اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

روز قیامت منزلت اہلبیت (ع)

روز قیامت منزلت اہلبیت (ع)

140 ۔ رسول اکرم ! سب سے پہلے میرے پاس حوض کوثر پر میرے اہلبیت (ع) وارد ہوں گے اور امت میں میرے واقعی چاہنے والے۔( السنہ لابن ابی عاصم 324 / 748 ، کنز العمال 12 / 100 / 34178)۔

141۔ رسول اکرم ! تم میں سب سے پہلے میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونے والا اور سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والا علی (ع) بن ابی طالب (ع) ہے۔(مستدرک 3 ص 147 / 2662 ، تاریخ بغداد 2 ص81، مناقب ابن المغازلی 16 / 22 ، مناقب خوارزمی 52 / 15)

142۔ امام علی (ع) ! میرے پاس رسول اکرم تشریف لے آئے جب میں بستر پر تھا، آپ سے حسن (ع) یا حسین (ع) نے پانی مانگا اور آپ نے بکری کو دوہ کردینا چاہا کہ دوسرا بھائی سامنے آیا، آپ نے اسے سامنے سے ہٹادیا تو فاطمہ زہرا نے کہا کہ کیا وہ آپ کو زیادہ محبوب ہے؟ فرمایا نہیں بات یہ ہے کہ اس نے پہلے تقاضا کیاہے اور یاد رکھو کہ میں ۔ تم اور بستر پر آرام کرنے والا سب روز قیامت ایک مقام پر ہوں گے ۔( مسند ابن حنبل 1 ص 217 / 792 از عبدالرحمان ازرق ، المعجم الکبیر 3 ص 41 / 2622 از ابی فاختہ ، مسند ابوداؤد طیالسی 26 / 190 ، تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) 110 / 182 ۔ 118 / 191 ، اسد الغابہ 7/ 220 ، السنة لابن ابی عاصم 584 / 1322 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 111 /115 ، کتاب سلیم بن قیس 2 ص 732 / 21)۔

143 ۔ امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اکرم نے فرمایا کہ جنت میں سب سے پہلے ہیں ۔ فاطمہ (ع) ، حسن (ع) اور حسین (ع) داخل ہوں گے تو میں نے عرض کی اور ہمارے چاہنے والے ؟ فرمایا تمھارے پیچھے پیچھے ۔(مستدرک 3 ص 164 / 4723 از عاصم بن ضمرہ ، ذخائر العقبيٰ ص 123 ، بشارة المصطفیٰ ص 46 )۔

144 ۔ رسول اکرم ! ہم ۔ علی (ع)۔ فاطمہ (ع)۔ حسن (ع) اور حسین (ع) سب روز قیامت زیر عرض الہی ایک قبہ میں ہوں گے ۔( کنز العمال 12 ص 100 / 34177 ، مجمع الزوائد 9 ص 276 / 15022 ، شرح الاخبار 3 ص 4 / 914 از ابوموسیٰ اشعری، مناقب خوارزمی 303 / 298 ، بشارة المصطفیٰ ص 48۔

145۔ رسول اکرم ! وسیلہ ایک درجہ ہیجس سے بالاتر کوئی درجہ نہیں ہے۔ پروردگار سے طلب کرو کہ وہ مجھے وسیلہ عنایت فرمادے۔( مسند ابن حنبل 4 ص

165 / 11783 از ابوسعید خدری 3 ص 86 / 7601 ص 292 / 8778 از ابوہریرہ 2 ص 571 / 6579 از عبداللہ بن عمرو ابن العاص ، صحیح بخاری 1 /222 / 589 ، صحیح مسلم 1 ص 289 / 384 ، سنن ابی داؤد 1 ص 144 / 523 ص 146 / 529 ، سنن ترمذی 5 ص 586 / 3612 ، سنن نسائی 2 ص 25 / 671 ، ص 27 / 673 ، سنن ابن ماجہ 1 ص 239 / 722۔

146 ۔ رسول اکرم ، جنت میں ایک درجہ ہے جسے وسیلہ کہاجاتاہے، اگر تمھیں اللہ سے کوئی سوال کرنا ہے تو میرے لئے وسیلہ کا سوال کرو ، لوگوں نے عرض کی کہ اس میں آپ کے ساتھ کون کون رہے گا ؟ فرمایا علی (ع) ۔ فاطمہ (ع) ۔ حسن (ع) حسین (ع) ( کنز العمال 12 ص 103 / 34195 ۔ 13 ص 139 / 37616 ، تفسیر ابن کثیر 2 ص 68 ، بشارہ المصطفیٰ ص 270 ، معانی الاخبار 116 / 1 ، تفسیر قمی 2 ص 324 ، علل الشرائع 164 / 6 ، بصائر الدرجات 416 / 11 ، روضة الواعظین 2 ص127۔

147۔رسول اکرم ! جنت کا مرکزی علاقہ میرے اور میرے اہلبیت (ع) کے لئے ہوگا ۔ ( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 68 / 314 از حسن بن عبداللہ التمیمی)۔

