اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

خلافت ظاہرى سے شہادت تك

پانچواں سبق

خلافت ظاہرى سے شہادت تك

حضرت علي(ع) كى بيعت

بيعت كے بعد لوگوں ميں سرور و شادمانى

قريش كى وحشت و پريشانى

گوشہ نشين لوگ

حضرت علي(ع) كى بيعت كے امتيازات

سوالات كے جوابات

حضرت علي(ع) نے كن مقاصد كے تحت حكومت قبول فرمائي

ابتدائي اقدامات

نيك اور صالح كاركنوں كا تقرر

معاويہ كى برطرفي

مساوى حقوق كى ضمانت

لوٹے ہوئے مال كى واپسي

بدعنوانيوں ميں ملوث دولتمندوں كى رخنہ اندازي

سوالات

حوالہ جات

 

105

خلافت ظاہرى سے شہادت تك

حضرت علي(ع) كى بيعت

عثمان كے قتل كے بعد اپنے آيندہ كے ہادى و راہنما كا انتخاب كرنے كى غرض سے مہاجرين و انصار حضرت على (ع) كے گرد جمع ہو گئے جو لوگ اس مقصد كے تحت حضرت على (ع) كے پاس آئے ان مےں عمار ياسر ' ابوالھيشم ' ابو ايوب انصارى ، طلحہ اور زبير جيسے جليل القدر صحابہ رسول خدا(ص) پيش پيش تھے _

حضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت كرنے كى خاطر آپ كے گھر كى طرف ايك جم غفير روانہ ہوا ان ميں سب كا يہى اصرار تھا كہ امور خلافت كى لگام آپ سنبھاليں انہوں نے ايك زبان ہو كر كہا : اے ابوالحسن عثمان قتل كر ديئے گئے اور ہميں اپنے ہادى و راہنما كى ضرورت ہے اور ہم آج آپ سے زيادہ كسى كو شايستہ و قابل نہيں سمجھتے جن لوگوں نے دين اسلام قبول كيا آپ ان مےں سب پر سبقت لے گئے اور دوسروں كے مقابل پيغمبر اكرم(ص) سے آپ ہى سب سے زيادہ نزديك تھے _

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے فرمايا : مجھے تمہارى حكومت كى ضرورت نہيں تم جسے بھى اپنا رہنما اختيار كرو گے ميں بھى اس سے اتفاق كروں گا _ (1)

سب نے ايك زبان ہو كر كہا : آپ كے علاوہ ہم كسى كو بھى نہےں چاہتے (2) لوگوں كا اصرار جارى رہا مگر حضرت على (ع) كى جانب سے انھيں جواب نفى كى صورت ميں ہى ملتا رہا بالآخر وہ اپنے مقصد ميں كامياب ہوئے بغير حضرت كے گھر سے باہر نكل آئے _

اگرچہ لوگوں كى آمد و رفت كا سلسلہ جارى رہا مگر حضرت علي(ع) كسى طرح بھى خلافت قبول

 

106

كرنے كے لئے راضى ہى نہےں ہوتے تھے اور ہر بار يہى جواب ديتے كہ اس امر كے لئے تم لوگ مجھے مجبور مت كرو امير بننے سے ميرے لئے بہتر يہى ہے كہ وزير (3) رہوں ليكن انہوں نے يہى كہا كہ ہم اپنے اس فيصلے سے ہرگز رو گرداں نہ ہوں گے اور آپ كے دست مبارك پر بيعت كريں گے (4) اور ہر طرف سے بيعت كى خاطر آپ كے گرد ہجوم ہونے لگا _

آپ كے گرد لوگ كس طرح جمع ہوئے اس كى كيفيت خود ہى بيان فرماتے ہيں :

اچانك ميرے گرد لوگوں كا ہجوم اس طرح ہو گيا كہ لگتا تھا گويا يہ انسان نہ ہوں بلكہ چرغ بجو كى گردن پر گھنے بال ہوں اس ازدحام ميں ميرے بچے حسن و حسين بھى روندے گئے اور لوگوں كے اس ہجوم كے باعث ميرا لباس بھى دو جانب چاك ہو گيا لوگوں كى يہ حالت تھى گويا اوہ انسان نہےں بلكہ ايسے مويشى ہيں جن كے سر پر گلے بان نہ ہو ان مےں سے ہر ايك ميرى طرف ہى چلا آرہا تھا _ (5)

ليكن اس كے بعد بھى حضرت علي(ع) نے بلا قيد و شرط حكومت قبول كرنے سے انكار كر ديا اور فرمايا كہ : ميں تمہيں كل صبح تك كى مہلت ديتا ہوں اپنے اپنے گھر جاؤ اور اپنے فيصلے پر غور كر لو اگر اس كے بعد بھى تم لوگ اپنے فيصلے پر قائم رہے تو تمہيں ميرى حكومت كے سامنے سر تسليم خم كرنا ہو گا اور تم مجھ سے يہ نہ چاھو گے كہ ميں سابق خلفاء كى روش كا پيرو كار رہوں اگر يہ شرط منظور ہے تو كل صبح مسجد ميں جمع ہو جانا ورنہ تمہيں اختيار ہے جسے چاہو اپنا خليفہ مقرر كر لو _

اگلے روز لوگ مسجد ميں جمع ہوئے امير المومنين حضرت علي(ع) منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا : لوگو كل جب ہم آپس ميں جدا ہوئے تو اس وقت ميرى يہ كيفيت تھى كہ مجھے تمہارى حكومت سے بيزارى تھى جب كہ تمہارا يہ اصرار تھا كہ ميرے علاوہ كوئي دوسرا شخص تمہارے امور كى زمام نہ سنبھالے يہ جان لو اگرچہ تمہارے مال ( بيت المال مسلمين ) ميرے دست اختيار ميں ہے مگر مجھے يہ حق نہيں كہ تمہارے بغير اس ميں سے ايك درہم بھى نكالوں ميں اسى صورت ميں تم پر حكومت كر سكتا ہوں ورنہ تم ميں سے كسى كى ذمہ دارى قبول كرنے كو ميں تيار نہيں (6) جس وقت حضرت

