغض تھا اور ان كے خلاف شورش كرنا چاہتے تھے اگر اس كا جواب نہ ديا گيا ہوتا تو عين ممكن تھا كہ سپاہ عراق ميں تفرقہ پيدا ہوجاتا چنانچہ يہى جہ تھى كہ حضرت على (ع) نے اس سازش كو روكنے كى غرض سے اپنے منطقى و مستدل بيان سے معاويہ كو جواب ديا(3)_

حجاز كى جانب دراز دستي

حضرت على (ع) كى يہى كوشش تھى كہ معاويہ كے ساتھ جو اختلافات ہے وہ مسالمت آميز طريقے سے حل ہوجائيں اور وہ قتل و خون ريزى كے بغير حق و انصاف كے سامنے سر تسليم خم كردے ليكن اس كے بر عكس معاويہ پورى سنجيدگى سے حالات كى برہمى و آشفتگى اور مسلمانوں ميں باہمى اختلاف و گروہ بندى كى كوشش كرتا رہا چنانچہ اس نے اپنے سياسى اقتدار كو تقويت دينے كے لئے

 

189

سر برآوردہ افراد اور سرداران قبائل كو خط لكھنے شروع كئے تا كہ اس طريقے سے حجاز اس كى دسترس ميں آجائے_

اس سلسلے ميں اس نے عمروعاص سے مشورہ كيا اور كہا كہ اس اقدام كے ذريعے ہميں دو نتائج ميں سے ايك حاصل ہوگا يا تو ہم اپنے مقصد ميں كامياب ہوجائيں گے اور انھيں اپنا ہم خيال بناليں گے يا تو كم از كم ان كے درميان شك و ترديد تو پيدا كرديں گے تا كہ وہ على (ع) كو مدد دينے سے باز رہيں_

ليكن عمروعاص كى رائے ميں يہ اقدام موثر نہ تھا كيونكہ اس كا خيال تھا كہ جن افراد كو خط لكھا جا رہا ہے وہ يا تو حضرت على (ع) كے طرفدار ہيں ظاہر صورت ميں انھيں خط لكھنے سے ان كى نظر و بصيرت ميں اضافہ ہوگا اور وہ بيشتر على (ع) كى حامى و طرفدار ہوجائيں گے يا پھر وہ لوگ ہى جو عثمان كے جانبدار ہيں انھيں خط لكھنے سے كوئي فائدہ نہيں كيونكہ وہ جو كچھ بھى ہيں خط سے ان پر مزيد كوئي اثر ہونے والا نہيں ،رہے وہ لوگ جو ہر طرف سے لاتعلق ہيں انھيں بھى تم سے زيادہ على (ع) پر اعتماد ہے_

ليكن معاويہ اپنے فيصلے پر پورى سنجيدگى سے قائم رہا بالاخر دونوں نے مشتركہ طور پر اہل مدينہ كو لكھا اور اس ميں انہوں نے يہ اتہام لگايا كہ عثمان كے قاتل على (ع) ہيں چنانچہ انہوں نے حضرت على (ع) سے درخواست كى كہ عثمان كے قاتل ان كے حوالے كئے جائيں اور اس سلسلے ميں اہل مدينہ سے مدد چاہي_(4)

مذكورہ بالا خط كے علاوہ انہوں نے سعد بن ابى وقاص ،عبداللہ بن عمر اور محمد بن مسلمہ جيسے سر برآوردہ لوگوں كو بھى خطوط لكھے كہ جنہوں نے حضرت على (ع) سے كنارہ كشى اختيار كر لى تھي_

اس اقدام سے معاويہ كا مقصد و مدعا يہ تھا كہ وہ حضرت على (ع) كى حكومت كو داخلى مشكلات و كشمكش سے دوچار كردے كيونكہ وہ جانتا تھا كہ اگر اپنے مقصد ميں كامياب ہوگيا تو اسے دو جانبہ فتح و كامرانى حاصل ہوگى اول تو يہ كہ وہ سربرآوردہ اشخاص كى حمايت حاصل كرلے گا اور دوسرى طرف اس كے اس اقدام سے مركزى حكومت كو كارى ضرب لگے گي_

 

190

ليكن معاويہ كو جيسا كہ عمروعاص نے پيشين گوئي كى تھى كاميابى حاصل نہ ہوئي كيونكہ جن اشخاص كو خطوط لكھے گئے تھے انہوں نے منطقى و مدلل جواب كے ساتھ ان كى درخواست كو رد كرديا_(5)