148۔ حذیفہ ! میری والدہ نے پوچھا کہ تمھارا رسول اکرم کا ساتھ کب سے ہے؟ میں نے عرض کی فلاں وقت سے اس نے مجھے بُرا بھلا کہا تو میں نے کہا للہ خاموش ہوجائیے۔ میں رسول اکرم کے ساتھ نماز مغرب کے لئے جارہا ہوں ، نماز کے بعد ان سے درخواست کروں گا کہ میرے اور آپ کے لئے دعائے مغفرت کریں ۔ یہ کہہ کر میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مغرب و عشاء کی نماز ادا کی ، اس کے بعد آپ جانے لگے تو میں ساتھ ہولیا۔ راستہ میں ایک شخص مل گیا اس سے آپ نے باتیں کیں۔ پھر روانہ ہوگئے اور میں پھر ساتھ چلا، ایک مرتبہ میری آواز سن کر فرمایا کون ؟ میں نے عرض کی حذیفہ ۔

فرمایا کیوں آئے ؟ میں نے ماجرا بیان کیا ۔ فرمایا خدا تمھیں اور تمھاری ماں کو بخش دے ۔ کیا تم نے راستہ میں ملنے والے کو بھی دیکھاہے؟ عرض کی بیشک ! فرمایا یہ ایک فرشتہ ہے جو آج پہلی مرتبہ آسمان سے نازل ہوا ہے اور یہ خدا سے اجازت لے کر مجھے سلام کرنا چاہتا تھا اور یہ بشارت دینا چاہتا تھا کہ حسن (ع) و حسین (ع) جوانان جنت کے سردار ہیں۔ اور فاطمہ (ع) جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں اور پروردگاران سب سے راضی ہے۔( مسند احمد بن حنبل 9/ 91 / 23389 ، سنن ترمذی 5 ص 326 / 3870 ، خصائص نسائی ص 239 / 130 مجمع الزوائد 9 ص 324 / 15192 ، حلیة الاولیاء 4 / 190 ، اسد الغابہ 7 ص 304 / 7410۔ المصنف لابن ابی شیبہ 7 ص 164 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 51 ص 72 ص 73 ، ذخائر العقبيٰ ص 121 ، امالی مفید (ر) 23 / 4 ، بشارة المصطفیٰ ص 277 ، کمال الدین ص 263 / 10 ، شرح الاخبار 3 ص 65 / 990 ص 75 / 995۔

149 ۔ رسول اکرم ! میں ایک شجر ہوں اور فاطمہ (ع) اس کی شاخ ہے اور علی (ع) اس کا شگوفہ ہے اور حسن (ع) و حسین اس کے پھل ہیں اور ہمارے شیعہ اس کے پتے ہیں ، اس شجر کی اصل جنّت عدن میں ہے اور باقی حصہ سار ی جنّت میں پھیلا ہواہے۔( مستدرک علی الصحیحین 3 ص 174 / 4755 از عبدالرحمٰن بن عوف )۔

خصائص اہلبیت (ع) 

اہم ترین خصوصیات

1۔طہارت

﴿ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا﴾

150۔ رسول اکرم ! ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جن سے خدا نے ہر برائی کو دور رکھاہے چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی ( الفردوس 1 ص 54 / 144)

151 ۔ رسول اکرم ! پروردگار نے مخلوقات کو دو قسموں پر تقسیم کیا اور مجھے بہترین قسم میں قرار دیا جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ کچھ اصحاب الیمین ہیں اور کچھ اصحاب الشمال ، ہمارا تعلق اصحاب الیمین سے ہے اور میں ان میں بہترین قسم میں ہوں۔

اس کے بعد اس نے دونوں قسموں کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور مجھے ان کے بہترین حصہ میں قرار دیا جس کی طرف اصحاب میمنہ کے ساتھ ”السابقون السابقون“ کے ذریعہ اشارہ کیا گیا ہے کہ ہمارا شمار سابقین میں ہے اور میں ان میں بھی سب سے بہتر ہوں۔ اس کے بعد ان تینوں حصوں کو قبائل میں تقسیم کیا گیا اور مجھے سب سے بہتر قبیلہ میں رکھا گیا جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیاگیاہے کہ پروردگار نے تمھیں شعوب اور قبائل میں تقسیم کیا ہے تا کہ ایک دوسرے کو پہچان سکواور تم میں سب سے زیادہ محترم وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے۔

میں اولاد آدم میں سب سے زیادہ متقی اور پیش پروردگار مکرم ہوں لیکن یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے، یہ مقام شکر ہے، اس کے بعد مالک نے قبائل کو خاندانوں میں تقسیم کیا اور مجھے بہترین گھر میں قرار دیا جسکی طرف آیت تطہیر میں اشارہ کیا گیاہے تو مجھے اور میرے اہلبیت (ع) سب کو گناہوں سے پاک و پاکیزہ قرار دیا گیا ہے۔( دلائل النبوة بیہقی 1 ص 170 ، البدایة والنہایة 2 ص 257 ، الدرالمنثور 6 ص 605 ، مناقب امیر المومنین (ع) الکوفی 1 ص 127 / 70 ص 406 / 324 ، مجمع البیان 9 ص 207 ، اعلام الوریٰ ص 16 ، المعجم الکبیر 12 ص 81 / 12604 ، 3 ص 57 / 74 26 ، امالی الشجری 1 ص 151 ، امالی صدوق ص 503 / 1 تفسیر قمی 2 ص 347 )۔