 

107

على (ع) كى تقرير ختم ہوئي تو لوگوں نے بلند آواز كہا ہم نے جو عہد كيا تھا آج بھى اسى پر قائم ہيں اور خدا كو گواہ كر كے كہتے ہيں كہ ہم آپ كے دست مبارك پر بيعت كرنے كيلئے تيار ہيں اس كے بعد موجوں كى مانند لوگوں ميں جوش و خروش پيدا ہو گيا اور بيعت كے لئے لوگوں كا اد حام ہو گيا _

سب سے پہلے طلحہ اور زبير نے آپ كے دست مبارك پر بيعت كى اس كے بعد ان لوگوں نے بيعت كى جو مصر ' بصرہ اور كوفہ سے آئے ہوئے تھے اس كے بعد عام لوگ اس سعادت سے سرفراز ہوئے _ (7)

بيعت كے بعد لوگوں ميں سرور و شادماني

حضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے بعد لوگ انتہائي خوش و خرم تھے كيونكہ انہوں نے رسول خدا(ص) كے ہاتھ پر بيعت كى تھى _

بيعت كے بعد لوگوں ميں جو باطنى خوشى و مسرت تھى اسے حضرت على (ع) نے اس طرح بيان فرمايا ہے : ميرے ہاتھ پر بيعت كرنے كے بعد لوگوں كى مسرت و شادمانى كا يہ حال تھا كہ بچے تك وجد و سرور ميں آگئے تھے _ ضعيف العمر لرزتے ہوئے پيروں سے چل كر ' بيمار دوسروں كے كاندھوں پر سوار ہو كر ميرے پاس آئے اور جو لوگ معذور تھے ان كى دلوں ميں مجھ تك پہنچنے كى حسرت ہى رہ گئي _ (8)

عام لوگوں كى خوشى و مسرت كے علاوہ بعض بزرگ صحابہ رسول(ص) ايك دوسرے كے بعد عوام ميں تشريف لائے اور انہوں نے بھى تقارير كے ذريعے اپنى دلى مسرت كا اظہار كيا اس ضمن ميں انہوں نے عوام كو دعوت دى كہ وہ عہد و پيمان پر مضبوطى سے قائم رہيں اور نئي حكومت كو تقويت بخشيں جن لوگوں نے اس موقعے پر تقارير كيں ان مےں سے بعض كے نام درج ذيل ہيں _

1 _ انصار كے نمائندہ ثابت بن قيس نے كہا : يا اميرالمو منين خدا كى قسم اگرچہ دوسرے لوگوں كو خلافت كے لحاظ سے آپ پر سبقت حاصل ہے ليكن دين ميں وہ آپ پر برترى حاصل نہ كر

 

108

سكے ... انھيں آپ كى ضرورت تھى ليكن آپ ان سب سے بے نياز رہے '' 2 _ (9) خزيمہ بن ثابت نے اس موقعے پر كہا : يا اميرالمومنين ہمارى نظر ميں آپ كے علاوہ كوئي ايسا نہيں جس كے ہاتھوں ميں اپنے معاملات كى لگام دے سكيں ...

ايمان ميں آپ كو سب پر برترى حاصل ہے خدا شناسى مےں آپ عارف كامل ہيں اور رسول خدا(ص) كے مقامات و مراتب كے سب سے زيادہ حق دار آپ ہى ہيں دوسروں ميں جو خصوصيات پائي جاتى ہيں وہ آپ ميں بھى موجود ہيں ليكن جو فضائل و كمالات آپ كى ذات ميں ہيں ان سے وہ محروم ہيں (10)

3 _ صعصعہ بن صوحان نے كہا : يا اميرالمو منين مقام خلافت نے آپ كى ذات كے ذريعے بنت و رونق پائي ،خلافت كو آپ كى ضرورت ہے اور آپكو اس كى ضرورت قطعى نہيں _ (11)

قريش كى وحشت و پريشاني

قريش اور حق سے روگرداں وہ تمام لوگ جنہوں نے عثمان كے عہد ميں حكومت مےں خاص مراعات حاصل كر لى تھيں حضرت على (ع) كے دورخلافت ميں بہت مضطرب و پريشان ہوئے چنانچہ ان كے لئے اس كے سوا كوئي چارہ كار نہ تھا كہ سرتسليم خم كرديں كيونكہ اب رائے عامہ اميرالمومنين حضرت علي(ع) كے ساتھ تھى اور وہ لوگ كسى ايسى راہ پر گامزن نہيں رہ سكتے تھے جو اسلامى معاشرے كے منافى ہو اسى لئے انہوں نے حضرت علي(ع) كے دست مبارك پر بيعت كر لى ليكن ان كے دلوں ميں كدورت ابھى تك باقى تھى جس كى وجہ يہ تھى كہ حضرت علي(ع) كى تلوار نے بہت سے مشركين قريش اور كفار كے سرتن سے جدا كئے تھے _

اس كے علاوہ وہ يہ بھى جانتے تھے كہ حضرت على (ع) كى حكمت علمى اس بات كو ہرگز برداشت نہيں كر سكتى كہ بيت المال كو غارت كيا جائے _

قريش كے دلوں ميں حضرت على (ع) كے خلاف جو كينہ و دشمنى كے جذبات تھے ان كے بارے

 

109

ميں ابن ابى الحديد لكھتا ہے : اگرچہ پيغمبر اكرم(ص) كى رحلت سے اس وقت تك كافى عرصہ گذر چكا تھا مگر قريش كے دلوں ميں ان (ع) كے خلاف اس قدر بغض و كينہ تھا كہ كسى طرح كم نہيں ہوتا تھا يہى نہيں بلكہ اس كينہ و عداوت كو انہوں نے اپنے بچوں تك كے ذھنوں پر نقش كر ديا _ (12)

