پانچواں سبقخلافت ظاہرى سے شہادت تك حضرت علي(ع) كى بيعت بيعت كے بعد لوگوں ميں سرور و شادمانى قريش كى وحشت و پريشانى گوشہ نشين لوگ حضرت علي(ع) كى بيعت كے امتيازات سوالات كے جوابات حضرت علي(ع) نے كن مقاصد كے تحت حكومت قبول فرمائي ابتدائي اقدامات نيك اور صالح كاركنوں كا تقرر معاويہ كى برطرفي مساوى حقوق كى ضمانت لوٹے ہوئے مال كى واپسي بدعنوانيوں ميں ملوث دولتمندوں كى رخنہ اندازي سوالات حوالہ جات |
كرنے كے لئے راضى ہى نہےں ہوتے تھے اور ہر بار يہى جواب ديتے كہ اس امر كے لئے تم لوگ مجھے مجبور مت كرو امير بننے سے ميرے لئے بہتر يہى ہے كہ وزير (3) رہوں ليكن انہوں نے يہى كہا كہ ہم اپنے اس فيصلے سے ہرگز رو گرداں نہ ہوں گے اور آپ كے دست مبارك پر بيعت كريں گے (4) اور ہر طرف سے بيعت كى خاطر آپ كے گرد ہجوم ہونے لگا _ آپ كے گرد لوگ كس طرح جمع ہوئے اس كى كيفيت خود ہى بيان فرماتے ہيں : اچانك ميرے گرد لوگوں كا ہجوم اس طرح ہو گيا كہ لگتا تھا گويا يہ انسان نہ ہوں بلكہ چرغ بجو كى گردن پر گھنے بال ہوں اس ازدحام ميں ميرے بچے حسن و حسين بھى روندے گئے اور لوگوں كے اس ہجوم كے باعث ميرا لباس بھى دو جانب چاك ہو گيا لوگوں كى يہ حالت تھى گويا اوہ انسان نہےں بلكہ ايسے مويشى ہيں جن كے سر پر گلے بان نہ ہو ان مےں سے ہر ايك ميرى طرف ہى چلا آرہا تھا _ (5) ليكن اس كے بعد بھى حضرت علي(ع) نے بلا قيد و شرط حكومت قبول كرنے سے انكار كر ديا اور فرمايا كہ : ميں تمہيں كل صبح تك كى مہلت ديتا ہوں اپنے اپنے گھر جاؤ اور اپنے فيصلے پر غور كر لو اگر اس كے بعد بھى تم لوگ اپنے فيصلے پر قائم رہے تو تمہيں ميرى حكومت كے سامنے سر تسليم خم كرنا ہو گا اور تم مجھ سے يہ نہ چاھو گے كہ ميں سابق خلفاء كى روش كا پيرو كار رہوں اگر يہ شرط منظور ہے تو كل صبح مسجد ميں جمع ہو جانا ورنہ تمہيں اختيار ہے جسے چاہو اپنا خليفہ مقرر كر لو _ اگلے روز لوگ مسجد ميں جمع ہوئے امير المومنين حضرت علي(ع) منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا : لوگو كل جب ہم آپس ميں جدا ہوئے تو اس وقت ميرى يہ كيفيت تھى كہ مجھے تمہارى حكومت سے بيزارى تھى جب كہ تمہارا يہ اصرار تھا كہ ميرے علاوہ كوئي دوسرا شخص تمہارے امور كى زمام نہ سنبھالے يہ جان لو اگرچہ تمہارے مال ( بيت المال مسلمين ) ميرے دست اختيار ميں ہے مگر مجھے يہ حق نہيں كہ تمہارے بغير اس ميں سے ايك درہم بھى نكالوں ميں اسى صورت ميں تم پر حكومت كر سكتا ہوں ورنہ تم ميں سے كسى كى ذمہ دارى قبول كرنے كو ميں تيار نہيں (6) جس وقت حضرت |