152 ۔ رسول اکرم ! میں اور علی (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) اور نو اولاد حسین (ع) سب پاک و پاکیزہ اور معصوم قرار دیے گئے ہیں ( کمال الدین ص 280 / 28 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 64 / 30 ، مناقب ابن شہر آشوب 1 ص 295 کفایة الاثر ص 19 ، الصراط المستقیم 2 ص 110 ، ینابیع المودة 3 ص 291 / 9 ، فرائد السمطین 2 ص 133 / 430)۔

153 ۔ رسول اکرم ! میرے بعد بارہ امام مثل نقباء بني اسرائیل ہوں گے اور سب کے سب دین خدا کے امانتدار ۔ پرہیزگار اور معصوم ہوں گے۔( جامع الاخبار 62 / 80)۔

154۔ رسول اکرم ! ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جنھیں پروردگار نے پاکیزہ قرار دیاہے ۔ ہم شجرہٴ نبوت اور موضع رسالت ہیں۔ ہمارے گھر ملائکہ کی آمد و رفت رہتی ہے۔ ہمارا گھرانہ رحمت کا ہے اور ہم علم کا معدن ہیں۔ (الدرالمنثور 6 ص 606 از ضحاک بن مزاحم)۔

155 ۔ رسول اکرم ۔ جو شخص بھی اس سرخ لکڑی کو دیکھنا چاہتاہے جسے مالک نے اپنے دست قدرت سے بویاہے اور اس سے متمسک رہنا چاہتاہے اس کا فرض ہے کہ علی (ع) اور ان کی اولاد کے ائمہ سے محبت کرے کہ یہ سب خدا کے منتخب اور پسندیدہ بندے ہیں اور ہر گناہ اور ہر خطا سے معصوم ہیں ۔( امالی صدوق (ر) ص 467 / 26 ، عیون اخبار الرضا ص 57 / 211 از محمد بن علی التمیمی )۔

156 ۔ امام علی (ع) ! پروردگار نے رسول کی اطاعت کا حکم دیاہے اس لئے کہ وہ معصوم اور پاکیزہ کردار ہیں اور کسی معصیت کا حکم نہیں دے سکتے ہیں اس کے بعد اس نے اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیاہے کہ وہ بھی معصوم اور پاکیزہ کردار ہیں اور کسی معصیت کا حکم نہیں دے سکتے ہیں( خصال ص 139 / 158 ، علل الشرائع ص 123 ، کتاب سلیم بن قیس 2 ص 884 / 54)۔

157 ۔ امام علی (ع) ۔ پروردگار نے ہم اہلبیت (ع) کو فضیلت عنایت فرمائی ہے اور کیوں نہ ہوتا جبکہ اس نے ہمارے بارے میں آیت تطہیر نازل کی ہے اور ہمیں تمام برائیوں سے پاکیزہ قرار دیاہے، چاہے کھلی ہوئی ہوں یا مخفی ہوں، ہم ہی میں جو حق کے راستہ پر ہیں ۔ ( تاویل الآیات الظاہرہ ص 450)۔

150 ۔ امام حسن (ع) ۔ ہم ہ اہلبیت (ع) ہیں جنھیں مالک نے اطاعت کے ذریعہ محترم بنایاہے اور ہمیں منتخب اور مصطفیٰ و مجتبي قرار دیاہے۔ ہم سے ہر رجس کو دور رکھاہے اور ہمیں مکمل طور پر پاکیزہ قرار دیاہے۔ اور شک رجس ہے لہذا ہمیں خدایا دین خدا کے بارے میں کبھی شک نہیں ہوسکتاہے۔ اس نے ہمیں ہر طرح کے انحراف اور گمراہی سے پاکیزہ رکھاہے۔( امالی طوسی (ر) ص 562 / 1174 از عبدالرحمٰان بن کثیر )۔

159 ۔ امام باقر (ع) ! ہماری توصیف ممکن نہیں ہے۔ ان کی توصیف کون کرسکتاہے جن سے اللہ نے ہر رجس اور شک کو دور رکھاہے۔( کافی 2 ص 182 / 16)۔

160۔ امام صادق (ع) ! انبیاء اور اولیاء کی زندگی میں کوئی گناہ نہیں ہوتاہے۔ یہ سب معصوم اور مطہر ہوتے ہیں ۔( خصال ص 608 / 9)۔

161۔ امام صادق (ع) ! شک اور معصیت کی جگہ جہنم ہے اور ان کا تعلق کسی طرح بھی ہم سے نہیں ہے۔( کافی 2 ص 400 / 5)۔

162 ۔ امام صادق (ع) ! آیت تطہیر میں رجس سے مراد ہر طرح کا شک ہے۔(معانی الاخبار 138 / 1)۔

163 ۔ امام رضا (ع) ! امامت وہ مرتبہ ہے جسے پروردگار نے جناب ابراہیم (ع) کو نبوت کے بعد عنایت فرمایاہے اور تیسرا مرتبہ خلت کا ہے، امامت ہی کے ذریعہ انھیں مشرف کیا ہے اور اس ذریعہ سے ان کے ذکر کو محترم بنایا ہے۔” انی جاعلک للناس اماما“۔