نمايندے كى روانگي

اس سے پہلے كہ جنگ و جدال كى نوبت آئے حضرت على (ع) ہر اس طريقے كو بروئے كار لائے جس كے ذريعے اہل شام بيدار ہو سكيں اور معاويہ كو شورش و سركشى سے باز ركھا جاسكے اسى مقصد كے تحت انہوں نے ''خفاف بن عبداللہ '' كو معاويہ كے پاس بھيجا كيونكہ خفاف ميں شاعرانہ مزاح جاتا پايا تھا اور فطرتا بولنے والے واقع ہوئے تھے شام پہنچنے كے بعد انہوں نے اپنے چچا زاد بھائي '' حابس بن سعد'' كو جو قبيلہ طيى ّ كے سردار تھے اپنے ساتھ ليا اور دونوں مل كر معاويہ كى طرف روانہ ہوئے اور عثمان كے واقعہ قتل كى پورى تفصيل اس كے سامنے بيان كى اس كے بعد انہوں نے يہ بھى بتايا كہ لوگ حضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے كس طرح متمنى و خواہش مند تھے ساتھ ہى انہوں نے حضرت على (ع) كى بصرہ و كوفہ كى جانب روانگى كى مفصل كيفيت بيان كى اور مزيد كہا كہ اس وقت بھى بصرہ ان كى ہاتھ ميں ہے اور كوفہ ميں تمام طبقات كے لوگ جن ميں بچے، سن رسيدہ خواتين ، نئي دلہينں و غيرہ شامل ہيں پورے جوش و خروش سے آپ كا استقبال كرنے كے لئے شاداں و خندان آئے اور ميں جس وقت ان كے پاس روانہ ہوا تھا ان كے سامنے شام كى جانب آنے كے علاوہ كوئي مقصد نہ تھا(6)_معاويہ نے جب يہ كيفيت سنى تو اس پر خوف طارى ہوگيا اور ان لوگوں كى موجودگى ميں جو ان كے گرد جمع تھے اسے اپنى شكست كا احساس ہوا ناچار اس نے حابس سے كہا كہ لگتا ہے كہ يہ شخص على (ع) كا جاسوس ہے اسے اپنے پاس سے آگے چلتا كر كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ شام كے لوگوں كو گمراہ كردے _(7)

 

191

مہاجرين و انصار سے مشورہ

جب حضرت على (ع) كو يہ يقين ہوگيا كہ اب يہ طوفان دبنے والا نہيں اور معاويہ اپنے ارادے سے بازنہ آئے گا تو ناچار انہوں نے فيصلہ كيا كہ مقابلے كيلئے اقدام كريں چنانچہ پيغمبر اكرم (ص) كے طريق كا ر پر عمل كرتے ہوئے آپ (ع) نے جنگ سے قبل اپنے مہاجرين اور انصار اصحاب سے مشورہ كيا حضرت على (ع) كے پيروكاروں نے مختلف افكار و خيالات كا اظہار كيا جن ميں بيشتر افراد كى رائے يہى تھى كہ جس قدر جلد ہوسكے اقدام كيا جائے كچھ لوگوں نے كہا كہ جتنا جلدى ہوسكے اس بارے ميں فيصلہ كر ليا جائے مگر ان ميں ايسے لوگ بھى تھے جو چاھتے تھے كہ پہلے مسالمت آميز طريقہ اختيار كيا جائے اور اگر حريف اپنى عناد پسندى اور سركشى پر قائم رہا تو جنگ شروع كى جانى چاھيئے_(8)

سب سے آخر ميں سہل بن حنيف اپنى جگہ سے اٹھے اور انہوں نے حاضرين كى نمايندگى كرتے ہوئے كہا كہ '' اے امير المومنين آپ جس كے ساتھ صلح و آشتى چاہيں گے ہم اس كے ساتھ صلح و آشتى كريں گے ہمارى رائے اور مرضى وہى ہے جو آپ كى ہے ہم سب دست راست كى مانند آپ كے مطيع و فرمانبردار ہيں_(9)

اس كے بعد حضرت على (ع) نے عام لوگوں كو آمادہ كرنے كى خاطر خطبہ ديا اور لوگوں ميں جہاد كرنے اور صفين كى جانب روانہ ہونے كيلئے جوش دلايا آپ نے فرمايا : سيرو الى اعداء اللہ سيروا الى اعداء السنن و القران سيروا الى بقية الاحزاب قتلة المہاجرين و الانصار (10) چلو دشمنان خدا كى طرف ،چلو سنت و قرآن كے دشمنوں كى جانب ان لوگوں كى طرف جو باطل كے گروہ ميں سے بچ گئے ہيں جو مہاجرين و انصار كے قاتل ہيں_

اس اثناء '' بنى فزارہ '' قبيلے كا '' اربد'' نامى شخص اٹھا جو بظاہر معاويہ كا ہمنوا اور اس كا جاسوس تھا اس نے كہا كہ كيا آپ يہ چاھتے ہيں كہ ہميں اپنے شامى بھائيوں كے خلاف جنگ كرنے كے ليئے لے جائيں؟ بالكل اسى طرح جيسے آپ برادران بصرہ كے خلاف ہميں لے گئے تھے خدا كى

 

192

قسم ہم ہرگز ايسا كوئي اقدام نہيں كريں گے_

حضرت مالك اشتر نے جب يہ ديكھا كہ يہ شخص مسلمانوں كى صفوں كو درہم برہم كرنا چاہتا ہے تو انہوں نے بلند آواز ميں كہا_ ہے كوئي جو ہميں اس كے شر سے نجات دلائے؟ اربدى فزارى نے جيسے ہى مالك اشتر كى آواز سنى تو خوف كے مارے بھاگ نكلا لوگوں نے اس كا تعاقب كيا اور بالاخر بيچ بازار ميں اسے پكڑليا اور گھونسوں لاتوں ،اور شمشير كى نيام سے اسے اتنا مارا كہ اس كى جان ہى تن سے نكل گئي _(11)