حضرت علي(ع) كى بيعت كے امتيازاتحضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت روز جمعہ بتاريخ پچيس ذى الحجہ 35 ھ انجام پذير ہوئي اس كے بعض امتيازات ہم يہاں بيان كر رہے ہيں : _ 1 _ حضرت على (ع) نے مستقبل كى حكومت كے استحكام كى خاطر لوگوں كو يہ موقعہ ديا كہ وہ آزاد انہ طور پر اپنا رہبر انتخاب كريں اور انہيں اتنى مہلت دى كہ وہ اس كے بارے ميں مكمل طور پر غور و فكر كرليں تاكہ پورے شعور كے ساتھ آيندہ كيلئے اپنے رہبر كا انتخاب كريں_ 2_ اميرالمومنين حضرت على (ع) كى بيعت عمومى تھى اور ايك عوامى تجويز كے طور پر پيش كى گئي تھى اس كے برعكس گذشتہ خلفاء كے ہاتھ پر بيعت كا معاملہ عوامى تحريك پر مبنى نہ تھا بلكہ بقول عمر : ابوبكر كى بيعت كا اتفاقى واقعہ تھا جو ''اچانك'' كسى پيش بندى كے بغير حادثى طور پر رونما ہوا اور صرف دو افراد (عمر اور ابوعبيدہ) كى تجويز پر اس مسئلے كو پيش كيا گيا _ عمر كو بھى عوام كى تجويز پر خليفہ مقرر نہيں كيا گيا تھا بلكہ انہيں ابوبكر نے اس منصب پر مامور كيا تھا_ عثمان كو بھى عوام كى تجويز پر خليفہ منتخب نہيں كيا گيا تھا بلكہ چھ افراد پر مشتمل شورى ميں سے صرف دو افراد كى موافقت سے جسے خليفہ ثانى نے منتخب كيا يہ كام انجام پذير ہوا_(19) 3_ حضرت على (ع) كى بيعت كو لوگوں نے خود قبول كيا اور يہ كام اس وقت عمل پذير ہوا جب لوگوں نے پہلے سے اس مسئلے پر غور كرليا تھا جبكہ سابقہ خلفاء نے عوام كو غور و فكر كرنے كا موقع ہى نہيں ديا بلكہ ان كى سعى وكوشش يہ تھى كہ جس قدر جلد ممكن ہوسكے يہ كام ختم ہوتاكہ تاكہ خير كے باعث اس ميں موانع پيدا نہ ہوں_ 4_ بيعت كے لئے جس جگہ كو مركز بنايا وہ مسجد تھى تاكہ تمام مسلمين اس ميں شركت كرسكيں اور اگر كسى كو كوئي اعتراض ہو تو اسے پيش كرے در حاليكہ گذشتہ خلفاء كى بيعت ميں اس خصوصيت كو مد نظر نہيں ركھا گيا_ 5_ حضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے كسى كو مجبور نہيں كيا گيا چنانچہ جس |
نيك اور صالح كاركنوں كا تقررحضرت على (ع) نے اپنى حكومت كے ابتدائي دنوں ميں عثمان كے حكام اور كارندوں كو برطرف كرديا كيونكہ ظلم و ستم اور اسلامى قوانين نيز مردم سالارى كى سياست سے ان كى نا آشنائي ، عثمان كے خلاف قيام كرنے كے اہم اسباب ميں ايك سبب تھا_ مغيرہ بن شعبہ نے حضرت على (ع) سے گفتگو كرتے ہوئے يہ تجويز پيش كى پہلے حكام كو ان كے مناصب پر بحال و برقرار ركھاجائے ليكن حضرت على (ع) نے انكى اس تجويز كو منظور نہ كيا اور فرمايا كہ خدا كى قسم ميں اپنے دينى فرائض كى انجام دہى ميں سستى نہ كروں گا_(26) جن محركات كے تحت حضرت على (ع) نے يہ اقدامات كئے ان كے بارے ميں آپ دوسرى جگہ فرماتے ہيں : ميں اس بات سے غمگين واندوہناك ہوں كہ اس امت كى حكومت كے سرپرست بے خبر اور ناكارہ لوگ ہوں وہ بيت المال كو تباہ كريں ، بندگان خدا كو آزادى سے محروم كركے انہيں اپنا غلام بناليں ، نيك و صالح لوگوں