خلیل خدا نے اس مرتبہ کو پانے کے بعد کمال مسرت سے گزارش کی کہ خدایا اور میری ذریت؟ فرمایا یہ عہدہ ظالموں تک نہیں جاسکتاہے لہذاآ یت کریمہ نے قیامت تک کہ ظالموں کی امامت کو باطل قرار دیدیا ہے اور یہ صرف منتخب افراد کا حصّہ ہوگئی ہے۔ اس کے بعد پروردگار نے اسے ان کی اولاد کے پاکیزہ افراد کا حصہ قرار دیاہے اور ارشاد فرمایاہے کہ ” ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب جیسی اولاد عطا فرمائی ہے اور سب کو صالح قرار دیاہے”--- پھر ارشاد ہوا“ ہم نے انھیں امام بنایا ہے کہ ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت دیں اور ان کی طرف وحی کی ہے کہ نیکیاں انجام دیں۔ نماز قائم کریں ۔ زکٰوة ادا کریں اور یہ سب ہمارے عبادت گذار بندے تھے۔( کافی 1 ص 199 / 1 ، کمال الدین ص 676 / 31 امالی صدوق (ر) 537 / 1 ، معانی الاخبار 97 / 2 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 217 از عبدالعزیز بن مسلم)۔

164 ۔ امام ہادی (ع) زیارت جامعہ میں فرماتے ہیں۔ آپ حضرات سب ائمہ راشدین مہدی ، معصوم اور مکرم ہیں ، پروردگار نے آپ حضرات کو لغزش سے محفوظ رکھاہے ۔ فتنوں سے بچاکر رکھاہے، برائیوں سے پاک رکھاہے ارو آپ سے ہر رجس کو دور کرکے پاک و پاکیزہ قرار دیاہے۔(تہذیب 6 ص 97 /177 ، الفقیہ 2 ص 611 / 3213 ، فرائد السمطین 2 ص 180 ، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 273 ، از موسیٰ بن عمران نجفی ، غالباً یہ موسیٰ بن عبداللہ ہیں)۔

 

2۔ ہم پلہ قرآن

165۔ زید بن ارقم کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم نے مکہ و مدینہ کے درمیان خم نامی مقام پر خطبہ ارشاد فرمایا اور حمد و ثنائے الہی کے بعد وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! میں بھی ایک بشر ہوں اور قریب ہے کہ میرے پاس داعی الہی آجائے اور میں اس کی آواز پر لبیک کہتا ہوا چلا جاؤں تو آگاہ رہنا کہ میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک کتاب خدا جس میں نور اور ہدایت ہے اسے پکڑے رہو اور اس سے وابستہ رہو ۔ یہ کہہ کر اس کے بارے میں ترغیب و تنبیہ فرمائی ۔ اس کے بعد فرمایا کہ اور ایک میرے اہلبیت (ع) ہیں جن کے بارے میں تمھیں خدا کو یاد دلارہاہوں اور اس جملہ کو تین مرتبہ دہرایا۔ (صحیح مسلم 4 / 1873 ۔ 2408 ، سنن دارمی 2/ 889 / 3198 ، مسند ابن حنبل 7/ 75 / 19285 ، سنن کبریٰ 10 / 194 / 20335 ، تہذیب تاریخ دمشق 5 ص 439 فرائد السمطین 2 ص 234 / 513 ۔

166۔ رسول اکرم نے فرمایا کہ میں تمھارے درمیان وہ چیزیں چھوڑے جارہاہوں جن سے متمسک رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ان میں ایک دوسرے سے بزرگتر ہے اور وہ کتاب خدا ہے جو ایک ریسمان ہدایت ہے جس کا سلسلہ آسمان سے زمین تک ہے اور ایک میری عترت اور میرے اہلبیت (ع) ہیں اور یہ دونوں اس وقت تک جدا نہ ہونگے جب تک میرے پاس حوض کوثر پر وارد نہ ہوجائیں ۔ دیکھو اس کا خیال رکھنا کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہو۔ (سنن ترمذی 5 ص 663 / 3788 از زید بن ارقم )۔

167۔ زید بن ارقم ! جب رسول اکرم حجة الوداع سے واپسی پر مقام غدیر خم پر پہنچے تو آپ نے درختوں کے نیچے زمین صاف کرنے کا حکم دیا پھر فرمایا کہ گویا میں داعی الہی کو لبیک کہنے جارہاہوں لہذا یاد رکھنا کہ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہاہوں جن میں ایک دوسرے سے بڑی ہے، کتا ب خدا اور میری عترت لہذا یہ خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہو۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوجائیں اور یہ کہہ کر فرمایا کہ اللہ میرا مولا ہے اور میں تما م مومنین کا مولی ٰ ہوں اور پھر علی (ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی (ع) بھی مولاہے، خدا اسے دوست رکھنا جو اس سے دوستی رکھے اور اس اپنا دشمن قرا ر دیدینا جو اس سے دشمنی کرے۔ (مستدرک 3 ص 118 / 4576 ، خصائص نسائی 150 / 79 ، کمال الدین 234 / 250 ، الغدیر 1 ص 30 ، 34 ، 302)۔

168۔ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم کو حج کے موقع پر روز عرفہ یہ خطبہ ارشاد فرماتے دیکھاہے کہ ایہا الناس ! ---میں تم میں انھیں چھوڑے جارہاہوں جن سے متمسک رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے ۔ کتاب خدا اور میرے عترت و اہلبیت (ع) ۔ (سنن ترمذی 5 ص 662 / 3786 )۔