گوشہ نشين لوگ

بعض لوگوں نے حضرت علي(ع) كے دست مبارك پر بيعت كرنے سے كنارہ كشى بھى كى _مسعودى نے انھيں قعاد ( زمين گير ) (13) اور ابوالفداء نے انھيں معتزلہ ( گوشہ نشين (14) ) كے عنوان سے ياد كيا ہے جب حضرت على (ع) سے ان كے بارے مےں سوال كيا گيا تو آپ نے فرمايا : يہ وہ لوگ ہيں جنھوں نے نہ حق كا ساتھ ديا اور نہ ہى باطل كى مدد كيلئے كھڑے ہوئے (15) ان لوگوں ميں سعد بن و قاص ' عبداللہ بن عمر ' حسان بن ثابت ' كعب بن مالك ' قدامہ بن فطعون ' مغيرہ بن شعبہ اور ديگر چند افراد شامل تھے _ (16)

يہ لوگ اپنے اس فعل كى توجيہ كے لئے بيجا عذر بہانے تراشتے تھے مثلا جب سعد قاص سے بيعت كے لئے كہا گيا تو انہوں نے جواب ديا كہ جب تك سب لوگ بيعت نہ كر ليں گے ميں بيعت نہيں كروں گا _ (17)

يہ لوگ تو اچھى طرح جانتے تھے كہ اميرالمومنين على (ع) حق پر ہيں اور حق بھى ان كے ساتھ ہے آپ كوہر اعتبار سے دوسروں پر فضيلت و برترى حاصل تھى ليكن ان كى نخوت اور جسمانى ہوا و ہوس نے انھيں حق سے دور كر ديا تھا چنانچہ اميرالمو منين حضرت علي(ع) نے ان كو ان كے حال پر چھوڑ ديا اور بيعت كيلئے مجبور نہ كيا البتہ ان ميں سے چند لوگ بالخصوص سعد بن و قاص اور عبداللہ بن عمر بعد ميں بہت پشيمان ہوئے _

 

110

حضرت علي(ع) كى بيعت كے امتيازات

حضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت روز جمعہ بتاريخ پچيس ذى الحجہ 35 ھ انجام پذير ہوئي اس كے بعض امتيازات ہم يہاں بيان كر رہے ہيں : _

1 _ حضرت على (ع) نے مستقبل كى حكومت كے استحكام كى خاطر لوگوں كو يہ موقعہ ديا كہ وہ آزاد انہ طور پر اپنا رہبر انتخاب كريں اور انہيں اتنى مہلت دى كہ وہ اس كے بارے ميں مكمل طور پر غور و فكر كرليں تاكہ پورے شعور كے ساتھ آيندہ كيلئے اپنے رہبر كا انتخاب كريں_

2_ اميرالمومنين حضرت على (ع) كى بيعت عمومى تھى اور ايك عوامى تجويز كے طور پر پيش كى گئي تھى اس كے برعكس گذشتہ خلفاء كے ہاتھ پر بيعت كا معاملہ عوامى تحريك پر مبنى نہ تھا بلكہ بقول عمر : ابوبكر كى بيعت كا اتفاقى واقعہ تھا جو ''اچانك'' كسى پيش بندى كے بغير حادثى طور پر رونما ہوا اور صرف دو افراد (عمر اور ابوعبيدہ) كى تجويز پر اس مسئلے كو پيش كيا گيا _

عمر كو بھى عوام كى تجويز پر خليفہ مقرر نہيں كيا گيا تھا بلكہ انہيں ابوبكر نے اس منصب پر مامور كيا تھا_ عثمان كو بھى عوام كى تجويز پر خليفہ منتخب نہيں كيا گيا تھا بلكہ چھ افراد پر مشتمل شورى ميں سے صرف دو افراد كى موافقت سے جسے خليفہ ثانى نے منتخب كيا يہ كام انجام پذير ہوا_(19)

3_ حضرت على (ع) كى بيعت كو لوگوں نے خود قبول كيا اور يہ كام اس وقت عمل پذير ہوا جب لوگوں نے پہلے سے اس مسئلے پر غور كرليا تھا جبكہ سابقہ خلفاء نے عوام كو غور و فكر كرنے كا موقع ہى نہيں ديا بلكہ ان كى سعى وكوشش يہ تھى كہ جس قدر جلد ممكن ہوسكے يہ كام ختم ہوتاكہ تاكہ خير كے باعث اس ميں موانع پيدا نہ ہوں_

4_ بيعت كے لئے جس جگہ كو مركز بنايا وہ مسجد تھى تاكہ تمام مسلمين اس ميں شركت كرسكيں اور اگر كسى كو كوئي اعتراض ہو تو اسے پيش كرے در حاليكہ گذشتہ خلفاء كى بيعت ميں اس خصوصيت كو مد نظر نہيں ركھا گيا_

5_ حضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے كسى كو مجبور نہيں كيا گيا چنانچہ جس

 

111

وقت عبداللہ بن عمر كى بيعت كا مسئلہ سامنے آيا اور انہوں نے بيعت كرنے سے انكار كرديا تو مالك اشتر نے اميرالمومنين (ع) حضرت على (ع) سے كہا تھا كہ اگر آپ اجازت ديں تو ان كى گردن تن سے جدا كردى جائے ، تو حضرت على (ع) نے ان كى اس تجويز كو صرف قبول ہى نہيں كيا بلكہ اپنى طرف سے يہ ضمانت بھى دى كہ عبداللہ بن عمر كو كوئي شخص تكليف و آزار نہ پہنچائے_ (20)

سوالات كے جوابات

جيسا كہ پہلے ذكر كيا جاچكا ہے اور نہج البلاغہ ميں مندرج اميرالمؤمنين حضرت على (ع) كے خطبات سے بھى اس حقيقت كى وضاحت ہوتى ہے اگرچہ لوگ آپ كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے مصر تھے مگر آپ نے اس كام كے آغاز سے ہى خود كو كسى بھى پيشقدمى سے باز ركھا _(21)

ممكن ہے يہ سوال پيش آئے كہ : حضرت على (ع) اس كے باوجود كہ خلافت كو اپنا حق سمجھتے تھے اور بر سرا قتدار آنے كے لئے شايستہ ترين انسان بھى تھے ، نيز عوام آپ كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے ہر طرف سے جمع ہوگئے تھے پھر عوام كے اصرار كے باوجود اميرالمومنين حضرت على (ع) نے شروع ہى سے منصب خلافت كو قبول كرنے سے كيوں منع فرمايا ؟