سے جنگ كريں اور فاسق و فاجر لوگوں كو اپنا يار ومددگار بنائيں_ اس جماعت ميں كچھ لوگ ايسے ہيں جو شراب پيتے ہيں اور ان پر حد جارى كى جاچكى ہے ، انہيں ميں ايسے لوگ بھى ہيں جنہوں نے اسلام اس وقت تك قبول نہيں كيا جب تك ان كے لئے كوئي عطيہ مقرر نہيں كيا گيا _(27) حضرت على (ع) نے عثمان كے مقرر كردہ حكام كو برطرف كركے ان كى جگہ نيك وصالح اور دور انديش لوگوں كو مختلف صوبوں كى حكومتوں پر مقرر كيا اس زمانے ميں بصرہ ، مصر اور شام كاشمار اسلامى قلمرو كے عظيم صوبوں ميں ہوتا تھا _ چنانچہ آپ نے عثمان بن حنيف كو بصرہ كا ،سہل بن حنيف كو شام كا اور قيس بن سعد كو مصر كا صوبہ دار مقرر فرماكر ان مناصب سے سرفراز فرمايا_ والى كوفہ ابوموسى اشعرى كو مالك اشتر كے اصرار پر انكے عہدے پر بحال ركھا_(28) |
معاويہ كى برطرفيجيسا كہ اوپر بيان كياجاچكا ہے كہ عثمان كے حكام و عمّال كو برطرف كرنے كا مقصد يہ تھا كہ حضرت على (ع) چاہتے تھے كہ تباہى و فساد كارى كے خلاف محاذ قائم كركے اجتماعى عدل و انصاف كى بنيادوں كو محكم واستوار كريں اور آپ (ع) چونكہ معاويہ كے نظر و فكر وكاركردگى سے بخوبى واقف تھے اسى لئے انہوں نے اس بات كى مخالفت كى كہ وہ حكومت كے كسى منصب پر برقرار رہے اگر چہ ان (ع) كے چچا زاد بھائي ابن عباس نے معاويہ كى سفارش بھى كى كہ انہيں مختصر عرصے كے لئے ہى سہى اس كے عہدے پر بحال ركھا جائے ليكن حضرت على (ع) نے اس سفارش كو بھى قبول نہيں فرمايا_ جب مغيرہ كى يہ كار گرنہ ہوئي كہ سابقہ حكام كو ان كے عہدوں پر بحال ركھا جائے تو انہوں نے حضرت على (ع) سے كہا كہ معاويہ كو شام كى صوبہ دارى سے معزول نہ كيجئے كيونكہ وہ گستاخ ہے اور شام كے لوگوں اسى كے مطيع و فرمانبردار ہيں عمر نے اسے چونكہ شام كا گورنر مقرر كيا تھا لہذا آپ كے پاس بہانہ ہے _ اس پر حضرت على (ع) نے فرمايا : خدا كى قسم ميں اسے دو روز بھى كسى عہدے پر بحال نہ ركھوں گا (29) جس وقت عباس كو مغيرہ كى تجويز كے بارے مےں اطلاع ہوئي تو انہوں نے بھى اميرلمومنين على (ع) كى خدمت ميں يہى عرض كى كہ مجھے اس بات سے اتفاق نہيں كہ فى الحال آپ معاويہ كو اس كے منصب سے معزول كريں جس وقت وہ آپ كے دست مبارك پر بيعت كريں گے اور آپ كاكام استحكام پذير ہو جائے اس كے بعد آپ اسے برطرف كيجئے اس پر حضرت علي(ع) نے فرمايا : خدا كى قسم ' تلوار كے علاوہ ميں اسے كوئي اور چيز نہ دوں گا _ (30) حضرت على (ع) نے جو يہ روش اختيار كى اس كے بارے ميں ان چند نكات كا بيان كردينا ضرورى ہے _ اميرالمومنين حضرت علي(ع) بخوبى واقف تھے كہ معاويہ كسى بھى صورت ميں ان كے دست مبارك پر ہرگز بيعت نہ كرے گا اور آپ كا حكم نہ مانے گا كيونكہ جذبہ اقتدار پسندى و زراندوزى كے علاوہ قبائلى تعصب اور وہ ديرينہ دشمنى جو اس كے دل ميں حضرت على (ع) كے خلاف تھى اس راہ ميں |
