اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

مشرکین مکه سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گفتگو

مشرکین مکه  سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گفتگو

۲۵ افراد پر مشتمل اسلام مخالفوں کے پانچ گروہ نے آپس میں یہ طے کیا کہ پیغمبر کے پاس جاکر مناظرہ کریں۔

ان گروہوں کے نام اس طرح تھے:  یہودی، عیسائی، مادّی، مانُوی اور بت پرست۔

یہ لوگ مدینہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چاروں طرف بیٹھ گئے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بہت ہی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو بحث کا آغاز کرنے کی اجازت دی۔

یہودی گروہ نے کہا:

”ہم اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ ”عزیر“ نبی[1] خدا کے بیٹے ہیں، ہم آپ سے بحث و گفتگو کرنا چاہتے ہیںاور اگر اس مناظرہ میں ہم حق پر ہوں تو آپ بھی ہمارے ہم عقیدہ ہوجائیں کیونکہ ہم آپ سے مقدم ہیں، اور اگر آپ نے ہماری موافقت نہ کی تو پھر ہم آپ کی مخالفت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے“۔

عیسائی گروہ نے کہا:

”ہم اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں، اور خدا ان کے ساتھ متحد ہوگیا ہے، ہم آپ کے پاس بحث و گفتگو کرنے کے لئے آئے ہیں، اگر آپ ہماری پیروی کریں اور ہمارے ہم عقیدہ ہوجائیں (تو بہتر ہے) کیونکہ ہم اس عقیدہ میں آپ سے مقدم ہیں، اور اگر آپ نے ہمارے اس عقیدہ میں مخالفت کی تو ہم (بھی) آپ کی مخالفت کریں گے“۔

مادّہ پرست (منکر خدا) گروہ نے کہا:

”ہم اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ”موجوات عالَم“ کا کوئی آغاز اور انجام نہیں ہے، اور یہ ”عالَم“ قدیم اور ہمیشہ سے ہے، ہم یہاں آپ سے بحث و گفتگو کے لئے آئے ہیں، اگر آپ ہماری موافقت کریں گے تو واضح ہے کہ برتری ہماری ہوگی، ورنہ ہم آپ کی مخالفت کریں گے“۔

دو گانہ پرست آگے بڑھے اور کہا:

ہم اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس دنیا کے دو مربی، دو تدبیر کرنے والے اور دو مبداٴ ہیں، جن میں سے ایک نور اور روشنی کا خلق کرنے والا ہے اور دوسرا ظلمت اور تاریکی کا خالق ہے، ہم یہاں پر آپ سے مناظرہ کرنے کے لئے آئے ہیں، اگر آپ اس بحث میں ہمارے ہم عقیدہ ہوگئے تو بہتر ہے اور اس میں ہماری سبقت اور برتری ہے، اور اگر آپ نے ہماری مخالفت کی تو ہم بھی آپ کی مخالفت کریں گے“۔

بت پرستوں نے کہا:

ہم اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ ہمارے بت ہمارے خدا ہیں، ہم آپ سے اس سلسلہ میں بحث و گفتگو کرنے آئے ہیں، اگر آپ اس عقیدہ میں ہمارے موافق ہوگئے تو معلوم ہے کہ سبقت اور تقدم ہمارا ہے، ورنہ تو ہم آپ سے دشمنی کریں گے“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب میں ارشاد فرمایا:

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے کلی طور پر جواب میں بیان فرمایا:

(تم نے اپنا عقیدہ بیان کردیا، اب میری باری ہے کہ میں اپنا عقیدہ بیان کروں) ”میرا عقیدہ ہے کہ خداوندعالم وحدہ لاشریک ہے، میں اس کے علاوہ ہر دوسرے معبود کا منکر ہوں، اور میں ایسا پیغمبر ہوں جس کو خداوندعالم نے تمام دنیا کے لئے مبعوث کیا ہے، میں خداوندعالم کی رحمت کی بشارت اور اس کے عذاب سے ڈرانے والا ہوں، نیز میں دنیا بھر کے تمام لوگوں پر حجت ہوں، اور خداوندعالم مجھے دشمنوں اور مخالفوں کے خطرہ سے محفوظ رکھے گا“۔

اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان گروہوں کو باری باری مخاطب کیا تاکہ ہر ایک سے الگ الگ مناظرہ کریں، چونکہ یہودیوں کے گروہ نے چیلنج کیا تھا اس وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہودیوں کے گروہ کو مخاطب کیا:

ا۔  یہودیوں سے مناظرہ

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :  کیا تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ میں تمہاری باتوں کو بغیر کسی دلیل کے مان لوں؟

یہودی گروہ:   نہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :  اس بات پر تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ ”عزیر“ خدا کے بیٹے ہیں؟

یہودی گروہ:  کتاب ”توریت “مکمل طور پر نیست و نابود ہوچکی تھی اور کوئی اس کو زندہ نہیں کرسکتا تھا، جناب عزیر نے اس کو زندہ کیا، اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :   اگر تمہارے پاس جناب عزیر کے خدا کے بیٹے ہونے پر یہی دلیل ہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو توریت لانے والے اور جن کے پاس بہت سے معجزات تھے جن کا تم لوگ خود اعتراف کرتے ہو، وہ تو اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ خدا کے بیٹے یا اس سے بھی بالاتر ہوں ! پس تم لوگ جناب موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے یہ عقیدہ کیوں نہیں رکھتے جن کا درجہ جناب عزیر سے بھی بلند و بالا ہے؟