حضرت على (ع) كے لئے منصب خلافت قبول نہ كرنے كى وجہ يہ نہ تھى كہ وہ حكومت كى ذمہ داريوں نيز ان سے پيدا ہونے والى مشكلات كا مقابلہ كرنے كے لئے خود كو عاجز وناتوان سمجھتے تھے بلكہ اس كا اصل سبب يہ تھا كہ آپ (ع) اسلامى معاشرہ كى اجتماعى و معنوى كيفيت پر گہرى نظر ركھتے تھے اور اس كى بہت سى مشكلات آپ كے پيش نظر تھيں اس لئے آپ چاہتے تھے كہ لوگوں كا امتحان ليں تاكہ يہ اعلان ہوجائے كہ عوام آپ كى انقلابى روش كو برداشت كرنے كے لئے كس حد تك تيار ہيں اور ان كا جب مشكلات سے سامنا ہو تو وہ يہ نہ كہيں كہ اميرالمومنين على (ع) نے انہيں صحيح حالات سے بے خبر ركھا اور ان كے انقلابى جذبات نيز جوش و خروش سے فائدہ اٹھاليا_

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ آپ نے عوام سے كہا تھا كہ : آپ لوگ مجھے معاف ركھيں يہ ذمہ دارى

 

112

كسى دوسرے شخص كے سپرد كرديں كيونكہ جو مقصد ميرے پيش نظر ہے اس ميں اتنى زيادہ مشكلات ہيں كہ لوگوں ميں انہيں برداشت كرنے كى طاقت اور انسانى عقول ميں انہيں قبول كرنے كى تاب ہى نہيں _ عالم اسلام كے افق پر ظلم وبدعت كے سياہ بادل چھائے ہوئے ہيں اور اسلامى راہ و روش ميں تبديلى واقع ہوگئي ہے_ (22)

حضرت على (ع) نے كن مقاصد كے تحت حكومت قبول فرمائي_

اس ميں كوئي شك نہيں كہ وہ شخص جسے حضرت على (ع) (ع) كے كردار و اخلاق اور طرز زندگى كے بارے ميں ادنى سى واقفيت ہے اتنا تو جانتا ہى ہے كہ آپ جيسے بزرگوار شخص كى قطعى يہ آرزو تمنا نہ تھى كہ لوگوں پر حكومت كريں اور منصب خلافت قبول كرنے ميں ہرگز يہ مقصد كار فرما نہ تھا كہ مال ودولت ، جاہ و ثروت اور حكومت و اقتدار حاصل ہو_

آپ (ع) نے بھى گفتگو كے دوران كئي مرتبہ يہ بات لوگوں كے گوش گزار كردى تھى _ چنانچہ حضرت على (ع) اور ابن عباس كے درميان جو گفتگو ہوئي اس كا اقتباس يہاں پيش كياجارہا ہے:

ابن عباس كہتے ہيں بصرہ كے راستے ميں واقع ''ذى قار'' نامى منزل پر حضرت على (ع) سے ميرى ملاقات ہوئي آپ اپنا نعلين سى رہے تھے انہيں سيتے ہوئے آپ نے فرمايا كہ ان جوتيوں كى كيا قيمت ہوگي؟ ميں نے عرض كيا كہ : اب ان كى كيا قيمت رہ گئي اس پر آپ نے فرمايا :

واللہ لہى احب الى من امر بكم الا ان اقيم حقا او ادفع باطلا(23)

خدا كى قسم مجھے يہ نعلين تم پر حكومت كرنے سے كہيں زيادہ عزيز ہيں مگر يہ كہ حق كو قائم كروں اور باطل كا قلع قمع كردوں_

اور ايك جملے ميں تو آپ نے زمامدارى كو گندے پانى اور ايسے لقمے سے تشبيہ دى ہے جو گلے ميں پھنسا ہو _ چنانچہ فرماتے ہيں : ''ہذا ماء آجن ولقمہ يَفضَّ بہا اكلھا''(24)

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے خطبہ شقشقيہ كے آخر ميں اس مقصد كى وضاحت فرمائي ہے كہ

 

113

آپ نے زمامدارى كو كيوں قبول فرمايا: قسم ہے اس خدا ئے پاك كى جس نے دانے كو چاك كيا اور انسان كى تخليق كى اگر لوگ كثير تعداد ميں ميرے گرد جمع نہ ہوگئے ہوتے' ہم كاروں كى مدد سے حجت قائم نہ ہوگئي ہوتى اور اگر خداوند تعالى نے علماء سے يہ عہد و پيمان نہ ليا ہوتا كہ ظالموں كى شكم پرى اور مظلومين كى فاقہ كشى پر وہ خاموش نہ رہيں تو ميں خلافت كے شتر كى مہار كو اس كى كمر پر پھينك ديتا اور پہلے ہى جام ميں اسے آخرى جام كى طرح سيراب كرديتا_ (25)

حضرت على (ع) كے ان اقوال سے واضح ہے كہ آپ نے دو اہم بنيادوں پر زمام حكومت سنبھالى _ پہلى تو يہى كہ لوگ خود چل كر آپ (ع) كے پاس آئے اور يہ اعلان كيا كہ حكومت كى حمايت كريں گے اور دوسرى بنياد يہ تھى كہ آپ (ع) عدل وانصاف بر قرار كركے ظلم وستم كا سد باب كرنا چاہتے تھے_

ابتدائي اقدامات

جب آپ كو بيعت سے فرصت ملى تو آپ نے اعلان فرمايا كہ جن مقاصد كے تحت آپ نے حكومت كو قبول فرمايا ہے انہيں حقيقت كى شكل ديں گے_ حضرت على (ع) نے جو سياسى مسلك اور طريق كار اختيار كيا وہ كوئي ايسا اتفاقى امر نہ تھا جس كى تخليق اسى روز كى گئي ہو بلكہ يہ ايسے دستور العمل كا مجموعہ تھا جو رسول خدا (ص) كى راہ و روش سے حاصل كيا گيا تھا اور اس كا سرچشمہ وحى و قرآن تھے_