169 ۔ رسول اکرم ۔ ایہا الناس میں آگے آگے جارہاہوں اور تم سب کو میرے پاس حوض کوثر پر آناہے جہاں میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا لہذا اس کا خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہو۔ ثقل اکبر کتاب خدا ہے جس کا ایک سراپروردگار کے ہاتھوں میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے لہذا اس سے متمسک رہنا اور ہرگز نہ گمراہ ہونا اور نہ اس میں کوئی تبدیلی پیدا کرنا ۔( تاریخ بغداد 8 ص 442 از حذیفہ بن اسید)۔

170۔ حذیفہ بن اسید الغفار ی ! جب رسول اکرم حجة الوداع سے فارغ ہوکر چلے تو آپ نے اصحاب کو منع کیا کہ درختوں کے نیچے پناہ نہ لیں اور اس جگہ کو صاف کراکے آپ نے نماز ادا فرمائی اور پھر کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا ۔ ایہا الناس ! مجھے خدا ئے لطیف و خیبر نے خبردی ہے کہ ہر نبی کی زندگی اس سے پہلے والے سے نصف رہی ہے لہذا قریب ہے کہ میں بلالیا جاؤں اور چلاجاؤں اور مجھ سے بھی سوال کیا جائے گا اور تم سے بھی سوال کیا جائے گا تو بتاؤ کہ تم کیا کہنے والے ہو؟ لوگوں نے عرض کی کہ ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے تبلیغ فرمائی اور اس راہ میں زحمت گوارا فرمائی اور ہمیں نصیحت فرمائی ۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے۔

فرمایا کیا اس بات کی گواہی نہ دوگے کہ خدا وحدہ لا شریک ہے اور محمد اس کے بندہ اور رسول ہیں ؟ اور جنت و جہنم برحق ہیں اور موت بھی برحق ہے او ر موت کے بعد کی زندگی بھی برحق ہے اور بلاشبہ قیامت آنے والی ہے اور خدا لوگوں کو قبروں سے نکالنے والاہے؟ سب نے عرض کی بیشک ہم گواہی دیتے ہیں ! فرمایا خدا یا تو بھی گواہ رہنا ۔

اس کے بعد فرمایا کہ لوگو ! خدا میرا مولاہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور ان کے نفوس سے اولیٰ ہوں اور جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی (ع) بھی مولا ہے۔ خدایا جو اس سے محبت کرے اس سے محبت کرنا اور جو اس سے دشمنی رکھے اس سے دشمنی کرنا ۔

پھر فرمایا ایہا الناس ! میں آگے آگے جارہاہوں اور تم سب میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونے والے ہو۔و ہ حوض جس کی وسعت بصرہ اور صنعاء کی مسافت سے زیادہ ہے اور وہاں ستاروں کے عدد کے برابر چاندی کے پیالے رکھے ہوئے ہیں اور میں تمھارے والد ہونے کے بعد تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا کہ تم نے میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ۔ ان میں ثقل اکبر کتاب خدا ہے جس کا ایک سراخداکے ہاتھوں میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے۔ اس سے وابستہ رہنا کہ گمراہ نہ ہو اور اس میں تبدیلی نہ کرنا ۔ دوسرا ثقل میری عترت اور میری اہلبیت (ع) ہیں ۔ خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبردی ہے کہ ان کا سلسلہ ہرگز ختم نہ ہوگا جب تک میرے پاس حوض کوثر پر نہ وارد ہوجائیں ۔( المعجم الکبیر 3 ص 180/ 352)۔

171 ۔ معروف بن خربوذ نے ابوالطفیل عامر بن واثلہ کے حوالہ سے حذیفہ بن اسید الغفاری سے نقل کیا ہے کہ جب رسولاکرم حجة الوداع سے واپس ہوئے تم ہم لوگ آپ ہمراہ تھے۔ جحفہ پہنچ کر آپ نے اصحاب کو قیام کا حکم دیا اور سب اونٹوں سے اتر آئے پھر نماز کی اذان ہوئی اور آپ نے اصحاب کے ساتھ دو رکعت نماز ( ظہر قصر ) ادا فرمائی ۔ اس کے بعد ان کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ مجھے خدائے لطیف و خبیر نے خبردی ہے کہ مجھے بھی مرنا ہے اور تم سب کو مرناہے اور گویا کہ میں اب داعی الہی کو لبیک کہنے والا ہوں اور مجھ سے میری رسالت کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا اور کتاب خدااور حجت الہی کو چھوڑے جارہاہوں اس کے بارے میں بھی سوال ہوگا اور تم سے بھی سوال کیا جائے گا تو بتاؤ کہ تم لوگ پروردگار کی بارگاہ میں کیا کہوگے ؟ لوگوں نے عرض کی کہ ہم آپ کی تبلیغ ، کوشش اور نصیحت کی گواہی دیں گے خدا آپ کو جزائے خیر دے۔

فرمایا کیا توحید الہی ، میری رسالت ، جنّت و جہنم اور حشر و نشر کے برحق ہونے کی گواہی نہ دوگے؟ عرض کی بیشک گواہی دیں گے ، فرمایا خدا یا تو بھی ان کے بیان پرگواہ رہنا۔