اس کے علاوہ اگر خدا کا بیٹا ہونے سے تمہارا مقصود یہ ہے کہ عزیر بھی دوسرے باپ اور اولاد کی طرح شادی اور ہمبستری کے ذریعہ خدا سے پیدا ہوئے ہیں تو اس صورت میں تم نے خدا کو ایک مادّی، جسمانی اور محدود موجودقرار دیدیا ہے، جس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا کے لئے کوئی خلق کرنے والا ہو، اور اس کو دوسرے خالق کا محتاج تصور کریں۔

یہودی گروہ: جناب عزیر کا خدا کا بیٹا ہونے سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ ان کی اس طرح ولادت ہوئی، کیونکہ یہ معنی مراد لینا جیسا کہ آپ نے فرمایا کفر و جہل کے مترادف ہے، بلکہ ہماری مراد ان کی شرافت اور ان کا احترام ہے،جیسا کہ ہمارے بعض علماء اپنے کسی ایک ممتاز شاگرد کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں اور اس کے لئے کہتے ہیں: ”اے میرے بیٹے!“ یا ”وہ میرا بیٹا ہے“، یہ بات تو معلوم ہے کہ ولادت کے لحاظ سے بیٹا نہیں ہے کیونکہ شاگرد ،استاد کی اولاد نہیں ہوتی اور نہ ہی اس سے کوئی رشتہ داری ہوتی ہے، اسی طرح خداوندعالم نے جناب عزیر کی شرافت اور احترام کی وجہ سے ان کو اپنا بیٹا کہا ہے، اور ہم بھی اسی لحاظ سے ان کو ”خدا کا بیٹا“ کہتے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :   تمہارا جواب وہی ہے جو میں دے چکا ہوں، اگر یہ منطق اور دلیل اس بات کا سبب ہے کہ جناب عزیر خدا کے بیٹے بن جائیں تو پھر جو شخص مثل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جناب عزیر سے بھی بلند و بالا ہوں اس بات کا زیادہ مستحق ہیں۔

خداوندعالم کبھی بعض لوگوں کو دلائل اور اپنے اقرار کی وجہ سے عذاب کرے گا، تمہاری دلیل اور تمہارا اقرار اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ تم لوگ جناب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اس سے بڑھ کر کہو جو جناب عزیر کے بارے میں کہتے ہو، تم لوگوں نے مثال دی اور کہا: کوئی بزرگ اور استاد اپنے شاگرد سے کوئی رشتہ داری نہیں رکھتا بلکہ اس سے محبت اور احترام کی وجہ سے کہتا ہے:

”اے میرے بیٹے!“ یا ”وہ میرا بیٹا ہے“، اس بناء پر تم لوگ یہ بھی جائز سمجھو کہ وہ اپنے دوسرے محبوب شاگرد سے کہے: ”یہ میرا بھائی ہے“، اور کسی دوسرے سے کہے: ”یہ میرا استاد ہے“، یا ”یہ میرا باپ اور میرا آقا ہے“۔

یہ تمام الفاظ شرافت اور احترام کی وجہ سے ہیں، جس کا بھی زیادہ احترام ہواس کو بہتر اور با عظمت الفاظ سے پکارا جائے، اس صورت میں تم اس بات کو بھی جائز مانو کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) خدا کے بھائی ہیں، یا خدا کے استاد یا باپ ہیں، کیونکہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) کا مرتبہ جناب عزیر سے بلند و بالا ہے۔

اب میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں کہ کیا تم لوگ اس بات کو جائز مانتے ہو کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) خدا کے بھائی، یا خدا کے باپ یا خدا کے چچا، یا خدا کے استاد ، آقا اور ان کے سردار ہوں، اور خداوندعالم احترام کی وجہ سے جناب موسیٰ (علیہ السلام) سے کہے: اے میرے باپ!، اے میرے استاد، اے میرے چچا اور اے میرے سردار۔۔۔؟

یہ سن کریہودی گروہ لا جواب ہوگیا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پایا، اور وہ حیران و پریشان رہ گئے تھے،چنانچہ انھوں نے کہا:  ”آپ ہمیں غور و فکر اور تحقیق کرنے کی اجازت دیں!“

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :   بے شک تم لوگ اگر پاک و صاف دل اور انصاف کے ساتھ اس سلسلہ میں غور و فکر کرو تو خداوندعالم تم لوگوں کو حقیقت کی طرف راہنمائی فرمادے گا۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی
حضرت امام علی علیہ السلام کے حالات کا مختصر جائزہ
چہل احادیث
تاریخ آغازِ طِب
توبہ کرنے والوں کے واقعات
خیر و فضیلت کی طرف میلان
قرآن دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
کلمہ ٴ ”مو لیٰ“ کے معنی کے متعلق بحث

 
user comment