وہ كام جنہيں حضرت على (ع) كى نظر ميںاولويت حاصل تھى اور جنہيں فورا ہى انجام دينا چاہتے تھے وہ ان تين حصوں پر مشتمل تھے_

1)نيك اور صالح كاركنوں كا تقرر

2)برترى وامتيازى سلوك كى برطرفى اور سب كے لئے مساوى حقوق كى ضمانت

3)تاخت وتاراج كئے ہوئے مال كو واپس كرنا او ربيت المال كى عادلانہ تقسيم

 

114

نيك اور صالح كاركنوں كا تقرر

حضرت على (ع) نے اپنى حكومت كے ابتدائي دنوں ميں عثمان كے حكام اور كارندوں كو برطرف كرديا كيونكہ ظلم و ستم اور اسلامى قوانين نيز مردم سالارى كى سياست سے ان كى نا آشنائي ، عثمان كے خلاف قيام كرنے كے اہم اسباب ميں ايك سبب تھا_

مغيرہ بن شعبہ نے حضرت على (ع) سے گفتگو كرتے ہوئے يہ تجويز پيش كى پہلے حكام كو ان كے مناصب پر بحال و برقرار ركھاجائے ليكن حضرت على (ع) نے انكى اس تجويز كو منظور نہ كيا اور فرمايا كہ خدا كى قسم ميں اپنے دينى فرائض كى انجام دہى ميں سستى نہ كروں گا_(26)

جن محركات كے تحت حضرت على (ع) نے يہ اقدامات كئے ان كے بارے ميں آپ دوسرى جگہ فرماتے ہيں : ميں اس بات سے غمگين واندوہناك ہوں كہ اس امت كى حكومت كے سرپرست بے خبر اور ناكارہ لوگ ہوں وہ بيت المال كو تباہ كريں ، بندگان خدا كو آزادى سے محروم كركے انہيں اپنا غلام بناليں ، نيك و صالح لوگوں سے جنگ كريں اور فاسق و فاجر لوگوں كو اپنا يار ومددگار بنائيں_

اس جماعت ميں كچھ لوگ ايسے ہيں جو شراب پيتے ہيں اور ان پر حد جارى كى جاچكى ہے ، انہيں ميں ايسے لوگ بھى ہيں جنہوں نے اسلام اس وقت تك قبول نہيں كيا جب تك ان كے لئے كوئي عطيہ مقرر نہيں كيا گيا _(27) حضرت على (ع) نے عثمان كے مقرر كردہ حكام كو برطرف كركے ان كى جگہ نيك وصالح اور دور انديش لوگوں كو مختلف صوبوں كى حكومتوں پر مقرر كيا اس زمانے ميں بصرہ ، مصر اور شام كاشمار اسلامى قلمرو كے عظيم صوبوں ميں ہوتا تھا _ چنانچہ آپ نے عثمان بن حنيف كو بصرہ كا ،سہل بن حنيف كو شام كا اور قيس بن سعد كو مصر كا صوبہ دار مقرر فرماكر ان مناصب سے سرفراز فرمايا_ والى كوفہ ابوموسى اشعرى كو مالك اشتر كے اصرار پر انكے عہدے پر بحال ركھا_(28)

 

115

معاويہ كى برطرفي

جيسا كہ اوپر بيان كياجاچكا ہے كہ عثمان كے حكام و عمّال كو برطرف كرنے كا مقصد يہ تھا كہ حضرت على (ع) چاہتے تھے كہ تباہى و فساد كارى كے خلاف محاذ قائم كركے اجتماعى عدل و انصاف كى بنيادوں كو محكم واستوار كريں اور آپ (ع) چونكہ معاويہ كے نظر و فكر وكاركردگى سے بخوبى واقف تھے اسى لئے انہوں نے اس بات كى مخالفت كى كہ وہ حكومت كے كسى منصب پر برقرار رہے اگر چہ ان (ع) كے چچا زاد بھائي ابن عباس نے معاويہ كى سفارش بھى كى كہ انہيں مختصر عرصے كے لئے ہى سہى اس كے عہدے پر بحال ركھا جائے ليكن حضرت على (ع) نے اس سفارش كو بھى قبول نہيں فرمايا_

جب مغيرہ كى يہ كار گرنہ ہوئي كہ سابقہ حكام كو ان كے عہدوں پر بحال ركھا جائے تو انہوں نے حضرت على (ع) سے كہا كہ معاويہ كو شام كى صوبہ دارى سے معزول نہ كيجئے كيونكہ وہ گستاخ ہے اور شام كے لوگوں اسى كے مطيع و فرمانبردار ہيں عمر نے اسے چونكہ شام كا گورنر مقرر كيا تھا لہذا آپ كے پاس بہانہ ہے _ اس پر حضرت على (ع) نے فرمايا : خدا كى قسم ميں اسے دو روز بھى كسى عہدے پر بحال نہ ركھوں گا (29) جس وقت عباس كو مغيرہ كى تجويز كے بارے مےں اطلاع ہوئي تو انہوں نے بھى اميرلمومنين على (ع) كى خدمت ميں يہى عرض كى كہ مجھے اس بات سے اتفاق نہيں كہ فى الحال آپ معاويہ كو اس كے منصب سے معزول كريں جس وقت وہ آپ كے دست مبارك پر بيعت كريں گے اور آپ كاكام استحكام پذير ہو جائے اس كے بعد آپ اسے برطرف كيجئے اس پر حضرت علي(ع) نے فرمايا : خدا كى قسم ' تلوار كے علاوہ ميں اسے كوئي اور چيز نہ دوں گا _ (30)

حضرت على (ع) نے جو يہ روش اختيار كى اس كے بارے ميں ان چند نكات كا بيان كردينا ضرورى ہے _

اميرالمومنين حضرت علي(ع) بخوبى واقف تھے كہ معاويہ كسى بھى صورت ميں ان كے دست مبارك پر ہرگز بيعت نہ كرے گا اور آپ كا حكم نہ مانے گا كيونكہ جذبہ اقتدار پسندى و زراندوزى كے علاوہ قبائلى تعصب اور وہ ديرينہ دشمنى جو اس كے دل ميں حضرت على (ع) كے خلاف تھى اس راہ ميں

 

116

مانع و حائل تھى كہ وہ حضرت علي(ع) كى حكومت كے نمايندے كى حيثيت سے كوئي خدمت انجام دے اور امر واقعى يہ ہے كہ حضرت على (ع) اور معاويہ كے جذبہ كار گردگى و مقاصد كے درميان متضاد تطبيق كا فاصلہ تھا اور اسى كے باعث دونوں كے مابين باہمى تعاون كا امكان نہ تھا _

اگر حضرت على (ع) نے كوئي ايسا فرمان جارى كر ديا ہوتا جس سے اس بات كى تائيد ہوتى كہ وہ شام كى صوبہ دارى پر بحال رہے تو اس بات كا امكان تھا كہ معاويہ اس فرمان كا فائدہ اٹھا كر اسے اپنى فرمانروائي كا پروانہ تصور كرتا ہے اور اس طرح اسے شام ميں پہلے سے كہيں زيادہ قدم جمانے كا موقع مل جاتا _

معاويہ جيسے استبداد پسند عمال اور ديگر مفسد كارندوں كى عملہ خلافت مےں موجودگى ايسے عوامل تھے جن كے باعث مسلمين كے درميان رنجش پيدا ہوئي اور انہوں نے عثمان كے خلاف بغاوت كر دى اميرالمومنين حضرت على (ع) كى حكومت چونكہ حقوق سے محروم و ستمديدہ طبقات كى پناہگاہ تھى اسى لئے اگر اس ميں معاويہ جيسے لوگ بر سر اقتدار رہتے تو اس بات كا امكان تھا كہ عوام ميں دربارہ غم و غصہ پيدا ہو جائے اور وہ اكثريت جو حضرت علي(ع) كى طرفدار تھى اسے اميرالمومنين(ع) كى ذات اور اس حكومت سے جس كى آيندہ تشكيل كرتے مايوسى ہوتى چنانچہ ان كے اور اس اقليت كى درميان جو حضرت علي(ع) كى شخصيت كو بہر حال حجت تسليم كرتے تھى اختلاف پيدا ہو جاتا _

مذكورہ بالا دلائل نيز پيغمبر اسلام(ص) سے منقول يہ روايت كہ فرزندان اميہ پر حكومت حرام ہے ايسے عوامل تھے جن كے باعث حضرت علي(ع) نے معاويہ كو خط لكھ كر مطلع كيا كہ اسے اس عہدے سے برطرف كر كے اس كى جگہ سہل بن حنيف كو شام كا صوبہ دار مقرر كيا جاتا ہے _ (31)

مساوى حقوق كى ضمانت

جيسا كہ ہم جانتے ہيں كہ اسلام نے دور جاہليت كے امتيازى سلوك كو قطعى طور پر باطل قرار ديا ہے مگر پيغمبر اكرم(ص) كى رحلت كے بعد عہد جاہليت كى اس رسم كا بتدريج رواج ہونے لگا اور عثمان

 

117

كے زمانہ خلافت ميں اسے مزيد فروغ ملا _

حضرت على (ع) نے زمام حكومت اپنے اختيار ميں لينے كے بعد عہد جاہليت كے تمام امتيازى سلوك كو يكسرہ ختم كر ديا اور اس بات كى ضمانت دى كہ تمام مسلمانوں كے حقوق مساوى و يكساں ہيں چنانچہ اس بارے مےں خود فرماتے ہےں ذليل ( مظلوم و ستمديدہ) اس وقت تك ميرے نزديك عزيز وار جمند ہے جب تك اس كے حق كو ظالم سے نہ لے لوں اور زور مند (ظالم و ستمگر) اس وقت تك ميرے نزديك برا اور ناتواں ہے جب تك مظلوم كا حق اس سے حاصل نہ كر لوں (32) _

لوٹے ہوئے مال كى واپسي

حضرت علي(ع) نے مالى امور ميں بھى واضح و روشن راستہ اختيار كيا اس سلسلے مےں آپ(ع) كے سامنے دو اہم مسئلے تھے پہلا تو يہى كہ عثمان كى خلافت كى زمانہ ميں ايك مخصوص گروہ نے بہت دولت جمع كى تھى دوسرا مسئلہ بيت المال كى تقسيم تھا _

حضرت على (ع) نے آغاز خلافت ميں جو خطبات ديئے ان مےں اپنى آيندہ كى راہ و روش كو واضح و روشن كر ديا ہے چنانچہ ايك خطبے ميں فرماتے ہيں وہ اراضى جو عثمان نے مخصوص افراد كو ديدى ہے اور وہ ثروت جو اس (عثمان) نے اپنے قرابت داروں ميں تقسيم كر دى ہے اسے بيت المال ميں واپس لا كر جمع كريں گے _ اس كے ساتھ ہى آپ نے عوام كو يہ يقين دلايا كہ بيت المال كى تقسيم ميں مساوات سے كام لينگے _

اميرالمومنين حضرت علي(ع) نے اپنے خطبے كے ايك حصے ميں يہ بھى فرمايا تھا كہ :

ميں بھى تم ميں سے ايك فرد ہوں اور اور سود و زياں ميں تمہارے ساتھ شريك ہوں ميں تمہارى رہبرى سيرت محمدي(ص) كے مطابق كرنا چاھتا ہوں اور آپ(ص) كے احكامات كو تم لوگوں كے درميان نافذ و جارى كروں گا ياد ركھو ہر وہ جاگير جو عثمان نے كسى كو دى اور جو بھى مال عوامى ملكيت

 

118

ميں سے كسى كو بخشا تھا وہ واپس بيت المال ميں لايا جائے گا اس مےں خواہ وہ رقم شامل ہو جس سے خواتين كو مہر ادا كيا گيا ہو اور خواہ اس سے كنيزيں خريديں گئيں ہوں كيونكہ عدالت كا دروازہ وسيع ہے اور جس پر عدل و انصاف تنگ ہو گيا ہو اس پر جور و ستم كا ميدان اس سے كہيں زيادہ تنگ كر ديا جائے گا _ (33)