عمومى فوج

جب حضرت على (ع) نے سركشوں اور شورش پسندوں كے خلاف جہاد كرنے كے لئے رائے عامہ كو ہموار كر ليا تو آپ (ع) نے مختلف مناطق ميں اپنے كارپردازوں كو فوجى فرمانداروں اور عاملين محصول كو خطوط لكھے جن ميں انھيں ہدايت كى گئي كہ اپنے اپنے علاقوں ميں وہ لوگوں كو اس جہاد مقدس ميں شركت كى دعوت ديں اور جو لوگ متمنى ہيں انھيں مركز كى جانب روانہ كيا جائے_ (12)

لوگوں كے دلوں ميں جذبہ خلوص و قربانى كو تقويت دينے كى خاطر منبر مسجد پر تشريف لے گئے اور وہاں خطبہ صادر فرمايا_ خطبہ كے دوران بعض مقامات پر آپ نے يہ بھى فرمايا كہ معاويہ اور اس كے سپاہى باغى و سركش ہوگئے ہيں كيونكہ شيطان نے ان كى زمام اپنے دست اختيار ميں لے لى ہے اور پر فريب و عدوں سے انھيں گمراہ كرديا ہے تم خداوند تعالى كى داناترين مخلوق ہو اور اسنے جن چيزوں كو حلال و حرام قرار ديا ہے ان كے درميان تم خوب تميز كرسكتے ہو چنانچہ جو تم جانتے ہو اس پر اكتفاء كرو اور خدا نے جن چيزوں سے گريز كرنے كے لئے كہا تم ان سے اجتناب كرو_ (13)

حضرت على (ع) كے خطبے كے بعد آپ كے دونوں فرزند دلبند حضرت امام حسن اور حضرت امام حسين ( عليہما السلام) نے بھى اس مسئلے كى اہميت كو واضح و روشن كرنے كے غرض سے بصيرت افروز تقارير كيں_

 

193

حضرت امام حسن (ع) كے بعض ارشادات عاليہ ميں آيا ہے كہ معاويہ اور ان كے سپاہى تيار ہوچكے ہيں خيال رہے تم ہرگز كنارہ كشى نہ كرنا كيونكہ كنارہ كشى اور احساس كمترى دلوں كو ايك دوسرے سے جدا كرديتے ہيںنوك نيزہ كے سامنے سينہ سپر ہونا عزت شجاعت اور پاكدامنى كى علامات ہيں_(14)

امام مجتبى (ع) نے عام خطبہ صادر كرنے كے علاوہ ان لوگوں سے بھى شخصاً ملاقات كى جن كا ارادہ جنگ سے كنارہ كشى اختيار كرنے كا تھا چنانچہ انھيں سمجھا كر صف مجاہدين ميں لے آئے_(15)

حضرت امام حسين (ع) نے تقرير كرنے كے علاوہ لوگوں كوراہ خدا ميں جہاد كرنے كى ترغيب دلائي اور انھيں بعض آداب فن حرب و جنگ بھى سكھائے اور سب كو اتحاد و يگانگى كى دعوت دي_(16)

جب حضرت على (ع) اور ان كے دونوں فرزند ارجمند كى تقارير اختتام پذير ہوئيں تو اكثر و بيشتر لوگ نبرد آزمائي كيلئے آمادہ ہوچكے تھے ليكن عبداللہ بن مسعود كے ساتھى عليحدہ رہے چنانچہ وہ لوگ حضرت على (ع) كے پاس آئے اور كہنے لگے كہ ہم جنگ ميں آپ سے لا تعلق رہيں گے ليكن جب ہميں جداگانہ طور پر جگہ مل جائے گى تو قريب آكر آپ اور شام كے لشكر كو ديكھيں گے اور دونوں ميں سے جو بھى غير مشروع مقصد كى جانب جائے گا يا جس كا ظلم و ستم ہميں نظر آئے گا ہم اس كے خلاف جنگ كريں گے_

حضرت على (ع) نے ان كے افكار و خيالات كى ستائشے كى اور فرمايا كہ دين ميں اسى كا نام فہم و فراست ہے اور يہى سنت سے آگاہى و واقفيت ہے_

عبداللہ كے دوسرے ساتھيوں نے جو چار سو افراد پر مشتمل تھے حضرت على (ع) سے كہا كہ ہم آپ كى فضيلت و برترى سے بخوبى واقف ہيں اور يہ بھى جانتے ہيں كہ ہم سب كو دشمن سے نبرد آزما ہونے كى آرزو ہے مگر اس كے ساتھ ہى ہميں اس جنگ كے بارے ميں شك و تردد ہے ہمارى

 

194

مرضى تو يہ ہے كہ آپ (ع) ہميں اسلامى مملكت كى سرحدوں پر بھيجديں تا كہ وہاں پہنچ كر ہم اسلام كا دفاع كرسكيں_

حضرت على (ع) نے انھيں ربيع بن خيثم كى فرماندارى ميں علاقہ رى كى سرحد پر بھيجديا_(17)

قبيلہ '' باہلہ'' ميں بھى ايسا گروہ موجود تھا جس كا حضرت على (ع) كے مكتب فكر كى جانب كوئي خاص ميلان نہ تھا چنانچہ حضرت على (ع) كے فرمان كے بموجب وہ جنگ سے كنارہ كش ہوگيا كيونكہ ايسے لوگوں كى جہاد ميں شركت جن كا كوئي مقصد و ارادہ نہ ہو اور عقيدہ بھى ان كا سُست ہو تو وہ نہ صرف محاذ حق كو تقويت نہيں پہنچاتے بلكہ بسا اوقات دوسرے سپاہيوں كا حوصلہ پست كرنے كا سبب ہوتے ہيں اور ايسى صورت ميں كہ وہ قيد كرلئے جائيں تو بہت سے فوجى راز دشمن تك پہنچاديتے ہيں يا خود دشمن ہى انھيں يہ موقع فراہم كرديتا ہے كہ وہ اس كے ليئے اپنے وطن ميں خدمات انجام ديں_