ميں سے كسى كو بخشا تھا وہ واپس بيت المال ميں لايا جائے گا اس مےں خواہ وہ رقم شامل ہو جس سے خواتين كو مہر ادا كيا گيا ہو اور خواہ اس سے كنيزيں خريديں گئيں ہوں كيونكہ عدالت كا دروازہ وسيع ہے اور جس پر عدل و انصاف تنگ ہو گيا ہو اس پر جور و ستم كا ميدان اس سے كہيں زيادہ تنگ كر ديا جائے گا _ (33) اپنے دوسرے خطبے ميں آپ(ع) نے فرمايا تھا كہ '' ... لوگو ياد ركھو تم مےں سے جس كو دنيا نے نگل ليا ہے اور جنہوں نے املاك و كاشت كى زمين جمع كر لى ہے جن ميں انہوں نے نہريں جارى كر دى ہيں ' سوارى كيلئے تيز رفتار گھوڑے حاصل كر لئے ہيں اور اپنے لئے خوبصورت كنيزيں خريد كر ليں ہيں انہوں نے اپنے اس رنگ و ڈھنگ سے رسوائي و بدنامى مول لى ہے انھيں ميں اس لہو لعب سے جس ميں وہ غوطہ زن ہيں اگر نجات دلانا چاہوں اور تسليم شدہ حق كے كنارے پر انھيں لانا چاہتا ہوں تو وہ ميرے اس عمل پر غضبناك نہ ہوں اور يہ نہ كہيں كہ ابى طالب كے فرزند نے ہميں ہمارے حقوق سے محروم كر ديا ہے ...'' تم سب ہى بندگان خدا ہو اور بيت المال بھى خدا كا ہى مال ہے يہ تم ميں مساوى طور پر تقسيم كيا جائے گا ... اس كے بعد آپ نے فرمايا كہ ميرے پاس بيت المال كا كچھ حصہ موجود ہے تم سب ميرے پاس آكر اپنا حصہ لے لو چاہے عرب ہو يا عجم ' وظيفہ دار ہو يا غير وظيفہ دار_(34) اس طرح حضرت على (ع) نے نہايت تيزى كے ساتھ قطعى طور پر ناروا عصبيت اور امتيازات كا خاتمہ كر ديا _ حضرت على (ع) نے اپنے ايك اقدام سے اس جماعت كے اثر و رسوخ كا قلع قمع كر ديا جو عثمان كى خلافت كے دوران ابھرى تھى عثمان نے انھيں كثير مال و دولت اور جاگير سے نواز تھا حضرت علي(ع) نے اس مال و جاگير كو بيت المال ميں جمع كر ديا _ (35) |
بدعنوانيوں ميں ملوث دولتمندوں كى رخنہ اندازيبيت المال كى مساويانہ تقسيم كے باعث محرومين اور مستضعفين كو جس قدر خوشى و مسرت ہوئي اتنا ہى صدمہ ان چند مغرور افراد كو پہنچا جنہيں جاہ طلبى كى ہوا و ہوس تھى _ انہيں چند سال ميں چونكہ جو رو ستم كركے كئي گنا زيادہ تنخواہيں نيز وظائف لينے كى عادت ہوگئي تھى اس لئے حضرت على (ع) كى مساويانہ روش تقسيم مال سے جب وہ دچار ہوئے تو انہيں سخت پريشانى ہوئي_ ايك روز وليد بن عقبہ اس جماعت كے نمايندے كى حيثيت سے حضرت على (ع) كے پاس آيا اور كہنے لگا كہ اے ابوالحسن اگر چہ ہم (بنى عبد مناف) بھى آپ كے بھائيوں ميں سے اور آپ جيسے ہى ہيں ليكن آپ نے تو ہم پر ظلم وستم ہى بپا كرديا ہم اس شرط پر آپ كى بيعت كرنے كو تيار ہيں كہ وہ مال و متاع جو ہم نے عثمان كے عہد خلافت ميں جمع كيا ہے وہ آپ ہم سے واپس نہ ليں اور ان كے قاتلوں كو ہلاك كرديں ليكن ہمارے مفادات كو كوئي