اچھا اب میں تمھیں گواہ بناتاہوں کہ میں اس امر کا گواہ ہوں کہ خدامیرا مولا ہے اور میں ہر مسلمان کا مولا ہوں اور مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولی ہوں کیا تم لوگ بھی اس کا اقرار کرتے ہو اور اس کی گواہی دیتے ہو؟

سب نے عرض کی ۔ بیشک ہم گواہی دیتے ہیں۔

فرمایا تو آگاہ ہوجاؤ کہ جس کا میں مولا ہوں ۔ اس کا یہ علی (ع) بھی مولاہے۔

یہ کہہ کر علی (ع) کو اس قدر بلند کیا کہ سفیدی بغل نمایان ہوگئی ۔ اور فرمایا خدایا اس سے محبت کرنا جو اس سے محبت کرے اور اس سے عداوت رکھنا جو اس سے دشمنی کرے۔ اس کی مدد کرنا جو اس کی مدد کریاور اسے چھوڑ دینا جو اس سے الگ ہوجائے۔

آگاہ ہوجاؤ کہ میں تم سے آگے آگے جارہاہوں اور تم میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونے والے ہو۔ یہی کل میرا حوض ہوگا اور اس کی وسعت بصرہ سے صنعاء کے برابر ہوگی جس پرستاروں کے برابر چاندی کے پیالے رکھے ہوں گے اور میں تم سے اس کے بارے میں سوال کروں گا جس کا آج گواہ بنارہاہوں اور پوچھوں گا کہ تم نے میرے بعد ثقلین کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ لہذا خبردار اس کا خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے اور میرے پاس کس طرح حاضر ہوگے۔

لوگوں نے عرض کی کہ حضور یہ ثقلین کیا ہیں ؟ فرمایا ثقل اکبر کتاب خدا ہے جو ایک ریسمان ہدایت ہے جس کا ایک سرکار تمھارے ہاتھوں میں ہے اور ایک پروردگار کے ہاتھوں میں ہے اس میں تمام ماضی اور قیامت تک کے مستقبل کا سارا علم جود ہے۔

اور دوسرا ثقل قرآن کا حلیف یعنی علی (ع) بن ابی طالب (ع) اور ان کی اولاد ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوجائیں۔

معروف بن خَرَّبوز کہتے ہیں کہ میں نے اس کلام کو امام ابوجعفر (ع) کے سامنے پیش کیا تو فرمایا کہ ابوالطفیل نے سچ کہاہے ۔ اس حدیث کو میں نے اسی طرح کتاب علی (ع) میں پایاہے اور ہم اسے پہچانتے ہیں۔ (خصال ص 65 / 98)

172۔ رسول اکرم ! میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہاہوں جس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ، ایک کتاب خدا ہے اور ایک میری عترت اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہوجائیں ۔( مجمع الزوائد 9 ص 256 / 1458 ، کمال الدین ص 235 / 47 از ابوہریرہ۔ اس روایت میں کتاب اللہ کے ساتھ نسبتی کے بجائے سنتی ہے)۔

173۔ رسول اکرم ! میں نے تمھارے درمیان ثقلین کو چھوڑ دیا ہے جن میں ایک دوسرے سے بزرگ تر ہے۔ کتاب خدا ہے جس کا سلسلہ آسمان سے زمین تک ہے اور میری عترت و اہلبیت (ع) ہیں۔آگاہ ہوجاؤ کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کو ثر پر وارد ہوجائیں۔( مسند ابن حنبل 4 ص 54 / 1121 از ابوسعید خدری)۔

174 ۔ ابوسعید خدری ۔ رسول اکرم نے اپنی زندگی کا آخری خطبہ مرض الموت میں فرمایا تھا جب آپ حضرت علی (ع) اور میمونہ پر تکیہ دیکر تشریف لائے اور منبر پر بیٹھ فرمایا کہ ایہا الناس ۔ میں تمھارے درمیان ثقلین کو چھوڑے جارہاہوں -- اور کہہ کر خاموش ہوئے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یہ ثقلین کون ہیں ؟ جسے سنکر آپ کو غصہ آگیا اور چہرہ سرخ ہوگیا ۔ فرمایا کہ میں تمھیں ثقلین کے بارے میں باخبر کرنا چاہتا تھا لیکن حالات نے اجازت نہیں دی تو اب سنو ۔ ایک وہ ریسمان ہدایت ہے جس کا ایک سرا خدا سے ملتاہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے۔ اس کے بارے میں اس اس طرح عمل کرنا ہوگا اور وہ قرآن حکیم ہے اور دوسرا ثقل میرے اہلبیت (ع) ہیں۔ خدا کی قسم میں یہ بات کہہ رہاہوں اور یہ جانتاہوں کہ کفار کے اصلاب میں ایسے اشخاص موجود ہیں جن سے تم سے زیادہ امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں اور یاد رکھو خدا گواہ ہے کہ جو شخص بھی اہلبیت (ع) سے محبت کرے گا پروردگار اسے روز قیامت ایک نورعطا کرے گا جس کی روشنی میں حوض کوثر پر وارد ہوگا اور جوان سے دشمنی کرے گا پروردگار اپنے اور اس کے درمیان حجاب حائل کردے گا ۔( امالی مفید (ر) 135 / 3)۔