شايد ان دلائل كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے حضرت على (ع) نے انھيں اپنے پاس بلايا اور ان كى جو مزدورى يا تنخواہ ہوسكتى تھى وہ ادا كرنے كے بعد انھيں حكم ديا كہ '' ديلم'' كى جانب مہاجرت كرجائيں_(18)

كمانڈروں كا تقرر

حضرت على (ع) نے تمام بنيادى كام انجام دينے كے بعد لشكر كى روانگى كا فيصلہ كيا چنانچہ آپ كى فرمايش كے مطابق '' حارث بن اعور'' نے كوفہ ميں اعلان كيا كہ تمام لشكر'' نُخَيلة''كى جانب روانہ ہوجائے اور شہر سے باہر خيمے بپا كرلے كوفہ كے حاكم شہر '' مالك بن حبيب'' كو اس كام پر مقرر كيا گيا كہ وہ سپاہ عسكر كے درميان ہم آہنگى پيدا كريں اور انھيں لشكرگاہ كى جانب روانہ كرنے ميں مدد كريں عقبہ بن عمرو انصارى حضرت على (ع) كے جانشين كى حيثيت سے كوفہ ميں ہى مقيم رہے_

ان اقدامات كى تكميل كے بعد امير المومنين حضرت على (ع) اپنے لشكر كے ہمراہ لشكرگاہ كى جانب

 

195

روانہ ہوئے_

جب سپاہى جمع ہوگئے تو حضرت على (ع) نے انھيں سات دستوں ميں تقسيم كيا اور دستہ كا كمانڈر و سردار مقرر كيا_

1_ قيس و عبدالقيس كے دستہ كا سد بن مسعود ثقفى كو_

2_ تميم، ضبہ، قريش، وبات كنانہ اور اَسَد كے دستہ پر معقل بن قيس يربوعى كو_

3_ ازد بجيلہ خثعم، انصار اور خزاعہ كے دستہ پر مخنف ابن سليم كو_

4_ كندا، حضرت موت، قضاعہ اور مہرہ كے دستہ پر حجر بن عدى كو_

5 _ مذحج و اشعرى قبائل كے دستوں پر زياد بن نَضر كو_

6_ ہمدان اور حمير كے قبائل كے دستے پر سعد بن قيس ہمدانى كو_

7_ طى كے قبائل دستہ پر عدى ابن حاتم كو (19)

ابن عباس اور ''ابوالاسود دُئلى ''كو بصرہ ميں اپنا جانشين مقرر كيا چنانچہ اس شہر سے پانچ لشكروں پر مشتمل افواج اپنے اپنے فرمانداروں كى نگرانى ميں روانہ ہوئيں اور نُخيلة ميں اميرالمومنين حضرت على (ع) كى خدمت ميں پہنچ گئيں_(20)

حضرت على (ع نے فرمانداروں كو مقرر اور دستوں كو منظم كرنے كے بعد زياد بن نَضر ( دستہ مذحج اور اشعريوں كے فرماندار ) اور شريح بن ہانى كو اپنے پاس بلايا اور ضرورى تذكرات و ہدايات كے بعد انھيں بارہ ہزار سپاہيوں كے ساتھ اگلى منزل كى جانب روانہ كيا اور حكم ديا كہ تمام واقعات كى اطلاعات اور خبريں آپ (ع) كو پہنچائي جائيں _(21)

صفين كى جانب روانگي

روانگى كے بعد اميرالمومنين حضرت على (ع) بھى بدھ كے دن بتاريخ 5 شوال 36ھ اپنے لشكر عظيم كے ہمراہ جس كى تعداد ( قراول لشكر) كے ساتھ نوے ہزار سپاہيوں پر مشتمل تھى (22) نُخيلہ سے

 

196

صفين كى جانب روانہ ہوئے_

راستے ميں مختلف حادثات بھى پيش آئے جن ميں سے يہاں صرف دو واقعات كا ذكر كيا جاتا ہے_

1_ اميرالمومنين حضرت على (ع) جس وقت شہر '' رقہ'' ميں داخل ہوئے تو آپ نے وہاں كے لوگوں سے فرمايا كہ دريا پر پل باندھيں تا كہ سپاہ آرام سے دريا پار كرسكے ليكن وہ لوگ چونكہ آپ كى حكومت كے مخالف تھے اسے لئے انہوں نے اس كام كو انجام دينے سے انكار كيا يہى نہيں بلكہ وہ جہاز جو وہاں اس وقت لنگر انداز تھے وہ انھيں بھى اپنے ساتھ لے گئے تا كہ لشكر اسلام كے ہاتھ نہ لگ جائيں اور ہ انھيں اپنے استعمال ميں لائيں يہ كيفيت ديكھ كر حضرت على (ع) نے اپنے عساكر كو حكم ديا كہ وہ پل مَنبج سے گذريں ( جو لشكر گاہ سے نسبتاً دور تھا) اس اقدام كے بعد آپ (ع) نے مالك اشتر كو وہيں قيام كرنے كا حكم ديا اور خود اس جانب روانہ ہوگئے_