خطرہ ہوا اور آپ كے رويے سے ہم خوفزدہ ہوئے تو ہم آپ سے عليحدہ ہو كر شام كى جانب كوچ كرجائيںگے_ يہ سن كر حضرت على (ع) نے فرمايا كہ : تم جو يہ كہہ رہے ہو كہ ميں نے ظلم وستم كيا ہے (اور ميرے اس اقدام كو ظلم وستم سے تعبير كياجاسكتا ہے ) تو يہ ظلم حق و انصاف كى جانب سے ہوا ہے اور يہ كہ وہ مال جو تمہارے پاس ہے اسے ميں نظر انداز كردوں تو ميں ايسا نہيں كرسكتا كيونكہ حق خدا كو پائمال ہوتے ہوئے ديكھ كر ميں چشم پوشى نہيں كرسكتا اب يہ مال خواہ تمہارے چنگل ميں ہو يا كسى اور شخص كے_(36) جب اس جماعت كے سردار كو يقين ہوگيا كہ وہ گفتگو يا دھمكى كے ذريعے اپنا مدعى حاصل نہيں كرسكتے تو انہوں نے اپنى پورى قوت سے حضرت على (ع) كى قائم كردہ نو بنياد حكومت كى بيخ كنى شروع كردى اور اس كے خلاف بر سر پيكار ہوگئے_ اس بارے ميں عمرو بن عاص نے معاويہ كو لكھا تھا كہ جو بھى فيصلہ كيا ہے اس پر جلد ہى عمل كيجئے كيونكہ جس طرح لكڑى كے اوپر سے چھال اتارلى جاتى ہے ابى طالب كا فرزند اسى طرح اس مال و دولت كو جوتمہارے پاس ہے ، تمہارے تن سے اتروائے گا_ |
سوالات1_ حضرت على (ع) كے دست مبارك پر عوام نے كس طرح بيعت كى مختصر طور پر وضاحت كيجئے؟ 2_ كيا كچھ لوگوں نے حضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت كرنے سے كنارہ كشى كي؟ اگر ايسا كيا تو كيوں؟ 3_ جب عوام نے حضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت كى تو قريش كيوں مضطرب وپريشان ہوئے؟ 4_ حضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت كرنے كى خصوصيات بيان كيجئے؟ 5_ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے ابتداء ميں لوگوں كے اصرار كے باوجود كيوں خلافت كى زمامدارى قبول كرنے سے مثبت جواب نہيں ديا؟ 6_ جب حضرت على (ع) نے خلافت كى زمامدارى قبول فرمائي تو آپ كى نظر ميں كون سے كام مقدم اور فورى انجام دينے كے تھے؟ 7_ عثمان كے عہد سے وابستہ حكام كو معزول يا بحال ركھے جانے كے كيا اسباب تھے ، اس كے بارے ميں حضرت على (ع) كے نظريات بيان كيجئے؟ 8_ حضرت على (ع) كى مالى روش سے مال اندوز لوگ كيوں غضبناك ہوئے اس كا سدباب كرنے كےلئے انہوں نے كيا اقدام كيا ؟ |
حوالہ جات1_ لا حاجة لى فى امركم فمن اخترتم رضيت بہ 2_ كامل ابن اثير ج /1903 تاريخ طبرى ج 4/ 427 تاريخ ابى الفداء ج 1 /17 3_ لا تفعلوا فانى اكون وزيراً خيرا من ان اكون اميراً 4_ كامل ابن اثير ج 3/ 190، انساب الاشراف بلاذرى ج 2/ 209 ، تاريخ ابى الفداء ج 1/ 171 5_ نہج البلاغہ خ شقشقيہ (خ 3) 6_ فما راعنى الا والناس كعرف الضبع الى ينشا لون علَّى من كل جانب حتى لقد وطى الحسنان و شق عطفاى مجتمعين حولى كربيضة الغنم 7_ تاريخ طبرى ج 4/ 428 كامل ابن اثير ج 3/ 193 8_ تاريخ طبرى ج 4/ 428 كامل ابن اثير ج 3/193 9_ نہج البلاغہ خ 229 وبلغ سرور الناس ببيعتہم اياى ان ابتہج بہا الصغير و ہدج اليہا الكبير وكامل نحوہا العليل وحسرت اليہا الكعاب 10_ تاريخ يعقوبى ج2/ 179 11_ تاريخ يعقوبى ج 2/ 179 12_ تاريخ يعقوبى ج 2/ 179 13_ شرح ابن ابى الحديد ج 11/ 114 14_ مروج الذہب ج 2/ 353 15_ تاريخ ابى الفداء ج 1/ 171 16 _ استيعاب ج 3/ 55 ''اولئك قوم قعدوا عن الحق ولم يقوموا مع الباطل'' 17_ مروج الذہب ج 2/ 353 18_ تاريخ ابى الفداء ج1/171 ، الانساب الاشراف بلاذرى ج 2/ 207 |
19_ عثمان خود بھى مذكورہ شورى كے ركن تھے اور انہوں نے خود بھى اپنى خلافت كے حق ميں رائے دى _ 20_انساب الاشراف بلاذرى ج 2/ 207، تاريخ طبرى ج 4/ 428 21_ ملاحظہ ہو خطبات 229، 137 22_ نہج البلاغہ خ 92 دعونى والتمسوا غيرى فانا مستقبلون امراً لہ وجوہ والوان لا تقوم لہ القلوب ولا تثبت عليہ العقول وان الافاق قداغاقت والمحجة تنكرت 23_ نہج البلاغہ خ 33 24_ نہج البلاغہ خ 5 25_ نہج البلاغہ خ 3 اما والذى فلق الحبة وبرى النسمة لولا حضور الحاضر وقيام الحجة بوجود الناصر وما اخذ اللہ على العلماء ان يقاروا على كظة ظالم و لا سغب المظلوم لا لقيت حبلہا على غاربہا و لسقيت آخرہا بكا س اولہا_ 26_ واللہ لا اداہن فى دينى _ مروج الذہب ج 2/ 355_ 354، كامل ابن اثير ج 3/ 197 _ تاريخ طبرى ج 4 / 440 27_ نہج البلاغہ مكتوب 62 28_ تاريخ يعقوبى ج 2 / 179 29_ لا واللہ لا استعمل معاوية يومين ابداً كامل ابن اثير ج 3/ 197 ، مروج الذہب ج 2/ 256 ، تاريخ طبرى ج 4/ 441 30_ لا واللہ لا اعطيہ الا السيف ، كامل ابن اثير ج 3/ 197 تاريخ طبرى ج 4/ 444 31_ مذكورہ خط كا متن ان كتابوں ميں ملاحظہ ہو : شرح ابن ابى الحديد ج 1/ 230 تاريخ التواريخ ج 1/ 38 ، انساب الاشراف بلاذرى ج 2/ 211 درسيرہ ائمہ اثنى عشرى ج 1/ 442 32_ الذليل عندى عزيز حتى آخذ الحق لہ ، والقوى عندى ضعيف حتى آخذ الحق منہ _ |
نہج البلاغہ خ 37 33_ ثورة الحسين (ع) للمہدى شمس الدين 57، شرح ابن ابى الحديد ج 1/ 269 ، نہج البلاغہ خ 15 ( يہ قول مختصر ترميم كے ساتھ نقل كيا گيا ہے) 34_ شرح ابن ابى الحديد ج 7/ 37 35_ اس واقعے كى تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو مروج الذہب ج 2/ 253 ، شرح نہج البلاغہ خوئي ج 3 / 215 شرح ابن ابى الحديد ج 1/ 270 فى ظلال نہج البلاغہ ج 1/ 130 ، شرح نہج البلاغہ بحرانى ج 1/ 29 اور سيرہ الائمہ مصنفہ علامہ سيد محسن امين ج 1/ جزء دوم /11 36_ شرح ابن ابى الحديد ج 7/ 39_ 38 37_ ''ماكنت صانعاً فاصنع اذ قشرك ابن ابى طالب من كل مال تملكہ كما تقشر عن العصا لحاہا '' شرح ابن ابى الحديد ج 1/ 270 ، شرح نہج البلاغہ خوئي ج 3/ 215 ، الغدير ج 7/ 288 |