اپنے دوسرے خطبے ميں آپ(ع) نے فرمايا تھا كہ '' ... لوگو ياد ركھو تم مےں سے جس كو دنيا نے نگل ليا ہے اور جنہوں نے املاك و كاشت كى زمين جمع كر لى ہے جن ميں انہوں نے نہريں جارى كر دى ہيں ' سوارى كيلئے تيز رفتار گھوڑے حاصل كر لئے ہيں اور اپنے لئے خوبصورت كنيزيں خريد كر ليں ہيں انہوں نے اپنے اس رنگ و ڈھنگ سے رسوائي و بدنامى مول لى ہے انھيں ميں اس لہو لعب سے جس ميں وہ غوطہ زن ہيں اگر نجات دلانا چاہوں اور تسليم شدہ حق كے كنارے پر انھيں لانا چاہتا ہوں تو وہ ميرے اس عمل پر غضبناك نہ ہوں اور يہ نہ كہيں كہ ابى طالب كے فرزند نے ہميں ہمارے حقوق سے محروم كر ديا ہے ...''

تم سب ہى بندگان خدا ہو اور بيت المال بھى خدا كا ہى مال ہے يہ تم ميں مساوى طور پر تقسيم كيا جائے گا ...

اس كے بعد آپ نے فرمايا كہ ميرے پاس بيت المال كا كچھ حصہ موجود ہے تم سب ميرے پاس آكر اپنا حصہ لے لو چاہے عرب ہو يا عجم ' وظيفہ دار ہو يا غير وظيفہ دار_(34)

اس طرح حضرت على (ع) نے نہايت تيزى كے ساتھ قطعى طور پر ناروا عصبيت اور امتيازات كا خاتمہ كر ديا _

حضرت على (ع) نے اپنے ايك اقدام سے اس جماعت كے اثر و رسوخ كا قلع قمع كر ديا جو عثمان كى خلافت كے دوران ابھرى تھى عثمان نے انھيں كثير مال و دولت اور جاگير سے نواز تھا حضرت علي(ع) نے اس مال و جاگير كو بيت المال ميں جمع كر ديا _ (35)

 

119

بدعنوانيوں ميں ملوث دولتمندوں كى رخنہ اندازي

بيت المال كى مساويانہ تقسيم كے باعث محرومين اور مستضعفين كو جس قدر خوشى و مسرت ہوئي اتنا ہى صدمہ ان چند مغرور افراد كو پہنچا جنہيں جاہ طلبى كى ہوا و ہوس تھى _ انہيں چند سال ميں چونكہ جو رو ستم كركے كئي گنا زيادہ تنخواہيں نيز وظائف لينے كى عادت ہوگئي تھى اس لئے حضرت على (ع) كى مساويانہ روش تقسيم مال سے جب وہ دچار ہوئے تو انہيں سخت پريشانى ہوئي_

ايك روز وليد بن عقبہ اس جماعت كے نمايندے كى حيثيت سے حضرت على (ع) كے پاس آيا اور كہنے لگا كہ اے ابوالحسن اگر چہ ہم (بنى عبد مناف) بھى آپ كے بھائيوں ميں سے اور آپ جيسے ہى ہيں ليكن آپ نے تو ہم پر ظلم وستم ہى بپا كرديا ہم اس شرط پر آپ كى بيعت كرنے كو تيار ہيں كہ وہ مال و متاع جو ہم نے عثمان كے عہد خلافت ميں جمع كيا ہے وہ آپ ہم سے واپس نہ ليں اور ان كے قاتلوں كو ہلاك كرديں ليكن ہمارے مفادات كو كوئي خطرہ ہوا اور آپ كے رويے سے ہم خوفزدہ ہوئے تو ہم آپ سے عليحدہ ہو كر شام كى جانب كوچ كرجائيںگے_

يہ سن كر حضرت على (ع) نے فرمايا كہ : تم جو يہ كہہ رہے ہو كہ ميں نے ظلم وستم كيا ہے (اور ميرے اس اقدام كو ظلم وستم سے تعبير كياجاسكتا ہے ) تو يہ ظلم حق و انصاف كى جانب سے ہوا ہے اور يہ كہ وہ مال جو تمہارے پاس ہے اسے ميں نظر انداز كردوں تو ميں ايسا نہيں كرسكتا كيونكہ حق خدا كو پائمال ہوتے ہوئے ديكھ كر ميں چشم پوشى نہيں كرسكتا اب يہ مال خواہ تمہارے چنگل ميں ہو يا كسى اور شخص كے_(36)

جب اس جماعت كے سردار كو يقين ہوگيا كہ وہ گفتگو يا دھمكى كے ذريعے اپنا مدعى حاصل نہيں كرسكتے تو انہوں نے اپنى پورى قوت سے حضرت على (ع) كى قائم كردہ نو بنياد حكومت كى بيخ كنى شروع كردى اور اس كے خلاف بر سر پيكار ہوگئے_

اس بارے ميں عمرو بن عاص نے معاويہ كو لكھا تھا كہ جو بھى فيصلہ كيا ہے اس پر جلد ہى عمل كيجئے كيونكہ جس طرح لكڑى كے اوپر سے چھال اتارلى جاتى ہے ابى طالب كا فرزند اسى طرح اس مال و دولت كو جوتمہارے پاس ہے ، تمہارے تن سے اتروائے گا_

 

120

سوالات

1_ حضرت على (ع) كے دست مبارك پر عوام نے كس طرح بيعت كى مختصر طور پر وضاحت كيجئے؟

2_ كيا كچھ لوگوں نے حضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت كرنے سے كنارہ كشى كي؟ اگر ايسا كيا تو كيوں؟

3_ جب عوام نے حضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت كى تو قريش كيوں مضطرب وپريشان ہوئے؟

4_ حضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت كرنے كى خصوصيات بيان كيجئے؟

5_ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے ابتداء ميں لوگوں كے اصرار كے باوجود كيوں خلافت كى زمامدارى قبول كرنے سے مثبت جواب نہيں ديا؟