حضرت على (ع) كے ساتھ اہل رقہ نے جو سلوك كيا اس سے مالك اشتر خوش تو نہ تھے چنانچہ انہوں نے وہاں كے لوگوں سے كہا كہ خدا كى قسم اگر تم نے پل نہ باندھا اور حضرت على (ع) كو واپس نہ آنے ديا تو يں تم سب كو تہ و تيغ كردوں گا، تمہارے مال كو ضبط كرلوں گا اور زمين ويران كرڈالوںگا_

يہ سن كر وہ لوگ ايك دوسرے كا منھ تكنے لگے اور آپس ميں كہنے لگے كہ اشتر جو كہتے ہيں وہ كر گذرتے ہيں حضرت على (ع) نے انھيں يہاں اسى مقصد كے لئے رہنے كا حكم ديا ہے چنانچہ وہ فورا ہى پل باندھنے كيلئے تيار ہوگئے اور تھوڑے عرصے ميں ہى انہوں نے دريا پر پل باندھ ديا اور لشكر اسلام اس پر سے گذر گيا(23)جب لشكر اسلام فرات كے ساحل پر اتر گيا بض افراد نے يہ تجويز پيش كى كہ اتمام حجت كے طور پر معاويہ كو خط لكھا جائے اور اس كو يہ دعوت دى جائے كہ تم سے جو لغزشيں سرزد ہوئي ہيں وہ ان سے اَب باز رہے حضرت على (ع) نے ان كى اس تجويز كو قبول كرليا اور كتنى ہى مرتبہ نصيحت آميز خط لكھئے_

 

197

حضرت على (ع ) نے مذكورہ خط ميں اس امر كى جانب بھى اشارہ فرمايا كہ ( اے معاويہ) مقام خلافت كے لئے وہ شخص سب سے زيادہ سزاوار ہے جو دوسروں كے مقابل رسول خدا (ص) كے سب سے زيادہ نزديك ہو وہ كتاب خدا اور احكام اسلام كو دوسرں كى نسبت زيادہ بہتر سمجھتا ہو دين اسلام قبول كرنے ميں وہ سب پر سبقت لے گيا ہو اور جس نے سب سے زيادہ اور بہتر طريقے پر جہاد كيا ہو ميں تمھيں كتاب خدا و سنت رسول (ص) كى جانب آنے اور امت مسلمہ كى خون ريزى سے اجتناب كى دعوت ديتا ہوں_

حضرت على (ع) كے خط كى جواب ميں معاويہ نے صرف ايك ہى شعر لكھا اور اس ميں اس نے تہديد آميز رويہ اختيار كيا شعر كا مضمون يہ ہے كہ ميرے اور تمہارے درميان جنگ اور شمشير كے علاوہ كوئي اور چيز فيصلہ نہيں كر سكتي_(24)

شام ميں بحرانى حالات كا اعلان

معاويہ كو جب يہ اطلاع ملى كہ لشكر عراق كى روانگى شام كى جانب ہے تو وہ سمجھ گيا كہ اب كام نامہ و پيام سے گذر كر سنجيدہ صورت اختيار كر گيا ہے چنانچہ اس نے حكم ديا كہ لوگ شہر كى مسجد ميں جمع ہوں تقريبا ستر ہزار لوگ جمع ہوئے عثمان كے خون آلود پيراھن كو ہاتھ ميں ليا معاويہ مسجد كے منبر پر گيا اور كہا: اے شام والو تم نے اس سے پہلے على (ع) كے معاملے ميں مجھ پر اعتبار نہيں كيا ليكن اب سب پر يہ بات روشن ہوگئي ہے كہ عثمان كا قتل على (ع) كے علاوہ كسى نے نہيں كيا انہوں نے ہى عثمان كے قتل كا حكم صادر كيا اور ان كے قاتلوں كو پناہ دى اور آج انہى افراد پر مشتمل فوج انہوں نے تشكيل دى ہے اور تمہيں نيست و نابود كرنے كے لئے اب ان كا رخ شام كى جانب ہے_(25)

معاويہ كى جب ولولہ انگيز تقرير ختم ہوئي تو لوگ اس كے گرد ہر طرف سے جمع ہوگئے اور اس كے قول و بيان كى تائيد كى اس نے بھى اس موقع سے فائدہ اٹھانے كى غرض سے لوگوں كے گروہ

 

198

بنائے اور انھيں صفين كى جانب روانہ كيا اور ساتھ ہى اس نے شام ميں غير معمولى حالات كا اعلان كرديا اور وہاں كے عوام كو حكم ديا كہ محاذ جنگ پر روانہ ہوں_

معاويہ نے اپنى فوج كو حكم ديا كہ جب وہ شہر سے ايك منزل كے فاصلہ پر پہنچ جائے تو وہيں ٹھہر جائے اور اسے سلامى دے يہاں اس نے ميمنہ، ميسرہ اور مقدم لشكر كے فرماندار مقرر كيئے_