175۔ محمد بن عبداللہ الشیبانی نے اپنے صحیح اسناد کے ذریعہ ثقہ سے ثقہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام مرض الموت کے دوران گھر سے باہر تشریف لائے اور مسجد کے ستون سے ٹیک لگاکر کھڑے ہوکر یہ خطبہ ارشاد فرمایا کہ ایہا الناس کوئی نبی دنیا سے نہیں گیا مگر یہ کہ اس نے اپنا ترکہ چھوڑا ہے اور میں بھی تمھارے درمیان ثقلین کو چھوڑے جارہاہوں، ایک کتاب خدا ہے اور ایک میرے اہلبیت (ع) ، یاد رکھو جس نے انھیں ضائع کردیا خدا اسے برباد کردیگا۔( احتجاج 1 ص 171 / 36)

176 ۔ زید بن علی (ع) نے اپنے آباء کرام کے حوالہ سے امیر المؤمنین (ع) سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ کا مرض الموت سنگین ہوگیا اور آپ کا گھر اصحاب سے بھر گیا تو آپ نے فرمایا کہ حسن (ع) و حسین (ع) کو بلاؤ۔ میں نے دونوں کو طلب کیا اور آپ نے دونوں کو گلے لگاکر بوسہ دینا شروع کردیا یہاں تک کہ غشی طاری ہوگئی ۔ حضرت علی (ع) نے دونوں کو سینہ سے اٹھالیا تو آپ نے آنکھیں کھول دیں اور فرمایا کہ انھیں رہنے دو تا کہ یہ مجھ سے سکون حاصل کریں اور میں ان سے سکون حاصل کروں۔ اس لئے کہ میرے بعد انھیں قوم کی بدنفسی کا سامنا کرناہے۔

پھر فرمایا ایہا الناس ! میں نے تمھارے درمیان دو چیزیں کو چھوڑا ہے، کتاب خدا اور میری سنت و عترت و اہلبیت (ع) کتاب خدا کو ضائع کرنے والا میری سنت کو برباد کرنے والا ہے اور سنت کو ضائع کرنے والا عترت کو ضائع کرنے والا ہے۔

یاد رکھو کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہانتک کہ میں حوض کوثر پر ملاقات کروں۔(مسند زید ص 404)۔

177۔ سعد الاسکاف ! میں نے امام ابوجعفر (ع) سے اس قول رسول کے بارے میں دریافت کیا کہ میں تم میں ثقلین کو چھوڑے جارہاہوں ان سے وابستہ رہنا اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہوجائیں ؟ تو حضرت نے فرمایا کہ کتاب خدا بھی ہمیشہ رہے گی اور ہم میں سے ایک رہنما بھی رہے گا جو اس کی طرف رہنمائی کرتا رہے گا یہانتک کہ دونوں حوض کوثر پر وارد ہوجائیں ۔( بصائر الدرجات 6 / 414)۔

178 ۔ امام علی (ع) نے جناب کمیل کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا ۔ کمیل ہم ثقل اصغر ہیں اور قرآن خدا ثقل اکبر ہے اور رسول اکرم نے یہ بات قوم کو بار بار سنادی ہے اور نماز جماعت کے بعد اس کا مسلسل اعلان فرمادیاہے۔ ایک دن آ پ نے سارا مجمع کے سامنے حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا کہ لوگو! میں خدا کی طرف سے یہ بات پہنچا رہاہوں اور یہ میری ذاتی بات نہیں ہے لذا جو تصدیق کرے گا وہ اللہ کیلئے کرے گا اور اسے صلہ میں جنت ملے گی اور جو تکذیب کرے گا وہ اللہ کی تکذیب کرے گا اور اس کا انجام جہنم ہوگا۔

اس کے بعد حضرت نے مجھے آواز دی اور مجھے اپنے سامنے کھڑا کیا اور اپنے سینہ سے لگالیا اور حسن (ع) و حسین (ع) کو داہنے بائیں رکھ کر آواز دی ایہا الناس ۔ ! جبریل امین نے یہ حکم پروردگار پہنچایاہے کہ میں تمھیں یہ بتادوں کہ قرآن ثقل اکبر ثقل اصغر کی گواہی دیتاہے اور ثقل اصغر ثقل اکبر کا شاہد ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور خدا کی بارگاہ میں حاضری کے وقت تک ساتھ رہیں گے اس کے بعد وہ ان دونوں اور بندوں کے درمیان اپنا فیصلہ سنائے گا۔ (بشارة المصطفیٰ ص 29)۔

179 ۔ عمر بن ابی سلمہ ناقل ہیں کہ امیر المؤمنین (ع) نے انصار و مہاجرین کی جماعت کے سامنے ارشاد فرمایا کہ میں تم سے خدا کو گواہ کرکے دریافت کرتاہوں کہ کیا تمھیں یہ معلوم ہے کہ رسول اکرم نے آخری خطبہ میں فرمایا میں فرمایا تھا کہ ایہا الناس ! میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جاتاہوں جن سے تمسک رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ کتاب خدا اور میری عترت اہلبیت (ع) ۔ خدائے لطیف و خبیر نے مجھے بتایاہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہوجائیں ۔ لوگوں نے کہا بیشک ہمیں معلوم ہے اور حضور نے ہمارے سامنے فرمایاہے۔( کتاب سلیم بن قیس 2 ص 763)