6_ جب حضرت على (ع) نے خلافت كى زمامدارى قبول فرمائي تو آپ كى نظر ميں كون سے كام مقدم اور فورى انجام دينے كے تھے؟

7_ عثمان كے عہد سے وابستہ حكام كو معزول يا بحال ركھے جانے كے كيا اسباب تھے ، اس كے بارے ميں حضرت على (ع) كے نظريات بيان كيجئے؟

8_ حضرت على (ع) كى مالى روش سے مال اندوز لوگ كيوں غضبناك ہوئے اس كا سدباب كرنے كےلئے انہوں نے كيا اقدام كيا ؟

 

121

حوالہ جات

1_ لا حاجة لى فى امركم فمن اخترتم رضيت بہ

2_ كامل ابن اثير ج /1903 تاريخ طبرى ج 4/ 427 تاريخ ابى الفداء ج 1 /17

3_ لا تفعلوا فانى اكون وزيراً خيرا من ان اكون اميراً

4_ كامل ابن اثير ج 3/ 190، انساب الاشراف بلاذرى ج 2/ 209 ، تاريخ ابى الفداء ج 1/ 171

5_ نہج البلاغہ خ شقشقيہ (خ 3)

6_ فما راعنى الا والناس كعرف الضبع الى ينشا لون علَّى من كل جانب حتى لقد وطى الحسنان و شق عطفاى مجتمعين حولى كربيضة الغنم

7_ تاريخ طبرى ج 4/ 428 كامل ابن اثير ج 3/ 193

8_ تاريخ طبرى ج 4/ 428 كامل ابن اثير ج 3/193

9_ نہج البلاغہ خ 229

وبلغ سرور الناس ببيعتہم اياى ان ابتہج بہا الصغير و ہدج اليہا الكبير وكامل نحوہا العليل وحسرت اليہا الكعاب

10_ تاريخ يعقوبى ج2/ 179

11_ تاريخ يعقوبى ج 2/ 179

12_ تاريخ يعقوبى ج 2/ 179

13_ شرح ابن ابى الحديد ج 11/ 114

14_ مروج الذہب ج 2/ 353

15_ تاريخ ابى الفداء ج 1/ 171

16 _ استيعاب ج 3/ 55 ''اولئك قوم قعدوا عن الحق ولم يقوموا مع الباطل''

17_ مروج الذہب ج 2/ 353

18_ تاريخ ابى الفداء ج1/171 ، الانساب الاشراف بلاذرى ج 2/ 207

 

122

19_ عثمان خود بھى مذكورہ شورى كے ركن تھے اور انہوں نے خود بھى اپنى خلافت كے حق ميں رائے دى _

20_انساب الاشراف بلاذرى ج 2/ 207، تاريخ طبرى ج 4/ 428

21_ ملاحظہ ہو خطبات 229، 137

22_ نہج البلاغہ خ 92

دعونى والتمسوا غيرى فانا مستقبلون امراً لہ وجوہ والوان لا تقوم لہ القلوب ولا تثبت عليہ العقول وان الافاق قداغاقت والمحجة تنكرت

23_ نہج البلاغہ خ 33

24_ نہج البلاغہ خ 5

25_ نہج البلاغہ خ 3

اما والذى فلق الحبة وبرى النسمة لولا حضور الحاضر وقيام الحجة بوجود الناصر وما اخذ اللہ على العلماء ان يقاروا على كظة ظالم و لا سغب المظلوم لا لقيت حبلہا على غاربہا و لسقيت آخرہا بكا س اولہا_

26_ واللہ لا اداہن فى دينى _ مروج الذہب ج 2/ 355_ 354، كامل ابن اثير ج 3/ 197 _ تاريخ طبرى ج 4 / 440

27_ نہج البلاغہ مكتوب 62

28_ تاريخ يعقوبى ج 2 / 179

29_ لا واللہ لا استعمل معاوية يومين ابداً كامل ابن اثير ج 3/ 197 ، مروج الذہب ج 2/ 256 ، تاريخ طبرى ج 4/ 441

30_ لا واللہ لا اعطيہ الا السيف ، كامل ابن اثير ج 3/ 197 تاريخ طبرى ج 4/ 444

31_ مذكورہ خط كا متن ان كتابوں ميں ملاحظہ ہو : شرح ابن ابى الحديد ج 1/ 230 تاريخ التواريخ ج 1/ 38 ، انساب الاشراف بلاذرى ج 2/ 211 درسيرہ ائمہ اثنى عشرى ج 1/ 442

32_ الذليل عندى عزيز حتى آخذ الحق لہ ، والقوى عندى ضعيف حتى آخذ الحق منہ _

 

123

نہج البلاغہ خ 37

33_ ثورة الحسين (ع) للمہدى شمس الدين 57، شرح ابن ابى الحديد ج 1/ 269 ، نہج البلاغہ خ 15 ( يہ قول مختصر ترميم كے ساتھ نقل كيا گيا ہے)

34_ شرح ابن ابى الحديد ج 7/ 37

35_ اس واقعے كى تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو مروج الذہب ج 2/ 253 ، شرح نہج البلاغہ خوئي ج 3 / 215

شرح ابن ابى الحديد ج 1/ 270 فى ظلال نہج البلاغہ ج 1/ 130 ، شرح نہج البلاغہ بحرانى ج 1/ 29 اور سيرہ الائمہ مصنفہ علامہ سيد محسن امين ج 1/ جزء دوم /11

36_ شرح ابن ابى الحديد ج 7/ 39_ 38

37_ ''ماكنت صانعاً فاصنع اذ قشرك ابن ابى طالب من كل مال تملكہ كما تقشر عن العصا لحاہا '' شرح ابن ابى الحديد ج 1/ 270 ، شرح نہج البلاغہ خوئي ج 3/ 215 ، الغدير ج 7/ 288

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(سوم)
اچھي عبادت سے خدا خوش ہوتا ہے
نبوت کي نشانياں
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
عام الحزن
دعوت اسلام کا آغاز
کاتبان وحی
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(اول)
خلافت ظاہرى سے شہادت تك 3
حضرت امام حسين عليہ السلام اور اسلامي حکومت

 
user comment