اس كے بعد لشكر وہاں سے روانہ ہوا اور اس سے قبل كہ حضرت على (ع) كے دستے صفين پہنچيں (26) وہ وہاں پہنچ گيا اور ايسے وسيع ميدان ميں جہاں سے دريائے فرات كا پانى آسانى سے دستياب ہوسكتا تھا اس نے اپنے خيمے لگائے (يہاں ساحل كے نزديك ديگر مقامات بلندى پر واقع ہيں اسى لئے پانى تك رسائي آسانى سے نہيں ہوسكتي) لشكر شام كى سپاہ كى تعداد تقريبا پچاسى ہزار (85) تھى (27) معاويہ نے قراول لشكر كے فرماندار ابوالاعور سلمى كو چاليس ہزار سواروں كے ساتھ گھاٹ پر مقرر كرديا_(28)

پہلا مقابلہ

اميرالمومنين حضرت على (ع) كے قراول لشكر كو جب يہ معلوم ہوا كہ معاويہ عظيم فوج كى ساتھ صفين كى جانب روانہ ہوگيا ہے تو انہوں نے اس خوف سے كہ كہيں دشمن كے نرغے ميں نہ گھر جائيں انہوں نے ''ہيت''نامى دريا كو پيچھے چھوڑديا اور حضرت على (ع) سے جاملے حضرت على (ع) كو جب قراول لشكر كے واپس آنے كى اطلاع ملى اور اس كى وجہ معلوم ہوئي تو آپ (ع) نے فرماندار لشكر كى رائے و تدبير كو قدر و منزلت كى نظر (29) سے ديكھا _

اس كے بعد آپ نے اسى لشكر كو دوبارہ پيش پيش چلنے كيلئے روانہ كيا چنانچہ جب ان كا معاويہ كے قراول دستے سے سامنا ہوا تو انہوں نے اس كى اطلاع حضرت على (ع) كو دى اور دريافت كيا كہ اب انھيں كيا اقدام كرنا چاہيے؟ حضرت على (ع) نے حضرت مالك اشتر كو ايك دستے كے ہمراہ ان كى مدد كے لئے روانہ كيا اور يہ حكم ديا كہ جب غنيم كا لشكر سامنے آئے تو تم ميرى جانب سے سردار لشكر

 

199

كے فرائض انجام دينا مگر يہ ياد رہے كہ حملے كا آغاز تمہارى جانب سے نہ ہو جب دشمن بالكل ہى مقابل آجائے تو اتمام حجت كى طور پر تم اس سے گفتگو كرنا اور اس كى بات غور سے سننا تا كہ آغاز جنگ كا موجب كينہ عداوت نہ ہو اپنى سپاہ كے ساتھ زياد كو ميمنہ پر اور شريح كو ميسرہ پر مقرر كرنا تم دشمن كے اس قدر نزديك بھى نہ ہونا كہ وہ خيال كرے كہ تم جنگ كے شعلوں كو بر افروختہ كرنا چاھتے ہو اور اس سے اس قدر دور بھى نہ رہنا كہ وہ يہ سمجھنے لگے كہ تم پر اس كا خوف طارى ہے حضرت على (ع) نے زياد اور شريح كو خطوط بھى لكھے جن ميں آپ نے يہ حكم صادر فرمايا تھا كہ وہ مالك اشتر كى اطاعت كريں (30) مالك انتہائي تندى و تيزى كے ساتھ روانہ ہوكر قراول دستے تك پہنچ گئے جب رات كى تاريكى سب طرف پھيل گئي تو معاويہ كے فرماندار لشكر ابوالاعور نے مالك اشتر پر شبخون مارا مگر سپاہ اسلام نے اس كى پورى پايمردى سے مقابلہ كيا اور ناچاراُسے پسپا ہونا پڑا_

اگلے روز '' ہاشم بن عتبہ'' كا ابوالاعور سے مقابلہ ہوگيا پہلے تو دونوں فرمانداروں كے درميان پيغامات كا سلسلہ جارى ہوا دونوں كے درميان رنجش و تكرار بھى ہوئي مگر جيسے ہى دن ختم ہوا يہ پيام رسانى اور باہمى درگيرى بھى ختم ہوگئي اگلے روز حضرت على (ع) بھى تشريف لے آئے اور معاويہ كے نزديك ہى آپ (ع) نے قيام فرمايا_ (31)

پانى پر بندش

حضرت على (ع) نے ہر ممكن كوشش كى كہ كوئي ايسى مناسب جگہ مل جائے جہاں انھيں دريائے فرات تك رسائي ممكن ہوسكے مگر آپ (ع) كو اس مقصد ميں كاميابى نہيں ہوئي وہاں تك پہنچنے كا ايك ہى راستہ تھا جسے ابوالاعور نے چاليس ہزار سپاہى تعينات كركے بند كرديا تھا اور وہ سپاہ اسلام كو اس جانب بڑھنے ہى نہيں ديتا تھا_

سپاہ اسلام نے كچھ عرصہ تك اس كو برداشت كيا مگر جب پياس كى شدت كا ان پر غلبہ ہوا تو انہوں نے حضرت على (ع) سے دريافت كيا كہ انھيں كيا كرنا چاہيے حضرت على (ع) نے صعصہ بن صوحان كو

 