180 ۔ ہشام بن حسّان ۔ میں نے امام حسن (ع) کو بیعت خلافت کے بعد یہ خطبہ دیتے سناہے کہ ہم اللہ کے غالب آنے والے گروہ ہیں اور رسول اکرم کی عترت واقرباہیں۔ہمیں ان کے اہلبیت (ع) طیبین و طاہرین ہیں اور ثقلین کی ایک فرد ہیں جنھیں رسول اکرم نے اپنی امت میں چھوڑ ا ہے اور دوسری شے کتاب خدا ہے جس میں ہر شے کی تفصیل ہے اور باطل کا اس کی طرف کسی رخ سے گذر نہیں ہے۔ اس کی تفسیر میں ہم پر اعتماد کیا جانا چاہیئے کہ ہم گمان سے بات نہیں کرتے ہیں بلکہ یقین سے بات کرتے ہیں اور اس کے حقائق کا یقین رکھتے ہیں۔( امالی طوسی (ر) 121 / 188 ۔691 / 1469 ، امالی مفید (ر) 4 ص 349 ، بشارة المصطفیٰ ص 106 ، ینابیع المودة 1 ص 74 ، الاحتجاج 2 ص 94 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 67)۔

181۔ثورین ابی فاختہ نے امام ابوجعفر (ع) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے عمرو بن ذرالقاص سے فرمایا کہ تم ان احادیث کے بارے میں کیوں گفتگو نہیں کرتے جو تمھاری طرف ساقط ہوئی ہیں؟ ابن ذر نے کہا آپ فرمائیں ۔ فرمایا انی تارک فیکم الثقلین … میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتاہوں جن میں ایک دوسرے سے عظیم تر ہے ایک کتاب اللہ ہے اور ایک میری عترت اور اہلبیت (ع) جب تک ان دونوں سے وابستہ رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔

دیکھو ابن ذر ! کل جب رسول اکرم سے ملاقات کروگے اور انھوں نے پوچھ لیا کہ ثقلین کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے تو کیا جواب دوگے؟ یہ سننا تھا کہ ابن ذر نے رونا شروع کردیا یہاں تک کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی اور کہا کہ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ اکبر کو پارہ پارہ کردیا اور اصغر کو قتل کردیا ۔ ( رجال کشی 2 ص 484 / 394)۔

182۔ امام باقر (ع) فرماتے ہیں کہ مولائے کائنات نے نہروان سے واپسی پر کوفہ میں خطبہ ارشاد فرمایا جب آپ کو یہ اطلاع ملی کہ معاویہ آپ پر لعنت کررہاہے اور گالیان دے رہاہے اور آپ کے اصحاب کو قتل کرررہاہے تو حمد و ثنائے الہی اور صلوات و سلام کے بعد اللہ کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر قرآن مجید کا یہ حکم نہ ہوتا کہ نعمت پروردگار کو بیان کرتے رہو تو میں ا س وقت یہ خطبہ نہ دیتا لیکن اب حکم خدا کی تعمیل ہیں یہ کہہ رہاہوں کہ پروردگار تیرا شکر ہے ان نعمتوں پر جن کا شمار نہیں اور اس فضل و کرم پر جو بھلایا نہیں جاسکتاہے۔

ایہا الناس ! میں عمر کی ایک منزل تک پہنچ چکاہوں اور قریب ہے کہ دنیا سے رخصت ہوجاؤں لیکن میں دیکھ رہاہوں کہ تم نے میرے معاملات کو نظر انداز کردیا ہے اور میں تمھارے درمیان انھیں دو چیزوں کو چھوڑے جارہاہوں جنھیں رسول اکرم نے چھوڑا ہے یعنی کتاب اور میری عترت اور یہی عترت ہادی راہ نجات۔ خاتم الانبیاء، سید الانبیاء اور نبی مصطفی کی بھی عترت ہے۔( معانی الاخبار 58 / 9، بشارة المصطفیٰ ص 12 )

183 ۔ امام علی (ع) ۔ پروردگار نے ہمیں پاک اور معصوم بنایاہے اور ہمیں اپنی مخلوقات کا نگراں اور زمین کی حجت قرار دیا ہے۔ ہمیں قرآن کے ساتھ رکھاہے اور قرآن کو ہمارے ساتھ ۔ نہ ہم اس سے جدا ہوسکتے ہیں اور نہ وہ ہم سے جدا ہوسکتاہے۔( کافی 1 ص 191 ، کمال الدین 240 / 63 ، بصائر الدرجات 83 / 6 از سلیم بن قیس الہلالی )

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پیام عرفانی قیام امام حسین علیہ السلام
امام جعفر صادق (ع) کی حدیثیں امام زمانہ (عج) کی شان ...
امام حسين(ع) کا وصيت نامه
قرآن کی نظر میں جوان
حضرت محمد بن الحسن (عج)
امام حسین علیہ السلام کے مصائب
شہادت امیرالمومنین حضرت علی مرتضی علیہ السلام
روزہ کی اہمیت کے متعلق نبی اکرم (ص) کی چند احادیث
حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے بارے میں ابن ابی الحدید ...
آیت تطہیر کا نزول بیت ام سلمہ (ع) میں

 
user comment