200

معاويہ كے پاس اپنے پيغام كے ساتھ روانہ كيا جس ميں آپ نے فرمايا كہ اب جس راہ پر ميں نے قدم ركھ ديا ہے مجھے ہرگز يہ پسند نہيں كہ باہمى مذاكرہ اور اتمام حجت كے بغير جنگ كروں مگر تمہارے قراول لشكر نے ميرے قراول دستے پر حملہ كركے جنگ كا آغاز كرديا ہے اس نے دريا كے راستے كو بند كركے جنگ و جدال ميں پيشقدمى كى ہے اب تم اپنى سپاہ كو حكم دو كہ وہ دريائے فرات كے راستے سے ايك طرف ہوجائے تا كہ ہم جس مقصد كے لئے يہاں آئے ہيں اس پر گفتگو كى جاسكے مگر اس كے ساتھ ہى اگر تم اس بات كے حامى ہو كہ اصل مقصد كو بر طرف كر كے پانى پر جنگ كرو تا كہ اس تك رسائي ہوجائے تو مجھے اس پر بھى عذر نہيں_

معاويہ كو جب يہ پيغام ملا تو اس نے اس كے بارے ميں اپنے ساتھيوں سے مشورہ كيا ان ميں سے بعض نے كہا كہ جس طرح انہوں نے عثمان پر پانى بند كرديا تھا تم بھى بند كرو تا كہ وہ لوگ بھى پياس سے ہلاك ہوجائيں ليكن عمروعاص نے اس اقدام كو لا حاصل سمجھا اور كہا كہ يہ ہو ہى نہيں سكتا كہ تم تو سير ہو كر پانى پيو اور على (ع) پيا سے رہ جائيں ... تم جانتے ہو كہ على (ع) كتنے دلاور اور بہادر انسان ہيں عراق و حجاز كے لوگ بھى انہى كے ساتھ ہيں جس روز ہم ( حضرت فاطمہ (ع) كے گھر كى تلاشى لے رہے تھے تو ہم دونوں نے ہى على (ع) كى زبان سے يہ سنا تھا كہ اگر ميرے ساتھ چاليس آدمى ہى ہوتے انقلاب برپا كرديتا_(32)

مگر اس كے ساتھ ہى معاويہ نے واضح طور پر حضرت على (ع) كے نمائندے كو جواب نہيں ديا بس اتنا كہا كہ ميرا فيصلہ جلدى ہى آپ تك پہنچ جائے گا_

''صعصہ'' اس كے بعد حضرت على (ع) كے پاس واپس آگئے اور پورے واقعے كى آپ (ع) كو اطلاع دي_

جب صعصہ واپس چلے گئے تو معاويہ نے اپنى سپاہ مزيد ايك دستہ ابوالاعور كى مدد كے لئے روانہ كيا اور يہ تاكيد كہ كہ على (ع) پر حسب سابق پانى بند ركھا جائے جب اس واقعہ كى اطلاع حضرت على (ع) كو ہوئي تو آپ (ع) نے جنگ كرنے كے لئے حكم ديا_

 

201

اشعث بن قيس نے يہ تجويز پيش كى كہ اس مقصد كى بر آورى كا موقع انہيں ديا جائے جب حضرت على (ع) نے اس كى اس تجويز سے اتفاق كيا تو ايك فوجى دستہ فرات كى جانب روانہ كيا گيا دونوں لشكروں كے درميان سخت مقابلہ ہوا دونوں جانب سے فرمانداران لشكر نے تازہ دم سپاہى روانہ كئے اور آتش جنگ ہر لحظہ تيز تر ہوتى چلى گئي حضرت على (ع) كے لشكر كو فتح ہوئي اس نے فرات كو اپنے قبضہ ميں لے ليا_

اس پر بعض فاتح سپاہيوں نے يہ تجويز پيش كى كہ ہم بھى دشمن كے ساتھ وہى سلوك كريں گے جو اس نے ہمارے ساتھ روا ركھا تھا مگر جب حضرت على (ع) تك يہ بات پہنچى تو آپ (ع) نے حكم ديا كہ جس قدر تمہيں ضرورت ہے وہاں سے پانى بھرلاؤ اور معاويہ كے سپاھيوں كو بھى پانى بھرنے دو كيونكہ خداوند تعالى نے تمہيں فتح و كامرانى عطا كى ہے اور ان كے ظلم و تجاوز كو تم سے دور كرديا ہے_(33)

 

202

سوالات

1_ حضرت على (ع) كى رائے ميں معايہ بے عقل، بے پروا اور جاہ طلب انسان تھا مگر اس كے باوجود آپ نے كيوں خطوط لكھے اور اس كے خطوط كے كيوں جواب ديئے؟

2_ معاويہ نے شام كے لوگوں كے علاوہ اسلامى حكومت كے كن علاقوں سے لوگوں كو اپنى جانب متوجہ كرنا چاہا اور اس كے لئے اس نے كيا اقدامات كئے؟

3_حضرت على (ع) نے طائفہ باہلہ كے افراد كو اپنے لشكر سے عليحدہ كركے انھيں ديلم كى جانب كيوں روانہ كرديا؟

4_ جب معاويہ كو علم ہوا كہ حضرت على (ع) كا لشكر صفين كى جانب روانہ ہے تو اس نے كيا اقدام كيا؟

5_ معاويہ جب صفين پہنچ گيا تو اس نے سپاہ على (ع) كى شكست كے لئے كيا اقدامات كئے؟ اس كا مختصر حال بيان كيجئے اور اس اقدام پر حضرت على (ع) كا كيارد عمل رہا اس كى كيفيت بھى لكھيئے؟

 

203

حوالہ جات

1_ ملاحظہ ہو شرح نہج البلاغہ جلد 61/136' اس كے علاوہ خود اميرالمومنين حضرت على (ع) انہى اقوال ميں فرماتے ہيں اس سے زيادہ ميرے لئے اور كيا باعث تردد ہوگا كہ ميرا موازنہ ان لوگوں سے كيا جارہا ہے در حاليكہ ميں عثمان' طلحہ ' زبير ' سعد اور عبدالرحمن كے ہم پلہ نہيں شرح ابن ابى الحديد ج 1/184الدہر انزلنى حتى قيل معاوية و على ( زمانے نے مجھے اس قدر گرا ديا ہے كہ ميرا اور معاويہ كا نام ساتھ ليا جاتا ہے)

2_ عمر ابن خطاب نے معاويہ كو '' كسرائے عرب'' كا لقب ديا تھا اور شورائے خلافت كو تنبيہ كرتے ہوئے فرمايا تھا كہ خبردار اگر تم ايك دوسرے كے ساتھ اختلاف كروگے تو معاويہ شام سے اٹھے گا اور تمہيںمغلوب كر لے گا_

3_ بطور مثال حضرت على (ع) پر حسد كا اتہام لگايا گيا اس كا جواب ديتے ہوئے اميرالمومنين حضرت على (ع) نے لكھا تھا ... بالفرض اس الزام ميں اگر كوئي صداقت ہے تو ايسا كوئي جرم نہيں جو تم پر بھى عايد ہوا اور ميں اس كے لئے عذر خواہى كروں بقول شاعر اگر چہ ننگ ہے مگر اس كى گرد تمہارے دامن كو نہ پكڑے گى ( نہج البلاغہ مكتوب 28) معاويہ كے خطوط اور حضرت على (ع) كے جوابات كے لئے بيشتر اطلاع كے لئے ملاحظہ ہو شرح ابن ابين الحديد ج 15/184

4_ وقعہ صفين 63 ، 62' شرح ابن ابى الحديد 3/109

5_ ان خطوط كے جوابات كا مطالعہ كرنے كے لئے ملاحظہ ہوكتا ب'' وقعة صفين '' صفات 63' 71' 72' 75' اور 76،

6_ وقعہ صفين /65/64

7_ وقعہ صفين 68

8_ وقعہ صفين 92

9_ وقعہ صفين 93

0_ وقعہ صفين 94

11_ وقعہ صفين 94' چونكہ اس كے قاتلين كى تشخيص نہ كى جاسكى اسى لئے حضرت على (ع) نے اس كا خون بہا بيت المال سے ادا كيا_

 

204

12_ ان خطوط كے متون كا مطالعہ كرنے كے لئے كتاب وقعہ صفين كے صفحات 108،104ملاحظہ ہو_

13_ وقعہ صفين 113

14_ وقعہ صفين 113

15_ وقعہ صفين 7_6

16_ وقعہ صفين 116

17_ وقہ صفين 115

18_ وقعہ صفين 116

19_ وقعہ صفين 121

20_ وقعہ صفين 117

21_ وقعہ صفين 122، 121

22_ مروج الذہب ج 2/375 ' سپاہ كى تعداد ايك لاكھ اور ايك لاكھ پچاس ہزار بھى بتائي گئي ہے تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو وقعہ صفين 156' اور اعيان الشيعہ ج 1/478 ( دس جلدي)

23_ رقہ ، فرات كے كنار ے پرواقع جزيرہ كا ايك شہر ہے اس كا حرّان تك فاصلہ تين دن كا ہے (معجم البلدان ج3)

23_ وقعہ صفين 152، 151'يعقوبى ج 2/187، كامل ابن اثير ج 3/281

25_ وقعہ صفين 151،149' ليس بينى و بين قيس عتاب غير طعن الكلى و ضرب الرقاب

26_ وقعہ صفين 127

27_ صفين رومى عہد حكومت كے زمانے كا ايك ويران قريہ تھا اس كے اور فرات كے درميان ايك تير كى دورى كا فاصلہ تھا صفين كے سامنے ساحل كے نزديك دو فرسخ كے رقبے ميں بانسوں كا گھنا جنگل تھا جس كے درميان پختہ راستہ ساحل فرات تك بنا ہوا تھا اور اسى كے ذريعے پانى وہاں سے لايا جاتا تھا ( اخبار الطوال /167)

28و29_ مروج الذہب ج 1/375' جس طرح حضرت على (ع) كے لشكر ميں سپاہ كى تعداد ميں اختلاف تھامعاويہ كے لشكر كے بارے ميں مورخين متفق الرائے نہيں ہيں_

 

205

30_ كامل ابن اثير ج/ 282 ' وقعہ صفين 152

31 _ كامل ابن اثير ج 3/282' وقعہ صفين 152

32و33_ وقعہ صفين 155_ 154

34_ وقعہ صفين 163

35_ كامل ابن اثير 3/285_ 282' وقعہ صفين /167و 160' مروج الذہب ج2/375' تاريخ يعقوبى ج2/187

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

سکوت امیرالمومنین کے اسباب
مسلم بن عقیل کی بیٹیوں کے نام کیا تھے؟
امام حسين (ع) کي طرف سے آزادي کي حمايت
حُرّ؛ نینوا کے آزاد مرد
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(اول)
آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے ...
امام حسن(ع) کی صلح اور امام حسین (ع)کے قیام کا فلسفہ
حدیث غدیر کی سندیت و دلالت
۔حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیھاالسلام کے دروازے ...
اسلام سے قبل جہالت کي حکمراني تھي

 
user comment